• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا محمد بن ابوبکر صحابی تھے؟

رامش راقم

مبتدی
شمولیت
فروری 16، 2018
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
22
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا محمد بن ابوبکر صحابی تھے اور ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا چاہئے یا رحمہ اللہ یا دنوں ہی نہیں؟؟
جزاک اللہ خیراً۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محمد بن ابوبکر رحمہ اللہ کی ولادت حجۃ الوداع کے موقع پر سنہ ۱۰ھ میں ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر چند ماہ تھی اس لیے معروف معنی میں انہیں صحابی نہیں کہا جاتا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا محمد بن ابوبکر صحابی تھے اور ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا چاہئے یا رحمہ اللہ یا دنوں ہی نہیں؟؟
جزاک اللہ خیراً۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ (منہاج السنۃ ) میں لکھتے ہیں :
(ومحمد بن أبي بكر إنما ولد عام حجة الوداع بذي الحليفة، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم أمه أسماء بنت عميس أن تغتسل للإحرام وهي نفساء، وصار ذلك سنة، ولم يدرك من حياة النبي صلى الله عليه وسلم إلا خمس ليال من ذي القعدة، وذا الحجة والمحرم، وصفراً، وأوائل شهر ربيع الأول، ولا يبلغ ذلك أربعة أشهر، ومات أبوه أبو بكر رضي الله عنه وعمره أقل من ثلاث سنوات ولم يكن له صحبة مع النبي صلى الله عليه وسلم ولا قرب منزلة من أبيه، إلا كما يكون لمثله من الأطفال) منہاج السنۃ ج4 ص374
" محمد بن ابی بکر حجۃ الوداع کے سال (ذوالقعدہ ) میں ذوالحلیفہ کے مقام پر پیدا ہوئے ،
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ سیدہ اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا کو احرام کیلئے نفاس سے غسل کا حکم دیا ،اور یہ حکم اسلام میں سنت ٹھہرا ،
محمد بن ابی بکر ؒ نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے صرف تین ماہ ،پانچ دن اپنی زندگی میں پائے ،
ان کے والد گرامی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو ان کی عمر تین سال سے بھی کم تھی ،
انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر نہ آسکی ،
اور نہ اپنے والد مکرم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ (حالت شعور میں ) قرب منزلت مل سکی ، سوائے اس قربت کے جو شیر خوار بچوں کو ملتی ہے "
ــــــــــــــــــــــــــ
باقی یہ سوال کہ :
ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا چاہئے یا رحمہ اللہ
تو یہ دونوں طرح جائز و درست ہیں ،
کیونکہ :
وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اصول حدیث اور عربی ادب کے مشہور عالم شیخ طاہر بن صالح الجزائریؒ مصطلح الحدیث کی مشہور کتاب " توجیہ النظر الی اصول اہل الاثر " میں ان تابعین کے نام بتاتے ہوئے ( جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پیدا ہوئے ،لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سنا نہیں ) لکھتے ہیں :
(ومن التابعين بعد المخضرمين طبقة ولدوا في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يسمعوا منه، منهم محمد بن أبي بكر الصديق، وأبو أمامة بن سهل بن حنيف وسعيد بن سعد بن عبادة والوليد بن عبادة بن الصامت وعلقمة بن قيس)
یعنی وہ تابعین جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے ،لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سنا نہیں ، ان میں محمد بن ابی بکر ،ابو امامہ بن سہل ،سعید بن سعد بن عبادہ وغیرہم "
دیکھئے " توجیہ النظر الی اصول اہل الاثر " ج1 ص416
https://archive.org/stream/taherjazaeri/tawjihnazar#page/n415/mode/2up
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
کیا محمد بن ابو بکر رحمہ اللہ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بد دعا دی تھی ؟ ایک روایت اس متعلق ایک بھائی نے بھیجی ہے اہل علم اس پر روشنی ڈالیں ۔ جزاکم اللہ خیرا


*'محمدبن ابی بکرکوسیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاکی بددعا'*
روایت کی تحقیق وتخریج
✍ازقلم :محمدطیب الرحمن حفظہ اللہ
حضرت طلق بن خشافؒ کہتے ہیں:۔
ہماراوفدمدینہ منورہ آیا۔تاکہ قتل ِعثمانؓ کے متعلق معلومات حاصل کرسکیں۔ہمارے کچھ احباب سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے۔بعض کاسیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جاناطے ہوا۔اورکچھ حضرات امھات المؤمنین کی خدمت میں حاضرہوۓ۔جبکہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس گیا۔میں نے آپ کوسلام کیااورآپ نے سلام کاجواب دیا۔
آپؓ نے پوچھا۔کہاں سےہو؟
میں نے کہا۔بصرہ سے۔
پوچھا۔کس قبیلے سے؟
میں نے کہا:بکربن وائل سے۔
ہوچھا۔کس شاخ سے؟
میں نے کہا:بنوقیس بن ثعلبہ سے۔
میں نے عرض کیا:
اے ام المؤمنین! امیرالمؤمنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شھادت کے متعلق آپ کی کیاراۓ ہے؟؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھانے فرمایا: *اللہ کے قسم:
*ان کوظلماشہیدکیاگیا*۔
*ان کوقتل کرنیوالوں پراللہ کی لعنت ہو*
*اللہ تعالی محمدبن ابی بکرسے ان کابدلہ لے*۔
*اللہ تعالی بنوتمیم کوذلیل ورسواکرے۔
اللہ تعالی بنوبدیل کاخون بہاۓ۔
*اللہ تعالی اشترکواپنے تیرسے ہلاک کرے*۔
اللہ کی قسم ۔ان میں سے کوئ شخص بھی ایسانہیں تھا۔
جس کوسیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاکی بددعانہ پہنچی ہو۔
(المعجم الکبیرللطبرانی ج1حدیث133)
[التاریخ الاوسط للبخاری
ج1ح384]
{تثبیت الامامةوترتیب الخلافة لابی نعیم الاصبھانی ج1ح140}
قال المحدث الہیثمی :رواہ الطبرانی ورجالہ رجال الصحیح غیرطلق ۔وھوثقة
{مجمع الزوائد 9ح14567}
احوال الرواة:
طبرانی ۔بالاتفاق ثقہ امام۔
الفضل بن الحباب ابوخلیفہ۔
قال الذہبی:الامام الثقة
(تذکرة الحفاظ2/177)
عبداللہ بن عبدالوھاب الحجبی۔
قال ابن معین وابوحاتم:ثقة
[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم5/106]
حزم۔بن ابوحزم ابن مھران القطعی۔
قال احمدوابن معین :ثقة
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم3/294)
ابوالاسود۔مسلم بن مخراق۔
قال ابن حجر:ثقة
[تقریب التہذیب ج1راوی#2678]
طلق بن الخشاف۔
ذکرہ ابن حبان فی الثقات{4396}
وکذلک القاسم بن قطلوبغا فی الثقات[5/5480]
وقال الہیثمی :ھوثقة
(مجمع الزوائد 9\14567)
☂فوائد الحدیث الموقوف۔
1۔سیدناعثمان رضی اللہ عنہ پرظلم کیاگیا
2قاتلین عثمانؓ پرلعنت کرنا
3۔محمدبن ابی بکرقتل عثمانؓ میں شریک تھا۔
(ورنہ اسے بددعاکیوں دی گئی؟؟)
4.اشترنخعی کوبددعادینا
5۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا
کاسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی مذمت کرنا۔
IMG-20200306-WA0003.jpg
 
شمولیت
نومبر 20، 2017
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
46
اصول حدیث اور عربی ادب کے مشہور عالم شیخ طاہر بن صالح الجزائریؒ مصطلح الحدیث کی مشہور کتاب " توجیہ النظر الی اصول اہل الاثر " میں ان تابعین کے نام بتاتے ہوئے ( جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پیدا ہوئے ،لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سنا نہیں ) لکھتے ہیں :
(ومن التابعين بعد المخضرمين طبقة ولدوا في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يسمعوا منه، منهم محمد بن أبي بكر الصديق، وأبو أمامة بن سهل بن حنيف وسعيد بن سعد بن عبادة والوليد بن عبادة بن الصامت وعلقمة بن قيس)
یعنی وہ تابعین جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے ،لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سنا نہیں ، ان میں محمد بن ابی بکر ،ابو امامہ بن سہل ،سعید بن سعد بن عبادہ وغیرہم "
دیکھئے " توجیہ النظر الی اصول اہل الاثر " ج1 ص416
https://archive.org/stream/taherjazaeri/tawjihnazar#page/n415/mode/2up
قابل احترام بھائی ۔ صاحب توجیح النظر تو بہت متاخر ہیں ،اور ظاہری عالم ہیں اگرچہ ان کی بعض تحقیقات اچھی ہوتی ہیں ۔
اور حافظ ابن تیمیہؒ بہت محترم ہیں ۔ اور ان دونوں کا حوالہ کچھ اتنا خلاف بھی نہیں ہے ۔ اس کی بھی توجیح ممکن ہے ۔

لیکن بھائی ، حافظ ابن حجرؒ رجال کے عالم ہیں ۔ انہوں نے طبقات صحابہؓ پر کتاب لکھی ہے ۔ جو صحابہ ؓ پر لکھی کتب میں سب سے جامع سمجھی جاتی ہے ۔ان کے حوالہ کی مزید تنقیح کرتا ہوں ۔انہوں نے اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے طبقات کی قسمیں قائم کی ہیں ۔ قسم اول ۔ جن کا صحابہؓ ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ۔ قسم ثانی ۔ اور پھر ثالث ، پھر رابع بھی قائم کی۔
قسم ثانی کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں ۔
القسم الثاني:
من ذكر في الصحابة من الأطفال الذين ولدوا في عهد النبي صلّى اللَّه عليه وسلم لبعض الصحابة [ (6) ] من النساء والرجال، ممن مات صلّى اللَّه عليه وسلم وهو في دون سن التمييز، إذ ذكر أولئك في الصحابة إنما هو على سبيل الإلحاق، لغلبة الظنّ على أنه صلّى اللَّه عليه وسلم رآهم لتوفّر [ (7) ] دواعي أصحابه على إحضارهم أولادهم عنده عند ولادتهم ليحنّكهم ويسمّيهم ويبرّك عليهم، والأخبار بذلك كثيرة شهيرة: ففي صحيح مسلم من طريق هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة أن النبي صلّى اللَّه عليه وعلى آله وسلم «كان يؤتى بالصبيان فيبرّك عليهم» [ (8) ] .
ترجمہ کا مفہوم۔
بعض صحابہ ؓ کےوہ بچے جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور وہ آپﷺ کی وفات کے وقت سن تمیز کو نہ پہنچے ، کیونکہ ان کا ذکر صحابہ ؓمیں کرنا اس گمان غالب پر مبنی ہے کہ آپﷺ نے انہیں دیکھا ہے اس واسطے کہ آپ کے صحابہؓ کا اپنے بچوں کو ولادت کے وقت آپﷺ کی خدمت میں لانے کے بے شمار اسباب ہیں، تاکہ آپ ﷺ انہیں گھٹی دیں ان کا نام رکھیں ان کے لئے برکت کی دعا کریں ۔ اس بارے میں احادیث و اخبار بہت مشہور ہیں ۔ چناچہ صحیح مسلم کی روایت میں کہ ((نبی کریمﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ ان کے لئے برکت کی دعا فرماتے تھے۔ اسی طرح حاکم کی روایت میں ہے کہ جس کسی کے ہاں بچہ ہوتا وہ نبی کریم ﷺ کے پاس لایا جاتا اور آپ ﷺ اس کے لئے دعائے خیر فرماتے۔

اور پھر حافظ ابن حجرؒ کے علاوہ طبقات صحابہؓ کی اکثر کتب ابن حبان، ابونعیم ، اسدالغابہ ، وغیرہ میں ان کا ذکر صحابہ ؓ میں ہے ۔
اور حافظ ذہبی ؒ نے تجرید اسماء الصحابہ ؓ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ۔
اور صاحب توجیح کی توجیح یہ ہے کہ وہ تفقہ اور روایت کے باب میں ان کا ذکر کر رہے ۔ جیسا کہ ذہبی ؒ نے دوسری کتاب میں کبار تابعین میں بھی ان کاذکر کیا۔
 
Top