مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
کیا شوہر کو نمازی اور نیک بنانا بیوی کا کام نہیں؟
جواب: مقبول احمد سلفی (جدہ دعوہ سنٹر)
میرے پاس ایک ویڈیو آئی ہے جس میں ایک بہن عالم دین سے سوال کرتی ہیں کہ میرا شوہر نماز نہیں پڑھتاہے جس کی وجہ سے گھر میں جھگڑا رہتا ہے تو مجھے کیا کرنا چاہئے ، اس سوال پر وہ عالم جواب دیتے ہیں کہ آپ کو اپنی حد میں رہنا چاہئے اور شوہر کو نمازی بنانا آپ کا کام اور آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے۔ اس ویڈیو سے متعدد بہنوں میں خلجان پیدا ہوگیا ہے کہ کیا ہم خواتین اپنے بے نمازی شوہر کو نماز نہیں پڑھواسکتے ہیں، انہیں نیک بنانا ہمارا کام نہیں ہے؟
جواب: اس ویڈیو میں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جو اچھی بھی ہیں، ساتھ ہی اس ویڈیو میں کئی باتیں شرعا غلط ہیں۔
عالم صاحب کہتے ہیں کہ شوہر کو نمازی بنانا اورنیک بنانا بیوی کا کام نہیں ہے، جو آپ کے نصیب میں آگیا ہے اسے قبول کریں اور اس سے درگزری کریں حتی کہ آخر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ خاوند کے اعراض کے باوجود ، اس کی بے رخی کے باوجود اور نیکی کی طرف عدم رغبت کے باوجودآپ اس کے لئے اپنا سینہ کشادہ رکھیں ۔ یہ باتیں شریعت کی روشنی میں قعطا درست نہیں ہیں۔
نکاح کی بنیاد ہی میاں بیوی کے درمیان کفو کا ہونا ہے یعنی ایک مرد اور ایک عورت کی شادی کے لئے آپس میں کفو یعنی دینداری کا ہونا لازمی ہے اسی لئے نبی ﷺ نے نیک عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہی حکم عورت کے لئے بھی ہے کہ وہ نیک مرد سے شادی کرے ۔ اگر اتفاق سے کسی عورت کی شادی ایسے مرد سے ہوجائے جو بے دین ہو، بے نمازی ہو اور برے اخلاق والا ہو تو بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے دین کی طرف لائے ، بے دینی سے بچائے، نماز کی تعلیم دے اور برے اخلاق سے منع کرے ۔یہ کام بیوی کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اور جب مرد اپنی بے دینی اور بداخلاقی درست کرلے تو ٹھیک ہے ورنہ بیوی اس سے علاحدگی اختیار کرسکتی ہے۔ ہاں یہ الگ معاملہ ہے کہ بیوی شوہر کی اصلاح میں نرمی اور مصلحت سے کام لے مگر کسی عالم کا یہ کہنا کہ شوہر کو نمازی اور نیک بنانا بیوی کا کام نہیں بالکل غلط بات ہے ۔ ایک مومن بیوی شوہر کے بڑے بڑے مظالم برداشت کرسکتی ہے مگراس کی بے دینی ، بے حیائی اور کفر و معصیت کبھی برداشت نہیں کرسکتی ۔
ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں یہ روایت ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحم الله رجلا قام من الليل فصلى وايقظ امراته، فإن ابت نضح في وجهها الماء، رحم الله امراة قامت من الليل فصلت وايقظت زوجها، فإن ابى نضحت في وجهه الماء(صحيح أبي داود:1308)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔
ذرا اس حدیث پر غور فرمائیں کہ یہاں قیام اللیل کی بات ہورہی ہے بیوی رات میں اٹھ کر قیام اللیل کرے تو شوہر کو بھی جگائے ، اگر وہ انکار کرے تو پانی کے چھینٹے مارے یعنی نفلی عبادت پر شوہر کے انکار کرنے پر جبرا یعنی پانی کے چھینٹے مارکر اٹھانے کی تعلیم دی گئی ہے اور جو شوہر فرائض ہی ادا نہیں کرتا ہو تو بہت بڑا مجرم ہے بلکہ متعدد علماء نے بے نمازی پر کفر کا فتوی لگایا ہے ایسے میں ایک نمازی بیوی بے نمازی شوہر کو کیسے برداشت کرسکتی ہے، اسے کیسے اپنے حال پر چھوڑ سکتی ہے؟ آنکھیں کھولنے کے لئے یہ حدیث کافی ہے ، اس کے علاوہ ایک حدیث پیش کرتا ہوں ۔
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں:
فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَّ الْمَالِ نَتَّخِذُ؟، فَقَالَ: لِيَتَّخِذْ أَحَدُكُمْ قَلْبًا شَاكِرًا، وَلِسَانًا ذَاكِرًا، وَزَوْجَةً مُؤْمِنَةً تُعِينُ أَحَدَكُمْ عَلَى أَمْرِ الْآخِرَةِ(صحيح ابن ماجه:1517)
ترجمہ:آپ کے بعض صحابہ نے کہا:اللہ کے رسول! ہم کون سا مال رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں ہر کوئی شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، اور ایمان والی بیوی رکھے جو اس کی آخرت کے کاموں میں مدد کرے۔
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ بیوی ایسی ہو جو آخرت کے معاملے میں شوہر کی مدد کرنے والی ہو، اس سے زیادہ صریح ترمذی کے الفاظ ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا :أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ، وَقَلْبٌ شَاكِرٌ، وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ(صحيح الترمذي:3094)
ترجمہ: بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو، شکر گزار دل ہو، اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہو جو اس کے ایمان کو پختہ تر بنانے میں مددگار ہو۔
یہاں کہا گیا ہے کہ نیک بیوی کی ایک صفت اور اس کی ایک بڑی خوبی شوہر کے لئے دین و ایمان پر مدد کرنا ہےبلکہ ہر مومن مرد اورہر مومنہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی دین پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف بلائے۔
ان احادیث سے بھی واضح صحیح بخاری کی یہ روایت ہے،سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا:
جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الْكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا.(صحیح البخاری:5276)
ترجمہ:ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ثابت کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن مجھے خطرہ ہے (کہ میں ثابت رضی اللہ عنہ کی ناشکری میں نہ پھنس جاؤں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سے جدا کر دیا۔
عہدرسالت کی ایک خاتون( صحابیہ) یعنی ایک نیک بیوی کے الفاظ پرغورفرمائیں :" مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الْكُفْرَ" صحابیہ کہتی ہیں کہ ثابت کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں یعنی ان کے پاس دین اور اخلاق موجود تھا صرف شوہر کی ناشکری کے خوف سے خلع کا مطالبہ کررہی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے میاں بیوی میں جدائی کردی۔ اس کا صاف صاف یہ مطلب نکلتا ہے کہ شوہر کے دین یا اخلاق میں نقص ہو تو اس کی اصلاح کا ذمہ دار بیوی ہے، بیوی کی اصلاح سے شوہر اپنے دین اور اخلاق کو ٹھیک کرلے تو خیر ہے ورنہ بیوی ایسے شوہر سے خلع حاصل کرسکتی ہے۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کا ایک جملہ میں خلاصہ یہ سمجھ لیں کہ دین کے معاملہ میں جیسے شوہر بیوی کا ذمہ دار ہے اسی طرح بیوی بھی شوہر کا ذمہ دار ہے، جو اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرے گا وہ آخرت میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
Last edited: