• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عیسائی ٹیچر کو سلام کیا جا سکتا ہے؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حكم ابتدائهم بالسلام:


لا يجوز ابتداء الكافر بالسلام لأن معنى السلام هو السلامة من أوصاب الدنيا وعذاب الآخرة فكأنك تدعو له وقد نهينا عن الاستغفار للمشركين. والدليل على ذلك:
ما رواه أبو هريرة رضي الله عنه أنه قال: " لا تبدؤوا اليهود ولا النصارى بالسلام, فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه". (رواه مسلم 2167)
2 عن أبي بصرة رضي الله عنه أنه قال: "إنا مارون على يهود فلا تبدؤُوهم بالسلام، فإذا سلموا عليكم فقولوا: وعليكم". (رواه أحمد بإسناد صحيح 27235)
3 حديث أبي هريرة رضي الله عنه: "ألا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم , أفشوا السلام بينكم". فقوله بينكم عيني على المسلمين . قال الحافظ ابن حجر في الاستدلال بالحديث: "المسلم مأمور بمعاداة الكافر فلا يشرع له فعل ما يستدعي مودته ومحبته". (فتح الباري 17/457)
وهذا هو قول جماهير أهل العلم من الأئمة الأربعة أعني المنع من ابتداء الكفار بالسلام.
قال النووي في الأذكار (1/323): "وأما أهل الذمة فاختلف أصحابنا في أهل الذمة, فقطع الأكثرون بأنه لا يجوز ابتداؤهم بالسلام".
ومن أهل العلم من جوز ابتداءهم مطلقاً، وقال آخرون يجوز عند الحاجة، وهي أقوال مردودة بنص حديث رسول لله صلى الله عليه وسلم.
وقال النووي: "قال بعض أصحابنا يكره ابتداؤهم بالسلام و لا يحرم، وهذا ضعيف، لأن النهي للتحريم فالصواب تحريم ابتدائهم". (الأذكار 1/323)

اوپر درج تینوں احادیث کا معنی یہ ہے ،کہ یہودو نصاری کو سلام کی ابتدا نہیں کرنی چاہئیے؛
اور اگر وہ السلام علیکم کہیں تو جواب میں صرف ـوعلیکم ـ کہہ دینا چاہیئے؛
سلام ،ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کےلئے تحفہ ہے ،یہ تحفہ غیر مسلم کو نہیں دینا چاہیئے
کفار کو سلام دینا حرام ہے ،
 
شمولیت
فروری 23، 2014
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
جزاک اللہ. مجھے اس جمعہ کو ڈاکٹر عبدالرحمن مدنی صاحب سے لاھور میں ملنے کا اتفاق ھوا. انہوں نے اس بارے میں کہا کہ اگر ٹیچر کو سلام کر دیا جاے تو کوئی حرج نہیں. ان کو قریب کرنے کے لیے حسن سلوک کرنا چاھیےاور سلام بھی کر سکتے ھیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاک اللہ. مجھے اس جمعہ کو ڈاکٹر عبدالرحمن مدنی صاحب سے لاھور میں ملنے کا اتفاق ھوا. انہوں نے اس بارے میں کہا کہ اگر ٹیچر کو سلام کر دیا جاے تو کوئی حرج نہیں. ان کو قریب کرنے کے لیے حسن سلوک کرنا چاھیےاور سلام بھی کر سکتے ھیں.
ڈاکٹر عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ تعالی تو بڑے مستند عالم ہیں ، انہوں نے یقیناً کسی نہ کسی دلیل کی بنیاد پر اس کاجواز بتایا ہوگا ،
(وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيم ) میں تو محض ایک طالب علم ہوں ،اور اپنی محدود سی معلومات کے مطابق درج بالا سطور پیش کی تھیں ؛
ویسے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی کچھ علما کا مذہب جواز کا بتایا ہے ( وقالت طائفة: يجوز الابتداء لمصلحة راجحة من حاجة تكون له إليه، أو خوف من أذاه، أو لقرابة بينهما، أو لسبب يقتضي ذلك، يروى ذلك عن إبراهيم النخعي، وعلقمة.
وقال الأوزاعي: إن سلمت فقد سلم الصالحون، وإن تركت فقد ترك الصالحون
)زاد المعاد
۲۔۳۸۸
یعنی علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے ،کہ غیر مسلم کو کسی راجح مصلحت یا دیگر کچھ خاص احوال میں سلام دینا جائز ہے ،
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ !
اِس موضوع پر اگر کوئی صاحبِ علم تفصیلی راہنمائی کر دے تو مشکور ہونگے۔ دراصل میرے پاس بہت سارے کرسچن شاگرد بھی آتے ہیں پڑھنے کے لیے اور وہ مکمل سلام بھی کرتے ہیں تو جواب میں ان کو جواب میں کیا کہا جائے ؟
جواب ذرا وضاحت کے ساتھ ہو جزاک اللہ خیراً۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَاب فِي السَّلامِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
باب: اہل ذمہ ( معاہد کافروں ) کو سلام کرنے کا بیان
5205- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي إِلَى الشَّامِ، فَجَعَلُوا يَمُرُّونَ بِصَوَامِعَ فِيهَا نَصَارَى فَيُسَلِّمُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ أَبِي: لاتَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ؛ فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لاتَبْدَئُوهُمْ بِالسَّلامِ، وَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِ الطَّرِيقِ >۔
* تخريج: م/السلام ۴ (۲۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۸۲)، وقد أخرجہ: ت/الاستئذان ۱۲ (۲۷۰۰)، حم (۲/۳۴۶، ۴۵۹) (صحیح)

سنن ابو داود
۵۲۰۵- سہیل بن ابوصالح کہتے ہیں کہ:میں اپنے والد کے ساتھ شام گیا تو وہاں لوگوں ( یعنی قافلے والوں) کا گزر نصاریٰ کے گرجا گھروں کے پاس سے ہونے لگا تو لوگ انہیں ( اور ان کے پجاریوں کو ) سلام کرنے لگے تو میرے والد نے کہا: تم انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے، آپ نے فرمایا ہے:'' انہیں ( یعنی یہود ونصاریٰ کو ) سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو''، (یعنی ان پر اپنا دباؤ ڈالے رکھو وہ کونے کنارے سے ہو کر چلیں )۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السؤال: هل يجوز لنا ابتداء السلام بغير العربية للكافر؟
الإجابــة: الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فقد اختلف أهل العلم في ابتداء الكفار بالسلام، لما اختلف في ذلك من الأدلة، روى مسلم وأحمد أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تبدؤوا اليهود والنصارى بالسلام... الحديث، قال النووي في شرح مسلم: النهي للتحريم، فالصواب تحريم ابتدائهم.

واحتج القائلون بابتدائهم بالسلام، بقول الله تعالى حكاية عن إبراهيم لأبيه: سلام عليك، وقال تعالى: فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ {الزخرف:89}، وقال بعض أهل العلم إن السلام عليهم يجوز لحاجة، وراجع في هذا فتوانا رقم: 17051.
والأحسن أن يقال لهم سلام على من اتبع الهدى، كما أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يكتب في رسائله إلى هرقل وغيره، هذا فيما يتعلق بالسلام على الكافر، وأما أن يكون ذلك بغير العربية فالصحيح من أقوال أهل العلم أن السلام يجوز بغير اللغة العربية لمن يقدر على العربية، وراجع فيه الفتوى رقم: 51602.
وإذا صح السلام بغير العربية على المسلم، فالكافر -عند من يقول بجواز ابتدائه بالسلام- أولى بأن يسلم عليه بغير العربية.
والله أعلم.


http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=51866

اس کا مفہوم یہ ہے:

سوال: کیا کفار کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں سلام کی ابتداء کرنا جائز ہے؟

جواب: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ!
کفار کو سلام کی ابتداء کے متعلق علماء کے مابین اختلاف ہے کیونکہ اس بارے میں دونوں قسم کے دلائل موجود ہیں۔
صحیح مسلم ومسند احمد میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’تم یہود ونصاریٰ کو سلام کی ابتداء نہ کرو۔‘‘
امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’یہاں نہی تحریم کیلئے ہے لہٰذا انہیں سلام کی ابتداء کرنا حرام ہے۔‘‘
جو حضرات جواز کے قائل ہیں ان دلیل قرآن کریم میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو ’سلام علیک‘ کہنا ہے۔ اسی طرح فرمانِ باری ہے: ’’اے نبی! ان سے در گزر کریں اور انہیں سلام کہیں۔‘‘
بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ کفار کو کسی ضرورت کی بناء پر سلام کرنا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السؤال: هل يجوز لنا ابتداء السلام بغير العربية للكافر؟
الإجابــة: الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
وأما أن يكون ذلك بغير العربية فالصحيح من أقوال أهل العلم أن السلام يجوز بغير اللغة العربية لمن يقدر على العربية، وراجع فيه الفتوى رقم: 51602.

وإذا صح السلام بغير العربية على المسلم، فالكافر -عند من يقول بجواز ابتدائه بالسلام- أولى بأن يسلم عليه بغير العربية.

والله أعلم.
سلام علیکم ورحمۃ اللہ :
آپ کے مندرجہ بالا جملے،( أن السلام يجوز بغير اللغة العربية ) کا مطلب شاید ، یعنی ہائے ، ھیلو، ویلکم،،وغیرہ ہے ؛
 
شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
سلام عليكم ورحمة الله وبركاته شیخ محترم
کیا چار آدمیوں کے ساتھ ایک غیر مسلم ہو تو سلام کرنا چاہیے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
دور حاضر کے ایک ممتاز دینی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی رائے ہے کہ غیر مسلم کو سلام کرنا جائز ہے۔
 
Top