• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا محمّد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا ؟

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح شریعت نازل فرمائی !
امابعد !
قارئین ! ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے اسی طرح ایک آیت کی تشریح بھی دوسری جگہ موجود ہوتی ہے اگر کہیں مجمل حدیث ہو تو غلط فہمی کا امکان تو ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری حدیث سے ہو سکتا ہے ۔جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں مگر اس کے لئے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ۔​
غلط فہمی : -

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي ح و حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ کِلَاهُمَا عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ عَنْ أَيِّ شَيْئٍ کُنْتَ تَسْأَلُهُ قَالَ کُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَدْ سَأَلْتُ فَقَالَ رَأَيْتُ نُورًا

محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، حجاج، بن شاعر، عفان بن مسلم، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے کہا کہ تم کس بات کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ رہے ہو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ہے کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے۔
(صحیح مسلم )

اب ابوذر کی ہی اگلی روایت دیکھیے :-
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ قَالَ نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، یزید بن ابراہیم، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
(صحیح مسلم)

یعنی ایک حدیث میں دیکھنے کی نفی اور دوسری میں اثبات !
ازالہ : -


قارئین ! بات حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جس کو کم علمی کی وجہ سے دو حدیثیں سمجھ لیتے ہیں لوگ !
حدیث زیر بحث کو قتادہ سے روایت کرنے والے محدثین نے اس کو مختصر ذکر کیا ہے اس اختصار ہی کی وجہ سے لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے - امام مسلم نے اس غلطی کو دور کرنے کے لئے فوراً قتادہ کے دوسرے شاگردوں کی سندیں نقل کر دیں اور یہ بتا دیا کہ پہلے صاحب کی روایت میں یہ نقص ہے ، جس کو دور کر لیا جائے ۔ حدیث کے جس حصہ کو وہ صاحب چھوڑ گئے ہیں ، دوسرے اصحاب نے اسے بیان کیا ہے اور وہ حصہ امام مسلم نے آگے بیان کیا ہے گویا اس طرح حدیث کا متن محفوظ ہو گیا ۔ اب ذیل میں دونوں سندوں کے متن درج ذیل ہیں ، مقابلہ کیجیے کہ تضاد کہاں ہے ؟
سند اول : ۔ ابوذر پوچھتے ہیں کہ آپ نے الله کو دیکھا تھا ، آپ فرماتے ہیں " نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ "
سند ثانی و ثالث : - ان اسناد میں وہ الفاظ جو پہلی سند میں رہ گئے ہیں ، مذکور ہیں یعنی آپ نے یہ بھی فرمایا تھا "رَأَيْتُ نُورًا میں نے ایک نور دیکھا ہے۔ "
ان کو ملا کر حدیث کا متن اس طرح ہوا " نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ رَأَيْتُ نُورًا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ میں نے ایک نور دیکھا ہے۔"
امام احمد کی مسند میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی متن میں بیان ہوۓ ہیں - الفاظ یہ ہیں : ۔
قَدْ رَأَيْتُهُ نُورًا أَنَّى أَرَاهُ

میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟
(مسند احمد)

امام مسلم کی دانائی کی داد دینی چاہیے کہ پہلے تو انہوں نے مختصر حدیث کو مکمل کیا ، پھر مزید غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے فوراً اس روشنی(نور ) کی تشریح میں جس کو آپ نے دیکھا تھا ایک اور حدیث نقل کر دی جس کے الفاظ یہ ہیں :۔
حِجَابُهُ النُّورُ

الله کا حجاب بھی نور ہے ۔
(صحیح مسلم )

گویا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جو روشنی دیکھی تھی وہ حجابات کی روشنی تھی نہ کہ الله تعالیٰ کے ذاتی نور کی روشنی ۔
لہذا تضاد کی کوئی صورت باقی نہ رہی ۔

احادیث کی روایت میں بسا اوقات کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جس کے باعث روایتوں میں تضاد نظر آتا ہے۔ کبھی یہ تضاد محض راویوں کی غلط فہمی کے باعث پیدا ہوتا ہے اور کبھی ایک حدیث دوسری سے منسوخ ہوا کرتی ہے۔
بعض اوقات روایتوں میں ایک بات جزوی طور پر بیان کی گئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بظاہر احادیث میں اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس موضوع سے متعلق تمام روایتوں کو اکٹھا کیا جائے تو پھر پوری بات درست طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے۔
بسا اوقات احادیث میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہوتا۔ یہ محض بات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کے باعث محسوس ہوتا ہے۔ احادیث کا مطالعہ اگر دقت نظر سے کیا جائے تو یہ تضاد دور ہو جاتا ہے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم
جب آخرت میں ایک عام مسلمان بھی اللہ کا دیدار کر سکے گا تو نبی آخری الزماں جو کائنات کی افضل ترین شخصیت ہیں وہ کیا دنیاوی زندگی میں اللہ کا دیدار نہیں کر سکتے ۔ جب ایک حدیث رویت باری کی ہے تو اس کی تاویل کی کیا ضرورت ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جب آخرت میں ایک عام مسلمان بھی اللہ کا دیدار کر سکے گا تو نبی آخری الزماں جو کائنات کی افضل ترین شخصیت ہیں وہ کیا دنیاوی زندگی میں اللہ کا دیدار نہیں کر سکتے ۔
یہ اٹکل ہے، قرآن و حدیث کی دلیل نہیں! جنتی عالم آخرت میں اللہ کا دیدار کریں گے، یہ خبر ہے عالم آخرت کی! اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا!
کل کو کوئی منچلا یہ اتکل لڑائے کہ ابلیس زندہ ہے جبکہ اس کی پیدائش آدم علیہ السلام سے بھی پہلے کی ہے، اور اسے موت نہیں آئی ، تو آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہ السلام کو موت کیسے آسکتی ہے، جبکہ وہ تو افضل ہیں!
ہم یہی کہیں گے کہ یہ قیاس شرعی نہیں بلکہ اٹکل پچھو ہیں، جو قرآن وحدیث کی خبر کے متضاد ہیں!
جب ایک حدیث رویت باری کی ہے تو اس کی تاویل کی کیا ضرورت ہے۔
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں کہ جس میں آنکھوں سے رویت باری تعالیٰ کا اثبات ہو، اور نہ کسی تاویل کی حاجت ہے!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و بر کاتہ

محترم
پھر دونوں احادیث میں تطبیق کیسے ہوگی ۔
میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟
جب اس حدیث میں کلی نفی ہے دیکھنے کی۔
پھر آخرت میں کیا ایسی چیز ہوگی کہ تمام حجابا ت ختم ہوجائیں گے۔ انسانی حواس تو وہی ہوں گے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
@nasim ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں:

حدثنيزهير بن حرب، حدثناإسماعيل بن إبراهيم، عن داود، عنالشعبي، عنمسروق، قال:‏‏‏‏ كنت متكئا عند عائشة
، فقالت:‏‏‏‏ يا ابا عائشة، ‏‏‏‏‏‏ثلاث من تكلم بواحدة منهن، ‏‏‏‏‏‏فقد اعظم على الله الفرية، ‏‏‏‏‏‏قلت:‏‏‏‏ ما هن؟ قالت:‏‏‏‏ من زعم ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه، ‏‏‏‏‏‏فقد اعظم على الله الفرية، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ وكنت متكئا فجلست، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ يا ام المؤمنين، ‏‏‏‏‏‏انظريني ولا تعجليني، ‏‏‏‏‏‏الم يقل الله عز وجل:‏‏‏‏ ولقد رآه بالافق المبين سورة التكوير آية 23، ‏‏‏‏‏‏ولقد رآه نزلة اخرى سورة النجم آية 13، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ انا اول هذه الامة، ‏‏‏‏‏‏سال عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ " إنما هو جبريل، ‏‏‏‏‏‏لم اره على صورته التي خلق عليها، ‏‏‏‏‏‏غير هاتين المرتين، ‏‏‏‏‏‏رايته منهبطا من السماء، ‏‏‏‏‏‏سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الارض "، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ اولم تسمع ان الله يقول:‏‏‏‏ لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار وهو اللطيف الخبير سورة الانعام آية 103؟ اولم تسمع ان الله يقول:‏‏‏‏ وما كان لبشر ان يكلمه الله إلا وحيا او من وراء حجاب او يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم سورة الشورى آية 51؟ قالت:‏‏‏‏ ومن زعم، ‏‏‏‏‏‏ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏كتم شيئا من كتاب الله، ‏‏‏‏‏‏فقد اعظم على الله الفرية، ‏‏‏‏‏‏والله يقول:‏‏‏‏ يايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته سورة المائدة آية 67، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ ومن زعم، ‏‏‏‏‏‏انه يخبر بما يكون في غد، ‏‏‏‏‏‏فقد اعظم على الله الفرية، ‏‏‏‏‏‏والله يقول:‏‏‏‏ قل لا يعلم من في السموات والارض الغيب إلا الله سورة النمل آية 65،

‏‏‏‏
صحیح مسلم --- ایمان کے احکام و مسائل --- باب : اس باب میں یہ بیان ہے کہ «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات میں دیکھا تھا یا نہیں ۔ [صحیح مسلم]
حدیث نمبر : 439 --- مسروق سے روایت ہے ، میں تکیہ لگائے ہوئے تھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ۔ انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ (یہ کنیت ہے مسروق کی) کہ تین باتیں ہیں جو کوئی ان کا قائل ہو اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر ۔ میں نے کہا: وہ تین باتیں کون سی ہیں ؟ انہوں نے کہا: (ایک یہ ہے ) جو کوئی سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ، اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر ۔ مسروق نے کہا: میں تکیہ لگائے تھا یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور میں نے کہا: اے ام المؤمنین ! ذرا مجھے بات کرنے دیں اور جلدی مت کریں ، کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا : «وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٭ وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَى» سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مراد ان آیتوں میں جبریل علیہ السلام ہیں ۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا ۔ سوائے دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے میں نے دیکھا ، ان کو وہ اتر رہے تھے آسمان سے اور ان کے تن و توش کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک روک دیا تھا ۔ “ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تو نے نہیں سنا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : «لَا تُدْرِكُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ» کیا تو نے نہیں سنا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ» تک (دوسری یہ ہے ) کہ جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر ۔ اللہ فرماتا ہے «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یعنی ”اے پیغام پہنچانے والے ! پہنچا دے جو اترا تجھ پر تیرے رب کے پاس سے اور جو ایسا نہ کرے تو تو نے پیغام نہیں پہنچایا“ (تیسری یہ ہے ) جو کوئی کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال) تو اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر ... اللہ خود فرماتا ہے : «قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّہُ» ” (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ) آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کی بات نہیں جانتا سوائے اللہ کے “ ۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح شریعت نازل فرمائی !
امابعد !

غلط فہمی : -

جب آخرت میں ایک عام مسلمان بھی اللہ کا دیدار کر سکے گا تو نبی آخری الزماں جو کائنات کی افضل ترین شخصیت ہیں وہ کیا دنیاوی زندگی میں اللہ کا دیدار نہیں کر سکتے ۔
ازالہ : -

نہیں کر سکتے
۔الله کے رسول الله علیہ وسلم نے فرمایا :-
تعلموا انه لن يرى احد منكم ربه عز وجل، ‏‏‏‏‏‏حتى يموت

تم یہ جان رکھو کہ کوئی آدمی اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا

(صحیح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ: و سنن ترمزی كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي عَلاَمَةِ الدَّجَّالِ)

اچھا یہ بتائیے کہ :

موسیٰ علیہ السلام نے کرنا چاہا تھا تو کیا ہوا تھا ؟؟؟
غلط فہمی : -

جب ایک حدیث رویت باری کی ہے تو اس کی تاویل کی کیا ضرورت ہے۔
ازالہ : -

جناب اسی بات کا ازالہ زیر مشاہدہ تحریر میں کیا گیا تھا لیکن آپ نے اس کو سمجھنے کی بجائے وہی بات کہہ دی ۔

ہم نے ازالہ کا آغاز ہی یہ کہہ کر شروع کیا تھا کہ :
قارئین !
بات حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جس کو کم علمی کی وجہ سے دو حدیثیں سمجھ لیتے ہیں لوگ !

بہرحال آپ مکمل تحریر کو بار بار پڑھیے ، یہاں تک کہ حق بات آپ کو سمجھ میں آ جائے ! الا ما شاء الله

سوال : -


جب اس حدیث میں کلی نفی ہے دیکھنے کی۔
پھر آخرت میں کیا ایسی چیز ہوگی کہ تمام حجابا ت ختم ہوجائیں گے۔ انسانی حواس تو وہی ہوں گے۔

جواب : -

آپ کو جواب دو احادیث نبوی سے دیا جائے گا ملاحظہ کیجیے : -
پہلی : -

الله کے رسول الله علیہ وسلم نے فرمایا :-

تعلموا انه لن يرى احد منكم ربه عز وجل، ‏‏‏‏‏‏حتى يموت

تم یہ جان رکھو کہ کوئی آدمی اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا

(صحیح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ باب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ: و سنن ترمزی كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي عَلاَمَةِ الدَّجَّالِ)

دوسری : -

حدثني محمد بن عبد العزيز، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابو عمر حفص بن ميسرة، ‏‏‏‏‏‏عن زيد بن اسلم، ‏‏‏‏‏‏عن عطاء بن يسار، ‏‏‏‏‏‏عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏هل نرى ربنا يوم القيامة؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "نعم، ‏‏‏‏‏‏هل تضارون في رؤية الشمس بالظهيرة، ‏‏‏‏‏‏ضوء ليس فيها سحاب؟"قالوا:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "وهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر، ‏‏‏‏‏‏ضوء ليس فيها سحاب؟"قالوا:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "ما تضارون في رؤية الله عز وجل يوم القيامة، ‏‏‏‏‏‏إلا كما تضارون في رؤية احدهما ---- الخ

مجھ سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔۔۔۔الخ
(صحیح بخاری كتاب التفسير بَابُ: {إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ} يَعْنِي زِنَةَ ذَرَّةٍ و صحیح مسلم )


الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و بر کاتہ
پھر آخرت میں کیا ایسی چیز ہوگی کہ تمام حجابا ت ختم ہوجائیں گے۔ انسانی حواس تو وہی ہوں گے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
آخرت کی زندگی دنیاوی زندگی سے یکسر مختلف ہو گی۔ وہاں انسان کی دیکھنے ، سننے اور بولنے کی صلاحیت بڑھ جا ئے گی جس سے یہ بات آپ سے آپ مبرہن ہو جاتی ہے کہ مؤمن بندوں کے لیے اللہ تعالٰی کو آخرت میں دیکھنا بعید از امکان نہیں۔ کیونکہ جو ذات دنیاوی زندگی میں ان انسانی صلاحیتوں کو محدود کر سکتی ہے تو کیا وہ انسان کے مر کر جی اُٹھنے کے بعد ان صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کر سکتا ؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
آخرت کی زندگی دنیاوی زندگی سے یکسر مختلف ہو گی۔ وہاں انسان کی دیکھنے ، سننے اور بولنے کی صلاحیت بڑھ جا ئے گی جس سے یہ بات آپ سے آپ مبرہن ہو جاتی ہے کہ مؤمن بندوں کے لیے اللہ تعالٰی کو آخرت میں دیکھنا بعید از امکان نہیں۔ کیونکہ جو ذات دنیاوی زندگی میں ان انسانی صلاحیتوں کو محدود کر سکتی ہے تو کیا وہ انسان کے مر کر جی اُٹھنے کے بعد ان صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کر سکتا ؟
اس ذات کیلئے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔
لیکن کیا یہاں آپ قیاس کر رہے ہیں کہ ایسا ہوگا ؟یا اس کا بھی کوئی ثبوت ملتا ہے کہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوجائیگا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن کیا یہاں آپ قیاس کر رہے ہیں کہ ایسا ہوگا ؟یا اس کا بھی کوئی ثبوت ملتا ہے کہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوجائیگا۔
یہ قیاس نہیں!
بلکہ قران میں وارد خبر پر اعتراض کے باطل ہونے پر منطقی دلیل ہے!
 
Top