• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعات صحیح ثابت ہیں ؟

khalil

رکن
شمولیت
اپریل 18، 2016
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
57
کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعات صحیح ثابت ہیں ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعات صحیح ثابت ہیں ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
پہلے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق چند معلومات پیش ہیں ، اگر وقت ملا تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق عرض کردوں گا ، ان شاء اللہ تعالیٰ
عمر فاروق اعظم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

نام ونسب اورخاندان
عمر نام،ابوحفص کنیت، فاروق لقب،والد کانام خطاب اوروالدہ کانام ختمہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے:"عمر بن الخطاب بن نُفيل بن عبد العُزَّى بن رياح بن عبد الله بن قُرط بن رَزَاح بن عَدي بن كَعب بن لُؤي"
( الذهبي: التهذيب ج 3 ق 177/أ، وانظر نسبه في: طبقات خليفة ص 22، وطبقات ابن سعد 3/265 )
عدی کے دوسرے بھائی مرہ تھے جو رسول اللہ ﷺکے اجداد میں سے ہیں، اسلحاظ سے حضرت عمر کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اللہ ﷺسے جاکر مل جاتا ہے۔
ــــــــــــــــ
سیدنا واقعہ فیل کے تیرہ(13) سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ،( الذهبي: التهذيب ج3 ق 177/أ، خليفة: التاريخ ص 153، وابن عبد البر: الاستيعاب 3/1145، والسيوطي: تاريخ الخلفاء 108)
ـــــــــــــــــــــ
اسلام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
امام بخاریؒ نے کتاب المناقب میں " اسلام عمر " کے عنوان کے تحت حدیث لائے ہیں کہ :
عن عبد الله بن عمر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ما سمعت عمر لشيء قط يقول:‏‏‏‏ "إني لاظنه كذا إلا كان كما يظن بينما عمر جالس إذ مر به رجل جميل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ لقد اخطا ظني،‏‏‏‏ او إن هذا على دينه في الجاهلية،‏‏‏‏ او لقد كان كاهنهم علي الرجل فدعي له، ‏‏‏‏‏‏فقال له:‏‏‏‏ ذلك، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ما رايت كاليوم استقبل به رجل مسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فإني اعزم عليك إلا ما اخبرتني، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كنت كاهنهم في الجاهلية، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فما اعجب ما جاءتك به جنيتك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ بينما انا يوما في السوق جاءتني اعرف فيها الفزع، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ الم تر الجن وإبلاسها وياسها من بعد إنكاسها ولحوقها بالقلاص واحلاسها، ‏‏‏‏‏‏قال عمر:‏‏‏‏ صدق بينما انا نائم عند آلهتهم إذ جاء رجل بعجل،‏‏‏‏ فذبحه فصرخ به صارخ لم اسمع صارخا قط اشد صوتا منه، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ يا جليح امر نجيح رجل فصيح، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ لا إله إلا الله،‏‏‏‏ فوثب القوم، ‏‏‏‏‏‏قلت:‏‏‏‏ لا ابرح حتى اعلم ما وراء هذا،‏‏‏‏ ثم نادى يا جليح امر نجيح رجل فصيح يقول:‏‏‏‏ لا إله إلا الله،‏‏‏‏ فقمت فما نشبنا ان قيل:‏‏‏‏ هذا نبي".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب بھی عمر رضی اللہ عنہ نے کسی چیز کے متعلق کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس طرح ہے تو وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کرتے تھے۔ ایک دن وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا۔ انہوں نے کہا یا تو میرا گمان غلط ہے یا یہ شخص اپنے جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے۔ اس شخص کو میرے پاس بلاؤ۔ وہ شخص بلایا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے بھی یہی بات دہرائی۔ اس پر اس نے کہا میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن میں تمہارے لیے ضروری قرار دیتا ہوں کہ تم مجھے اس سلسلے میں بتاؤ۔ اس نے اقرار کیا کہ زمانہ جاہلیت میں، میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا غیب کی جو خبریں تمہاری جنیہ تمہارے پاس لاتی تھی، اس کی سب سے حیرت انگیز کوئی بات سناؤ؟ شخص مذکور نے کہا کہ ایک دن میں بازار میں تھا کہ جنیہ میرے پاس آئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے، پھر اس نے کہا جنوں کے متعلق تمہیں معلوم نہیں۔ جب سے انہیں آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے وہ کس درجہ ڈرے ہوئے ہیں، مایوس ہو رہے ہیں اور اونٹنیوں کے پالان کی کملیوں سے مل گئے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ ایک مرتبہ میں بھی ان دنوں بتوں کے قریب سویا ہوا تھا۔ ایک شخص ایک بچھڑا لایا اور اس نے بت پر اسے ذبح کر دیا اس کے اندر سے اس قدر زور کی آواز نکلی کہ میں نے ایسی شدید چیخ کبھی نہیں سنی تھی۔ اس نے کہا: اے دشمن! ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد مل جائے ایک فصیح خوش بیان شخص یوں کہتا ہے لا الہٰ الا اللہ یہ سنتے ہی تمام لوگ (جو وہاں موجود تھے) چونک پڑے (چل دئیے) میں نے کہا میں تو نہیں جانے کا، دیکھو اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ پھر یہی آواز آئی ارے دشمن تجھ کو ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد بر آئے ایک فصیح شخص یوں کہہ رہا ہے لا الہٰ الا اللہ۔ اس وقت میں کھڑا ہوا اور ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ لوگ کہنے لگے یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔
(صحیح بخاری 3866 )
ـــــــــــــــ
ایک ضعیف روایت کے مطابق جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے؛
ہاں یہ بات صحیح روایت سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے اسلام لانے کے لئے دعا کی تھی۔ چنانچہ امام ترمذیؒ نے جناب ابن عمر سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «اللهم أعز الإسلام بأحب هذين الرجلين إليك بأبي جهل أو بعمر بن الخطاب» قال: وكان أحبهما إليه عمر: «هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث ابن عمر»
سنن الترمذی 3681 وقال الالبانی صحيح ،ومسند احمد 5696 ،فضائل صحابہ 312
ترجمہ: اے اللہ! عمر بن الخطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اسکے ذریعے سے اسلام کو قوّت پہنچا ،ابن عمر کہتے ہیں ان دونوں میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کو زیادہ پسند تھے "
اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــ​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعلق چند روایات
ــــــــــــــ
امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ
فضائل صحابہ میں روایت کرتے ہیں کہ :
حدثنا عبد الله قثنا أحمد بن محمد بن أيوب قثنا إبراهيم بن سعد، عن محمد بن إسحاق، عمن لا يتهم، عن عبد العزيز بن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن أمه أم عبد الله بنت أبي حثمة قالت: والله، إنه لنرتحل إلى أرض الحبشة وقد ذهب عامر في بعض حاجتنا، إذ أقبل عمر حتى وقف علي وهو على شركه، قالت: وكنا نلقى منه البلاء أذى لنا وشرا علينا، فقالت: فقال: إنه لانطلاق يا أم عبد الله، قالت: قلت: نعم، والله لنخرجن في أرض الله، آذيتمونا وقهرتمونا، حتى يجعل الله لنا مخرجا، قالت: فقال: صحبكم الله، ورأيت له رقة لم أكن أراها، ثم انصرف وقد أحزنه فيما أرى خروجنا، قالت: فجاء عامر من حاجتنا تلك فقلت له: يا أبا عبد الله، لو رأيت عمر آنفا ورقته وحزنه علينا، قال: أطمعت في إسلامه؟ قالت: قلت: نعم، قال: لا يسلم الذي رأيت حتى يسلم حمار الخطاب، قالت: يأسا لما كان يرى من غلظته وقسوته عن الإسلام.
(فضائل صحابہ احمد بن حنبلؒ رقم 371) وقال الشيخ وصي الله بن عباس اسناده حسن ورواه ابو نعيم في الدلائل "
ترجمہ :
سیدہ ام عبداللہ بنت ابی حثمہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حبشہ جانے کی تیاری کررہے تھے جبکہ عامر کا کام پر گئے تھے۔ اچانک سیدنا عمر کا ہمارے پاس سے گزر ہوا وہ ابھی تک مشرک تھے اور ہمیں شدید مصائب سے دوچار کیا کرتے تھے۔ وہ ہم سے پوچھنے لگے : ام عبداللہ ! کہیں جانے کی تیاری ہورہی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! اللہ کی قسم! ہم اللہ کی زمین کی طرف جائیں گے تم لوگوں نے ہمیں بہت تکالیف دی ہیں ، اور مغلوب کر رکھا ہے، یہاں تک کہ الله تعالی نے ہمارے لیے اس
سے نجات کا راستہ بنادیا ہے، ام عبداللہ کہتی ہیں (یہ دیکھ ،سن کر ): میں نے ان کے دل میں نری محسوس کی، پھر وہ چلے گئے، جو پہلے بھی نہیں دیکھی گئی تھی، وہ چلے تو گئے لیکن ہمارے کوچ کرنے پر وہ غمزدہ تھے، اتنے میں جب سید نا عامر اپنے کام سے واپس آئے۔ میں نے ان سے کہا : اے ابوعبداللہ! کاش آپ آج عمر کی نرمی اور (ہمارے کوچ کرنے پر غمزدگی دیکھتے؟- ابوعبداللہ
نے کہا: کیا تم ان کے اسلام لانے کی امید رکھتی ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں! (وہ بھی مسلمان ہوجائیں) ابوعبداللہ نے نا امیدی سے کہا: وہ ہرگز اسلام نہیں لائیں گے، حالانکہ خطاب کا گدھاتو ایمان لے آئے گا۔
ام عبداللہ کہتی ہیں: میرے شوہر نے نا امیدی سے یہ کہا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ سیدنا عمر ( قبل از اسلام ) اسلام کے خلاف بہت سخت تھے۔ "
ـــــــــــــــــــــ​
اور ان کے قبول اسلام کی عوام میں مشہور مفصل روایت اور اس کی اسنادی حالت
قال الامام احمد بن حنبلؒ
وكان إسلام عمر بن الخطاب فيما بلغني أن أخته فاطمة بنت الخطاب، وكانت عند سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، كانت قد أسلمت وأسلم زوجها سعيد بن زيد معها، وهم يستخفون بإسلامهم من عمر، وكان نعيم بن عبد الله النحام رجلا من قومه من بني عدي بن كعب قد أسلم، وكان أيضا يستخفي بإسلامه فرقا من قومه، وكان خباب بن الأرت يختلف إلى فاطمة بنت الخطاب يقرئها القرآن، فخرج عمر يوما متوشحا سيفه يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم ورهطا من أصحابه، فذكر له أنهم قد اجتمعوا في بيت عند الصفا وهم قريب من أربعين من رجال ونساء، ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم عمه حمزة بن عبد المطلب، وعلي بن أبي طالب، وأبو بكر الصديق بن أبي قحافة، في رجال من المسلمين ممن كان أقام مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، ولم يخرج فيمن خرج إلى أرض الحبشة، فلقيه نعيم بن عبد الله فقال له: أين تريد؟ قال: أريد محمدا، هذا الصابيء الذي قد فرق أمر قريش، وسفه أحلامها، وعاب دينها، وسب آلهتها، فأقتله، فقال له نعيم: والله، لقد غرتك نفسك من نفسك يا عمر، أترى بني عبد مناف تاركيك تمشي على الأرض وقد قتلت محمدا؟ أفلا ترجع إلى أهل بيتك فتقيم أمرهم؟ قال: وأي أهل بيتي؟ قال: ختنك وابن عمك سعيد بن زيد، وأختك فاطمة بنت الخطاب، فقد أسلما وتابعا محمدا صلى الله عليه وسلم على دينه، فعليك بهما، فرجع عمر عامدا لختنه وأخته، وعندهما خباب بن الأرت معه صحيفة فيها طه يقرئهما إياها، فلما سمعوا حس عمر تغيب خباب بن الأرت في مخدع لعمر أو في بعض البيت، وأخذت فاطمة بنت الخطاب الصحيفة فجعلتها تحت فخذها، وقد سمع عمر حين دنا من البيت قراءته عليهما، فلما دخل قال: ما هذه الهينمة التي سمعتها؟ قالا: ما سمعت شيئا، قال: بلى والله لقد أخبرت عما تابعتما محمدا على دينه، وبطش بختنه سعيد بن زيد، وقامت إليه فاطمة أخته لتكفه عن زوجها، فضربها فشجها، فلما فعل ذلك قالت له أخته وختنه: نعم، قد أسلمنا وآمنا بالله ورسوله، فاصنع ما بدا لك. ولما رأى عمر ما بأخته من الدم ندم على ما صنع فارعوى وقال لأخته: أعطيني هذه الصحيفة التي سمعتكم تقرآن آنفا أنظر ما هذا الذي جاء به محمد؟ وكان عمر كاتبا، فلما قال ذلك قالت له أخته: إنا نخشاك عليها، قال: لا تخافي، وحلف لها بآلهته ليردنها إليها إذا قرأها، فلما قال لها ذلك طمعت في إسلامه، فقالت له: يا أخي، إنك نجس على شركك، وإنه لا يمسها إلا الطاهر، فقام عمر فاغتسل، ثم أعطته الصحيفة، وفيها طه، فقرأها، فلما قرأ صدرا منها قال: ما أحسن هذا الكلام وأكرمه فلما سمع خباب ذلك خرج إليه فقال له: يا عمر، والله إني لأرجو أن يكون الله قد خصك بدعوة نبيه صلى الله عليه وسلم، فإني سمعته وهو يقول: «اللهم [ص:281] أيد الإسلام بأبي الحكم بن هشام أو بعمر بن الخطاب» ، فالله الله يا عمر، فقال له عند ذلك: فادللني عليه يا خباب حتى آتيه فأسلم، فقال له خباب: هو في بيت عند الصفا، معه فئة، يعني من أصحابه، فأخذ عمر سيفه فتوشحه، ثم عمد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه فضرب عليهم الباب، فرآه متوشحا السيف، فرجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو فزع فقال: يا رسول الله، هذا عمر بن الخطاب متوشحا السيف، فقال حمزة بن عبد المطلب: فائذن له، فإن كان يريد خيرا بذلنا له، وإن كان يريد شرا قتلناه بسيفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ائذن له» ، فأذن له الرجل ونهض إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى لقيه في الحجرة، فأخذ بحجزته أو بجمع ردائه، ثم جبذه جبذة شديدة وقال: «ما جاء بك يا ابن الخطاب؟ والله ما أرى أن تنتهي حتى ينزل الله بك قارعة» ، فقال له عمر: يا رسول الله، جئتك أؤمن بالله وبرسوله وبما جئت به من عند الله، قال: فكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم تكبيرة عرف أهل البيت من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن عمر قد أسلم، فتفرق أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكانهم ذلك وقد عزوا في أنفسهم حين أسلم عمر مع إسلام حمزة بن عبد المطلب، وعرفوا أنهما سيمنعان رسول الله، وينتصفون بهما من عدوهم. فهذا حديث الرواة من أهل المدينة عن إسلام عمر بن الخطاب حين أسلم رضي الله عنه "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال الشيخ وصي الله عباس في تحقيقه لفضائل الصحابة- معلقا على هذا الحديث - :
منقطع ، وهو بهذا السياق في سيرة ابن هشام ، وأخرج ابن سعد نحوه عن القاسم ابن عثمان البصري عن أنس ، والقاسم ضعيف( ج1- ص 342- ط ابن الجوزي )


امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں:سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام کے بارے میں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان کی بہن سیدہ فاطمہ بنت خطاب کی شادی سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی وہ اور ان کے شوہر دونوں مسلمان ہو چکے تھے مگر وہ اپنے اسلام کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مخفی رکھتے تھے۔ ان میں سے سید نانعیم بن عبد النحام رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر چکے تھے ان کا تعلق بنوعدی بن کعب سے تھا، اسی طرح انہوں نے بھی اپنی قوم کے ڈر کی وجہ سے اپنے اسلام کوئی رکھا ہوا تھا، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ مختلف اوقات میں سیدہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے۔ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی تلوار لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
اور کچھ صحابہ کرام کو شہید کرنے کی غرض سے گھر سے نکلے، انہیں بتایا گیا کہ اس وقت صفا کے قریب ایک گھر میں چالیس کے قریب مرد اور عورتیں رسول الله علم کے ساتھ جمع ہیں، مردوں میں سے آپ کے ساتھ، آپ کے چچا سیدناحمزہ بن عبدالمطلب ، سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا ابو بکر صدیق بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ یہ لوگ رسول اللہ یقین کے ساتھ مکہ مکرمہ ہی میں قیام پذیر ہیں، ان لوگوں کے ساتھ نہیں گئے جو حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔ وہاں جاتے ہوئے سیدنا عمر کو راستے میں سیدنا نعیم بن عبد الله رضی اللہ عنہ ملے۔ پوچھا: عمر! کہاں جارہے ہو؟ کہنے لگے: میں آج اس صابی(بے دین ) مدل
کو (نعوذ باللہ ) کرنے جارہا ہوں جس نے اہل قریش کے درمیان تفرقہ ڈالا ، ہمارے معبودوں کی توہین کی ہے۔ قریش کی عقل مندی کو بیوقوفی سمجھا اور ان کے دین میں عیب جوئی کی ہے۔ سید نانعیم بن عبداللہ
نے فرمایا تمھارا کیا خیال ہے، ان کے قتل کے بعد تجھے بنی ہاشم ایسے ہی چھوڑ دیں گے کہ تم زمین چلتے رہو گے حالانک تم نے محمد (ﷺ )کو (نعوذ باللہ) قتل کیا ہوگا۔ تمہاری خام خیالی ہے، بلکہ تم پہلے اپنے گھر یلو حالات کا بھی تو پتہ کرو تیری بہن فاطمہ اور تیرا بہنوئی (سیدنا سعید بن زید ) مسلمان ہو چکے ہیں اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار بن چکے ہیں، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہنوئی اور بہن کی طرف پلٹے جب ان کے گھر پہنچ تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کے پاس سیدنا خباب بن ارت نے بھی ہیں
جوان کو قرآن سے سورۃ طہٰ پڑھارہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں کی آواز سن کر سیدنا خباب بن ارت تو گھر کے ایک کونے میں چھپ گئے اور ان کی بہن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے سورة طہٰ کے صحیفہ کو چھپادیا۔ جب سیدناعمر نے گھر میں داخل ہو کر پوچھا: یہ کیا آواز تھی جو میں سن رہاتھا؟ ان دونوں نے کہا: کچھ ہی نہیں تھا۔ سیدناعمر نے کہا: ہاں کچھ تھا اللہ کی قسم ! تم دونوں محمد (ﷺ) پر ایمان لے آئے ہو؟ ( یہ کہ کر اپنے بہنوئی سیدنا سعید بن زید پر حملہ کیا تو ان کی بہن فاطمہ درمیان میں حائل ہوئیں تو ان کو مارا یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگئیں ان دونوں نے کہا: ہاں! ہم ایمان لا چکے ہیں، اب تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرلو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کے چہرے سے خون بہتا ہوا دیکھا تو ان کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اور کہنے لگے : مجھے وہ ورق پڑھاؤ جس سے تم کچھ پڑھ رہے تھے تا کہ مجھے بھی تو پتا چلے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرکیا نازل ہوتا ہے؟
ان کی بہن نے کہا: ہمیں ڈر ہے کہ تم کچھ کرڈالو گے۔ سیدنا عمر نے کہا: الثہ کی قسم! کچھ بھی نہیں کروں گا، ان کی بہن فاطمہ نے کہا: تم مشرک ہو تم اسے نہیں چھو سکتے، جب تک غسل نہ کرلو۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا اور وہ ورق لیا جس پر سورة طہٰ لکھی ہوئی تھی ، وہ پڑھی اور ایمان لانے کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کی طرف روانہ ہونے کا قصد کیا تو سیدنا خباب بن ارت نے پردے سے نکلے اور کہا: عمر بن خطاب !يقیناً اللہ نے تمھیں اسلام کے لیے چن لیا ہے، میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا: اے اللہ !دونوں عمر میں سے جس کو آپ پسند کرتے ہیں ہدایت عطا فرما۔ یہ سن کر سیدنا عمر فاروق نے کہا: خباب ! بتاؤ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں تا کہ میں اسلام قبول کروں۔ سیدنا خباب بن ارت نے کہا: وہ کوہ صفا کے پاس تقریبا ۲۰ صحابہ کرام کے ہمراہ ایک گھر (دارارقم) میں ہیں، جن میں کچھ عورتیں، سیدنا حمزہ، سیدناعلی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار اٹھائی اور اسی طرف چل دیئے، وہاں کر دروازہ کو دستک دی، کہنے لگے : یا رسول اللہ ! میں عمر ہوں ۔ سیدناحمزه رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے آنے دو اگر بھلائی چاہتا ہے تو ہم بھی اس کے ساتھ بھلائی کریں گے، اگر برائی چاہتا ہے تو ہم اسے قتل کر دیں گے۔تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسے آنے دو۔ جب آئے تو آپ ان سے ملے ، اور گریبان سے پکڑا اور پوچھا: عمر! کیوں آئے ہو؟ باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالی تجھے عذاب دے گا۔ سیدنا عمر نے عرض کیا: میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم پر اور جو آپ پر نازل ہوتا ہے اس پر ایمان لانے آیا ہوں۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند اللہ اکبر کہا۔ اور اس طرح تکبیر کہنے سے وہاں موجود تمام صحابہ کرام کو پتا چلا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایمان لانے آئے ہیں ، تو وہاں جمع تمام صحابہ کرام متفرق ہوگئے ،ان
کے ایمان لانے سے صحابہ کرام کے حوصلے بڑھ گئے ، جبکہ ان سے پہلے سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ جو بھی مسلمان ہو چکے تھے اور ان کویقین ہوگیا، اب یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کے دست و بازو بنیں گے اور دشمنوں کو زیر کریں گے۔
)))
لیکن یہ روایت بہت ضعیف ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے کہ :
اس روایت کو امام ابن سعدؒ نے طبقات میں (اسحاق بن یوسف ،قاسم بن عثمان البصری ، انس بن مالک ) کی سند سے روایت کیا ہے ،اس میں قاسم بن عثمان ضعیف ہے ،​
قال ابن سعد في الطبقات (3- 203):
إسلام عمر. رحمة الله:
قال: أخبرنا إسحاق بن يوسف الأزرق قال: أخبرنا القاسم بن عثمان البصري عن أنس بن مالك
وأخرجها ابن الجوزي في " مناقب عمر " ( ص 15) ، وابن سعد في " الطبقات " (3/267) ، والبيهقي في " الدلائل " (2/219) ، و " السنن " (1/88) .
وفي سندها القاسم بن عثمان البصري .
قال الذهبي في " الميزان " (3/375) عند ترجمته : القاسم بن عثمان البصري عن أنس . قال البخاري : له أحاديث لا يتابع عليها​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ان کے اسلام کے متعلق ایک صحیح روایت درج ذیل ہے
أما الحديث الصحيح في قصة إسلام عمر بن الخطاب رضي الله عنه فهو حديث :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ : أَيُّ قُرَيْشٍ أَنْقَلُ لِلْحَدِيثِ ؟ قِيلَ لَهُ : جَمِيلُ بْنُ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيُّ ، قَالَ : فَغَدَا عَلَيْهِ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَغَدَوْتُ أَتْبَعُ أَثَرَهُ أَنْظُرُ مَا يَفْعَلُ ، وَأَنَا غُلَامٌ ، وَجَمِيلُ بْنُ مَعْمَرٍ هُوَ جَدُّ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ بْنِ جَمِيلِ بْنِ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيُّ - أَعْقِلُ كُلَّمَا رَأَيْتُ ، حَتَّى جَاءَهُ فَقَالَ : أَمَا عَلِمْتَ يَا جَمِيلُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَدَخَلْتُ فِي دِينِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : فَوَاللَّهِ ، مَا رَاجَعَهُ حَتَّى قَامَ يَجُرُّ رِجْلَيْهِ ، وَاتَّبَعَهُ عُمَرُ ، وَاتَّبَعْتُ أَبِي ، حَتَّى إِذَا قَامَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ صَرَخَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ - وَهُمْ فِي أَنْدِيَتِهِمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ - أَلَا إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا ، قَالَ : يَقُولُ عُمَرُ مِنْ خَلْفِهِ : كَذَبَ ، وَلَكِنْ قَدْ أَسْلَمْتُ وَشَهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، قَالَ : وَثَارُوا إِلَيْهِ ، قَالَ : فَمَا بَرِحَ يُقَاتِلُهُمْ وَيُقَاتِلُونَهُ حَتَّى قَامَتِ الشَّمْسُ عَلَى رُءُوسِهِمْ ، قَالَ : وَطَلَحَ فَقَعَدَ ، وَقَامُوا عَلَى رَأْسِهِ وَهُوَ يَقُولُ : افْعَلُوا مَا بَدَا لَكُمْ ، فَأَحْلِفُ أَنْ لَوْ كُنَّا ثَلَاثَمِائَةِ رَجُلٍ لَقَدْ تَرَكْنَاهَا لَكُمْ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا لَنَا ، قَالَ : فَبَيْنَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ إِذْ أَقْبَلَ شَيْخٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ حِبَرَةٌ وَقَمِيصٌ قُومِسُ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : صَبَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : فَمَهْ ، رَجُلٌ اخْتَارَ لِنَفْسِهِ أَمْرًا فَمَاذَا تُرِيدُونَ ؟ أَتَرَوْنَ بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ يُسْلِمُونَ لَكُمْ صَاحِبَهُمْ ؟ هَكَذَا عَنِ الرَّجُلِ ، قَالَ : فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّمَا كَانُوا ثَوْبًا كُشِفَ عَنْهُ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَقُلْتُ لِأَبِي بَعْدَ أَنْ هَاجَرْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ : يَا أَبَتِ ، مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي زَجَرَ الْقَوْمَ بِمَكَّةَ يَوْمَ أَسْلَمْتَ وَهُمْ يُقَاتِلُونَكَ ؟ قَالَ : ذَاكَ الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِيُّ .

أخرجه الإمام أحمد في ( فضائل الصحابة – رقم 372- ج1 – ص 344
أخرجها ابن حبان في " موارد الظمآن " (2/218 رقم 1829) ، وابن هشام في " السيرة " (1/233) ، والحاكم في " المستدرك " (3/85) مختصرة .

قال الحافظ ابن كثير في " البداية والنهاية " (2/39) : وهذا إسناد جيد قوي ، وهو يدل على تأخر إسلام عمر ؛ لأن ابن عمر عرض يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة وكانت أحد في سنة ثلاث من الهجرة ، وقد كان مميزاً يوم أسلم أبوه ، فيكون إسلامه قبل الهجرة بنحو من أربع سنين ، وذلك بعد البعثة بنحو تسع سنين والله أعلم .ا.هـ.

وحسن إسنادها العلامة الألباني في " صحيح موارد الظمآن " (2181) ، وحسنها أيضا الشيخ مصطفى العدوي في " الصحيح المسند من فضائل الصحابة " ( ص 82 - 83) .
قال الشيخ وصي الله عباس : إسناده حسن

ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمر ا سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا تو کہنے لگے: قریش کا سب سے زیادہ باتوں کو پھیلانے والا شخص کون ہے؟ کسی نے کہا: جمیل بن معمرجمحی جو کہ نافع بن عمر بن ہیل بن عمر کے دادا ہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن پہلے پہر اس کے پاس گئے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے پیچھے گیا تا کہ دیکھوں کہ کیا کرتے ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس جا کر کہا: اے جمیل! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو گیا ہوں، یہ سنتے ہی جمیل دوڑا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پیچھا کیا اور میں ( سیدنا عبداللہ بن عمر ) بھی اپنے والد گرامی کے پیچھے چل دیا۔ وہ (جمیل بن معمر) مسجد کے دروازے پر آیا اور بلند آواز چیخنے لگا:اے قریش کی جماعت اس وقت قریش اپنی محفلوں میں مگن تھے۔ اعلان کرنے لگا:حضرات ! عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا (جاہلی ) دین چھوڑ دیا ہے ہوگیا ،(مسلمان ہوگیا ہے ) سیدنا عمر اپنے پیچھے
سے آواز لگائی: یہ جھوٹا آدمی ہے ، میں تو مسلمان ہوگیا ہوں میں کلمہ توحید ( لا إله إلا الله وحده لا شريك له وان محمدا عبده ورسوله) کی گواہی دے چکا ہوں۔ یہ سن کر قریش سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پرٹوٹ پڑے۔ وہ لڑتے جھگڑتے رہے، یہاں تک کہ سورج ان کے سروں پر بلند ہو گیا، جب وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے ، دوبارہ ان پر ٹوٹ پڑے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: جوتم سے ہوتا ہے کرلو، میں تمہیں حلف دے کر کہتا ہوں کہ ہم اگر تین سو آدی ہوتے تو ان کو ہمارے مارنے پیٹنے کے لیے حوالے کرتے ، یا تم ان کوتہمارے حوالے کرتے۔ اسی دوران قریش کا ایک ضعیف العمر شخص جبہ(کوٹ )پہنے ہوئے آیا، اس نے امیرانہ قمیص پہن رکھی تھی، کہنے لگا: کیا بات ہے؟ قریش نے کہا: عمر صابی (مسلمان ) ہوگیا ہے۔ اس نے کہا:ڑک جاؤ تو پھر کیا ہوا اس نے اپنی مرضی سے یہ کام کیا ہے تو اب تمہارا کیا ارادہ ہے؟ اور تمہارا کیا خیال ہے کہ بنی عدی بن کعب (قبیلہ ) اس شخص (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ) کو تمہارے حوالے کر دیں گے؟ اس شخص نے یہی کیا تولوگ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر کپڑوں کی طرح لپٹے ہوئے تھے، اس نے آ کر ان کو ہٹادیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر بھی کہتے ہیں کہ ہجرت کے بعد میں نے اپنے باپ سے پوچھا: ابا جان! وہ شخص کون تھا کہ جس دن آپ نے اسلام قبول کیا تھا، اور قریش آپ سے لڑائی کر رہے تھے تو اس نے آ کر اپنی قوم کو ڈانٹا تھا ؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ شخص عاص بن وائل سہمی تھا۔
[373 ] وحدثنا عبد الله قال وحدثني محمد بن أبي عمر العدلي بمكة قثنا سفيان عن عمرو بن دینار عن بن عمر قال لما اسلم عمر اجتمع الناس عليه فقالوا صبا عمر مرتين وكنت على ظهر بيت فأتى العاص بن وائل السهمي وعليه قباء ديباج مكفوف بحریر فقال صبا عمر صبا عمر أنا له جار فتفرق الناس عنه قال بن عمر فتعجبت من عزه . ۳۷۳۔ سیدنا عبداللہ بن عمر اتنا سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سلام لائے تو لوگ جمع ہوکر کہنے لگے کہ عمر صابی (بے دین) ہو گیا ہے۔ دو مرتبہ یہ کہا۔ میں اپنے گھر کی چھت پر تھا، اس وقت عاص بن وائل بھی آیا جس نے ریشم کا جبہ پہن رکھا تھا اور اس نے کہا:عمر صابی ہو گیا عمرصابی ہو گیا مگر میں عمرکو پناہ دیتا ہوں یہ سن کر قریش منتشر ہو گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں : مجھے ان کا مقام ومرتبہ دیکھ کرتعجب ہوا۔ ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی روایت مختصراً صحیح بخاری میں اس طرح ہے :
قال عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: " لما أسلم عمر اجتمع الناس عند داره، وقالوا: صبا عمر وأنا غلام، فوق ظهر بيتي، فجاء رجل عليه قباء من ديباج، فقال: قد صبا عمر فما ذاك، فأنا له جار، قال: فرأيت الناس تصدعوا عنه فقلت: من هذا؟ قالوا: العاص بن وائل "
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو لوگ ان کے گھر کے قریب جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ عمر بےدین ہو گیا ہے۔ میں ان دنوں بچہ تھا اور اس وقت اپنے گھر کی چھت پر چڑھا ہوا تھا۔ اچانک ایک شخص آیا جو ریشم کی قباء پہنے ہوئے تھا، اس شخص نے لوگوں سے کہا ٹھیک ہے عمر بےدین ہو گیا لیکن یہ مجمع کیسا ہے؟ دیکھو میں عمر کو پناہ دے چکا ہوں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی یہ بات سنتے ہی لوگ الگ الگ ہو گئے۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب تھے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ عاص بن وائل ہیں۔​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق مزید تفصیلات جاننے کیلئے
آپ کتاب " سیدنا عمر بن خطاب ،شخصیت اور کارنامے " کا مطالعہ کیجئے ؛
https://archive.org/stream/Sayyad-e-na-Umar-Bin-Khattab-R.A-Shakhsiyyat-Aur-Kar-Naame/Sayyad-e-na-Umar-bin-khattabr.ashakhsiyyat-aur-kar-naame#page/n52/mode/2up

ــــــــــــــــــــــــ
اور اگر عربی زبان کی معرفت ہے تو امام ابن الجوزیؒ کی کتاب مناقب عمر بن الخطاب یہاں سے پڑھیں ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح ثابت ہے ؟
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
از : الرحیق المختوم
ــــــــــــــــــــــــــ
إسلام حمزة بن عبد المطلب:
خلال هذا الجو الملبد بسحائب الظلم والطغيان أضاء برق نور للمقهورين طريقهم، ألا وهو إسلام حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه، أسلم في أواخر السنة السادسة من النبوة، والأغلب أنه أسلم في شهر ذي الحجة.
وسبب إسلامه أن أبا جهل مر برسول الله صلّى الله عليه وسلم يوما عند الصفا، فآذاه ونال منه، ورسول الله صلّى الله عليه وسلم ساكت لا يكلمه، ثم ضربه أبو جهل بحجر في رأسه فشجه، حتى نزف منه الدم، ثم انصرف عنه إلى نادي قريش عند الكعبة، فجلس معهم، وكانت مولاة لعبد الله بن جدعان في مسكن لها على الصفا ترى ذلك، وأقبل حمزة من القنص متوشحا قوسه، فأخبرته المولاة بما رأت من أبي جهل، فغضب حمزة- وكان أعز فتى في قريش وأشده شكيمة- فخرج يسعى، لم يقف لأحد، معدا لأبي جهل إذا لقيه أن يوقع به، فلما دخل المسجد قام على رأسه، وقال له: يا مصفر استه، تشتم ابن أخي وأنا على دينه؟ ثم ضربه بالقوس فشجه شجة منكرة، فثار رجال من بني مخزوم- حي أبي جهل- وثار بنو هاشم- حي حمزة- فقال: أبو جهل: دعوا أبا عمارة، فإني سببت ابن أخيه سبا قبيحا «1» .
وكان إسلام حمزة أول الأمر أنفة رجل أبى أن يهان مولاه. ثم شرح الله صدره، فاستمسك بالعروة الوثقى «2» ، واعتز به المسلمون أيما اعتزاز

)مختصر سيرة الرسول للشيخ محمد بن عبد الوهاب ص 66، رحمة للعالمين 1/ 68، ابن هشام 1/ 291، 292.
____________________
ترجمہ :
مکہ کی فضاظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا ، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا و اقعہ سنۃ 6ھ نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے ،
ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کو ہِ صفا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ کے سر پر ایک پتھردے ماراجس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا۔
پھردہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔
عبد اللہ بن جدعان کی ایک لونڈی کو ہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حائل کے شکار سے واپس تشریف لائے تواس لونڈی نے ان سے ابوجہل کی ساری حرکت کہہ سنائی ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصہ سے بھڑک اٹھے –
یہ قریش کے سب سے طاقتوراورمضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئےآئے اوریہ تہیہ کیئے ہوئے کہ جونہی ابوجہل کا سامنا ہوگا اس کی مرمت کردیں گے۔
چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہوکر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: اوسرین پرخوشبو لگانے والے بزدل ! تومیرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالاں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔
اس کے بعد کمان اس زور کی مارماری کہ اس کے سر پر بدترین قسم کا زخم آگیا۔ اس پر ابوجہل کے قبیلے بنومخزوم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے،
۔لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ ابوعمارہ کو جانے دو۔ میں سے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بڑی گالی دی تھی ۔
ابتداءً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا۔ اور انہوں نے اسلام کا کڑامضبوطی سے تھام لیا ،
اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت وقوت محسوس کی.
(مختصر سیرۃ الرسول از شیخ محمد بن عبدالوہاب ،سیرۃ ابن ہشام )
https://archive.org/stream/ArRahiqUlMakhtoom/Ar Rahiq ul Makhtoom(1)#page/n143
 

khalil

رکن
شمولیت
اپریل 18، 2016
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
57
جزاک اللہ خیرا ۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکتہ ۔ شیخ صاحب میں کچھ مصروف تھا اس لئے بروقت شکریہ ادا نہیں کر سکا جسکے لئے معذرت قبول فرمائیں ۔اللہ اپکے عمر و علم مین اضافہ فرمائے ۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام کا واقعہ جو الرحیق المختوم میں نقل ہوا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ میں چونکہ چند سال پہلے اہل حدیث ہوا ہون لہذا مجھے کچھ زیادہ اگاہی نہین ہے اس لئے وقتا فوقتا اپ جیسے اہل علم سے رجوع ورہنمائی لیتا ہوں۔
رہنمائی
 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
از : الرحیق المختوم
ــــــــــــــــــــــــــ
إسلام حمزة بن عبد المطلب:
خلال هذا الجو الملبد بسحائب الظلم والطغيان أضاء برق نور للمقهورين طريقهم، ألا وهو إسلام حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه، أسلم في أواخر السنة السادسة من النبوة، والأغلب أنه أسلم في شهر ذي الحجة.
وسبب إسلامه أن أبا جهل مر برسول الله صلّى الله عليه وسلم يوما عند الصفا، فآذاه ونال منه، ورسول الله صلّى الله عليه وسلم ساكت لا يكلمه، ثم ضربه أبو جهل بحجر في رأسه فشجه، حتى نزف منه الدم، ثم انصرف عنه إلى نادي قريش عند الكعبة، فجلس معهم، وكانت مولاة لعبد الله بن جدعان في مسكن لها على الصفا ترى ذلك، وأقبل حمزة من القنص متوشحا قوسه، فأخبرته المولاة بما رأت من أبي جهل، فغضب حمزة- وكان أعز فتى في قريش وأشده شكيمة- فخرج يسعى، لم يقف لأحد، معدا لأبي جهل إذا لقيه أن يوقع به، فلما دخل المسجد قام على رأسه، وقال له: يا مصفر استه، تشتم ابن أخي وأنا على دينه؟ ثم ضربه بالقوس فشجه شجة منكرة، فثار رجال من بني مخزوم- حي أبي جهل- وثار بنو هاشم- حي حمزة- فقال: أبو جهل: دعوا أبا عمارة، فإني سببت ابن أخيه سبا قبيحا «1» .
وكان إسلام حمزة أول الأمر أنفة رجل أبى أن يهان مولاه. ثم شرح الله صدره، فاستمسك بالعروة الوثقى «2» ، واعتز به المسلمون أيما اعتزاز

)مختصر سيرة الرسول للشيخ محمد بن عبد الوهاب ص 66، رحمة للعالمين 1/ 68، ابن هشام 1/ 291، 292.
____________________
ترجمہ :
مکہ کی فضاظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا ، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا و اقعہ سنۃ 6ھ نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے ،
ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کو ہِ صفا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ کے سر پر ایک پتھردے ماراجس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا۔
پھردہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔
عبد اللہ بن جدعان کی ایک لونڈی کو ہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حائل کے شکار سے واپس تشریف لائے تواس لونڈی نے ان سے ابوجہل کی ساری حرکت کہہ سنائی ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصہ سے بھڑک اٹھے –
یہ قریش کے سب سے طاقتوراورمضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئےآئے اوریہ تہیہ کیئے ہوئے کہ جونہی ابوجہل کا سامنا ہوگا اس کی مرمت کردیں گے۔
چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہوکر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: اوسرین پرخوشبو لگانے والے بزدل ! تومیرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالاں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔
اس کے بعد کمان اس زور کی مارماری کہ اس کے سر پر بدترین قسم کا زخم آگیا۔ اس پر ابوجہل کے قبیلے بنومخزوم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے،
۔لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ ابوعمارہ کو جانے دو۔ میں سے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بڑی گالی دی تھی ۔
ابتداءً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا۔ اور انہوں نے اسلام کا کڑامضبوطی سے تھام لیا ،
اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت وقوت محسوس کی.
(مختصر سیرۃ الرسول از شیخ محمد بن عبدالوہاب ،سیرۃ ابن ہشام )
https://archive.org/stream/ArRahiqUlMakhtoom/Ar Rahiq ul Makhtoom(1)#page/n143
آپ نے یہ واقعی تو نقل کردیا لیکن کیا یہ واقعہ باسند صحیح/حسن لذاتہ ثابت ہے؟
 
Top