اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ جبرئیل نے کہا حضرت مر یم کو میں تجھے بیٹا دینے آیا ہوں اب مفسریں نے یہاں تصریح کی کہ یہ نسبت مجازی ہے دینے والا اللہ ہے کیوں کے وہ وسیلہ تھے اس لئے ان کی طرف نسبت کی گئی امید ہے کہ بات سمجھ آ گئی ہو گی۔اور ایک نہیں بلکہ بہت سی کتابوں میں اسی نظریے کی علما نے تصریح کی ہے۔جہاں ڈاریکٹ پکارا جائے نسبت مجازی اور مراد وسیلہ اور اور خالی وسیلہ کے الفاظ بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں دونوں ثابت ہیں
جناب قادری رانا صاحب :
آپ نے لکھا ہے کہ " اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ جبرائیل نے کہا میں تھے بیٹا دینے آیا ہوں " یہ لیجئے پڑھئے قرآن مجید کی آیات
﴾ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴿١٩﴾قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ﴿٢٠﴾قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا ﴿٢١﴾[
آیت نمبر 19 سے جناب نے استدلال کیا ہے کہ جبرائیل نے کہا میں تمہیں بیٹا دینے آیا ہوں اگر جناب قرآن کے اصلوب سے واقف ہوتے تو اسی آیت کے پہلے جملوں (
قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ ) میں غور کرتے یہ (جبرائیل) اللہ کی طرف سے آئے تھے یا از خود؟ یہ جملے بتا رہے ہیں کہ یہ اللہ کا پیغام لیکر آئے تھے اپنی کوئی بات کرنے نہیں آئے تھے، اب اگلے جملوں میں اللہ کا پیغام ہے بیٹا دینے کا ۔ اگر جبرائیل خود بیٹا دینے آئے ہوتے تو جب سیدہ مریم نے کہا
(قَالَتْ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا) مریم نے کہا میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ہی میں بدکردار ہوں ۔(یہاں جبرائیل کہتے نہ کہ ایسے دونگا میں بیٹا ؟لیکن کیا کہا جبرائیل نے جواب پڑھو:
(قَالَ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ۖ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا)کہا یونہی ہے تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے، اور اس لیے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ٹھہرچکا ہے
اس جواب سے یہ بات واضع ہوئی کہ بیٹا دینے کی نسبت اللہ ہی کی ذات کی طرف ہے جبکہ جبرائیل صرف قاصد و پیغام لانے والے ہیں
کیا اب بھی کہو گے کہ جبرائیل بیٹا دینے آئے تھے؟؟؟
اس واقعہ وخوسخبری کی تائید سورہ اٰل عمران ان آیات سے ہوتی ہے کہ جس میں خوشخبری بھی اللہ کی طرف سے ہے اور بیٹا دینے کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہے جبرائیل کی طرف نہیں ۔ اب آپ کیسے مجازی کی بات کرتے ہیں
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّـهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٤٧
اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم! اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رُو دار (باعزت) ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔بولی اے میرے رب! میرے بچہ کہاں سے ہوگا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ نہ لگایا فرمایا اللہ یوں ہی پیدا کرتا ہے جو چاہے جب، کسی کام کا حکم فرمائے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے،
ان آیات نے جناب کے غیر اللہ سے مجازی طور پر مانگنے کے نظریہ کی جڑ ہی اُکھاڑ دی۔ چند سوالوں کا جواب دیں
یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئیں ۔ کیا آپ ﷺ نے ان آیات سے یہی سمجھا کہ مجازی طور پر صالحین سے مانگنا چاہئیے؟؟؟
ان آیات کے نازل ہونے کے عینی گواہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیںؐ کیا انہوں نے ان آیات سے یہی سمجھا کہ مجازی طور پر صالحین سے مانگنا چاہئیے؟
صحابہ کرام سے علم حاصل کرنے والے تابعین عظام ہیں کیا نہوں نے ان آیات سے یہی سمجھا کہ مجازی طور پر صالحین سے مانگنا چاہئیے؟
تابعین عظام کے حقیقی وارث تبع تابعین کرام ہیں کیا نہوں نے ان آیات سے یہی سمجھا کہ مجازی طور پر صالحین سے مانگنا چاہئیے؟
خیر القرون کے کس مفسر نے ان آیات کا یہ مطلب اخز کیا جو جناب کر رہے ہیں نام تو لکھیں؟
اگر ان میں سے کسی نے بھی یہ مطلب اخذ نہیں کیا تو جناب کیوں تحریف معنوی کے مرتکب بن رہے ہیں؟