باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
منہاج القرآن انٹرنیشنل ادارہ تعارف کا مہتاج نہیں۔ اس ادارہ کے کسی طالب علم یا ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک معتقد نے اپنا اردو بلاگ بھی بنا رکھا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست نے اسی بلاگ کی ایک تحریر کا حوالہ دیا ، جس کا عنوان تھا :
کیا لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں؟ (انگریزی میں : یہاں)
اب یہ الگ بات ہے کہ راقم الحروف نے بہت عرصہ قبل یہ تحریر پڑھی تھی اور کچھ فورمز پر اس کے کچھ حصوں کا جواب بھی دیا تھا۔
یہ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ سن 2005ء میں دمشق کی ایک "محفل سماع" میں ایک شخص نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاؤں چومے ۔۔۔ مگر انداز ایسا تھا کہ گویا ڈاکٹر صاحب کو سجدہ کیا جا رہا ہو۔ بہرحال کچھ لوگوں نے اس ویڈیو کلپ کا وہ حصہ یوٹیوب پر لگا کر مشہور کر دیا کہ :
لوگ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب سجدہ کرنے والوں کو شاباشی دیتے ہیں۔
بس اسی "پروپگنڈے" کا (اپنی دانست میں) "علمی جواب" مذکورہ بالا بلاگ کی تحریر میں درج کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اصل ویڈیو بھی اس "علمی جواب" کے ساتھ پیش کر دی جاتی تاکہ عوام کو کچھ اندازہ بھی ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے؟ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ ویڈیو لگائی گئی ، ڈاکٹر صاحب کے ادارہ نے شاید اپنے اثر و رسوخ سے اس ویڈیو کو ہٹا دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ویڈیو اب بھی نیٹ پر موجود ہے یا نہیں؟
دو یہودیوں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں چومنے کی ایک روایت کو اہل بدعت اکثر و بیشتر اپنے موقف (بزرگوں کے قدم چومنا) کی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ اس کا بہترین جواب ابو صہیب محمد داؤد ارشد نے اپنی کتاب "دین الحق بجواب جاءالحق" میں دیا ہے۔ اسی جواب سے اس مضمون میں بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
جب اس روایت پر اعتراض کیا گیا کہ :
چومنے والے تو یہودی تھے۔ ان کا عمل کیسے سنت بن گیا؟؟
تو اس کے جواب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک درس (جو کہ غالباً امام بخاری کی کتاب الادب المفرد پر تھا) میں فرمایا :
اب دیکھ لیجئے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں بوسہ دینے کو یہ نہیں کہا گیا کہ "یہ سجدہ کے برابر ہے" بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ "بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے" ۔۔۔ ۔ اب ظاہر ہے کسی شیخ محترم کے سامنے گر کر ان کے پاؤں چومنے سے بھی بتوں کی عبادت سے مشابہت نظر آئے گی لہذا یہ بھی درمختار کے فتوی کے مطابق گناہ کبیرہ کا فعل ہوا جس کو کچھ معصوم اور کم علم "منہاجین" مستحب کام ٹھہرانے پر بضد ہوتے ہیں۔
خیر۔ دونوں یہودیوں کی طرف سے پیر چومنے والی اس روایت پر کچھ گفتگو مزید ۔۔۔
اصول کی کتابوں میں "سنت تقریری" کی یہ تعریف لکھی ہوئی ہے کہ :
جو کام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے مسلمان کریں وہ "تقریری سنت" ہے۔
جبکہ روایت مذکورہ میں ہاتھ پاؤں چومنے (فقبلوا يديه ورجليه) والے مسلمان نہیں بلکہ یہودی تھے۔
اب اس مذکورہ روایت پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اسی میں وہ اصول مل جائے گا کہ :
کافر کے عمل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی ، "سنت تقریری" نہیں کہلاتی !!
ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں
اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے دریافت فرمایا
فما يمنعكم أن تتبعوني
تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟
انہوں نے جواب دیا
إن داود دعا بأن لا يزال من ذريته ...
(حضرت) داؤد (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے ۔۔۔ ۔
حالانکہ اس حدیث کے تمام ہی شارحین نے بیان کیا ہے کہ :
ان دونوں یہودیوں نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء کیا تھا۔ کیونکہ داؤد علیہ السلام نے ایسی کوئی دعا نہ کی تھی بلکہ یہود تو تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ پڑھ چکے تھے۔
اب دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ترجمان نے اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالا کہ :
پاؤں چومنے پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے ! لہذا یہ سنت ہوئی۔
ہم کہنا چاہیں گے کہ :
جناب عالی ! نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کے واضح جھوٹ پر بھی خاموش رہے۔
اب کیا جھوٹ بولنا بھی ڈاکٹر صاحب کے نزدیک "سنت تقریری" سمجھا جائے گا ؟؟
یا ۔۔۔ ۔
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خاموش رہ کر یہ مان لیا تھا کہ داؤد علیہ السلام نے سچ مچ ایسی کوئی دعا کی تھی؟؟
جبکہ حدیث کے تمام شارحین اور علماء و ائمہ محدثین کہتے آئے ہیں کہ یہود نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء باندھا۔
ایک جگہ کی خاموشی تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت بنے اور دوسری جگہ کی خاموشی سنت نہ بنے ؟؟
ترجمان منہاجین اور ڈاکٹر صاحب کے معصوم معتقدین کیا ہم کو جواب دے سکتے ہیں کہ :
حدیث کی تشریح کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ کیسا دہرا معیار ہے ؟؟؟
آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟
قرآن تو ہم کو تعلیم دیتا ہے کہ:
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں
( الفرقان:25 - آيت:63 )
[اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری]
لہذا کافر کے قول و فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی دین میں حجت نہیں ہوتی۔
مگر افسوس کہ یہ اتنی سادہ سی بات کچھ شیوخ محترم کو سمجھ میں آتی ہے اور نہ ان کے متبعین کو کہ ۔۔۔ ۔ وہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ ہم تمام کو ہدایت اور صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین !!
آخر میں 2 باتیں عرض ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پچھلے دنوں ایک دوست نے اسی بلاگ کی ایک تحریر کا حوالہ دیا ، جس کا عنوان تھا :
کیا لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں؟ (انگریزی میں : یہاں)
اب یہ الگ بات ہے کہ راقم الحروف نے بہت عرصہ قبل یہ تحریر پڑھی تھی اور کچھ فورمز پر اس کے کچھ حصوں کا جواب بھی دیا تھا۔
یہ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ سن 2005ء میں دمشق کی ایک "محفل سماع" میں ایک شخص نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاؤں چومے ۔۔۔ مگر انداز ایسا تھا کہ گویا ڈاکٹر صاحب کو سجدہ کیا جا رہا ہو۔ بہرحال کچھ لوگوں نے اس ویڈیو کلپ کا وہ حصہ یوٹیوب پر لگا کر مشہور کر دیا کہ :
لوگ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب سجدہ کرنے والوں کو شاباشی دیتے ہیں۔
بس اسی "پروپگنڈے" کا (اپنی دانست میں) "علمی جواب" مذکورہ بالا بلاگ کی تحریر میں درج کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اصل ویڈیو بھی اس "علمی جواب" کے ساتھ پیش کر دی جاتی تاکہ عوام کو کچھ اندازہ بھی ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے؟ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ ویڈیو لگائی گئی ، ڈاکٹر صاحب کے ادارہ نے شاید اپنے اثر و رسوخ سے اس ویڈیو کو ہٹا دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ویڈیو اب بھی نیٹ پر موجود ہے یا نہیں؟
دو یہودیوں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں چومنے کی ایک روایت کو اہل بدعت اکثر و بیشتر اپنے موقف (بزرگوں کے قدم چومنا) کی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ اس کا بہترین جواب ابو صہیب محمد داؤد ارشد نے اپنی کتاب "دین الحق بجواب جاءالحق" میں دیا ہے۔ اسی جواب سے اس مضمون میں بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
جب اس روایت پر اعتراض کیا گیا کہ :
چومنے والے تو یہودی تھے۔ ان کا عمل کیسے سنت بن گیا؟؟
تو اس کے جواب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک درس (جو کہ غالباً امام بخاری کی کتاب الادب المفرد پر تھا) میں فرمایا :
اور بالکل یہی بات یہاں پر ترجمان منہاجین نے کچھ یوں تحریر فرمائی ہے :نادان اس قسم کا بھی اعتراض کرتے تو میں بھی ان کو جواب دیتا ہوں، کہ آپ کو بغض میں چومنے والے تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟
تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
ڈاکٹر صاحب کی علمیت کا احترام سر آنکھوں پر۔ مگر آپ جناب کا دعویٰ ہے کہ آپ حنفی مسلک کے ماننے والے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت نے حنفی فقہ کی مشہور کتاب "در مختار" تو ضرور پڑھی ہوگی۔ جہاں صاف صاف لکھا ہے :اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔
اب یا تو ڈاکٹر صاحب کو اعلان کر دینا چاہئے کہ وہ اس فقہی عبارت کو نہیں مانتے یا پھر اپنے قول سے رجوع کر لینا چاہئے۔دوسرے سے ملاقات کے وقت اپنے ہاتھ کو چومنا مکروہ ہے۔ اس (عمل) میں رخصت نہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے وقت اُس کا ہاتھ چومنا بالاجماع مکروہ ہے اور اسی طرح (یہ بھی مکروہ ہے) جو علماء کے سامنے سے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں ، کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔
اور اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے کرے تو کفر ہے اور اگر تحیة کے ارادہ سے کرے تو کفر نہ ہوگا البتہ گنہگار ہو گیا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔
بحوالہ : درمختار مع فتاوی شامی ، ص:383 ، ج:6 ، کتاب الحظر و الاباحة باب الاستبراء
اب دیکھ لیجئے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں بوسہ دینے کو یہ نہیں کہا گیا کہ "یہ سجدہ کے برابر ہے" بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ "بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے" ۔۔۔ ۔ اب ظاہر ہے کسی شیخ محترم کے سامنے گر کر ان کے پاؤں چومنے سے بھی بتوں کی عبادت سے مشابہت نظر آئے گی لہذا یہ بھی درمختار کے فتوی کے مطابق گناہ کبیرہ کا فعل ہوا جس کو کچھ معصوم اور کم علم "منہاجین" مستحب کام ٹھہرانے پر بضد ہوتے ہیں۔
خیر۔ دونوں یہودیوں کی طرف سے پیر چومنے والی اس روایت پر کچھ گفتگو مزید ۔۔۔
اصول کی کتابوں میں "سنت تقریری" کی یہ تعریف لکھی ہوئی ہے کہ :
جو کام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے مسلمان کریں وہ "تقریری سنت" ہے۔
جبکہ روایت مذکورہ میں ہاتھ پاؤں چومنے (فقبلوا يديه ورجليه) والے مسلمان نہیں بلکہ یہودی تھے۔
اب اس مذکورہ روایت پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اسی میں وہ اصول مل جائے گا کہ :
کافر کے عمل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی ، "سنت تقریری" نہیں کہلاتی !!
ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں
اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے دریافت فرمایا
فما يمنعكم أن تتبعوني
تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟
انہوں نے جواب دیا
إن داود دعا بأن لا يزال من ذريته ...
(حضرت) داؤد (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے ۔۔۔ ۔
حالانکہ اس حدیث کے تمام ہی شارحین نے بیان کیا ہے کہ :
ان دونوں یہودیوں نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء کیا تھا۔ کیونکہ داؤد علیہ السلام نے ایسی کوئی دعا نہ کی تھی بلکہ یہود تو تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ پڑھ چکے تھے۔
اب دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ترجمان نے اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالا کہ :
پاؤں چومنے پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے ! لہذا یہ سنت ہوئی۔
ہم کہنا چاہیں گے کہ :
جناب عالی ! نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کے واضح جھوٹ پر بھی خاموش رہے۔
اب کیا جھوٹ بولنا بھی ڈاکٹر صاحب کے نزدیک "سنت تقریری" سمجھا جائے گا ؟؟
یا ۔۔۔ ۔
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خاموش رہ کر یہ مان لیا تھا کہ داؤد علیہ السلام نے سچ مچ ایسی کوئی دعا کی تھی؟؟
جبکہ حدیث کے تمام شارحین اور علماء و ائمہ محدثین کہتے آئے ہیں کہ یہود نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء باندھا۔
ایک جگہ کی خاموشی تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت بنے اور دوسری جگہ کی خاموشی سنت نہ بنے ؟؟
ترجمان منہاجین اور ڈاکٹر صاحب کے معصوم معتقدین کیا ہم کو جواب دے سکتے ہیں کہ :
حدیث کی تشریح کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ کیسا دہرا معیار ہے ؟؟؟
آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟
قرآن تو ہم کو تعلیم دیتا ہے کہ:
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں
( الفرقان:25 - آيت:63 )
[اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری]
لہذا کافر کے قول و فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی دین میں حجت نہیں ہوتی۔
مگر افسوس کہ یہ اتنی سادہ سی بات کچھ شیوخ محترم کو سمجھ میں آتی ہے اور نہ ان کے متبعین کو کہ ۔۔۔ ۔ وہ فرماتے ہیں :
لاحول ولا قوة الا باللہ !!وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟ تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
اللہ تعالیٰ ہم تمام کو ہدایت اور صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین !!
آخر میں 2 باتیں عرض ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
- نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے کی کچھ صحیح احادیث آپ ضرور پیش فرمائیں ۔۔۔ ۔ لیکن یہ بھی ہم کو ضرور بتائیں کہ : کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور امتی کا جسم ایک جیسا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جسمِ اطہر پر کسی پیر فقیر کبیر شیخ الاسلام وغیرہ وغیرہ کو قیاس کر لیا جائے؟؟
- یہود سے متعلق اس حدیث پر یہ بحث راقم گذشہ چار پانچ سال سے مختلف اردو فورمز پر پیش کرتا آ رہا ہے ۔۔۔ مگر ڈاکٹر طاہر القادری کے کسی معتقد یا ادارہ منہاج القرآن کے کسی ذمہ دار کو اس وضاحت کا جواب دینے کی توفیق آج تک نہیں ہوئی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہم لے سکتے ہیں کہ آپ کے پاس درحقیقت کوئی جواب ہے ہی نہیں؟