• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا فہم سلف حجت ھے؟

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
وعلیکم السلام
آپ میرا موقف نہیں سمجھ پارہے ہیں۔زمانہ اور حالات کے اعتبار سے حکم تبدیل ہوسکتے ہیں
محترم بات یہ نہیں ھے کہ نیا اجتھاد ہو سکتا ھے یا نہیں
بلکہ مسئلہ یہ ھے کہ فہم سلف حجت ھے یا نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
344
سلف صالحین کی حیثیت دین میں کلیدی ہے۔ سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔ وہی قرآن کے مخاطب تھے۔ ان کے فہم کے علاوہ کون یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر قرآن کو سمجھتا ہے۔ ہاں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جو بات سلف کی طرف منسوب ہے، وہ روایت اور درایت کے اس معیار پر پورا اترتی ہے یا نہیں، جو محدثین نے مرتب کیا ہے۔ اس معاملے میں دو انتہائیں ہیں: ایک انتہا فہم سلف کو نظر انداز کرنا ہے اور دوسری انتہا یہ ہے کہ جو بھی رطب و یابس ان سے منسوب ہو، اسے مان لینا ہے۔ اور جس مسئلے میں صحابہ کرام میں اختلاف نہ ہو، تو پھر اسی فہم کے مطابق دین کو سمجھا جائے گا،اسی بات کو رسول اللہ نے اس طرح بیا ن فرمایا ہے:(ما انا علیہ الیوم و اصحابی)

"حافظ عمران الھی" ۔۔ اسی فورم کے تھریڈ سے منقول
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
طارق بھائی
اس کا یہ مطلب ہے کہ سلف کے تعین میں ہی اختلاف ہے ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ صحابہ کرام ہی سلف ہیں ۔ اور کچھ تین ادوار کے لوگوں کو سلف کہہ رہے ہیں ۔ پہلے اس بات کا فیصلہ ہو پھر اس پر مزید بات ہو۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم نسیم صاحب میں تو یہ سمجھ بیٹھا کہ فہم سلف کے حجت ھونے یا نا ھونے اس موضوع پر گفتگو ھو رہی ھے ۔ بعض اوقات مجھ سے فہم میں خطاء ھوجاتی ھے جبکہ عادی گفتگو مابین اشخاص عادیین بزبان اردو وہ بھی سادہ اردو میں ھو رہی ھے ، بہرحال اپنی کم فہمی پر معذرت چاھتا ھوں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اقتباس کو کاپی پیسٹ کیا تھا اس غرض سے کہ "کنڈشنل" اور کلیدی کا فرق واضح ھو جائے ۔ اب آپ ہی نا سمجہیں جو مرکز خطاب ہیں تو میرا اغیار سے گلہ چہ معنی!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
طارق بھائِ بات تو حجت ہونے یا نہ ہونے پر ہی ہور رہی تھی ۔ لیکن آپ نے جو موقف پیش کیا تھا اس میں بحث کا ایک نیا رخ کھل گیا تھا۔کہ سلف کا تعین کیسے ہو۔ میں ابھی بھی اس بات پر قائم ہوں کہ ہر اگر حالات و واقعات وہی ہوں جو صحابہ کے زمانے میں تھے تو ان کی بات حرف آخر ہوگی ۔ ورنہ اس میں مختلف آراء ہوسکتی ہیں۔
میں نے اس کی چند مثالیں بھی پیش کی تھیں اگر آپ انہیں بھی دیکھ لیں تو شاید میری بات واضح ہوسکے۔

چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ یہ حکم سب کو پتہ ہے ۔ لیکن اس حکم پر عمل کرنے سے پہلے ہر شخص کو وہ تمام حقوق مہیا کر نے ہوں جو دور میں ہر عام شخص کو حاصل تھے۔
فہم سلف تو یہی ہے کہ چو ر کا ہاتھ کا ٹا جائے ۔ اسی لئے میں نے کنڈنشل کا لفظ استعمال کیا تھا۔
میرے الفاظ اگر آپ پر گراں گزرے ہیں تو معذرت چاہتا ہوں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
طارق بھائِ بات تو حجت ہونے یا نہ ہونے پر ہی ہور رہی تھی ۔ لیکن آپ نے جو موقف پیش کیا تھا اس میں بحث کا ایک نیا رخ کھل گیا تھا۔کہ سلف کا تعین کیسے ہو۔ میں ابھی بھی اس بات پر قائم ہوں کہ ہر اگر حالات و واقعات وہی ہوں جو صحابہ کے زمانے میں تھے تو ان کی بات حرف آخر ہوگی ۔ ورنہ اس میں مختلف آراء ہوسکتی ہیں۔
میں نے اس کی چند مثالیں بھی پیش کی تھیں اگر آپ انہیں بھی دیکھ لیں تو شاید میری بات واضح ہوسکے۔

چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ یہ حکم سب کو پتہ ہے ۔ لیکن اس حکم پر عمل کرنے سے پہلے ہر شخص کو وہ تمام حقوق مہیا کر نے ہوں جو دور میں ہر عام شخص کو حاصل تھے۔
فہم سلف تو یہی ہے کہ چو ر کا ہاتھ کا ٹا جائے ۔ اسی لئے میں نے کنڈنشل کا لفظ استعمال کیا تھا۔
میرے الفاظ اگر آپ پر گراں گزرے ہیں تو معذرت چاہتا ہوں۔
خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کسی مسئلہ پر فیصلہ کیسے کرتے تھے؟؟؟ اس تعلق سے کچھ معلومات ہوں تو براہ کرم ارسال کریں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کسی مسئلہ پر فیصلہ کیسے کرتے تھے؟؟؟ اس تعلق سے کچھ معلومات ہوں تو براہ کرم ارسال کریں۔
محترم اثری صاحب
السلام علیکم
میری معلومات اس بارے میں اکستابی ہیں ۔ جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ درج کردیتا ہوں اگر وہ غلط ہوں یا اس میں اصلاح کی گنجائش ہو تو ضرور آگاہ کیجیے گا۔

عام حکومتی معاملات کو عشرہ مبشرہ صحابہ کی ایک کابینہ مل کر چلایا کرتی تھی جس کا سربراہ خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ بڑے اور اہم مسائل کے حل کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب فیصلہ کرنا مقصود ہوتا تو "صلوۃ الجامعہ" کا اعلان کر دیا جاتا جس سے دار الحکومت کے تمام افراد مسجد نبوی میں جمع ہو جاتے جن میں خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔ مسئلے کو ان کے سامنے رکھا جاتا اور ہر شخص کو اپنی رائے بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ اس کے بعد اجتماعی طور پر لوگ جس رائے پر متفق ہوتے ، اسے اختیار کر لیا جاتا۔ بہت بڑے مسائل کی صورت میں قبائل اور صوبوں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جاتا اور ان کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جاتے۔ ایران پر بڑے حملے کا فیصلہ اسی طرح ہوا تھا۔ ان میں آفیشل نمائندوں کے علاوہ کسی بھی عام شخص کو مشورے میں شریک ہونے کا حق حاصل ہوتا تھا اور وہ جب چاہے ، دربار خلافت میں آ کر اپنا مشورہ پیش کر سکتے تھے۔ دربار خلافت کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ مسجد کے فرش پر لگتا تھا جس میں کوئی کسی کو داخل ہونے سے نہ روک سکتا تھا۔
اگر خلیفہ وقت کی رائے ، عام لوگوں کی رائے سے مختلف ہوتی تو وہ اس وقت تک اپنی رائے کو نافذ نہ کر سکتے تھے جب تک کہ وہ انہیں قائل نہ کر لیتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب عراق کی زمینوں کے انتظام کا مسئلہ درپیش ہوا تو اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں فاتحین میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں حکومتی ملکیت میں رکھا جائے اور کسانوں کے ساتھ پارٹنر شپ پر معاملہ کر لیا جائے۔ اس مسئلے پر کئی دن بحث ہوئی اور بالآخر جب صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوئے تو اسے نافذ کیا گیا۔ ہاں اگر کسی معاملے میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود ہوتا، تو پھر اسے بلا تامل نافذ کر دیا جاتا۔
حکومتی معاملات سے لوگوں کو آگاہ رکھا جاتا اور اس کے لیے جمعہ کی نماز کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے نہ صرف اہل مدینہ بلکہ گرد و نواح کے دیہات سے بھی لوگ آیا کرتے تھے۔ خلیفہ وقت جمعہ کا خطبہ دیتے اور اس میں اہم حکومتی امور بھی زیر بحث لاتے اور حکومت کی پالیسی کو بیان کرتے۔ اگر کسی کو اختلاف ہوتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ بر سر منبر ہی خلیفہ کو ٹوک کر اپنی رائے بیان کرے۔

یہ اجمالی ذکر ہے۔
 
Top