خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کسی مسئلہ پر فیصلہ کیسے کرتے تھے؟؟؟ اس تعلق سے کچھ معلومات ہوں تو براہ کرم ارسال کریں۔
محترم اثری صاحب
السلام علیکم
میری معلومات اس بارے میں اکستابی ہیں ۔ جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ درج کردیتا ہوں اگر وہ غلط ہوں یا اس میں اصلاح کی گنجائش ہو تو ضرور آگاہ کیجیے گا۔
عام حکومتی معاملات کو عشرہ مبشرہ صحابہ کی ایک کابینہ مل کر چلایا کرتی تھی جس کا سربراہ خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ بڑے اور اہم مسائل کے حل کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب فیصلہ کرنا مقصود ہوتا تو "صلوۃ الجامعہ" کا اعلان کر دیا جاتا جس سے دار الحکومت کے تمام افراد مسجد نبوی میں جمع ہو جاتے جن میں خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔ مسئلے کو ان کے سامنے رکھا جاتا اور ہر شخص کو اپنی رائے بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ اس کے بعد اجتماعی طور پر لوگ جس رائے پر متفق ہوتے ، اسے اختیار کر لیا جاتا۔ بہت بڑے مسائل کی صورت میں قبائل اور صوبوں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جاتا اور ان کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جاتے۔ ایران پر بڑے حملے کا فیصلہ اسی طرح ہوا تھا۔ ان میں آفیشل نمائندوں کے علاوہ کسی بھی عام شخص کو مشورے میں شریک ہونے کا حق حاصل ہوتا تھا اور وہ جب چاہے ، دربار خلافت میں آ کر اپنا مشورہ پیش کر سکتے تھے۔ دربار خلافت کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ مسجد کے فرش پر لگتا تھا جس میں کوئی کسی کو داخل ہونے سے نہ روک سکتا تھا۔
اگر خلیفہ وقت کی رائے ، عام لوگوں کی رائے سے مختلف ہوتی تو وہ اس وقت تک اپنی رائے کو نافذ نہ کر سکتے تھے جب تک کہ وہ انہیں قائل نہ کر لیتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب عراق کی زمینوں کے انتظام کا مسئلہ درپیش ہوا تو اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں فاتحین میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں حکومتی ملکیت میں رکھا جائے اور کسانوں کے ساتھ پارٹنر شپ پر معاملہ کر لیا جائے۔ اس مسئلے پر کئی دن بحث ہوئی اور بالآخر جب صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوئے تو اسے نافذ کیا گیا۔
ہاں اگر کسی معاملے میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود ہوتا، تو پھر اسے بلا تامل نافذ کر دیا جاتا۔
حکومتی معاملات سے لوگوں کو آگاہ رکھا جاتا اور اس کے لیے جمعہ کی نماز کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے نہ صرف اہل مدینہ بلکہ گرد و نواح کے دیہات سے بھی لوگ آیا کرتے تھے۔ خلیفہ وقت جمعہ کا خطبہ دیتے اور اس میں اہم حکومتی امور بھی زیر بحث لاتے اور حکومت کی پالیسی کو بیان کرتے۔ اگر کسی کو اختلاف ہوتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ بر سر منبر ہی خلیفہ کو ٹوک کر اپنی رائے بیان کرے۔
یہ اجمالی ذکر ہے۔