• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متقدمین فقہا کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جب صحابہ کرام کے فتاوی اور انکے فیصلے ان تمام ضروریات کو محیط نہ ہو سکتے تھے جو امت مسلمہ کو قیامت پیش آنے والے ہیں ،اسی طرح تابعین عظام نے لاکھوں نئے مسائل دریافت کیے ، لیکن اسلام کو اس پورے اصول و فروع کے ساتھ منضبط کرنے کا کام اور اسے بطور ایک ابدی قانون زندگی کے مرتب کرنا ابھی باقی ہے
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
یہاں احناف سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جس تقلید کی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے وہ قیامت تک لیے کافی اور شافی ہے ، نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کہاں سے ڈھونڈا جاے گا ، قرآن و حدیث سے یا کہ مروجہ فقہ سے؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جب صحابہ کرام کے فتاوی اور انکے فیصلے ان تمام ضروریات کو محیط نہ ہو سکتے تھے جو امت مسلمہ کو قیامت پیش آنے والے ہیں ،اسی طرح تابعین عظام نے لاکھوں نئے مسائل دریافت کیے ، لیکن اسلام کو اس پورے اصول و فروع کے ساتھ منضبط کرنے کا کام اور اسے بطور ایک ابدی قانون زندگی کے مرتب کرنا ابھی باقی ہے
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
یہاں احناف سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جس تقلید کی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے وہ قیامت تک لیے کافی اور شافی ہے ، نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کہاں سے ڈھونڈا جاے گا ، قرآن و حدیث سے یا کہ مروجہ فقہ سے؟؟؟
اشماریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جب صحابہ کرام کے فتاوی اور انکے فیصلے ان تمام ضروریات کو محیط نہ ہو سکتے تھے جو امت مسلمہ کو قیامت پیش آنے والے ہیں ،اسی طرح تابعین عظام نے لاکھوں نئے مسائل دریافت کیے ، لیکن اسلام کو اس پورے اصول و فروع کے ساتھ منضبط کرنے کا کام اور اسے بطور ایک ابدی قانون زندگی کے مرتب کرنا ابھی باقی ہے
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
یہاں احناف سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جس تقلید کی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے وہ قیامت تک لیے کافی اور شافی ہے ، نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کہاں سے ڈھونڈا جاے گا ، قرآن و حدیث سے یا کہ مروجہ فقہ سے؟؟؟
میں نے اس تھریڈ میں جہاں میری اور عبدہ بھائی کی بات چل رہی ہے تقلید کے موضوع پر، ایک مسئلہ آپ کے لیے رکھا تھا کہ اس کا جواب قرآن و حدیث سے نکال کر دیجیے۔ ائمہ کے اصولوں سے تو نکل رہا ہے۔ اگر آپ قرآن و حدیث سے بھی نکال کر دیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اور کچھ اندازہ ہو جائے گا کہ بغیر تقلید بھی ایسے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میں نے اس تھریڈ میں جہاں میری اور عبدہ بھائی کی بات چل رہی ہے تقلید کے موضوع پر، ایک مسئلہ آپ کے لیے رکھا تھا کہ اس کا جواب قرآن و حدیث سے نکال کر دیجیے۔ ائمہ کے اصولوں سے تو نکل رہا ہے۔ اگر آپ قرآن و حدیث سے بھی نکال کر دیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اور کچھ اندازہ ہو جائے گا کہ بغیر تقلید بھی ایسے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
اگر اس موضوع پر بات ہوجاے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاے لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ اس طرح کے موضوعات سے بھاگتے ہو جو بھی پوچھنا ہے پوچھ لو اور یہ بھی بتا دو کہ کیا امام صاحب کا اجتہاد قیامت کے لیے کافی ہے ؟ اگر کافی نہیں ہو تو اس چیز کی طرف آجاؤ جو قیا مت تک لے لیے کافی اور شافی ہے اور لگاو فتوی کہ جو امام صاحب کا مقلد نہیں ہے وہ کافر ہے اور جو رسول اللہ کا مقلد نہیں ہے وہ کافر اس فتوے سے تم بھاگ نہیں سکتے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میں نے اس تھریڈ میں جہاں میری اور عبدہ بھائی کی بات چل رہی ہے تقلید کے موضوع پر، ایک مسئلہ آپ کے لیے رکھا تھا کہ اس کا جواب قرآن و حدیث سے نکال کر دیجیے۔ ائمہ کے اصولوں سے تو نکل رہا ہے۔ اگر آپ قرآن و حدیث سے بھی نکال کر دیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا اور کچھ اندازہ ہو جائے گا کہ بغیر تقلید بھی ایسے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
اس تھریڈ کا جواب آپ کے ذمے ہے ، یہ ایک اہم موضوع ہے یہ موضوع اپنے اندر بہت سارے سوالات کو سموے ہوے ہے،اس بارے میں علامہ کوثری بیت عمدہ بات لکھی ہے، اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں تو آپ کے سات طبق روشن ہوجا ئیں ، اس کا خلاصہ جناب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں:
"ہم جانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے بہت سے مسائل میں توقف کیا ہے ۔امام مالک نے بہت سے مسائل کے بارے میں کہا ہے کہ یہ میں نہیں جانتا ، امام مالک نے تو اتنے مسائل کے بارے میں لا ادری میں نہیں جانتا فرمایا ہے کہ بقول علامہ شاطبی اور ابن عبد البر کے اگر انہیں جمع کیا جاے تو ایک رسالہ تیار ہو سکتا ہے ( الموافقات:ج4 ، ص288
امام شافعی سے کئی مسائل میں دو قول منقول ہیں اور کئی مسائل میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ہے تو میرا قو ل اس کے مطابق ہے ،اس لیے انسان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس کے بارےمیں اسے علم نہ ہو اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرے (احقاق الحق:ص22
لہذا جب مقلدین حضرات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ بہت سے مسائل میں ان ائمہ مجتہدین نے توقف اختیار کیا ہے اور صاف صاف لا ادری کہہ کر ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے تو صدیوں بعد آج اس کے برعکس یہ باور کرنا کہ ان کے فتاوے ابدی قانون زندگی تھے کہا ں تک حقیقت پر مبنی ہے؟
پھر یہاں یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اصول و فروع میں ائمہ اربعہ کی آخر کتنی کتابیں ہیں ؟امام مالک کی موطا حدیث کی کتاب ہے یا فقہ کی؟ امام محمد بن حسن کی الجامع الکبیر ، الجامع الصغیر قاضی ابو یوسف کی کتاب الاموال ، اختلاف ابی حنیفہ وبن ابی لیلی کتب فقہ میں شمار ہوتی ہیں امام ابو حنیفہ کی اس سلسلے میں کتنی کتابیں ہیں ؟
امام احمد نے کون سا فقہی مجموعہ مرتب کیا ہے اور اس کا نام کیا ہے ۔ المسائل کے نام پر ان کے تلامذہ کی مرتبہ کتب فقہی سوالات پر مشتمل ہیں کیا ان مجموعہ ہاے کتب میں زندگی کے سارے مسائل آ گئے ہیں اور خود ان مجتہدین کرام نے اسے ابدی قانون سے تعبیر کیا ہے ؟اس بارے میں میں علامہ انور شاہ کاشمیری تو صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے:
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لا یبقی ورائہ شئی فقد حاد عن الصواب"
جو یہ خیال کرتا ہے کہ سارا دین فقہ میں ہے اس سے باہر کچھ بھی نہیں وہ راہ حق سے ہٹا ہوا ہے"
فیض الباری:ج2، ص10
الغرض یہ ایک لمبا موضوع ہے جواب کا انتظار رہے گا؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس تھریڈ کا جواب آپ کے ذمے ہے ، یہ ایک اہم موضوع ہے یہ موضوع اپنے اندر بہت سارے سوالات کو سموے ہوے ہے،اس بارے میں علامہ کوثری بیت عمدہ بات لکھی ہے، اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں تو آپ کے سات طبق روشن ہوجا ئیں ، اس کا خلاصہ جناب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں:
"ہم جانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے بہت سے مسائل میں توقف کیا ہے ۔امام مالک نے بہت سے مسائل کے بارے میں کہا ہے کہ یہ میں نہیں جانتا ، امام مالک نے تو اتنے مسائل کے بارے میں لا ادری میں نہیں جانتا فرمایا ہے کہ بقول علامہ شاطبی اور ابن عبد البر کے اگر انہیں جمع کیا جاے تو ایک رسالہ تیار ہو سکتا ہے ( الموافقات:ج4 ، ص288
امام شافعی سے کئی مسائل میں دو قول منقول ہیں اور کئی مسائل میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ہے تو میرا قو ل اس کے مطابق ہے ،اس لیے انسان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس کے بارےمیں اسے علم نہ ہو اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرے (احقاق الحق:ص22
لہذا جب مقلدین حضرات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ بہت سے مسائل میں ان ائمہ مجتہدین نے توقف اختیار کیا ہے اور صاف صاف لا ادری کہہ کر ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے تو صدیوں بعد آج اس کے برعکس یہ باور کرنا کہ ان کے فتاوے ابدی قانون زندگی تھے کہا ں تک حقیقت پر مبنی ہے؟
پھر یہاں یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اصول و فروع میں ائمہ اربعہ کی آخر کتنی کتابیں ہیں ؟امام مالک کی موطا حدیث کی کتاب ہے یا فقہ کی؟ امام محمد بن حسن کی الجامع الکبیر ، الجامع الصغیر قاضی ابو یوسف کی کتاب الاموال ، اختلاف ابی حنیفہ وبن ابی لیلی کتب فقہ میں شمار ہوتی ہیں امام ابو حنیفہ کی اس سلسلے میں کتنی کتابیں ہیں ؟
امام احمد نے کون سا فقہی مجموعہ مرتب کیا ہے اور اس کا نام کیا ہے ۔ المسائل کے نام پر ان کے تلامذہ کی مرتبہ کتب فقہی سوالات پر مشتمل ہیں کیا ان مجموعہ ہاے کتب میں زندگی کے سارے مسائل آ گئے ہیں اور خود ان مجتہدین کرام نے اسے ابدی قانون سے تعبیر کیا ہے ؟اس بارے میں میں علامہ انور شاہ کاشمیری تو صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے:
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لا یبقی ورائہ شئی فقد حاد عن الصواب"
جو یہ خیال کرتا ہے کہ سارا دین فقہ میں ہے اس سے باہر کچھ بھی نہیں وہ راہ حق سے ہٹا ہوا ہے"
فیض الباری:ج2، ص10
الغرض یہ ایک لمبا موضوع ہے جواب کا انتظار رہے گا؟؟
محمد یوسف
اشماریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اگر اس موضوع پر بات ہوجاے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاے لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ اس طرح کے موضوعات سے بھاگتے ہو جو بھی پوچھنا ہے پوچھ لو اور یہ بھی بتا دو کہ کیا امام صاحب کا اجتہاد قیامت کے لیے کافی ہے ؟ اگر کافی نہیں ہو تو اس چیز کی طرف آجاؤ جو قیا مت تک لے لیے کافی اور شافی ہے اور لگاو فتوی کہ جو امام صاحب کا مقلد نہیں ہے وہ کافر ہے اور جو رسول اللہ کا مقلد نہیں ہے وہ کافر اس فتوے سے تم بھاگ نہیں سکتے
حیرت ہے۔ یہ علمی بات کرنا چاہ رہے ہیں آپ یا جوش و جذبات کا مقابلہ؟؟؟؟

اس تھریڈ کا جواب آپ کے ذمے ہے ، یہ ایک اہم موضوع ہے یہ موضوع اپنے اندر بہت سارے سوالات کو سموے ہوے ہے،اس بارے میں علامہ کوثری بیت عمدہ بات لکھی ہے، اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں تو آپ کے سات طبق روشن ہوجا ئیں ، اس کا خلاصہ جناب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں:
"ہم جانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے بہت سے مسائل میں توقف کیا ہے ۔امام مالک نے بہت سے مسائل کے بارے میں کہا ہے کہ یہ میں نہیں جانتا ، امام مالک نے تو اتنے مسائل کے بارے میں لا ادری میں نہیں جانتا فرمایا ہے کہ بقول علامہ شاطبی اور ابن عبد البر کے اگر انہیں جمع کیا جاے تو ایک رسالہ تیار ہو سکتا ہے ( الموافقات:ج4 ، ص288
امام شافعی سے کئی مسائل میں دو قول منقول ہیں اور کئی مسائل میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ہے تو میرا قو ل اس کے مطابق ہے ،اس لیے انسان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس کے بارےمیں اسے علم نہ ہو اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرے (احقاق الحق:ص22
لہذا جب مقلدین حضرات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ بہت سے مسائل میں ان ائمہ مجتہدین نے توقف اختیار کیا ہے اور صاف صاف لا ادری کہہ کر ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے تو صدیوں بعد آج اس کے برعکس یہ باور کرنا کہ ان کے فتاوے ابدی قانون زندگی تھے کہا ں تک حقیقت پر مبنی ہے؟
پھر یہاں یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اصول و فروع میں ائمہ اربعہ کی آخر کتنی کتابیں ہیں ؟امام مالک کی موطا حدیث کی کتاب ہے یا فقہ کی؟ امام محمد بن حسن کی الجامع الکبیر ، الجامع الصغیر قاضی ابو یوسف کی کتاب الاموال ، اختلاف ابی حنیفہ وبن ابی لیلی کتب فقہ میں شمار ہوتی ہیں امام ابو حنیفہ کی اس سلسلے میں کتنی کتابیں ہیں ؟
امام احمد نے کون سا فقہی مجموعہ مرتب کیا ہے اور اس کا نام کیا ہے ۔ المسائل کے نام پر ان کے تلامذہ کی مرتبہ کتب فقہی سوالات پر مشتمل ہیں کیا ان مجموعہ ہاے کتب میں زندگی کے سارے مسائل آ گئے ہیں اور خود ان مجتہدین کرام نے اسے ابدی قانون سے تعبیر کیا ہے ؟اس بارے میں میں علامہ انور شاہ کاشمیری تو صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے:
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لا یبقی ورائہ شئی فقد حاد عن الصواب"
جو یہ خیال کرتا ہے کہ سارا دین فقہ میں ہے اس سے باہر کچھ بھی نہیں وہ راہ حق سے ہٹا ہوا ہے"
فیض الباری:ج2، ص10
الغرض یہ ایک لمبا موضوع ہے جواب کا انتظار رہے گا؟؟
میرا خیال ہے آپ بعض چیزوں کے بارے میں تھوڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ اگر ہم صرف فقہ کو ہی سب کچھ پڑھتے تو برسوں سے احادیث پڑھنے کا کیا مقصد تھا؟
خیر آپ ایک ایک سوال کرتے جائیے میں حل کرتا جاتا ہوں۔
لیکن پہلے میرا سوال یہ ہے کہ "کمپنی" ایک شخص قانونی ہے۔ اس کا حکم قرآن و حدیث میں سے بغیر کسی عالم کی تقلید کے ڈھونڈ کر عنایت فرمائیے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حیرت ہے۔ یہ علمی بات کرنا چاہ رہے ہیں آپ یا جوش و جذبات کا مقابلہ؟؟؟؟



میرا خیال ہے آپ بعض چیزوں کے بارے میں تھوڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ اگر ہم صرف فقہ کو ہی سب کچھ پڑھتے تو برسوں سے احادیث پڑھنے کا کیا مقصد تھا؟
خیر آپ ایک ایک سوال کرتے جائیے میں حل کرتا جاتا ہوں۔
لیکن پہلے میرا سوال یہ ہے کہ "کمپنی" ایک شخص قانونی ہے۔ اس کا حکم قرآن و حدیث میں سے بغیر کسی عالم کی تقلید کے ڈھونڈ کر عنایت فرمائیے۔
بھائی جان معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں جس طرح میں نے ایک بات آپ کے سامنے رکھی ہے اس جواب دے دیں تاکہ بات آگے بڈھ جاے، اور مجھے نہیں آرہی کہ کس طرح اس کمپنی سے آپ امام صاحب کی تقلید ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ اس کا مطلب تو یہ بن رہا ہے کہ قرآن و حدیث ناقص ہے (نعوذ باللہ من ذلک) اور فقہ حنفی نے قرآن و سنت کی اس کمی کو پورا کیا ہے اسی طرح احناف یہ کہتے ہیں کہ بھینس کا بھی قرآن و حدیث میں کہیں ذکر نہین ہے ،یہ بھی فقہ کا کمال ہے کہ بھینس حلال ہے ۔ یہ ان حضرات کا حال ہے جو خود کو امام اعظم کا مقلد گردانتے ہیں ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی چیز نہین جس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو نقص صرف ہماری عقل میں ہے ، اشماریہ بھائی ذرا غور وفکر کریں شاید آپ کو اس جواب بھی قرآن و سنت مین مل جاے اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی جان معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں جس طرح میں نے ایک بات آپ کے سامنے رکھی ہے اس جواب دے دیں تاکہ بات آگے بڈھ جاے، اور مجھے نہیں آرہی کہ کس طرح اس کمپنی سے آپ امام صاحب کی تقلید ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ اس کا مطلب تو یہ بن رہا ہے کہ قرآن و حدیث ناقص ہے (نعوذ باللہ من ذلک) اور فقہ حنفی نے قرآن و سنت کی اس کمی کو پورا کیا ہے اسی طرح احناف یہ کہتے ہیں کہ بھینس کا بھی قرآن و حدیث میں کہیں ذکر نہین ہے ،یہ بھی فقہ کا کمال ہے کہ بھینس حلال ہے ۔ یہ ان حضرات کا حال ہے جو خود کو امام اعظم کا مقلد گردانتے ہیں ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی چیز نہین جس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو نقص صرف ہماری عقل میں ہے ، اشماریہ بھائی ذرا غور وفکر کریں شاید آپ کو اس جواب بھی قرآن و سنت مین مل جاے اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
میرے محترم بس یہی جگہ ہے جہاں آپ ذرا سی غلطی فرما رہے ہیں۔
فقہ کیا ہے اصل میں اسے سمجھیے۔ یہ کچھ اصول ہیں قرآن و حدیث کو سمجھنے کے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث انسانوں کے لیے نازل ہوئے ہیں۔ انہیں کیسے سمجھا جائے یہ ہر کسی کی عقل پر موقوف ہے۔ لیکن ظاہر ہے سب مجتہد نہیں ہوتے۔ تو مجتہدین نے جیسے وہ سمجھ سکتے تھے اس طریقہ کو اصولوں کی شکل دی۔ ایک ہی مسئلہ کو سمجھنے کے عموما دو سے زیادہ طریقے نہیں ہو سکتے لیکن مختلف مسائل میں ان طریقوں کے فرق کی وجہ سے مختلف مذاہب وجود میں آئے۔
فقہاء صحابہ بھی ان مسائل کو اسی طرح سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اصول منضبط نہیں کیے جبکہ ائمہ نے کر لیے۔ پھر ان اصولوں پر ایک تفصیلی کام ہوا جس کی وجہ سے آج فقہ آپ کے سامنے مسائل کی ایسی صورت میں ہے۔
کوئی بھی مقلد صحیح صریح غیر متعارض غیر معلول نص کے مقابلے میں کسی کے قول کو ترجیح نہیں دیتا اور نہ ہی ائمہ کے اقوال ایسی نص کے خلاف ملتے ہیں۔ تقلید تب ہی ہوتی ہے جب تھوڑا بھی اجمال یا تعارض وغیرہ پیدا ہونا شروع ہو اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے مسائل میں غیر مقلد بھی تقلید کرتے ہیں۔ اور کسی کی نہیں تو اپنے علماء کی۔
یہ مسئلہ قرآن و حدیث میں کہیں صراحت سے نہیں ہے کیوں کہ اس زمانے میں اس کا وجود ہی نہیں تھا اور اسے قیاس کرنا ممکن تو ہے لیکن بہت مشکل ہے۔
اسی لیے یہ آپ کو بطور مثال دیا تھا کہ آپ حل کرنے کی کوشش کریں۔
آپ اگر کہتے ہیں کہ تقلید کی چنداں ضرورت نہیں تو پھر اسے حل کیجیے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
آپ اگر کہتے ہیں کہ تقلید کی چنداں ضرورت نہیں تو پھر اسے حل کیجیے۔

آپ دونوں حضرات سے قطع کلامی پر معذرت کے ساتھ۔۔۔۔
ایک سوال ذہن میں آیا تھا سوچا پوچھ لوں۔

اشماریہ بھائی کیا اس سوال کو یوں بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ
آپ اگر کہتے ہیں کہ تقلید "واجب" ہے تو اپنے متعلقہ امام سے اسکا حل حاصل کرسکتے ہیں؟
 
Top