مظفر اختر
رکن
- شمولیت
- جون 13، 2018
- پیغامات
- 109
- ری ایکشن اسکور
- 12
- پوائنٹ
- 44
تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
آج جب کہ ہر فرقہ اپنے مسلک و مذہب کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرنے کی تگ و دو میں سرگرم ہے، ایک عام آدمی کے لیے حق و باطل میں امتیاز کرنا خاصہ مشکل ہوا جا رہا ہے۔ قادیانی حضرات تک مختلف چینلز اور انٹرنیٹ پر بیٹھ کر لوگوں کو قرآن و سنت کے نام پر گمراہ کرنے کی مذموم سعی کر رہے ہیں۔
آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر و ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔
جی ہاں ! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقیناً روز بروز بڑھتے ” اسلامی فرقوں“ کے پیچھے یہی دوری کار فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالا نہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔
کیا آپ بھی حق و باطل میں تمیز کرنے کا طریقہ جاننا چاہیں گے ؟ اگر آپ تیار ہیں تو لیجیئے وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔
فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔
لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم فقط اصلاح کی خاطر ان لوگوں کے اشکالات کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے !
تمام متلاشیان حق سے اپیل ہے کہ اللہ کے لیے وہ ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر اس تحریر کو پڑھیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
اشکال نمبر ۱ : ” ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لئے حجت نہیں ، لہٰذا فہم سلف حجت نہیں ۔
ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
«اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ» ( الاعراف : ۳ )
”تم اس چیز کی پیروی کرو، جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو “ لہٰذا صرف قرآن و حدیث حجت ہے، صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لئے حجت نہیں، لہٰذا فہم سلف حجت نہیں۔
جواب:
فہم سلف کی حجیت کے خلاف یہ سب سے بڑا اشکال ہے، لیکن یہ اشکال دراصل غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا پھر خلط مبحث کی کوشش، کیونکہ بحث یہ نہیں کہ صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لیے حجت ہیں یا قرآن و سنت۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر صحابہ و تابعین کے اقوال حجت ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و سنت پر عمل کے لیے پہلے اس کا فہم ضروری ہے۔ عمل تو تب ہی ہو گا، جب اس کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے گا۔
جب یہ بات تسلیم ہے کہ قرآن و سنت کو پہلے صحیح طور پر سمجھا جائے گا، پھر عمل کیا جائے گا تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلف، یعنی صحابہ و تابعین نے قرآن و سنت کو بہتر سمجھا ہے یا بعد والوں نے ؟ اس کا فیصلہ کوئی مسلمان صرف یہی کر سکتا ہے کہ صحابہ و تابعین نے بعد والوں کے مقابلہ میں قرآن و سنت کو بہت بہتر سمجھا ہے۔ ائمہ دین کا اتفاقی فیصلہ بھی یہی ہے۔
عمل کے لیے قرآن و سنت کا کوئی مفہوم تو بہرحال متعین کرنا ہی پڑے گا۔ اگر سلف کا فہم حجت نہیں تو کیا بعض لوگوں کا اپنا فہم حجت ہے ؟ یا اگر وہ کسی بعد والے شخص سے فہم لے رہے ہیں تو کیا سلف کو چھوڑ کر ان بعد والوں کا فہم ان کے لیے حجت ہے ؟
رہی یہ بات کہ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کا حکم ہے، صحابہ و تابعین کے فہم پر عمل کا نہیں تو عرض ہے کہ قرآن و سنت نے ہی ہمیں یہ راہ دکھائی ہے اور اہل حدیث کی دعوت جو کہ ”سلفی دعوت“ کے نام سے معروف ہے، وہ یہی ہے کہ قرآن و سنت کا مفہوم وہی معتبر ہو گا جو سلف صالحین نے معین کر دیا ہے۔ سلف کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس سلسلے میں ہم محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ کے کچھ دروس میں سے انتخاب پیش کریں گے، جس سے یہ اشکال خصوصاً اور دیگر اشکالات عموماً دور ہو جائیں گے :
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ضروری ہے کہ ہم دین کا صحیح مفہوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کے طریقہ سے لیں۔ سابقہ حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں فرمایا ہے، میرے خیال میں وہ آپ کے علم میں ہو گی۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وإن كل بدعة ضلالة ”میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھامنا اور بدعات سے بچنا۔۔۔۔“ ( مسند الامام احمد ۱۲۶/۴ : ۱۲۷، سنن ابی داؤد : ۴۶۰۷، سنن الترمذی : ۲۶۷۶، وقال : حسن صحیح، سنن ابن ماجه : ۴۲، و صححه ابن حبان : ۵)
ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے۔ یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ایک زائد چیز ہے، اگرچہ صرف کہنے میں ہی ہے ( حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں ) ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ اس دوسری چیز کا ذکر قران کریم کا بھی اسلوب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں : وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : ١١٥) ”اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے“۔
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یہاں کیوں لائی گئی؟ یہ آیت اس طرح کیوں نہ تھی کہ جو ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے تو جدھر وہ چلتا ہے، ہم چلنے دیں گے۔۔۔۔۔ ؟
مؤمنوں کی راہ کی مخالفت ساتھ ذکر کیوں کی گئی ؟ دراصل اس میں ایک بہت ہی بڑی نصیحت ہے۔ وہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا ہر فرقہ اور روئے زمین پر بسنے والا ہر گروہ، جن کی تعداد کم و بیش تہتر ہے، بلکہ یہ گروہ (مختلف پہلوؤں سے) بہت ہی زیادہ ہیں۔ سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ کتاب و سنت پر کاربند ہیں، حتیٰ کہ ان جدید فرقوں میں سے سب سے آخری گروہ کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین نہیں ہیں، بلکہ ان کے نزدیک اب بھی بہت سے انبیاء باقی ہیں، پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت پر کاربند ہیں۔ اسی سے آپ باقی تمام قدیم و جدید فرقوں کا اندازہ کر لیں۔
اب ان تمام فرقوں کے درمیان فیصلہ کن چیز کون سی ہے، حالانکہ سب کا یہی دعویٰ یہی ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں ؟ اس بات کا جواب اس آیت کریمہ اور سابقہ دونوں حدیثوں میں موجود ہے۔ آیت کریمہ میں ہے کہ جو بھی گروہ اور فرقہ ان پہلے مؤمنوں کی راہ کو چھوڑے گا، جو کہ ہدایت اور بصیرت پر تھے، وہ گمراہ ہے، اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرتا رہے کہ وہ کتاب و سنت پر ہے۔ جب تک وہ مسلمانوں کے طریقے اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتا رہے گا، یہ بات اس کے گمراہ فرقوں میں شامل ہونے کی دلیل ہو گی۔
چنانچہ ہر وہ عقیدہ جو ایسے گروہ سے ملے، جو اپنے عقیدے کو اجماع امت یا صحابہ کرام یا سلف صالحین کا عقیدہ ثابت نہیں کر سکتا تو وہ عقیدہ دلیل ہے کہ اس کا حامل گروہ ان بہتر فرقوں میں ایک ہے جو کہ جہنمی ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دین صرف وہ نہیں، جو ہماری پوری دنیا کے اہل حدیث بھائیوں کے ہاں مشہور ہے۔ وہ بھائی خواہ اہل الحدیث کے نام سے معروف ہوں یا انصار السنہ کے نام سے یا سلفیوں کے نام سے یا اور کسی نام سے۔ یہ تمام نام ایک ہی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں۔ تو معاملہ اس طرح نہیں، جیسے ہمارے ان بھائیوں میں عام طور پر معروف ہے کہ ہماری دعوت صرف کتاب و سنت پر اعتماد کرنے میں منحصر ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ضروری ہے، جس کا ذکر سابقہ دو احادیث نبویہ اور آخر میں قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ کتاب و سنت کے ساتھ یہ تیسری اور آخری چیز سلف صالحین کا منہج و عمل ہے۔
اگر کتاب و سنت پر اعتماد کرنے کا دعویٰ کرنے والا کوئی گروہ اس تیسری چیز کو مضبوطی سے نہ پکڑے تو یہ اس کی گمراہی کی دلیل ہے، چاہے وہ کتاب و سنت پر عمل کا کتنا ہی دعویٰ کرے !
حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے :
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
”علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں۔“
تو ابن القیم رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، یعنی کتاب و سنت کو ہی علم صحیح قرار دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہماری ذکر کردہ (قرآن و سنت کی) نصوص کے پیش نظر اس پر قول صحابہ کا اضافہ بھی کیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے۔ میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ اسی تیسری چیز کو چھوڑنا ہی ان قدیم و جدید فرقوں کی گمراہی کا سبب ہے، جو آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
ہر روز ہم کسی ایسے نئے گروہ کی باتیں سنتے ہیں، جو کتاب و سنت پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بالفعل جب آپ ان کو دیکھیں گے تو وہ کتاب و سنت کو لازم پکڑتے ہیں۔ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی تعصب ان لوگوں میں موجود نہیں ہوتا، لیکن جو وہ کتاب و سنت کی نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کے فہم کے پابند نہیں رہے تو دائرہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہو گئے، حالانکہ وہ کتاب وہ سنت پر عمل کا دعویٰ کرتے ہیں۔“ ( دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ۴۶/۸ ملخصا، من فمكتبة الشاملة )
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنّ سبب ضلال الفرق كلھا قديما و حديثا ھو عدم التمسّك بھذه الدعامة الثالثة : أن نفھم الكتاب والسنّة علی منھج السلف الصالح المعتزلة المرجئة القدرية الأشعرية الماتريديّة، وما فی ھذه الطرائف كلھا من انحرافات، سببھا أنّھم لم يتمسّكوا بما كان عليه السلف الصالح، لذلك قال العلماء المحقّقون :و كلّ خير في اتباع من سلف وكل شرّ في ابتداع من خلف فھذا ليس شعراً، بل ھذا الكلام ماخوذ من الكتاب و السنة ﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء : ١١٥) لماذا قال : ويتبع غير سبيل المؤمنين ؟ كان يستطيع ربَنا أن يقول : ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبيّن له الھدی نو له ما تولی و نصله جھنم و ساء ت مصيراً ؟ فلم قال : ويتبع غير سبيل المؤمنين ؟ حتی لا يركب أحد رأسه ولا يقول : أنا فھمت القرآن ھكذا، و فھمت السنة ھكذا، فيقال له : يحب أن تفھم القرآن و النسة علی طريقة السلف المؤمنين الأوَلين السابقين، وقد أيَد ھذا النص من القرآن نصوص من أحاديث الرسول عليه الصلاة والسلام…
”قديم اور جديد تمام گمراه فرقوں کی گمراہی کا سبب صرف اس تیسرے اصول کو چھوڑنا ہے۔ یہ تیسرا اصول یہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا فہم سلف صالحین کے منہج کے مطابق لیں۔ معتزلہ، مرجیہ، قدریہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور ان فرقوں میں جتنی گمراہیاں ہیں، ان کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے سلف صالحین کے طریقے کا التزام نہیں کیا۔ اسی لیے محققین علمائے کرام کا کہنا ہے : وكل خير فی اتباع من سلف و كل شرَ فی ابتداع من خلف ”ہر بھلائی سلف صالحین کے اتباع میں اور ہر گمراہی بعد والے لوگوں کی اختراع میں ہے۔“ یہ محض ایک شعر نہیں، بلکہ کتاب و سنت سے ماخوذ کلام ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ (النساء : ١١٥) ”اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور رستے پر چلے …“ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی راہ کا تذکرہ کیوں کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماسکتا تھا کہ جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی نافرمانی کرے گا، ہم اسے … سبیل المؤمنین (مؤمنوں کے راستے) کا ذکر کیوں کیا ؟ اس لیے کہ ہر کوئی اپنی عقل پر سوار نہ ہو جائے اور یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے قرآن کریم کو اس طرح سمجھا ہے اور میں نے حدیث کو اس طرح سمجھا ہے۔ ایسے شخص کو کہا جائے گا کہ تمہارے لیے کتاب و سنت کو پہلے سلف صالحین مؤمنین (صحابہ کرام و تابیعین و تبع تابعین) کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کی تائید میں بہت سی احادیث نبویہ بھی موجود ہیں۔۔۔۔“ (دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی :۳/۳۱، من المكتبةالشاملة)
نیز سلفی دعوت کے اصول بیان کرے ہوئے فرماتے ہیں :
والدعامة الثالثة : وهو مما تتميز به الدعوة السلفية على كل الدعوات القائمة اليوم على وجه الأرض، ما كان منها من الإسلام المقبول، وما كان منها ليس من الإسلام إلا اسماً، فالدعوة السلفية تتميز بهذه الدعامة الثالثة، ألا وھی : أن القرآن والسنة يجب أن يفهما على منهج السلف الصالح من الصحابة والتابعين وأتباعهم، أی : القرون الثلاثة المشهود لهم بالخيرية بنصوص الأحاديث الكثيرة المعروفة، وهذا مما تكلمنا عليه بمناسبات شتى، وأتينا بالأدلة الكافية التی تجعلنا نقطع بأن كل من يريد أن يفهم الإسلام من الكتاب والسنة بدون هذه الدعامة الثالثة فسيأتی بإسلام جديد، وأكبر دليل على ذلك الفرق الإسلامية التی تزداد فی كل يوم، والسبب فی ذلك هو عدم التزامهم هذا المنهج الذی هو الكتاب والسنة وفهم السلف الصالح.
اور تیسرا اصول جس سے سلفی دعوت آج روئے زمین پر موجود تمام اسلامی یا نام نہاد اسلامی دعوتوں سے ممتاز ہے، وہ (کتاب و سنت کے ساتھ) تیسرا اصول یہ ہے کہ کتاب و سنت کو سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ یہ وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی بھلائی کی گواہی بہت سی مشہور و معروف احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دی گئی ہے۔ ہم اس موضوع پر مختلف مناسبتوں سے بات کر چکے ہیں اور ایسے تسلی بخش دلائل دے چکے ہیں، جن سے قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی شخص اس تیسرے اصول کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا، وہ ایک نیا اسلام متعارف کرائے گا۔ اس پر بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ روز بروز اسلامی فرقے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کا سبب کتاب و سنت کے فہم میں سلف صالحین کے منہج کو لازم نہ پکڑنا ہے۔“ ( دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ۳/۳۱ من مكتبة الشاملة )
نیز سلفی لوگوں (اہل حدیث) کے بارے میں لکھتے ہیں :
إنّھم يدعون إلی فھم الكتاب و السنّة علی منھج السلف الصالح، لا يكتفون فقط بدعوة المسلمين إلی الرجوع إلی الكتاب والسنة، بل يزيدون علی ذلك إلی الرجوع إلی الكتاب والسنّة علی منھج السلف الصالح.
”وہ کتاب و سنت کو سلف صالحین کے منہج کے مطابق سمجھنے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دینے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس پر یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کو سلف و صالحین کے طریقے کے مطابق سمجھا جائے۔“ ( دروس الشیخ الالبانی : ۱۵/۳۸)
اب سلفی لوگوں اور سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟ شیخ موصوف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
الدعوة السلفيّة : نسبة إلی السلف وفي اللغة : ھم القوم المتقدّمون، و يراد بھم فی الاصطلاح : أنھم القرون الثلاثة الخيرة الّتی جاء الثناء عليھا عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی قوله : ”خير القرون قرنی، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ثم يأتی من بعد ذلك أناس يشھدون ولا يستشھدون، ويخونون ولا يؤتمنون، ويكون فيھم الكذب“، فھؤلاء بشھادة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم۔ أی لھذه القرون الثلاثة۔ أنّھم خير القرون، ولا شك أن ھديھم وطريقتھم وسنتھم ھي خير الھدی وخير السنن و خير الطرائق، و يقابل السلف الخلف، وهم الّذين جاء وا بعده ھذه القرون الثلاثة، و نحن نعلم أنه قد اختلفت طريقة السلف عن الخلف فی كثير من الأمور، فقد ظھرت بعد القرن الثالث أمور لم تكن …
”سلفی دعوت، سلف کی طرف منسوب ہے، لغوی اعتبار سے سلف سے مراد پہلے لوگ ہیں اور اصطلاح میں وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی تعریف و توصیف اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جو گواہی دیں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان کو امین نہیں سمجھا جائے گا۔ ان میں جھوٹ رواج پا جائے گا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے مطابق یہ تین زمانے سب زمانوں سے بہترین ہیں۔ بلاشبہ ان کا طریقہ، ان کا راستہ اور ان کا منہج ہی سب طریقوں، راستوں اور مناہج سے بہترین ہے۔ سلف کے مقابلے میں خلف کا لفظ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ان تین زمانوں کے بعد آئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے امور میں سلف کا طریقہ خلف سے مختلف ہے، کیونکہ تیسری صدی کے بعد بہت سے ایسے امور ظاہر ہو گئے تھے، جو پہلے نہ تھے …“ ( دروس الشیخ الالبانی : ۲/۳۸)
قرآن و سنت کے دلائل سے مزین و مدلل محدث البانی رحمہ اللہ کے ان دروس سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کا وہی فہم معتبر ہے، جو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے لیا ہے۔ اگر کوئی بعد والا شخص قرآن کریم کی کسی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا ایسا مفہوم لیتا ہے جو سلف صالحین کے خلاف ہو تو اس پر عمل کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ یہی سبیل المؤمنین ہے جس کے التزام کا حکم قرآن و حدیث نے کتاب و سنت کے التزام کے ساتھ ہی دیا ہے۔ یہی ائمہ دین اور محدثین کا طریقہ ہے اور یہی اہل الحدیث کا منہج ہے۔
یہاں پر شیخ الحدیث مولانا مسعود عالم حفظ اللہ کا ایک فرمان بہت ہی قابل ذکر ہے، جس سے منصف آدمی کا مذکورہ اشکال زائل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے درس صحیح بخاری دیتے ہوئے فرمایا ”اہلحدیث دین کے اندر صرف وحی کے اوپر اعتماد کرتے ہیں اور قرآن مجید اور سنت صحیحہ، اسی کو اپنا مدار بناتے ہیں۔ اسی کے اوپر اعتماد کر کے اسی سے دینی رہنمائی لیتے ہیں۔ ہاں قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے، اس سے رہنمائی لینے کے لیے ان کا طریقہ اور ان کا راستہ وہ ہے، جو صحابہ و تابعین کا راستہ تھا۔ قرآن و سنت کو، اس دور کے اندر، سمجھتے ہیں کہ جس دور میں وہ نازل ہوئے تھے، جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و مصاحبت کے لیے پوری انسانیت کے گروہ سے چن لیا تھا اور انہوں نے جس طرح قرآن و سنت کو سمجھا اور قرآن و سنت پر عمل کیا، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے یہی معیار عمل ہے۔ اسی طرح قرآن و سنت پر عمل کرنا چاہیئے، جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا اور صحابہ سے سیکھ کر تابعین نے کیا تھا۔ اور یہی اہتمام فرمایا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے اندر کہ قرآن مجید کی آیات بھی ذکر کرتے ہیں، احادیث نبویہ بھی ذکر کرتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن بھی ذکر کرتے ہیں اور صحابہ و تابعین کے فتاویٰ بھی ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح سمجھا تھا۔ یہ منہج ہے الحمدللہ اہلحدیث کا، جو اس کتاب کے اندر امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کے لیے بالکل واضح طور پر پیش کر دیا ہے۔“ ( درس صحیح بخاری، بجامعة محمد بن اسمٰعيل البخاري اھلحديث، كندياں اوتار، قصور، بتاريخ ۳۰ یولیو ۲۰۱۰ء )
مولانا عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ اپنی ہر بات پر قرآن و حدیث سے دلائل دینے والے ایک گمراہ فرقہ ”جماعت المسلمین“ کے بانی مسعود بی۔ ایس۔ سی کے بارے میں فرماتے ہیں : ”شیطان شکار کرتا ہی اس وقت ہے، جب آدمی سلف کی لائن سے نکل کر نئی راہ نکالتا ہے۔“ ( رسائل بھاولپوری : ۶۶۶)
معلوم ہوا کہ یہ اشکال بالکل بے بنیاد ہے۔ دین میں دلیل قرآن و سنت ہی ہیں لیکن ان کو سمجھنے کے لیے فہم سلف کا التزام ضروری ہے، کیونکہ یہی سبیل المؤمنین ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ قرآن کریم یا حدیث نبوی کے کسی لفظ کا صحیح معنیٰ سمجھنے کے لیے آپ لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگر فہم قرآن و سنت میں ائمہ لغت کی بات کو آپ مان لیتے ہیں تو صحابہ و تابعین کا فہم ان ائمہ لغت کی بات سے بھی کم قیمت ہے؟
اشکال نمبر ۲ : آپ ابن تیمیہ ، ابن القیم اور دیگر ائمہ کرام کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں اور ان کی عبارتیں کیوں پیش کرتے ہیں ؟
” آپ جب سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فہم کو معتبر سمجھتے ہیں اور بعد والوں کے فہم کو کچھ بھی حیثیت نہیں دیتے تو پھر بہت سے مسائل میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں اور ان کی عبارتیں کیوں پیش کرتے ہیں ؟
جواب:
یہ بھی سمجھنے کی غلطی ہے، کیونکہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بعد والے ائمہ دین کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ سلف کے مقابلے میںبعد والے ائمہ کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا ہمار ا قول مقید ہے، عام نہیں۔ اسے عموم پر محملول کرنا زیادتی ہے۔
مثلاً بالفرض کسی آیت یا کسی حدیث کا ایک مفہوم صحابیٔ رسول بیان کریں اور دوسرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو ہم سلفی لوگ کہیں گے کہ صحابیٔ رسول کے مقابلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول سلف کے قول کے مخالف نہ ہو تو ہم اہل الحدیث اسے اپنے سر ماتھے پر رکھیں گے۔ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جا سکتی، جس میں ہم نے سلف کے مقابلے میں ابن تمیہ رحمہ اللہ کے فہم کو ترجیح دی ہو۔
پھر یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حدیث نبوی کے مطابق سب سے بہتر زمانہ صحابہ کرام کا ہے، لہٰذا صحابہ کرام کے فہم کی موجودگی میں اس کے خلاف فہم تابعین معتبر نہیں، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین کا زمانہ بہتر ہے، لہٰذا فہم تابعین کے مقابلے میں فہم تبع تابعین معتبر نہیں۔ اسی طرح تابعین کے بعد سب سے بہتر زمانہ تبع تابعین کا ہے، لہٰذا تبع تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم معتبر نہیں۔ ہاں ! بعد والوں کا فہم پہلے لوگوں کے فہم کے مطابق ہو تو الحمدللہ !
اہل الحدیث کے اسلاف کا بھی یہی طرز عمل تھا کہ وہ صحابہ کرام کے فہم کے مقابلے میں تابعین کے فہم کو معتبر نہیں سمجھتے تھے، جیسا کہ نکاح شغار کے مفہوم کے بارے میں نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریفات ذکر کرنے کے بعد مولانا عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” اب ان دونوں تعریفوں میں مقابلہ کیا جائے تو نافع تابعی ہیں اور سیدنا معاویہ صحابی ہیں اور صحابی کا قول تابعی سے مقدم ہے۔ “ ( الاعتصام : ۱۵/۶۲)
قارئین کرام اللہ کے لیے سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہی فہم سلف کا مسئلہ ہے، جو محدث روپڑی رحمہ اللہ نے سمجھا دیا ہے۔ اسی طرح تابعین کے مقابلے میں تبع تابعین اور تبع تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم معتبر نہیں۔
اب تو یقیناً یہ اشکال ختم ہو گیا ہو گا کہ ہم کبھی بعد والوں کا فہم کیوں پیش کرتے ہیں ؟
اشکال نمبر ۳ : سلف صالحین بھی آخر انسان تھے ۔ ان سے قرآن و سنت سمجھنے میں غلطی کا امکان موجود تھا ۔
” سلف صالحین بھی آخر انسان تھے۔ ان سے قرآن و سنت سمجھنے میں غلطی کا امکان موجود تھا۔ “
جواب
یہ بات بالکل درست ہے کہ سلف صالحین بھی انسان تھے، یقیناً ان کو بھی غلط فہمی ہو سکتی تھی، لیکن سب کے سب سلف کبھی کسی غلطی پر جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین سب کے سب قرآن و سنت کی کسی نص کو سمجھ نہ پائے تھے تو اس کی گمراہی میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ مزید تفصیل اگلے اشکال کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔
پھر یہ بات کہنے والا بعد والے ائمہ دین یا اپنے آپ کو غلطی سے مبرا سمجھتا ہے ؟ اگر سلف سے فہم میں غلطی ہو سکتی تھی تو بعد والوں سے بالاولٰی ہو سکتی ہے، کیونکہ صحابہ و تابعین نے اس دین کو قریب سے دیکھا ہے۔ لہٰذا جس سے غلطی کا امکان زیادہ ہے، اس کے فہم کے مقابلے میں ان لوگوں کا فہم معتبر ہو گا، جن سے غلطی کا فہم کم تھا۔
اشکال نمبر ۴ : کئی صحابہ کے کئی تفردات مشہور ہیں ۔ اگر فہم سلف حجت ہے تو پھر ان تفردات پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟
” کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی تفردات مشہور ہیں۔ اگر فہم سلف حجت ہے تو پھر ان تفردات پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟“
جواب:
ہمارے بعض بھائی فہم سلف کا انکار کرنے کے لیے اکثر صحابہ کرام کے ایسے تفردات پیش کرتے ہیں، جن کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک اس بارے میں حدیث پہنچی ہی نہیں ہوتی اور وہ اپنے اجتہاد پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ اپنے اعتراض کو قابلِ التفات بنانے سے پہلے یہ ثابت کیا کریں کہ ایسے تفرد والے صحابی تک وہ حدیث پہنچی بھی ہے۔
یا یہ لوگ کسی ایسے مسئلہ کو دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں صحابہ کرام کی رائے اور ان کا اجتہاد مختلف ہو گیا تھا، کچھ صحابہ کرام نے کسی نص کا ایک مطلب سمجھا اور کسی صحابی نے کچھ اور سمجھ لیا، لیکن ایسے مسائل پیش کرنے سے ہمارے ان بھائیوں کا مدعا ذارا برابر بھی ثابت نہیں ہو سکتا، کیونکہ فہم سلف کسی ایک صحابی یا تابعی یا تبع تابعی کے فہم کا نام نہیں، بلکہ اس سے مراد مجموعی فہم ہوتا ہے، مثلاً اگر صحابہ کرام قرآن و سنت کی کسی نص کے فہم میں متفق الخیال ہوں تو پھر بھی فہم صحابہ ہی معتبر ہو گا، لیکن اگر وہ کسی نص کے فہم میں مختلف الخیال ہوں اور ان کی تین مختلف آراء ہوں تو پھر صحابہ کرام کی آراء کے مجموعہ میں سے کوئی ایسی ایک رائے اور کوئی ایسا ایک فہم، جسے آپ قرآن و سنت کے زیادہ قریبب سمجھیں، اسے اپنا لیں، نہ کہ سب کے فہم کو چھوڑ کر ایک نیا فہم نکالیں، یہ بدعت ہو گی۔ دونوں صورتوں میں فہم صحابہ کرام کا ہی معتبر ٹھہرا۔
اگر کسی صحابی کو غلط فہمی ہوئی ہے تو درست بات کس کو سمجھ آئی ہے ؟ کیا کسی اور صحابی کو بھی سمجھ نہیں آئی ؟ یقیناً ایسا نہیں ہو سکتا کہ سب صحابہ کرام دین کے سمجھنے میں غلطی پر رہے ہوں، کسی ایک کو بھی سمجھ نہ آئی ہو اور بعد والے کسی شخص کو صحیح بات سمجھ آئی ہو۔ ایسا کہنا تو عقیدے کی سخت خرابی اور بہت بڑی گمراہی ہے، کیونکہ بشہادت نبوت وہ بہترین زمانہ ہیں۔
کیا بہترین زمانہ وہ ہوتا ہے، جس میں کسی ایک کو بھی دین کا صحیح فہم حاصل نہ ہو ؟ یہی بات صحابہ کرام کے تابعین اور تبع تابعین کے بارے میں بھی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی موجود ہے۔ ضروری طور پر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر سلف میں سے کسی کو فہم میں غلطی لگی ہے تو اسی دور میں ایسے لوگ بھی موجود تھے، جن کا فہم اس حوالے سے بالکل درست تھا۔ یعنی حق فہم سلف بہرحال موجود ہے۔ اب آپ کا فرض ہے کہ اسے تلاش کریں، نہ کہ اس کا انکار کر کے کوئی نیا طریقہ نکالیں۔
اشکال نمبر ۵ : بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ حدیث نبوی سن کر صحابہ کرام میں سے کسی کو بھی مطلب کا صحیح اندازہ نہ ہوا ، تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ؟
مانا کہ اختلافی صورت میں سب کا نہیں تو بعض صحابہ کرام یا بعض سلف کا فہم معتبر ہو جائے گا، پھر بھی فہم سلف معتبر رہا لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ حدیث نبوی سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی صحیح سمجھ نہیں آئی، تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ؟ مثلاً صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا تھا کہ میری وفات کے بعد تم میں سے سب سے پہلے وہ وہ فوت ہو گی، جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازاوجِ مطہرات نے ہاتھوں کی باہم پیمائش شروع کر دی حالانکہ سب سے پہلے فوت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہوئیں، جن کے ہاتھ چھوٹے تھے، پھر ازواج مطہرات کو معلوم ہوا کہ فرمان نبوی میں ہاتھوں کی لمبائی سے مراد سخاوت تھی۔
جواب:
اس واقعہ میں فہم سلف کا انکار کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس سے ایسے دلائل پیش کرنے والے بھائیوں کی اپنی ناسمجھی ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارا ان سے سوال ہے کہ اگر ازواجِ مطہرات کو صحیح سمجھ نہیں آئی تھی تو پھر کس کو آئی تھی ؟ اللہ تعالیٰ اگر سمجھ دے اور تعصب کو دور کر کے اس حدیث کا مکمل مطالعہ کیا جائے تو خود اسی حدیث میں ازواجِ مطہرات کا اپنا بیان موجود ہے کہ ان کو بعد میں سمجھ آ گئی تھی۔ فہم صحیح پھر بھی ان کو حاصل ہو گیا تھا۔
اعتراض اس وقت بنتا جب یہ ثابت کیا جاتا کہ ازواجِ مطہرات اور تمام صحابہ کرام میں سے کسی کو صحیح سمجھ نہ آئی تھی، پھر بعد کے کسی دور میں یہ عقدہ حل ہوا تھا، حالانکہ ایسا ممکن ہی نہیں اور ایسی کوئی مثال پیش ہی نہیں کی جا سکتی۔
اشکال نمبر ۶ : بسا اوقات بعد والوں کو سلف سے زیادہ فہم حاصل ہو سکتا ہے ۔
”فہم سلف کا معتبر ہونا تسلیم ہے مگر یہ قاعدۂ کلّی نہیں، بلکہ اکثری قاعدہ ہے۔ بسا اوقات اس کے خلاف بھی ہو جاتا ہے، یعنی بعد والوں کو سلف سے زیادہ فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ “
جواب:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان گرامی کے مطابق سلف صالحین علم و عمل اور فہم و سمجھ ہر اعتبار سے بعد والوں سے بہت بہتر تھے۔
اس سلسلے میں عالم ربانی، شیخ الاسلام ثانی حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کیا خوب بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بہتر ہونے کے بارے میں جو حدیث نبوی ہے، وہ مطلق ہے، یعنی ہر اعتبار سے وہ بعد والوں سے بہتر تھے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی صحابی نے غلط فتویٰ دیا اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس غلطی پر تنبیہ نہیں کی، پھر بعد والے کسی زمانے میں کسی شخص نے اس غلطی کی طرف توجہ دلائی … تو ایسا شخص اس حدیث پر ایمان نہیں لاتا، کیونکہ اس کے نزدیک اس اعتبار سے بعد والا زمانہ بہتر ہوا، جس میں غلطی پکڑی گئی، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اعتبار سے پہلے تین زمانوں کو بہتر قرار دے رہے ہیں … “ ( اعلام الموقعین لابن القیم : ۱۳۶/۴)
بدعات کے ردّ کے لئے ائمہ دین یہی دلیل دیتے رہے ہیں۔
جو بھائی اس قاعدہ کو کلّی نہیں سمجھتے، ان سے سوال کیا جانا چاہیئے کہ جب آپ کسی بدعت کے ردّ میں دلائل دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا یہ معنیٰ ہوتا تو صحابہ کرام سب سے پہلے سمجھتے … اگر عین اسی وقت آپ کو کوئی گمراہ یہ کہہ دے کہ یہ قاعدہ کلّی نہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ ہم یہاں اس کی ایک بہت ہی خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں :
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے، ان کے دو تسمے تھے، اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔ “ ( صحیح بخاری : ۳۱۰۷)
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبّہ نکالا اور فرمایا : ” یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں۔ “ ( صحیح مسلمم : ۲۰۶۹)
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا، جسے وہ تبرکِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے۔ ( صحیح بخاری : ۵۶۳۷)
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے، جنہیں ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا، کہتے ہیں، اگر میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔ ( صحیح بخاری : ۱۷۰)
یہ چاروں احادیث حصول تبرک کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث سے کچھ بدعتی حضرات اپنے بزرگوں سے تبرک حاصل کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ تبرک صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، اس پر دلیل کیا ہے ؟ صرف فہم صحابہ !
جیسا کہ حافظ شاطبی فرماتے ہیں :
” صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو … “ (الاعتصام : ۸/۶)
اسی طرح مولاناعمر فاروق سعیدی حفظ اللہ تبرک کے سلسلہ میں بدعتی لوگوں کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے۔۔۔ “ (سنن ابوداؤد : ۵۲۴/۲، طبع دارالسلام)
اب اگر کوئی بدعتی یہ کہہ دے کہ یہ قاعدہ کلّی نہیں ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی حدیث کو صحابہ کرام کے عمل نہ کرنے کی وجہ سے خاص قرار دیا جائے تو یہ اس کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔
معلوم ہوا کہ یقیناً یہ قاعدہ کلّی ہے کہ ہمارے اسلاف یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے قرآن و سنت کو ہماری نسبت بہت بہتر انداز میں سمجھا ہے۔ اس قاعدے کے کلّی ہونے پر ائمہ دین کا اتفاق ہے، کسی ثقہ امام و محدث نے اس کے کلّی ہونے کا انکار نہیں کیا، بلکہ وہ بدعتی لوگوں کو پکار پکار کر اس کلّی قاعدہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور اسی کلّی قاعدہ کے ذریعے گمراہوں کا ناطقہ بند کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ائمہ اہل سنت کے بہت سے اقوال ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
اگر کسی بھائی کے پاس اس کے خلاف ائمہ دین میں سے کسی کا کوئی قول ہو تو وہ پیش کرے۔ اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو کیا سب ائمہ دین ایک غلط بات پر ڈٹے رہے ہیں ؟ ! ! !
اشکال نمبر ۷ : ائمہ دین فہم سلف کو حجت ماننے کے بعد پھر خود فہم سلف کے خلاف کیوں کہہ دیتے تھے؟
” جب ائمہ دین کا یہ اتفاقی عقیدہ تھا کہ ہر معاملے میں فہم سلف ہی معتبر ہوتا ہے تو کئی مرتبہ انہی ائمہ دین کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کا فہم سلف کے خلاف ہے، لہٰذا ہم نہیں مانتے … ائمہ دین فہم سلف کو حجت ماننے کے بعد پھر خود فہم سلف کے خلاف کیوں کہہ دیتے تھے ؟ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ وہ اس کو قاعدۂ کلّی نہیں سمجھتے تھے …“
جواب:
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ائمہ دین فہم سلف کے حجت ہونے کی کلّیت کا انکار کرتے تھے بلکہ جہاں کہیں انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو فہم سلف کے خلاف تھی تو وہاں بھی ان کا اعتماد فہم سلف پر ہی تھا، لیکن سلف سے مروی جس روایت پر انہوں نے اعتماد کیا تھا، ہماری تحقیق میں وہ ثابت نہ ہو سکی، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کی بات سلف کے فہم کے خلاف ہو گئی، اگرچہ انہوں نے اپنی کوشش کے مطابق فہم سلف پر ہی اعتماد کیا تھا۔
اب یہ ائمہ دین تو اپنی تحقیق کے مطابق فہم سلف پر ہی عمل کر رہے تھے، وہ تو عنداللہ معذور و ماجور ہوں گے، لیکن ان لوگوں کو سوچنا چاہیئے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان ائمہ کے پاس سلف کی جو روایت تھی، ثابت نہیں ہے، پھر بھی ائمہ دین کے ایسے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہیں…
آج جب کہ ہر فرقہ اپنے مسلک و مذہب کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرنے کی تگ و دو میں سرگرم ہے، ایک عام آدمی کے لیے حق و باطل میں امتیاز کرنا خاصہ مشکل ہوا جا رہا ہے۔ قادیانی حضرات تک مختلف چینلز اور انٹرنیٹ پر بیٹھ کر لوگوں کو قرآن و سنت کے نام پر گمراہ کرنے کی مذموم سعی کر رہے ہیں۔
آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر و ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔
جی ہاں ! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقیناً روز بروز بڑھتے ” اسلامی فرقوں“ کے پیچھے یہی دوری کار فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالا نہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔
کیا آپ بھی حق و باطل میں تمیز کرنے کا طریقہ جاننا چاہیں گے ؟ اگر آپ تیار ہیں تو لیجیئے وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔
فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔
لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم فقط اصلاح کی خاطر ان لوگوں کے اشکالات کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے !
تمام متلاشیان حق سے اپیل ہے کہ اللہ کے لیے وہ ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر اس تحریر کو پڑھیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
اشکال نمبر ۱ : ” ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لئے حجت نہیں ، لہٰذا فہم سلف حجت نہیں ۔
ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
«اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ» ( الاعراف : ۳ )
”تم اس چیز کی پیروی کرو، جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو “ لہٰذا صرف قرآن و حدیث حجت ہے، صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لئے حجت نہیں، لہٰذا فہم سلف حجت نہیں۔
جواب:
فہم سلف کی حجیت کے خلاف یہ سب سے بڑا اشکال ہے، لیکن یہ اشکال دراصل غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا پھر خلط مبحث کی کوشش، کیونکہ بحث یہ نہیں کہ صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال ہمارے لیے حجت ہیں یا قرآن و سنت۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر صحابہ و تابعین کے اقوال حجت ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و سنت پر عمل کے لیے پہلے اس کا فہم ضروری ہے۔ عمل تو تب ہی ہو گا، جب اس کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے گا۔
جب یہ بات تسلیم ہے کہ قرآن و سنت کو پہلے صحیح طور پر سمجھا جائے گا، پھر عمل کیا جائے گا تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلف، یعنی صحابہ و تابعین نے قرآن و سنت کو بہتر سمجھا ہے یا بعد والوں نے ؟ اس کا فیصلہ کوئی مسلمان صرف یہی کر سکتا ہے کہ صحابہ و تابعین نے بعد والوں کے مقابلہ میں قرآن و سنت کو بہت بہتر سمجھا ہے۔ ائمہ دین کا اتفاقی فیصلہ بھی یہی ہے۔
عمل کے لیے قرآن و سنت کا کوئی مفہوم تو بہرحال متعین کرنا ہی پڑے گا۔ اگر سلف کا فہم حجت نہیں تو کیا بعض لوگوں کا اپنا فہم حجت ہے ؟ یا اگر وہ کسی بعد والے شخص سے فہم لے رہے ہیں تو کیا سلف کو چھوڑ کر ان بعد والوں کا فہم ان کے لیے حجت ہے ؟
رہی یہ بات کہ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کا حکم ہے، صحابہ و تابعین کے فہم پر عمل کا نہیں تو عرض ہے کہ قرآن و سنت نے ہی ہمیں یہ راہ دکھائی ہے اور اہل حدیث کی دعوت جو کہ ”سلفی دعوت“ کے نام سے معروف ہے، وہ یہی ہے کہ قرآن و سنت کا مفہوم وہی معتبر ہو گا جو سلف صالحین نے معین کر دیا ہے۔ سلف کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس سلسلے میں ہم محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ کے کچھ دروس میں سے انتخاب پیش کریں گے، جس سے یہ اشکال خصوصاً اور دیگر اشکالات عموماً دور ہو جائیں گے :
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ضروری ہے کہ ہم دین کا صحیح مفہوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کے طریقہ سے لیں۔ سابقہ حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں فرمایا ہے، میرے خیال میں وہ آپ کے علم میں ہو گی۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وإن كل بدعة ضلالة ”میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھامنا اور بدعات سے بچنا۔۔۔۔“ ( مسند الامام احمد ۱۲۶/۴ : ۱۲۷، سنن ابی داؤد : ۴۶۰۷، سنن الترمذی : ۲۶۷۶، وقال : حسن صحیح، سنن ابن ماجه : ۴۲، و صححه ابن حبان : ۵)
ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے۔ یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ایک زائد چیز ہے، اگرچہ صرف کہنے میں ہی ہے ( حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں ) ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ اس دوسری چیز کا ذکر قران کریم کا بھی اسلوب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں : وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : ١١٥) ”اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے“۔
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یہاں کیوں لائی گئی؟ یہ آیت اس طرح کیوں نہ تھی کہ جو ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے تو جدھر وہ چلتا ہے، ہم چلنے دیں گے۔۔۔۔۔ ؟
مؤمنوں کی راہ کی مخالفت ساتھ ذکر کیوں کی گئی ؟ دراصل اس میں ایک بہت ہی بڑی نصیحت ہے۔ وہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا ہر فرقہ اور روئے زمین پر بسنے والا ہر گروہ، جن کی تعداد کم و بیش تہتر ہے، بلکہ یہ گروہ (مختلف پہلوؤں سے) بہت ہی زیادہ ہیں۔ سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ کتاب و سنت پر کاربند ہیں، حتیٰ کہ ان جدید فرقوں میں سے سب سے آخری گروہ کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین نہیں ہیں، بلکہ ان کے نزدیک اب بھی بہت سے انبیاء باقی ہیں، پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب و سنت پر کاربند ہیں۔ اسی سے آپ باقی تمام قدیم و جدید فرقوں کا اندازہ کر لیں۔
اب ان تمام فرقوں کے درمیان فیصلہ کن چیز کون سی ہے، حالانکہ سب کا یہی دعویٰ یہی ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں ؟ اس بات کا جواب اس آیت کریمہ اور سابقہ دونوں حدیثوں میں موجود ہے۔ آیت کریمہ میں ہے کہ جو بھی گروہ اور فرقہ ان پہلے مؤمنوں کی راہ کو چھوڑے گا، جو کہ ہدایت اور بصیرت پر تھے، وہ گمراہ ہے، اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرتا رہے کہ وہ کتاب و سنت پر ہے۔ جب تک وہ مسلمانوں کے طریقے اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کرتا رہے گا، یہ بات اس کے گمراہ فرقوں میں شامل ہونے کی دلیل ہو گی۔
چنانچہ ہر وہ عقیدہ جو ایسے گروہ سے ملے، جو اپنے عقیدے کو اجماع امت یا صحابہ کرام یا سلف صالحین کا عقیدہ ثابت نہیں کر سکتا تو وہ عقیدہ دلیل ہے کہ اس کا حامل گروہ ان بہتر فرقوں میں ایک ہے جو کہ جہنمی ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دین صرف وہ نہیں، جو ہماری پوری دنیا کے اہل حدیث بھائیوں کے ہاں مشہور ہے۔ وہ بھائی خواہ اہل الحدیث کے نام سے معروف ہوں یا انصار السنہ کے نام سے یا سلفیوں کے نام سے یا اور کسی نام سے۔ یہ تمام نام ایک ہی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں۔ تو معاملہ اس طرح نہیں، جیسے ہمارے ان بھائیوں میں عام طور پر معروف ہے کہ ہماری دعوت صرف کتاب و سنت پر اعتماد کرنے میں منحصر ہے، بلکہ اس کے ساتھ ایک تیسری چیز بھی ضروری ہے، جس کا ذکر سابقہ دو احادیث نبویہ اور آخر میں قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں موجود ہے۔ کتاب و سنت کے ساتھ یہ تیسری اور آخری چیز سلف صالحین کا منہج و عمل ہے۔
اگر کتاب و سنت پر اعتماد کرنے کا دعویٰ کرنے والا کوئی گروہ اس تیسری چیز کو مضبوطی سے نہ پکڑے تو یہ اس کی گمراہی کی دلیل ہے، چاہے وہ کتاب و سنت پر عمل کا کتنا ہی دعویٰ کرے !
حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا یہ شعر بڑا برموقع ہے :
العلم قال الله، قال رسوله‘ قال الصحابة، ليس بالتمويه
”علم وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور صحابہ کرام کا فرمان ہو، ملمہ سازی علم نہیں۔“
تو ابن القیم رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، یعنی کتاب و سنت کو ہی علم صحیح قرار دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہماری ذکر کردہ (قرآن و سنت کی) نصوص کے پیش نظر اس پر قول صحابہ کا اضافہ بھی کیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے۔ میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ اسی تیسری چیز کو چھوڑنا ہی ان قدیم و جدید فرقوں کی گمراہی کا سبب ہے، جو آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
ہر روز ہم کسی ایسے نئے گروہ کی باتیں سنتے ہیں، جو کتاب و سنت پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بالفعل جب آپ ان کو دیکھیں گے تو وہ کتاب و سنت کو لازم پکڑتے ہیں۔ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی تعصب ان لوگوں میں موجود نہیں ہوتا، لیکن جو وہ کتاب و سنت کی نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کے فہم کے پابند نہیں رہے تو دائرہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہو گئے، حالانکہ وہ کتاب وہ سنت پر عمل کا دعویٰ کرتے ہیں۔“ ( دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ۴۶/۸ ملخصا، من فمكتبة الشاملة )
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنّ سبب ضلال الفرق كلھا قديما و حديثا ھو عدم التمسّك بھذه الدعامة الثالثة : أن نفھم الكتاب والسنّة علی منھج السلف الصالح المعتزلة المرجئة القدرية الأشعرية الماتريديّة، وما فی ھذه الطرائف كلھا من انحرافات، سببھا أنّھم لم يتمسّكوا بما كان عليه السلف الصالح، لذلك قال العلماء المحقّقون :و كلّ خير في اتباع من سلف وكل شرّ في ابتداع من خلف فھذا ليس شعراً، بل ھذا الكلام ماخوذ من الكتاب و السنة ﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء : ١١٥) لماذا قال : ويتبع غير سبيل المؤمنين ؟ كان يستطيع ربَنا أن يقول : ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبيّن له الھدی نو له ما تولی و نصله جھنم و ساء ت مصيراً ؟ فلم قال : ويتبع غير سبيل المؤمنين ؟ حتی لا يركب أحد رأسه ولا يقول : أنا فھمت القرآن ھكذا، و فھمت السنة ھكذا، فيقال له : يحب أن تفھم القرآن و النسة علی طريقة السلف المؤمنين الأوَلين السابقين، وقد أيَد ھذا النص من القرآن نصوص من أحاديث الرسول عليه الصلاة والسلام…
”قديم اور جديد تمام گمراه فرقوں کی گمراہی کا سبب صرف اس تیسرے اصول کو چھوڑنا ہے۔ یہ تیسرا اصول یہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا فہم سلف صالحین کے منہج کے مطابق لیں۔ معتزلہ، مرجیہ، قدریہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور ان فرقوں میں جتنی گمراہیاں ہیں، ان کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے سلف صالحین کے طریقے کا التزام نہیں کیا۔ اسی لیے محققین علمائے کرام کا کہنا ہے : وكل خير فی اتباع من سلف و كل شرَ فی ابتداع من خلف ”ہر بھلائی سلف صالحین کے اتباع میں اور ہر گمراہی بعد والے لوگوں کی اختراع میں ہے۔“ یہ محض ایک شعر نہیں، بلکہ کتاب و سنت سے ماخوذ کلام ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ (النساء : ١١٥) ”اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور رستے پر چلے …“ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی راہ کا تذکرہ کیوں کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماسکتا تھا کہ جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی نافرمانی کرے گا، ہم اسے … سبیل المؤمنین (مؤمنوں کے راستے) کا ذکر کیوں کیا ؟ اس لیے کہ ہر کوئی اپنی عقل پر سوار نہ ہو جائے اور یہ نہ کہنے لگے کہ میں نے قرآن کریم کو اس طرح سمجھا ہے اور میں نے حدیث کو اس طرح سمجھا ہے۔ ایسے شخص کو کہا جائے گا کہ تمہارے لیے کتاب و سنت کو پہلے سلف صالحین مؤمنین (صحابہ کرام و تابیعین و تبع تابعین) کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کی تائید میں بہت سی احادیث نبویہ بھی موجود ہیں۔۔۔۔“ (دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی :۳/۳۱، من المكتبةالشاملة)
نیز سلفی دعوت کے اصول بیان کرے ہوئے فرماتے ہیں :
والدعامة الثالثة : وهو مما تتميز به الدعوة السلفية على كل الدعوات القائمة اليوم على وجه الأرض، ما كان منها من الإسلام المقبول، وما كان منها ليس من الإسلام إلا اسماً، فالدعوة السلفية تتميز بهذه الدعامة الثالثة، ألا وھی : أن القرآن والسنة يجب أن يفهما على منهج السلف الصالح من الصحابة والتابعين وأتباعهم، أی : القرون الثلاثة المشهود لهم بالخيرية بنصوص الأحاديث الكثيرة المعروفة، وهذا مما تكلمنا عليه بمناسبات شتى، وأتينا بالأدلة الكافية التی تجعلنا نقطع بأن كل من يريد أن يفهم الإسلام من الكتاب والسنة بدون هذه الدعامة الثالثة فسيأتی بإسلام جديد، وأكبر دليل على ذلك الفرق الإسلامية التی تزداد فی كل يوم، والسبب فی ذلك هو عدم التزامهم هذا المنهج الذی هو الكتاب والسنة وفهم السلف الصالح.
اور تیسرا اصول جس سے سلفی دعوت آج روئے زمین پر موجود تمام اسلامی یا نام نہاد اسلامی دعوتوں سے ممتاز ہے، وہ (کتاب و سنت کے ساتھ) تیسرا اصول یہ ہے کہ کتاب و سنت کو سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے کے مطابق سمجھنا واجب ہے۔ یہ وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی بھلائی کی گواہی بہت سی مشہور و معروف احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دی گئی ہے۔ ہم اس موضوع پر مختلف مناسبتوں سے بات کر چکے ہیں اور ایسے تسلی بخش دلائل دے چکے ہیں، جن سے قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی شخص اس تیسرے اصول کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا، وہ ایک نیا اسلام متعارف کرائے گا۔ اس پر بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ روز بروز اسلامی فرقے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کا سبب کتاب و سنت کے فہم میں سلف صالحین کے منہج کو لازم نہ پکڑنا ہے۔“ ( دروس للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی : ۳/۳۱ من مكتبة الشاملة )
نیز سلفی لوگوں (اہل حدیث) کے بارے میں لکھتے ہیں :
إنّھم يدعون إلی فھم الكتاب و السنّة علی منھج السلف الصالح، لا يكتفون فقط بدعوة المسلمين إلی الرجوع إلی الكتاب والسنة، بل يزيدون علی ذلك إلی الرجوع إلی الكتاب والسنّة علی منھج السلف الصالح.
”وہ کتاب و سنت کو سلف صالحین کے منہج کے مطابق سمجھنے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف کتاب و سنت کی طرف دعوت دینے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس پر یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کو سلف و صالحین کے طریقے کے مطابق سمجھا جائے۔“ ( دروس الشیخ الالبانی : ۱۵/۳۸)
اب سلفی لوگوں اور سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟ شیخ موصوف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
الدعوة السلفيّة : نسبة إلی السلف وفي اللغة : ھم القوم المتقدّمون، و يراد بھم فی الاصطلاح : أنھم القرون الثلاثة الخيرة الّتی جاء الثناء عليھا عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فی قوله : ”خير القرون قرنی، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ثم يأتی من بعد ذلك أناس يشھدون ولا يستشھدون، ويخونون ولا يؤتمنون، ويكون فيھم الكذب“، فھؤلاء بشھادة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم۔ أی لھذه القرون الثلاثة۔ أنّھم خير القرون، ولا شك أن ھديھم وطريقتھم وسنتھم ھي خير الھدی وخير السنن و خير الطرائق، و يقابل السلف الخلف، وهم الّذين جاء وا بعده ھذه القرون الثلاثة، و نحن نعلم أنه قد اختلفت طريقة السلف عن الخلف فی كثير من الأمور، فقد ظھرت بعد القرن الثالث أمور لم تكن …
”سلفی دعوت، سلف کی طرف منسوب ہے، لغوی اعتبار سے سلف سے مراد پہلے لوگ ہیں اور اصطلاح میں وہ تین بہترین زمانے ہیں، جن کی تعریف و توصیف اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے کہ سب سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل بعد ہوں گے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جو گواہی دیں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان کو امین نہیں سمجھا جائے گا۔ ان میں جھوٹ رواج پا جائے گا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے مطابق یہ تین زمانے سب زمانوں سے بہترین ہیں۔ بلاشبہ ان کا طریقہ، ان کا راستہ اور ان کا منہج ہی سب طریقوں، راستوں اور مناہج سے بہترین ہے۔ سلف کے مقابلے میں خلف کا لفظ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ان تین زمانوں کے بعد آئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے امور میں سلف کا طریقہ خلف سے مختلف ہے، کیونکہ تیسری صدی کے بعد بہت سے ایسے امور ظاہر ہو گئے تھے، جو پہلے نہ تھے …“ ( دروس الشیخ الالبانی : ۲/۳۸)
قرآن و سنت کے دلائل سے مزین و مدلل محدث البانی رحمہ اللہ کے ان دروس سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کا وہی فہم معتبر ہے، جو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے لیا ہے۔ اگر کوئی بعد والا شخص قرآن کریم کی کسی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا ایسا مفہوم لیتا ہے جو سلف صالحین کے خلاف ہو تو اس پر عمل کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ یہی سبیل المؤمنین ہے جس کے التزام کا حکم قرآن و حدیث نے کتاب و سنت کے التزام کے ساتھ ہی دیا ہے۔ یہی ائمہ دین اور محدثین کا طریقہ ہے اور یہی اہل الحدیث کا منہج ہے۔
یہاں پر شیخ الحدیث مولانا مسعود عالم حفظ اللہ کا ایک فرمان بہت ہی قابل ذکر ہے، جس سے منصف آدمی کا مذکورہ اشکال زائل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے درس صحیح بخاری دیتے ہوئے فرمایا ”اہلحدیث دین کے اندر صرف وحی کے اوپر اعتماد کرتے ہیں اور قرآن مجید اور سنت صحیحہ، اسی کو اپنا مدار بناتے ہیں۔ اسی کے اوپر اعتماد کر کے اسی سے دینی رہنمائی لیتے ہیں۔ ہاں قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے، اس سے رہنمائی لینے کے لیے ان کا طریقہ اور ان کا راستہ وہ ہے، جو صحابہ و تابعین کا راستہ تھا۔ قرآن و سنت کو، اس دور کے اندر، سمجھتے ہیں کہ جس دور میں وہ نازل ہوئے تھے، جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و مصاحبت کے لیے پوری انسانیت کے گروہ سے چن لیا تھا اور انہوں نے جس طرح قرآن و سنت کو سمجھا اور قرآن و سنت پر عمل کیا، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے یہی معیار عمل ہے۔ اسی طرح قرآن و سنت پر عمل کرنا چاہیئے، جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا اور صحابہ سے سیکھ کر تابعین نے کیا تھا۔ اور یہی اہتمام فرمایا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے اندر کہ قرآن مجید کی آیات بھی ذکر کرتے ہیں، احادیث نبویہ بھی ذکر کرتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن بھی ذکر کرتے ہیں اور صحابہ و تابعین کے فتاویٰ بھی ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح سمجھا تھا۔ یہ منہج ہے الحمدللہ اہلحدیث کا، جو اس کتاب کے اندر امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کے لیے بالکل واضح طور پر پیش کر دیا ہے۔“ ( درس صحیح بخاری، بجامعة محمد بن اسمٰعيل البخاري اھلحديث، كندياں اوتار، قصور، بتاريخ ۳۰ یولیو ۲۰۱۰ء )
مولانا عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ اپنی ہر بات پر قرآن و حدیث سے دلائل دینے والے ایک گمراہ فرقہ ”جماعت المسلمین“ کے بانی مسعود بی۔ ایس۔ سی کے بارے میں فرماتے ہیں : ”شیطان شکار کرتا ہی اس وقت ہے، جب آدمی سلف کی لائن سے نکل کر نئی راہ نکالتا ہے۔“ ( رسائل بھاولپوری : ۶۶۶)
معلوم ہوا کہ یہ اشکال بالکل بے بنیاد ہے۔ دین میں دلیل قرآن و سنت ہی ہیں لیکن ان کو سمجھنے کے لیے فہم سلف کا التزام ضروری ہے، کیونکہ یہی سبیل المؤمنین ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ قرآن کریم یا حدیث نبوی کے کسی لفظ کا صحیح معنیٰ سمجھنے کے لیے آپ لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگر فہم قرآن و سنت میں ائمہ لغت کی بات کو آپ مان لیتے ہیں تو صحابہ و تابعین کا فہم ان ائمہ لغت کی بات سے بھی کم قیمت ہے؟
اشکال نمبر ۲ : آپ ابن تیمیہ ، ابن القیم اور دیگر ائمہ کرام کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں اور ان کی عبارتیں کیوں پیش کرتے ہیں ؟
” آپ جب سلف صالحین، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فہم کو معتبر سمجھتے ہیں اور بعد والوں کے فہم کو کچھ بھی حیثیت نہیں دیتے تو پھر بہت سے مسائل میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں اور ان کی عبارتیں کیوں پیش کرتے ہیں ؟
جواب:
یہ بھی سمجھنے کی غلطی ہے، کیونکہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ بعد والے ائمہ دین کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ سلف کے مقابلے میںبعد والے ائمہ کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا ہمار ا قول مقید ہے، عام نہیں۔ اسے عموم پر محملول کرنا زیادتی ہے۔
مثلاً بالفرض کسی آیت یا کسی حدیث کا ایک مفہوم صحابیٔ رسول بیان کریں اور دوسرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو ہم سلفی لوگ کہیں گے کہ صحابیٔ رسول کے مقابلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فہم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول سلف کے قول کے مخالف نہ ہو تو ہم اہل الحدیث اسے اپنے سر ماتھے پر رکھیں گے۔ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جا سکتی، جس میں ہم نے سلف کے مقابلے میں ابن تمیہ رحمہ اللہ کے فہم کو ترجیح دی ہو۔
پھر یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حدیث نبوی کے مطابق سب سے بہتر زمانہ صحابہ کرام کا ہے، لہٰذا صحابہ کرام کے فہم کی موجودگی میں اس کے خلاف فہم تابعین معتبر نہیں، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین کا زمانہ بہتر ہے، لہٰذا فہم تابعین کے مقابلے میں فہم تبع تابعین معتبر نہیں۔ اسی طرح تابعین کے بعد سب سے بہتر زمانہ تبع تابعین کا ہے، لہٰذا تبع تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم معتبر نہیں۔ ہاں ! بعد والوں کا فہم پہلے لوگوں کے فہم کے مطابق ہو تو الحمدللہ !
اہل الحدیث کے اسلاف کا بھی یہی طرز عمل تھا کہ وہ صحابہ کرام کے فہم کے مقابلے میں تابعین کے فہم کو معتبر نہیں سمجھتے تھے، جیسا کہ نکاح شغار کے مفہوم کے بارے میں نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریفات ذکر کرنے کے بعد مولانا عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” اب ان دونوں تعریفوں میں مقابلہ کیا جائے تو نافع تابعی ہیں اور سیدنا معاویہ صحابی ہیں اور صحابی کا قول تابعی سے مقدم ہے۔ “ ( الاعتصام : ۱۵/۶۲)
قارئین کرام اللہ کے لیے سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہی فہم سلف کا مسئلہ ہے، جو محدث روپڑی رحمہ اللہ نے سمجھا دیا ہے۔ اسی طرح تابعین کے مقابلے میں تبع تابعین اور تبع تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا فہم معتبر نہیں۔
اب تو یقیناً یہ اشکال ختم ہو گیا ہو گا کہ ہم کبھی بعد والوں کا فہم کیوں پیش کرتے ہیں ؟
اشکال نمبر ۳ : سلف صالحین بھی آخر انسان تھے ۔ ان سے قرآن و سنت سمجھنے میں غلطی کا امکان موجود تھا ۔
” سلف صالحین بھی آخر انسان تھے۔ ان سے قرآن و سنت سمجھنے میں غلطی کا امکان موجود تھا۔ “
جواب
یہ بات بالکل درست ہے کہ سلف صالحین بھی انسان تھے، یقیناً ان کو بھی غلط فہمی ہو سکتی تھی، لیکن سب کے سب سلف کبھی کسی غلطی پر جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین سب کے سب قرآن و سنت کی کسی نص کو سمجھ نہ پائے تھے تو اس کی گمراہی میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ مزید تفصیل اگلے اشکال کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔
پھر یہ بات کہنے والا بعد والے ائمہ دین یا اپنے آپ کو غلطی سے مبرا سمجھتا ہے ؟ اگر سلف سے فہم میں غلطی ہو سکتی تھی تو بعد والوں سے بالاولٰی ہو سکتی ہے، کیونکہ صحابہ و تابعین نے اس دین کو قریب سے دیکھا ہے۔ لہٰذا جس سے غلطی کا امکان زیادہ ہے، اس کے فہم کے مقابلے میں ان لوگوں کا فہم معتبر ہو گا، جن سے غلطی کا فہم کم تھا۔
اشکال نمبر ۴ : کئی صحابہ کے کئی تفردات مشہور ہیں ۔ اگر فہم سلف حجت ہے تو پھر ان تفردات پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟
” کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی تفردات مشہور ہیں۔ اگر فہم سلف حجت ہے تو پھر ان تفردات پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟“
جواب:
ہمارے بعض بھائی فہم سلف کا انکار کرنے کے لیے اکثر صحابہ کرام کے ایسے تفردات پیش کرتے ہیں، جن کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک اس بارے میں حدیث پہنچی ہی نہیں ہوتی اور وہ اپنے اجتہاد پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ اپنے اعتراض کو قابلِ التفات بنانے سے پہلے یہ ثابت کیا کریں کہ ایسے تفرد والے صحابی تک وہ حدیث پہنچی بھی ہے۔
یا یہ لوگ کسی ایسے مسئلہ کو دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں صحابہ کرام کی رائے اور ان کا اجتہاد مختلف ہو گیا تھا، کچھ صحابہ کرام نے کسی نص کا ایک مطلب سمجھا اور کسی صحابی نے کچھ اور سمجھ لیا، لیکن ایسے مسائل پیش کرنے سے ہمارے ان بھائیوں کا مدعا ذارا برابر بھی ثابت نہیں ہو سکتا، کیونکہ فہم سلف کسی ایک صحابی یا تابعی یا تبع تابعی کے فہم کا نام نہیں، بلکہ اس سے مراد مجموعی فہم ہوتا ہے، مثلاً اگر صحابہ کرام قرآن و سنت کی کسی نص کے فہم میں متفق الخیال ہوں تو پھر بھی فہم صحابہ ہی معتبر ہو گا، لیکن اگر وہ کسی نص کے فہم میں مختلف الخیال ہوں اور ان کی تین مختلف آراء ہوں تو پھر صحابہ کرام کی آراء کے مجموعہ میں سے کوئی ایسی ایک رائے اور کوئی ایسا ایک فہم، جسے آپ قرآن و سنت کے زیادہ قریبب سمجھیں، اسے اپنا لیں، نہ کہ سب کے فہم کو چھوڑ کر ایک نیا فہم نکالیں، یہ بدعت ہو گی۔ دونوں صورتوں میں فہم صحابہ کرام کا ہی معتبر ٹھہرا۔
اگر کسی صحابی کو غلط فہمی ہوئی ہے تو درست بات کس کو سمجھ آئی ہے ؟ کیا کسی اور صحابی کو بھی سمجھ نہیں آئی ؟ یقیناً ایسا نہیں ہو سکتا کہ سب صحابہ کرام دین کے سمجھنے میں غلطی پر رہے ہوں، کسی ایک کو بھی سمجھ نہ آئی ہو اور بعد والے کسی شخص کو صحیح بات سمجھ آئی ہو۔ ایسا کہنا تو عقیدے کی سخت خرابی اور بہت بڑی گمراہی ہے، کیونکہ بشہادت نبوت وہ بہترین زمانہ ہیں۔
کیا بہترین زمانہ وہ ہوتا ہے، جس میں کسی ایک کو بھی دین کا صحیح فہم حاصل نہ ہو ؟ یہی بات صحابہ کرام کے تابعین اور تبع تابعین کے بارے میں بھی ہے، کیونکہ ان کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی موجود ہے۔ ضروری طور پر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر سلف میں سے کسی کو فہم میں غلطی لگی ہے تو اسی دور میں ایسے لوگ بھی موجود تھے، جن کا فہم اس حوالے سے بالکل درست تھا۔ یعنی حق فہم سلف بہرحال موجود ہے۔ اب آپ کا فرض ہے کہ اسے تلاش کریں، نہ کہ اس کا انکار کر کے کوئی نیا طریقہ نکالیں۔
اشکال نمبر ۵ : بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ حدیث نبوی سن کر صحابہ کرام میں سے کسی کو بھی مطلب کا صحیح اندازہ نہ ہوا ، تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ؟
مانا کہ اختلافی صورت میں سب کا نہیں تو بعض صحابہ کرام یا بعض سلف کا فہم معتبر ہو جائے گا، پھر بھی فہم سلف معتبر رہا لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ حدیث نبوی سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی صحیح سمجھ نہیں آئی، تو ایسی صورت میں کیا ہو گا ؟ مثلاً صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا تھا کہ میری وفات کے بعد تم میں سے سب سے پہلے وہ وہ فوت ہو گی، جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازاوجِ مطہرات نے ہاتھوں کی باہم پیمائش شروع کر دی حالانکہ سب سے پہلے فوت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہوئیں، جن کے ہاتھ چھوٹے تھے، پھر ازواج مطہرات کو معلوم ہوا کہ فرمان نبوی میں ہاتھوں کی لمبائی سے مراد سخاوت تھی۔
جواب:
اس واقعہ میں فہم سلف کا انکار کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس سے ایسے دلائل پیش کرنے والے بھائیوں کی اپنی ناسمجھی ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارا ان سے سوال ہے کہ اگر ازواجِ مطہرات کو صحیح سمجھ نہیں آئی تھی تو پھر کس کو آئی تھی ؟ اللہ تعالیٰ اگر سمجھ دے اور تعصب کو دور کر کے اس حدیث کا مکمل مطالعہ کیا جائے تو خود اسی حدیث میں ازواجِ مطہرات کا اپنا بیان موجود ہے کہ ان کو بعد میں سمجھ آ گئی تھی۔ فہم صحیح پھر بھی ان کو حاصل ہو گیا تھا۔
اعتراض اس وقت بنتا جب یہ ثابت کیا جاتا کہ ازواجِ مطہرات اور تمام صحابہ کرام میں سے کسی کو صحیح سمجھ نہ آئی تھی، پھر بعد کے کسی دور میں یہ عقدہ حل ہوا تھا، حالانکہ ایسا ممکن ہی نہیں اور ایسی کوئی مثال پیش ہی نہیں کی جا سکتی۔
اشکال نمبر ۶ : بسا اوقات بعد والوں کو سلف سے زیادہ فہم حاصل ہو سکتا ہے ۔
”فہم سلف کا معتبر ہونا تسلیم ہے مگر یہ قاعدۂ کلّی نہیں، بلکہ اکثری قاعدہ ہے۔ بسا اوقات اس کے خلاف بھی ہو جاتا ہے، یعنی بعد والوں کو سلف سے زیادہ فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ “
جواب:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان گرامی کے مطابق سلف صالحین علم و عمل اور فہم و سمجھ ہر اعتبار سے بعد والوں سے بہت بہتر تھے۔
اس سلسلے میں عالم ربانی، شیخ الاسلام ثانی حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کیا خوب بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے بہتر ہونے کے بارے میں جو حدیث نبوی ہے، وہ مطلق ہے، یعنی ہر اعتبار سے وہ بعد والوں سے بہتر تھے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی صحابی نے غلط فتویٰ دیا اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس غلطی پر تنبیہ نہیں کی، پھر بعد والے کسی زمانے میں کسی شخص نے اس غلطی کی طرف توجہ دلائی … تو ایسا شخص اس حدیث پر ایمان نہیں لاتا، کیونکہ اس کے نزدیک اس اعتبار سے بعد والا زمانہ بہتر ہوا، جس میں غلطی پکڑی گئی، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اعتبار سے پہلے تین زمانوں کو بہتر قرار دے رہے ہیں … “ ( اعلام الموقعین لابن القیم : ۱۳۶/۴)
بدعات کے ردّ کے لئے ائمہ دین یہی دلیل دیتے رہے ہیں۔
جو بھائی اس قاعدہ کو کلّی نہیں سمجھتے، ان سے سوال کیا جانا چاہیئے کہ جب آپ کسی بدعت کے ردّ میں دلائل دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا یہ معنیٰ ہوتا تو صحابہ کرام سب سے پہلے سمجھتے … اگر عین اسی وقت آپ کو کوئی گمراہ یہ کہہ دے کہ یہ قاعدہ کلّی نہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ ہم یہاں اس کی ایک بہت ہی خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں :
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے، ان کے دو تسمے تھے، اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔ “ ( صحیح بخاری : ۳۱۰۷)
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبّہ نکالا اور فرمایا : ” یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں۔ “ ( صحیح مسلمم : ۲۰۶۹)
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا، جسے وہ تبرکِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے۔ ( صحیح بخاری : ۵۶۳۷)
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے، جنہیں ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا، کہتے ہیں، اگر میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔ ( صحیح بخاری : ۱۷۰)
یہ چاروں احادیث حصول تبرک کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث سے کچھ بدعتی حضرات اپنے بزرگوں سے تبرک حاصل کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ تبرک صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، اس پر دلیل کیا ہے ؟ صرف فہم صحابہ !
جیسا کہ حافظ شاطبی فرماتے ہیں :
” صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو … “ (الاعتصام : ۸/۶)
اسی طرح مولاناعمر فاروق سعیدی حفظ اللہ تبرک کے سلسلہ میں بدعتی لوگوں کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے۔۔۔ “ (سنن ابوداؤد : ۵۲۴/۲، طبع دارالسلام)
اب اگر کوئی بدعتی یہ کہہ دے کہ یہ قاعدہ کلّی نہیں ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی حدیث کو صحابہ کرام کے عمل نہ کرنے کی وجہ سے خاص قرار دیا جائے تو یہ اس کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔
معلوم ہوا کہ یقیناً یہ قاعدہ کلّی ہے کہ ہمارے اسلاف یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے قرآن و سنت کو ہماری نسبت بہت بہتر انداز میں سمجھا ہے۔ اس قاعدے کے کلّی ہونے پر ائمہ دین کا اتفاق ہے، کسی ثقہ امام و محدث نے اس کے کلّی ہونے کا انکار نہیں کیا، بلکہ وہ بدعتی لوگوں کو پکار پکار کر اس کلّی قاعدہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور اسی کلّی قاعدہ کے ذریعے گمراہوں کا ناطقہ بند کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ائمہ اہل سنت کے بہت سے اقوال ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
اگر کسی بھائی کے پاس اس کے خلاف ائمہ دین میں سے کسی کا کوئی قول ہو تو وہ پیش کرے۔ اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو کیا سب ائمہ دین ایک غلط بات پر ڈٹے رہے ہیں ؟ ! ! !
اشکال نمبر ۷ : ائمہ دین فہم سلف کو حجت ماننے کے بعد پھر خود فہم سلف کے خلاف کیوں کہہ دیتے تھے؟
” جب ائمہ دین کا یہ اتفاقی عقیدہ تھا کہ ہر معاملے میں فہم سلف ہی معتبر ہوتا ہے تو کئی مرتبہ انہی ائمہ دین کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کا فہم سلف کے خلاف ہے، لہٰذا ہم نہیں مانتے … ائمہ دین فہم سلف کو حجت ماننے کے بعد پھر خود فہم سلف کے خلاف کیوں کہہ دیتے تھے ؟ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ وہ اس کو قاعدۂ کلّی نہیں سمجھتے تھے …“
جواب:
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ائمہ دین فہم سلف کے حجت ہونے کی کلّیت کا انکار کرتے تھے بلکہ جہاں کہیں انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو فہم سلف کے خلاف تھی تو وہاں بھی ان کا اعتماد فہم سلف پر ہی تھا، لیکن سلف سے مروی جس روایت پر انہوں نے اعتماد کیا تھا، ہماری تحقیق میں وہ ثابت نہ ہو سکی، لہٰذا ہمارے نزدیک ان کی بات سلف کے فہم کے خلاف ہو گئی، اگرچہ انہوں نے اپنی کوشش کے مطابق فہم سلف پر ہی اعتماد کیا تھا۔
اب یہ ائمہ دین تو اپنی تحقیق کے مطابق فہم سلف پر ہی عمل کر رہے تھے، وہ تو عنداللہ معذور و ماجور ہوں گے، لیکن ان لوگوں کو سوچنا چاہیئے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان ائمہ کے پاس سلف کی جو روایت تھی، ثابت نہیں ہے، پھر بھی ائمہ دین کے ایسے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہیں…