• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
در اصل ہماری کتاب ابتک چھپ نہیں سکی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج سے تقریبا پندرہ سال قبل (
یتیم پوتا محجوب نہیں) کے عنوان کے تحت ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس کی شدید مخالفت خود ہمارے اہل حدیث حضرات نے کی اور ہمیں قادیانی، منکر حدیث اور نہ جانے کیا کیا بلکہ کافر تک قرار دینے کی جرات تک کی گئی جس کے جواب میں نے (دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ) کے عنوان کے تحت یہ کتاب لکھی ہے جو اپنے موضوع پر دنیا کی ایک منفرد کتاب ہے
میرے بھائی! مخالفت تو ہونی تھی، جب امت کے اتفاقی واجماعی موقف کے برخلاف صدیوں بعد کوئی ایسا منفرد دعوی کرے، تو مخالفت تو بنتی ہے! خیر اس پر زیادہ نہیں کہتا!
إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، دون كا معنی عربی زبان میں فوق اور تحت کے ہوتا نہ کہ (کوئی) یہ ترجمہ ہی بالکل غلط ہے
(کوئی) کے لئے عربی میں (من دون) کا لفظ آتا ہے جس کے معنی ( کوئی یا علاوہ) ہوتا ہے اس کے لئے عربی لغت کی کتابیں دیکھئے۔ فافہم و تدبر!
صحیح ترجمہ یوں ہے: بیٹوں کے بیٹے (پوتے) بیٹے کے قائم مقام ہیں جب ان کے اوپر کا بیٹا نہ ہو۔ دون کے معنی (فوق یا تحت) کے ہی ہوتا ہے اور (کوئی یا غیر) معنی مراد لینے کے لئے دون سے پہلے من لگا نا ضروری ہے۔ یہاں لفظ دون وارد ہوا ہے نہ کہ (من دون) اس سے مراد دادا اور پوتے کے درمیان دادا کا وہ بیٹا ہے جو کہ دادا سے نیچے اور پوتے کے اوپر یعنی پوتے کا باپ ہے جو ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے واسطہ ہے۔ نہ یہ کہ وہ بیٹے جو کے پوتے کہ چچا تائے ہیں۔
إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ
یہاں ''دون'' کا ترجمہ ''کوئی'' کرنا تو چلو بالفرض غلط ہو گیا!
لیکن یہ ترجمہ کی غلطی تو ان کو لاحق ہو گی، جنہیں عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان کی حاجت ہو! بالفرض آپ کی یہ بات مان لیں، کہ ''دون'' کا ترجمہ اس عبارت میں ''کوئی'' نہیں، ''ان کے اوپر'' ہے!
مگر ہم ترجمہ کو رہنے دیتے ہیں! بات بغیر ترجمہ کے کرتے ہیں!
لیکن یہ بتلائیے کہ کس عربی شارح الحدیث نے، کس عربی فقیہ نے، یہاں اس عبارت کو ایسے سمجھا ہے، جیسے آپ سمجھ رہے ہو!
اور اگر کس عربی شارح اور عربی فقیہ نے اس طرح نہیں سمجھا، تو سمجھ جائیے کہ آپ کے ترجمہ میں غلطی ہے!
در اصل اسی طرح کے مغالطہ میں غلام احمد پرویز نے زندگی برباد کی! اور اسی طرح کے مغالطے وہ لوگوں کو دیتا رہا!
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
مسرور احمد الفرائضی صاحب
آپ میراث کے ایک ایسے مسئلہ میں اختلاف کررہے ہیں جو آج تک پوری امت میں متفق علیہ ہے ۔
آج کے دور میں بھی مجھے کسی بھی فرقے کے کسی معتبر عالم کا نام معلوم نہیں جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے۔جو لوگ اختلاف کررہے ہیں وہ عالم نہیں ہیں ۔
اور حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ اپنی بات کی تائید میں جو بھی دلیل دینے کی کوشش کررہے وہ سب آپ کے خلاف ہی ہے ۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اس گمراہ کن فکر اور کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت سے پہلی فرصت میں توبہ کریں۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرے بھائی! مخالفت تو ہونی تھی، جب امت کے اتفاقی واجماعی موقف کے برخلاف صدیوں بعد کوئی ایسا منفرد دعوی کرے، تو مخالفت تو بنتی ہے! خیر اس پر زیادہ نہیں کہتا!



إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ
یہاں ''دون'' کا ترجمہ ''کوئی'' کرنا تو چلو بالفرض غلط ہو گیا!
لیکن یہ ترجمہ کی غلطی تو ان کو لاحق ہو گی، جنہیں عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان کی حاجت ہو! بالفرض آپ کی یہ بات مان لیں، کہ ''دون'' کا ترجمہ اس عبارت میں ''کوئی'' نہیں، ''ان کے اوپر'' ہے!
مگر ہم ترجمہ کو رہنے دیتے ہیں! بات بغیر ترجمہ کے کرتے ہیں!
لیکن یہ بتلائیے کہ کس عربی شارح الحدیث نے، کس عربی فقیہ نے، یہاں اس عبارت کو ایسے سمجھا ہے، جیسے آپ سمجھ رہے ہو!
اور اگر کس عربی شارح اور عربی فقیہ نے اس طرح نہیں سمجھا، تو سمجھ جائیے کہ آپ کے ترجمہ میں غلطی ہے!
در اصل اسی طرح کے مغالطہ میں غلام احمد پرویز نے زندگی برباد کی! اور اسی طرح کے مغالطے وہ لوگوں کو دیتا رہا!
21454 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرے بھائی! مخالفت تو ہونی تھی، جب امت کے اتفاقی واجماعی موقف کے برخلاف صدیوں بعد کوئی ایسا منفرد دعوی کرے، تو مخالفت تو بنتی ہے! خیر اس پر زیادہ نہیں کہتا!



إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ
یہاں ''دون'' کا ترجمہ ''کوئی'' کرنا تو چلو بالفرض غلط ہو گیا!
لیکن یہ ترجمہ کی غلطی تو ان کو لاحق ہو گی، جنہیں عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان کی حاجت ہو! بالفرض آپ کی یہ بات مان لیں، کہ ''دون'' کا ترجمہ اس عبارت میں ''کوئی'' نہیں، ''ان کے اوپر'' ہے!
مگر ہم ترجمہ کو رہنے دیتے ہیں! بات بغیر ترجمہ کے کرتے ہیں!
لیکن یہ بتلائیے کہ کس عربی شارح الحدیث نے، کس عربی فقیہ نے، یہاں اس عبارت کو ایسے سمجھا ہے، جیسے آپ سمجھ رہے ہو!
اور اگر کس عربی شارح اور عربی فقیہ نے اس طرح نہیں سمجھا، تو سمجھ جائیے کہ آپ کے ترجمہ میں غلطی ہے!
در اصل اسی طرح کے مغالطہ میں غلام احمد پرویز نے زندگی برباد کی! اور اسی طرح کے مغالطے وہ لوگوں کو دیتا رہا!
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا والعیاذ باللہ
رہا معاملہ
غلام احمد پرویز کے زندگی برباد کرنے اور مغالطے دینے کا تو ہمیں ایسے لوگوں سے کوئی غرض نہیں ہے ہم جو بات کہہ رہے ہیں اس کا مقصدمغالطہ دینا نہیں ہے بلکہ مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہے جو یتیم پوتے کو اس کے حق سے محروم کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور قرآن وحدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اس کی محرومی کو ثابت کرنے کی کوشش کو اسلام اور شریعت اسلامی کی بہت بڑی خدمت سمجھا جاتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
مسرور احمد الفرائضی صاحب
آپ میراث کے ایک ایسے مسئلہ میں اختلاف کررہے ہیں جو آج تک پوری امت میں متفق علیہ ہے ۔
آج کے دور میں بھی مجھے کسی بھی فرقے کے کسی معتبر عالم کا نام معلوم نہیں جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے۔جو لوگ اختلاف کررہے ہیں وہ عالم نہیں ہیں ۔
اور حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ اپنی بات کی تائید میں جو بھی دلیل دینے کی کوشش کررہے وہ سب آپ کے خلاف ہی ہے ۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اس گمراہ کن فکر اور کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت سے پہلی فرصت میں توبہ کریں۔
میرے محترم جس مسئلہ کو لوگ پوری امت کا متفق علیہ قرار دے رہے ہیں در حقیقت اس مسئلہ کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ صریحی طور پر قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس مسئلہ کے حق میں جو بھی دلیل دی جاتی ہے اس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ میں نے تو ابھی کوئی دلیل دی ہی نہیں ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا یا کر رہے ہیں ہم نہ تو ان کی موافقت کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت ہمارا ان کی فکر اور سوچ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہم جن بنیادوں پر بات کررہے ہیں وہ صرف اور صرف قرآن و حدیث ہے ہمیں کسی فرقے کے عالم یا جاہل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ہماری ساری بحث نفس مسئلہ سے ہے اور یہ مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں اس سے ہماری بحث ہے۔ اس مسئلہ میں کسی کے پاس اگر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل ہو تو پیش کرے کسی عالم کا قول و فعل رائے و قیاس نہ تو دین و شریعت ہوا کرتا ہے اور نہ ہی حجت ہوتا ہے۔ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ فریضہ الِہی ہے جو صرف قرآن و حدیث سے ہی ثابت ہوتا ہے اور اس سے اسے محروم کرنے کے لئے قرآن کی کوئی آیت ہونی چاہئے یا کوئی صحیح حدیث۔ کسی فقیہ یا عالم کے کچھ بھی کہہ دینے سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ہے۔ یتیم پوتے
کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ کا معاملہ والد اور اس کی ایک اولاد کا جو فریضہ الِہی ہے۔ وارث اور مورث اللہ کے پیدا کردہ اور بنائے ہوئے ہیں اور ان کا تعین بھی خود اسی نے کیا ہوا ہے اور ان کے حق و حصے بھی خود اسی نے مقرر کئے ہیں اور یہ حکم دے رکھا ہے کہ انہیں ان کے حصے دیدو۔ نیز اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ ترکہ کے اموال اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مطابق اور ان میں اللہ کے مقرر کردہ کئے ہوئے وارثوں جو کہ اہل فرائض ہیں کے درمیان تقسیم کرو۔ اللہ و رسول نے یہ نہیں کہا ہے کہ فقہاء اور علماء سے پوچھو پھر جو وہ کہیں اس کے مطابق ترکہ کا کا مال تقسیم کرو۔ رہا آپ کا مشورہ ہے کہ آپ اس گمراہ کن فکر اور کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت سے پہلی فرصت میں توبہ کریں۔ تو میں آپ کے اس مشورہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور جس فکر کو آپ نے گمراہ کن اور کتاب و سنت اور اجماع امت کے مخالف کہا ہے اس کے بارے میں میں کہنا چاہوں گا کہ یہ فکر نہ تو گمراہ کن ہے اور نہ ہی کتاب و سنت کے خلاف ہے رہا نام نہاد مزعومہ اجماع امت کا معاملہ تو یہ لوگوں کا خود ساختہ ہے جس پر قرآن سنت سے کوئی دلیل نہیں لہذا اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اجماع وہی حجت ہوتا ہے جس پر قرآن و حدیث کی کوئی دلیل ہو۔ کسی کی ہدایت و ضلالت کا فیصلہ کرنا اللہ تعالی کا حق ہے بندوں کا حق نہیں ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ دوبیٹیوں کے مسئلہ میں عبد اللہ بن عباس نے سارے صحابہ کی مخالفت کرتے ہوئے دو بیٹیوں کے لئے بھی نصف حصہ ہونا بتایا نیز دادا اور بھائیوں کے مسئلہ میں بھی ّمخالفت معروف ہے ان سب کے باوجود وہ گمراہ نہ قرار پائے اور کسی نے بھی انہیں گمراہ نہیں کہا اور آپ ہیں کہ فقہاء کی فکر و فہم کی تائید نہ کرنے اور ان کی تقلید نہ کرنے کو گمراہی قرار دے رہے ہیں۔ لہذا میرا آپ کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ فرائض کے اس مسئلہ میں جلد بازی نہ کریں بلکہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کریں اور یہ جان رکھیں کہ کل بروز قیامت اللہ کے سامنے جواب دینا ہے۔ یہ مسئلہ ایک تو یتیم کا ہے اور دوسرے میت کی یتیم اولاد اور ایک وارث کا ہے جس کو نقصان پہنچانے کا انجام جہنم کی دائمی ذلت آمیز آگ ہے۔ لہذا اس مسئلہ میں جلد بازی نہ کریں اور اللہ سے ڈریں۔ اور ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ مجھ کو اور میری فکر کو غلام پرویز یا اس جیسے منکرین احادیث یا گمراہ فکر ونظر رکھنے والوں سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم جو بات کر رہے ہیں وہ صرف قرآن وحدیث کے تعلق سے ہے اور صرف اسی حدود میں ہے جو محض احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے ہے۔ ہم کسی فقیہ، عالم کی رائے، قیاس اور قول کے پابند نہیں ہیں۔ ہم تو اللہ رب العالمین کے اس فرمان کے پابند ہیں کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو اس مسئلہ میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرو اور اسی میں اس کا حل ڈھونڈھو۔ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن سنت سے ہی مسائل کا استنباط کریں۔ فقہی اقوال، فقہاء کی آراء و قیاسات، علماء کے فتاوے سے مسائل کا حل نکالنا اللہ کا دین اور اس کی شریعت کی خدمت اور کار ثواب نہیں ہے۔ فافہم و تدبر۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کی اٹیچمنٹ بھی نہیں دیکھی جا سکتی!
بہتر ہے اٹیچمنٹ کے بجائے، یونیکوڈ میں ہی رقم کیجیئے!
(وَقَوْلُهُ: إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ)(
فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر العسقلاني كتاب الفرائض: (باب مِيرَاث ابن الابْن)
یعنی ان پوتوں اور میت یعنی ان کے دادا کے درمیان کا بیٹا جو ان دونوں کے درمیان اولاد و والدیت کا واسطہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ یہ واسطہ ان پوتوں کے باپ ہی ہیں نہ کہ چچا تائے اگر اس سے مراد کوئی بھی اولاد یا بِیٹا ہو تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس کے دادا کے ترکہ سے حصہ دینا غلط ثابت ہوگا والعیاذ باللہ
ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
لہٰذا ہم ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ:
یہ بتلائیے کہ کس عربی شارح الحدیث نے، کس عربی فقیہ نے، یہاں اس عبارت کو ایسے سمجھا ہے، جیسے آپ سمجھ رہے ہو!
اور اگر کس عربی شارح اور عربی فقیہ نے اس طرح نہیں سمجھا، تو سمجھ جائیے کہ آپ کے ترجمہ میں غلطی ہے!
غلام احمد پرویز کے زندگی برباد کرنے اور مغالطے دینے کا تو ہمیں ایسے لوگوں سے کوئی غرض نہیں ہے ہم جو بات کہہ رہے ہیں اس کا مقصدمغالطہ دینا نہیں ہے بلکہ مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہے جو یتیم پوتے کو اس کے حق سے محروم کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور قرآن وحدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اس کی محرومی کو ثابت کرنے کی کوشش کو اسلام اور شریعت اسلامی کی بہت بڑی خدمت سمجھا جاتا ہے۔
ایسی ہی باتیں غلام احمد پرویز بھی کیا کرتا تھا!
اور یہ ''محرومی'' کی جذباتی نعرے بازی چھوڑیئے! جسے قرآن و حدیث نے جو حق نہیں دیا، اسے وہ نہ دینا، اس کے حق سے محروم کرنا نہیں!
یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ فریضہ الِہی ہے جو صرف قرآن و حدیث سے ہی ثابت ہوتا ہے
یہ آپ کا قول ہے، قرآن و حدیث میں تو ایسا نہیں!
اور اس سے اسے محروم کرنے کے لئے قرآن کی کوئی آیت ہونی چاہئے یا کوئی صحیح حدیث۔
ایک بات سمجھ لیں! اگر آپ نے اس مسئلہ میں ''محروم'' کا لفظ استعمال کرنا ہی ہے، تو اسے کم از کم اردو لغت کے اعتبار سے ہی درست استعمال کیجیئے!
قرآن و حدیث نے زیر بحث مسئلہ میں یتیم پوتے کو ''محروم کیا'' نہیں، بلکہ ''محروم رکھا'' ہے! آپ کو ''محروم کرنے'' اور ''محروم رکھنے'' کے فرق کی نزاکت کا اندازہ تو ہو گا! اس لیئے ''محروم کرنے'' کی نہیں بلکہ ''محروم رکھنے'' کی دلیل قرآن و حدیث میں ہے! جو اوپر مراسلوں مین بیان بھی ہوئی ہے!
میں نے تو ابھی کوئی دلیل دی ہی نہیں ہے۔
تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!
یہی تو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں، کہ اگر آپ کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل ہے تو پیش کیجیئے!
پھر سے اپنی غیر مطبوع کتاب کا لنک نہیں دے دیجیئے گا، کہ وہ لنک پر مکمل نہیں! اور اٹیچمنٹ بھی کفایت نہ کر پائے گی، کہ آپ کی اٹیچمنٹ بھی نہیں دیکھی جا رہی!
یعنی کہ آپ قرآن کی وہ آیت اور وہ حدیث پیش کیجئے، جو آپ کے دعوی صادق آتی ہو!
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کی اٹیچمنٹ بھی نہیں دیکھی جا سکتی!
بہتر ہے اٹیچمنٹ کے بجائے، یونیکوڈ میں ہی رقم کیجیئے!

ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ کی اٹیچمنٹ بھی نہیں دیکھی جا سکتی!
بہتر ہے اٹیچمنٹ کے بجائے، یونیکوڈ میں ہی رقم کیجیئے!

ابن حجر العسقلانی نے تویہ بات نہیں کی! یہ تو عربی عبارت پر آپ کی اپنی فہم کا تڑکہ ہے!
ابن حجر العسقلانی نے یہاں
''دُونَهُمْ'' کے معنی کو مفسر کیا ہے کہ ''أَيْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمَيِّتِ'' !
ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:

''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
لہٰذا ہم ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ:
یہ بتلائیے کہ کس عربی شارح الحدیث نے، کس عربی فقیہ نے، یہاں اس عبارت کو ایسے سمجھا ہے، جیسے آپ سمجھ رہے ہو!
اور اگر کس عربی شارح اور عربی فقیہ نے اس طرح نہیں سمجھا، تو سمجھ جائیے کہ آپ کے ترجمہ میں غلطی ہے!

ایسی ہی باتیں غلام احمد پرویز بھی کیا کرتا تھا!
اور یہ ''محرومی'' کی جذباتی نعرے بازی چھوڑیئے! جسے قرآن و حدیث نے جو حق نہیں دیا، اسے وہ نہ دینا، اس کے حق سے محروم کرنا نہیں!

یہ آپ کا قول ہے، قرآن و حدیث میں تو ایسا نہیں!

ایک بات سمجھ لیں! اگر آپ نے اس مسئلہ میں ''محروم'' کا لفظ استعمال کرنا ہی ہے، تو اسے کم از کم اردو لغت کے اعتبار سے ہی درست استعمال کیجیئے!
قرآن و حدیث نے زیر بحث مسئلہ میں یتیم پوتے کو ''محروم کیا'' نہیں، بلکہ ''محروم رکھا'' ہے! آپ کو ''محروم کرنے'' اور ''محروم رکھنے'' کے فرق کی نزاکت کا اندازہ تو ہو گا! اس لیئے ''محروم کرنے'' کی نہیں بلکہ ''محروم رکھنے'' کی دلیل قرآن و حدیث میں ہے! جو اوپر مراسلوں مین بیان بھی ہوئی ہے!

تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!
یہی تو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں، کہ اگر آپ کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل ہے تو پیش کیجیئے!
پھر سے اپنی غیر مطبوع کتاب کا لنک نہیں دے دیجیئے گا، کہ وہ لنک پر مکمل نہیں! اور اٹیچمنٹ بھی کفایت نہ کر پائے گی، کہ آپ کی اٹیچمنٹ بھی نہیں دیکھی جا رہی!
یعنی کہ آپ قرآن کی وہ آیت اور وہ حدیث پیش کیجئے، جو آپ کے دعوی صادق آتی ہو!


ابن حجر العسقلانی تو یہاں سب سے پہلے ہی ان الفاظ میں آپ کے مؤقف کی تردید کرتے ہیں:
''إِذا لم يكن بن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ''
لہٰذا ہم ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ:
یہ بتلائیے کہ کس عربی شارح الحدیث نے، کس عربی فقیہ نے، یہاں اس عبارت کو ایسے سمجھا ہے، جیسے آپ سمجھ رہے ہو!
اور اگر کس عربی شارح اور عربی فقیہ نے اس طرح نہیں سمجھا، تو سمجھ جائیے کہ آپ کے ترجمہ میں غلطی ہے!

ایسی ہی باتیں غلام احمد پرویز بھی کیا کرتا تھا!
اور یہ ''محرومی'' کی جذباتی نعرے بازی چھوڑیئے! جسے قرآن و حدیث نے جو حق نہیں دیا، اسے وہ نہ دینا، اس کے حق سے محروم کرنا نہیں!

یہ آپ کا قول ہے، قرآن و حدیث میں تو ایسا نہیں!

ایک بات سمجھ لیں! اگر آپ نے اس مسئلہ میں ''محروم'' کا لفظ استعمال کرنا ہی ہے، تو اسے کم از کم اردو لغت کے اعتبار سے ہی درست استعمال کیجیئے!
قرآن و حدیث نے زیر بحث مسئلہ میں یتیم پوتے کو ''محروم کیا'' نہیں، بلکہ ''محروم رکھا'' ہے! آپ کو ''محروم کرنے'' اور ''محروم رکھنے'' کے فرق کی نزاکت کا اندازہ تو ہو گا! اس لیئے ''محروم کرنے'' کی نہیں بلکہ ''محروم رکھنے'' کی دلیل قرآن و حدیث میں ہے! جو اوپر مراسلوں مین بیان بھی ہوئی ہے!

تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!
یہی تو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں، کہ اگر آپ کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل ہے تو پیش کیجیئے!
پھر سے اپنی غیر مطبوع کتاب کا لنک نہیں دے دیجیئے گا، کہ وہ لنک پر مکمل نہیں! اور اٹیچمنٹ بھی کفایت نہ کر پائے گی، کہ آپ کی اٹیچمنٹ بھی نہیں دیکھی جا رہی!
یعنی کہ آپ قرآن کی وہ آیت اور وہ حدیث پیش کیجئے، جو آپ کے دعوی صادق آتی ہو!

میرے محترم مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے حق و حصہ کے اثبات کے لئے ہی باندھا ہے انکار کے لئے نہیں۔ ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے معأ بعد یتیم پوتی کے اس کی پھوپھی کے ساتھ حصہ دئے جانے کا باب باندھا ہے جس کے تحت اللہ کے رسول کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو ایک سے زیادہ بیٹیوں کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول تو یتیم پوتی کو میت (دادا) کی بیٹی کا درجہ دے رہے ہیں اور بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ اس کو کتنا دیا جو کچھ بھی دیا وہ اللہ کے حکم اور فرمان کے عین مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے (مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا) یعنی تھوڑا یا زیادہ جس قدر بھی ملا وہ اللہ کا فریضہ تھا نہ تو وہ بھیک تھی اور نہ ہی خیرات بلکہ اللہ کا فریضہ تھا۔ جب اللہ کے رسول بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو حصہ دے رہے ہیں اور بیٹی اس میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔ تو بیٹے (چچا تائے) کے ساتھ یتیم پوتے کو حصہ دئے جانے سے مانع کون سی چیز ہے؟ کوئی آیت یا کوئی حدیث۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' نے جو شرح کی ہے وہ دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے اس وقت حقدار ہونے کے اثبات کے باب کےتحت ہے جب کہ اس یتیم پوتے کا باپ موجود نہ ہو اور اس یتیم پوتے کے چچا تائے موجود ہوں۔اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں اور بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو آیا پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا یا نہیں۔ تو کیا اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ کافی نہیں ہے؟ جس فیصلہ میں آپ نے بیٹی کے ساتھ اس پوتی کو حصہ دیا جس کا باپ موجود نہ تھا۔ اور اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ جس پوتے پوتی کا باپ نہ ہو وفات پا چکا ہو انکو ان کے چچا تائے اور پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی حصہ دیا جائے کیونکہ ان کا حق و حصہ ثابت رہتا ہے کیونکہ جس پوتے پوتی کا باپ موجود نہ ہو وہ بھی میت کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہوتا ہے اور دادا پوتے کے درمیان اولاد و والدیت کے رشتہ کے قائم رہنے کی بنا پر توارث بھی ثابت رہتا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' جس کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا یتیم پوتے کا باپ ہو یا اس کا چچا تایا۔ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا کیونکہ بہر دو صورت وہ اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کی اولاد میں سے ہے جیسا کہ پوتی کو اس کی پھوپھی کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کی اولاد میں سے ہونے کے سبب حصہ ملا۔ جس طرح اس کی پھوپھی اولاد اسی طرح پوتی اولاد میں سے ہے۔ اور جس طرح بیٹا اولاد میں سے ہے اسی طرح پوتا اولاد میں سے ہے بنا بریں یتیم پوتا بھی اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کی اولاد و ذریت میں سے ہی ہے اور اس کے دادا کا ترکہ اس کے والد کا ہی ترکہ ہے جیسے اس کے چچا کے والد کا ترکہ ہے۔ لہذا دونوں کا استحقاق ایک جیسا ہے اصل بحث دادا کے ترکہ میں یتیم پوتے کے استحقاق کی ہی ہے۔ ایک طرف دادا اپنے بیٹے کا والد ہے تو یتیم پوتے کا بھی والد ہے۔ اسی کے بالمقابل جس طرح بیٹا (چچا تایا ) میت کی اولاد ہے ٹھیک اسی طرح سے یتیم پوتا بھی میت (دادا) کی اولاد و ذریت میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں اس کی جملہ اولادوں خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کا حق و حصہ ہے جو اللہ کا فرض کیا ہوا (فریضہ الہی) ہے۔ جیساکہ اللہ کے رسول کا وہ فیصلہ جس کے تحت آپ نے یتیم پوتی کو اس کی پھوپھی کے ساتھ بحیثیت اولاد و بیٹی کے ایک ہی فریضہ میں سے حصہ دیا۔ حافظ ابن حجر نے یتیم پوتے کی دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونے کی دو صورت بیان کی ہے پہلی صورت یہ ہے کہ صرف یتیم پوتے کا باپ نہ ہو ،اور اس کے چچا تائے ہوں تو اس صورت میں بھی یتیم پوتا بمنزلہ صلبی اولاد ہونے کے اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے اور اس صورت میں بھی حقدار و حصہ دار ہے جب کہ اس کے چچا تائے بھی نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یتیم پوتا اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی اپنے دادا کے ترکہ میں محجوب و محروم الارث ہے اور اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے بھی محجوب و محروم الارث ہے کیونکہ باب یتیم پوتے کی دادا کے ترکہ میں استحقاق کے اثبات کا ہے نہ کہ انکار کا۔
میرے محترم ''محروم کیا'' اور ''محروم رکھا'' میں کون سا ایسا فرق ہے جس سے مسئلہ کی نوعیت بدل گئی ہو۔ یا اس کا حکم بدل گیا ہو۔ ذرا اس کی وضاحت و صراحت کردئے ہوتے تو بڑا اچھا ہوتا شاید مجھے بھی آپ کی جیسی اردو آجاتی۔ الفاظ کے ہیر پھیر میں نہ پڑئے اور اصل مسئلہ سے بحث کیجئے ۔ الفاظ کی تعبیرات مختلف ہو سکتی ہیں ۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ میں استحقاق کا ہے اس سے بحث ہونی چاہئے۔ کس آیت یا حدیث صحیح سے یتیم پوتے کا عدم استحقاق ثابت ہوتا ہے اور اس سے یتیم پوتے کی اس کے چچا تائے کے ہوتے محرومی ارث اور محجوبیت لازم آتی ہے اس کو پیش کیجئے۔

آپ نے کہا (ایسی ہی باتیں غلام احمد پرویز بھی کیا کرتا تھا!)
غلام احمد پرویز کیا کرتا تھا اور کیا کہتا تھا ہمیں اس سے بحث نہیں ہے۔ برائے مہربانی ہمیں اس سے نہ جوڑئے اور نہ ہی اصل مسئلہ سے بھٹکائیے۔
آپ نے کہا(جسے قرآن و حدیث نے جو حق نہیں دیا) تو قرآن و حدیث میں کون سی آیت و حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ نہیں ہوتا ہے۔ اسے پیش کیجئے۔
آپ نے کہا (اور یہ ''محرومی'' کی جذباتی نعرے بازی چھوڑیئے! ) تو یتیم پوتے کی اس کے دادا کے ترکہ سے محرومی کا مسئلہ کسی کے لئے جذباتی ہو سکتا ہے اور رہا ہوگا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے ہمیں جس چیز سے بحث کرنا ہے وہ یہ ہے کہ دادا کے ترکہ میں اس کے یتیم پوتے کا اس کے چچا تائے کے ہوتے حق و حصہ ہے یا نہیں اگر نہیں ہے تو اس کی دلیل قرآن کی کون سی آیت ہے یا کون سی حدیث رسول ہے جو صحیح سند سے ثابت ہو۔ رہے علماء کے فتوے اور فقہاء کی آراء و قیاسات تو ہم فرائض و مواریث کے سلسلہ میں ان میں سے کسی کو بھی اس وقت تک نہیں مان سکتے جبتک وہ قرآن و حدیث سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔
آپ نے کہا(تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!) یہ ہے آپ کا ادب اور آپ کی اردو لغت اور تعبیر کہ اب آپ سے تم پر آگئے۔ اللہ کے رسول نے صحیح فرمایا کہ (اذا خاصم فجر)۔
آپ نے کہا (یہی تو ہم آپ سے کہہ رہے ہیں، کہ اگر آپ کے پاس قرآن وحدیث سے دلیل ہے تو پیش کیجیئے!) نیز (یعنی کہ آپ قرآن کی وہ آیت اور وہ حدیث پیش کیجئے، جو آپ کے دعوی صادق آتی ہو!
)
میں نے کہاکہ یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ فریضہ الِہی ہے جو صرف قرآن و حدیث سے ہی ثابت ہوتا ہے

جس کے جواب میں آپ نے کہا کہ یہ آپ کا قول ہے، قرآن و حدیث میں تو ایسا نہیں!
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ میرا قول نہیں بلکہ فرمان الٰہی ہے جیسا کہ فرمایا:

ﱁ ﱂ ﱃ ﱄ ﱅ ﱆ ﱇ ﱈ ﱉ ﱊ ﱋ ﱌ ﱍ ﱎ ﱏ ﱐ ﱑﱒ ﱓ ﱔ[سورة النساء: ٧]
یعنی جو کچھ والدین اور اقرباء چھوڑ گئے ہوں علاحدہ علاحدہ ہر ایک کے ترکہ میں سے بطور وارث مرد و عورت جو بھی موجود ہوں ہر ایک شخص کے لئے علاحدہ علاحدہ ایک ایک حصہ ہے خواہ ترکہ کا مال کم ہو یا زیادہ نیز حصہ کی مقدار کم بنے یا زیادہ۔ کم و بیش جس مقدار میں جس کا جو بھی حصہ نکلتا ہے وہ سب کا سب اللہ کی جانب سے فرض کیا ہوا ہے جو کہ فریضہ الٰہی ہے۔(سورہ النساء:٧)
پس بنیادی طورپروہ سبھی لوگ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں کیا ہے وہ صاحب فرض وارث اور اہل فرائض ہیں جن کا حق و حصہ دیا جانا واجب و فرض ہے اور جس کا انکار کفر ہے کیونکہ وہ اللہ کی جانب سے مقرر کئے ہوئے وارث کا حق و حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بذات خود اس کے حق میں فرض کیا ہوا ہے۔
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے :
ﲃ ﲄ ﲅ ﲆﲇ ﲈ ﲉ ﲊ ﲋ [سورة النساء: ١1]
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری تمام اولاد و ذریت کے بارے میں یہ وصیت کر رہاہے، تاکیدی حکم دے رہا ہے، تم پر فریضہ عائد کر رہا ہے نیز تم سے یہ عہد و پیمان لے رہا ہے کہ جبتک تم زندہ رہو تم اپنی تمام اولادو ذریت کے درمیان بلا واسطہ و بالواسطہ،مرد و عورت جو بھی ہوں ہر ایک کے ساتھ بلا لحاظ مرد و عورت اور بلا واسطہ و بالواسطہ عدل و انصاف، برابری و مساوات کا معاملہ کرواور تمہاری عدم موجودگی میں ان میں سے جو مذکر (مرد) ہوں ان کے لئے ان میں کی دو مونث(عورتوں) کے حصہ کے برابر ایک مذکر (مرد) کا حصہ ہے۔
آگے آکر آیت میں فرمایا:
ﳂ ﳃ ﳄ ﳅ ﳆ ﳇ ﳈ ﳉﳊ ﳋ ﳌ ﳍﳎ ﳏ ﳐ ﳑ ﳒ ﳓ[النساء: 11]
یعنی تمہارے آباء(باپ،دادا، پردادا وغیرہ) ہوں یا تمہارے ابناء(بیٹے، پوتے، پڑپوتے اور نواسے وغیرہ) تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ (علاحدہ علاحدہ فرائض الٰہی) ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
یہ وہ احکام الٰہی ہیں جس سے یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ ایک طرف دادا ہے جو یتیم پوتے کا والد ہے تو دوسری طرف اس کی اولاد و ذریت میں بیٹا(یتیم پوتے کا چچا تایا) اور خود یتیم پوتا ہے اور اللہ کا حکم اور فرمان ہے کہ والدین کے ترکہ میں ہر اس شخص کا حق و حصہ ہے جو میت کی اولاد و ذریت میں سے ہو۔ اور اس سلسلہ میں اللہ کا تاکیدی حکم اولاد کے سلسلہ میں یہ ہے کہ ان کے درمیان عدل ونصاف کرو ، ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو ان کے حصے ان تک پہنچاؤ کیونکہ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے۔ اور یہ مت دیکھو کہ ان میں سے کون قریب تر ہے اور کون دور والا ہے۔ بس اسے اللہ کا فریضہ سمجھ کر اسے ادا کردو اور زیادہ حکمت نہ بگھاڑو کیونکہ تم سے زیادہ اللہ کو حکمتیں آتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان یتیم پوتوں کو ان کے باپ کے واسطے سے پیدا کیا ہے اور یہ اللہ کی حکمت و تدبیر کا ہی حصہ ہے کہ اس نے اس یتیم پوتے کے باپ کو اٹھا لیا اور اس کی جگہ اس کے بیٹے کو لاکھڑا کیا ۔ پہلے بھی وہ اپنے دادا کی اولاد تھا جب اس کا باپ موجود تھا اور اب جب کہ اس کے باپ کو اللہ تعالیٰ نے اسے وفات دیدی ہے تو اپنے باپ کے نہ رہنے پر بھی اپنے دادا کی اسی طرح اولاد ہے جیسے اس کے چچا تائے اولاد ہیں۔ کیونکہ جس طرح اس کے چچا تائے کے مرنے پر اس کا دادا وارث ہوگا اسی طرح اس یتیم پوتے کے مرنے پر بھی دادا ہی اس کا وارث ہوگا نہ یہ کہ اس کے چچا تائے کیونکہ دادا والد ہے اور پوتا اس کی اولاد ہے۔ اور ہر اولاد کا اپنے والد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اسی طرح والدین کا بھی اپنی ہر ہر اولاد کے مال میں حق ہوتا ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ فافہم و تدبر۔ قال تعالیٰ: (فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون)۔
آپ نے کہا: (
''محروم رکھنے'' کی دلیل قرآن و حدیث میں ہے)تو ذرا مجھے بھی قرآن و حدیث کی وہ دلیل لے آکر دکھا دیجئے جس میں یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ سے محروم کیا نہیں بلکہ رکھا گیا ہو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔اور میں آپکا ممنون ہوں گا۔ (فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی اعدت .......)۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے کہا(تو اب تک آپ یہ خواہ مخواہ کی بحث کیوں کیئے، جا رہے ہو!) یہ ہے آپ کا ادب اور آپ کی اردو لغت اور تعبیر کہ اب آپ سے تم پر آگئے۔ اللہ کے رسول نے صحیح فرمایا کہ (اذا خاصم فجر)۔

باقی تو بعد میں تحریر کرتا ہوں، پہلے یہ تو بتائیے، کہ میں نے آپ کو ''تم'' کہہ کر کہاں مخاطب کیا ہے؟ کہ آپ نے مجھ پر بے ادبی کا الزام صادر فرماتے ہوئے، رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی حدیث میں وارد نفاق کی علامت کا صادق آنا بھی ٹھہرا دیا!
میرے بھائی! ذرا ھیرج رکھیئے!ذرا تحمل سے کام لیں! کلام کو غور سے پڑھیں! میں نے آپ کو ''تم'' سے مخاطب نہیں کیا!
بلکہ آپ نے میرے کلام کو خود اپنے ہاتھوں سے تحریر بی کیا، جس میں ''آپ'' کے لفظ موجود ہے! پھر بھی آپ نے یہ نجانے کیسے سمجھ لیا کہ میں نے آپ کو ''تم'' سے مخاطب کیا!
دوم یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ ''تم سے مخاطب کرنا ہر صورت اور ہر جگہ بے ادبی نہیں ہوا کرتا!
لیکن یہ بحث اردو، ادب اور عرف کی جانب نکل جائے گی!
آپ نے بے بنیاد اور خواہ مخواہ ہی جھگڑا اور گالی کشید کرلی!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@مسرور احمد الفرائضی
درج ذیل قرآنی آیات کی رقم کردہ عربی نظر نہیں آرہی، نہیں معلوم ہوتا کہ آپ نے کون سے الفاظ نقل کیئے ہیں، انہیں دوبارہ تحری کر دیں!

ﱁ ﱂ ﱃ ﱄ ﱅ ﱆ ﱇ ﱈ ﱉ ﱊ ﱋ ﱌ ﱍ ﱎ ﱏ ﱐ ﱑﱒ ﱓ ﱔ[سورة النساء: ٧]
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : ﲃ ﲄ ﲅ ﲆﲇ ﲈ ﲉ ﲊ ﲋ [سورة النساء: ١1]
آگے آکر آیت میں فرمایا: ﳂ ﳃ ﳄ ﳅ ﳆ ﳇ ﳈ ﳉﳊ ﳋ ﳌ ﳍﳎ ﳏ ﳐ ﳑ ﳒ ﳓ[النساء: 11]
 
شمولیت
اپریل 22، 2013
پیغامات
65
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@مسرور احمد الفرائضی
درج ذیل قرآنی آیات کی رقم کردہ عربی نظر نہیں آرہی، نہیں معلوم ہوتا کہ آپ نے کون سے الفاظ نقل کیئے ہیں، انہیں دوبارہ تحری کر دیں!

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا[سورة النساء: ٧]
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے : يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ[سورة النساء: 11]
آگے آیت میں فرمایا: آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا [سورة النساء: 11]
 
Top