راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح شریعت نازل فرمائی !
امابعد !
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح شریعت نازل فرمائی !
امابعد !
قارئین ! ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے اسی طرح ایک آیت کی تشریح بھی دوسری جگہ موجود ہوتی ہے اگر کہیں مجمل حدیث ہو تو غلط فہمی کا امکان تو ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری حدیث سے ہو سکتا ہے ۔جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں مگر اس کے لئے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ۔
غلط فہمی : -
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي ح و حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ کِلَاهُمَا عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ عَنْ أَيِّ شَيْئٍ کُنْتَ تَسْأَلُهُ قَالَ کُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَدْ سَأَلْتُ فَقَالَ رَأَيْتُ نُورًا
محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، حجاج، بن شاعر، عفان بن مسلم، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے کہا کہ تم کس بات کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ رہے ہو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ہے کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے۔
(صحیح مسلم )
اب ابوذر کی ہی اگلی روایت دیکھیے :-
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ قَالَ نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، یزید بن ابراہیم، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
(صحیح مسلم)
یعنی ایک حدیث میں دیکھنے کی نفی اور دوسری میں اثبات !
ازالہ : -
قارئین ! بات حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جس کو کم علمی کی وجہ سے دو حدیثیں سمجھ لیتے ہیں لوگ !
حدیث زیر بحث کو قتادہ سے روایت کرنے والے محدثین نے اس کو مختصر ذکر کیا ہے اس اختصار ہی کی وجہ سے لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے - امام مسلم نے اس غلطی کو دور کرنے کے لئے فوراً قتادہ کے دوسرے شاگردوں کی سندیں نقل کر دیں اور یہ بتا دیا کہ پہلے صاحب کی روایت میں یہ نقص ہے ، جس کو دور کر لیا جائے ۔ حدیث کے جس حصہ کو وہ صاحب چھوڑ گئے ہیں ، دوسرے اصحاب نے اسے بیان کیا ہے اور وہ حصہ امام مسلم نے آگے بیان کیا ہے گویا اس طرح حدیث کا متن محفوظ ہو گیا ۔ اب ذیل میں دونوں سندوں کے متن درج ذیل ہیں ، مقابلہ کیجیے کہ تضاد کہاں ہے ؟
سند اول : ۔ ابوذر پوچھتے ہیں کہ آپ نے الله کو دیکھا تھا ، آپ فرماتے ہیں " نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ "
سند ثانی و ثالث : - ان اسناد میں وہ الفاظ جو پہلی سند میں رہ گئے ہیں ، مذکور ہیں یعنی آپ نے یہ بھی فرمایا تھا "رَأَيْتُ نُورًا میں نے ایک نور دیکھا ہے۔ "
ان کو ملا کر حدیث کا متن اس طرح ہوا " نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ رَأَيْتُ نُورًا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ میں نے ایک نور دیکھا ہے۔"
امام احمد کی مسند میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی متن میں بیان ہوۓ ہیں - الفاظ یہ ہیں : ۔
قَدْ رَأَيْتُهُ نُورًا أَنَّى أَرَاهُ
میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟
(مسند احمد)
امام مسلم کی دانائی کی داد دینی چاہیے کہ پہلے تو انہوں نے مختصر حدیث کو مکمل کیا ، پھر مزید غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے فوراً اس روشنی(نور ) کی تشریح میں جس کو آپ نے دیکھا تھا ایک اور حدیث نقل کر دی جس کے الفاظ یہ ہیں :۔
حِجَابُهُ النُّورُ
الله کا حجاب بھی نور ہے ۔
(صحیح مسلم )
گویا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جو روشنی دیکھی تھی وہ حجابات کی روشنی تھی نہ کہ الله تعالیٰ کے ذاتی نور کی روشنی ۔
لہذا تضاد کی کوئی صورت باقی نہ رہی ۔
احادیث کی روایت میں بسا اوقات کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جس کے باعث روایتوں میں تضاد نظر آتا ہے۔ کبھی یہ تضاد محض راویوں کی غلط فہمی کے باعث پیدا ہوتا ہے اور کبھی ایک حدیث دوسری سے منسوخ ہوا کرتی ہے۔
بعض اوقات روایتوں میں ایک بات جزوی طور پر بیان کی گئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بظاہر احادیث میں اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس موضوع سے متعلق تمام روایتوں کو اکٹھا کیا جائے تو پھر پوری بات درست طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے۔
بسا اوقات احادیث میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہوتا۔ یہ محض بات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کے باعث محسوس ہوتا ہے۔ احادیث کا مطالعہ اگر دقت نظر سے کیا جائے تو یہ تضاد دور ہو جاتا ہے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین