میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ محمد بن عبدالوھاب نجدی شیعہ تھے کیونکہ میں نے ایک کتاب پڑھی ہے
"مقام اہل بیت او رمحمد بن عبدالوہاب "
جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں اہل بیت کی تعظیم اور توقیر محمد بن عبدالواھاب کے دل میں کیا ہے اس کو بیان کیا گیا ہے جس کے لئے فضل جامعہ السلامیہ مدینہ منورہ جناب فضل الرحمٰن رحمانی ندوی مدنی فرماتے ہیں کہ " ہم شیخ موصوف کی اہل بیت سے محبت اور ان کے لئے آپ کے دل میں پائی جانے والی تعظیم وتوقیر کا تذکرہ خود شیخ موصوف ہی کے اقوال اور اقتباسات سے فراہم کریں اورآگے لکھتے ہیں ہمارے شیخ (یعنی محمد بن عبدالواھاب) اہل بیت کو سرچشمہ مناقب و منبع فضائل گردانتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اہل بیت عزت وشرف کی اوج ثریا پر فائز ہیں اللہ نے ان کو ہرطرح کی گندگی اور آلودگی سے پاک صاف بنایا تھا۔(یہ عقیدہ شیعہ عقیدہ ہے ) آگے رقمطراز ہیں کہ یہ ہے ہمارے شیخ کا اہل بیت کے بارے میں دوٹوک عقیدہ ( یعنی جو شیعہ عقیدہ ہے وہی محمد بن عبدالوھاب کا دوٹوک عقیدہ ہے ) اور پھر بڑی حیرت سے لکھتے ہیں "ہمیں حیرت ہے کہ لوگ کس منہ سے شیخ کو اہل بیت کے بارے میں مورد الزام ٹھراتے ہیں اور ان کی شان میں تہمت طرازیاں کرتے ہیں آگے فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے ( اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت تو شیعہ بھی نہیں دیتے یہ تو شیعہ علی سے دو ہاتھ آگے ہیں )
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں یہی سمجھ پایا ہوں کہ عبدالوھاب نجدی غالی شیعہ ہیں
یہ کتاب محدث کتب لائبریری میں بھی ہے لیکن اس قابل نہیں کہ پڑھا جاسکے
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/181-total-books/530-maqam-e-ahl-e-bait-aur-muhammad-bin-abdulwhab.html
محترم، پہلی بات تو یہ کہ آپ کی پوسٹ قطعاً دھاگے کے عنوان سے غیر متعلق ہے۔ بہتر تھا اگر آپ اس پر علیحدہ دھاگا بنا کر اپنے یہ عجیب و غریب دلائل پیش فرماتے۔
آپ کا عائد کردہ الزام کہ:
اہل بیت عزت وشرف کی اوج ثریا پر فائز ہیں اللہ نے ان کو ہرطرح کی گندگی اور آلودگی سے پاک صاف بنایا تھا۔(یہ عقیدہ شیعہ عقیدہ ہے )
پہلی بات یہ کہ شیعہ عقیدہ اہل بیت کی معصومیت کا ہے۔ اور درج بالا جملہ میں ایسا کوئی عقیدہ بیان نہیں کیا گیا۔
دوسری بات یہ کہ یہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہ آپ کا بہتان ہے۔ کیونکہ درج بالا جملہ سے قبل باقاعدہ ہیڈنگ لگا کر اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ یہاں تطہیر سے شیخ رحمہ اللہ کے نزدیک کیا مراد ہے۔ ملاحظہ کیجئے بالا عبارت سے متصل قبل یہ اقتباس:
"شیخ رحمہ اللہ اہل بیت کے بارے میں دو ٹوک اور صاف و شفاف عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کو آلودگی سے منزہ فرما دیا تھا اور
ان کو اخلاق ذمیمہ سے پاک کر دیا تھا اسی لئے اچھے کام کرنا اہل بیت کا شیوہ تھا اور مذموم افعال سے کنارہ کشی ان کی فطرت تھی۔"
لہٰذا تطہیر سے مراد اخلاق ذمیمہ سے تطہیر ہے۔ اور اس سے بھی تسلی نہ ہو تو یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
"اس باب میں شیخ رحمہ اللہ نے آیت تطہیر سے مراد یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کو
اعمال خبیثہ کی آلودگی سے پاک و صاف رکھا ہے اور اس معنی کی تاکید آپ کے مذکورہ رسالہ میں لکھے ہوئے خطبہ میں، اس بیان سے ہوتی ہے جس کو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کے ذکر کے سیاق میں لکھا ہے اس میں آپ نے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ((اذھب اللہ عنھم الرجس و طھرم تطھیراَ)) ۔۔۔"اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے ہر قسم کی گندگی کو دور کر دیا ہے اور انہیں پاک صاف کر دیا ہے۔"
لہٰذا اہل سنت کا اہل بیت کو اعمال خبیثہ کی آلودگی سے پاک و صاف جاننا اور اہل تشیع کا انہیں کسی بھی قسم کے گناہ سے معصوم جاننا، ہر گز ایک جیسا عقیدہ نہیں ہے۔
رہا آپ کا عائد کردہ یہ الزام کہ:
"ہمیں حیرت ہے کہ لوگ کس منہ سے شیخ کو اہل بیت کے بارے میں مورد الزام ٹھراتے ہیں اور ان کی شان میں تہمت طرازیاں کرتے ہیں آگے فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے ( اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت تو شیعہ بھی نہیں دیتے یہ تو شیعہ علی سے دو ہاتھ آگے ہیں )
تو اس کے لئے کچھ باتیں نوٹ کیجئے:
1۔ سیاق عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے شیخ کی جانب یہ عقیدہ ان کے مجموعہ رسائل میں رسالہ نمبر 48 کی نسبت سے بیان کیا ہے۔ اور اس پورے رسالہ میں اہل بیت کی کل کائنات پر فضیلت کا کوئی تذکرہ تک نہیں۔
2۔ اگر یہ عقیدہ واقعی شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا ہوتا، تو اس رسالہ میں نہ سہی، ان کی کسی نہ کسی دوسرے رسالہ میں اس کا تذکرہ ضرور مل جاتا اور اہل تشیع ایک مترجم کی نسبت سے ان پر الزام لگانے کے بجائے، براہ راست ان کی کتب کا حوالہ پیش کر کے شور و غوغا کر رہے ہوتے۔ چونکہ آپ کے پاس فقط ایک مترجم کی عبارت ہے اور اس کی تائید کے لئے کچھ بھی نہیں، لہٰذا شیخ کی جانب اس عقیدہ کی نسبت کرنا غلطی ہے۔
اب رہ گئی فقط یہ بات کہ مترجم اتنے بڑے عالم فاضل ہیں، تو انہوں نے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی جانب ایک ایسے عقیدہ کی نسبت کیوں کی، جو ان کا ہے ہی نہیں؟ کیا انہوں نے جھوٹ کہا ہے یا دھوکہ دیا ہے؟ یا خود مترجم ہی کا عقیدہ یہ تھا۔ تو یہ سب بچکانہ اعتراضات ہیں۔
پہلی بات تو اس ضمن میں یہ نوٹ کرنی چاہئے کہ اس عقیدے کے حامل خود اہل تشیع بھی نہیں، کجا یہ کہ اتنے بڑے امام اہل سنت کا یہ عقیدہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ اس پوری کتاب میں اس جملے یا عقیدہ کی تائید میں کوئی اشارہ تک موجود نہیں، کجا یہ کہ کتاب و سنت کے دلائل سے اس عقیدہ کو ثابت کیا گیا ہو۔
تیسری بات یہ کہ یہ عام بات ہے کہ جوش خطابت یا سبقت قلم سے بعض اوقات ایسی غلطیاں صادر ہو جاتی ہیں، جو نہ مصنف کا منشا ہوتا ہے اور نہ مترجم کا۔ لوگ اس کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں، لیکن مصنف کی منشا کچھ اور ہوتی ہے۔ اسی عقیدہ یا عبارت کا سیاق ملاحظہ کیجئے:
ااس رسالہ میں شیخ رحمہ اللہ نے اس بات کی توضیح کرنا چاہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اہل بیت کی اساس و بنیاد ہیں اسی وجہ سے اہل بیت کو پوری کائنات پر فضیلت حاصل ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مترجم یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل کائنات پر فضیلت کی بات کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اہل بیت کی اساس و بنیاد قرار دے کر ان کی کل کائنات پر فضیلت سے اہل بیت کی فضیلت کے ثبوت کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ لفظ "اہل بیت" کے عموم میں کبھی بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ہوتے۔ بلکہ فقط ان کے "گھر والے" شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ درج بالا عبارت میں مترجم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس عموم میں شامل کیا ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس عقیدہ کا حامل نہیں کہ اہل بیت کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فضیلت حاصل ہے۔ جبکہ درج بالا جملہ کے عموم سے یہ معنی بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ جو کہ بداہتاً باطل ہے۔
لہٰذا بالا جملہ کا منشا یہ ہے کہ اگر اہل بیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کیا جائے، تو اہل بیت کے ایک فرد، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کی کل کائنات پر فضیلت ثابت ہے اور متفق علیہ بات ہے۔
اگر کوئی درج بالا وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو کوئی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو مصنف کا یہ عقیدہ ہے اور نہ مترجم کا۔ اور یہ بات مصنف و مترجم دونوں کی دیگر کتب سے ثابت کی جا سکتی ہے۔ جبکہ اس عبارت سے یہ عقیدہ کشید کرنے والے فقط اپنی باطل توجیہہ کے علاوہ اس کی تائید میں کوئی اور عبارت پیش نہیں کر سکتے۔
پھر یہ بھی اہم بات ہے کہ ہمیں مترجم یا مصنف کی معصومیت کا بھی ہرگز دعویٰ نہیں۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ مترجم نے غلطی سے یہ عبارت شیخ رحمہ اللہ کی جانب منسوب کر دی ہو۔ اور خصوصاً جبکہ یہاں مترجم نے شیخ رحمہ اللہ کی کسی عبارت کا ترجمہ بیان نہیں کیا بلکہ ان کے ایک رسالہ کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ اسے مترجم کی دھوکہ دہی یا خیانت یا جھوٹ سے تعبیر کرتے ہیں، اور ہم فقط اسے ان کی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس عقیدہ کی نسبت شیخ کی جانب کرنی درست نہیں۔
آخری بات یہ کہ کسی شخص یا جماعت کا کوئی عقیدہ ہو، وہ یا تو شرم کے مارے یا کسی مصلحت کی وجہ سے لوگوں سے چھپاتا ہے، جیسے کہ اہل تشیع اپنے بعض عقائد ، مثلاً تحریف قرآن وغیرہ کے عقیدہ کو عوام سے چھپاتے ہیں۔ اور یا پھر وہ اس عقیدہ کی صحت پر یقین رکھتا ہے اور غلط ہو یا درست، اس کے اثبات کے لئے دلائل مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تیسری کوئی صورت ہو تو ہمیں بتائیے۔اور یہ دونوں باتیں شیخ رحمہ اللہ کے کلام یا مترجم کے انتساب میں موجود نہیں۔ لہٰذا فقط ایک عبارت کی بنیاد پر غلط توضیح کر کے ان کی جانب ایسے عقیدے کی نسبت عقلاً، عرفاً، شرعاً ہر لحاظ سے غلط ہے، کہ جس کی تردید خود ان کی دیگرکتب میں موجود ہو۔ واللہ اعلم۔
اور جبکہ اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین واقعتاً اختلافی مسائل موجود ہیں، عقیدہ کے بھی اور فروعی بھی۔ تو اپنی جانب سے مخالفین کی جانب ایک فضول عقیدہ کی نسبت کرنا اور پھر اسے تردید یا الزامی حوالہ کے طور پر پیش کر کے خوش ہونا، کوئی قابل تحسین بات نہیں ہے۔