• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سیدنا عبدالله بن عباس (رضي الله عنه) نے سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) کو حمار (گدھا) کہا؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
512
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا سیدنا عبدالله بن عباس (رضي الله عنه) نے سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) کو حمار (گدھا) کہا؟

تحریر : یاسر

انجینئر محمد علی مرزا کے بقول امام طحاوی (رحمه الله) نے ایک روایت نقل کی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضي الله عنھما) نے سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) کو گدھا کہا ہے ، نعوذ بالله.

انجینئر محمد علی مرزا کی بیان کردہ روایت یہ ہے:

و ذلك أن أبا غسان مالك بن يحيى الهمداني حدثنا قال ثنا عبد الوهاب بن عطاء قال أنا عمران بن حدير عن عكرمة أنه قال كنت مع بن عباس عند معاوية نتحدث حتى ذهب هزيع من الليل فقام معاوية فركع ركعة واحدة فقال بن عباس من أين ترى أخذها الحمار؟

عکرمہ (رحمه الله) بیان کرتے ہیں کہ میں (سیدنا) ابن عباس (رضي الله عنه) کے ساتھ سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) کے پاس تھا، ہم باتیں کرتے رہے رات کا ایک حصہ گزر گیا، پس (سیدنا) معاویہ (رضي الله عنه) نے کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھی تو ابن عباس نے فرمایا اس حمار (گدھے) نے یہ چیز کہاں سے لی ہے؟


[شرح معاني الآثار للطحاوي، ٢٨٩/١، رقم الأثر: ١٧١٩]

تبصرہ:

① پہلا جواب
:

یہ روایت شاذ (ضعیف) کیونکہ عبد الوھاب بن عطاء خفاف (حسن الحدیث) نے عثمان بن عمر جیسے اوثق کی مخالفت کی ہے:

֍عبد الوهاب بن عطاء الخفاف مختلف فيه راوی ہیں.[ ميزان الأعتدال لذهبي، ٤٣٦،٤٣٥/٨، رقم: ٥٣٢٧ ]

حافظ ابن حجر (رحمه الله) ناقدین کے اقوال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

صدوق ‌ربما ‌أخطأ ‌أنكروا ‌عليه حديثا في [فضل] العباس يقال دلسه عن ثور.

یہ صدوق ہے بسااوقات خطاء کرجاتا ہے، عباس کی فضلیت کے متعلقہ محدثین نے اس کی حدیث کا انکار کیا ہے اور کہا جاتا ہے اُس حدیث میں اس نے ثور سے تدلیس کی ہے.


[ تقريب التهذيب لأحمد العسقلاني، ص:٣٦٨، رقم: ٤٢٦٢ ]

֍عثمان بن عمر بن فارس بالاتفاق ثقہ ہیں:

حافظ ابن حجر (رحمه الله) فرماتے ہیں:

ثقة، قيل كان يحيى بن سعيد لا يرضاه.

یہ ثقہ راوی ہے، کہا جاتا ہے کہ یحیی بن سعید ان سے راضی نہیں تھے


[تقريب التهذيب لأحمد العسقلاني، ص:٣٨٥، رقم: ٤٥٠٣]

◙حافظ ابن حجر (رحمه الله) نے عبد الوهاب بن عطاء کو صدوق کہا اور ساتھ میں یہ بھی وضاحت کی کہ یہ بسااوقات خطاء کرجاتا ہے اور عثمان بن عمر بن فارس کو ثقہ کہا، معلول ہو کہ عثمان بن عمر، عبد الوهاب بن عطاء سے زیادہ ثقہ اور اس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کی ہے لہذا یہ روایت شاذ (ضعیف) ہے.

۞امام أبو جعفر الطحاوي (رحمه الله) بھی فرماتے ہیں:

حدثنا أبو بكرة قال ثنا عثمان بن عمر قال ثنا عمران فذكر بإسناده مثله إلا أنه لم يقل الحمار.

ابو بکرہ نے عمران کی سند سے اسی طرح روایت کی مگر اُس میں ’’ حمار‘‘ کا لفظ نہیں ہے.


[شرح معاني الآثار للطحاوي، ٢٨٩/١، رقم الأثر: ١٧۲۰]

◙ اس روایت میں أبو غسان ‌مالك ‌بن ‌يحيى بن مالك بن كثير بن راشد الهمدانى بھی ہیں جن کو ابن حبان کے سوا کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا ہیں لہزا مجہول ہیں۔والله أعلم

◙ شیخ زبیر علی زئی (رحمه الله) فرماتے ہیں:

وثقه ابن حبان وحده

اس کو صرف ابن حبان نے ثقہ کہاں ہے

[فضائل صحابہ، ص:۱۲۶]

②دوسرا جواب:

یہ روایت صحیح روایات کے خلاف بھی ہے خصوصاً صحیح البخاری کی روایت کے خلاف ہے:


❶[۱] ابن ابی ملیکہ ( رحمه الله) کی روایت:

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا الْمُعَافَى عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِرَكْعَةٍ وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

امام ابن ابی ملیکہ (رحمه الله) نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے عشاءکے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ، وہیں حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کے مولیٰ ( کریب ) بھی موجود تھے ، جب وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ( حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا ) اس پر انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے ۔


[ صحيح البخارى، رقم الحديث:٣٧٦٤ ]

[۲]حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ قَالَ أَصَابَ إِنَّهُ فَقِيهٌ.

امام ابن ابی ملیکہ (رحمه الله) نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے کہا گیا کہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں.


[ صحيح البخارى، رقم الحديث:٣٧٦٥ ]

❷ علی بن عبد الله بن عباس ( رحمه الله) کی روایت:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَاشِمٍ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أنا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي عِنْدَ مُعَاوِيَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَأَتَاهُ الْمُؤَذِّنُونَ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، فَضَنَّ بِحَدِيثِ أَبِي، فَأَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ تَحَدَّثْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغْنَا مِنْ حَدِيثِهِمَا، قَامَ مُعَاوِيَةُ فَصَلَّى " وَلَيْسَ خَلْفَهُ غَيْرِي وَغَيْرُ أَبِي، وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُصِيبَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي بَصَرِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ مُعَاوِيَةُ فَصَلَّى رَكْعَةً، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقُلْتُ لِأَبِي: «يَا أَبَتِ أَمَا رَأَيْتَ مَا صَنَعَ؟» قَالَ: وَمَا صَنَعَ؟ قُلْتُ: «أَوْتَرَ بِرَكْعَةٍ» قَالَ: أَيْ بُنَيَّ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ.

امام علی بن عبد الله بن عباس (رحمه الله) سے روایت ہے کہ میں ایک رات اپنے والد (سیدنا عبدالله بن عباس رضي الله عنه)کے ساتھ سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) کے پاس تھا، میرے والد اور سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) گفتگو کر رہے تھے، مؤذن عشا کی اذان دینے آیا، سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) میرے والد سے گفتگو میں مشغول ہوگئے اور ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، جب دونوں باتوں سے فارغ ہوئے تو سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) نے ہمیں نماز پڑھائی، ان کے پیچھے میں اور میرے والد تھے،یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب سیدنا عبدالله بن عباس (رضي الله عنه) نابینا ہوگئے تھے، نماز کے بعد سیدنا معاویہ (رضي الله عنه) ایک رکعت وتر پڑھ کر فارغ ہوئے تو میں نے اپنے والد کو بتایا: آپ کو پتہ ہے، انہوں نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا: بتاؤ کیا کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھا ہے، انہوں نے کہا: اے بیٹے؟ وہ تم سے بڑے عالم ہیں.


[ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل، ٩٨٥،٩٨٤/٢ ، رقم الأثر: ١٩٥٠، قال وصي الله محمد عباس: إسناده صحيح ]

راویوں کا مختصر تعارف:

(۱) على بن عبد الله بن عباس بن عبد المطلب القرشي المدني: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٤٠٣، رقم:٤٧٦١)»: ثقة عابد.

(۲)يعلى بن مسلم بن هرمز المكى: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٦٠٩، رقم:٧٨٤٩)»: ثقة.

(۳) سفيان بن حسين الواسطي: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٢٤٤، رقم:٢٤٣٧)»: ثقة فى غير الزهرى باتفاقهم.

(۴) يزيد بن هارون: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٦٠٦، رقم:٧٧٨٩»: ثقة متقن عابد.

(۵) زياد بن أيوب بن زياد الطوسى البغدادى: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٢١٨، رقم:٢٠٥٦»: ثقة حافظ.

❸(۱) عطاء ( رحمه الله) کی روایت:

عبد الرزاق عن ابن جريج...... فأخبرت عطاء خبر عتبة هذا فقال إنما سمعنا أنه قال أصاب أو ليس المغرب عطاء القائل ثلاث ركعات؟

’’ ابن جریج (رحمه الله) فرماتے ہیں: میں نے عطاء (رحمه الله) کو عتبہ کی نقل کردہ اس روایت کے بارے میں بتایا ، تو اُنہوں نے جواب دیا: ہم نے یہ سنا ہے کہ حضرت عبدالله بن عباس (رضي الله عنه) نے یہ فرمایا تھا: اُنہوں نے ٹھیک کیا ہے، کیا مغرب کی نماز اس طرح نہیں ہوتی، عطاء اس بات کے قائل تھے: وتر میں تین رکعت ہوتی ہیں؟ ‘‘


[ مصنف عبد الرزاق، ٢١/٣، رقم الأثر:٤٦٤١، اسناده صحيح ]

(۲) عطاء ( رحمه الله) کی روایت:

حدثنا هشيم ، أخبرنا حجاج ، عن عطاء ؛ أن معاوية أوتر بركعة ، فأنكر ذلك عليه ، فسئل عنه ابن عباس ، فقال : أصاب السنة.

حضرت عطاء (رحمه الله) فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رضي الله عنه) نے ایک وتر پڑھی آپ پر اس کا انکار کیا گیا، اس کے بارے میں حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا: معاویہ (رضي الله عنه) نے سنّت کو پالیا.

[مُصنف ابن أبي شيبة، ٣٠٥/٢٠، رقم الأثر: ٣٩١٦٤]

(۳) عطاء ( رحمه الله) کی روایت:

حدثنا محمد بن عبد الله بن ميمون البغدادي قال ثنا الوليد بن مسلم عن الأوزاعي عن عطاء قال قال رجل لابن عباس رضي الله عنهما هل لك في معاوية أوتر بواحدة وهو يريد أن يعيب معاوية فقال بن عباس أصاب معاوية.

حضرت عطاء (رحمه الله) فرماتے ہیں ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) سے عرض کیا کیا آپ کو حضرت معاویہ (رضي الله عنه) کی اس بات پر اعتراض ہے کہ اُنہوں نے ایک وتر پڑھی، تو اس آدمی کا مقصد معاویہ (رضي الله عنه) پر عیب لگانا تھا تو ابن عباس (رضي الله عنه) نے فرمایا معاویہ (رضي الله عنه) نے درست کیا.

[شرح معاني الآثار للطحاوي، ٢٨٩/١، رقم الأثر: ١٧١٨]

۞ امام عطاء بن ابی رباح (رحمه الله) خد بھی ایک رکعت وتر کے جواز کے قائل تھے:

حدثنا أبو أسامة ، عن جرير بن حازم ، قال : سألت عطاء ، أوتر بركعة ؟ فقال : نعم ، إن شئت.

میں نے امام عطاء بن ابی رباح سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھا کیا کروں؟ فرمایا ہاں اگرچاہے تو پڑھ لیا کر.

[ مُصنف ابن أبي شيبة، ٣٠٥/٢٠، رقم الأثر: ٣٩١٦٦، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری: سندہٗ صحیحٌ، أبو أسامة هو حماد بن أسامة بن زيد: ثقة ثبت ربما دلس وقال الشيخ زبير على زئی رحمه الله: فهو برئ من التدليس، جرير بن حازم وإن كان اختلط فإنه لم يحدث في اختلاطه كما قال الحافظ في ’’ التقريب ‘‘ ]

❹ كريب بن أبى مسلم القرشى ( رحمه الله) کی روایت:

قَالَ:أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ (۱)، عَنْ كُرَيْبٍ قَالَ: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ صَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَةً. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ: « أَصَابَ »

کریب (رحمه الله) فرماتے ہیں میں نے معاویہ (رضي الله عنه) کو دیکھا کہ اُنہوں نے عشاء پڑھی پھر اس کے بعد ایک رکعت (وتر) پڑھی، پس میں نے اس کا ذکر ابن عباس (رضي الله عنه) سے کیا تو اُنہوں نے فرمایا: اُنہوں نے درست کیا.

[الجزء المتمم لطبقات ابن سعد، ٥٣/١، رقم الأثر:٤٧، أسناده صحيح]

راویوں کا مختصر تعارف:

(۱) الفضل ‌ابن ‌دكين الكوفي: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٤٤٦، رقم:٥٤٠١٠)»: ثقة ثبت.

(۲) سفيان ‌ابن ‌عيينة: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٢٤٥، رقم:٢٤٥١)»: ثقة حافظ فقيه إمام حجة إلا أنه تغير حفظه بأخرة وكان ربما دلس لكن عن الثقات.

(۳) ‌عبيد ‌الله ‌ابن ‌أبي ‌يزيد المكي: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٣٧٥، رقم:٤٣٥٣)»: ثقة كثير الحديث.

(۴) كريب ابن أبي مسلم الهاشمي: قال ابن حجر في «التقريب (ص:٤٦١، رقم:٥٦٣٨)»: مولى ابن عباس ثقة.

❺ عکرمہ ( رحمه الله) کی روایت:

عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرني عتبة بن محمد بن الحارث أن عكرمة مولى بن عباس أخبره قال وفد بن عباس على معاوية بالشام فكانا يسمران حتى شطر الليل فأكثر قال فشهد بن عباس مع معاوية العشاء الآخرة ذات ليلة في المقصورة فلما فرغ معاوية ركع ركعة واحدة ثم لم يزد عليها وأنا أنظر إليه قال فجئت بن عباس فقلت له ألا أضحك من معاوية صلى العشاء ثم أوتر بركعة لم يزد عليها قال أصاب أي بني ليس أحد منا أعلم من معاوية إنما هي واحدة أو خمس أو سبع أو أكثر من ذلك يوتر بما شاء.

فأخبرت عطاء خبر عتبة هذا فقال إنما سمعنا أنه قال أصاب أو ليس المغرب عطاء القائل ثلاث ركعات؟

عکرمہ ( رحمه الله) بیان کرتے ہیں: حضرت عبد الله بن عباس (رضي الله عنه) ایک وفد کے ساتھ شام میں حضرت معاویہ (رضي الله عنه) کے پاس گئے، یہ دونوں حضرات بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ نصف رات یا اس سے زیادہ کا حصہ گزر گیا، حضرت عبد الله بن عباس (رضي الله عنه) نے حضرت معاویہ (رضي الله عنه) کے ساتھ عشاء کی نماز مقصورہ میں نماز ادا کی، جب حضرت معاویہ (رضي الله عنه) فارغ ہوئے تو اُنہوں نے وتر کی ایک رکعت ادا کی، اُنہوں نے مزید کچھ ادا نہیں کیا، میں اُن کا جائزہ لے رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں: پھر میں حضرت عبدالله بن عباس (رضي الله عنه) کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا: مجھے معاویہ (رضي الله عنه) پر ہنسی نہیں آنی چاہیے کہ اُنہوں نے عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد ایک رکعت وتر ادا کی ہے، مزید کچھ ادا نہیں کیا؟ تو حضرت عبدالله بن عباس رضي الله عنه نے فرمایا: اے میرے بیٹے! اُنہوں نے ٹھیک کیا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص حضرت معاویہ (رضي الله عنه) سے زیادہ علم نہیں رکھتا، وتر ایک ہوتے ہیں، یاپانچ ہوتے ہیں، یاسات ہوتے ہیں، یا اس سے زیادہ ہوتے ہیں، آدمی جتنے چاہے وتر ادا کرلے.

ابن جریج (رحمه الله) فرماتے ہیں: میں نے عطاء (رحمه الله) کو عتبہ کی نقل کردہ اس روایت کے بارے میں بتایا ، تو اُنہوں نے جواب دیا: ہم نے یہ سنا ہے کہ حضرت عبدالله بن عباس (رضي الله عنه) نے یہ فرمایا تھا: اُنہوں نے ٹھیک کیا ہے، کیا مغرب کی نماز اس طرح نہیں ہوتی، عطاء اس بات کے قائل تھے: وتر میں تین رکعت ہوتی ہیں؟


[ مصنف عبد الرزاق، ٢١/٣، رقم الأثر:٤٦٤١ ]

③تیسرا جواب:

ایک رکعت وتر پڑنا رسول الله ﷺ اور صحابہ و تابعین (رضي الله عنهم) سے بھی ثابت ہیں:

الله کے رسول ﷺ کا عمل:

(۱) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا مَكِّىُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ هُوَ ابْنُ أَبِى سُفْيَانَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِىَّ أَوْتَرَ بِرَكْعَةٍ .

سیدہ عائشہ (رضي الله عنها) بیان کرتى ہیں: نبی اکرم ﷺنے ایک رکعت وتر ادا فرمایا


[ سنن الدار قطنی، ٣٦٠،٣٥٩/٢، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری: سندہٗ صحیحٌ ]

(۲) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنه، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

’’ أوتر بركعة ‘‘

‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھا ’’

[صحیح ابن حبان، ١٨٢،١٨١/٦، رحم الحديث:٢٤٢٤،قال المحققه: إسناده صحيح على شرط الصحيح، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری: سندہٗ صحیحٌ]

(۳) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، وعبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى‏"‏‏. ‏

حضرت عبداللہ بن عمر (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔

[ صحيح البخارى، رقم الحديث:۹۹۰ ]

(۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنِي قُرَيْشُ بْنُ حَيَّانَ الْعِجْلِيُّ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ وَائِلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ.

سیدنا ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنه) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وتر نماز ہر مسلمان پر حق ہے ، چنانچہ جو پانچ پڑھنا چاہے ، ( پانچ ) پڑھ لے ۔ اور جو تین پڑھنا چاہے ، ( تین) پڑھ لے ۔ اور جو ایک پڑھنا چاہے ، وہ ایک پڑھ لے ۔

[ سنن ابی داؤد، رقم الحديث:١٤٢٢، صححه الألباني و زبير على زئى و صححه الحاكم على شرط الشيخين و وافقه الذهبي ]

سیدنا عثمان بن عفان (رضي الله عنه) كا عمل:

أخبرنا عبد المجيد ، عنِ ابن جريج ، عن يزيد بن خصيفة ، عن السائب بن يزيد أن رجلا سأل عبد الرحمن التيمي عن صلاة طلحة ، فقال : إن شئت أخبرتك عن صلاة عثمان قال قلت لأغلبن الليلة على المقام فقمت فإذا برجل يزحمني متقنعا فنظرت فإذا عثمان قال فتأخرت عنه فصلى فإذا هو يسجد سجود القرآن حتى إذا قلت هذه هو أدى الفجر فأوتر بركعة لم يصل غيرها.

سائب بن یزید (رضی اللہ عنه) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عبدالرحمٰن التمیی (رضی اللہ عنه) سے طلحہ (رضی اللہ عنه) کی نماز سے متعلق دریافت کیا، تو عبدالرحمٰن التمیی (رضی اللہ عنه) نے کہا اگر تو چاہے تو میں تجھے عثمان (رضی اللہ عنه) کی نماز سے متعلق بتاؤں، فرمایا ایک جگہ رات کا وقت ہوگیا، اچانک میں اٹھا تو ایک آدمی جو سر ڈھانپے ہوئے تھا مجھ سے ٹکرایا، میں نے دیکھا تو وہ عثمان (رضی اللہ عنه) تھے، میں اُن سے پچھیے ہوگیا انہوں نے نماز پڑھی، تو وہ قرآن کے سجدے کرتے یہاں تک کہ میں نے کہا: فجر طلوع ہورہی ہے تو انہوں نے ایک رکعت وتر کے علاوہ کچھ نہ پڑھا.


[ مسند الإمام محمد بن إدريس الشافعي ويليه ترتيب مسند الإمام، ص:٢١٩٠، رقم الأثر: ٣٩٥، إسناده صحيح و قد صرح ابن جريج بالسماع عند عبدالرزاق (٥٥٧،٥٥٦/٢، رقم الأثر:٤٧٠٣، الناشر: دار التأصيل) ]

سیدنا سعد بن أبى وقاص (رضي الله عنه) كا عمل:

قال أحمد وقد رويناه ، عن شعيب بن أبي حمزة ، عن الزهري قال : حدثني عبد الله بن ثعلبة بن صعير - وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد مسح وجهه زمن الفتح، أنه رأى سعد بن أبي وقاص - وكان سعد قد شهد بدرا مع النبي صلى الله عليه وسلم « يوتر بواحدة بعد صلاة العشاء ، ثم لا يزيد عليها حتى يقوم من جوف الليل »


سیدنا عبداللہ بن ثعلبہ بن صغیر (رضی اللہ عنه) جن کے چہرے پر فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم ﷺنے ہاتھ پھیرا تھا، وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد (رضی اللہ عنه) جو کہ بدر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شریک تھے، نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، حتی کہ رات کے وسط میں قیام کرتے تھے۔

[ معرفة السنن والآثار للبيهقي، ٥٩،٥٨/٤، رقم الأثر:٥٤٥٩، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری:و سندہٗ صحیحٌ، صحيح البخاري: ٦٣٥٦ ]

عبد الله بن عمر (رضي الله عنه) کا عمل:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: ثنا أَبُو النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ.

نافع رحمه الله ، سیدنا ابن عمر رضي الله عنه کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
آپ رضي الله عنه ایک رکعت وتر پڑھتے تھے


[ الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، ١٧٩،١٧٨/٥، رقم الأثر:٢٦٤١، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری:و سندہٗ صحیحٌ ]

سیدنا ابو موسیٰ (رضي الله عنه) کا عمل:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ قَالَ: ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ: ثنا حَمَّادٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ أَبَا مُوسَى كَانَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَصَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَةً أَوْتَرَ بِهَا.

ابو مجلز (رحمه الله) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو موسیٰ(رضي الله عنه) نے مکہ و مدینہ کے درمیان عشاء کی نماز دو رکعت ادا کی، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت وتر پڑھا


[ الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف، ١٧٩/٥، رقم الأثر:٢٦٤۳، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری:و سندہٗ صحیحٌ ]

امام محمد بن سیرین (رحمه الله) کا فرمان:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: الرَّجُلُ يَنَامُ فَيُصْبِحُ يُوتِرُ بَعْدَمَا ‌يُصْبِحُ ‌بِرَكْعَةٍ؟ ‌قَالَ: لَا أَعْلَمُ بِهِ بَأْسًا.


امام ابن عون (رحمه الله) بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین (رحمہ اللہ) سے پوچھا کہ اگر آدمی سو گیا اور صبح ہو گئی تو کیا صبح ہونے کے بعد وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے؟ فرمایا:میں اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتا.

[ مصنف ابن أبي شيبة، ٤٨٨/٤، رقم الأثر: ٦٩٦٨، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری:و سندہٗ صحیحٌ]

امام عطاء بن ابی رباح (رحمه الله)کا فرمان:

حدثنا أبو أسامة ، عن جرير بن حازم ، قال : سألت عطاء ، أوتر بركعة ؟ فقال : نعم ، إن شئت.

میں نے امام عطاء بن ابی رباح (رحمه الله) سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھا کیا کروں؟ فرمایا ہاں اگرچاہے تو پڑھ لیا کر.

[ مُصنف ابن أبي شيبة، ٣٠٥/٢٠، رقم الأثر: ٣٩١٦٦، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری: سندہٗ صحیحٌ ]

④چوتھا جواب:

یہ بات سیدنا عبد الله بن عباس (رضي الله عنه) کی شان سے بعید ہے اور عبد الله بن عباس کو معلول تھا کہ ایک رکعت وتر رسول الله ﷺ نے پڑی ہیں اس لیے تو آپ نے حضرت معاویہ (رضي الله عنه) کے بارے میں فرمایا وہ صحابی ہیں، انہوں نے ٹھیک کیا، وہ فقیہ ہیں، انہوں نے سنّت کو پالیا۔ اب اگر انجینئر محمد علی مرزا کی بات مان لی جائیے اس سے تو فر سیدنا عبد الله بن عباس (رضي الله عنه) پر غلط الزام لگے گا کہ اُن کو معلول تھا کہ یہ عمل رسول الله ﷺ سے ثابت ہیں اور پھر بھی ایسی بات کی ؟

سیدنا ابن عباس (رضي الله عنه) ، رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

’’ أوتر بركعة ‘‘

آپﷺ نے ایک رکعت وتر پڑھا


[صحیح ابن حبان، ١٨٢،١٨١/٦، رحم الحديث:٢٤٢٤،قال المحققه: إسناده صحيح على شرط الصحيح، قال الشيخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری: سندہٗ صحیحٌ]
 
Top