• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عقیدہ کے مسائل میں اجتہاد ہو سکتا ہے؟؟؟؟

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
السلام علیکم
میرا ایک سوال ہے کہ کیا عقیدے کے مسائل میں اجتھاد ہو سکتا ہے؟؟
اور دوسرا یہ کہ دیو بندیوں کا عقیدہ ہے کہ نبیﷺ کی قبر مبارک کی مٹی کعبہ اور عرش سے افضل ہے اور اس بات پر وہ اجماع کا دعوی کر رہے ہیں۔۔۔۔
ان کی یہ بات کس حد تک درست ہے؟؟؟
ایک دیو بندی کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں
کچھ تمہیدی باتیں سمجھ لیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے انسان کے جمیع معاملات کے متعلق احکامات کی تشریحات منقول نہیں ہیں اس وقت جو صورت یا مسئلہ درپیش ھوا حضرت قرآن و حدیث سے اس کا جواب ارشاد فرما دیا کرتے تھے اور باضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے شرعی مسائل کو اسی طرز پر یکجا جمع کیا مگر اس میں بھی اس وقت کے اعتبار اور انسانی ذہن کے نقص کی وجہ سے قیامت تک کے مسائل تفصیلی ذکر نہیں ہیں اور یہی حال قرآن اور حدیث کا ہے کہ ان میں بھی ہر ہر مسئلہ قیامت تک جو درپیش ھوگا تفصیلا بیان نہیں کیا گیا بلکہ کچھ ضوابط اور قواعد بیان کئے گئے جس سے آئندہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کی شرعی نوعیت متعین کی جاتی ہے اور حکم شرعی نافذ کیا جاتا ہے اب اگر باتیں سمجھ آگئی ھوں تو اگلی بات سمجھنا آسان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کائنات کی ہر ہر شئے سے بالاتفاق افضل ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس بھی چیز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات متعلق ھوئی یا اس چیز کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ھوئی وہ چیز افضل ھو گئی حتی کہ ان میں سے بعض اشیاء کی فضیلت اور ان کے ساتھ قسمیں خود اللہ رب العزت نے کھائیں ہیں جیسے سورہ بلد کی ابتدائی آیات میں لا اقسم بھذا البلد میں اس شہر کی قسم اس لئے کھائی کہ آپ اس شہر میں سکونت اختیار کئے ھوئے ہیں چنانچہ خود قرآن میں ہے و انت حل بھذا البلد ۔
اسی بات کو تفسیر روح المعانی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ا اقسم بھٰذا ا لبلد وأنت حل بھذا البلد(۲) في روح المعانی والاعتراض لتشریفہ ﷺ بجعل حلولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام مناطالإ عظام البلد بالإقسام بہ وجعل بعض الاجلۃ الجملۃ علیٰ ھذ االوجہ حالا من ہذا البلد۔ اھ(روح المعاني، سورۃ البلد، تفسیرالأیۃ: ۲، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۶، ۲۴۱، جزء: ۳۰۔۔)
اور اسی قبیل سے ہے استدلال حضرت ابن عباسؓ کا تفضیل نبوی علی الملائکۃ اور اس پر درج ذیل روایت شائد ہے
جو دارمی اور مشکوہ میں ان لفظوں سے ہے
قا ل إن اللّٰہ تعالیٰ: فضل محمدا ﷺ علی الأنبیاء وعلیٰ أھل السماء۔ فقالوا: یا أبا عباس بم فضلہ اللّٰہ علی أھل السماء۔ قال ان اللّٰہ تعالیٰ: قال لأھل السماء ومن یقل منھم انی إلٰہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم کذلک نجزی الظٰلمین۔ وقال اللّٰہ تعالیٰ: لمحمدﷺ إنا فتحنا لک فتحَا مبینا لیغفر لک اللّٰہ تقدم من ذنبک وما تأخر الحدیث۔ کذالک في المشکوٰۃ عن الدارمي
مشکاۃ المصابیح، باب فضائل سیدالمرسلین، الفصل الثالث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ص:۵۱۵۔
سنن الدارمي، المقدمۃ، باب ماأعطی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم من الفضل، دارالمغني الریاض ۱/۱۹۳-۱۹۴، رقم: ۴۷۔

ان آیات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ھوگی وہ کائنات کی ہر ہر مخلوق سے افضل ھوگی۔
اب آتے ہیں مسئولہ مسئلہ پر سائل کے علم میں یہ بات ھونی چاہیے کہ اس بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی تفصیلی عبارت منقول نہیں ہے اسی وجہ سے مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ اس کے بعد لکھا کہ ہے کہ جیسا کے ہمارے فقہاء نے لکھا ہے اور مزید یہ کہ اس بات پر امت کا اجماع ہے اور اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اجماع بھی قطعی دلیل ھوتا ہے اور ایک بات اور کہ یہ موقف صرف علماء احناف ہی کا نہیں بلکہ پوری امت کا ہے جیسا کہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ امام تاج الفاکھی حنبلی رحمہ اللہ اور علامہ سخاوی شافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔
مگر اعتراض صرف علماء احناف ہی پر کیوں۔؟
حوالہ اس بات پر
في الدرالمختار: اٰخرکتاب الحج، ومکۃ أفضل منھا (أي من المدینۃ) علی الراجح إلا ماضم أعضاء ہ علیہ الصلوٰۃ والسلام، فإنہ أفضل مطلقًا حتیٰ من الکعبۃ والعرشوالکرسي۔ اھ
و في ردالمحتار: بعد نقل بعض الخلاف مانصہ وقد نقل القاضي عیاض وغیرہ الإجماع علیٰ تفضیلہ (أي الضریح الشریف) حتی علی الکعبۃ و أن الخلاف فیہا ماعداہ ونقل عن ابن عقیل الحنبلي ان تلک البقعۃ أفضل من العرش وقد واففہ السادۃ البکریون علیٰ ذلک وقد صرح التاج الفاکھي بتفضیل الأرض علی السموٰات لحلولہ صلی اﷲ علیہ وسلم بہا، وحکاہ بعضھم علی الأکثرین لخلق الأنبیاء منھا ودفنھم فیھا،
الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الہدی، مطلب في تفضیل مکۃ علی المدینۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۴/۵۲-۵۳، کراچي۲/۶۲۶۔
مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب المسجد ومواضع الصلاۃ، الفصل الأول، مکتبۃ زکریا دیوبند ۲/۳۷۰، تحت الحدیث : ۶۹۲، امدادیۃ ملتان ۲/۱۹۰)



مہربانی کر کے علماء رہنمائی فرمائیں
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
عقائد کی اصلاح اور وضاحت کی خاطر انبیاء اور رسولوں کی بعثت ہوئی ہے اور انہوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے عقائد کے مسائل تمام انبیاء کے یہاں یکساں طور پر رہے ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی البتہ تشریعی احکامات میں وقت اور جگہ کے اعتبار سے تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا "لقَد ترِكْتُكُم على مثلِ البَيضاءِ، ليلُها كنَهارِها لا يَزيغُ عنها إلّا هَالِكٌ" یعنی میں تم کو روشن شاہراہ پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کی راتیں دن کی طرح روشن ہیں اس سے صرف ہلاک ہونے والا ہی بھٹکے گا، اور جب معاملہ یہ ہے تو پھر اس میں اجتہاد کی کہاں گنجائش رہ جاتی ہے؟ کیوں کہ اجتہاد کی ضرورت تو تب ہے جب قرآن اور حدیث میں مسئلہ کی نوعیت واضح نا ہو اور ظاہر ہے عقائد میں یہ ممکن نہیں ہے ہاں قیامت تک پیش آنے والے تشریعی احکامات میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام مخلوق سے افضل ہے یہ بنیادی عقیدہ ہے اور اس کے دلائل اپنی جگہ قرآن و حدیث میں موجود ہیں لیکن جس جس چیز کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی یا وہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہوئی وہ چیز بھی افضل ہو گئی، یہ بات محتاج دلیل ہے؟ اللہ و رسول نے کہیں بھی نہیں کہا کہ جو بھی چیز نبی سے متعلق ہو وہ أفضل بھی ہوگی؟ ہاں اس کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے افضلیت کی بات ائمہ اربعہ سے بھی منقول نہیں ہے، کتنی چیزیں ایسی ہیں جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہے اس کے باوجود دوسری چیزیں ان کے مقابلے میں افضل ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد حرام کی ایک نماز کو اپنی نسبت والی مسجد نبوی کی ہزار نمازوں کے برابر قرار دیا ظاہر سی بات ہے یہ مسجد حرام کی افضلیت کی دلیل ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کو لے لیں ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت زوجیت ہے لیکن انبیاء کرام سے افضل نہیں اسی طرح اپنے والد محترم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہے لیکن صحابہ کی جماعت خصوصاً خلفائے اربعہ سے افضل نہیں، لہذا یہ اصول ہی غلط ہے کہ جس کی نسبت یا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو وہ بہر حال افضل ہوگا بلکہ افضل وہ ہے جس کو اللہ یا اس کے رسول نے افضل قرار دیا ہے اور اللہ تعالی کا کسی چیز کی قسم کھانا اس کی فضیلت کی دلیل تو ہو سکتی ہے افضلیت کی نہیں اگر اسی طرح سے افضلیت ثابت ہونے لگی تو مکہ کی افضلیت قبر اطہر پر اسی قسم سے ہی ثابت ہو گئی کیونکہ مکہ کی اللہ نے قسم کھائی ہے جبکہ قبر اطہر کی نہیں فافہم و تدبر!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
تمہیدی طور پر آپ چند باتیں ذہن نشین کر لیں کہ امام أبو حنیفہ سمیت تمام ائمہ رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے تمام شرعی احکامات کی تشریح کردی ہے اور نا ہی ان میں سے کسی سے تمام مسائل کی تشریح منقول ہے ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی صواب دید کے مطابق قرآن و حدیث یا پھر اپنی رائے قیاس کو بنیاد بنا کر مسائل بیان کرتا تھا جس کی وجہ سے بسا اوقات ان سے غلطی بھی ہوئی اور اختلافات رونما ہوئے اور کبھی اختلاف کا سبب بروقت حدیث رسول نا ملنے کی وجہ سے بھی ہوا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف جس قانون ساز کمیٹی کی نسبت مقلدین کرتے ہیں وہ محض گپ ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے جس نے یہ بے پر کی اڑائی ہے اس کو تاریخ کا بھی درست علم نہیں تھا کہ اس نے اس اہم کمیٹی کے ممبران میں ان لوگوں کے نام بھی گنا دیئے ہیں جو اس وقت وجود میں بھی نہیں آئے تھے یا اس لائق نہیں تھے کہ اس اہم کمیٹی کے حصہ بنیں، تفصیل "حسن البیان فیما فی سیرة نعمان" مولف حضرت العلام عبد العزيز رحیم آبادی رحمہ اللہ یا "أمام ابو حنیفہ کی قانون ساز کمیٹی" میں دیکھیں، اگر مسئلہ کی تفصیلا بیان سے مراد یہ ہے کہ جس طرح سے فقہ حنفی میں بال کی خال نکالی گئی ہے اور ایسے ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں جو ان شاء اللہ قیامت تک واقع ہونے والے نہیں ہیں تو یقیناً ایسی تفصیل قرآن و حدیث میں نہیں ہے اور نا ہی اس کی ضرورت ہے ورنہ قرآن و حدیث میں پیش آنے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے بس اس کے سمجھنے کے لئے آدمی کا تقلیدی قید سے آزاد ہونا ضروری ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
دیوبندی پوسٹ میں بیان کی گئی آیات اور احادیث میں سے کسی میں بھی اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ قبر اطہر عرش الرحمن، یا بیت اللہ یا اللہ کی کرسی سے افضل ہے اس کے بعد بھی ایک مقلد کا مجتہدانہ انداز میں یہ کہنا "جو بھی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہوگی وہ کائنات کی ہر ہر مخلوق سے افضل ہوگی" دعویٰ بلا دلیل ہے اور جہالت پر مبنی ہے اور اگر اس بات کو مان لیا جائے تو مکہ مدینہ کا ذرہ ذرہ عرش و فرش اور کرسی سے افضل ٹھہرے گا اور بنو ہاشم خاص طور طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین جن و انس، جبریل و میکائیل وغیرہ بلکہ اولوالعزم پیغمبروں سے افضل ٹھہریں گے جبکہ کتاب و سنت میں اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس پوری عبارت میں کوئی بھی ایسی دلیل نہیں جس سے قبر اطہر کی افضلیت بیت اللہ، عرش اور کرسی وغیرہ پر ثابت ہوتی ہو اور نا ہی کسی صحابی کا کوئی قول منقول ہے اس کے باوجود سہارنپوری صاحب یا کسی بھی مقلد کی بات کو کیسے مانا جا سکتا ہے رہی بات اجماع کی تو إجماع مقلدین کا دھوکا ہے جس سے یہ مقلدوں کو ڈراتے رہتے ہیں ورنہ جس کو یہ إجماع کہہ رہے ہیں وہ إجماع ہے ہی نہیں،
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
اصل یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ قبر اطہر کو عرش اور کرسی اور بیت اللہ سے افضل قرار دینے والے ہیں وہ اہل سنت والجماعت سے ہٹے ہوئے اور تاویلی ہیں ورنہ جس کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہو اس کو مفضول کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اصل میں یہ عرش پر اللہ کو اس کی شان کے لائق مستوی نہیں مانتے اور کرسی کو موضع القدمین نہیں مانتے جیسا کہ إبن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ہے "وما قدروا الله حق قدره"
 
Top