ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭دلیل نمبر۵:کان القرشیون یستملحون ماشائُ وْا ویصطفون ما راق لہم من الفاظ الوفود العربیۃ القادمۃ إلیہم من کل صوب وحدب ثم یصقلونہ ویہذبونہ ویدخلونہ فی دائرۃ لغتہم المرِنۃ التی اذغن جمیع العرب لہا بالزعامۃ وعقدوا لہا رایۃ الامامۃ وعلیٰ ہذہ السیاسیۃ الرشیدۃ نزل القرآن علی سبعۃ أحرف یصطفیٰ ماشاء من لغات القبائل العربیۃ علی نمط سیاسۃ القرشیین بل أوفق،ومن ہنا صحّ أن یقال أنہ نزل بلغۃ قریش لأن لغات العرب جمعاء تمثَّلت فی لسان القرشیین بہذا المعنی (مناہل العرفان:۱؍۱۳۹،۱۴۰)
’’قریش کے لوگ موسمِ حج اورعرب کے بازاروں میں نشیب وفراز سے آنے والے وفود عرب کے الفاظ میں سے جن الفاظ کو ملیح ولطیف سمجھتے ان کاچناؤ کر لیتے تھے اور پھر مزید تنقیح وتہذیب کے بعد انہیں اپنی اس مسلَّمہ متفقہ ٹکسالی لغت کے دائرہ میں شامل کر لیتے جس کی مقتدائیت سب عر ب کے یہاں مسلَّم تھی ، اسی سیاست راشدہ کے موافق قرآن کریم سبعہ احرف پر نازل ہوا، قرآن نے قریشیوں کی سیاست کے اندازے سے کہیں اونچے معیار پر قبائل عرب کی لغات میں سے جو لغات چاہیں منتخب کر لیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناء پر یہ کہنا یقینا صواب وحق ہے کہ ’’قرآن لغت قریش پر نازل ہوا ہے‘‘ کیونکہ اس نکتے کی روشنی میں کل عرب کی سب لغتیں قریشیوں کی ایک ہی لغت میں متشخص ومجتمع ہو گئی تھی۔ ‘‘
٭دلیل نمبر۶:ولا یغیبن عن بالک أن ہذہ اللغات کلہا تمثّلت فی لغۃ قریش باعبتار أن لغۃ قریش کانت المتزعمۃ لہا والمہیمنۃ علیہا ولآخذۃ منہا ما تشاء مما یحلولہا ویرِقّ فی ذوقہا ثم یأخذہ الجمیع عنہا حتی صح أن یعتبر لسان قریش ہو اللسان العربی العام وبہ نزل القرآن (مناہل العرفان:۱؍۱۷۴)
’’اس بات سے آپ کی توجہ ہر گزنہ ہٹنے يپائے کہ لغت قریش جملہ لغات عرب کی قائد ومحافظ تھی، دوسری لغات کے جن الفاظ میں اہل قریش مٹھاس پاتے اور ان کے ذوق میں وہ الفاظ لطیف وفصیح ہوتے اولا قریش انہیں اخذ کرتے اور پھر ان کی اقتداء میں باقی سب لوگ بھی انہیں اپنے استعمال میں لانے لگتے تھے، اس اعتبار سے لغت قریش میں ان سب لغات کا تشخص موجود ہے اور اس بناء پر یہ کہنا درست ہے کہ ’’لسانِ قریش ہی عمومی لسانِ عربی ہے اور اسی میں قرآن نازل ہوا ہے۔‘‘
’’قریش کے لوگ موسمِ حج اورعرب کے بازاروں میں نشیب وفراز سے آنے والے وفود عرب کے الفاظ میں سے جن الفاظ کو ملیح ولطیف سمجھتے ان کاچناؤ کر لیتے تھے اور پھر مزید تنقیح وتہذیب کے بعد انہیں اپنی اس مسلَّمہ متفقہ ٹکسالی لغت کے دائرہ میں شامل کر لیتے جس کی مقتدائیت سب عر ب کے یہاں مسلَّم تھی ، اسی سیاست راشدہ کے موافق قرآن کریم سبعہ احرف پر نازل ہوا، قرآن نے قریشیوں کی سیاست کے اندازے سے کہیں اونچے معیار پر قبائل عرب کی لغات میں سے جو لغات چاہیں منتخب کر لیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناء پر یہ کہنا یقینا صواب وحق ہے کہ ’’قرآن لغت قریش پر نازل ہوا ہے‘‘ کیونکہ اس نکتے کی روشنی میں کل عرب کی سب لغتیں قریشیوں کی ایک ہی لغت میں متشخص ومجتمع ہو گئی تھی۔ ‘‘
٭دلیل نمبر۶:ولا یغیبن عن بالک أن ہذہ اللغات کلہا تمثّلت فی لغۃ قریش باعبتار أن لغۃ قریش کانت المتزعمۃ لہا والمہیمنۃ علیہا ولآخذۃ منہا ما تشاء مما یحلولہا ویرِقّ فی ذوقہا ثم یأخذہ الجمیع عنہا حتی صح أن یعتبر لسان قریش ہو اللسان العربی العام وبہ نزل القرآن (مناہل العرفان:۱؍۱۷۴)
’’اس بات سے آپ کی توجہ ہر گزنہ ہٹنے يپائے کہ لغت قریش جملہ لغات عرب کی قائد ومحافظ تھی، دوسری لغات کے جن الفاظ میں اہل قریش مٹھاس پاتے اور ان کے ذوق میں وہ الفاظ لطیف وفصیح ہوتے اولا قریش انہیں اخذ کرتے اور پھر ان کی اقتداء میں باقی سب لوگ بھی انہیں اپنے استعمال میں لانے لگتے تھے، اس اعتبار سے لغت قریش میں ان سب لغات کا تشخص موجود ہے اور اس بناء پر یہ کہنا درست ہے کہ ’’لسانِ قریش ہی عمومی لسانِ عربی ہے اور اسی میں قرآن نازل ہوا ہے۔‘‘