• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عمران خان وزیر اعظم بن سکتا ھے؟

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
دوست احباب ایک محفل میں موجودہ ملکی صورت حال پر بحث و تمحیص

کر رھے تھے تو ایک صاحب نے سوال داغ دیا ،کیا عمران خان وزیر اعظم بن

سکتا ھے؟ تو دانش ور نما طبیب (نصف سے ھمیں بھی اتفاق ھے) نے ایک

مثال دیتے ھوئے جواب سے محفل کو------ بنا دیا ۔جواب آپ بھی سنیئے۔

"اک پنڈ دا لمبردار مر گیا تے پنڈ دے مراثی (معذرت) دے منڈے نے آ کے

اپنے ابے نوں پوچھیا ابا ہون لمبر دار کون بنے گا تے اودے ابے نے جواب

دیتا اودہ پتر بنے گا تے منڈے نے فیر پوچھیا اگر اوی مر جائے تے فیر کون

بنے گا اورے ابے نے اکھیا فیر اورہ منڈا بن سی ،تے پتر نے فیر پوچھیا ابا

اگر اووی مر جائے تیر فیر کون بنے گا ۔اے سن کے ابے نے آکھیا پتر سارا

پنڈ لمبردار بن سکدہ اے پر تو نھیں بن سکدہ ،تو ں مراثی دا پتر ایں تے

توں مراثی دا پتر ھی رہیں گا۔"

اسکے ساتھ ھی اہل فکر و نظر نے (کھنے میں کوئی مضائقہ نھیں)

محفل برخاست کر دی کیونکہ اب کپوں سے چائے حتم ھو چکی تھی۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
میرے خیال میں اس قسم کی پوسٹ اسلامک فارم پر اچھی نہیں لگتیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
میراثی کے دس سالہ بیٹے نے لاڈ میں اپنی ماں سے پوچھا ’اماں ! اگر چودھر ی کرامت علی مر جائے تو پنڈ کا وڈا چودھری کون بنے گا ؟ماں نے کہا کہ ’اس کا چھوٹا بھائی شرافت علی۔بیٹے نے پھر پوچھا ’اگر چودھری شرافت علی بھی مر جائے تو ؟ماں بولی ’اس کا بیٹا چوھدری حاکم علی ۔بیٹے نے پھر کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ’اماں اگر حاکم علی بھی مر جائے تو ؟ماں مسکرائی اور بیٹے کا بوسہ لیتے ہوئے اداس آنکھوں میں نمی کے ساتھ بولی ’پُتر یہ سارے بھی مر جائیں توبھی تم چودھری نہیں بن سکتے ‘۔۔۔!یوم آزادی کے موقع پر میراثی کی بیوی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جو ہم نے قوم تک پہنچا دیا تا کہ قوم جشن آزادی کے مقدس لمحات سے لطف اندوز ہوسکے۔ہم جشن آزادی کے پروگراموں میں شرکت کے لئے واشنگٹن آئے ہوئے ہیں۔ امریکہ بھر میں یوم آزادی پاکستان پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جا رہاہے ۔تمام سیاسی و سماجی جماعتیں مختلف تقاریب اور پروگراموں کا اہتمام کر رہی ہیں۔نیویارک میں چودہ اگست کی پریڈ،بروکلین میلہ اور دیگر تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں جبکہ اتوار کے روز لانگ آئی لینڈ نیویارک میں حسب روایت ایک شاندار پکنک کا اہتمام کیا گیا جس کا کریڈٹ نیویارک کی سماجی شخصیت بشیرقمر اور ان کی تنظیم (پاکستان امریکن کمیونٹی آف لانگ آئی لینڈ) کی ٹیم کو جاتا ہے ۔ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی امریکی ڈاکٹروں کی معروف تنظیم ’’اپنا‘‘ کا سالانہ اجلاس جاری ہے،اس میں بھی ثقافتی پروگراموں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔تمام مصروفیات سے قطع نظر پاکستان کے حالات پر ہماری گہری نظر رہتی ہے۔علامہ قادری کہتے ہیں کہ ’’جو واپس آئے اسے بھی شہید کر دو تا کہ وہ عبرت کا نشان بن جائے ‘ اور پھر ایک شاطرانہ قہقہہ لگاتے ہیں ۔یعنی شہادت کو ’’نشان عبرت‘‘ قرار دیتے ہیں ۔نشان عبرت بننے والے ’’شہید‘‘ کہلا سکتے ہیں ؟ دوسرے روز نوائے وقت اخبار کی خبر دکھا کر اپنی بات کو مذاق قرار دیتے ہیں ،یعنی کوئی جان سے جائے اور تمہاری ادا ٹھہرے!جونام نہاد عالم دین داڑھی رکھ کر قرآن اٹھا کر سفید جھوٹ بول سکتا ہے ،وہ بابائے نوائے وقت کے انتقال کے بعد ان کی ذات سے متعلق بے بنیاد الزام بھی لگا سکتا ہے۔یہ حضرت ایک روز نشان عبرت بنیں گے اور دنیا دیکھے گی۔ابھی اطلاع ملی ہے کہ ’’روٹھی محبوبہ‘‘ مان گئی ہے۔ عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ہاشمی صاحب کو منانے کے لئے وفد انہوں نہیں بھیجا ،وہ لوگ خود سے گئے ہیں لیکن عارف علوی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہاشمی صاحب کو منانے کے لئے ہم لوگوں کو عمران خان نے بھیجا ہے بلکہ خان صاحب نے ہاشمی صاحب سے خود بھی آدھ گھنٹہ فون پر بات کی اور بالآخر ان کے تحفظات دور کر نے میں کامیاب ہو گئے ۔ہاشمی صاحب لانگ مارچ میں شرکت پر راضی ہو گئے۔ ٹی وی سکرین پرہاشمی صاحب اپنی جدوجہد جمہوریت کے قصیدے سناتے دکھائی دیئے۔ پاکستان کی جمہوریت بھی ہاشمی صاحب کی طرح بہت حساس ہے ،بوٹوں کی دور سے بازگشت سن کر گھبرا جاتی ہے مگر ڈھیٹ بھی ہے ،بوٹ کھائے بغیر جاتی بھی نہیں۔ہم بہت پہلے لکھ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماء حامد خان بھی ناراض ہیں۔آجکل امریکہ آئے ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کا حصہ بننے والے قانون دان حامد خان بھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف نا مناسب زبان استعمال کرنے اور بنا ثبوت الزامات لگانے پر اپ سیٹ تھے اور عمران خان کو عدلیہ کے خلاف جلسوں میں غیر سنجیدہ بیانات سے منع بھی کرتے رہے ۔عمران خان کے ضدی رویہ کی وجہ سے حامد خان(بھی) آزادی ما رچ کا حصہ بننے سے گھبرا گئے اور قیادت کو بتائے بغیر امریکہ چلے آ ئے جبکہ ٹیکنو کریٹک حکومت کے غیر آئنی مطالبہ نے مخدوم جاوید ہاشمی کو ملتان واپس جانے پر مجبور کر دیا۔خان صاحب نے توکہہ دیا تھا کہ ہاشمی صاحب کے لوٹ جانے سے مارچ کو نقصان نہیں ہو گا البتہ ہاشمی صاحب کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔تحریک انصاف کے رہنماء طارق چودھری بھی امریکہ میں موجود ہیں اور آزادی مارچ میں شرکت نہیں کر رہے۔غیر سنجیدہ اور غیر آئنی مطالبات اور الزامات کی وجہ سے تحریک انصاف میں شامل سنجیدہ افراد تذبذب کا شکار ہیں ۔ خان صاحب کی عقل کُل مشاورت سے بالا ہے اور ان کے منچلے اور منچلیاں قانون اور آئین کی سنجیدگی کو سمجھنے سے قاصر ۔خان صاحب کے خوبصورت معصوم بیٹے بھی اسلام آباد پہنچ گئے تھے مگر سنا ہے سکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر انہیں لندن واپس بھیج دیا گیا جبکہ عوام کے ننھے ننھے بچے’’ خان مارچ‘‘ میں شرکت کے لئے زمان پاک پہنچ چکے ہیں۔جاوید ہاشمی کے بقول خان صاحب نے ٹیکنو کریٹ حکومت کے مطالبہ کو اپنی غلطی تسلیم کیا ہے۔ پاکستانی آئین کے متعلق عمران خان کی معلومات دیکھ کر اپنی جہالت پر افسوس نہیں ہوا۔جمہوریت کے داعی کی جانب سے غیر آئینی مطالبات و بیانات سے پاکستان کو ہی نہیں ان کی جماعت کو بھی شرمندگی ہوتی ہے ۔ٹیکنو کریٹ حکومت کا مطالبہ غیر آئینی ہے۔جو چیز آئین میں موجود ہی نہیں ،اس کا مطالبہ کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟غیر آئینی مطالبات و اقدامات آمروں کا رویہ رہاہے ۔زرداری کی حکومت کو آمرانہ جمہوریت کہاجاتا رہااور نواز شریف کی حکومت کو بادشاہت کہتے ہیں جبکہ خود آئین سے نابلد ہیں۔یوم آزادی کے موقع پرسونامی کی کال انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام ہے لیکن اس کے نتائج پوری قوم بھگتے گی ۔جہاں تک حکومت کی مخالفت کا تعلق ہے تو میراثی کی بیوی کی بات پر تفکر فرمائیں(آج کے نوائے وقت کا ایک کالم بقلم "طیبہ ضیا"
 
Top