الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اور یہ ثلثان(دوتہائی حصہ) صرف بیٹیوں کے لئے ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے (بنات ) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (نساء اور فوق) جس میں درجہ بدرجہ بیٹیاں، پوتیاں پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل و شامل ہیں۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ ماشاء اللہ! یہ بھی عجیب لطیفہ ہے کہ اب تک تو دادا کے ''حقیقی باپ اور والد'' کی گردان نہیں چھوڑ رہے تھے، اب پوتیوں کو دادا کی بیٹیاں ماننے سے بھی انکاری ہیں!
اندیشہ ہے کہ آپ کو یہ لطیفہ سمجھ نہیں آیا ہو گا، تو ذرا بیان کردوں، ویسے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ بیان کے بعد بھی سمجھ آئے گا! آدمی جس کا باپ ہوتا ہے، وہ اس آدمی کا بیٹا یا بیٹی ہوتے ہیں!
اب آپ دادا کے ''حقیقی باپ اور والد'' کی گردان تو دہرائے جا رہے ہیں، لیکن یہاں آپ نے پوتی کو بیٹی ماننے سے انکار کر دیا، کہ یہاں ''بنات'' کا لفظ نہیں، کہ صرف بیٹیوں کے لئے ہو، بلکہ ''نساء اور فوق'' کے الفاظ ہیں، جس میں بیٹیاں، پوتیاں، اور پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل ہیں! الجواب:
أقول: جناب من!
آپ خود ایک لطیفہ ہیں۔ میں نے کہا کہ (اور یہ ثلثان(دوتہائی حصہ) صرف بیٹیوں کے لئے ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے (بنات ) کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے بلکہ (نساء اور فوق) جس میں درجہ بدرجہ بیٹیاں، پوتیاں پڑپوتیاں وغیرہ سب داخل و شامل ہیں۔) جس کامطلب ہے کہ اولاد میں بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سبھی آتے ہیں اسی طرح والدین میں ماں باپ دادا دادی، نانا نانی سبھی آتے ہیں۔ اور برابر آپ اس سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں کیونکہ آپ کے یہاں اولاد صرف بنین اور بنات یعنی بیٹوں اور بیٹیوں کو ہی کہتے ہیں۔ اسی تناظر میں میں نے آپ کی اس بات کا رد کرتے ہوئے یہ بات بطور طنز کہی ہے جسے آپ لے اڑے اور آپ کی باچھیں کھل اٹھیں۔ گویا آپ کو ایک ایسا ہتھیار ہاتھ آگیا کہ جس کو استعمال کر لیں گے تو آپ میدان مارلیں گے۔ کیا یہ کسی لطیفے سے کم ہے کہ جو بات آپ کے خلاف بطور طنز کہی گئی ہےآپ اسی بات پر پھولے نہیں سما رہے ہیں ۔ خیر ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ جو بات ہم ابتک برابر کہتے چلے آئے وہ خود آپ نے کہہ دی اور حق آپ کی تحریر سے ظاہر ہوہی گیا کہ (آدمی جس کا باپ ہوتا ہے، وہ اس آدمی کا بیٹا یا بیٹی ہوتے ہیں!) بنا بریں دادا اپنے پوتے پوتیوں کا باپ ہے اس لیئے وہ ان کا وارث اور ان کے ترکہ و میراث کا حقدار اور اس میں حصہ دار ہے۔ اور پوتے پوتیاں اپنے دادا کے بیٹے بیٹیاں ہیں ہے اس لیئے وہ سب اس کے وارث اور اس کے ترکہ و میراث کے حقدار اور اس میں حصہ دار ہیں۔ کیونکہ آپ ہی کے بقول (آدمی جس کا باپ ہوتا ہے، وہ اس آدمی کا بیٹا یا بیٹی ہوتے ہیں!) اس طرح اللہ تعالیٰ حق کو ظاہر کراہی دیتا ہے۔ اور وہ بھی حق کا انکار کرنے والوں کی زبان اور قلم سے۔
میں نے تو کہیں یہ نہیں کہا کہ اولاد و بنین و بنات میں صرف بیٹے بیٹیاں آتے ہیں۔یا پوتے پوتیاں اپنے دادا کی اولاد یعنے بیٹے بیٹیاں نہیں ہیں کہ آنجناب کہہ رہے ہیں کہ: (اب آپ دادا کے ''حقیقی باپ اور والد'' کی گردان تو دہرائے جا رہے ہیں، لیکن یہاں آپ نے پوتی کو بیٹی ماننے سے انکار کر دیا)
تو آپ بتائیں کہ ہم نے پوتی کو بیٹی ماننے سے کب انکارکیا ہے کہ آپ اس درجہ خوش ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ تو آپ ہیں کہ پوتے پوتی کو بیٹا بیٹی، دادا دادی کو باپ ماں ماننے سے انکار کیئے جا رہے ہیں۔
آپ کو اب تک سوائے الٹی باتوں کے کوئی سیدھی بات سمجھ آئی ہے کہ اب سمجھ آجائے گی؟ آپ تو ہرچیز کا الٹا معنی و مفہوم ہی سمجھتے ہیں۔ سیدھی باتیں سمجھنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ تو اللہ کے رسول کا یتیم پوتی کو چھٹا حصہ دینا اور بیٹی کو آدھا دینا ان کی حکمت و مصلحت کے تحت تھی۔ اور اللہ کے اس فرمان (وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ) اور (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب تھا۔
چونکہ ایک طبقہ میں صرف ایک یعنی بیٹی تھی تو اس کو آدھا دیدیا۔ جس کے بعد صرف چھٹا حصہ ہی باقی بچ رہا تو باقی بچا ہوا چھٹا حصہ پوتی کو دیدیا اس طرح بیٹی پوتی کا مجموعی حصہ (ثلثان) دوتہائی ہوگیا اس طرح اللہ کا (نساء ) کے حق میں جو فریضہ تھا وہ پورا ہوگیا۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ ''حکمت و مصلحت'' کی بحث نہیں، بحث یہ ہے کہ حکم کیا ثابت ہوا!
اس حدیث سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ثابت ہوا کہ دادا کی نرینہ أولاد کی عدم مو جودگی میں پوتی دادا کے ترکہ میں حصہ دار ہے، اور وہ حصہ میت یعنی دادا کی ''حقیقی أولاد و بیٹی'' کے حصہ کے برابر نہیں! کیونکہ پوتی دادا کی ''حیقی أولاد وبیٹی'' نہیں! الجواب:
أقول: نہیں جناب اس حدیث سے تو حکم یہی ثابت ہوا کہ چونکہ وراثت کی بناء محض قرابت داری نہیں بلکہ توریث کی بنائے اولین اولاد و والدیت ہے۔ اس لیئے یتیم پوتی اپنے دادا کے ترکہ سے بحیثیت ایک بیٹی و وارث اپنی پھوپھی کے ساتھ حقدار و حصہ دار ہونے کے سبب حصہ پاتی ہے۔ پس بنا بریں اسی طرح یتیم پوتا بھی اپنے دادا کے ترکہ سے بحیثیت ایک بیٹا و وارث اپنے چچا تائے کے ساتھ حقدار و حصہ دار ہے۔ اور (دادا کی نرینہ أولاد کی عدم مو جودگی) کی شرط چونکہ نہ تو قرآن میں کہیں مذکور ہے اور نہ ہی حدیث رسول میں اس کا کہیں دور دور تک پتہ ہے لہذا یہ کلی طور پر بفرمان رسول کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں نہیں ہے وہ باطل و مردود ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اب جو باقی بچا وہ بہن کو دیدیا۔ تو پوتی کو جتنا کچھ ملا وہ اللہ کے مقرر کردہ فریضہ (ثُلُثَا مَا تَرَكَ) میں سے ہی تھا جو کہ (مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا) کے بموجب فریضہ الٰہی ہی تھا۔بھیک، خیرات نہیں تھی۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ پھر وہی نعرے بازی! میاں جی! نعرے بازی سے دلیل قائم نہیں ہوتی! پوتی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کی نرینہ أولاد کے نہ ہونے پر دیا ہے، اور یہی حکم قرآن وحدیث کا ہے! الجواب:
أقول: جناب عالی!
یہ آپ کی رٹ، نعرے بازی اور ہٹ دھرمی ہے کہ آپ بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ (پوتی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کی نرینہ أولاد کے نہ ہونے پر دیا ہے، اور یہی حکم قرآن وحدیث کا ہے!) ۔ یہ شرط کہاں ہے کہ جب دادا کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو تب یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کے ترکہ سے پائیں گے۔ قرآن کی کس آیت میں یہ شرط مذکور ہے یا کونسی حدیث میں ہے دکھائیے تو سہی۔ کہیں آپ کے گپت قرآن وحدیث میں تو نہیں ہے؟ شاید اسی لیئے بار بار کے مطالبہ کے باوجود آنجناب دکھا نہیں رہے ہیں؟۔
آپ نے صحیح کہا کہ (نعرے بازی سے دلیل قائم نہیں ہوتی!) تو آپ نعرے بازی نہ کیجیئے اور قرآن و حدیث کی وہ دلیل پیش کیجیئے جس میں صاف لفظوں میں لکھا ہو کہ پوتے پوتیوں کو دادا کے ترکہ سے حصہ اگر پانا ہے تو لازمی طور پر باپ کے ساتھ ساتھ تمام چچا تایوں کو مرنا ہوگا ورنہ نہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اگر اتنی سیدھی سی بات بھی آپ کے اعلیٰ دماغ اور فہم میں نہیں آپارہی ہے اور سمجھ نہیں پارہے ہیں تو مجھے فالتو باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آپ پہلے تقلید کی بھول بھلیوں سے نکلئے اور تحقیق کے کھلے میدان میں آئیے پھر بات کیجئے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری ہوں یا شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری ہوں یا اور کوئی بڑے سے بڑا عالم محدث، فقیہ ہو اس کی لکھی و کہی ہوئی باتیں اور فتوے کوئی وحی الٰہی نہیں ہیں کہ اس کو بلا چون و چرا مان لینا اور اس پرآنکھ بند کرکے ایمان لانا ہم پر واجب و فرض ہو اور یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا اور فتویٰ دیا وہ سو فیصدی صحیح ہی ہو۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ جناب من! آپ کو کچھ لینا دینا نہیں! یہ محض ڈائیلاگ بازی ہے، حقیقت میں تو آپ ہماری باتوں کو بزعم خویش جواب دینے کے لئے اتاؤلے ہوئے جا رہے ہیں! اسی لئے تو پوچھا تھا کہ کب تک (جاری ہے) جاری رہے گا! کوشش تو تھی کہ اس ویک اینڈ پر مکمل کر لیتا، لیکن ایسا ہوا نہیں، آج کل کام زیادہ ہے! کوشش یہی ہے کہ جلد از جلد مکمل کر لوں!
یہ تو ضروری نہیں، کہ کسی عالم و فقیہ کا ہر فتوی درست ہو، مگر یہ ضرور ہے کہ تمام عالم و فیہ کا متفقہ فتوی غلط نہیں ہوتا! مگر آپ نے اپنے بارے میں گمان کیا ہوا ہے، کہ آپ اکیلے جو فرمائیں، وہ سو فیصدی صحیح ہے! جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے! الجواب:
أقول: جناب عالی !
(تمام عالم و فیہ کا متفقہ فتوی بھی غلط ہوسکتا ہے اگر فتوے کی بنیاد قرآن و حدیث سے ہٹ کر محض گمان و اٹکل بازی پر ہو!) جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ) (سورة الأنعام: 119))
یعنی زیادہ تر لوگ بغیر علم کے محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرنے کے سبب گمراہ ہوتے ہیں۔
نیز فرمایا: (أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115) وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) [سورة الأنعام])
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف طور پر بتا دی ہے کہ اگر اکثریت کی بات مان کر عمل کیا جائے گا تو وہ صریحی طور پر گمراہی ہوگی کیونکہ لوگ محض گمانوں پر چلتے اور اٹکلیں بازیاں کرتے ہیں۔ اور جنہیں اللہ نے کتاب دی ہے تو وہ اللہ کی کتاب پر چلتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اللہ کی جانب سے اتری ہوئی ہے اور وہی حق ہے۔ تو وہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں کرتے ہیں ۔ اور وہ اس کو چھوڑ بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ اللہ کا کلام کامل و مکمل، سچا و عادنہ اور منصفانہ ہے جس کو کوئی ہستی بدلنے والی نہیں ہے تو ہم اس کو چھوڑ کر کسی اور کی کیوں مانیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ساری باتیں تفصیل سے بتادی ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَايَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ))
((وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَايَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ)) (170) ((وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ)) (171) [سورة البقرة] تو آپ ان آیات کا مصداق نہ بنئے۔ آپ کیا ہیں آپ کا عقیدہ منہج کیا ہے مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن بہر حال یہ ایک مومن کا شیوہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہوا ہےکہ قرآنی آیات اور احادیث کا انکار کرکے اپنے علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید میں ان کی کہی ہوئی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان و یقین کیا ہوا ہے۔ اور اس کو حق اور سچ جان کر اس کی بے جا تائید و حمایت اور مدافعت کر رہے ہیں قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ اس خبط میں مبتلا ہیں، کہ کسی کی قرآن وحدیث موافق بات تسلیم کرے سے تقلید لازم آتی ہے، لہٰذا آپ نے تمام علماء کی حق بات کو جو قرآن وحدیث کوموافق ہیں، انہیں بھی رد کرکے قرآن وحدیث کی مخالف خود ساختہ بات کو اپنا دین و ایمان سمجھ لیا ہے! میں اہل الحدیث ہوں، میرا منہج میں بیان کر آیا ہوں، علماء وفقہاء کے اقوال قرآن وسنت کے موافق بھی ہوتے ہیں، اور مبنی بر خطاء بھی، کہ علماء وفقہاء مصیب بھی ہوتے ہیں، اور مخطئ بھی، لیکن علماء وفقہاء کے اقوال وفتاوی کو مطلقاً رد کرنا زندیقیت ہے! الجواب:
أقول: در اصل آپ اس خبط کا شکار ہیں کہ ہم سے پہلے کے علماء و فقہاء نے جو کچھ بھی کہہ دیا ہے وہ سو فیصد حق ہی ہوگااور ان کا سارا کہا ہوا قرآن و حدیث کے موافق ہی ہوگا۔ ان سے کسی غلطی کے ہونے کا امکان نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی کے چلتے آں جناب نے اس مسئلہ میں بھی یہ گمان کر رکھا ہے کہ یہ سو فیصدی صحیح ہی ہے اس میں کسی غلطی کا امکان ہوہی نہیں سکتا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ علماء و فقہاء کے اقوال و فتاویٰ کو مطلقا رد نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کو مطلقا مانا بھی نہیں جا سکتا ہے اگر مطلقا رد کرنا زندیقیت ہے تو مطلقا ماننا اس سے بڑی زندیقیت ہے کیونکہ اس سے ان کی ربوبیت لازم آتی ہے جو کہ کفر اور شرک ہے ۔ اور کسی مخصوص عالم و فقیہ کے جملہ اقوال پر آنکھ بند کرکے عمل کرنا ہی تقلید ہے۔
آپ اپنے کو کہتے تو اہل حدیث ہیں لیکن اہل حدیث کی حقیقت آپ کو معلوم نہیں ہے اور صحیح بات تو یہ ہے کہ آپ نرے مقلد ہیں۔ کیونکہ جو رویہ آپ کی تحریروں سے ابھر کر سامنے آیا ہے وہ بالکل اہل تقلید جیسا ہی ہے، وہی ادائیں، وہی انداز گفتگو، وہی لہجہ، وہی طرز تکلم اور وہی انداز تخاطب اور وہی جھلاہٹیں، وہی لن ترانیاں، وہی ضد، وہی ہٹ دھرمیاں وہی نامعقول منطقی باتیں وہی فلسفے بگھاڑنا سب کچھ ویسا ہی ہے کوئی فرق نہیں۔
آپ نے کہا (تمام علماء کی حق بات کو جو قرآن وحدیث کوموافق) تو پہلے آپ ان تمام کی بات کو قرآن و حدیث کے موافق ثابت کر کے دکھائیں تو سہی ؟ اگر موافق ثابت ہوئی تو ہم تو قبول کرنے کے لیئے تیار بیٹھے ہیں۔ ہم کب انکار کرتے ہیں۔ پہلے ان باتوں کا قرآن و حدیث کے موافق ہونا ثابت تو ہو ؟ ماننے سے کون انکار کر رہا ہے سوائے آپ کے اور آپ جیسے لوگوں کے جو اپنے کو اہل حدیث کہتے تو ہیں لیکن ہیں مقلد یعنی تقلیدی و جعلی اہل حدیث اصلی تحقیقی اہل حدیث نہیں۔ *----------------------------------------------* مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ یتیم پوتے کی محجوبیت اور محرومی ارث کا فتویٰ خواہ جس کسی نے بھی دیا ہو وہ صریحی طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن و حدیث کے صریحی طور پر منافی و مخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے اس لئے باطل و مردود ہے اور اس پر عمل ناجائز و حرام ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ کا مذکوہ بالا قول ''صرح طور پر بے بنیاد، غیر اصولی، غیر عادلانہ، غیر منصفانہ ہے اور قرآن وحدیث کے صریح طور پر منافی ومخالف ہے اور اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے سراسر خلاف ہے، اس لئے باطل ومردود ہے اور آ پ کے اس قول پر نہ صرف عمل ناجائز و حرام ہے، بلکہ اسے درست تصور کرنا بھی ناجائز وحرام ہے!'' دیکھیں یہی باتیں ہم نے بھی لکھ دیں! لیکن صرف یہ دعوی کرنے سے کیا ہو گا! بات تو تب ہے کہ دعوی پر دلیل بھی ہو! اور ہمارے دعوی پر دلیل موجود ہے! جو بیان کی جا چکی ہے! اور ایک بار پھر تفصیل سے بیان ہو گی! لیکن آپ کا نرا دعوی ہی ہے، دلیل ناباشد! الجواب: جناب من!
آپ نے کہا(بات تو تب ہے کہ دعوی پر دلیل بھی ہو! اور ہمارے دعوی پر دلیل موجود ہے! جو بیان کی جا چکی ہے!)
تو ہم آپ سے یہی تو برابر کہے جارہے ہیں کہ جو آپ دعویٰ کیئے جا رہے ہیں کہ (ہمارے دعوی پر دلیل موجود ہے!) تو آپ اس کو پیش کرنے سے عاجز کیوں ہیں اور کترا کیوں رہے ہیں۔ آخر بار بار مطالبے کے باوجود پیش کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ آخر اس دلیل کو کسی خفیہ صندوق میں چھپا رکھا ہے کہ جسکے گم ہو جانے کا آپ کو خدشہ ہے۔ یا آپ دلیل کے انجام سے ڈر رہے ہیں آپ اپنی دلیل کو پیش کیجیئے ہم اسے پوری دیانت داری اور ایمانداری سے اسی طرح لوٹادینگے اور ضائع نہیں ہونے دینگے۔ تو برائے مہربانی پیش کیجیئے بس دعوے مت کیئے جائیے۔ مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اب اگر آپ جیسے اعلیٰ فہم وفراست کے دعویدار لوگوں کی عقل و دماغ اور فہم میں یہ بات نہیں آرہی ہے تو یہ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست، عقل اور دماغ کا قصور ہے اس کے لئے کوئی کیا کر سکتا ہے ۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا! پاگل خانہ میں پاگلوں کے ڈاکٹر سے ایک پاگل نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ اس پاگل خانہ سے باہر نہ جائیے گا، وہاں سب پاگل ہیں، اور سب پاگل مجھے پاگل کہتے ہیں!
آپ کا معاملہ اسی پاگل کی طرح ہے! کہ آپ کی عقل وخرد میں قرآن وحدیث کا درست مفہوم نہیں آرہا، تو آپ دوسروں کو الزام دیتے ہیں کہ انہیں درست سمجھ نہیں آیا! جبکہ آپ کا اپنا بیان ہی آپ کے موقف کے بطلان کو کافی ہے! اس کا اپنا تضاد یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کو قرآن وحدیث کا درست موقف سمجھ نہیں آیا! الجواب: جناب من!
لگتا ہے آپ کسی پاگل خانہ سے ہی نکل کر آئے ہوئے ہیں اسی لیئے آپ پاگلوں جیسی باتیں کیئے جا رہے ہیں۔ در حقیقت یہ لطیفہ آپ پر صحیح فٹ ہوتا ہے کہ کسی کی عقل و خرد میں قرآن وحدیث کے خلاف جب ایک بے بنیاد بات بیٹھ جاتی ہے اور وہ اس کو قرآن و حدیث کے موافق لگتی ہے تو وہ اس کو درست مان لیتا ہے اور فتویٰ جاری کردیتا ہے تو جو اس کے اندھے ماننے والے ہوتے ہیں وہ اس کو آنکھ بند کرکے ماننے لگ جاتے ہیں۔ جیساکہ آپ اور آپ جیسے لوگوں نے اس شخص کی کہی ہوئی بات کو جس پر آپ اعتماد کرتےہیں بلا سوچے سمجھے مان لیا اور اس کا حق ہونا یقین کرلیا لہذا اس کی اندھی تقلید میں آمنا صدقنا کہا اور پھر اس کے دفاع میں کھڑے ہوگئے اور اپنے پاگل پن میں پاگلوں کی طرح بلا سوچے سمجھے اس کو قرآن وحدیث کے موافق کی رٹ لگانے اور بڑبڑانے لگ گئے۔ جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر ہے۔ مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلانا، سمجھانا، لے آنا اور باور کرانا چاہتے ہیں اور ہم سے زور زبردستی سے منوانا چاہتے ہیں قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ الزام در الزام! وہ بھی جھوٹ پر جھوٹ! کون آپ سے زبردستی منوا رہا ہے! ہم تو صرف بتلا رہے ہیں، ماننا نہ ماننا، آپ کی مرضی! ہم تو صرف بتلا سکتے ہیں، نہ منوا سکتے ہیں، نہ سمجھا سکتے ہیں! آپ نے اگر قرآن وحدیث کی معنوی تحریف کرنے کی ٹھان ہی لی ہے، تو آپ کو ہم تو نہیں روک سکتے! ہم تو صرف نصیحت ہی کر سکتے ہیں! اور اس کے نتیجہ سے آگاہ ہی کر سکتے ہیں! ہم نے آپ کو ساتھ کون سی ''زبردستی'' کر دی ہے؟ اب آپ بیوقوفی والی باتیں لکھیں گے، تو اسے تو بیوقفی کہا جائے گا! آپ اپنی کم علمی وکج فہمی میں قرآن وحدیث میں معنوی تحریف کریں گے، تو یہ تو بتلایا جائے گا!
دیکھیں میرے بھائی! ہم آپ سے حسن ظن رکھتے ہوئے کہتے ہیں، کہ آپ قرآن وحدیث میں معنوی تحریف اپنی کم علمی وکج فہمی و بیوقوفی میں فرما رہے ہیں! اگر یہ حسن ظن نہ ہو تو آپ کو دانستہ قرآن وحدیث میں تحریف کا ارتکاب کرے کے کفر کے سبب کافر کہا جائے! الجواب: جناب من! الزام تراشی، سب و شتم، زور زبردستی تو ابتک آپ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی لفظی و معنوی تحریف کا ارتکاب تو آپ نے اور جس کی تقلید و تائید میں آپ یہ لمبی چوڑی بحث کیئے جارہے ہیں انہوں نے کی ہے۔ سب سے بڑی علمی خیانت اور تحریف لفظی و تحریف معنوی یتیم پوتے کے حق وراثت کے سلسلہ میں یہ کی گئی کہ اللہ کی قائم کی ہوئی حد وں کو توڑتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کی اولاد و ذریت سے خارج کیا گیا اور قریبی بتایا گیا اور دادا کو اس کا والد و باپ ماننے سے صریحی طور پر انکار کیا گیا اور یہ کہ دادا اپنے پوتے کا والد و باپ نہیں بلکہ قریبی ہے ایسا محض اس لئے کہ یتیم پوتے کو محجوب و محروم الارث ثابت کیا جا سکے پھر اس کو صحیح ٹھرانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف لفظی و معنوی کرتے ہوئے لفظ (الوالدان) کے بجائے لفظ (الاقربون) سے استدلال کیا گیا۔ اسی طرح حدیث رسول میں بھی تحریف لفظی و معنوی دونوں کی گئی اور کلام رسول (الحقوا الفرائض باہلہا) کے بجائے (اولیٰ رجل ذکر) سے استدلال پیش کیا گیا اور فتویٰ دیدیا گیا کہ یتیم پوتا کسی بھی بیٹے کے ہوتے ہوئے نہ تو اپنے دادا کی اولاد ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا وارث بن سکتا ہےاور نہ ہی اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہی بن سکتا ہے۔ اور کریلا نیم چڑھا کی طرح مزید یہ کہا گیا کہ جب تک میت کی کوئی بھی نرینہ اولاد ہو یتیم پوتا نہ تو اپنے دادا کی اولاد میں سے ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی ذریت میں سے ہی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی حق و حصہ ہی بن سکتا ہے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ جب تک یتیم پوتے کے چچا تائے میں سے کوئی بھی زندہ ہوتب تک یتیم پوتے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے دادا کی مطلقہ بیوی (جو کہ اس کی دادی لگتی ہے) سے نکاح کر سکتا ہے اور جب سارے چچا تائے مرجائیں گے تب وہ اپنے دادا کی اولاد و بیٹا اور وارث ہوگا اور تب جاکر اس کے دادا کی مطلقہ بیوی (جو کہ اس کی دادی لگتی ہے) سے نکاح حرام ہوگا۔ کیونکہ چچا تائے کے رہتے وہ نہ تو اپنے دادا کی اولاد میں سے ہےاور نہ ہی اس کی ذریت اور صلبی ابناء میں سے ہے۔ کیونکہ وہ اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کا قریبی ہے اولاد نہیں لہذا اس سے نکاح جائز ہوا؟۔ مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ وہ سب لوگوں کی باتیں ہیں اللہ ورسول کلام و فرمان نہیں ہے سب قیاسی اور اٹکل پچو باتیں ہیں جس پر اللہ کی جانب سے نازل کردہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ علماء وفقہاء کی یہ بات کہ ''پوتا دادا کے ترکمہ میں اسی صورت وراثت کا حقدار ہوتا ہے، جب دادا کی نرینہ أولاد نہ ہو'' اللہ کی نازل کردہ قرآن وحدیث کے موافق ہے، اور اس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں! الجواب: جناب من! آپ یہ جملہ (جب دادا کی نرینہ أولاد نہ ہو) کہاں سے لائے ہیں؟ اور قرآن کی کونسی آیت میں ایسا لکھا ہوا ہے یا کس حدیث میں یہ مذکور ہ؟ پیش کیجیئے آخر آپ پیش کیوں نہیں کر رہے ہیں؟۔ اور آپ پیش کیوں کر کر سکتے ہیں کیونکہ قرآن و حدیث میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں تو کیا خاک پیش کریں گے!
یہ تو آپ نے اپنے گھر میں گڑھا بنایا ہے اور اسے اللہ و رسول پر تھوپ دیا ہے۔ اور لکھ دیا کہ (اللہ کی نازل کردہ قرآن وحدیث کے موافق ہے، اور اس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں!) کہاں ہیں قرآن و حدیث کے وہ دلائل جس کے ہونے کا دعویٰ کیئے جارہے ہیں ذرا اسے دکھائیے تو سہی۔ اسی کا تو برابر آپ سے مطالبہ کیا جارہا ہے جس سے آپ عاجز ہیں اور ادھر ادھر کی باتیں کیئے جارہے ہیں۔
کونسی قرآن کی آیت اور حدیث رسول ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب میت کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو تب یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگا؟۔ پیش کیجیئے۔ بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ لہذا برائے مہر بانی ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں اور میرے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کریں جو ہم نے اٹھایا ہے:۔ (جب اللہ کے رسول نے بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے اس فریضہ میں سے حصہ دیا جو بیٹے نہ ہونے کی صورت میں ایک سے زیادہ بیٹیوں کا ہوتا ہے۔ اور یتیم پوتی کے لئے پھوپھی رکاوٹ نہ بنی تو وہ کون سی ایسی آیت اور حدیث ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چچا تائے کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے کو اس کے دادا کے ترکہ میں سے حصہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟) قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ کے اس سوال کا جواب متعدد بار تفصیل سے دیا جا چکا ہے، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوتی کو دادا کی نرینہ أولاد نہ ہونے پر دادا کے ترکہ سے حصہ دیا تھا! اور آپ کا دادا کی نرینہ أولاد کی موجودگی کو زنانہ أولاد کی موجودگی پر قیاس کرنا باطل ہے! کیونکہ قرآن وحدیث نرینہ أولاد کی موجودگی کا حکم موجود ہے، اور حکم کی موجودگی میں قیاس باطل ہوتا ہے! الجواب: جناب من! تو پھر آپ وہ شرط قرآن و حدیث میں دکھائیے کہ (پوتے پوتی کو دادا کی نرینہ أولاد نہ ہونے پر دادا کے ترکہ سے حصہ دیا جائے گا!) ۔ کہاں یہ شرط لکھی ہوئی ہے۔
جناب من جس جواب کی آپ بات کر رہے ہیں وہ جواب نہیں محض بکواس ہی ہے۔ اولاد اولاد ہی ہوتی ہے خواہ مذکر ہو یا مونث ہو۔ اولاد ہونے کی حیثیت میں دونوں برابر ہیں اور استحقاق دونوں کا ایک جیسا ہے۔البتہ مقدار حصص میں دونوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ استحقاق میں کوئی فرق نہیں ہے فرق اگر ہے تو صرف حصوں کی مقدار میں ہے اور معیار اللہ تعالیٰ نے مونث اولاد کو ہی بنایا ہے یعنی پہلے مونث اولاد کا حصہ نکالوپھر ایک مونث اولاد کا جوحصہ نکلتا ہے اس کے دوگنا ایک مذکر اولاد کو حصہ دو۔ اور ساری اولاد کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یکساں وصیت کی ہے خواہ وہ مذکر ہو یا مونث، بیٹا بیٹی ہوں یا پوتے پوتیاں ہوں سب کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر بلا فرق و امتیاز کیئے وصیت کی ہے مذکر و مونث کے مابین تفریق نہیں کی البتہ جب ان کے حصے کی مقدار متعین کرنے کا معاملہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے مذکر اولاد کو مونث اولاد کے دوگنا حصہ متعین کیا۔ لیکن جب کوئی مذکر اولاد نہ ہو بلکہ سب کی سب مونث اولادیں ہوں یعنی بیٹیاں ہی بیٹیاں یا صرف بیٹی یا بیٹی و پوتی یاصرف پوتیاں تو اللہ کا فرمان ہے کہ ایک سے زیادہ مونث اولاد کا مجموعی حصہ دو تہائی اور صرف ایک مونث اولاد کا آدھا حصہ۔ یہ تو اللہ کا فرمان ہے اور اسی فرمان الٰہی کے بموجب اللہ کے رسول نے بیٹی (یتیم پوتی کی پھوپھی ) اور یتیم پوتی کو حصہ دیا ۔ تو جب بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی اپنے دادا کے ترکہ سے بفرمان الٰہی و بفیصلہ نبوی حصہ پا سکتی ہے تو بیٹے کے ساتھ یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ کیوں نہیں پاسکتا ہے؟۔ یہی ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس بات کا ثبوت آخر کون سی آیت اورر حدیث میں ہے؟
جب اللہ و رسول کے یہاں بیٹی کے ساتھ یتیم پوتی کے حصہ پانے میں اس کی پھوپھی مانع نہیں تو بیٹے کے ساتھ یتیم پوتے کے حصہ پانے میں اس کا چچا تایا کیونکر مانع ہو سکتا ہے؟۔ اور آپ کا یہ کہنا : (کیونکہ قرآن وحدیث نرینہ أولاد کی موجودگی کا حکم موجود ہے، اور حکم کی موجودگی میں قیاس باطل ہوتا ہے!) ۔
تو آپ کا یہ کہنا اور یہ جملہ کہ (جب دادا کی نرینہ أولاد نہ ہو) قطعی طور پر اللہ کی پاکیزہ شریعت اور دین میں کھلی ہوئی مداخلت اور اللہ و رسول پر افتراء پردازی اور جھوٹ گھڑنا ہے جس کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں کی ہے۔ اور اگر ہے تو قرآن کی وہ آیت اور وہ حدیث پیش کریں جس میں یہ حکم موجود ہے جس کا آپ یا آپ جس کی تقلید کرتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:
(کیونکہ قرآن وحدیث نرینہ أولاد کی موجودگی کا حکم موجود ہے، اور حکم کی موجودگی میں قیاس باطل ہوتا ہے!)
تو کہاں ہے وہ حکم اور کونسی ہے وہ آیت یا حدیث جس کی موجودگی کا آپ نے دعویٰ کیا ہے۔ اور میرا یہ چیلنج ہے کہ قیامت آجائے گی لیکن آپ یا آپ جیسے لاکھوں اور کروڑوں لوگ جو کتاب و سنت کا ٹھیکہ لیئے بیٹھے ہیں اور قرآن و حدیث کی صحیح فہم کے دعویدار ہیں پیش نہیں کر سکتے۔
قرآن و حدیث آپ کی یا آپ جیسے لوگوں کی جاگیر نہیں ہے کہ جو آپ سمجھیں اور کہیں وہی صحیح ہو اور دوسرا کوئی کہے تو وہ غلط ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو یہ ہے: (فوق کل ذی علم علیم) ہر علم والے پر اس سے بڑھ کر علم والا موجود ہوتا ہے۔
پاگل، دیوانہ، مجنوں وغیرہ وغیرہ یہ سارے الفاظ تو کفار و مشرکین اللہ کے انبیاء و رسولوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں تو اگر آج آپ یا آپ جیسے لوگ جو قرآن و حدیث کا صریحی طور پر انکار کیئے جا رہے ہیں۔ کہیں تو بموجب فرمان الٰہی: (یضاہئون قول الذین کفرو) کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔
میں نے صرف ایک ایسے مسئلہ کے تعلق سے جس کا تعلق فریضۂ الٰہی، حدود الٰہی سے ہے اور اس کا بنیادی، خالص مصدر صرف اور صرف قرآن و حدیث ہے اور اسی کی بنیاد پر میں نے اس غلطی کی نشاندہی کی ہے جو قرآن و حدیث سے میل نہیں کھاتی تو بجائے آپ اس پر غور کرنے کے لگے پاگل دیوانہ اور نہ جانے کیا کیا کہنے۔ اور بجائے اس کے کہ آپ میری باتوں پر سنجیدگی سے غور و فکر کرتے اور اگر وہ آپ کو غلط لگی تو آپ قرآن و حدیث کی دلیلوں سے ہمیں قائل کرتے لگے ہفوات بکنے۔ اور ہٹ دھرمی دکھانے کہ نہیں آپ تو پاگل دیوانے، کم فہم، کج فہم، کم علم وغیرہ وغیرہ ہو۔ میں نے جو کہا وہی صحیح ہے اور آپ غلط ہیں۔ اور جب آپ سے قرآن و حدیث کی دلیل مانگی جاتی ہے تو آپ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ کھلے طور پر اللہ و رسول کے احکام و فرامین کا انکار تک کر بیٹھتے ہیں۔
فرائض و مواریث کے تعلق سے چند گنی چنی آیات ہیں جن کی مجموعی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوتی ہےاور صرف تین آیتیں ہیں جن میں وارثوں کے حقوق و حصے بیان کیئے گئے ہیں ان میں سے ایک آیت اولاد و والدین کے بارے میں ہے اور ایک آیت شوہر بیوی اور اخیافی بھائی بہنوں کے بارے میں ہے اور تیسری آیت سگے و علاتی بھائی بہنوں کے حق اور حصہ کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔
اور صرف ایک حدیث ہے جس میں ورثاء کے حصے دینے کے بعد جو بچ رہتا ہے وہ کسے دیا جائے اس سوال کے جواب کے طور پر اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ باقی بچا ہوا حصہ اولی مرد مذکر کا ہے۔ اس میں عصبہ وغیرہ کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ ہ تو بعد کے لوگوں نے حسابی اصول بنائے اور ذوی الفروض، عصبات، عصبہ بنفسہ، عصبہ بغیرہ، عصبہ مع غیرہ کی اصطلاحیں ایجاد کیں اور اصول فرائض نام دے دیا جو حسابی اصول کے تحت فقہاء کی ایجاد کردہ اصطلاحیں ہیں کوئی اللہ کا نازل کردہ قانون نہیں ہے۔
جناب من!
جس کو آپ اللہ کا قانون کہہ اور سمجھ رہے وہ حقیقت میں لوگوں کا بنایا ہوا قانون اور محض ایک حسابی اصول ہے۔ اور آپ نے جس کو شرط مانا ہے وہ آپ نے اپنے گھر میں گڑھا بنایا ہے اور اسے اللہ و رسول پر تھوپ دیا ہے۔ اور لکھ دیا کہ (اللہ کی نازل کردہ قرآن وحدیث کے موافق ہے، اور اس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں!) کہاں ہیں قرآن و حدیث کے وہ دلائل جس کے ہونے کا دعویٰ کیئے جارہے ہیں ذرا اسے دکھائیے تو سہی۔ اسی کا مطالبہ تو آپ سے کیا جارہا ہے جس سے آپ عاجز ہیں اور ادھر ادھر کی باتیں کیئے جارہے ہیں۔
کونسی قرآن کی آیت اور حدیث رسول ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب میت کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو تب یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہوگا؟۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اس کے جواب میں آپ (ابن داود نے کہا ہے)لکھ رہے ہیں: آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!
تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو! یہ ''یتیم، یتیم'' کر کرے جذباتی نعرے بازی نہیں کیجئے! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا یہ جملہ (آپ تو یوں فرما رہے ہیں) بالکل ہی غلط اور اللہ رسول کی شان میں بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے کیونکہ فرمانا تو صرف اللہ و رسول کا کام ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((إِنِالْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ)) (57)، ((أَلَا لَهُالْحُكْمُ)) (62) [الأنعام]، ((مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِالْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40))، ((إِنِالْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67)) [يوسف]، ((يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْيَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (44))) [المائدة] یعنی حکم اور فرمان تو صرف اللہ کا ہے اور فرمانے کا کام تو صرف اللہ و رسول کی شان ہے کسی بندے کی شان نہیں ہے تو برائے مہربانی میرے تعلق سے یہ جملہ آئندہ استعمال نہ کیجئے گا۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ ماشاء اللہ! آپ میں تو خوارج کے جراثیم و کیڑے بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں! بعین وہی خوارجیوں واا نعرہ لگا دیا! اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کے حق میں ''حکم'' اور ''فرمان'' کے لفظ کے استعمال کو اللہ اور رسول اللہ کی گستاخی بھی قرار دے دیا! اول کہ جناب کو اتنی بھی سمجھ نہیں، کہ ''آپ نے فرمایا'' کے معنی یہاں ''آپ نے حکم دیا'' نہیں بلکہ آپ نے کہا'' ہوتا ہے! دوم کہ ''آپ نے فرمایا'' ادب و احترام کا صیغہ ہے!
ویسے اب ہم آپ کے لئے ''فرمایا'' کا لفظ استعمال نہیں کریں گے! وہ اس لئے کہ آپ ادب واحترام کے مستحق معلوم نہیں ہوتے! آپ تو اپنے کلام و اقوال کے لئے ''آپ نے بکا'' یا '' آپ نے بکواس کی'' کے الفاظ کے مستحق ہیں، مگر ہم یہ بھی نہیں کریں گے! آئندہ ہم آپ کے لئے، ''آپ نے کہا'' کی طرح کے الفاظ ہی استعمال کریں گے، کہ آپ ادب واحترام کے مستحق نہیں! الجواب:
أقول: جناب من!
آپ جیسے جاہل اور بد تمیز انسان سے اس کے علاوہ اور کسی بات کی توقع ہی کیا کی جا سکتی ہے۔
جب آپ نے ایک عالم ، حافظ قرآن شخص کو بدتمیزی کے ساتھ انتہائی گھناونے انداز میں مخاطب کیا جن کا آپ سے کچھ بھی لینا دینا نہ تھا۔ محض اس مسئلہ کے چلتے کہ انہوں نے اس مسئلہ کی شرعی حیثیت پر اعتراض کیا تھا اور اسے قرآن و حدیث اور اصول کے خلاف بتایا تھا تبھی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ انتہا درجہ کے بے ہودہ ، بد تمیز، انتہائی جاہل اور احمق شخص ہیں۔ لیکن اب یقین ہوگیا ہے کہ جیسا میں نے آپ کے بارے میں اندازہ کیا آپ بعینہ ویسے ہی ہیں اور آپ ہی جیسے بے ہودہ ، بدتمیز اشخاص ، جاہل و احمق نفس پرست لوگ ہی مسلک اہل حدیث کے لیئے سب سے بڑی رکاوٹ اور کلنک ہیں یہی نہیں بلکہ خود اسلام کے لیئے بھی رکاوٹ ہیں۔ جیسے یہی زیر بحث مسئلہ قرآن و حدیث والے دین اسلام پر بدنما داغ اور کلنک ہے۔
اگر ایک طرف اسلم جیراجپوری انکار حدیث کے چلتے گمراہ تھے تو دوسری طرف ثناء اللہ امرتسری جن کے فتوے کو آپ جیسے جاہلوں نے وحی الٰہی سمجھ رکھا ہے ان سے بھی بدتر گمراہ تھے کہ وہ ذات باری تعالیٰ اور صفات باری تعالیٰ کے چلتے ان پر باقاعدہ اعلیٰ شرعی عدالت سے کفر کا فتویٰ لگا ااور ان کے کفر پر دلیل و ثبوت کسی اور نے فراہم نہیں کیا بلکہ خود علمائے اہل حدیث نے ہی فراہم کیا تھا۔ اور ایک دو دلیل و ثبوت نہیں بلکہ چالیس ثبوت پیش کیئے تھے اور آج بھی ان کی ضلالت و گمراہی کے وہ زندہ ثبوت ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ باوجودیکہ انہوں نے چند فکری و عقائدی غلطیوں کے چلتے سرسید خاں کے اوپر کفر کا فتویٰ لگایا اور مرزائیوں، قادیانیوں اور نیچریوں ، آریوں، عیسائیوں وغیرہ سے مناظرے کیئے۔ لیکن وہ خود عقائد کی گندگی کا شکار تھے۔
صرف میں نے ایک بات قرآنی آیات کی روشنی میں اللہ و رسول کے فرمان کی عظمت میں کہہ کیا دی کہ (حکم اور فرمان تو صرف اللہ کا ہے اور فرمانے کا کام تو صرف اللہ و رسول کی شان ہے کسی بندے کی شان نہیں ہے تو برائے مہربانی میرے تعلق سے یہ جملہ آئندہ استعمال نہ کیجئے گا۔) تو آپ نے مجھے خوارج میں شمار کر لیا۔ اور میں نے یتیم پوتے کی محجوبیت کے شرعی ہونے کا انکار کیا کردیا کہ آپ جیسے جاہل احمق اور نفس پرست نے تو میرا ناطہ منکرین حدیث، مرزائیوں اور قادیانیوں سے جوڑ دیا ۔ آپ جیسے بد تمیز جاہل احمق لوگوں نے ہی حافظ اسلم جیراجپوری کو اپنی ہٹ دھرمی اور جہالت کے چلتے انکار حدیث کا راستہ دکھایا۔
آں جناب نے کہا (آپ ادب واحترام کے مستحق معلوم نہیں ہوتے) نیز کہا کہ (آپ ادب واحترام کے مستحق نہیں! ) تو کون آپ جیسے جاہل احمق اور بد تمیز شخص سے ادب و احترام کا مطالبہ کر رہا ہے جسے ادب و احترام آتا ہی نہیں ہے۔ جو نہ تو اللہ کے کلام کا اور نہ ہی رسول کے فرمان کا احترام کرتا ہو وہ کسی اللہ و رسول کی بات کرنے والے کا کیا خاک احترام کریگا۔ کہا جاتا ہے کہ چھلنی سے وہی گرتا ہے جو اس میں ہوتا ہے۔ مشک سے خوشبو ملتی ہے اور گوہ گوبر سے سوائے بدبو کے دوسرا کچھ نہیں ملتا ہے۔
جو آدمی اس درجہ جاہل و احمق ہو کہ اس کو نہ تو صحیح تلفظ کا پتا ہو اور نہ ہی جملہ ہی درست لکھنا آئے وہ قرآن و حدیث کو کیا خاک سمجھے گا اور اوپر سے طرہ یہ کہ ہم قرآن و حدیث اور دین اسلام کے ٹھیکیدار ہیں؟
جناب عالی لکھتے ہیں (بعین وہی خوارجیوں واا نعرہ لگا دیا!)
لگتا ہے کہ قرآن و حدیث اور دین اسلام آپ کے باپ دادا کی جاگیر ہے جن پر آپ کی ہی اجارہ داری ہے۔
ہم نے صرف اللہ و رسول کے ادب و احترام میں ایک بات کہہ دی اور وہ بھی قرآن کی آیت کے تناظر میں کہی تو ہم خارجی ہوگئے۔ اور آنجناب نے پورے قرآن وحدیث کے احترام کو بالائے طاق رکھا اور اس کا انکار کیا تو یہ داخلی کے داخلی ہی رہے۔ لگتا ہے کہ حق اور ہدایت کا اللہ تعالیٰ نے ان کو ٹھیکہ دے رکھا ہے۔ اور جناب صحیح قرآن دانی اور قرآن فہمی کا ٹھیکہ لیکر پیدا ہوئے ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ میں نے لکھا : جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔ اس پر آنجناب لکھتے ہیں: ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا! یہ آپ ہمارے کلام کو اس کے سیاق سے پھیر کر کیوں لکھتے ہیں؟ میرا یہ جملہ آپ کے درج ذیل کلام پر تھا! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا آپ نے ابھی جو بات کہی ہے: مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ میں نے لکھا : جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ چچا تائے مانع اور حاجب نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا کی اولاد اس کے وارث اور اس کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور خود اصول فرائض میں حجب کا پہلا اصول ہے کہ جو بالواسطہ وارث ہو تو وہ اپنے واسطے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے جیسے باپ کے ہوتے دادا محجوب و محروم الارث ہےاور عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے ۔ یتیم پوتے کے ترکہ میں تو دادا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اور دادا کے ترکہ میں وہی پوتا چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہے۔ یہ کونسی شریعت اور کونسا دین ہے؟۔ Click to expand... قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اس پر ہم نے یہ نہیں لکھا تھا! اور نہ ہی یہ کلام آپ کا اس ترتیب و الفاظ میں پہلے لکھا ہے، بلکہ یہ کلام آپ نے ابھی لکھا ہے! اب آتے ہیں آپ کے اس کلام پر جس پر ہم نے یہ نقد کیا تھا:
آپ کا کلام درج ذیل ہے: یعنی یتیم پوتا بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے۔ یعنی جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا جیسا کہ اللہ کے رسول نے یتیم پوتی کو اس کے باپ کی عدم موجود گی میں حصہ دیا۔ اسی طرح جب اس کا چچا بھی نہ ہوگا تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا آپ نے یہاں کہا کہ ''یتیم پوتا'' دادا کے ترکہ میں حقدار و حصہ دار ہے، یعنی جب ''یتیم پعتے'' کا ''باپ نہ ہو'' تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا!
آپ کے اس جملہ میں تقص ہے، اس نقص کو ہم نے بیان کیا کہ: آپ تو یوں فرما رہے ہیں کہ ''یتیم پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پائیں گے،'' کہ گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا! کوئی یتیم ہوتا ہی، اس وقت ہے، جب اس کا باپ نہ ہو! اور کہ آپ نے ''بھی'' کا لفظ استعمال کیا ہے! اس لفظ ''بھی'' کا تقاضا ہے کہ اس کے مخالف، یعنی ''باپ کے ہونے'' پر بھی یہی حکم صادر ہو!
مسئلہ آپ کا یہ ہے، کہ آپ ''یتیم'' کی نعرے بازی میں، یہ نہیں سمجھ پارہے، کہ جب آپ نے ''یتیم'' کہا ہے، تو پھر آگے، ''باپ کے نہ ہونے'' پر''بھی'' کہنے سے لازم آتا ہے، کہ ''پاب کے ہونے'' پر ''بھی'' وہی حکم صادر! کیوںکہ ''پاب کے نہ ہونے'' پر ''یتیم ہونے والے'' کی ''باپ کے ہونے'' سے ہستی میں فرق نہیں آتا، وہ وہی ہستی رہتی ہے!
معاملہ یہ ہے کہ یتیم کی نعرے بازی کے چکر میں آپ اپنا مدعا دم تحریر میں نہیں لا پا رہے؛ ہم آپ کو سکھلاتے ہیں، کہ آپ کا موقف کیسے دم تحریر میں لایا جا سکتا ہے!
آپ کو یوں لکھنا چاہیئے تھا: ''جب یتیم پوتے کے چچا تائے ہوں ہو تب بھی یتیم پوتا اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا اور چچا تائے نہ ہوں تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ '' مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ یہ ہے آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست۔ میں نے تو لکھا تھا کہ جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے اور جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو اور چچا تائے بھی نہ ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ میں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں وارث، حقدار و حصہ دار ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ یہ آپ کا جھوٹ ہے، یہ آپ نے پہلے، نہیں لکھا تھا، یہ آپ نے اب لکھا ہے!
دوم کہ اب بھی آپ کے کلام میں نقص ہے، کہ جب آپ نے ''یتیم پوتے'' لکھا ہے، تو پھر یہ کہنا کہ ''جب اس کا باپ نہ ہو'' لا یعنی وفضول ہے!
اور اتنی مختصر عبارت میں آپ نے دو بار اس لا یعنی وفضول بات کو دہرایا ہے!
اسی لئے ہم آپ سے عرض کر رہے ہیں، کہ آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں، ''گویا کہ باپ کی موجودگی میں وہ دادا کے ترکہ سے حصہ پاتا'' یعنی کہ یتیم پوتا، اگر اس کا باپ ہوتا، یعنی وہ ''یتیم'' نہ ہوتا، تب بھی دادا کے ترکہ میں حصہ پاتا! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ آنجناب کی اعلیٰ فہم اور فراست کا یہ عالم ہے کہ اس کا معنی و مفہوم یہ نکال رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ (گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!) اب اس احمقانہ بات کا کیا جواب دیا جائے۔ سچ کہا کسی نے کہ (جواب جاہلاں باشد خموشی) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
: (وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُواسَلَامًا)(الفرقان: 63) دیکھیں میاں! یہ احمقانہ عبارت آپ کی ہے، اور ہم نے آپ کی عبارت کا احمقانہ ہونا ہی بتلایا اور بیان کیا ہے! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اب آنجناب کے پاس اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ جب پوتے کا باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی حقدار وحصہ دار ہی ہوگا ایسے پوتے کا توکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ جب آپ کو اتنی سمجھ ہے، تو آپ اپنے کلام میں بھی اس کا لحاظ کیا کریں! ایسے احمقانہ فقرے کہ''جب یتیم پوتے کا باپ نہ ہو'' لکھنے سے گریز کریں!
مگر معاملہ یہ ہے کہ امام بخاری نے جو باب قائم کیا ہے، اور امام ابن حجر نے جس کی شرح کی ہے، وہ محض ''یتیم'' پوتے کے متعلق نہیں،امام بخاری نے ''بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ''یعنی پوتے کی میراث کا باب ''إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ'' یعنی جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو، قائم کیا ہے!
اور آپ اس میں ''یتیم'' کا تڑکہ لگا کر امام بخاری اور امام ابن حجر کے کلام کے معنی کو پھیرنے کی کوشش میں مشغول ہیں!
یہ الگ بات ہے کہ باب میں مذکور شرط سے یہ لازم آتا ہے، یعنی کے شرط میں شامل ہے کہ پوتا اسی صورت دادا کے ترکہ میں حصہ دار وحقدار قرار پاتا ہے، جب اس کا باپ حیات نہ ہو، خواہ وہ ''یتیم'' ہویا نہ ہو! اور باپ کے ہوتے ہوئے ''إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ'' کی شرط پوری نہیں ہوتی!
مزید کہ اس شرط کے پورا ہونے کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ پوتے کے چچا تائے بھی نہ ہوں! کیونکہ ان کے ہونے سے بھی ''اذا لم يکم ابن'' کی شرط پوری نہیں ہوتی! الجواب:
أقول: جناب من !
آپ نے تو جہالت اور حماقت کی حد و انتہاء کو بھی پار رکھا ہے۔ جب کوئی بیٹا وفات پاچکا ہو اور اس کا بیٹا اس کے بعد زندہ ہو تو وہ یتیم ہے خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ بہر دو صورت وہ یتیم ہے۔ حافظ ابن حجر کے نسخہ کے مطابق جو کہ نسخہ یونینیہ سے منقول ہے ترجمۃ الباب یوں ہے: ((بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ) جس کا آںجناب نے بڑے ہی شاطرانہ انداز میں انتہائی چالاکی دکھاتے ہوئے اپنا خود ساختہ مفہوم حاصل کرنے کے لیئے ترجمہ یوں کیا ہے: یعنی پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) یہیں سے یتیم پوتے کے حق میں بے ایمانی اور لفظی و معنوی تحریف کا سلسلہ شروع ہوا اور یتیم پوتے کے محجوب و محروم الارث کے فتوے پر جا کر ختم ہوا۔
در اصل امام بخاری سے منسوب یہ باب تحریف شدہ ہے اور کسی نے بڑی ہی چالاکی سے اس میں پہلے لفظی تحریف کی اس کے بعد معنوی تحریف کے لیئے راستہ ہموار کیا۔ اصل میں یہ عبارت جو صحیح بخاری کے اصل نسخے کے الفاظ ہیں وہ کچھ یوں ہیں: (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس کا باپ نہ ہو۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تایا ہوں یا نہ ہوں۔
باب کے یہ الفاظ حافظ ابن حجر سے تقریبا پچاس سال پہلے لکھی گئی شرح بخاری میں موجود اور آج بھی محفوظ ہیں اور اس سے بھی پہلے لکھی گئی ایک شرح کے بھی یہی الفاظ ہیں جو اس مسئلہ کو بالکل واضح کردیتے ہیں۔ اور ساری حجت و بکواس کا قلع قمع کردیتے ہیں۔
اگر ہم حافظ ابن حجر کی شرح کے اندر مذکور باب کے یہ الفاظ بھی مان لیں تو بھی اس کا معنی وہی بنتا ہے جو دوسری شرح میں مذکور باب کے الفاظ ہیں۔ دونوں میں کوئی معنوی فرق نہیں ہے باوجودیکہ چند حروف کا فرق ہے۔
کیونکہ ترجمۃ الباب کے ان الفاظ یوں ہے: ((بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)) یعنی (پوتے کی میراث کا بیان جب بیٹا نہ ہو)۔ تو اس کا بھی وہی معنی و مفہوم بنتا ہے کہ اگر میت کے متعدد بیٹے ہیں تو ان میں کا کوئی ایک بیٹا یا کئی ایک بیٹے وفات پاگئے ہوں تو ان کے بیٹے وارث ہیں۔کیونکہ اس کے معا بعد امام بخاری نے صحابی رسول زید بن ثابت کا یہ قول نقل کیا ہے : (وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ) یعنی زید بن ثابت نے کہا کہ بیٹوں کی اولادیں (پوتے پوتیاں) بمنزلہ اولا د (یعنی ان بیٹے بیٹیوں کے درجہ میں) ہیں جب ان کے اوپر ان کے اور ان کے دادا کے مابین کے بیٹے نہ ہوں یعنی ان کے باپ نہ ہوں۔
آں جناب نے اس عبارت کے ترجمہ میں خیانت و بد دیانتی اور معنوی تحریف اس طرح کی کہ اس کا معنی و مفہوم اور حکم بالکل ہی الٹ گیا ۔ یعنی جو باب امام بخاری نے یتیم پوتے کے حق وراثت کے اثبات کی غرض سے قائم کیا، باندھا تھا وہ ان کی وراثت چھیننے کا باب بن گیا۔ چنانچہ آں جناب نے (اپنا خود ساختہ مفہوم حاصل کرنے کے لیئے ترجمہ یوں کیا: یعنی پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) تو اس ترجمہ میں دانستہ طور پر (دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) کے جملہ میں لفظ (کوئی!) کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ عربی عبارت میں اس کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔
یہ صریحی طور پر امام بخاری کے کلام میں کھلی تحریف اور دھاندھلی ہے۔ ترجمہ میں (دادا کا) لفظ تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ دادا کے ترکہ کا ہی مسئلہ درپیش ہے لیکن (کوئی) کے لفظ کی کوئی اصل اور عبارت ہرگز ہرگز عربی کی عبارت میں نہیں ہے یہ خود ساختہ مفہوم پیدا کرنے کے لیئے چپکے سے ترجمہ میں داخل کردیا گیا ہے جو سراسر علمی و شرعی بد دیانتی اور تحریف لفظی و معنوی ہے۔ کیونکہ اس سے پوری عبارت کا معنی و مطلب ہی بدل گیا۔
اگر (کوئی) کا معنی و مفہوم مقصود ہوتا تو عربی زبان میں اس کے لیئے ایک لفظ موجود ہے اور وہ لفظ ہے : (أَيَّ) ۔ جو عربی زبان میں کئی معانی کے لئے مستعمل ہے۔ جس کا ایک معنی کوئی، کون سی وغیرہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ اس پر کلام باری تعالیٰ شاہد ہے کیونکہ قرآن میں یہ لفظ متعدد مقام پر مختلف معانی کے لیئے آیا ہوا ہے:
((قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ) (سورة الأنعام: 19))
(ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا (سورة الكهف: 12))
(وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا (سورة مريم: 73))
(وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (سورة الشعراء: 227))
(مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (سورة عبس: 18))
(فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ (سورة الانفطار: 8))
تو اگر (دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) کا معنی مفہوم لینا مقصود ہوتا تو عبارت یوں ہوتی: ((بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ أَيَّ ابْنٍ)) تب اس کا ترجمہ یوں ہوتا: (پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) جب کہ عبارت یہ ہے ((بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)) تو اس ترجمہ ہوتا ہے کہ پوتے کی میراث کا بیان جب بیٹا نہ ہو۔
اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ جب میت کے متعدد بیٹوں میں سے کچھ زندہ ہوں اور کچھ وفات پاگئے ہوں تو جو بیٹا اس کی زندگی میں وفات پاجائے تو اس کا بیٹا وارث ہے۔
((بَابُ مِيرَاثِ ابْنِ الِابْنِ إِذَا لَمْ يَكُنِ أَيَّ ابْنٍ)) کا ترجمہ یوں کرنا کہ: (پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) انتہا درجہ کی بے ایمانی و بد دیانتی اور کھلی ہوئی دھندھلی و تحریف لفظی و معنوی ہے کیونکہ باب کی عربی عبارت میں اردو کے لفظ (کوئی) کا کوئی بھی عربی لفظ نہیں پایا جاتا ہے لیکن خود ساختہ مفہوم پیدا کرنے کے لیئے چپکے سے اردو ترجمہ میں (کوئی) کا لفظ داخل کردیا گیا ہے اور باب کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے: (پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!)
یہ حد درجہ کی بے ایمانی و بد دیانتی ہے اور یہودیوں کی سی حرکت ہے اور یہ ترجمہ : : (پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) لفظی و معنوی دونوں تحریف ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت صرف اور صرف اس لیئے پیش آئی کیونکہ یہ ثابت کرنا تھا کہ جب تک مرنے والے کا ایک بھی بیٹا زندہ ہے کسی بھی پوتے کا کوئی بھی حق و حصہ اس کے دادا کے ترکہ میں نہیں بنتا ہے۔ حالانکہ اس باب کے باندھنے سے امام بخاری کا مقصد یہ ہرگز نہ تھا بلکہ وہ تو اس باب کے ذریعہ صرف یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ اگر مرنے والے کے متعدد بیٹوں میں سے کچھ بیٹے زندہ ہوں اور کچھ وفات پا چکے ہوں تو جو جو بیٹے اپنے باپ کی زندگی میں مر گئے ہوں تو ان کے بیٹے بیٹیاں بمنزلہ اولاد (بیٹے بیٹی کے درجہ میں) ہونے کے اپنے دادا کے وارث اور اس کے ترکہ کے حقدار و حصہ دار ہونگے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن خود ساختہ مفہوم پیدا کرنے کے لیئے چپکے سے اردو ترجمہ میں (کوئی) کا لفظ داخل کردیا گیا اور باب کا ترجمہ یوں کیا گیا: (پوتے کی میراث کا باب جب دادا کا کوئی بیٹا نہ ہو!) اور اس ترجمہ میں بھی اس بات کی گنجائش نکل سکتی تھی کہ چچا تائے کے ہونے پر کوئی پوتا وارث ہو سکتا تھا تو اس گنجائش کو ختم کرنے کے لیئے یہ کہا گیا کہ نہ تو پوتے کا باپ ہو اور نہ ہی چچا تایا ہو تب پوتا وارث ہوگا۔
یہ انتہا درجہ کی بد دیانتی، صریحی بے ایمانی اور کھلی ہوئی دھاندھلی ہے اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ جو انتہائی قابل مذمت حرکت ہے۔ جو اللہ کی مقدس شریعت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
در اصل امام بخاری نے جو باب باندھا ہے وہ کچھ یوں ہے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس کا باپ نہ ہو۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تایا ہوں یا نہ ہوں۔
یعنی امام بخاری نے تو یتیم پوتے کے وارث ہونے کا باب باندھا تھا لیکن بے ایمان بد دیانت جھوٹے فریبی لوگوں نے اپنی بے ایمانی، بد دیانتی اور فریب کے چلتے تحریف کر کے اس کو یتیم پوتے کے محجوب و محروم الارث ہونے کا باب بنا ڈالا۔
اور قرآن وحدیث کو بہت زیادہ امام بخاری سے بھی زیادہ صحیح سمجھنے والوں نے اس کو اپنی تحریف کلم کے چلتے غیر وارث ہونے کا باب بنا ڈالا۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آٹھویں صدی کے امام اور محدث شارح بخاری حافظ ابن الملقن نے اپنی شرح بخاری میں صحیح بخاری کے اس باب کے یہی الفاظ ثبت کیئے ہیں: (((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))) یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تایا ہوں یا نہ ہوں۔
باب کے یہ الفاظ حافظ ابن حجر سے تقریبا پچاس سال پہلے لکھی گئی شرح بخاری میں موجود ہے اور وہ الفاظ آج بھی محفوظ ہیں اور اس سے بھی پہلے لکھی گئی ایک شرح شرح ابن بطال کے بھی یہی الفاظ ہیں جو اس مسئلہ کو بالکل واضح کردیتے ہیں۔ کہ یتیم پوتا صرف اور صرف اپنے باپ کے ہوتے ہی محجوب اور محروم الارث ہے اپنے چچا تائے کے ہوتے قطعی طور پر محجوب اور محروم الارث نہیں ہے ۔ تو حافظ ابن الملقن اور حافظ ابن بطال کی شروح میں موجود باب کے الفاظ لوگوں کی ساری حجت و بکواس کا قلع قمع کردیتے ہیں۔
ان الفاظ کے تعلق سے حافظ ابن الملقن کی شرح کے محققین و مشرفین حضرات (خالد الرباط، جمعة فتحي، فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم أستاذ الحديث بجامعة الأزهر) نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ : (كذا: ((إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).) یعنی صحیح بخاری کے باب کے اصل الفاظ ((له أبٌ)) جو شرح ابن الملقن سے منقول ہیں یہی ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں اس کے بجائے ((ابن)) کا لفظ ہے ۔ اور حافظ ابن حجر کی شرح میں باب کے جو الفاظ ہیں وہ نسخہ یونینیہ سے ہی ماخوذ ہیں واضح رہے کہ حافظ ابن الملقن کی وفات حافظ ابن حجر سے تقریبا پچا س سال پہلے ہو چکی تھی یعنی حافظ ابن الملقن کی وفات سن (۸۰۴ ھ) میں ہوئی جبکہ حافظ ابن حجر کی وفات سن (۸۵۲ ھ) میں ہوئی ۔
پس اس طرح کی علمی خیانتوں اور بد دیانتیوں کو جو سراسر علمی و شرعی بد دیانتی اور تحریف لفظی و معنوی ہے۔ کو اگر کوئی وحی الٰہی اور شریعت سماوی سمجھتا اور اس پر ایمان رکھتا ہے تو ایسا دین و ایمان اسی کو مبارک ہو۔ ایسا شخص کم از کم اہل حدیث نہیں ہے اب اس کے علاوہ جو بھی ہو وہ ہو۔ محض (کوئی) کے ایک لفظ کے معمولی اضافہ سے صحیح بخاری کے باب کی پوری عبارت کا معنی و مطلب ہی بدل گیا۔اور دانستہ طور پر (کوئی) کے لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تاکہ خود ساختہ معنی و مفہوم حاصل کیا جا سکے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ مسئلہ تو اس پوتے کا ہے جس کا باپ نہیں ہے اور اس کے چچا تائے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس یتیم پوتے کا اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہے یا نہیں ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ یہ مسئلہ آپ نے پہلی بار درست تحریر کیا ہے! وگرنہ اس سے قبل تو ''یتیم'' کی نعرے بازی آپ کو مسئلہ بھی درست تحریر کرنے سے مانع تھی! اس کا جواب ہے، نہیں! الجواب:
أقول: جناب من !
آپ کے نزدیک اس کا جواب نہیں ہے لیکن ہمارا جواب یہ ہے کہ نہیں! ہرگز نہیں! قطعی نہیں! کبھی بھی نہیں!
کیونکہ صحیح بخاری کے اس باب کے یہ درج ذیل الفاظ ہیں:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہوں اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ ہوں تب بھی وارث ہے اور یہی بات امام بخاری نے بھی کہی ہے اور حافظ ابن حجر شارح بخاری نے بھی کہی ہے۔
تو جب پوتا اپنے باپ کے نہ رہنے پر وارث ہے تو چچا تائے کے رہتے بھی وارث ہے اور ان کے نہ رہنے پر بھی وارث ہے اور رہے گا۔ اور آپ طوطے کی طرح نہیں نہیں کی رٹ لگاتے رہیئے۔ آپ کی نہیں نہیں کا نعرہ محض نعرہ ہی رہے گا بلکہ پاگل کی ایک بڑ ہی شمار کیا جائے گا اور آپ کی جہالت و ضلالت کا ثبوت پیش کرتا رہے گا۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ بس اتنی سی بات ہے قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اور اتنی سی بات آپ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے! کہ پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو! الجواب:
أقول: جناب من!
اگر شرط ہے تو پھر دکھائیے کہ قرآن کی کس آیت میں مذکور ہے یا کونسی حدیث میں لکھی ہوئی ہے؟
ہمیں آپ کی اس سراسر من گھڑت بات اور بالکل ہی سفید جھوٹ پر مبنی شرط اور اسے ماخوذ حکم کو ماننا ہی نہیں ہے۔ یہ آپ کو ہی مبارک ہو۔ ہم اس خود ساختہ گھر بنائی ہوئی شرط اور اس سے ماخوذ حکم کہ (پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو!) قطعی نہیں مانتے اور نہ ہی کبھی بھی مان سکتے ہیں کیونکہ ہم بالیقین جانتے ہیں کہ ایسی کوئی شرط نہ تو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں مذکور ہے اور نہ ہی ایسی کوئی شرط اللہ کے رسول کی کسی بھی حدیث میں ہی موجود ہے اور نہ ہی امام بخاری نے ہی اپنی مقدس کتاب صحیح بخاری میں بیان کی ہے ۔ لہذا اس طرح کی کوئی بھی خود ساختہ، من گھڑت، خانہ ساز شرط یکسر باطل و مردود ہے اور یہ آپ اور آپ کے پرکھوں کی گھر بنائی ہوئی شرط، شریعت اور حکم ہے ۔ ایسی ہزار شرطیں بھی ہوں وہ سب کی سب بموجب فرمان رسول باطل و مردود ہیںاور نا قابل التفات ہیں۔ جو نہ تو قرآن و حدیث میں ہی ہیں او ر نہ ہی صحیح بخاری میں ہی ہیں۔ لہذا آپ اپنی اور اپنے پرکھوں کی لگائی گئی یہ اور اس جیسی ہزاروں شرطوں کو اپنے جعلی، خانہ ساز تقلیدی شریعت میں ہی محفوظ رکھیئے وہ آپ جیسے احمقوں، جاہلوں، پاگلوں، بے ایمانوں بد دیانتوں، جعل سازوں، اور جعلی، خانہ ساز تقلیدی شریعت کے اندھے مقلد لوگوں ہی کے کام کی ہیں۔ ہمارے جیسے لوگوں کے کام آنے والی نہیں ہیں۔
کیونکہ صحیح بخاری کے اس باب کے یہ درج ذیل الفاظ ہیں:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔
یا اگر ان الفاظ کو ہی لے لیا جائے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ ابْنٌ)))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب میت کا بیٹا نہ ہو۔
ہمارے لیئے دلیل بین اور حجت قاطع ہےجس کا واضح مطلب اور معنی مفہوم یہی ہے کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے چچا تائے ہوں اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ ہوں تب بھی پوتا وارث ہے اور یہی بات امام بخاری نے بھی کہی ہے اور حافظ ابن حجر شارح بخاری نے بھی کہی ہے۔
آپ اور آپ جیسے جعل سازوں، بے ایمانوں اور بد دیانت لوگوں کی بد دیانتی اور بے ایمانیوں سے اللہ کا دین اور اس کی شریعت بدل نہیں جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین، اپنی شریعت اپنی کتاب اپنے رسول کی سنت و احادیث کی حفاظت کا ذمہ خود ہی لے رکھا ہے اسی لیئے اللہ ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہتا ہے جو اللہ کے دین اور اس کی شریعت میں کی گئی جعل سازیوں کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ (ان شاء اللہ )
آپ کے اردو ترجمہ میں محض اس ایک لفظ (کوئی) کے معمولی سے اضافہ سے ہی صحیح بخاری کے باب کی پوری عبارت کا معنی و مطلب بدلا ورنہ باب کی عربی عبارت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو آپ کے من گھڑت خود ساختہ موقف اور گھر بنائی شریعت پر دلالت کرتی ہو۔اور (کوئی) کے لفظ کا اضافہ جان بوجھ کر دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔ جو اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی کی احادیث اور دین و شریعت میں کھلی دھاندھلی اور فریب باری اور کھلواڑ کرنا ہے۔
اللہ و رسول ایسی من گھڑت باتوں ایسی تحریف شدہ شرطوں اور حکموں سے قطعی طور پر بریٔ الذمہ ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ رہا یہ مسئلہ کہ یتیم پوتے کا نہ تو باپ ہی ہے اور نہ چچا تائے ہی ہیں تو ایسی صورت میں یتیم پوتے کے اس کے دادا کے ترکہ و میراث میں حق و حصہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ جس شخص کو نہ تو بات ڈھنگ سے کہنے کا ہی شعور ہو اور نہ ہی بات کو ڈھنگ سے سمجھنے کا ہی شعور ہو تو ایسے شخص کو اس جیسے نازک اور خطرناک شرعی مسئلہ میں بولنےاور لکھنے کی جرات ہی نہیں کرنی چاہئے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ کو واقعی شرعی مسائل میں گفتگو نہیں، کرنی چاہئے، کہ آپ ایک جملہ تو ڈھنگ سے لکھ نہیں پا رہے! ''یتیم'' کی نعرے بازی پھر آڑے آ گئی! متعدد بار آپ کو بتلایا ہے، کہ کہ جب ''یتیم'' کہہ دیا ہے، تو ''نہ تو باپ ہی ہے'' کہنا لا یعنی وفضول ہے! آپ یہ ایک جملہ تو ڈھنگ سے لکھ نہیں پا رہے!
ہمیں معلوم ہے، کہ آپ کس مسئلہ میں اختلاف کر رہے ہیں، اور کہاں اختلاف نہیں کر رہے!
ہمیں تو یاد ہے، کہ آپ نے تو رہر صورت، ہر ہر پوتے، بلکہ نواسے نواسیوں کو بھی وراثت کا حصہ دار قرار دیا تھا! اب آپ یہ بھول گئے ہیں!
معالمہ یہ ہے کہ آپ اپنے موقف کے اثبات پر جو کلام کرتے ہیں، اس کا مقتضی یہ سارے مسائل پیدا کرتا ہے، مگر آپ کو اپنے ہی کلام کے مقتضی کی سمجھ نہیں! اس لئے آپ کو بتلایا جاتا ہے، کہ آپ کے کلام کا مقتضی تو یہ بنتا ہے، پوتے کو باپ کی موجودگی میں بھی دادا کی وراثت سے حصہ دیا جائے!
اور آپ نے تو جذبات میں کہا تھا اس کا پرزور إقرار کیا تھا!
اب آپ کو نسیان کا مرض بھی کافی سنگین ہے،
ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں: ہم نے آپ کے کلام کا مقتضی بیان کرتے ہوئے کہا تھا: تو جناب! پھر یوں کہیئے کہ ہر پوتے پوتی کا دادا کی وراثت میں حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!
ہاں میں کہتا ہوں : ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے الجواب:
أقول: جناب من!
آپ جیسے لوگوں کو (واقعی شرعی مسائل میں گفتگو نہیں، کرنی چاہئے، کیونکہ آپ نہ تو کسی لفظ کا معنی و مطلب اور مفہوم ہی جانتے سمجھتے ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ ولد، والد، اور یتیم کا مصداق کون ہے اور کون کون لوگ اس میں آتے ہیں۔ اور وراثت کی بنائے اولین کیا ہے آپ کا تو یہ حال ہے کہ یہ تک نہیں جانتے کہ (ولد) و (ابن)، (والد) و (اب)، (عبس) اور (عبث) میں کیا فرق ہے؟ ےجانتے سمجھتے ہیں ایک جملہ ((بعین وہی خوارجیوں واا نعرہ لگا دیا!) ) تو ڈھنگ سے لکھ نہیں پا رہے ہیں!)
اور آپ کے پاس اس رٹ کہ ((پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو!) ) کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جب کہ اس کی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ اس کا کوئی سر پیر ہی ہے۔
ہاں میں ایک بار پھر کہتا ہوں اور بار بار کہتا رہوں گا کہ (ہر پوتے پوتی کا اس کے دادا کی وراثت میں حق و حصہ ہے، خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو!اور جو کسی انسان نے نہیں بلکہ اس کے خالق و مالک اور رازی اللہ رب العالمین نے عطا کیا ہے جسے کوئی انسان چھیں نہیں سکتا اور جو اس کو چھیننے کی بات کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے کے بیٹے ہی چھین لیتا ہے۔ پھر اس کت پوتے ہی اس کے وارث بنتے ہیں۔
اور یہی نہیں بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں : ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے)
آپ بجائے اس کے کہ مجھے مرض نسیان کے علاج کا مشورہ دیں اپنے پاگل پن اور تقلیدی اندھے پن کا علاج کریں ۔ تو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔
آپ نے تو عربی عبارت کے ترجمہ میں کھلی تحریف، تاویل بیجا اور دھاندھلی کی ہے اور دانستہ طور پر ترجمہ میں (کوئی ) کے لفظ کا اضافہ کیا ہے اور گھڑا معنی و مفہوم بتایا ہے کہ جب میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تب یتیم پوتا اپنے دادا کا وارث ہوگا۔ جو صریحی طور پر جھوٹی و من گھڑت بات ہے جس کا اللہ و رسول اور ان کی پاکیزہ شریعت سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ ہاں میں کہتا ہوں :ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اب آ پ اس بات کو بھول گئے، اور اس کے برخلاف کہتے ہیں، کہ مسئلہ ''اس پوتے کا ہے ، جس کا باپ نہیں'' آپ کے موقف کے مطابق تو باپ کا ہونا، نہ ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں! آپ تو کہہ رہے تھے کہ دادا کے ترکہ میں ہر ہر پوتے کا حصہ ہے! اب یہ آپ کی تضاد بیانیاں ہیں! آپ کو مشورہ ہے، کہ آپ ان أمور میں اٹکل پچو مارنا چھوڑیں، اور کوئی ایسا کام کریں، جس میں دماغ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو! الجواب:
أقول: جناب من!
ہم آپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ شریعت کے ایک نازک اور خطرناک مسئلہ میں اپنے سر کو نہ کھپائیں ۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ آپ اپنی جہالت و تقلیدی ذہنیت کو سامنے لائیں اور بیجا مداخلت کر کے بحث میں شامل ہوں۔ میں نے تو آپ کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ میرے مخاطب تو کفایت اللہ سنابلی تھے اور آپ نے ان کی جانب سے دلالی شروع کردی اور وہ خاموش و ٹھنڈے پڑ گئے اور آپ نے اپنی بکواس کا سلسہ شروع کردیا اور اس کو ابتک جاری رکھے ہوئے ہیں۔اور اپنی جہالت و حماقت کا مظاہرہ برابر کیئے جارہے ہیں۔ اور اٹکل پچو بکے اور ادھر ادھر کی ہانکے جا رہے ہیں اصل نکتہ پر بحث ہی نہیں کر رہے ہیں۔ میرا کہنا صرف یہ تھا کہ (ہر ہر پوتے پوتی کا ان کے دادا دادی کے ترکہ میں ہی نہیں بلکہ نواسے نواسی کا بھی ان کے نانا نانی کے ترکہ میں حصہ ہے)
لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں نکلتا کہ سب کو اکٹھا بٹھا کر بیک وقت ہر ایک کو دیا جائے۔ کیونکہ حق و حصہ کا ہونا اور دینا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ حق و حصہ تو ہے اور یقینا ہے لیکن ان کا حق و حصہ بواسطہ ان کے ماں باپ کے ہے تو جب ان کےباپ ماں خود موجود ہیں تو ان کے واسطے سے ان تک میت کا حصہ پہنچے گا اور جب ان کے ماں باپ جو کہ ان کا واسطہ ہیں نہیں رہیں گے تب انہیں براہ راست ملے گا یہی فیصلہ اللہ و رسول کا ہے۔ اور اس بنیاد پر امام بخاری نے صحیح بخاری میں یتیم پوتے اور پوتی کا الگ الگ باب بندھا ہے ۔ جب کہ اس سے قبل آپ نے بیٹے بیٹی کا باب باندھ رکھا ہے۔
اس میں میں نے کون سے ایسی بات کہہ دی جو آپ کے بقول (لا یعنی وفضول ہے!) ۔ در اصل آپ کو صرف بکواس ہی کرنا ہے آپ کو نفس مسئلہ سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آپ صرف کٹھ حجتی و بکواس، بے ہودگی وبدتمیزی کے مظاہرے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس طرح آپ صرف اور صرف اپنی جہالت و حماقت اور بیوقوفی کا نمونہ ہی پیش کر رہے ہیں۔
میرے بھائی!
یہ بات آپ کو ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ زیر بحث مسئلہ ایک خاص موضوع پر ہے اور خاص الخاص علمی بحث ہے کوئی عام سا مسئلہ نہیں ہے کہ بس چند کتابیں پڑھ لیں چند قواعد یاد کر لیئے اور لگے بحث مباحثے کرنے۔کوئی بھی علمی بحث علمی بنیادوں پر کی جاتی ہے اور ایسی علمی بحث صرف اور صرف ایک ایسے شخص کو کرنی چاہیئے جس کے پاس اپنا خود کا علم ہو کسی کا طوطے کی طرح رٹا رٹایا جملہ یا سکھایا پڑھایا ہوا سبق نہ ہو۔ زیر بحث مسئلہ ایک ایسامسئلہ ہے جو انتہائی اہم، نازک ترین، حساس اور خطرناک ترین شرعی مسئلہ ہے جس کا بنیادی مصدر و مرجع اور ماخذ صرف اللہ کی کتاب ہی ہے اور چند چنندہ احادیث ہیں۔ اور جو کچھ بھی فرائض کے نام پر فقہی کتابوں میں پڑھا پڑھایا جاتا ہے وہ محض فقہی و حسابی اصول ہیں جن میں کچھ ہی ایسے ہیں جو قرآن و حدیث سے مستدل ہیں جبکہ ان میں سے اکثر محض ظنون پر مبنی آراء و اقوال اور قیاسات ہی ہیں۔ جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اگر تحقیق و تدقیق کے بعد قرآن و حدیث کے موافق نکلے اور اگر اس کے خلاف ثابت ہوئے تو یقینی طور پر غلط ہیں جن کا رد کردینا لازمی امر ہے۔
نہ ان سارے حسابی اصولوں کو من و عن بلا تحقیق و تدقیق کے مانا جا سکتا ہے اور نہ ہی ردکیا جا سکتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ یہ کوئی شوقیہ چیز اور تفریحی مسئلہ نہیں ہے کہ چلو تھوڑا تفریح کرلیتے ہیں اور یہ آپ کا کام نہیں ہے اور آپ کو زیبا نہیں دیتا کہ آپ اس نازک اور خطرناک مسئلہ میں کچھ بھی لکھیں۔ لہذا یہ تفریح بند کردیں۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ ویسے میں آپ کی ''خود اعتمادی'' کی داد دیتا ہوں! کہ اس قدر لا یعنی، اور تضاد سے بھرپور کلام کرنے بعد بھی، دوسروں پر الزام عائد کرنا! واقعی کمال بات ہے! الجواب:
أقول: جناب من !
آپ کی داد دہی اور واہ واہی کی قطعی کوئی ضرورت و حاجت نہیں ہے۔ اور میرے اس مسئلہ کو چھیڑنے اور منظر عام پر لانے کا مقصد کسی کی واہ واہی لوٹنا نہیں ہے کہ آپ مجھے داد دے رہے ہیں اور میں اس سے خوش ہو رہاہوں ہرگز نہیں۔ میں نے اس مسئلہ کو اپنی تحقیق کا موضوع اس لیئے بنایا تا کہ اللہ کے اس فرمان پر عمل کر سکوں کہ یتیم کے حق میں انصاف کے لیئے کھڑے ہو جاؤ! جیسا کہ فرمایا: ((وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامَى بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا) (سورة النساء: 127))
(وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة آل عمران: 18))
بنا بریں صرف اس ایک مسئلہ پر تقریبا بیس سال کا طویل وقت صرف کیا ہے۔
رہا خود اعتمادی اور لایعنی اور تضاد سے بھر پور کلام کا مسئلہ جیسا کہ آپ نے کہا: (ویسے میں آپ کی ''خود اعتمادی'' کی داد دیتا ہوں! کہ اس قدر لا یعنی، اور تضاد سے بھرپور کلام کرنے بعد بھی، دوسروں پر الزام عائد کرنا! واقعی کمال بات ہے!)
تو درحقیقت آپ کی باتیں لا یعنی اور تضاد سے بھری ہوئی ہیں اور نری بکواس کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ اور آپ کو اپنی باتوں پر چونکہ اعتماد نہیں ہے کیونکہ آپ جو کچھ بھی بک رہے ہیں وہ دوسروں کی کہی ہوئی باتیں ہیں جنہیں آپ دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں۔ اور صرف اسی کے دفاع میں جٹے ہوئے ہیں اور اس کو توڑ مروڑ کر کسی بھی طرح صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ایک تحریف شدہ کلام، جھوٹی و من گھڑت شرط اور بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کیئے جارہے ہیں ۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اور کسی دوسرے موضوع میں اپنا زور قلم صرف کریں۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ ہم تو اپنا زور قلم کہیں اور بھی صرف کر لیں گے! مگر آپ تو قلمکاری سے گریز ہی کیجیئے، تو بہتر ہے! شاید یہی وجہ ہے، کہ ''کتاب'' چھپ نہ سکی! الجواب:
أقول: ہاں تو جناب من آپ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ آپ کسی اور ہی موضوع کو اپنا تختۂ مشق بنائیں، اس پر ہی اپنا زور قلم صرف کریں اور اپنی قلم کاری دکھائیں۔ یہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے۔
رہی کتاب چھپنے نہ چھپنے کی بات تو ان شاء اللہ کتاب تو ضرور بالضرور چھپے گی اور اس میں آپ جیسے جاہلوں کی جہالت و حماقت اور فریب بازوں فریب بازیوں کی پردہ دری بھی ہوگی۔
اور اس میں اس مسئلہ کے جھوٹے و من گھڑت ہونے کو بھی دلائل و ثبوتوں کے ذریعہ جھوٹا اور من گھڑت ہونا بھی ثابت کیا جائےگا۔ (ان شاء اللہ)۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ آپ کی اردو دانی کا یہ حال ہے کہ جملہ آپ کے (لفظ ) سے شروع کرتے ہیں اور جملہ ختم کرتے کرتے تم پر آ جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی تمیز نہیں ہے جب جملہ آپ سے شروع کیا جاتا ہے تو ہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔ اور جب تم سے شروع کیا جاتا ہے تو ہو پر ختم ہوتا ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ گھتگو ریختہ میں نہ کر ہم سے
یہ ہماری زبان ہے پیارے
اس حوالہ سے تو میں ایک شعر بھی نقل کر چکا ہوں! الجواب:
أقول: جناب من!
لگتا ہے کہ آپ نے اردو زبان کو بھی اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جیسے عربی زبان اور قرآن و حدیث کو بنایا ہوا ہے ۔ آپ نے یہیں اپنی اسی تھریڈ میں اپنی اردو دانی کا ایک اور نمونہ یوں پیش کیا ہے لکھتے ہیں: (گھتگو ریختہ میں نہ کر ہم سے۔ یہ ہماری زبان ہے پیارے)۔ تو یہ ہے آپ کی اردو زبان کا حال اسی طرح آپ نے (عبث) کو (عبس) لکھا؟ اور ایک جملہ یوں لکھا: ((بعین وہی خوارجیوں واا نعرہ لگا دیا!) ) تو آپ ایک جملہ بھی درست سے نہیں لکھ پا رہے ہیں!) اور دعویٰ عربی دانی اور اردو دانی کا اور صحیح قرآن دانی اور حدیث دانی کا یہ زعم باطل؟۔
آپ کی بہت ساری تحریری غلطیوں میں سے بعض غلطیاں تو یقینی طور پر کتابت کی غلطی ہے البتہ بعض غلطیاں تو ایسی ہیں جو یقینا آپ کے علم و فہم اور اردو عربی کی اعلیٰ صلاحیتوں اور اعلیٰ قرآن و حدیث فہمی کا بہترین اور اعلیٰ نمونہ تو ضرور ہیں۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ لکھتے ہیں :
(گویا یتیم پوتے کا باپ ہوتا تب بھی وہ دادا کی وراثت سے حصہ پاتا!)
یہ انتہائی احمقانہ بات ہے پوتا جب یتیم ہوگا تو اس کا باپ نہیں ہوگا اور جب باپ ہوگا تو نہ تو وہ یتیم ہوگا اور نہ ہی اس کی وراثت کا مسئلہ ہی درپیش ہوگا۔
یہ ہے آپ کی اردو دانی اور معاملہ فہمی جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ یہ احمقانہ بات، ہماری نہیں، آپ کے کلام میں ہے، اور آپ کے کلام کا مقتضی ہے! اور اس پر مفصل بیان گزرا! آپ اپنے کلام کا نقص ہمارے سر نہ ڈالیں میاں! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اب آتے ہیں آپ کی اس خوش فہمی کا جائزہ لیتے ہیں آپ نے کہا: میرے بھائی! یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! اس کےورثاء اس کے مالک ہو گئے، اور یہ یتیم پوتا بھی اس مال کا مالک بن گیا تھا! میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا، چہ جائیکہ وہ کسی کے مال کا ترکہ وصول کرے! جس کی وفات ہو گئی، اس کادنیا کے مال میں کوئی حق و حصہ نہیں! یہ صرف اٹکل کے گھوڑے ہیں، کہ اگر وہ زندہ ہوتا! تو اپنا حصہ پاتا! حقیقت یہ ہے کہ نہ تو زندہ ہے، اور نہ اس کا کوئی حصہ ہے! یہ بھی آنجناب کی خوش فہمی اور اعلیٰ فہم و فراست کا ایک اور نمونہ۔ یہاں بحث ابا جان اور اما جان کے ترکہ کی نہیں ہورہی ہے بلکہ دادا کے ترکہ کی اور دادا کا ترکہ کسی ایرے غیرے کا مال اور ترکہ نہیں ہے بلکہ اس کے والد دادا جان کا ترکہ ہے جس کی وہ اولاد و ذریت میں سے ہے اور وہ اس کے باپ کی وفات کے بعد اس کی جگہ اب اسکا والد و باپ ہے جو اسے چھوڑ کر مرگیا ہے قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ یہ آپ کا خبط ہے، کہ دادا پوتے کا ''والد'' یعنی ''حقیقی والد'' ہے، کیونکہ آپ کے نزدیک تو ''والد حقیقی'' ہی ہوتا ہے! ہم نے یہاں اماں جان اور أبا جان کے ترکہ کی بحث نہیں کی، بلکہ یہ بتلایا ہے، کہ فوت شدہ بیٹے کا دادا کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، کہ فوت شدہ بیٹے کا بیٹا اسے پائے! الجواب:
أقول: جناب من!
یہ میرا خبط نہیں بلکہ آپ کی خبط الحواسی ، بد حواسی اور جہالت و حماقت ہے کہ آں جناب دادا کو پوتے کا حقیقی والد و باپ ماننے سے انکاری ہیں۔ کیوں کہ یہ مان لینے سے آپ کا پورا خود ساختہ دین و دھرم اور شریعت ہی بھرسٹ ہوجائے گا۔ اس لیئے آپ اس کو ماننے سے انکاری ہیں۔فوت شدہ بیٹے کا اس کے باپ اور اس کے بیٹے کا اس کے دادا کے ترکہ میں حق و حصہ اللہ کا دیا ہوا ہے جسے کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو چھین سکے اور جو چھیننے کی جرات کرتا ہے یا کریگا اللہ اسے سیدھے جہنم میں جھونک دیگا۔ چونکہ بیٹے نے اپنا وارث اور جانشین چھوڑا ہے اس لیئے اس کا حصہ اس کے بیٹے اور جانشین کو ملے گا وہ اس کے بھائیوں کو منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اللہ کی کی ہوئی حد بندی ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا ہے اور جو توڑنے کی کوشش کرتا ہے یا کریگا تو اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لیئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہی ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ جیسے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے والد عبد اللہ جب انہیں چھوڑ کر مرگئے تو ان کے دادا عبد المطلب نے بطور والد و باپ کے ان کی پرورش و پرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں ادا کی۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد 'عبد اللہ'' تھے، نہ کہ ''عبد المطلب''، عبد المطلب، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے، ''والد '' نہیں! عبد المطلب کے بعد جس نے پرورش وپرداخت کی اور باپ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں، انہیں ادا کرنے والے کو بھی آپ ''والد'' کہہ دیں گے؟
عبد المطلب کے بعد یہ أمور أبو طالب نے ادا کیئے! تو انہیں آپ کیا کہیں گے؟ الجواب:
أقول: جناب عالی کا ارشاد گرامی ہے: (اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد 'عبد اللہ'' تھے، نہ کہ ''عبد المطلب''، عبد المطلب، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے، ''والد '' نہیں!)
تو آں جناب اپنی جہالت و حماقت اور ضلالت و گمراہی کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں اور اس کا بنیادی سبب محض آپ کے قرآن وحدیث سے ناواقفیت اور جہالت ہی ہے۔ اللہ کے رسول کے والد و باپ عبد اللہ بھی ہیں اور آپ کے دادا عبد المطلب بھی آپ کے والد و باپ ہیں۔ کیونکہ باپ دادا دونوں ہی والد ہوتے ہیں اور حقیقی والد ہوتے ہیں اور والد و اولاد حقیقی ہی ہوتے ہیں مجازی نہیں ہوتے۔ رہے آپ کے چچا ابو طالب تو وہ بھی آپ کے باپ ہیں البتہ آپ کے والد نہیں ہیں۔ عبد المطلب کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے بطور باپ آپ کی پرورش و پرداخت کی نہ کہ بطور والد یہ امور انجام دیئے۔
لیکن شاید آپ کو یہ باتیں سمجھ نہ آسکیں کیونکہ یہ آپ کی سمجھ سےبالاتر باتیں ہیں جس کے لیئے آپ جیسے لوگوں کی اعلیٰ و ارفع عقل و فہم اور علم کی ضرورت نہیں بلکہ معمولی عقل و فہم اور علم رکھنے والا آدمی اس بات کو جانتا ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ آپ نے لکھا: (یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا!)۔
(میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا)۔
آپ کے بقول جب یتیم پوتے کے ابا جان اور دادا جان کا مال مرتے ہی ان کا نہیں رہا تو پھر نہ تو یتیم پوتے کے ابا جان کا ترکہ بنا اور نہ ہی دادا جان کا ترکہ بنا لہذا اس میں نہ تو اس کا کوئی حصہ بنتا ہے اور نہ ہی اس کے چچا تایوں کا ہی کوئی حصہ بنتا ہے ۔ کیونکہ جب یتیم پوتے کے باپ کا اور اس کے چچا تائے کے باپ کا مال ہی نہیں رہا تو پھر ترکہ بننے اور وراثت منتقل ہونے کا سوال ہی نہیں بنتا ہے۔ Click to expand... قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ پڑیں پتھر عقل ایسی پہ کہ تم سمجھے تو کیا سمجھے!
جو مر جاتا ہے، وہ اپنا مال پیچھے چھوڑ جاتا ہے!
اب وہ مال مردے کی ملکیت نہیں رہتا، بلکہ اس کا ترکہ کہلاتا ہے، یعنی میت کا چھوڑا ہوا مال! اور اسی ترکہ ورثاء میں بانٹا جاتا ہے! کم از کم ترکہ کے لفظ پر ہی غور کیا ہوتا، تو ایسی بے تکی نہ ۔۔۔۔۔۔ الجواب:
أقول: جناب من!
آپ بے تکی باتیں نہ کیا کریں۔ بات تو سمجھتے نہیں بس بیجا اعتراض کرنا ہی جانتے ہیں۔ لفظ ترکہ خود بتا رہا ہے کہ جو مال مرنے والے نے چھوڑا ہے وہ اس کی ملکیت تھا اسی لیئے تو اس کا نام ترکہ پڑا ہے تو جب تک وہ اس کے ورثاء میں تقسیم نہ ہوجائے وہ اسی کا مال متروکہ کہا جاتا رہے گا۔ اور اسی کی ملکیت مانا جائے گا۔ البتہ اس پر اس کا اختیار باقی نہیں رہا ہے اور جب اس کو کاٹ، بانٹ کر الگ الگ کر کے اس کے وارثوں کو دے دیا جائے گا تو وہ ان کی ملکیت بن جائے گا۔ شاید یہ باتیں آپ کو سمجھ نہ آسکیں!۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست ایسا ہی کہتی ہے۔ آئے آپ کی اس خوش فہمی کو بھی دور کئے دیتے ہیں۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ لیکن آپ بہت غلط فہمی میں مبتلا ہو! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ جناب من! آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جبتک مرنے والے کا ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے تب تک اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے جو اللہ کی امان میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا نگراں و محافظ ہوتا ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ ایسا کیجیئے، کہ قریبی داوخانہ سے رجوع کریں! حدہو گئی بیوقوفی کی!
''اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے'' اسی کا رہتا ہے تو چھوڑا ہوا کیسے ہوا! الجواب:
أقول: جناب من!
ضرورت آپ کو ہے کسی قریبی دواخانہ اور حکیم کی کیونکہ میں خود ایک حکیم ہوں اور ایک دواخانہ کا مالک ہوں اور میرا خاندانی پیشہ ہی طبابت اور حکیمی ہے ہمیں روزانہ آپ جیسے احمق، جاہل اور پاگلوں سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ لہذا آپ اپنے بارے میں سوچیں ہمیں اس کا مشورہ نہ دیں بلکہ اپنی عقل اور دماغ کا علاج کرانے کی فکر کریں ہماری فکر کرنا چھوڑ دیں۔
آپ کو اپنی ہی کہی ہوئی بات : (یتیم پوتے کے ابا جان کی جب وفات ہوئی تھی، ان کا اپنا مال ان کا نہیں رہا! ۔ میت کا اپنا مال اس کا اپنا نہیں رہتا) (''اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے'' اسی کا رہتا ہے تو چھوڑا ہوا کیسے ہوا!) سمجھ نہیں آرہی ہے تو دوسرے کی بات کیا خاک سمجھ آئے گی۔
میں نے یہ بات کہی: (جبتک مرنے والے کا ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے تب تک اس کا چھوڑا ہوا مال اسی کا رہتا ہے جو اللہ کی امان میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا نگراں و محافظ ہوتا ہے۔)
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کا مال اس کا ترکہ کہلاتا ہے جو وہ چھوڑ کر مرتا ہے۔ وہ اس وقت تک اللہ کی امان میں رہتا ہے جب تک کہ اس کو تقسیم کرکے اس کے وارثوں کے حوالے نہ کردیا جائے۔ تو جب وہ مال متروکہ اس کے وارثوں کے حوالے ہو جاتا ہے تو ان کی ملکیت بن جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وہ مال دوسروں کی ملکیت میں جانے سے قبل تک اسی کا مانا جائے گا جس کا وہ مال ہے اسی لیئے کسی کو بھی یہ حق اور اجازت نہیں ہے کہ وہ اس مال میں ذرہ برابر بھی کسی قسم کا تصرف کرے جب تک کہ وہ تقسیم نہیں ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ مرنے والے کی ملکیت ہے البتہ اس مال پر مرنے والے کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا ہے۔ اختیار باقی نہ رہنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ اس کی ملکیت ختم ہو گئی ہے۔ اس کی ملکیت اسی وقت ختم مانی جائے گی جب وہ منتقل ہوکر اس کے ورثہ کی ملکیت میں شامل ہوجائےگی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی کا کروڑوں کا مال تھا جو وہ اپنے ساتھ لیکر چل رہا تھا اور اس مال کو کسی کو دینا تھا اور وہ اسے دینے جا رہا تھا کہ راستہ میں کہیں اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا اور اس کا مال کسی تیسرے شخص کو ملا اس نے بحفاظت اس مال کو بطور امانت کے رکھا ہوا ہے۔ تو یہ مال جس کے ہاتھ میں ہے وہ اس کی ملکیت نہیں ہے وہ مال اسی کی ملکیت ہے جو اس کا اصل مالک ہے البتہ اس شخص کا اس مال پر اختیار نہیں ہے لیکن وہی اس کا اصل مالک ہے اور اسی کی ہی وہ ملکیت ہے۔ اور جب تک وہ مال جسے کو پہنچنا ہے پہنچ نہ جائے تب تک وہ مال اس کے اصل مالک کی ہی ملکیت ہوگا باوجودیکہ اس کو اس مال پر اختیار نہیں رہا ہے ۔ بعینہ یہی معاملہ ترکہ کا بھی ہے کہ ترکہ کا اصل مالک تو مرنے والا ہی ہے البتہ اس کا اس مال پر اختیار نہیں رہا ہے تو جب تک اس کا ترکہ اس کے وارثوں کو منتقل ہو کر ان کی ملکیت میں نہ چلا جائے اس کا اصل مالک مرنے والا ہی رہے گا باوجودیکہ اس کا کوئی تصرف اور اختیار نہیں رہا ہے۔
یہ سب حکیمانہ باتیں ہیں جو آپ جیسے جاہلوں اور احمقوں کو سمجھ میں آنیوالی نہیں ہیں۔ آپ صرف بکواس ہی کیئے جائیے ا ور بس یہی آپ کا مقدر ہے۔
مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ جس کے حقدار و حصہ دار اس نے بنا و متعین کر رکھے ہیں اور ان کے حصے بھی مقرر کردئے ہیں جنہیں ان کو دیدیئے جانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے
:(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا) (سورة النساء: 33) جناب من! پہلے آپ ڈھنگ سے قرآن و حدیث پڑھیئے ۔ اور فرائض و مواریث کا علم اللہ کی کتاب قرآن مجید اور سنت رسول اللہ سے سیکھئے اس کے بعد پھر بحث مباحثہ کا شوق پورا کیجئے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اللہ تعالیٰ نے جسے اور جس صورت حقدار وحصہ دار بنایا اور متعین کیا ہے، اسی طرح رہنے دیں، اس کے برخلاف اپنی خواہشات کے موافق کسی کو حقدار وحصہ دار قرار دینے کی سعی چھوڑ دیں، اور اللہ کے حضور توبہ کریں! الجواب:
أقول: جناب من! توبہ تو آپ کو کرنی چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس یتیم پوتے کو بطور اولاد پیدا کیا اور وارث بنایا اور جس صورت میں حقدار وحصہ دار بنایا اور حصہ متعین کیا ہے، اسی طرح رہنے دینے کے بجائے، اس کے برخلاف اپنی خواہشات نفس کے مطابق بیجا شرط لگا کر اللہ کے پیدا کیئے ہوئے اور مقرر کیئے ہوئے اس حقدار وحصہ دار وارث کو غیر وارث اور غیر حقدار و حصہ دار قرار دینے کی سعی نا مسعود کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اللہ کی مقرر کی گئی تمام حدوں کو کھلے طور پر توڑ رہے ہیں!۔ مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ اور اس سے پہلے اپنے اردو ادب کو درست کیجئے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ معلوم ہوتا ہے، کہ صاحب کو یہ گمان ہے کہ اردو وہی ہے، جو انہیں آتی ہے!
نہیں میاں! ایسا نہیں ہے، یہ تو غالب کو بھی کہنا پڑا تھا کہ:
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا الجواب:
أقول: جناب من! در اصل یہ آپ ہیں جو یہ گمان کیئے بیٹھے ہیں کہ ہم ہی اردو عربی کو صحیح سمجھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں جب کہ آنجناب تو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں اور آپ اپنے کو ہی اردو عربی کا ٹھیکیدار سمجھے بیٹھے ہیں۔
(ای خیال است و محال است و جنوں)۔ *----------------------------------------------*
قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہماری بحث امام بخاری کی صحیح بخاری کے ایک باب اور اس پر حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح کے حوالہ سے ہو رہی تھی، آپ نے امام بخاری کی، اور ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری سے جو عبارت نقل کی تھی، وہ یہ تھی: مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ''إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ حافظ ابن حجر نے لفظ ابن کی شرح یوں کی ہے (إِذا لم يكن إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ'' قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ جس میں پوتے کی وراثت کے لئے شرط ''إِذا لم يكن إبن''مذکور ہے۔ حتی کہ آپ نے اسے توڑ مڑوڑ کر دو أبواب میں تقسیم کرتے ہوئے یوں کہا: مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ [1](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاهُ). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔ مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ [2](باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ یہاں بھی آپ نے صحیح بخاری میں مذکور شرط کے یہی ''إِذا لم يكن إبن'' الفاظ لکھے۔ ہم نے ایک مراسلہ میں آپ کو یہ بتلایا، کہ یہ نہ بھولئے گا، کہ آپ نے صحیح بخاری میں اس شرط کے کیا الفاظ نقل کئے ہیں: ابن داود نے کہا ہے: ↑ یہ بات یاد رکھیئے گا! کہ آپ نے یہاں صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ نقل کیئے ہیں: ''باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن'' الجواب:
أقول: اسی کو کہتے ہیں کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے!
جناب من!
میں نے صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کیا پیش کر دیئے کہ آپ کی تو ہوا ہی نکل گئی اور آپ کا پورا خود ساختہ دین و مذہب ہی دھڑام سے گر کر ملیامیٹ ہوگیا۔ اور آپ اس درجہ بے چین و پریشان ہوئے ہیں کہ بار بار ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرائے جا رہے ہیں کہ دیکھیئے گا آپ نے پہلے جو باب کے الفاظ پیش کیئے تھے وہی پیش کر کے بحث کیجیئے گا۔ یہ الفاظ ذکر نہ کیجیئے گا۔ جو آپ کی خبط الحواسی، بد حواسی اور تلملاہٹ و بےچینی کو ظاہر کیئے دے رہی ہے۔ اور آپ اپنی بوکھلاہٹ و بے چینی اور خبط الحواسی، بد حواسی میں اس کا انکار کرنے اور اس کو بھی میرا خود ساختہ ثابت کرنے اور جھٹلانے تک پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
ہم نے حافظ ابن حجر کی فتح الباری کے ترجمۃ الباب مع الشرح الفاظ یوں نقل کیئے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)))
جس میں دو مسئلہ بیان کیا گیا ہے جس کو ہم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: [1] (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاه). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔ [2] (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔ اس کے بارے میں آنجناب یوں لکھتے ہیں:
( جس میں پوتے کی وراثت کے لئے شرط ''إِذا لم يكن إبن''مذکور ہے۔ حتی کہ آپ نے اسے توڑ مڑوڑ کر دو أبواب میں تقسیم کرتے ہوئے یوں کہا)۔
جب کہ ہم نے کوئی تور مروڑ نہیں کی ہے بلکہ جس عبارت میں اغماض تھا اور جس کی شرح مطلوب تھی ہم نے صرف اس کی توضیح و تشریح کی ہے جو آنجناب کے خود ساختہ دین و مذہب اور شرط کا قلع قمع کر رہی ہے۔ اور وہ بات حافظ ابن حجر کی شرح کا ماحصل ہے۔ کہ جب پوتے کا صرف باپ نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہے اور جب اس کے چچا تائے بھی نہ ہوں تب بھی پوتا وارث ہے۔
یہ الفاظ ہم نے امام ابن حجر کی شرح سے لیکر ایک ترتیب سے بیان کیا ہے جو اس عبارت کا مفہوم ہے: [1] (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أي إِذا لم يكن أَبَاه). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔ [2] (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ أَي إِذا لم يكن عَمَّهُ). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب میت کا صلبی بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کےچچا تائے نہ ہوں۔ جس کو اسطرح بھی کہا جاسکتا ہے: [1] (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن أَبَاه). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب پوتے کا باپ نہ ہو۔ [2] (باب مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن عَمَّهُ). یتیم پوتے کی وراثت کا باب جب کا چچا تایا نہ ہو۔ نیز اسکو یوں بھی کہہ سکتے ہیں:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ أَبَاهُ أَوْ إِذَا لَمْ يَكُنِ عَمَّهُ)))
نیز اسکو یوں بھی کہہ سکتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجرنے کہا ہے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ إبن أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)))
نیز اسکو یوں بھی کہہ سکتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن الملقن کی شرح میں مذکور ہے:
(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)))
یعنی پوتے کی میراث کا بیان جب اس پوتے کا باپ نہ ہو۔
تو اوپر جتنی بھی عبارتیں ہم نے ذکر کی ہیں وہ سب کی سب صرف ایک ہی معنی و مفہوم پر دلالت ہیں جو یہ ہیں کہ جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا اپنے باپ کی جگہ اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہے چاہے اس کے چچا تائے ہوں یا وہ بھی نہ ہوں بہر دو صورت اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بمنزلہ اپنے دادا کی اولاد ہونے کے اس کا وارث اور اس کے ترکہ و میراث کا حق دار اور حصہ دار ہے۔
اس میں توڑنے مروڑنے والی کوئی بات ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو توضیح و تشریح اور سمجھنے اور سمجھانے کے مختلف انداز و اسلوب ہیں۔ اگر اس سے معنی ومفہوم نہ بدلے تو کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے: ((انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ) (سورة الأنعام: 65))
یعنی دیکھو تو سہی کہ ہم آیتوں کو کیسے گھما پھرا کر مختلف انداز میں بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ لوگ اس کو سمجھ سکیں۔
اسی طرح فرمایا:
((وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا) (سورة الإسراء: 41))
یعنی ہم نے اس قرآن میں آیتوں کو گھما پھرا کر مختلف انداز بیان کیا ہے تاکہ وہ لوگ اس کو سمجھ سکیں اس سے عبرت و نصیحت پکڑ سکیں لیکن اس کے بجائے انہیں نفرت بڑھتی چلی گئی۔
نیز فرمایا:
(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (سورة الكهف: 54))
یعنی ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیئے ہرطرح کی مثالیں بیان کر رکھی ہیں اور انسان تو محض لڑنا جھگڑنا ہی جانتا ہے۔
لہذا آنجناب کا یہ کہنا کہ میں نے ((توڑ مڑوڑ کر دو أبواب میں تقسیم کیا ہے)۔ بالکل ہی غلط اور جھوٹی بات ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سے پوتے کے وارث ہونے کی جو شرط ہے اس پر کوئی حرف نہیں آتا ہے۔
جب کہ آنجناب نے جو کارنامہ انجام دیا ہے کہ باب کے ترجمہ میں (کوئی بیٹا نہ ہو) کے الفاظ کا جو اضافہ اپنے طور پر یا کسی کے کہے کے مطابق کیا ہے وہ کھلی ہوئی تحریف ہے کیونکہ اس سے باب کا معنی و مطلب ہی بالکل الٹا ہوگیا ہے۔ یعنی جو باب امام بخاری نے یتیم پوتے کے اس کے باپ کے نہ رہنے پر اس کے دادا کے وارث ہونے پر باندھا تھا ۔ آپ نے اپنی اس تحریف کے چلتے اس کو محجوب و محروم قرار دینے کا باب بنا ڈالا ہے۔ *----------------------------------------------*
قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ مگر آپ کو لاحق نسیان کا مرض بہت سنگین ہے، اس کے باوجود آپ نے صحیح بخاری میں باب کے درج ذیل الفاظ نقل کئے: مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے تعلق سے: [صحيح بخاري: كتاب الفرائض]7 -باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ). قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے؛ پہلے یہ الفاظ تھے: ''إِذا لم يكن إبن'' اب یوں ہو گئے: ''إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)'' ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے، کہ ''إبن'' کی جگہ له ''(له أبٌ)'' آگیا!
اور لطیفہ اس عبارت میں یہ ہے، کہ ''بریکٹ'' میں آیا ہے! الجواب:
أقول: جناب من!
آپ یقینا بڑی ہی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مجھے کسی طرح کا کوئی نسیان نہیں ہے بلکہ میں نے جان بوجھ کر آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور نام نہاد شریعت کی ہوا نکال دینے کے لیئے ہی صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) صحیح بخاری کی ایک معتبر شرح سے پیش کیئے ہیں۔ اور یہ الفاظ کیا پیش کر دیئے کہ آپ اور آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور نام نہاد شریعت کی تو ہوا ہی نکل گئی اور آپ کا پورا خود ساختہ دین و مذہب ہی دھڑام سے گر کر ملیامیٹ ہوگیا۔ اور آپ اس درجہ بے چین و پریشان ہوئے ہیں کہ بار بار ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرائے جا رہے ہیں کہ دیکھیئے گا آپ نے پہلے جو باب کے الفاظ پیش کیئے تھے وہی پیش کر کے بحث کیجیئے گا۔ یہ الفاظ ذکر نہ کیجیئے گا۔ جو آپ کی خبط الحواسی، بد حواسی اور تلملاہٹ و بےچینی کو ظاہر کیئے دے رہی ہے۔ اور آپ اپنی بوکھلاہٹ و بے چینی اور خبط الحواسی، بد حواسی میں اس کا انکار کرنے اور اس کو بھی میرا خود ساختہ ثابت کرنے اور جھٹلانے تک پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ زیر بحث مسئلہ میں جو شرط ہے اور جس کو امام بخاری نے بیان کیا ہے وہ شرط صرف اور صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہی ہے جو دونوں عبارتوں میں موجود ہے اور ایک دوسرے کی توضیح و تشریح کر رہی ہیں۔
تو میں نے صحیح بخاری کی جس شرح سے صحیح بخاری کے باب کے الفاظ نقل کیئے اس سے آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت نیز من گھڑت شرط کی قلعی ضرور کھل گئی ہے اور آپ نے جو تحریف کی ہے اس کا پول کھل گیا ہے جس کے چلتے سوائے اس کے کہ آپ اس کو غلط بتائیں، جھٹلائیں اور انکار کریں، چھپانے کی کوشش کریں اس کے علاوہ دوسرا کچھ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ آنجناب لکھتے ہیں: ((ابن داود نے کہا ہے): ↑ ) آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے؛ پہلے یہ الفاظ تھے: ''إِذا لم يكن إبن'' اب یوں ہو گئے: ''إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)'' ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے، کہ ''إبن'' کی جگہ له ''(له أبٌ)'' آگیا!
اور لطیفہ اس عبارت میں یہ ہے، کہ ''بریکٹ'' میں آیا ہے!) ۔
تو جناب من اس میں میرا کیا قصور ہے یہ تو میں اپنے گھر سے گھڑ بناکر نہیں لایا ہوں ۔ یہ الفاط تو ہم آپ سے تقریبا ساڑھے چھ سو (۶۵۰) سال قبل لکھی گئی شرح بخاری میں ثبت شدہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں۔ اور چونکہ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ آپ کے لیئے زہر کا نوالہ اور سم قاتل ثابت ہو رہے ہیں اس لیئے آپ اسے اپنے گلے سے کسی طرح اتار نہیں پا رہے ہیں۔ کیونکہ اب تک جو کچھ بھی آپ نے بکواس کی ہے اور اپنی جہالت و حماقت اور ضلالت و گمراہی اور اپنے پاگل پن کا اظہار کرتے رہے ہیں اس پر ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ مہر تصدیق ثبت کیئے دے رہے ہیں کہ جاہل، بے وقوف، احمق، پاگل، کم علم، کج فہم، گمراہ، قرآن وحدیث کے منکر وغیرہ میں نہیں بلکہ آپ اور آپ جیسے لوگ کفایت اللہ سنابلی وغیرہ اور ان کی پوری پارٹی ہے نیز آپ کے بزرگان ہیں۔ اور صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ نام نہاد حدیث دانی، قرآن دانی، صحیح حدیث دانی و قرآن فہمی اور صحیح دین سمجھنے کی دھجیاں اڑائے دے رہے ہیں اور آپ سب کی اہلحدیثیت اور اتباع قرآن و حدیث کی پول کھولے دے رہے ہیں۔
تو سوائے ماہی بے آب کی طرح تڑپنے و پھڑپھڑانے اور انکار کرنے، غلط بتانے کے دوسرا کیا کر سکتے ہیں؟ چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں: (آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے) ۔ نیز یہ کہ (ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے)۔ نیز یہ کہ (''بریکٹ'' میں آیا ہے!) ۔
تو یہ ساری باتیں محض بےوقوفی اور جہالت حماقت والی باتیں ہیں۔ دونوں ہی الفاظ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے بلکہ صرف ظاہری فرق ہے اور دونوں کا ایک ہی معنی و مطلب اور مفہوم ہے اور دونوں میں ایک ہی شرط مذکور ہے کہ جب مرنے والے کا بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا (پوتا) وارث ہے۔ تو پوتے کے وارث ہونے کی شرط صرف اور صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہی ہے چچا تائے کا نہ ہونا یتیم پوتے کے وارث ہونے کے لیئے کوئی شرط ہے ہی نہیں۔ یہ شرط تو خود ساختہ، من گھڑت ہے۔
((إِذا لم يكن إبن)) کا بھی وہی معنی ہے جو ((إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کے وارث ہونے کا بیان جب مرنے والے کا بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔ تو دونوں الفاظ ایک ہی معنی کو بتلا رہے ہیں۔
اور مسئلہ بھی در حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی بیٹا مرجائے اور اپنے پیچھے اپنے بیٹے چھوڑ جائے تو ان کا حکم یہی ہے کہ وہ اپنے باپ کی جگہ وارث ہیں۔
رہی بات یہ کہ ((له أبٌ)) کے الفاظ کا بریکٹ میں آنا تو بریکٹ میں لانے کی وجہ یہ بنی کہ یہ عام طور پر مروجہ و معروف الفاظ ((إِذا لم يكن إبن)) سے ہٹ کر ہیں اس لیئے اس کی وضاحت کی ضرورت پڑی ۔ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ عبارت میں مذکور ((له أبٌ)) کے الفاظ من گھڑت ہیں بلکہ اصل میں صحیح بخاری کے مذکورہ باب کے یہی الفاظ ہیں البتہ دوسرے نسخہ میں اس کے علاوہ ((إبن)) کا لفظ مذکور ہے۔ اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ جب بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا وارث ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے دونوں ایک ہی بات ہے دونوں میں قطعی کوئی فرق نہیں اور نہ ہی دوسری کوئی بات ہے۔
قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ مگر آپ کو لاحق نسیان کا مرض بہت سنگین ہے، اس کے باوجود آپ نے صحیح بخاری میں باب کے درج ذیل الفاظ نقل کئے: مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ پیش خدمت ہے صحیح بخاری کے ابواب یتیم پوتے پوتی کے حق وراثت کے تعلق سے: [صحيح بخاري: كتاب الفرائض]7 -باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ). قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے؛ پہلے یہ الفاظ تھے: ''إِذا لم يكن إبن'' اب یوں ہو گئے: ''إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)'' ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے، کہ ''إبن'' کی جگہ له ''(له أبٌ)'' آگیا!
اور لطیفہ اس عبارت میں یہ ہے، کہ ''بریکٹ'' میں آیا ہے! الجواب:
أقول: جناب من!
آپ یقینا بڑی ہی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مجھے کسی طرح کا کوئی نسیان نہیں ہے بلکہ میں نے جان بوجھ کر آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور نام نہاد شریعت کی ہوا نکال دینے کے لیئے ہی صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) صحیح بخاری کی ایک معتبر شرح سے پیش کیئے ہیں۔ اور یہ الفاظ کیا پیش کر دیئے کہ آپ اور آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور نام نہاد شریعت کی تو ہوا ہی نکل گئی اور آپ کا پورا خود ساختہ دین و مذہب ہی دھڑام سے گر کر ملیامیٹ ہوگیا۔ اور آپ اس درجہ بے چین و پریشان ہوئے ہیں کہ بار بار ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرائے جا رہے ہیں کہ دیکھیئے گا آپ نے پہلے جو باب کے الفاظ پیش کیئے تھے وہی پیش کر کے بحث کیجیئے گا۔ یہ الفاظ ذکر نہ کیجیئے گا۔ جو آپ کی خبط الحواسی، بد حواسی اور تلملاہٹ و بےچینی کو ظاہر کیئے دے رہی ہے۔ اور آپ اپنی بوکھلاہٹ و بے چینی اور خبط الحواسی، بد حواسی میں اس کا انکار کرنے اور اس کو بھی میرا خود ساختہ ثابت کرنے اور جھٹلانے تک پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ زیر بحث مسئلہ میں جو شرط ہے اور جس کو امام بخاری نے بیان کیا ہے وہ شرط صرف اور صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہی ہے جو دونوں عبارتوں میں موجود ہے اور ایک دوسرے کی توضیح و تشریح کر رہی ہیں۔
تو میں نے صحیح بخاری کی جس شرح سے صحیح بخاری کے باب کے الفاظ نقل کیئے اس سے آپ کے خود ساختہ دین و مذہب اور شریعت نیز من گھڑت شرط کی قلعی ضرور کھل گئی ہے اور آپ نے جو تحریف کی ہے اس کا پول کھل گیا ہے جس کے چلتے سوائے اس کے کہ آپ اس کو غلط بتائیں، جھٹلائیں اور انکار کریں، چھپانے کی کوشش کریں اس کے علاوہ دوسرا کچھ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ آنجناب لکھتے ہیں: ((ابن داود نے کہا ہے): ↑ ) آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے؛ پہلے یہ الفاظ تھے: ''إِذا لم يكن إبن'' اب یوں ہو گئے: ''إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ)'' ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے، کہ ''إبن'' کی جگہ له ''(له أبٌ)'' آگیا!
اور لطیفہ اس عبارت میں یہ ہے، کہ ''بریکٹ'' میں آیا ہے!) ۔
تو جناب من اس میں میرا کیا قصور ہے یہ تو میں اپنے گھر سے گھڑ بناکر نہیں لایا ہوں ۔ یہ الفاط تو ہم آپ سے تقریبا ساڑھے چھ سو (۶۵۰) سال قبل لکھی گئی شرح بخاری میں ثبت شدہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں۔ اور چونکہ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ آپ کے لیئے زہر کا نوالہ اور سم قاتل ثابت ہو رہے ہیں اس لیئے آپ اسے اپنے گلے سے کسی طرح اتار نہیں پا رہے ہیں۔ کیونکہ اب تک جو کچھ بھی آپ نے بکواس کی ہے اور اپنی جہالت و حماقت اور ضلالت و گمراہی اور اپنے پاگل پن کا اظہار کرتے رہے ہیں اس پر ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ مہر تصدیق ثبت کیئے دے رہے ہیں کہ جاہل، بے وقوف، احمق، پاگل، کم علم، کج فہم، گمراہ، قرآن وحدیث کے منکر وغیرہ میں نہیں بلکہ آپ اور آپ جیسے لوگ کفایت اللہ سنابلی وغیرہ اور ان کی پوری پارٹی ہے نیز آپ کے بزرگان ہیں۔ اور صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کے یہ الفاظ نام نہاد حدیث دانی، قرآن دانی، صحیح حدیث دانی و قرآن فہمی اور صحیح دین سمجھنے کی دھجیاں اڑائے دے رہے ہیں اور آپ سب کی اہلحدیثیت اور اتباع قرآن و حدیث کی پول کھولے دے رہے ہیں۔
تو سوائے ماہی بے آب کی طرح تڑپنے و پھڑپھڑانے اور انکار کرنے، غلط بتانے کے دوسرا کیا کر سکتے ہیں؟ چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں: (آپ کی پیش کردہ اس عبارت میں زیر بحث شرط کے الفاظ تبدیل ہوگئے) ۔ نیز یہ کہ (ان دونوں الفاظ میں بہت فرق ہے)۔ نیز یہ کہ (''بریکٹ'' میں آیا ہے!) ۔
تو یہ ساری باتیں محض بےوقوفی اور جہالت حماقت والی باتیں ہیں۔ دونوں ہی الفاظ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے بلکہ صرف ظاہری فرق ہے اور دونوں کا ایک ہی معنی و مطلب اور مفہوم ہے اور دونوں میں ایک ہی شرط مذکور ہے کہ جب مرنے والے کا بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا (پوتا) وارث ہے۔ تو پوتے کے وارث ہونے کی شرط صرف اور صرف پوتے کے باپ کا نہ ہونا ہی ہے چچا تائے کا نہ ہونا یتیم پوتے کے وارث ہونے کے لیئے کوئی شرط ہے ہی نہیں۔ یہ شرط تو خود ساختہ، من گھڑت ہے۔
((إِذا لم يكن إبن)) کا بھی وہی معنی ہے جو ((إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) یعنی بیٹے کے بیٹے (پوتے) کے وارث ہونے کا بیان جب مرنے والے کا بیٹا نہ ہو یعنی پوتے کا باپ نہ ہو۔ تو دونوں الفاظ ایک ہی معنی کو بتلا رہے ہیں۔
اور مسئلہ بھی در حقیقت یہی ہے کہ جب کوئی بیٹا مرجائے اور اپنے پیچھے اپنے بیٹے چھوڑ جائے تو ان کا حکم یہی ہے کہ وہ اپنے باپ کی جگہ وارث ہیں۔
رہی بات یہ کہ ((له أبٌ)) کے الفاظ کا بریکٹ میں آنا تو بریکٹ میں لانے کی وجہ یہ بنی کہ یہ عام طور پر مروجہ و معروف الفاظ ((إِذا لم يكن إبن)) سے ہٹ کر ہیں اس لیئے اس کی وضاحت کی ضرورت پڑی ۔ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ عبارت میں مذکور ((له أبٌ)) کے الفاظ من گھڑت ہیں بلکہ اصل میں صحیح بخاری کے مذکورہ باب کے یہی الفاظ ہیں البتہ دوسرے نسخہ میں اس کے علاوہ ((إبن)) کا لفظ مذکور ہے۔ اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ جب بیٹا نہ ہو تو اس بیٹے کا بیٹا وارث ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں جب پوتے کا باپ نہ ہو تو پوتا وارث ہے دونوں ایک ہی بات ہے دونوں میں قطعی کوئی فرق نہیں اور نہ ہی دوسری کوئی بات ہے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اس پر ہم نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کے پیش کردہ الفاظ کے ساتھ، صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ عبارت موجود ہے! ابن داود نے کہا ہے: ↑ یہ ضرور بتائیے گا کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ باب ہے! اس کا آپ نے یہ جواب دیا: مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ [صحيح بخاري: كتاب الفرائض]7 -باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ). (1). یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر] *----------------------------------------------- (1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن). Click to expand... قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ اول تو ہم نے آپ سے سوال کیا تھا، کہ صحیح بخاری کے کس نسخہ میں یہ عبارت ہے، تو آپ نے صحیح بخاری کے کسی نسخہ کا حوالہ نہیں دیا، بلکہ صحیح بخاری کی ایک شرح کے حوالہ نقل کردیا!
اب اس حوالہ میں اس عبارت کی حثیت کیا ہے، یہ تو اگے بیان ہو گا ان شاء اللہ!
یہاں یہ بتلانا مقصود ہے، کہ آپ خود اس سے قبل صحیح بخاری کے حوالہ سے جو عبارت نقل کرتے رہے ہیں، وہ اس عبارت سے مختلف ہے! مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ امام بخاری لکھتے ہیں: صحیح بخاری کے یتیم پوتے اور پوتی کے حق وراثت کے اثبات کے الگ الگ دو ابواب [صحيح بخاري: كتاب الفرائض]7 -باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ). یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ آئیے ہم آنجناب کی اس خوش فہمی کو دور کیئے دیتے ہیں۔ صحیح بخاری : کتاب الفرائض کا باب کچھ اس طرح ہے: [صحيح بخاري: كتاب الفرائض]7 -باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ). (1). یعنی بیٹے کے بیٹے(پوتے) کی میراث کا باب جب کہ اس کا باپ نہ ہو۔ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح، تصنيف: سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد الأنصاري الشافعي، المعروف بابن المُلقّن(723 - 804 هـ)
تحقيق: دار الفلاح، للبحث العلمي وتحقيق التراث
بإشراف: خالد الرباط، جمعة فتحي
تقديم: فضيلة الأستاذ الدكتور أحمد معبد عبد الكريم، أستاذ الحديث بجامعة الأزهر
إصدارات: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، إدارة الشؤون الإسلامية - دولة قطر] ؐ----------------------------- (1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن). Click to expand... مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ امام بخاری نے یہ باب باندھا اور اس کے تحت حدیث رسول پیش کی جیسا کہ باب کے عنوان سے ظاہر ہے: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1) وَقَالَ زَيْدٌ - رضي الله عنه -: وَكَذَا وَلَدُ الأَبْنَاءِ بِمَنْزِلَةِ الوَلَدِ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُمْ وَلَدٌ، ذَكَرُهُمْ كَذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ كَأُنْثَاهُمْ، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيَحْجُبُونَ كَمَا يَحْجُبُونَ، وَلاَ يَرِثُ وَلَدُ الابْنِ مَعَ الابْنِ. 6735 -حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهْوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» [انظر: 6732 - مسلم: 1615 - فتح 12/ 16] __________ (1) قال المحقق: كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن). Click to expand... مسرور احمد الفرائضی نے کہا ہے: ↑ پوری عبارت یوں ہے: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1) قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ مذکورہ بالا اقتباسات میں آپ نے امام بخاری کی صحیح بخاری کی طرف اس عبارت کو منسوب کیا ہے!
اور لطیفہ یہ ہے، کہ صحیح بخاری کے کسی نسخہ میں بھی یہ عبارت موجود نہیں!
آپ کی پیش کردہ عبارت خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کی کتاب صيح بخاری کی شرح، التوضيح لشرح الجامع الصحيح، میں اسی طرح موجود ہے، اور اس پر محققین کا حاشیہ بھی موجود ہے، جو آپ نے بھی نقل کیاہے: 7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1) ۔۔۔ (1) كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن). اگر آپ میں کچھ علمی لیاقت ہوتی، تو آپ کو سمجھ آتا، کہ محققین نے یہاں ''(له أبٌ)'' کو خواہ مخواہ بریکٹ میں نہیں لکھا، بلکہ اس کی وجہ ہے، اور اس پر حاشیہ میں یہ خواہ مخواہ نہیں بتایا، کہ جس نسخہ کو اصل قرار دے کر یہ طباعت کی گئی ہے، اس نسخہ میں تو ''له أبٌ'' ہے، اور صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ میں ''ابن'' ہے!
اور یہاں اسے بریکٹ میں اس لئے لکھا ہے کہ یہ ''(له أبٌ)'' ان محققین کے نزدیک بھی درست و ثابت نہیں، بلکہ ابن ملقن کی صحیح بخاری کی شرح ''التوضيح لشرح الجامع الصحيح'' کے مخطوط میں تصحیف ہے! اور درست وہ ہے، جو صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ سے ذکر کیا یعنی ''ابن''۔ الجواب:
أقول: اسی کو کہتے ہیں کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے!
جناب من!
میں نے صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کیا پیش کر دیئے کہ آپ کی تو ہوا ہی نکل گئی اور آپ کا پورا خود ساختہ دین و مذہب ہی دھڑام سے گر کر ملیامیٹ ہوگیا۔ اور آپ اس درجہ بے چین و پریشان ہوئے کہ بار بار ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرائے جا رہے ہیں کہ دیکھیئے گا آپ نے پہلے جو باب کے الفاظ پیش کیئے تھے وہی پیش کر کے بحث کیجیئے گا۔ یہ الفاظ ذکر نہ کیجیئے گا۔ جو آپ کی خبط الحواسی، بد حواسی اور تلملاہٹ و بےچینی کو ظاہر کیئے دے رہی ہے۔ اور آپ اپنی بوکھلاہٹ و بے چینی اور خبط الحواسی، بد حواسی میں اس کا انکار کرنے اور اس کو بھی میرا خود ساختہ ثابت کرنے اور جھٹلانے تک پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
چنانچہ جناب عالی لکھتےہیں:
(یہاں اسے بریکٹ میں اس لئے لکھا ہے کہ یہ ''(له أبٌ)'' ان محققین کے نزدیک بھی درست و ثابت نہیں، بلکہ ابن ملقن کی صحیح بخاری کی شرح ''التوضيح لشرح الجامع الصحيح'' کے مخطوط میں تصحیف ہے! اور درست وہ ہے، جو صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ سے ذکر کیا یعنی ''ابن''۔)
جب کہ اس کتاب کے محققین نے انہیں الفاظ کو اصل قرار دیا ہے چنانچہ کتاب کے حاشیے میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے:
(قال المحقق: كذا ((له أبٌ)) بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).)
یعنی اصل کے مطابق (((له أبٌ))) کے ہی الفاظ ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں ((ابن)) کا لفظ ہے۔
لیکن جن لوگوں کی فطرت میں جھوٹ بولنا جھوٹ کو پھیلانا ہو اور جن کا دین و مذہب ہی جھوٹ پر ہو وہ تو سچ کو جھٹلائیں گے ہی!
جناب عالی نے صریحی طور پر جھوٹ بولا ہے کہ (بلکہ ابن ملقن کی صحیح بخاری کی شرح ''التوضيح لشرح الجامع الصحيح'' کے مخطوط میں تصحیف ہے! اور درست وہ ہے، جو صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ سے ذکر کیا یعنی ''ابن''۔)
حاشیہ میں تو یہ الفاظ ہیں:
(قال المحقق: كذا ((له أبٌ)) بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).)
یعنی محقق کتاب نے کہا کہ اصل کے مطابق (((له أبٌ))) کے ہی الفاظ ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں ((ابن)) کا لفظ ہے۔
لیکن جو شخص بد دیانت اور بے ایمان ہوتا ہے وہ اپنی بد دیانتی و بے ایمانی سے نہیں چوکتا ہے۔ اور کہاوت بھی ہے کہ چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے۔
یہاں قرآن و حدیث فہمی کا دعویٰ کرنے اور صحیح قرآن و حدیث فہمی کا زعم باطل رکھنے والے اعلیٰ فہم و فراست کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے ابن داود صاحب نے اپنی بد دیانتی و بے ایمانی اور خیانت لفظی و معنوی کا فن استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: (ابن ملقن کی صحیح بخاری کی شرح ''التوضيح لشرح الجامع الصحيح'' کے مخطوط میں تصحیف ہے! اور درست وہ ہے، جو صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ سے ذکر کیا یعنی ''ابن''۔)
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جناب عالی نے لکھا ہے (صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ)۔ جب کہ صحیح یہ ہے: (نسخہ یونینیہ) جیسا کہ محقق نے لکھا ہے: (وفي اليونينية)۔ تو یہ ہے آنجناب کی اردو عربی دانی کا ایک اور نمونہ۔
جب کہ محققین کتاب اس کے بر خلاف بات کہہ رہے ہیں کہ ترجمۃ الباب کے اصل الفاظ تو (((له أبٌ))) ہی ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں ((ابن)) کا لفظ ہے۔ اور حافظ ابن حجر کی شرح فتح الباری میں نسخہ یونینیہ کے ہی الفاظ منقول ہیں یعنی (((له أبٌ))) کے بجائے محض ((ابن)) کا لفظ ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن الملقن شرح بخاری التوضیح کے حاشیہ کےالفاظ یوں ہیں۔ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ۔
جس پر حاشیہ میں کہا گیا ہے: ((قال المحقق: كذا ((له أبٌ)) بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).)
یعنی اصل کے مطابق (((له أبٌ))) کے ہی الفاظ ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں ((ابن)) کا لفظ ہے۔
چونکہ ابن داود صاحب کو اپنی بات کو بہر صورت صحیح ٹھہرانا ہے اسکے لیئے چاہے قرآن و حدیث میں ہی تحریف نہ کرنا پڑے سب جائز ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر کی شرح بخاری میں مذکور ترجمۃ الباب کے ترجمہ میں آنجناب نے کھلے طور پر لفظی و معنوی دونوں تحریف کی۔ جو پیچھے گذر چکا ہے اور آئندہ بھی مزید پیش کیا جائے گا۔ (ان شاء اللہ)۔
آنجناب مجھ پر الزام تراشی کرتے ہوئے اپنی بوکھللاہٹ کا اظہار ان الفاظ میں کر رہے ہیں:
(مذکورہ بالا اقتباسات میں آپ نے امام بخاری کی صحیح بخاری کی طرف اس عبارت کو منسوب کیا ہے!)
جب کہ صحیح بخاری کے یہ الفاظ تو صحیح بخاری کی ایک اہم شرح جو امام ابن حجر کی شرح بخاری سے تقریبا پچاس سال قبل لکھی گئی ہے اس میں مذکور الفاظ ہیں(((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) )۔
اس عبارت میں میرا اپنا کوئی دخل نہیں ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ امام ابن حجر کی شرح بخاری سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل لکھی گئی ایک اور شرح امام ابن بطال کی شرح بخاری میں بھی باب مذکور کے یہی الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہیں۔ اور اس میں تصحیف شدہ لفظ ((ابن)) نسخہ یونینیہ میں مذکور لفظ ((ابن)) کے ساتھ خلط ملط ہوگیا ہے۔
اب آنجناب کا یہ کہنا کس قدر صحیح ہے کہ: (مذکورہ بالا اقتباسات میں آپ نے امام بخاری کی صحیح بخاری کی طرف اس عبارت کو منسوب کیا ہے!) ۔ اس کا فیصلہ قارئین کریں!۔
اس پر آنجناب کا یہ دعویٰ اور لطیفہ جیسا کہ آنجناب نے لکھا ہے:
(اور لطیفہ یہ ہے، کہ صحیح بخاری کے کسی نسخہ میں بھی یہ عبارت موجود نہیں!) ۔
تو آنجناب کا یہ لطیفہ کتنا پر لطف اور پر فریب اور کتنا بڑا جھوٹ ہے کہ (صحیح بخاری کے کسی نسخہ میں بھی یہ عبارت موجود نہیں!) ۔ اگر صحیح بخاری کے کسی بھی نسخہ میں یہ الفاظ نہیں تھے تو آخر حافظ ابن الملقن کی کتاب التوضیح شرح الجامع الصحیح میں ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کے الفاظ کہاں سے آئے؟ اسی طرح یہ الفاظ شرح ابن بطال میں بھی کہاں سے آئے ؟ ۔
چونکہ صحیح بخاری کے یہ الفاظ اتنے واضح اور دو ٹوک ہیں جو سیف بتار سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔جس سے زیر بحث مسئلہ میں کسی قسم کی کوئی بھی حجت و بکواس کرنے کی قطعی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہ جاتی ہے اور جو زیر بحث مسئلہ میں دلیل واضح اور حجت قاطع ہے۔ جو ان لوگوں کے اس من گھڑت خانہ ساز دین و مذہب کہ ((پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو!) ) کو منہدم کر دیتا ہے اور ڈھا دیتا ہے۔ اس لیئے اس کو غلط ثابت کرنے اور جھٹلانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
اس کے بعد آنجناب لکھتے ہیں:
اس پر آنجناب کا یہ دعویٰ اور لطیفہ جیسا کہ آنجناب نے لکھا ہے:
(اور لطیفہ یہ ہے، کہ صحیح بخاری کے کسی نسخہ میں بھی یہ عبارت موجود نہیں!) ۔
تو آنجناب کا یہ لطیفہ کتنا پر لطف اور پر فریب اور کتنا بڑا جھوٹ ہے کہ (صحیح بخاری کے کسی نسخہ میں بھی یہ عبارت موجود نہیں!) ۔ اگر صحیح بخاری کے کسی بھی نسخہ میں یہ الفاظ نہیں تھے تو آخر حافظ ابن الملقن کی کتاب التوضیح شرح الجامع الصحیح میں ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کے الفاظ کہاں سے آئے؟ اسی طرح یہ الفاظ شرح ابن بطال میں بھی کہاں سے آئے ؟ ۔
چونکہ صحیح بخاری کے یہ الفاظ اتنے واضح اور دو ٹوک ہیں جو سیف بتار سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔جس سے زیر بحث مسئلہ میں کسی قسم کی کوئی بھی حجت و بکواس کرنے کی قطعی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہ جاتی ہے اور جو زیر بحث مسئلہ میں دلیل واضح اور حجت قاطع ہے۔ جو ان لوگوں کے اس من گھڑت خانہ ساز دین و مذہب کہ ((پوتے کا دادا کے ترکہ میں حقدار وحصہ دار ہونے کی شرط یہ ہے، کہ دادا کی کوئی نرینہ أولاد موجود نہ ہو!) ) کو منہدم کر دیتا ہے اور ڈھا دیتا ہے۔ اس لیئے اس کو غلط ثابت کرنے اور جھٹلانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
اس کے بعد آنجناب لکھتے ہیں:
(آپ کی پیش کردہ عبارت خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) کی کتاب صيح بخاری کی شرح، التوضيح لشرح الجامع الصحيح، میں اسی طرح موجود ہے، اور اس پر محققین کا حاشیہ بھی موجود ہے، جو آپ نے بھی نقل کیاہے:
(7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ (له أبٌ) (1) ... (1) كذا بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).)
لیکن اس کے بعد اپنی بکواس شروع کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
(اگر آپ میں کچھ علمی لیاقت ہوتی، تو آپ کو سمجھ آتا، کہ محققین نے یہاں ''(له أبٌ)'' کو خواہ مخواہ بریکٹ میں نہیں لکھا، بلکہ اس کی وجہ ہے، اور اس پر حاشیہ میں یہ خواہ مخواہ نہیں بتایا، کہ جس نسخہ کو اصل قرار دے کر یہ طباعت کی گئی ہے، اس نسخہ میں تو ''له أبٌ'' ہے، اور صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ میں ''ابن'' ہے!)۔
تو جناب من!
آپ کی علمی لیاقت کا یہ حال ہے لکھتے ہیں: (صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ) جب کہ صحیح لفظ یہ ہے: (نسخہ یونینیہ) جیسا کہ محقق نے لکھا ہے: (وفي اليونينية)۔ تو یہ ہے آنجناب کی اردو عربی دانی کا ایک اور نمونہ اور علمی لیاقت کا حال ۔
لہذا آپ میری علمی لیاقت کو ناپنے کے بجائے اپنی جہالت وحماقت کو ناپیئے تولیئےاور اپنی عقل وخرد پر گریہ و زاری کیجیئے اور ماتم منائیے، نوحہ کیجیئے، اپنا سر پھوڑیئے، اپنا گریبان پھاڑیئے۔
آپ اس درجہ جاہل و احمق اور بے وقوف آدمی ہیں ۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا۔ محققین نے یہاں بریکٹ میں (إِذَا لَمْ يَكُنْ) کے بعد ((لِهُ أبٌ)) کے الفاظ جو لکھے ہیں وہ آپ جیسے کم عقل بے وقوفوں اور جاہلوں کو سمجھانے کے لیئے لکھے ہیں اور یہ بتانے کے لیئے ہی لکھیں ہیں کہ صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ابن الملقن کی شرح کے اصل الفاظ ((لَهُ أبٌ)) ہیں۔ جو ان کے شاگر د سبط کے نسخہ سے ماخوذ ہیں جس پر حافظ ابن الملقن کی تصدیق و توثیق ثبت ہے۔ اور اسی نسخہ کو محقق نے اصل قرار دیا ہے جیسا کہ حاشیہ میں مذکور ہے کہ (قال المحقق: كذا (لَهُ أبٌ) بالأصل، وفي اليونينية: (ابن).) یعنی صحیح بخاری کے باب کے یہ الفاظ ابن الملقن کی شرح کے اصل الفاظ ((لَهُ أبٌ)) ہیں البتہ نسخہ یونینیہ میں لفظ ((ابن)) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نسخہ یونینیہ میں تصحیف واقع ہونے کے سبب تصحیف شدہ لفظ ((ابن)) ثبت ہو گیا ہے ۔
جس شرح بخاری التوضیح کے یہ الفاظ ہیں: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ))
وہ شرح بخاری حافظ ابن الملقن کی ہے کتاب التوضیح شرح الجامع الصحیح ہے جو عام طور پر معروف و متداول شرح بخاری فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی سے تقریبا پچاس سال قبل لکھی گئی ہے اس میں باب کے یہ الفاظ مذکور ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ صحیح بخاری کے کسی دوسرے نسخہ سے ماخوذ و منقول ہیں جو یقینا نسخہ یونینیہ کے علاوہ کوئی دوسرا نسخہ تھا جو حافظ ابن الملقن کے پاس موجود و محفوظ تھا جس کو شرح کرتے وقت سامنے رکھا تھا۔ جو عام طور پر معروف و متداول نسخہ یونینیہ کے علاوہ کوئی دوسرا ہی نسخہ تھا۔ جو یقینا حافظ ابن حجر کے پاس نہیں تھا۔ ورنہ حافظ ابن حجر کو اس باب کی یہ توضیح و تشریح نہ کرنے پڑتی :
((قَوْله: (مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن) أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ))۔
یہی وجہ ہے کہ اما م حافظ ابن الملقن کو ترجمۃ الباب کے ان الفاظ کی شرح کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ یہ عبارت اپنے مسئلہ میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ کسی طرح کی تشریح و توضیح کی قطعا کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور امام ابن حجر کے ترجمۃ الباب اور توضیح و تشریح سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ جب میت کا کوئی بیٹا وفات پاگیا ہو اور اس کے بیٹے بیٹیاں موجود ہوں تو اس کے وہ بیٹے بیٹیاں یعنی یتیم پوتے پوتیاں اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہیں باوجودیکہ ان کے چچا تائے موجود ہوں اور جب ان کے چچا تائے بھی نہ ہوں تو بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہیں۔ اور یہ بات امام ابن حجر نے اپنی شرح میں کہی ہے۔
در اصل امام ابن حجر کو اس توضیح و تشریح کی ضرورت اس لیئے پڑی کیونکہ ترجمۃ الباب میں (((قَوْله: (مِيرَاث ابن الابْن إِذا لم يكن ابن))۔ میں مذکور لفظ ((ابن)) سے اشکال پیدا ہو رہا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے آیا پوتے کا بیٹا یا دادا کا کوئی دوسرا صلبی بیٹا یا کوئی دوسرا منھ بولا بیٹا یا پھر مذکورہ پوتے کا بیٹا تو اس کی وضاحت امام ابن حجر نے کردی کہ کسی طرح کا کوئی بھی بیٹا نہیں بلکہ میت کا صلبی بیٹا نہ ہو۔ تو پوتا وارث ہوگا۔ جس کے بعد ایک اشکال یہ پیدا ہو رہا تھا کہ میت کا کوئی بھی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا یا صرف اس کا باپ نہ ہو تو وارث ہو جائے گا تو اس اشکال کو بھی انہوں نے دور کردیا اور کہا کہ جب میت کا وہ صلبی بیٹا جو کہ پوتے کا باپ ہے صرف وہ نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہوگا اور جب اس کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہو گا۔ اسی بات کو حافظ ابن حجر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: (أَيْ لِلْمَيِّتِ لِصُلْبِهِ سَوَاءٌ كَانَ أَبَاهُ أَوْ عَمَّهُ)) یعنی میت کا صلبی بیٹا نہ ہو خواہ وہ صلبی بیٹا جو پوتے کاباپ ہے نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہوگا یا پھر اس کا چچا تایا بھی نہ ہو تب بھی پوتا وارث ہوگا۔ بہر دو صورت پوتا وارث ہوگا۔ یہی بات ترجمۃ الباب کے ان الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) سے بھی واضح ہوتی ہے جو حافظ ابن الملقن کی شرح میں مذکور و موجود ہیں۔ اس کا بھی وہی مطلب ہے کہ جب پوتے کا باپ نہیں تو پوتا وارث ہے اب اگر اس کے چچا تائے ہیں تو بھی پوتا وارث ہے اور اگر نہیں ہیں تو بھی پوتا وارث ہے۔
بنا بریں صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب سے یہ بات تو صاف اور روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے یقینا محجوب نہیں ہے بلکہ وارث ہے اور اپنے دادا کے ترکہ کا اسی طرح حقدار و حصہ دار ہے جیسے اس کے چچا تائے حقدار و حصہ دار ہیں۔
اور نہ ہونے کی کوئی دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی احادیث صحیحہ میں ہے لہذا یتیم پوتے کو قرآن وحدیث کی دلیل کے بغیر محجوب و محروم الارث قرار دینا شرعا ناجائز، حرام اور باطل و مردود ہے۔ اللہ و رسول کا دین اس سے کلی طور پر بری اور پاک ہے۔ اللہ کے نازل کردہ دین میں تو قطعی یہ چیز نہیں ہے البتہ لوگوں کی گھڑی بنائی ہوئی خانہ ساز شریعت اور دین و مذہب میں ہو تو ہو جس کی ہمیں قطعی کوئی حاجت و ضرورت نہیں ہے۔
در اصل آپ کو میری اس پیش کردہ عبارت نے اس درجہ حیران و پریشان کردیا ہے کہ اس عبارت کے ہوتے آپ کی ایک بنائے نہیں بن پارہی ہے اس لیئے آپ اپنی حیرانی و پریشانی کو چھپانے اور جھینپ مٹانے کی خاطر اس طرح کی لایعنی باتیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ اب تک آپ نے جو خوابوں کی جنت بنا رکھی تھی اور آپ اس میں سیر کرنا چاہ رہے تھے وہ تو حسن بن صباح کی شیطانی جنت ثابت ہوئی اور اب تک جتنی بھی بکواسیں کیں اور ہفوات بکیں ان سب کی حقیقت کو کھول کر بکھیر دیا اور میری پیش کردہ اس عبارت کے ایک لفظ نے (ھباءا منثورا ) کردیا، خس و خاشاک اور دھول بنا کر اڑادیا تو اب آپ کے پاس بکواس کرنے کے لیئے کچھ بچا ہی نہ رہا تو اب لگے میری اس پیش کردہ عبارت میں ہی اپنی عادت کے مطابق کیڑے نکالنے جیسا کہ کچھ جانوروں کا حال ہے کہ وہ کیڑے نکال نکال کر کھایا کرتے ہیں۔
جب کہ میں نے جو عبارت صحیح بخاری کے باب کی پیش کی ہے وہ میری نہیں بلکہ وہ ہم آپ سے تقریبا ساڑھے چھ سو (۶۵۰) سال پہلے لکھی گئی شرح بخاری کی ہے۔ اور اس سے بھی پہلے لکھی گئی شرح بخاری کی ہے جو (۳۷۰ ھ) سے پہلے لکھی گئی یعنی آج سے تقریبا (۱۰۷۱) سال پہلے لکھی گئی ہے۔ *----------------------------------------------*
قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن ملقن کی یہ کتاب جامعة أم القری سے متعدد أجزاء میں رسالة ماجستر کے تحت دراسة وتحقيق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں مذکورہ باب کی عبارت یوں ہے: باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 التوضيح لشرح الجامع الصحيح (من أول كتاب الأيمان والنذور إلى آخر كتاب الفرائض) – ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) – رسالة ماجستر ظافر بن عایض بن محمد الشهراني، بإشراف الدکتور عبد الودود مقبول حنيف – جامعة أم القری، مكة المكرمة معلوم ہوا کہ آپ کی خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے مطبوع اشاعت میں ''ابن'' کا ''ن'' ساقط ہے!
اور ان محققین نے اس کی نشاندہی بھی کر دی ہے! کیونکہ جس نسخہ سے اس اشاعت کو مرتب کیا گیا ہے، اس نسخہ میں ''ن'' ساقط ہے۔
اسی طرح جامعة أم القری سے شائع ہونے والی اشاعت میں بھی اس کی طرف نشاندہی یوں کی گئی ہے۔ (۵) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، باب ميراث ابن الإبن إذا لم يكن له اب. ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 التوضيح لشرح الجامع الصحيح (من أول كتاب الأيمان والنذور إلى آخر كتاب الفرائض) – ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ) – رسالة ماجستر ظافر بن عایض بن محمد الشهراني، بإشراف الدکتور عبد الودود مقبول حنيف – جامعة أم القری، مكة المكرمة اب کسی کو یہ وہم نہ ہو جائے، کہ شرح صحيح البخارى لابن بطالمیں، باب کی ''یہ عبارت'' مذکور ہے، لہٰذا ابن بطال سے بھی اس کو ثابت کرنے کے در پر ہو جائے!
شرح ابن بطال کی عبارت اس طرح ہے: باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ ملاحظہ فرمائیں: صفحه 349 جلد 08 شرح صحيح البخارى لابن بطال – ابن بطال أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (المتوفى: 449هـ) – مكتبة الرشد، الرياض معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے باب کا نام ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ''ہی رکھا تھا، لیکن نسخہ میں ''ن'' ساقط ہو گیا ہے!
ممکن ہے کہ اس کے باوجود بھی کوئی بضد ہو، اور ضد کرے کہ، یہ باب تو ابن بطال کی شرح کا ہے، اس سے ابن ملقن کی شرح کا باب یہی کیوں ہوا! الجواب:
أقول: جناب من!
آپ کا یہ کہنا : (معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے باب کا نام ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ'' ہی رکھا تھا، لیکن نسخہ میں ''ن'' ساقط ہو گیا ہے!) ۔
قطعی طور پر غلط اور سو فیصدی جھوٹ ہے کیونکہ حافظ ابن الملقن نے در حقیقت ترجمۃ الباب کے الفاظ : ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ثبت کیئے ہیں جو ان کے شاگرد برہان الدین سبط ابن العجمی کے نسخہ میں موجود ہیں جس کو اصل بنا کر اس کتاب کی تحقیق کی گئی ہے اور طبع ہوئی ہے اور یہی الفاظ حافظ ابن الملقن کی شرح میں آج بھی مذکور و موجود ہیں۔ جس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ پوتا صرف اور صرف اپنے باپ کے ہوتے محجوب ہے اور اس کی عدم موجودگی میں وارث ہے پس جب پوتے کا صرف باپ نہ ہو اور اس کے چچا تائے ہوں تب بھی پوتا اپنے دادا کا وارث ہے اب اگر اس کے چچا تائے بھی نہ ہوں تب بھی پوتا اپنے دادا کا وارث ہے اور بعینہ یہی بات امام ابن حجر نے اپنی شرح کے ذریعہ کہی ہے۔
یہ عبارت نہ تو میری ہے اور نہ ہی اس عبارت میں میرا اپنا کوئی دخل ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ امام ابن حجر کی شرح بخاری سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل لکھی گئی ایک اور شرح امام ابن بطال کی شرح بخاری میں بھی باب مذکور کے یہی الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہیں۔ اور اس میں تصحیف شدہ لفظ ((ابن)) نسخہ یونینیہ میں مذکور لفظ ((ابن)) کے ساتھ خلط ملط ہوگیا ہے۔ اور باب کی عبارت یوں ثبت ہو گئی ہے: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ إبنٌ)) ۔
اس عبارت میں (لِهُ) میں (هُ) ضمیر کا مرجع عبارت میں نہیں ہے بلکہ غیر معروف ہے جب کہ ((لِهُ أبٌ)) میں (هُ) ضمیر کا مرجع معروف ہے اور وہ ہے ((ابْنِ الاِبْنِ)) ۔
پس ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کا معنی و مفہوم بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ جس پوتے کا باپ نہ ہو تو وہ پوتا اپنے داد کا وارث ہے۔ چنانچہ اس عبارت کا لفظی ترجمہ یوں ہوا کہ بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا بیان جب اس بیٹے کے بیٹے (پوتے) کا باپ نہ ہو۔
جب کہ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ إبنٌ)) ۔ اس عبارت کا لفظی ترجمہ یوں ہوا کہ بیٹے کے بیٹے (پوتے) کی میراث کا بیان جب اس بیٹے کے بیٹے (پوتے) کا بیٹانہ ہو۔ اس عبارت میں اگر (لِهُ) میں (هُ) ضمیر کا مرجع ((ابْنِ الاِبْنِ)) کو مانا جائے تو عبارت غلط ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر (لِهُ) میں (هُ) ضمیر کا مرجع ((ابْنِ الاِبْنِ)) کو مانا جائے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کس کا بیٹا نہ ہو؟؟؟۔
بنا بریں ((لِهُ إبنٌ)) کے چلتے عبارت ہی غلط ثابت ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ باب کے اصل اور صحیح و درست اور معقول الفاظ: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ہیں۔ اور ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ إبنٌ)) کے الفاظ تصحیف شدہ الفاظ ہیں۔
لہذا آپ کا یہ کہنا : (معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے باب کا نام ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ'' ہی رکھا تھا، لیکن نسخہ میں ''ن'' ساقط ہو گیا ہے!) ۔
قطعی طور پر غلط ہے۔ تصحیف ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کے الفاظ میں قطعی طور پر نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ تصحیف ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ إبنٌ)) کے الفاظ میں ہوئی ہے اور جس شخص نے مخطوطہ سے ان الفاظ کو نقل کیا ہے اس نے نسخہ یونینیہ کا لحاظ کرتے ہوئے ((لِهُ أبٌ)) کے بجائے ((لِهُ إبنٌ)) درج کردیا ہے۔ پس ((لِهُ إبنٌ)) کے الفاظ ہی تصحیف شدہ ہیں۔ اور اصل الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل و ثبوت آپ کی پیش کردہ یہ عبارت ہے: (صحیح بخاری کے نسخہ نونیہ) جب کہ صحیح لفظ یہ ہے: (نسخہ یونینیہ) جیسا کہ محقق نے لکھا ہے: (وفي اليونينية)۔
تو جس طرح آپ نے صحیح لفظ (نسخہ یونینیہ) کو (نسخہ نونیہ) لکھ دیا ہے تو اسی طرح کسی نے نسخہ یونینیہ کا لحاظ کرتے ہوئے ((لِهُ أبٌ)) کے بجائے ((لِهُ إبنٌ)) درج کردیا ہے۔ پس ((لِهُ إبنٌ)) کے الفاظ ہی تصحیف شدہ ہیں۔ اور اصل الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ہیں۔ اور اس کے صحیح ہونے کا دوسرا ثبوت اور دلیل یہ ہے کہ حافظ ابن الملقن کی شرح کے اصل نسخہ کے الفاظ جو ان کے شاگرد کے نقل کردہ ہیں جس پر حافظ ابن الملقن کی دستخط بھی ہے اور جو مطبوعہ و محققہ نسخہ کی اصل ہے میں یہی الفاظ ہیں اور خود تحقیق شدہ مطبوعہ نسخہ کے بھی یہی الفاظ ہیں۔
اور ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کے ان الفاظ کے صحیح ہونے کی ایک دلیل اور بھی ہے وہ یہ کہ اس شرح کے اس حصہ سے متعلق جو تحقیقی رسالہ جس کا آپ نے حوالہ دیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کے اندر لفظ ((لِهُ أبٌ)) کے بعد حرف ((نٌ)) ساقط ہے قطعا غلط ہے۔ کیونکہ اس رسالہ کے اندر دو جگہوں پر حاشیہ میں شرح ابن بطال کا حوالہ دیا گیا ہے اور دونوں ہی جگہ باب کے یہی الفاظ منقول ہیں: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ))۔
پس ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) کے اندر لفظ ((لِهُ أبٌ)) کے بعد حرف ((نٌ)) ساقط نہیں ہے اور ایسا کہنا قطعا غلط ہے۔ بلکہ اس عبارت میں لفظ ((أبٌ)) کے بعد حرف ((نٌ)) کا اضافہ ہوا ہے چاہے قصدا ایسا ہوا ہو چاہے سہوا ایسا ہوا ہو بہر حال اضافہ ہواہے۔
نیز آنجناب کا یہ کہنا کہ (معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے باب کا نام ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ''ہی رکھا تھا) آپ کی جہالت و حماقت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ کیونکہ باب کا عنوان یا نام حافظ ابن الملقن نے نہیں بلکہ خود امام بخاری نے رکھا ہے حافظ ابن الملقن تو صرف اس کے ناقل ہیں۔ تو صحیح بخاری کا جو نسخہ ان کے پاس تھا جس کی انہوں نے شرح کی ہے اس میں باب کے یہی الفاظ تھے جسے انہوں نے نقل کیا ہے۔ اور اس میں باب کا جو نام یا عنوان لکھا ہوا تھا اسی کو امام ابن الملقن نے اپنی شرح میں نقل کیا ہے۔جس پر تعلیق و حاشیہ اس کتاب کے محقق نے چڑھاکر یہ بتادیا ہے کہ امام ابن الملقن نے باب کا یہی عنوان نقل کیا ہے جو صحیح بخاری کا خود کا قائم کیا ہوا باب ہے۔
اگر آپ کی یہ بات صحیح مانی جائے تو پھر اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کتاب کی شرح کرنے بیٹھے تو وہ اپنے من مانے طور پر کتاب کے متن میں جس طرح چاہے تبدیلی کر لے۔ جیسا کہ آپ نے باب کے ترجمہ میں یہ خیانت و بد دیانتی کی ہے کہ باب کا ترجمہ کرتے ہوئے (کوئی) لفظ کا اضافہ کرتے ہوئے باب کا یہ ترجمہ کر ڈالا کہ جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تب پوتا وارث ہوگا۔ آپ کی طرح ہر کوئی یہ مقدس کا م نہیں کر سکتا ہے۔
اور چونکہ ترجمۃ الباب کے ان الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) سے آپ کی خیانت و بد دیانتی اور بے ایمانی کی پول کھل رہی ہے اس لیئے اب ان الفاظ ہی کو جھٹلانے میں لگ گئے اور اس کو تصحیف شدہ ثابت کرنے پر تل لگے۔ اور اس میں سقط واقع ہونے کا دعویٰ بھی کردیا ۔ لہذا آپ کا یہ کہنا کہ (لیکن نسخہ میں ''ن'' ساقط ہو گیا ہے!) ۔ قطعی طور پر غلط اور باطل و مردود بات ہے۔ در اصل نسخہ یونینیہ کے چلتے آپ کی پیش کردہ عبارت میں (''ن'') کا اضافہ ضرور ہوا ہے۔
آنجناب نے کہا: (ابن ملقن کی یہ کتاب جامعة أم القری سے متعدد أجزاء میں رسالة ماجستر کے تحت دراسة وتحقيق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں مذکورہ باب کی عبارت یوں ہے: باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن)۔
آپ کا یہ کہنا بھی قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ حافظ ابن الملقن کی جو شرح پوری تحقیق و تدقیق کے ساتھ اس کے اصل و معتمد علیہ نسخہ (یعنی ان کے شاگر سبط کے خط سے لکھی ہوئی ہے اور اس پر کتاب کے مصنف حافظ ابن الملقن کے دستخط بھی ہیں )سے ماخوذ ہے مکمل شائع ہوئی ہے اس میں ترجمۃ الباب کے الفاظ: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ہیں۔ جس کی تحقیق و تدقیق ایک نہیں بلکہ دسیوں اہل علم افراد نے کی ہے۔ اور اس بات کو واضح کردیا ہے کہ شرح میں مذکور الفاظ اس کی اصل کے مطابق ہیں۔
ماجستر کے جس رسالہ کا آنجناب نے حوالہ دیا ہے اور اس کے حوالے سے یہ کہا ہے: (اس میں مذکورہ باب کی عبارت یوں ہے: باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن)۔
تو صاحب رسالہ نے بہت زیادہ تدقیق سے کام نہیں لیا ہے البتہ انہوں نے شرح ابن بطال کا جو حوالہ حاشیہ میں دیا ہے اس میں ترجمۃ الباب کے الفاظ: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی نقل کیئے ہیں۔
لہذا (باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن) کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔
اگر بالفرض باب کے یہ الفاظ (باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن) یا (باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن ابن) ہوں تب بھی آپ کا خود ساختہ مفہوم کہ (یتیم پوتا دادا کا اسوقت وارث ہوگا جب داداکا کوئی بھی بیٹا نہ ہو) نہیں نکلتا ہے۔
آنجناب کا ارشاد گرامی ہے: (معلوم ہوا کہ آپ کی خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے مطبوع اشاعت میں ''ابن'' کا ''ن'' ساقط ہے! اور ان محققین نے اس کی نشاندہی بھی کر دی ہے! کیونکہ جس نسخہ سے اس اشاعت کو مرتب کیا گیا ہے، اس نسخہ میں ''ن'' ساقط ہے۔)۔
یہاں بھی آنجناب نے اپنی جہالت و حماقت کا ثبوت پیش کیا ہے اور غلط بیانی سے کام لیا ہے کہ (معلوم ہوا کہ آپ کی خالد الرباط اور جمعة فتحي کی تحقیق سے مطبوع اشاعت میں ''ابن'' کا ''ن'' ساقط ہے!)۔
تو جناب من!
یہ میری مطبوع اشاعت نہیں ہے ۔ بلکہ قطر کی وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیہ کی مطبوع اشاعت ہے ۔ جس کی تحقیق کا کام دار الفلاح کے دسیوں اہل علم حضرات کی کمیٹی نے انجام دیا ہے اور (خالد الرباط اور جمعة فتحي) نے اس کی نگرانی و اشراف کیا ہے اور جس پر تقدیم جامعہ ازہر کے استاذ حدیث کی جانب سے ہے۔ رہی آپ کی یہ بات کہ (مطبوع اشاعت میں ''ابن'' کا ''ن'' ساقط ہے!)۔ قطعا غلط ہے کیونکہ مطبوع اشاعت کا مقارنہ شرح کے اصل نسخہ اور دیگر معاون نسخوں سے کیا گیا ہے۔ چونکہ مذکورہ عبارت کے الفاظ میں عام کتب سے ہٹ کر (''ابن'') کے بجائے (''اب'') کا لفظ تھا تو محقق نے آپ جیسے لوگوں کی اسی بات کہ (مطبوع اشاعت میں ''ابن'' کا ''ن'' ساقط ہے!)۔ رد کرنے کے لیئے کہا کہ نہیں اس میں (''ن'' ساقط نہیں ہے!)۔ بلکہ کتاب کے یہی الفاظ ہیں جو اصل نسخہ سے منقول ہیں اور اسی کو ثبت کیا گیا ہے۔
رہی آپ کی یہ بات کہ (اسی طرح جامعة أم القری سے شائع ہونے والی اشاعت میں بھی اس کی طرف نشاندہی یوں کی گئی ہے۔ (۵) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، باب ميراث ابن الإبن إذا لم يكن له اب.) ۔
تو یہ بھی اس بات کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ شرح ابن بطال کے اندر ترجمۃ الباب کے الفاظ: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ہیں۔ جیساکہ یہ عبارت شاہد ہے: ((۵) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، باب ميراث ابن الإبن إذا لم يكن له اب.))
تو صاحب رسالہ نے حاشیہ میں جن الفاظ کو شرح ابن بطال کے حوالہ سے صحیح بخاری کے بطور ترجمۃ الباب کے نقل کیئے ہیں وہ بعینہ وہی الفاظ ہیں جو شرح ابن الملقن میں ہیں : ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ۔
جس سے یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ صحیح بخاری کے باب کے اصل الفاظ تو ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لِهُ أبٌ)) ہی ہیں البتہ نقل در نقل کے چلتے اور نسخوں کے اختلاف کے سبب کسی ناقل نے ((لِهُ إبنٌ)) اور کسی ناقل نے محض ((إبنٌ)) نقل کردیئے ہیں۔
لہذا (باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن له ابن) کے الفاظ ہوں یا (باب ميراث ابن الإبن اذا لم يكن ابن) کے الفاظ ہوں دونوں ہی محفوظ نہیں ہیں۔ اور صحیح بخاری کے باب کے اصل الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ أبٌ)) ہی ہیں۔
نیز آپ نے کہا: (اب کسی کو یہ وہم نہ ہو جائے، کہ شرح صحيح البخارى لابن بطالمیں، باب کی ''یہ عبارت'' مذکور ہے، لہٰذا ابن بطال سے بھی اس کو ثابت کرنے کے در پر ہو جائے! شرح ابن بطال کی عبارت اس طرح ہے: باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ) ۔
تو در اصل وہم کا شکار آپ ہیں اور دوسروں کو وہم میں ڈالنا چاہ رہے ہیں اسی لیئے آپ اس قسم کی شک پیدا کرنے والی باتیں کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ صحیح بخاری کے باب کے یہ دو ٹوک الفاظ آپ کے خود ساختہ موقف، دین و مذہب اور شریعت کو تار عنکبوت کی ثابت کرتے ہیں اور اس سے آپ کا مکڑی کی طرح بنا ہوا جال تہس نہس کیئے دے رہے ہیں۔ اور آپ کی تمام کٹھ حجتیوں کا قلع قمع ہو رہا ہے تو اب تو آپ اس کو جھٹلائیں گے ہی اور غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں گے ہی۔ کیونکہ اب تک آپ نے قرآن کی آیتوں اور احادیث کو جھٹلانے کا ہی کام کیا ہے اور لغت و عرف کو جھٹلاتے رہے ہیں اب جو حکم قرآن و حدیث اور شرع و عرف سے ثابت شدہ ہے اور فقہ الحدیث، محدثین اور اہل حدیث کا جو موقف ہے اسے بھی جھٹلانے لگ گئے ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ جو موقف محدثین اور اہل حدیث کا ہے وہ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں نقل کردیا ہے۔ اور ان کے ہی حوالے سے ان کی کتاب کی شرح میں امام ابن بطال اور ابن الملقن نے اپنی اپنی شرحوں میں نقل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب رسالہ نے حاشیہ میں امام ابن بطال کے حوالے سے باب کے وہی الفاظ نقل کیئے ہیں جو صحیح بخاری کے اصل الفاظ ہیں اور جو شرح ابن بطال اور شرح ابن الملقن میں مذکور ہیں۔
چنانچہ (جامعة أم القری سے شائع ہونے والی اشاعت میں بھی حاشیہ میں اسی کی طرف نشاندہی یوں کی گئی ہے۔ (۵) ما بين المعكوفين نقله عن ابن بطال، باب ميراث ابن الإبن إذا لم يكن له اب.) ۔
بعینہ یہی الفاظ شرح ابن الملقن میں بھی ہیں: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ أبٌ)) ۔
دونوں میں ایک حرف کا بھی فرق نہیں ہے۔
پس اس سے یہ بات تو متاکد اور یقینی ہو جاتی ہے کہ امام بخاری نے صحیح بخاری میں یتیم پوتے کے بارے میں جو باب باندھا ہے وہ یہ ہے کہ جب پوتے کا باپ موجود نہ ہو تو پوتا وارث ہے خواہ اس کے چچا تائے ہوں یا وہ بھی نہ ہو۔ یتیم پوتا بہر صورت اپنے دادا کا وارث اس کے ترکہ میں اپنے چچا تائے کے ہوتے ہوئے حقدار و حصہ دار ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے یتیم پوتی اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اپنی پھوپھی کے رہتے وارث بنی اور اللہ کے رسول نے بطور مونث اولاد و بیٹی اس کو ایک سے زیادہ بیٹیوں کے حصہ میں سے حصہ دیا۔ اس کے برخلاف جو بھی باتیں کی جاتی ہیں وہ سب کی سب محض کٹھ حجتیاں و بکواس اور لا یعنی باتیں ہیں۔ جن کی کوئی وقعت نہیں ہے اور یتیم پوتے کے وارث ہونے کے لیئے کسی بھی بیٹے کے نہ ہونے کی شرط لگانا خلاف قرآن و سنت ہونے کے سبب باطل و مردود ہے ایسی کوئی شرط نہ تو اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی احادیث صحیحہ میں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل کتب تفاسیر اور احادیث میں ہی ہے۔
آں جناب جن باتوں کا ابتک انکار کرتے رہے ہیں وہ ساری باتیں آں جناب کی پیش کردہ درج ذیل عبارت میں مذکور ہیں۔ چنانچہ (ابن بطال اور ابن ملقن کی شروحات سے درج ذیل عبارت کو نقل کرتے ہیں):
(قول الله تعالى: (يوصيكم الله فى أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين) [النساء: 11] وأجمعوا أن بنى البنين عند عدم البنين إذا استووا فى القعدد ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم. وكذلك إذا اختلفوا فى القعدد لا يضرهم؛ لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد، فالمال بينهم للذكر مثل حظ الأنثيين إلا ما أجمعوا عليه من الأعلى من بنى البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى.)
جس میں فرمان باری تعالٰی: ((يوصيكم الله فى أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين) [النساء: 11]) کے تحت یہ الفاظ (وأجمعوا أن بنى البنين عند عدم البنين) بھی نقل کیئے ہیں۔ جس میں آں جناب نے خیانت و چوری یوں کی ہے کہ (وأجمعوا أن بنى البنين عند عدم البنين) کے بعد (كالبنين)کا لفظ غائب کردیا۔ جبکہ پوری عبارت یوں ہے: ((وأجمعوا أن بني البنين عند عدم البنين كالبنين)۔
جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس بات پر صحابہ، تابعین، اتباع تابعین، جملہ محدثین و مفسریں اور دیگر اہل علم کا اجماع ہے کہ بیٹوں کے بیٹے ان بیٹوں کی عدم موجودگی میں بیٹوں کی طرح ہیں۔
(لأنهم كلهم بنو بنين يقع عليهم اسم أولاد،) کیونکہ ہر ہر بیٹے کے بیٹے بیٹیاں اولاد ہیں اور سب پر لفظ اولاد کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی سبھی پوتے پوتیاں اولاد ہیں۔
(أجمعوا عليه من الأعلى من بنى البنين الذكور يحجب من تحته من ذكر وأنثى) یعنی بیٹوں کے بیٹے اپنے بیٹے بیٹیوں کو محجوب کریں گے اس پر اجماع ہے۔
(... والولد يشمل ولد الصلب ذكرًا كان أو أنثى: ولد الابن وبني الابن، وكذلك الذين ينسبون بآبائهم إليه من الذكور والإناث بحسب القرب) یعنی اولاد میں مذکر، مونث (بیٹے بیٹیاں)، بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں سبھی شامل ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو اپنے باپ دادوں سے منسوب ہیں خواہ وہ مذکر ہوں یا مونث سبھی لفظ اولاد میں داخل و شامل ہیں۔
آگے آں جناب لکھتے ہیں: (معلوم ہوا کہ ابن ملقن نے بھی باب کا نام ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ'' ہی رکھا ہے!) ۔
یہاں بھی آں جناب نے اپنی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ابن الملقن نے باب کا نام نہیں رکھا ہے بلکہ امام بخای نے باب کا نام رکھاہے امام ابن الملقن نے اپنی شرح بخاری میں اس کو محض نقل کیا ہے۔ اور جن الفاظ کو نقل کیا ہے وہ الفاظ آج بھی ان کی شرح میں موجود اور محفوظ ہیں جو صحیح بخاری کے باب کے اصل الفاظ ہیں ابن الملقن نے اس باب کا نام نہیں رکھا ہے۔
اور وہ الفاظ یہ ہیں: ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))۔ یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو۔
ظاہر سی بات ہے کہ وہ یتیم پوتا ہی ہے(خواہ بالغ ہو یا نابالغ) اس کا چچا تایا ہو یا نہ ہو اپنے باپ کی عدم موجودگی میں بہر دو صورت اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ اور جب چچا تائے بھی نہ ہونگے تب بھی وہ اپنے دادا کے ترکہ و میراث کا حقدار و حصہ دار ہوگا۔ محجوب و محروم الارث نہیں ہے۔ اب جو لوگ اس کی محجوبیت و محرومی ارث کے دعویدار ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں انہیں قرآن کی آیت اور حدیث رسول سے دلیل دینا اور قرآن وحدیث سے ثابت کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ بہت زیا دہ بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ ہی کے الفاظ میں: (بقول شاعر؛): اگر اب بھی نہ تم سمجھے تو پھر تم سے اللہ سمجھے۔ قوله: (ابن داود نے کہا ہے): ↑ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مزید کہ ابن بطال کے نقل کرد الفاظ: ''باب مِيرَاثِ ابْنِ الابْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ لَهُ ابْنٌ'' صحیح بخاری کے ایک نسخہ کے حاشیہ میں ''له'' کو دوسرے نسخہ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے؛ ملاحظہ فرمائیں: نسخة البقاعي من صحيح البخاري (وهي معدومة النظير كما قال بن حجر) وهي منقولة من نسخة اليونيني المنقولة من نسخة الحافظ عبد الغني المقدسي – مكتبة كوبريلي، إسطنبول الجواب:
أقول: جناب عالی بات وہی ہے جو ہم نے کہی ہے کہ صحیح بخاری کے باب کے وہی الفاظ ہیں جو امام ابن الملقن نے صحیح بخاری کی شرح کرتے ہوئے اپنے پاس موجود نسخۂ بخاری سے نقل کر کے اپنی شرح میں درج کیئے ہیں جو اپنے موضوع اور زیر بحث مسئلہ میں بالکل واضح اور دو ٹوک ہیں جس میں کسی بھی قسم کے قیل و قال کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے جو الفاظ کے اعتبار سے بھی بالکل واضح اور دوٹوک ہیں اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے بھی بالکل واضح اور دوٹوک ہیں نیز عربی لغت اور ادب کے اعتبارسے بھی بالکل واضح اور دوٹوک ہیں ۔ یعنی ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ))۔ یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو۔ اور اس کے علاوہ جو بھی الفاظ نقل کیئے گئے ہیں وہ نسخہ یونینیہ کے حوالے سے ہیں جس میں گڑبڑی واقع ہوئی ہے اور ہ غیر واضح اور تصحیف شدہ ہیں۔ اور باب کے الفاظ و معنی کو لیکر جو بھی اشتباہ پیدا ہوا ہے وہ محض نسخہ یونینیہ کے غیر واضح الفاظ سے ہی پیدا ہوا ہے لہذا صحیح بخاری کے باب کے صحیح اور اصل الفاظ ((7 - باب مِيرَاثِ ابْنِ الاِبْنِ، إِذَا لَمْ يَكُنِ له أبٌ)) ہی ہیں۔ یعنی اس پوتے کی میراث کا باب جس کا باپ نہ ہو۔ جو زیر بحث مسئلہ میں بالکل واضح دوٹوک اور حجت قاطع ہیں۔
اب ہم آپ کے سامنے ایک اور دوسرا بہت بڑا ثبوت پیش کیئے دیتے ہیں اس کتاب سے جس کا حوالہ دیکر آدھی ادھوری باتیں نقل کر کے بلا سوچے سمجھے اور غور و فکر کیئے آپ کے بزرگوں نے یتیم پوتے کے اس کے چچا تائے کے ہوتے محجوب و محروم الارث ہونے کے فتوے دیئے جسے بعد کے لوگوں نے وحی الٰہی سمجھا ہوا ہے اور آج تک اسے منزل من اللہ اسلامی شریعت اور آفاقی قانون سمجھا جا رہا ہے اور یتیم پوتوں کو مجازی اولاد و بیٹے کہہ کر ان کے دادا کے ترکہ میں ان کا حق و حصہ ہونے سے انکار کیا جارہا ہے اور انہیں محجوب و محروم الارث بتایا جا رہا ہے اور بہت ساری کٹھ حجتیاں اور بکواسیں کی گئی ہیں اور اب تک کی جارہی ہیں۔
میری مراد امام ابوبکر الجصاص اور ان کی کتاب احکام القرآن سے ہے جو چوتھی صدی ہجری کے امام، مفسر قرآن اور فقیہ ہیں جن کی وفات سن (۳۷۰) ہجری میں ہوئی۔ جنہوں نے باقاعدہ پوتے کی میراث کا باقاعدہ باب باندھ کر اس مسئلہ میں مختلف انداز سے بحث کی ہے اور مثالیں دیکر سمجھایا ہے لکھتے ہیں:
بَابُ مِيرَاثِ أَوْلَادِ الِابْنِ [بیٹے کی اولاد کی میراث]
قَالَ أَبُو بَكْرٍ الجصاص:
قَدْ بَيَّنَّا أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ)، قَدْ أُرِيدَ بِهِ أَوْلَادُ الصُّلْبِ وَأَوْلَادُ الِابْنِ إذَا لَمْ يَكُنْ وَلَدُ الصُّلْبِ إذْ لَا خِلَافَ أَنَّ مَنْ تَرَكَ بَنِي ابْنٍ وَبَنَاتِ ابْنٍ أَنَّ الْمَالَ بَيْنَهُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ بِحُكْمِ الْآيَةِ وَكَذَلِكَ لَوْ تَرَكَ بِنْتَ ابن كَانَ لَهَا النِّصْفُ وَإِنْ كُنَّ جَمَاعَةً كَانَ لَهُنَّ الثُّلُثَانِ عَلَى سِهَامِ مِيرَاثِ وَلَدِ الصُّلْبِ فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ أَوْلَادَ الذُّكُورِ مُرَادُونَ بِالْآيَةِ. ابوبکرجصاص کہتے ہیں:
ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ قول باری تعالى: (یوصیکم اللہ فی اولادکم) سے صلبی اولاد مراد ہے اور اگر صلبی اولادنہ ہو تو پھر بیٹے کی اولاد مراد ہوگی۔ اس لیے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص پوتے پوتیاں چھوڑکروفات پاجائے گا تو اس کا ترکہ آیت کے حکم کے مطابق ان میں ہر پوتے کو دو اور ہر پوتی کو ایک کی نسبت سے تقسیم کردیا جائے گا۔ اسی طرح اگر میت کی ایک پوتی ہوگی توا سے نصف ترکہ اور ایک سے زائد ہوں گی توا نہیں دوتہائی ملے گا۔ صلبی اولاد کی موجودگی میں جو تقسیم ہوتی ہے یہ تقسیم بھی اسی طرح کی ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ آیت میں اپنی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹوں کی اولاد مراد ہے۔
آگے لکھتے ہیں: وَاسْمُ الْوَلَدِ يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الِابْنِ كَمَا يَتَنَاوَلُ أَوْلَادَ الصُّلْبِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى (يَا بَنِي آدَمَ) وَلَا يَمْتَنِعُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ إنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ هَاشِمٍ وَمِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ الْأَوْلَادِ يَقَعُ عَلَى وَلَدِ الِابْنِ وَعَلَى وَلَدِ الصُّلْبِ جَمِيعًا إلَّا أَنَّ أَوْلَادَ الصُّلْبِ يَقَعُ عَلَيْهِمْ هَذَا الِاسْمُ حَقِيقَةً وَيَقَعُ عَلَى أولاد الابن مجازا ولذلك لم يردوا فِي حَالِ وُجُودِ أَوْلَادِ الصُّلْبِ وَلَمْ يُشَارِكُوهُمْ فِي سِهَامِهِمْ وَإِنَّمَا يَسْتَحِقُّونَ ذَلِكَ فِي أَحَدِ حَالَيْنِ إمَّا أَنْ يُعْدَمَ وَلَدُ الصُّلْبِ رَأْسًا فيقومون مقامهم وإما أن لا يحوز وَلَدُ الصُّلْبِ الْمِيرَاثَ فَيَسْتَحِقُّونَ بَعْضَ الْفَضْلِ أَوْ جميعه فإما أن يستحقوا مع أَوْلَادِ الصُّلْبِ عَلَى وَجْهِ الشَّرِكَةِ بَيْنَهُمْ كَمَا يَسْتَحِقُّهُ وَلَدُ الصُّلْبِ بَعْضَهُمْ مَعَ بَعْضٍ فَلَيْسَ كَذَلِكَ. ولدکا اسم صلبی اولاد کی طرح بیٹے کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ قول باری ہے (یابنی ادم)، یعنی اسے اولادآدم۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اولاد کا اسم صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد پر محمول ہوتا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ صلبی اولادپر اس کا اطلاق حقیقت کے طورپر اور بیٹے کی اولاد پر مجازی طورپر ہوتا ہے۔ اس بناپرصلبی اولاد کی موجودگی میں بیٹے کی اولاد نظرانداز ہوجاتی ہے اور ترکے میں انکے ساتھ شامل نہیں ہوتی۔ بیٹے کی اولاد دوصورتوں میں سے ایک کے اندرترکے کی حق دارہوتی ہے یاتوصلبی اولاد موجونہ ہو۔ اس صورت میں پوتے پوتیاں صلبی اولاد کی قائم مقام ہوجاتی ہیں یاصلبی اولاد پورے ترکے کی حق وارنہ بن رہی ہو، مثلا ایک یا اس سے زائد بیٹیاں ہوں۔ اس صورت میں بیٹے کی اولاد باقی ماندہ یا بعض صورتوں میں پورے ترکے کی وارث ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ بات کہ صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے پوتیاں ان کے ساتھ میراث میں اس طرح شریک ہوجائیں جس طرح صلبی اولاد کی آپس میں شراکت ہوتی ہے توا نہیں اس کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ فَإِنْ قِيلَ:
لِمَا كَانَ الِاسْمُ يَتَنَاوَلُ وَلَدَ الصُّلْبِ حَقِيقَةً وَوَلَدَ الِابْنِ مَجَازًا لَمْ يَجُزْ أَنْ يُرَادُوا بِلَفْظٍ وَاحِدٍ لِامْتِنَاعِ كَوْنِ لفظ واحد حقيقة مجازا. اگر یہ کہا جائے کہ جب ولدکا اسم ، صبلی اولاد کے لیے حقیقت اور بیٹے کی اولاد کے لیے مجاز ہے تو پھر ایک ہی لفظ سے دونوں مراد لینادرست نہیں۔ اس لیے کہ ایک لفظ کا بیک وقت حقیقت اور مجاز ہوناممتنع ہوتا ہے۔ قِيلَ لَهُ:
إنَّهُمْ لَمْ يُرَادُوا بِلَفْظٍ وَاحِدٍ فِي حَالٍ وَاحِدَةٍ مَتَى وُجِدَ أَوْلَادُ الصُّلْبِ فَإِنَّ وَلَدَ الِابْنِ لَا يَسْتَحِقُّونَ الْمِيرَاثَ مَعَهُمْ بِالْآيَةِ وَلَيْسَ يَمْتَنِعُ أَنْ يُرَادَ وَلَدُ الصُّلْبِ فِي حَالِ وُجُودِهِمْ وَوَلَدُ الِابْنِ فِي حَالِ عَدَمِ وَلَدِ الصُّلْبِ فَيَكُونُ اللَّفْظُ مُسْتَعْمَلًا فِي حَالَيْنِ فِي إحْدَاهُمَا هُوَ حَقِيقَةٌ وَفِي الْأُخْرَى هُوَ مَجَازٌ وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا قَالَ قَدْ أَوْصَيْت بِثُلُثِ مَالِي لِوَلَدِ فُلَانٍ وَفُلَانٍ وَكَانَ لِأَحَدِهِمَا أَوْلَادٌ لِصُلْبِهِ وَلَمْ يَكُنْ لِلْآخَرِ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ وَكَانَ لَهُ أَوْلَادُ ابْنٍ كَانَتْ الْوَصِيَّةُ لِوَلَدِ فُلَانٍ لِصُلْبِهِ وَلِأَوْلَادِ أَوْلَادِ فُلَانٍ وَلَمْ يَمْتَنِعْ دُخُولُ أَوْلَادِ بَنِيهِ فِي الْوَصِيَّةِ مَعَ أَوْلَادِ الْآخَرِ لِصُلْبِهِ وَإِنَّمَا يَمْتَنِعُ دُخُولُ وَلَدِ فُلَانٍ لِصُلْبِهِ وَوَلَدُ وَلَدِهِ مَعَهُ فَأَمَّا وَلَدُ غَيْرِهِ لِغَيْرِ صُلْبِهِ فَغَيْرُ مُمْتَنَعٍ دُخُولُهُ مَعَ أَوْلَادِ الْآخَرِ لِصُلْبِهِ فَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ) يَقْتَضِي وَلَدَ الصُّلْبِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ الْمَذْكُورِينَ إذَا كَانَ وَلَا يَدْخُلُ مَعَهُ وَلَدُ الِابْنِ وَمَنْ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ وَلَهُ وَلَدُ ابْنٍ دَخَلَ فِي اللَّفْظِ وَلَدُ ابْنِهِ وَإِنَّمَا جَازَ ذَلِكَ لِأَنَّ قَوْله تَعَالَى (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ) خِطَابٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ النَّاسِ فَكَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُخَاطَبًا بِهِ عَلَى حِيَالِهِ فَمَنْ لَهُ مِنْهُمْ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ تَنَاوَلَهُ اللَّفْظُ عَلَى حَقِيقَتِهِ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ ذَلِكَ وَلَدَ ابْنِهِ وَمَنْ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ وَلَهُ وَلَدُ ابْنٍ فَهُوَ مُخَاطَبٌ بِذَلِكَ عَلَى حِيَالِهِ فَيَتَنَاوَلُ وَلَدَ ابْنِهِ. اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ صلبی اولاد اور پوتے پوتیاں ایک لفظ سے ایک ہی صورت میں مراد نہیں ہوتے کیونکہ صلبی اولاد کی موجودگی کی صورت میں وہ مرادہوں اور عدم موجوگی کی صورت میں بیٹے کی اولاد مرادہو۔ اس طرح یہ لفظ اپنے حقیقی اور مجازی معنوں میں دوالگ الگ حالتوں میں محمول ہورہا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنا تہائی مال فلاں فلاں اشخاص کی اولاد کے نام وصیت کرتاہوں۔ اگر ان میں سے ایک شخص کی صلبی اولاد اور دوسرے کے بیٹے کی اولاد ہو تو وصیت دونوں کے حق میں جاری ہوجائے گی اور ایک کے بیٹے کی اولاد کا دوسرے کی صلبی اولاد کے ساتھ وصیت میں شامل ہوناممتنع نہیں ہوگا۔ امتناع کی صورت وہ ہوتی ہے جب ایک شخص کی صلبی اولاد کے ساتھ اس کے بیٹے کی اولاد بھی شامل ہوجائے۔ اور اگر اس کی صلبی اولاد کے ساتھ دوسرے کے بیٹے کی اولاد شامل ہوجائے تو اس میں کوئی امتناع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) آیت میں مذکورہ لوگوں میں سے ہر ایک کی صلبی اولاد کے دخول کا مقتضی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹے کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں اگر کسی شخص کی صلبی اولاد موجودنہ ہو اور پوتے پوتیاں ہوں تو وہ اس لفظ کے تحت آجائیں گے۔ اس کی وجہ جواز یہ ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) میں ہر انسان کو خطاب ہے اس لیے ہر شخص اپنے دائرے میں اس حکم مخاطب ہے۔ اب جس شخص کی صلبی اولاد ہوگی تو یہ لفظ انہیں بطورحقیقت شامل ہوگا۔ اور پھر بیٹے کی اولاد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کی حقیقی اولادنہ ہوبل کہ پوتے پوتیاں ہوں وہ اپنے دائرے میں اس حکم کا مخاطب ہوگا۔ اس لیے یہ لفظ اس کے پوتے، پوتیوں کو شامل ہوجائے گا۔
بیٹا پوتا سبھی حقیقی اولاد و بیٹے ہیں: فَإِنْ قِيلَ:
إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ. اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے۔ إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْ جِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ لَمَّا كَانَ اسْمًا لِاتِّصَالِ النَّسَبِ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ مِنْ جِهَةِ أَحَدِ أَبَوَيْهِ شَمِلَ الِاسْمُ الْجَمِيعَ وَكَانَ عُمُومًا فِيهِمْ جَمِيعًا سَوَاءٌ كَانُوا لِأَبٍ وَأُمٍّ أَوْ لِأَبٍ أم لأم. ويدل عَلَيْهِ أَنَّ قَوْله تَعَالَى: (وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ) قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ. کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔ جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائدشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔ حقیقت و مجاز کی حقیقت اور صحیح معنی و مفہوم: آگے خود ہی سوال قائم کرتے ہیں اور حقیقت و مجاز کی حقیقت اور معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں: فَإِنْ قِيلَ لِمَا كَانَ الِاسْمُ يَتَنَاوَلُ وَلَدَ الصُّلْبِ حَقِيقَةً وَوَلَدَ الِابْنِ مَجَازًا لَمْ يَجُزْ أَنْ يُرَادُوا بِلَفْظٍ وَاحِدٍ لِامْتِنَاعِ كَوْنِ لفظ واحد حقيقة مجازا؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں: قِيلَ لَهُ إنَّهُمْ لَمْ يُرَادُوا بِلَفْظٍ وَاحِدٍ فِي حَالٍ وَاحِدَةٍ مَتَى وُجِدَ أَوْلَادُ الصُّلْبِ فَإِنَّ وَلَدَ الِابْنِ لَا يَسْتَحِقُّونَ الْمِيرَاثَ مَعَهُمْ بِالْآيَةِ وَلَيْسَ يَمْتَنِعُ أَنْ يُرَادَ وَلَدُ الصُّلْبِ فِي حَالِ وُجُودِهِمْ وَوَلَدُ الِابْنِ فِي حَالِ عَدَمِ وَلَدِ الصُّلْبِ فَيَكُونُ اللَّفْظُ مُسْتَعْمَلًا فِي حَالَيْنِ فِي إحْدَاهُمَا هُوَ حَقِيقَةٌ وَفِي الْأُخْرَى هُوَ مَجَازٌ. اگر یہ کہا جائے کہ جب ولدکا اسم ، صبلی اولاد کے لیے حقیقت اور بیٹے کی اولاد کے لیے مجاز ہے تو پھر ایک ہی لفظ سے دونوں مراد لینادرست نہیں۔ اس لیے کہ ایک لفظ کا بیک وقت حقیقت اور مجاز ہوناممتنع ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ صلبی اولاد اور پوتے پوتیاں ایک لفظ سے ایک ہی صورت میں مراد نہیں ہوتے کیونکہ صلبی اولاد کی موجودگی کی صورت میں وہ مرادہوں اور عدم موجوگی کی صورت میں بیٹے کی اولاد مرادہو۔ اس طرح یہ لفظ اپنے حقیقی اور مجازی معنوں میں دوالگ الگ حالتوں میں محمول ہورہا ہے۔ بیٹا اور یتیم پوتا دونوں وارث ہیں: وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا قَالَ قَدْ أَوْصَيْت بِثُلُثِ مَالِي لِوَلَدِ فُلَانٍ وَفُلَانٍ وَكَانَ لِأَحَدِهِمَا أَوْلَادٌ لِصُلْبِهِ وَلَمْ يَكُنْ لِلْآخَرِ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ وَكَانَ لَهُ أَوْلَادُ ابْنٍ كَانَتْ الْوَصِيَّةُ لِوَلَدِ فُلَانٍ لِصُلْبِهِ وَلِأَوْلَادِ أَوْلَادِ فُلَانٍ وَلَمْ يَمْتَنِعْ دُخُولُ أَوْلَادِ بَنِيهِ فِي الْوَصِيَّةِ مَعَ أَوْلَادِ الْآخَرِ لِصُلْبِهِ وَإِنَّمَا يَمْتَنِعُ دُخُولُ وَلَدِ فُلَانٍ لِصُلْبِهِ وَوَلَدُ وَلَدِهِ مَعَهُ فَأَمَّا وَلَدُ غَيْرِهِ لِغَيْرِ صُلْبِهِ فَغَيْرُ مُمْتَنَعٍ دُخُولُهُ مَعَ أَوْلَادِ الْآخَرِ لِصُلْبِهِ فَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ يَقْتَضِي وَلَدَ الصُّلْبِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ الْمَذْكُورِينَ إذَا كَانَ وَلَا يَدْخُلُ مَعَهُ وَلَدُ الِابْنِ وَمَنْ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ وَلَهُ وَلَدُ ابْنٍ دَخَلَ فِي اللَّفْظِ وَلَدُ ابْنِهِ وَإِنَّمَا جَازَ ذَلِكَ لِأَنَّ قَوْله تَعَالَى يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ خِطَابٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ النَّاسِ فَكَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُخَاطَبًا بِهِ عَلَى حِيَالِهِ فَمَنْ لَهُ مِنْهُمْ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ تَنَاوَلَهُ اللَّفْظُ عَلَى حَقِيقَتِهِ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ ذَلِكَ وَلَدَ ابْنِهِ وَمَنْ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ لِصُلْبِهِ وَلَهُ وَلَدُ ابْنٍ فَهُوَ مُخَاطَبٌ بِذَلِكَ عَلَى حِيَالِهِ فَيَتَنَاوَلُ وَلَدَ ابْنِهِ فَإِنْ قِيلَ إنَّ اسْمَ الْوَلَدِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ وَلَدِ الصُّلْبِ وَوَلَدُ الِابْنِ حَقِيقَةً لَمْ يَبْعُدْ إذْ كَانَ الْجَمِيعُ مَنْسُوبِينَ إلَيْهِ مِنْجِهَةِ وِلَادَتِهِ وَنَسَبُهُ مُتَّصِلٌ بِهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ فَيَتَنَاوَلُ الْجَمِيعَ كَالْأُخُوَّةِ لَمَّا كَانَ اسْمًا لِاتِّصَالِ النَّسَبِ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ مِنْ جِهَةِ أَحَدِ أَبَوَيْهِ شَمِلَ الِاسْمُ الْجَمِيعَ وَكَانَ عُمُومًا فِيهِمْ جَمِيعًا سَوَاءٌ كَانُوا لِأَبٍ وَأُمٍّ أَوْ لِأَبٍ أم لأم وبدل عَلَيْهِ أَنَّ قَوْله تَعَالَى وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ قَدْ عُقِلَ بِهِ حَلِيلَةُ ابْنِ الِابْنِ كَمَا عقل به حَلِيلَةُ ابْنِ الصُّلْبِ فَإِذَا تَرَكَ بِنْتًا وَبِنْتَ ابْنٍ فَلِلْبِنْتِ النِّصْفُ بِالتَّسْمِيَةِ وَلِبِنْتِ الِابْنِ السُّدُسُ وَمَا بَقِيَ لِلْعَصَبَةِ فَإِنْ تَرَكَ بِنْتَيْنِ وَبِنْتَ ابْنٍ وَابْنِ ابْنٍ فَلِلْبِنْتَيْنِ الثُّلُثَانِ وَالْبَاقِي لِابْنِ الِابْنِ وَبِنْتِ الِابْنِ بَيْنَهُمَا لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ وَكَذَلِكَ لَوْ كَانَتْ بِنْتَيْنِ وَبَنَاتِ ابْنٍ وَابْنَ ابْنِ ابْنٍ أَسْفَلَ مِنْهُنَّ كَانَ لِلْبَنَاتِ الثُّلُثَانِ وَمَا بَقِيَ فَبَيْنَ بَنَاتِ الِابْنِ وَمَنْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُنَّ مِنْ بَنِي ابْنِ الِابْنِ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ جَمِيعًا مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ. اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنا تہائی مال فلاں فلاں اشخاص کی اولاد کے نام وصیت کرتاہوں۔ اگر ان میں سے ایک شخص کی صلبی اولاد اور دوسرے کے بیٹے کی اولاد ہو تو وصیت دونوں کے حق میں جاری ہوجائے گی اور ایک کے بیٹے کی اولاد کا دوسرے کی صلبی اولاد کے ساتھ وصیت میں شامل ہوناممتنع نہیں ہوگا۔ امتناع کی صورت وہ ہوتی ہے جب ایک شخص کی صلبی اولاد کے ساتھ اس کے بیٹے کی اولاد بھی شامل ہوجائے۔ اور اگر اس کی صلبی اولاد کے ساتھ دوسرے کے بیٹے کی اولاد شامل ہوجائے تو اس میں کوئی امتناع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) آیت میں مذکورہ لوگوں میں سے ہر ایک کی صلبی اولاد کے دخول کا مقتضی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹے کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں اگر کسی شخص کی صلبی اولاد موجودنہ ہو اور پوتے پوتیاں ہوں تو وہ اس لفظ کے تحت آجائیں گے۔ اس کی وجہ جواز یہ ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) میں ہر انسان کو خطاب ہے اس لیے ہر شخص اپنے دائرے میں اس حکم مخاطب ہے۔ اب جس شخص کی صلبی اولاد ہوگی تو یہ لفظ انہیں بطورحقیقت شامل ہوگا۔ اور پھر بیٹے کی اولاد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کی حقیقی اولادنہ ہوبل کہ پوتے پوتیاں ہوں وہ اپنے دائرے میں اس حکم کا مخاطب ہوگا۔ اس لیے یہ لفظ اس کے پوتے، پوتیوں کو شامل ہوجائے گا۔
اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔ جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائدشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔ [أحكام القرآن، المؤلف: أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)، المحقق: محمد صادق القمحاوي - عضو لجنة مراجعة المصاحف بالأزهر الشريف، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، تاريخ الطبع: 1405 هـ] *------------------------------ بیٹا اور یتیم پوتا دونوں وارث ہیں: فرمان باری تعالیٰ ہے: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) [سُورَةُ النِّسَاءِ: 11] اس فرمان باری تعالی کے تحت مرنے والے کے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں سبھی آتے ہیں اور سب ہی اس فرمان باری تعالی میں داخل اور اس کا مصداق ہیں اور سبھی حقیقی اولاد ہیں یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ وہ شخص کہہ رہا ہے جو چوتھی صدی کا امام ، مفسر قرآن اور فقیہ ہے اور اس نے اولاد کے بارے میں حکم الٰہی اور فرمان باری تعالٰی کی توضیح و تشریح اور تفسیر کرتے ہوئے بیان کی ہے۔ اور مجاز و حقیقت کا کیا معنی و مفہوم اور مصداق ہے اس کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس سلسلہ میں ایک مثال دیکر سمجھانے کی کوشش کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنا تہائی مال فلاں فلاں اشخاص کی اولاد کے نام وصیت کرتاہوں۔ اگر ان میں سے ایک شخص کی صلبی اولاد اور دوسرے کے بیٹے کی اولاد ہو تو وصیت دونوں کے حق میں جاری ہوجائے گی اور ایک کے بیٹے کی اولاد کا دوسرے کی صلبی اولاد کے ساتھ وصیت میں شامل ہوناممتنع نہیں ہوگا۔ امام صاحب یہ مثال پیش کر کے یہ بات سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کے دو بیٹے ہوں اور کسی نے اس کی اولاد کے حق میں وصیت کی کہ میرے نہ رہنے پر میرے مال کا ایک تہائی حصہ فلاں شخص کی اولاد کو دیدیا جائے۔ تو اس شخص کی اولاد میں ایک اس کا صلبی بیٹا ہے اور ایک اس کے ودسرے بیٹے کا بیٹا یعنی اس کا یتیم پوتا ہے تو اس وصیت کیئے ہوئے مال کا آدھا حصہ اس کے بیٹے کو دیا جائے گا اور بقیہ آدھا حصہ اس کے یتیم پوتے کو دیا جائے گا۔ تو اس وصیت میں اس کے بیٹے اور اس کے یتیم پوتے کے شامل ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے
آگے امتناع کی صورت کو بھی واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امتناع کی صورت وہ ہوتی ہے جب ایک شخص کی صلبی اولاد کے ساتھ اس کے بیٹے کی اولاد بھی شامل ہوجائے۔
اور اگر اس کی صلبی اولاد کے ساتھ دوسرے کے بیٹے کی اولاد شامل ہوجائے تو اس میں کوئی امتناع نہیں۔ یعنی امتناع کی صورت یہ ہے کہ کوئی بیٹا ہو اور اس کا بیٹا ہو تو اس بیٹے کے ساتھ اس کا بیٹا شامل کیا جائے یعنی اس بیٹے کو بھی حصہ دیا جائے اور اس کے بیٹے کوبھی حصہ دیا جائے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے کہ ایک بیٹے کو اور دوسرے متوفیٰ بیٹے کے بیٹے (یتیم پوتے) کو حصہ دیا جاتا ہے تو ایسا کرنا قطعی ممنوع نہیں ہے۔
گویا ممنوع صرف کسی بیٹے کے ساتھ اس کے بیٹے کو حصہ دینا ہے کسی بیٹے (چچا تائے)کے ساتھ دوسرے متوفیٰ بیٹے کے بیٹے (یتیم پوتے )کو حصہ دینا ممنوع نہیں ہے۔
اس کے بعد فرمان باری تعالیٰ (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ)سے اسی چیز کو واضح و ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ٹھیک اسی طرح قول باری (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) آیت میں مذکورہ لوگوں میں سے ہر ایک کی صلبی اولاد کے دخول کا مقتضی ہے۔ ان کے ساتھ بیٹے کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں اگر کسی شخص کی صلبی اولاد موجودنہ ہو اور پوتے پوتیاں ہوں تو وہ اس لفظ کے تحت آجائیں گے۔
اس کی وجہ جواز یہ ہے کہ قول باری (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ) میں ہر انسان کو خطاب ہے اس لیے ہر شخص اپنے دائرے میں اس حکم کا مخاطب ہے۔ اب جس شخص کی صلبی اولاد ہوگی تو یہ لفظ انہیں بطورحقیقت شامل ہوگا۔ اور پھر بیٹے کی اولاد پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کی حقیقی اولادنہ ہوبلکہ پوتے پوتیاں ہوں وہ اپنے دائرے میں اس حکم کا مخاطب ہوگا۔ اس لیے یہ لفظ اس کے پوتے، پوتیوں کو شامل ہوجائے گا۔ یعنی جو بیٹا موجود ہو اس کا بیٹا اس آیت کے حکم میں شامل نہیں مانا جائے گا البتہ جو بیٹا موجود نہ ہو تو اس کا بیٹا اس حکم میں شامل مانا جائے گا۔ بنا بریں یتیم پوتا اور اس کے چچا تائے ساتھ ساتھ حصہ پائیں گے اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
آگ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر یہ دعوی کیا جائے کہ لفظ ولد کا صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد دونوں پر بطورحقیقت اطلاق ہوتا ہے توایساکہنا کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں سب ہی پیدائش کی جہت سے ایک ہی شخص کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ان سب کے نسب کا اتصال اس شخص کی بناپرہوتا ہے اس لیے یہ لفظ سب کو شامل ہوگا۔ جس طرح کہ، اخوۃ، کا لفظ دویادو سے زائدشخاص کے درمیان والدین یا صرف باپ یا ماں کی جہت سے نسبی اتصال کی بنیادپرسب کو شامل ہوتا ہے خواہ وہ حقیقی بھائی بہن ہوں یاعلاتی یا اخیافی۔
آیت زیربحث سے صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد مراد لینے پر قول باری: (وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ) [سُورَةُ النِّسَاءِ: 23]اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس سے جس طرح حقیقی بیٹے کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے اسی طرح حقیقی پوتے کی بیوی کا مفہوم بھی سمجھ میں آتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یتیم پوتے پوتیاں بھی حقیقی و صلبی اولاد میں داخل و شامل ہیں جس طرح بیٹے بیٹیاں حقیقی و صلبی اولاد ہیں۔ اور اولاد کا جو حکم ہے وہ ان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ بنا بریں یتیم پوتا اپنے چچا تائے کے ہوتے اپنے دادا کا وارث اور اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار ہے۔ اور محجوب و محروم الارث نہیں ہے اور اس کو زور زبردستی سے محجوب و محروم الارث قرار دینا اور ثابت کرنے کی بیجا کوشش کرنا شرعا ناجائز و حرام ہے اور یتیم پوتے کے اس کے چچا تائے کے ہوتے اس کے دادا کا وارث نہ ہونے اور اس کے ترکہ و میراث میں حقدار و حصہ دار نہ ہونے اور محجوب و محروم الارث ہو نے کا فتویٰ یکسر باطل و مردود ہے اور اس پر عمل شرعا ناجائز و حرام ہے ۔ *----------------------------------------------*
دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا قرآن و حدیث کی روشنی میں محجوب نہیں ہے اس کی تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے ہماری کتاب
(دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ)
دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا قرآن و حدیث کی روشنی میں محجوب نہیں ہے اس کی تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے ہماری کتاب
(دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ)
دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا قرآن و حدیث کی روشنی میں محجوب نہیں ہے اس کی تفصیل جاننے کے لئے دیکھئے ہماری کتاب
(دادا کے ترکہ میں یتیم پوتا محجوب نہیں ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں علمی و تحقیقی جائزہ)