اصول حدیث اور عربی ادب کے مشہور عالم
شیخ طاہر بن صالح الجزائریؒ مصطلح الحدیث کی مشہور کتاب
" توجیہ النظر الی اصول اہل الاثر " میں ان تابعین کے نام بتاتے ہوئے ( جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پیدا ہوئے ،لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سنا نہیں ) لکھتے ہیں :
(ومن التابعين بعد المخضرمين طبقة ولدوا في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يسمعوا منه، منهم محمد بن أبي بكر الصديق، وأبو أمامة بن سهل بن حنيف وسعيد بن سعد بن عبادة والوليد بن عبادة بن الصامت وعلقمة بن قيس)
یعنی وہ تابعین جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے ،لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سنا نہیں ، ان میں محمد بن ابی بکر ،ابو امامہ بن سہل ،سعید بن سعد بن عبادہ وغیرہم "
دیکھئے "
توجیہ النظر الی اصول اہل الاثر " ج1 ص416
https://archive.org/stream/taherjazaeri/tawjihnazar#page/n415/mode/2up
قابل احترام بھائی ۔ صاحب توجیح النظر تو بہت متاخر ہیں ،اور ظاہری عالم ہیں اگرچہ ان کی بعض تحقیقات اچھی ہوتی ہیں ۔
اور حافظ ابن تیمیہؒ بہت محترم ہیں ۔ اور ان دونوں کا حوالہ کچھ اتنا خلاف بھی نہیں ہے ۔ اس کی بھی توجیح ممکن ہے ۔
لیکن بھائی ، حافظ ابن حجرؒ رجال کے عالم ہیں ۔ انہوں نے طبقات صحابہؓ پر کتاب لکھی ہے ۔ جو صحابہ ؓ پر لکھی کتب میں سب سے جامع سمجھی جاتی ہے ۔ان کے حوالہ کی مزید تنقیح کرتا ہوں ۔انہوں نے اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے طبقات کی قسمیں قائم کی ہیں ۔ قسم اول ۔ جن کا صحابہؓ ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ۔ قسم ثانی ۔ اور پھر ثالث ، پھر رابع بھی قائم کی۔
قسم ثانی کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں ۔
القسم الثاني:
من ذكر في الصحابة من
الأطفال الذين ولدوا في عهد النبي صلّى اللَّه عليه وسلم لبعض الصحابة [ (6) ] من النساء والرجال، ممن مات صلّى اللَّه عليه وسلم وهو في دون سن التمييز، إذ ذكر أولئك في الصحابة إنما هو على سبيل الإلحاق، لغلبة الظنّ على أنه صلّى اللَّه عليه وسلم رآهم لتوفّر [ (7) ] دواعي أصحابه على إحضارهم أولادهم عنده عند ولادتهم ليحنّكهم ويسمّيهم ويبرّك عليهم، والأخبار بذلك كثيرة شهيرة: ففي صحيح مسلم من طريق هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة أن النبي صلّى اللَّه عليه وعلى آله وسلم «كان يؤتى بالصبيان فيبرّك عليهم» [ (8) ] .
ترجمہ کا مفہوم۔
بعض صحابہ ؓ کےوہ بچے جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور وہ آپﷺ کی وفات کے وقت سن تمیز کو نہ پہنچے ، کیونکہ ان کا ذکر صحابہ ؓمیں کرنا اس گمان غالب پر مبنی ہے کہ آپﷺ نے انہیں دیکھا ہے اس واسطے کہ آپ کے صحابہؓ کا اپنے بچوں کو ولادت کے وقت آپﷺ کی خدمت میں لانے کے بے شمار اسباب ہیں، تاکہ آپ ﷺ انہیں گھٹی دیں ان کا نام رکھیں ان کے لئے برکت کی دعا کریں ۔ اس بارے میں احادیث و اخبار بہت مشہور ہیں ۔ چناچہ صحیح مسلم کی روایت میں کہ ((نبی کریمﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ ان کے لئے برکت کی دعا فرماتے تھے۔ اسی طرح حاکم کی روایت میں ہے کہ جس کسی کے ہاں بچہ ہوتا وہ نبی کریم ﷺ کے پاس لایا جاتا اور آپ ﷺ اس کے لئے دعائے خیر فرماتے۔
اور پھر حافظ ابن حجرؒ کے علاوہ طبقات صحابہؓ کی اکثر کتب ابن حبان، ابونعیم ، اسدالغابہ ، وغیرہ میں ان کا ذکر صحابہ ؓ میں ہے ۔
اور حافظ ذہبی ؒ نے تجرید اسماء الصحابہ ؓ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ۔
اور صاحب توجیح کی توجیح یہ ہے کہ وہ تفقہ اور روایت کے باب میں ان کا ذکر کر رہے ۔ جیسا کہ ذہبی ؒ نے دوسری کتاب میں کبار تابعین میں بھی ان کاذکر کیا۔