• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ منذر بن الزبیرؓ کی امارت میں ہوا تھا؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ منذر بن الزبیرؓ کی امارت میں ہوا تھا؟

تحریر: محمد صالح حسن


دامانوی صاحب لکھتے ہیں:
"قسطنطنیہ پر کئی حملے ہو چکے تھے، جن میں سب سے پہلا حملہ المنذر بن الزبیرؓ نے ۳۳ ہجری میں کیا تھا، اور یہی لشکر تھا کہ جسے مغفورلھم قرار دیا گیا ہے۔"(یزید بن معاویہ کی شخصیت ص:308)

FB_IMG_1631454464382.jpg


اس کے لیے بہ طور دلیل انھوں نے یہ روایت پیش کی ہے:

حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، أن امرأة، حدثته قالت: نام رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم استيقظ وهو يضحك فقلت: تضحك مني يا رسول الله؟ قال: " لا، ولكن من قوم من أمتي يخرجون غزاة في البحر مثلهم مثل الملوك على الأسرة "، قالت: ثم نام، ثم استيقظ، أيضا يضحك، فقلت: تضحك يا رسول الله مني، قال: " لا، ولكن من قوم من أمتي يخرجون غزاة في البحر فيرجعون قليلة غنائمهم مغفورا لهم " قالت ادع الله أن يجعلني منهم فدعا لها قال فأخبرني عطاء بن يسار قال فرأيتها في غزاة غزاها المنذر بن الزبير إلى أرض الروم هي معنا فماتت بأرض الروم

ایک صحابیہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ سوئے ہوئے تھے پھر بیدار ہوئے اور ہنس رہے تھےتو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا مجھ پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، بلکہ اپنی امت کو اس قوم پر ہنس رہا ہوں جو سمندر میں جہاد کے لیے اسی طرح نکلیں گے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھے ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر آپ ﷺ سو گئے اور پھر دوبارہ بیدار ہوئے اور ہنسنے لگے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ: کیا آپ ﷺ مجھ پر ہنس رہے ہیں َ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اپنی امت کی اس قوم پر ہنس رہا ہوں جو سمندر میں جہاد کے لیے نکلیں گے اور تھوڑا مالِ غنیمت لے کر پلٹیں گے، وہ سب کے سب مغفور ہوں گے۔ انھوں نے کہا: آپ ﷺ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے، تو رسول ﷺ نے دعا کی۔ پھر مجھے عطا نے بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے انھیں اس غزوے میں دیکھا، جس میں منذر بن الزبیرؓ سرزمین کی جانب نکلے تھے، اس میں وہ ہمارے ساتھ تھیں اور سرزمین ِ روم میں فوت ہو گئیں۔"


(مسند أحمد ط الرسالة:رقم:27454)

دامانوی صاحب یہ روایت پیش کر کے لکھتے ہیں:
"نبی ﷺ نے دوسرے لشکر کے لیے ارشاد فرمایا تھا : اول جيش من امتي يغزون مدينة قيصر مغفورلهم یعنی میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، ان کے لیے پروانہ مغفرت ہے اور اس لشکر کے امیر المنذر بن الزبیر ؓ تھے اور یہ وہی لشکر تھا کہ جسے مغفورلہم یعنی"ان کے لیے پروانہ مغفرت ہے" کی خوشخبری اور بشارت دی گئی تھی۔"(یزید بن معاویہ اور جیش مغفور لھم ص:102)

پہلی بات تو یہ ہے کہ جس روایت کی بنیاد پر دامانوی صاحب یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اس میں موجود دوسرے لشکر کے امیر المنذر بن زبیر ؓ ہیں، اس میں اول جیش کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے، بلکہ اول جیش کا ذکر بخاری کی حدیث میں ہے جو آگے آرہی ہے۔ پھر یہ دعوی اس روایت کی بنیاد پر کیسے کر لیا گیا کہ اس میں مذکور دوسرا لشکر "اول جیش" ہے۔ حالاں کہ اس روایت میں یہ الفاظ کہیں موجود نہیں؟

مزید تبصرہ کرنے سے قبل صحیح بخاری کی حدیث بھی دیکھتے چلیں:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ العَنْسِيَّ، حَدَّثَهُ - أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ، وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ - قَالَ: عُمَيْرٌ، فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ؟ قَالَ: «أَنْتِ فِيهِمْ»، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»، فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ»
(صحيح البخاري، کتاب الجھاد،بَابُ مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ:2924)

ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا تھا میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، (اس نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گیَ آپ نے فرمایا کہ ہاں! تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا، ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔(ترجمہ:داؤد راز)

صحیح بخاری کی یہ روایت ہے جس میں اول جیش کی تصریح دیکھی جا سکتی ہے، اس کے برعکس مسند احمد وغیرہ کی جس حدیث کو دامانوی صاحب نے اس کے ساتھ جوڑا ہے اس میں تو اول جیش کا کوئی ذکر نہیں۔ ایسا صرف اس وقت ممکن ہے جب دونوں احادیث میں مذکو رواقعہ کو ایک ہی واقعہ اور لشکر تسلیم کیا جائے۔ لیکن دامانوی صاحب لکھتے ہیں:

"بخاری و مسلم کی روایت سے جو ام حرامؓ سے ثابت ہے، اس غزوہ کے امیر معاویہؓ ہیں اور اس واقعہ میں اس غزوہ کے امیر المنذر بن ازبیرؓ ہیں، اور یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں۔۔۔"(جیش مغفورلھم ص :101)

یعنی موصوف دونوں احادیث میں مذکور واقعات کو تو الگ مانتے ہیں لیکن پھر دونوں کو جوڑ کر یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیتے ہیں کہ
"یعنی میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا ، ان کے لیے پروانہ مغفرت ہے اور اس لشکر کے امیر المنذر بن الزبیر ؓ تھے اور یہ وہی لشکر تھا کہ جسے مغفورلھم یعنی"ان کے لیے پروانہ مغفرت ہے" کی خوشخبری اور بشارت دی گئی تھی۔"
(یزید بن معاویہ اور جیش مغفور لھم ص:102)

اگر دونوں احادیث میں مروی واقعات کو ایک تسلیم کیا جائے پھر تو کسی طرح اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے لیکن جب ایک طرف آپ ان واقعات کو الگ مان رہے ہیں پھر ان کو جمع کر کے ایک نتیجہ نکالنا چہ معنی؟

اگر ان دونوں روایات میں موجود واقعات کو ایک مانا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں روایات میں جن صحابیہ ؓ کا تذکرہ ہے، وہ ام حرامؓ ہی ہیں لیکن دامانوی صاحب دوسرے لشکر میں مذکور صحابیہ کا تعین ام عبداللہ بنت ملحانؓ سے کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ مسند احمد کی اس حدیث میں ارض روم کے الفاظ موجود ہیں، جب کہ صحیح بخاری کی جس حدیث کے دوسرے لشکر سے اسے جوڑا گیا ہے وہاں مدینہ قیصر کے الفاظ ہیں، یعنی منذر بن الزبیرؓ والے لشکر میں مدینہ قیصر کی تصریح بھی نہیں ہے۔ اس لیے سرزمین روم میں ابن الزبیر والا حملہ کس جگہ ہوا، یہ ایک الگ دلیل کا محتاج ہے۔ یہاں پر دامانوی صاحب الجھن کا شکار ہو گئے ہیں۔چناں چہ لکھتے ہیں:

"قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کی یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے کس کی قسمت میں رکھی تھی؟ یہ کسی کو معلوم نہیں تھا، چناں چہ ۳۳ ہجری میں یہ سعادت حاصل کرنے والے سیدنا المنذر بن الزبیرؓ تھے۔"(حوالہ مذکور ص:52)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:"سیدنا المنذر بن الزبیرؓ کی سالاری کی قسطنطنیہ پر حملہ ۳۳ھ میں ہو چکا ہے۔"(ص:78)

یہاں دامانوی صاحب سیدنا منذر کو قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر کا سالار بتا رہے ہیں جبکہ ام حرامؓ اور دوسرے لشکر کے واقعات کو الگ الگ بھی بتاتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے اس واقعہ میں موجود صحابیہ کو ام حرام ؓ کے بجائے ام عبداللہؓ سے تعین کیا ہے۔ لیکن ان دو واقعات کو الگ باور کروانے کے لیے انھوں نے فتح الباری کی جس عبارت کا سہارا لیا اس میں لکھا ہے :
ام حرام ؓ قبرص کے ساحل پر دفن ہوئیں جب کہ ام عبداللہ ساحلِ حمص پر دفن ہوئیں۔۔
(فتح الباری:77/11، جیش مغفور ص :99)

دامانوی صاحب نے دو واقعات کو الگ ماننے کے لیے جس عبارت کا سہارا لیا ہے اس میں موجود صحابیہ کی دوران غزوہ وفات حمص کے ساحل پر ہوئی اور یہ منذر ؓ کے ساتھ تھیں، اس سے یہ لازم آتا ہے کہ سیدنا منذر کا حملہ قسطنطنیہ پر نہیں تھا بلکہ حمص پر تھا۔ اس طرح دامانوی صاحب کا دو واقعات کو الگ ظاہر کرنے کے لیے اختیار کردہ دلیل سے ہی ان کے اس بیان کی تردید ہو جاتی ہے کہ سیدنا منذر قسطنطنیہ پر حملہ آور تھے جیسا کہ پہلے حوالہ گزر چکا ہے۔
یہ ساری تگ و دو موصوف نے یزید کو اول جیش سے باہر کرنے کے لیے برداشت کی ہے حالاں کہ اس میں متعدد Loopholes ہیں۔

دامانوی صاحب قسطنطنیہ پر مختلف حملوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ یہ بھی لکھ چکے تھے:
"قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہ ؓ نے کیا تھا۔"(دیکھیے ماہنامہ محدث:نومبر 2012، ص:45)

اپنے متضاد بیانات اور اضطراب کے باوجود دامانوی صاحب ائمہ محدثین اور علمائے کرام کو ہی تضاد و اضطراب کا طعنہ دیتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں:"علمائے کرام کے اقوال میں تضاد و اضطراب "(جیش مغفورلھم مص:25)

پھر موصوف کو اپنی اس تحقیق پر بہت ناز بھی ہے، چناں چہ لکھتے ہیں:

"الشیخ شعیب الارنؤوط سے پہلے بھی کتنے ہی بڑے بڑے علماء اس غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور اگر ان کے سامنے مسند احمد اور ابوداؤد کی یہ روایت آجاتی تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کرتے، لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ روایت ان سے اوجھل رہی ہے۔"(جیش مغفور لہم ص 105)

گویا یہ روایت جو دامانوی صاحب نے کھوج نکالی ہے یہ چودہ صدیوں میں محدثین سے اوجھل رہی اور اگر یہ انھیں مل جاتی تو وہ کبھی یزید کو اول جیش کا مصداق نہ بتلاتے۔ لیکن یہ دامانوی صاحب کی غلط فہمی اور خوش فہمی ہی ہے۔

امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے کہا:

أم حرام كانت من الفوج الأول الذين غزوا قبرس في خلافة عثمان وهذه من الفوج الآخر وإنما غزا المنذر بن الزبير القسطنطنية مع يزيد بن معاوية في أيام أبيه
"ام حرامؓ اس لشکر میں تھیں جس نے عثمانؓ کے دور میں قبرس پر حملہ کیا اور یہ خاتون دوسرے لشکر میں تھیں اور منذر بن الزبیر نے، یزید بن معاویہ کے ساتھ ان کے والد کے دور میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔"(تاریخ دمشق:70/280)

یعنی امام ابن عساکر اس روایت پر مطلع تھے بلکہ انھوں نے اسے روایت بھی کیا ہے اور ساتھ یہ تصریح بھی کر دی ہے کہ منذر ؓ اسی لشکر میں تھے جس پر یزید بن معاویہ، امیر تھے۔

حافط ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
المنذربن الزبير الأمير، أبو عثمان، أحد الأبطال، ولد زمن عمر، وكان ممن غزا القسطنطينية مع يزيد۔(سيرأعلام النبلاء :4/408)
"منذر بن الزبیر اسدی، یہ امیر تھے اور بہادروں میں سے تھے، ان کی پیدایش عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی اور یہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے یزید بن معاویہ کے ساتھ قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا۔"

اس لیے دامانوی صاحب نے یزید بن معاویہ کو اول جیش سے خارج کرنے کے لیے، اس روایت پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس پر حافظ ذہبی اور علامہ ابن عساکر نے یہ کہہ کر پانی پھیر دیا ہے کہ اس لشکر میں یزید بن معاویہ بھی موجود تھے۔

اب موصوف اس واقعہ کو ایک مان لیں یا دو الگ الگ مواقع مانیں، اس بات سے یزید بن معاویہ کی اول جیش میں شمولیت اور سپہ سالاری پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

حافظ ابن حجر جو ان دو واقعات کو الگ مانتے ہیں وہ بھی اول جیش کے ضمن میں لکھتے ہیں:
" فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق [فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]
"یزید بن معاویہ اس پہلے لشکر کے امیر تھے، اس پر سب (محدثین) کا اتفاق ہے۔"

اگر ان ائمہ محدثین کی تصریحات کے بر خلاف آپ یزید بن معاویہ کو اول جیش کا امیر نہیں مانتے، تو پھر بھی آپ کی پیش کردہ مسند احمد وغیرہ کی روایت میں اول جیش کا کہیں ذکر موجود نہیں پھر اس میں ارض روم کا ذکر ہے جس کا تعین قسطنطنیہ سے نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آپ نے جو دلیل پیش کی ہے اس سے اس کا تعین حمص سے کیا جا سکتا ہے اور بس۔ اس لیے آپ کے ہی الفاظ میں آپ نے " اپنے دعویٰ پر کوئی بھی صحیح و صریح دلیل پیش نہیں فرمائی ہے، اور ہر شخص کی بات دلیل سے قبول کی جا سکتی ہے اور دلیل ہی سے رد کی جا سکتی ہے۔"(جیش مغفورلھم ص؛18)

لہذا وہ صحیح اور صریح دلیل پیش کریں جس میں منذر بن زبیرؓ کو "اول جیش" کا "امیر" بتلایا گیا ہے۔ کیوں کہ مسند احمد وغیرہ کی جس روایت کو بنیاد بنایا ہے ، وہ آپ کے دعویٰ سے مطابقت نہیں رکھی اور آپ ہی کے بقول" دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے"(ص:89)

ایک مولوی صاحب، جنھوں نے اس مسئلہ میں زیادہ تر مواد دامانوی صاحب کی کتاب سے ہی ادھار لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ ۳۲ھ میں ہوا تھا اور اس وقت یزید چھے، سات سال کا بچہ تھا۔ اس کے لیے مولوی صاحب نے المنتظم لابن جوزی سے سنہ ۳۲ھ کے واقعات میں اس حملے کا ذکر نقل کیا تھا۔

حاافظ ابن جوزی لکھتے ہیں:
ثم دخلت سنة اثنتين وثلاثين
فمن الحوادث فيها: غزوة معاوية بن أبي سفيان [المضيق]:مضيق القسطنطينية،

(كتاب المنتظم في تاريخ الملوك والأمم:5/19)
یعنی ۳۲ھ میں یہ واقعہ "مضیق القسطنطنیہ" میں پیش آیا تھا ، اور "مضیق(خلیج) قسطنطنیہ"، شہر قسطنطنیہ سے الگ مقام ہے۔

مضیق سے کیا مراد ہے؟
مضیق، خشکی سے الگ بحری راستہ ہوتا ہے، جسے "آبنائے" بھی کہا جاتا ہے۔ انسائکلوپیڈیا آف ورلڈ جغرافیہ میں لکھا ہے:
"یعنی مضیق/آبنائے (Strait) ایک تنگ بحری راستہ ہے جو دو بڑے پانی کے اجسام (سمندر وغیرہ) کو ملاتا ہے۔ یہ تنگ بحری راستے بعض اوقات ایک سمندر سے دوسرے سمندر میں سفر کرنے کا واحد راستہ ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے تاریخ میں انسانوں کے لیے بہت اہم رہے ہیں۔ کچھ اہم مضیق (آبنائے) ہیں ۔۔ جن میں آبنائے باسفورس بھی ہے۔
(Encyclopedia of World Geography, R.W. Mc.COLL, p.862)

احمد عادل کمال لکھتے ہیں:
"آبناؤں سے مراد درہ دانیال(Dardanelles) اور آبنائے باسفورس ہیں جو یورپی ترکی کو ایشیائی ترکی سے الگ کرتی ہیں۔ آبنائے باسفورس بحرۂ اسود کو بحرۂ مرمرہ سے ملاتی ہے۔ استنبول اس کے جنوب میں بحرۂ مرمرہ کے کنارے واقع ہے۔ اس کی لمبائی ۳۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۵۰۰ میٹر سے ۳ کلو میٹر تک ہے۔"
(اٹلس فتوحات اسلامیہ ص 351)

یہ مضیق قسطنطنیہ دراصل "آبنائے باسفورس" ہی ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حملہ اسی آبنائے پر بحری بیڑوں کی مدد سے سمندی راستے میں ہوا ہے۔ یہ آبنائے، شہر قسطنطنیہ سے خاصے فاصلے پر موجود ہے اس لیے اس حملے کو قسطنطنیہ پر حملہ ظاہر کرنا تاریخ و جغرافیہ سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔

اگر مولوی صاحب کو ہماری تحقیق پر یقین نہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ آپ کے ممدوح دامانوی صاحب لکھتے ہیں:
"میں تسلیم کرتا ہوں کہ مضیق قسطنطنیہ اور قسطنطنیہ دو الگ الگ مقامات ہیں اور معاویہؓ نے ۳۲ھ میں مضیق قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا۔۔"(جیش مغفورلھم ص:80)

یاد رہے کہ المنتظم کے محشی نے اس روایت کے لیے تاریخ طبری کا حوالہ دیا ہے اور طبری میں اس کی سند میں کذاب راوی موجود ہے۔ اس لیے سند کے اعتبار سے روایت موضوع ہے لیکن اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو یہ حملہ قسطنطنیہ پر نہیں بلکہ آبنائے باسفورس پر ہوا تھا۔
 

تابش

رکن
شمولیت
مارچ 03، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
47
دامانوی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں عربی ٹھیک سے سمجھ نہیں آتی، یہ 33 ہجری کی جو تاریخ انہوں نے لی ہے۔ یہ دراصل فتح الباری کی ایک عبارت کا غلط مطلب سمجھنے کا نتیجہ ہے، اور وہ عبارت ہے:

"عطاء بن يسار ذكر أنها حدثته وهو يصغر عن إدراك أم حرام وعن أن يغزو في سنة ثمان وعشرين بل وفي سنة ثلاث وثلاثين لأن مولده على ما جزم به عمرو بن علي وغيره كان في سنة تسع عشرة وعلى هذا فقد تعددت القصة"
عطاء بن یسار نے ذکر کیا کہ اس خاتون نے انہیں خود یہ حدیث بیان کی جبکہ ام حرام ان کی صغرسنی میں فوت ہو گئی تھیں، 28ھ بلکہ 33ھ میں بھی ان کی عمر ایسی نہ تھی کہ جہادی مہمات میں شامل ہوتے کیونکہ عمرو بن علی وغیرہ نے جزم کے ساتھ ان کی پیدائش 19ھ میں ذکر کی ہے۔
فتح الباري لابن حجر (76/11)

اور اس سے دامانوی صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ منذر بن الزبیر نے 33 ہجری میں حملہ کیا حالانکہ ابن حجر تو کہہ رہے ہیں کہ عطا کی عمر 28 ہجری یا 33 ہجری میں غزوے میں شرکت والی نہیں تھی یعنی وہ بہت چھوٹے تھے، کیونکہ اس وقت ان کی عمر صرف 14 سال تھی۔ اور یہاں پر 28ہجری اور 33 ہجری کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پہلا بحری سفر کر کے قبرص پر حملہ کرنے کی تاریخ واقدی کے مطابق 28 ہجری ہے جبکہ ابو معشر کے مطابق 33 ہجری ہے، جو کہ ام حرام رضی اللہ عنہا کی تاریخ وفات ہے کیونکہ اس غزوے سے واپسی پر وہ فوت ہو گئی تھیں۔ یعنی یہاں ابن حجر رحمہ اللہ کا مقصد تعدد قصہ پر دلیل پیش کرنا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس جلد بازی میں دامانوی صاحب یہ معلوم کرنا بھول گئےکہ 33 ہجری میں منذر بن زبیررحمہ اللہ کی عمر کیا تھی۔ کیونکہ اس وقت انکی عمر صرف 9 یا 10 سال تھی، جو کہ لشکر کی قیادت تو دور کی بات ہے لشکر میں شمولیت کی عمر بھی نہیں ہوتی۔ چنانچہ امام الذھبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام میں انکی وفات 64 ہجری میں بتائی اور ساتھ ہی کہا ہے کہ وفات کے وقت انکی عمر 40 سال تھی۔ یعنی ان کی ولادت 23ھ یا 24ھ میں ہوئی، اور اس لحاظ سے 33ھ میں ان کی عمر صرف 9 یا 10 سال تھی۔
سيرأعلام النبلاء (408/4)
 
Last edited:
Top