قول مرجوح پر بوجوہ عمل کیا جا سکتا ہے۔
امام ابن تیمیہؒ اس پر ایک طویل بحث فرماتے ہیں جس کے چیدہ چیدہ نکات کا میں ترجمہ بھی کر دوں گا۔
ولذلك استحب الأئمة أحمد وغيره أن يدع الإمام ما هو عنده أفضل، إذا كان فيه تأليف المأمومين، مثل أن يكون عنده فصل الوتر أفضل، بأن يسلم في الشفع، ثم يصلي ركعة الوتر، وهو يؤم قوما لا يرون إلا وصل الوتر، فإذا لم يمكنه أن يتقدم إلى الأفضل كانت المصلحة الحاصلة بموافقته لهم بوصل الوتر أرجح من مصلحة فصله مع كراهتهم للصلاة خلفه، وكذلك لو كان ممن يرى المخافتة بالبسملة أفضل، أو الجهر بها، وكان المأمومون على خلاف رأيه، ففعل المفضول عنده لمصلحة الموافقة والتأليف التي هي راجحة على مصلحة تلك الفضيلة كان جائزا حسنا
"اور اسی وجہ سے امام احمد و دیگر نے اسے مستحب قرار دیا ہے کہ امام جو اس کے نزدیک افضل ہو اسے چھوڑ دے اگر اس میں مقتدیوں کی دل جمعی ہو۔ مثال کے طور پر اس کے نزدیک وتر ملا کر پڑھنا افضل ہے اس طرح کہ دو رکعتوں پر سلام کرے اور رکعت وتر بار دگر پڑھے، اور وہ ایسی قوم کی امامت کر رہا ہو جو صرف وتر ملانے کو ہی درست سمجھتے ہوں۔ تو جب اس کے لیے افضل کی جانب بڑھنا ممکن نہیں تو وصل وتر میں ان کی موافقت سے حاصل ہونے والی مصلحت راجح ہے اس مصلحت سے کہ فصل کرے باوجود ان کے اس کے پیچھے نماز کو ناپسند کر نے کے۔ اسی طرح۔۔۔۔۔۔ الیٰ: تو اس نے موافقت اور تالیف کی مصلحت کی وجہ سے جو اس فضیلت (عمل) پرراجح ہے اپنے نزدیک مفضول پر عمل کیا تو یہ جائز و بہتر ہے۔"
اس وجہ سے مراد ما قبل فساد کا ذکر ہے۔
پھر کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:۔
وكذلك لو فعل خلاف الأفضل لأجل بيان السنة وتعليمها لمن لم يعلمها كان حسنا، مثل أن يجهر بالاستفتاح أو التعوذ أو البسملة ليعرف الناس أن فعل ذلك حسن مشروع في الصلاة، كما ثبت في الصحيح أن عمر بن الخطاب جهر بالاستفتاح، فكان يكبر ويقول: " سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك ". قال الأسود بن يزيد: صليت خلف عمر أكثر من سبعين صلاة، فكان يكبر؛ ثم يقول ذلك، رواه مسلم في صحيحه. ولهذا شاع هذا الاستفتاح حتى عمل به أكثر الناس.
وكذلك كان ابن عمر وابن عباس يجهران بالاستعاذة، وكان غير واحد من الصحابة يجهر بالبسملة. وهذا عند الأئمة الجمهور الذين لا يرون الجهر بها سنة راتبة كان يعلم الناس أن قراءتها في الصلاة سنة، كما ثبت في الصحيح أن ابن عباس صلى على جنازة فقرأ بأم القرآن جهرا، وذكر أنه فعل ذلك ليعلم الناس أنها سنة. وذلك أن الناس في صلاة الجنازة على قولين: منهم من لا يرى فيها قراءة بحال، كما قاله كثير من السلف، وهو مذهب أبي حنيفة ومالك.
ومنهم من يرى القراءة فيها سنة، كقول الشافعي، وأحمد لحديث ابن عباس هذا وغيره.
ثم من هؤلاء من يقول: القراءة فيها واجبة كالصلاة.
ومنهم من يقول: بل هي سنة مستحبة، ليست واجبة. وهذا أعدل الأقوال الثلاثة؛ فإن السلف فعلوا هذا وهذا، وكان كلا الفعلين مشهورا بينهم، كانوا يصلون على الجنازة بقراءة وغير قراءة، كما كانوا يصلون تارة بالجهر بالبسملة، وتارة بغير جهر بها، وتارة باستفتاح وتارة بغير استفتاح، وتارة برفع اليدين في المواطن الثلاثة، وتارة بغير رفع اليدين، وتارة يسلمون تسليمتين، وتارة تسليمة واحدة، وتارة يقرءون خلف الإمام بالسر، وتارة لا يقرءون، وتارة يكبرون على الجنازة أربعا، وتارة خمسا، وتارة سبعا كان فيهم من يفعل هذا، وفيهم من يفعل هذا. كل هذا ثابت عن الصحابة.
كما ثبت عنهم أن منهم من كان يرجع في الأذان؛ ومنهم من لم يرجع فيه.
ومنهم من كان يوتر الإقامة، ومنهم من كان يشفعها، وكلاهما ثابت عن النبي - صلى الله عليه وسلم -.
پھر فرماتے ہیں:۔
فهذه الأمور وإن كان أحدها أرجح من الآخر، فمن فعل المرجوح فقد فعل جائزا. وقد يكون فعل المرجوح أرجح للمصلحة الراجحة، كما يكون ترك الراجح أرجح أحيانا لمصلحة راجحة. وهذا واقع في عامة الأعمال، فإن العمل الذي هو في جنسه أفضل، قد يكون في مواطن غيره أفضل منه، كما أن جنس الصلاة أفضل من جنس القراءة، وجنس القراءة أفضل من جنس الذكر، وجنس الذكر أفضل من جنس الدعاء. ثم الصلاة بعد الفجر والعصر منهي عنها، والقراءة والذكر والدعاء أفضل منها في تلك الأوقات وكذلك القراءة في الركوع والسجود منهي عنها، والذكر هناك أفضل منها، والدعاء في آخر الصلاة بعد التشهد أفضل من الذكر، وقد يكون العمل المفضول أفضل بحسب حال الشخص المعين؛ لكونه عاجزا عن الأفضل، أو لكون محبته ورغبته واهتمامه وانتفاعه بالمفضول أكثر، فيكون أفضل في حقه لما يقترن به من مزيد عمله وحبه وإرادته وانتفاعه كما أن المريض ينتفع بالدواء الذي يشتهيه ما لا ينتفع بما لا يشتهيه، وإن كان جنس ذلك أفضل.
الفتاوی الکبری 2۔358 دار الکتب العلمیۃ
" یہ امور اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے تو جس نے مرجوح کیا تو اس نے جائز کام کیا۔ اور کبھی فعل مرجوح مصلحت راجح کی وجہ سے راجح ہو جاتا ہے جیسا کہ کبھی راجح کو چھوڑنا مصلحت راجحہ کی وجہ سے راجح ہو جاتا ہے۔"
"اور کبھی عمل مفضول (غیر راجح) کسی خاص شخص کے حال کے اعتبار سے افضل ہو جاتا ہے، اس کے افضل پر عمل سے عاجز ہونے کی وجہ سے، یا اس کے مفضول سے محبت اور رغبت اور اہمیت اور نفع کے زیادہ ہونے کی وجہ سے تو یہ اس کے حق میں اس کے عمل کی زیادتی اور محبت اور ارادہ اور نفع کی وجہ سے افضل ہو جاتا ہے۔"
یہ فتوی ہے ابن تیمیہؒ کا کہ مفضول پر عمل بوجوہ جائز ہے۔ اور ان وجوہ میں ایک اس عمل کا محبوب ہونا بھی ہے۔
اب اگر محمود الحسنؒ نے مفضول پر عمل کیا تو اس سے کیا حرج لازم آیا؟
لیکن ذرا آگے بڑھیں تو میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کی صورت میں کسی کے نزدیک اس مسئلہ میں خرابی پیدا نہیں ہوتی جب کہ شافعیؒ کے قول کی صورت میں ابو حنیفہؒ کے نزدیک معاملہ درست نہیں رہتا۔ اور احوط یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ابو حنیفہؒ کے قول پر عمل کیا جائے۔ جب ان کے قول پر عمل ہوگا تو شافعیؒ کے نزدیک بھی درست ہوگا۔
اگر شیخ الہندؒ نے مرجوح لیکن محتاط قول پر عمل کیا تو کیا حرج لازم آتا ہے؟
لیکن مجھے قوی امید ہے کہ میں اس کے بعد بھی مختلف جگہوں پر یہ اشکال ہوتا ہوا پاؤں گا۔ اللہم اہدنا الی سواء الصراط و احفظنا من التعصب۔
کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا
بات کیا ہے اور اس کو کہاں لاگو کیا جا رہا ہے ؟ امام ابن تیمیہ نے کہاں لکھا ہے کہ ایک واضح نص کو رد کرو اور اپنے امام کی بات کو بالا رکھو امام ابن تیمیہ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب دونوں طرف دلائل موجود ہیں تو اس وقت مرجوح پر عمل کیا جا سکتا ہے جیسے پانی بیٹھ کر اور کھڑے ہو بھی پیا جا سکتا ہے لیکن راجح یہ ہے کہ بیٹھ کر ہی پیا جاے
اگر آپ کی بات کو مراد لیا جاے تو یہ شریعت تو مزاق بن جاے گی اور کافی حد تک تم نے اس کو مذاق بنایا بھی تمہارے درجن امام ہیں، اور تم تو ان کے راجح اور مرجوح کی گتھیا ں نہیں سلجھا سکے