پہلی شرح
اس روایت کا مطلب، روایت پرست اس طرح سمجھاتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ابو بکر اور عمر آئے لیکن اپ نے نہیں چھپایا لیکن جب عثمان آئے تو اپ نے چھپا لیا اور کہا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں. یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان رضی الله عنہم سب زندہ تھے. اس روایت کو عثمان رضی الله تعالی عنہ کی
منقبت میں تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن زیر بحث روایت سے اسکا کوئی تعلق نہیں
دوسری شرح
ایک دوسری روایت بھی تفہیم میں پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امہات المومینن رضی اللہ تعالی عنہا کو نابینا صحابی ابن مکتوم رضی الله تعالی عنہ سے پردے کا حکم دیا احْتَجِبَا مِنْهُ ان سے حجاب کرو اس کو نسائی ابو داود نے روایت کیا ہے
نسائی کی سند ہے
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَبْهَانَ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ
نسائی کہتے ہیں
قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: مَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ نَبْهَانَ غَيْرَ الزُّهْرِيِّ
ہم نہیں جانتے کہ نَبْهَانَ سے سوائے الزُّهْرِيِّ کے کسی نے روایت کیا ہو
کتاب ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين از الذھبی کے مطابق
نبهان، كاتب أم سلمة: قال ابن حزم: مجهول: روى عنه الزهري.
نبهان، ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کے کاتب تھے ابن حزم کہتے ہیں مجھول ہے الزهري ان سے روایت کرتے ہیں
ابن عبد البر کہتے ہیں
نبهان مجهول لا يُعرف إلا برواية الزهري عنه هذا الحديث،
نبهان مجھول ہے اور صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے
کتاب المغني لابن قدامة کے مطابق
فَأَمَّا حَدِيثُ نَبْهَانَ فَقَالَ أَحْمَدُ: نَبْهَانُ رَوَى حَدِيثَيْنِ عَجِيبَيْنِ. يَعْنِي هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثَ: «إذَا كَانَ لِإِحْدَاكُنَّ مُكَاتَبٌ، فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ» وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إلَى ضَعْفِ حَدِيثِهِ
پس جہاں تک نَبْهَانَ کی حدیث کا تعلق ہے تو احمد کہتے ہیں کہ نَبْهَانَ نے دو عجیب حدیثیں روایت کی ہیں یہ (ابن مکتوم سے پردہ) والی اور…پس انہوں نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا
البانی اور شعيب الأرناؤوط اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں
لہذا یہ دونوں روایت اس زیر بحث روایت کی شرح میں پیش نہیں کی جا سکتیں
اس روایت پر حکم
یہ روایت منکر المتن ہے
اول زیر بحث روایت میں عائشہ رضی الله تعالی عنہ کا ایک مدفون میت سے حیا کرنے کا ذکر ہے. عائشہ رضی الله تعالی عنہا ایک فقیہہ تھیں اور ان کے مطابق میت نہیں سنتی تو وہ میت کے دیکھنے کی قائل کیسے ہو سکتی ہیں وہ بھی قبر میں مدفون میت
دوم یہ انسانی بساط سے باہر ہے کہ مسلسل حجاب میں رہا جائے. یہ نا ممکنات میں سے ہے. خیال رہے کہ امہات المومنین چہرے کو بھی پردے میں رکھتی تھیں
اہل شعور اس روایت کو اپنے اوپر منطبق کر کے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں مسلسل چہرے کے پردے میں رہا جائے
سوم عائشہ رضی الله تعالی عنہآ کی وفات ٥٧ ھ میں ہوئی. عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت ٢٣ ھ میں ہوئی. اس پردے والی ابو اسامہ کی روایت کو درست مآنا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ٣٤ سال حجرے میں پردے میں رہیں یعنی ٣٤ سال تک گھر کے اندر اور باہر پردہ میں رہیں
چہارم عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو اس تکلیف میں دیکھ کر کسی نے ان کو دوسرے حجرے میں منتقل ہونے کا مشورہ بھی نہیں دیا. انسانی ضروریات کے تحت لباس تبدیل کرنا کیسے ہوتا ہو گا ؟ کسی حدیث میں نہیں اتا کہ وہ اس وجہ سے دوسری امہات المومنین کے حجرے میں جاتی ہوں کیونکہ تدفین تو حجرہ عائشہ میں تھی
بحر الحال یہ روایت غیر منطقی ہے اورایک ایسے عمل کا بتارہی ہے جو مسلسل دن و رات ٣٤ سال کیا گیا اور یہ انسانی بساط سے باہر کا اقدام ہے
کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال میں سماع الموتی پر خاور بٹ صاحب لکھتے ہیں
عجیب بات ہے کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک مردہ سن نہیں سکتا لیکن دیکھ سکتا ہے اور عائشہ رضی الله تعالی عنہ کے حوالے سے اس زیر بحث ضعیف روایت کو صحیح کہنے والے بہت سے اہل حدیث علماء ہیں
الله ہم سب کو ہدایت دے
روایت کے مسلکی دفاع کا ایک اور انداز
مسلک پرست روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے سنن ابو داود کی روایت پیش کرتے ہیں
حدَّثنا أحمدُ بن صالح، حدَّثنا ابنُ أبي فُدَيك، أخبرني عَمرو بن عثمانَ بن هانىء عن القاسمِ، قال: دخلتُ على عائشةَ، فقلتُ: يا أُمَّهْ، اكشفِي لي عن قبرِ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- وصاحبَيه، فكشفتْ لي عن ثلاثةِ قُبورٍ، لا مُشْرِفةِ ولا لاطِئةٍ، مَبْطوحةٍ بِبَطحاءِ العَرْصة الحمراء
قاسم کہتے ہیں میں عائشہ رضی الله عنہا کے پاس داخل ہوا ان سے کہا
اماں جان مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے دو صاحبوں کی قبریں دکھائیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے میرے لئے تین قبروں پر سے پردہ ہٹایا
اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ
ان تین قبروں (کے حجرہ ) کا دروازہ کھولا
حالانکہ اس روایت میں کہیں نہیں کہ کوئی دروازہ بھی تھا. دوم
البانی اس کو ضعیف کہتے ہیں کیونکہ اس کا راوی
عَمرو بن عثمانَ بن هانىء مستور ہے
ایک ضعیف روایت کو بچانے کے لئے ایک دوسری ضعیف روایت سے استدلال باطل ہے کہتے ہیں
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مسلک پرست عائشہ رضی الله عنہا کی مسلسل پردہ والی روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ مکان جس میں وہ رہتی تھیں اور جس میں نماز پڑھتی تھیں الگ الگ تھے اس سلسلے میں ان کی دلیل، الطبقات ابن سعد کی یہ روایت ہے
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ يَقُولُ: قُسِمَ بَيْتُ عَائِشَةَ بِاثْنَيْنِ: قِسْمٌ كَانَ فِيهِ الْقَبْرُ. وَقِسْمٌ كَانَ تَكُونُ فِيهِ عَائِشَةُ. وَبَيْنَهُمَا حَائِطٌ. فَكَانَتْ عَائِشَةُ رُبَّمَا دَخَلَتْ حَيْثُ الْقَبْرُ فُضُلا. فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ لَمْ تَدْخُلْهُ إلا وهي جامعة عليها ثيابها
موسی بن داود کہتے ہیں امام مالک کہتے ہیں ام المومنین رضی اللہ عنہا کا گھر دو حصوں پر مشتمل تھا ایک میں قبر تھی اور ایک میں عائشہ رضی الله عنہ خود (رہتی) تھیں… پس جب عمر اس میں دفن ہوئے تو وہ دوسرے حصے میں نہیں جاتیں الا یہ کہ کپڑا لے کر
اس کی سند میں
مُوسى بن داود الضَّبيُّ، أبو عبد الله الطَّرَسُوسيُّ المتوفی ٢١٧ ھ ہے جس کو
کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق أبو حاتم کہتے ہیں في حديثه اضطراب. اس کی حدیث میں اضطراب ہوتا ہے. مسلم نے اس کی روایت کتاب الصلاه میں ایک جگہ لی ہے . اس سے عقیدے میں روایت نہیں لی گئی. یہ امام مالک کا قول نقل کرتا ہے جو ان کی موطا تک میں موجود نہیں ہے اور یہ کسی صحابی کا قول بھی نہیں لہذا دلیل کیسے ہو گیا؟
مسلک پرستوں کی طرف سے مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت بھی پیش کی جاتی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِي مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ
محمد بن اسحاق ، فاطمه بنت محمد سے وہ عمرہ سے وہ عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ کے دفن کر دئے جانے کا علم بدھ کی رات کے آخر میں کھدائی کے آوزاروں کی آواز سے ہوا
اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس کمرہ میں نہیں تھیں جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دفن کیا گیا گویا ایک چھوٹے سے حجرے میں اب دو حجرے بنا دے گئے وہ بھی ایسے کہ ایک حجرے میں جو کچھ ہو رہا ہو وہ دوسرے حجرے والے کو علم نہ ہو سکے حتی کہ کھدال کی آواز آئے
افسوس اس کی سند بھی ضعیف ہے
محمد بن اسحاق مدلس ہے عن سے روایت کر رہا ہے فاطمہ بنت محمّد ہے جواصل میں فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدِ بْنِ عِمَارَةَ ہے. کہا جاتا ہے کہ اس نام کی عبد الله بن ابی بکر کی بیوی تھی لیکن جو بھی ہو ان کا حال مجھول ہے
دو حجرے ثابت کرنے کے لئے یہ حوالہ بھی دیا جاتا ہے
عالم صالح بن عبد العزيز بن محمد بن إبراهيم آل الشيخ درس میں کہتے ہیں بحوالہ
التمهيد لشرح كتاب التوحيد
ولما دفن عمر – رضي الله عنه – تركت الحجرة رضي الله عنها، ثم أغلقت الحجرة، فلم يكن ثم باب فيها يدخل منه إليها وإنما كانت فيها نافذة صغيرة، ولم تكن الغرفة كما هو معلوم مبنية من حجر، ولا من بناء مجصص، وإنما كانت من البناء الذي كان في عهده عليه الصلاة والسلام؛ من خشب ونحو ذلك
پس جب عمر رضی الله عنہ دفن ہوئے تو اپ (عائشہ) رضی الله عنہا نے حجرہ چھوڑ دیا پھر اس حجرے کو بند کر دیا پس اس میں کوئی دروازہ نہیں تھا جس سے داخل ہوں بلکہ ایک چھوٹا سی کھڑکی (یا دریچہ) تھا. اور یہ حجرہ نہ پتھر کا تھا نہ چونے کا بلکہ یہ لکٹری کا تھا جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں ہوتا تھا
صالح بن عبد العزيز کے مطابق تو اس میں دروازہ ہی نہیں تھا بلکہ کھڑکی تھی لہذاوہ اس سے دوسرے حجرے میں داخل کیسے ہوتیں ؟ جوش مخالفت میں دو حجرے تو کر دئے لیکن دریچہ پر غور نہیں کیا
غور کیا جائے تو یہ ثابت ہی نہیں کہ عائشہ رضی الله عنہا نے حجرہ چھوڑ دیا تھا بلکہ بہت ممکن ہے کہ قبروں کو بقیہ ہجرے سے الگ کرنے کے لئے ایک پردہ ڈال دیا گیا ہو. قرآن میں ہے کہ مریم علیہ السلام نے پردہ ہی ڈال کر محراب میں سکونت اختیار کی تھی
ضعیف روایات کو محدثین نے اپنی کتابوں میں صحیح سمجھ کر نہیں لکھا بلکہ انہوں نے ایسا کہیں دعوی نہیں کیا جو بھی وہ روایت کریں سب صحیح سمجھا جائے اگر کسی کو پتا ہو تو پیش کرے
بہتر یہی ہے کہ محدثین جو کہہ گئے ہیں اس کو تسلیم کر لیا جائے
يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسی الفسوی ، ابو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں کہ:
قَالَ : عُمَرُ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : كَانَ أَبُو أُسَامَةَ إِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ ، ثُمَّ قَالَ : يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ، ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ
عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس (روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پاتا يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے محمد بن عبد الله بن نمير کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (محمد بن عبد اللهِ بن نمير کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں -
(المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان: مَا جَاءَ فِي الْكُوفَةِ)
جس کو یہ روایت پسند ہو وہ سن لے کہ
ہماری ماں عائشہ رضی الله عنہا ایک مجتہد تھیں وہ صحابہ تک کے اقوال قرآن پر پرکھ کر
رد و قبول کرتی تھیں لہذا وہ مردہ میت سے شرم کیسے کر سکتی ہیں؟