• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مردے سنتے ہیں؟، نبی ﷺ درود بھیجنا؛ تعویذ لٹکا وغیرہ

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ موجودہ دور کے فرقوں شیعہ (خمینی کے نظریات کے حامل) بریلوی (احمد رضا خان بریلوی کے نظریات کے حامل) دیوبندی (محمد قاسم نانوتوی ، اشرف علی تھانوی ، زکریا کاندھلوی، تبلیغی نصاب کے مصنف کے نظریات کے حامل) اہل حدیث (میاں نذیر احمد دہلوی، عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ کے نظریات کے حامل) مرزائی (مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریات کے حامل) کو آپ کا فرو مشرک مانتے ہیں یا مسلم؟
2۔ ایک ہندو کو مسلمان کرتے وقت عہد لیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی پوجا کے لائق نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب اگر وہ ہندو زبانی عبادت اس طرح شروع کردے کہ یاکرشن مدد کر ، یا علی مدد فرماؤ۔ تو وہ ان ہستیوں کو الٰہ مان کر ان کی عبادت کرتا ہے ۔ اس طرح پھر وہ اپنے مذہب کی طرف عہد توڑ کر لوٹ جاتا ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج ہوکر کافر و مشرک بن جاتا ہے ۔ کیا موجودہ فرقے شیعہ ،بریلوی اور دوسرے ان کو مسلمان ماننے والے کافر ومشرک نہیں ہوتے؟ 3۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ان فرقوں میں صحیح العقیدہ لوگ بھی ہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں۔ تو بتائیں کہ شیعہ میں کون سا گروہ یا عالم ایسا گزرا ہے جو صحیح العقیدہ تھا یا موجودہ دور میں موجود ہے۔ اسی طرح بریلوی دیو بندی اور اہل حدیث کے صرف ایک ایک گروہ یا عالم کا نام لکھ دیں؟
4۔ بقول آپ کے درود نبی ﷺ کے حضور پیش ہوتا ہے ، درود ایک عبادت ہے ۔ دعائیہ عمل ہے، سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ درود پڑھتے وقت بھی ہم دعا اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! محمدﷺ پر رحمتیں نازل فرما۔ تو فرشتے ہماری اس دعا کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے رسول ﷺکے حضور کیوں پیش کرتے ہیں؟ کیا وہ (فرشتے) عربی سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال نبیﷺ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ نبی ﷺ کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ 5۔ فتاویٰ نذیریہ صفحہ نمبر: ۶۰۷ ، حصہ اول ، مطبوعہ اہل حدیث اکادمی ، لاہور۔ میں میاں نذیر دہلوی لکھتے ہیں کہ نبیa نے فرمایا کہ : ’’ قبر پر پڑھا جانے والا دُرود میں خود سنتا ہوں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ، پ:۲۲ ، سورۂ أحزاب) [ ’’ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں۔ محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے۔ ‘‘] اس حدیث کو وہ صحیح مان کر کہتے ہیں کہ نبیﷺ قبر پر پڑھا جانے والا درود سنتے ہیں اس طرح سماع موتی کا عقیدہ رکھنے والے کے متعلق آپ کا کیا خیا ل ہے اسے رحمۃ اللہ علیہ کہیں گے یا نہیں؟ اسی طرح وحید الزمان صاحب (اہل حدیث کے پیشوا حافظ ابن قیم نے صراحتاً سماع موتی کو ثابت کیا ہے اور بے شمار حدیثوں سے، جن کو امام سیوطی نے شرح الصدور میں ذکر کیا ہے ، مردوں کا سماع ثابت ہوتا ہے اور سلف کا اس پر اجماع ہے۔ صرف عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا انکار منقول ہے اور ان کا قول شاذ ہے۔ جیسے معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول کہ معراج ایک خواب تھا۔) ایسے سماع موتیٰ کے اقراری علماء کے بارے میں بتائیں کہ کیا آپ ان کے نظریات سے متفق ہیں یا انہیں قرآن و حدیث کا انکار کرنے والے مانتے ہیں؟ القرآن:…
’’ آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ ‘‘ [النحل:۸۰]
’’اللہ جسے چاہتا ہے ، سنواتا ہے، مگر (اے نبی!) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔ ‘‘ [فاطر: ۲۲]
’’ یعنی اس شخص سے زیادہ گمراہ اور کون ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے۔ حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔‘‘ [الاحقاف:۶ ، ۵]سماع موتیٰ کا عقیدہ رکھنے سے درج بالا قرآنی آیات کا انکار ہوجائے گا۔ 6۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ: تم دونوں مجھے رات بھر گھماتے پھراتے رہے… میں جبریل ہوں اور یہ میرے ساتھی میکائیل ہیں۔ ذرا اپنا سر اوپر تو اٹھائیے۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر بادل سا دیکھا۔ ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ کا مقام ہے۔ میں نے (نبیﷺ) نے کہا مجھے چھوڑ دو۔ میں اپنے گھر میں داخل ہوجاؤں۔ ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے، جس کو آپ نے پورا نہیں کیا ہے۔ اگر آپﷺ اس کو پورا کرلیں تو اپنے اس گھر میں آجائیں۔ صحیح بخاری جلد اول ، صفحہ نمبر: ۱۸۵ مطبوعۃ دہلی بقول آپ کے نبیa مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں، لیکن بخاری صفحہ نمبر: ۶۴۰ ، ۵۱۷ میں درج ہے کہ نبی کی وفات کے موقع پر عمر bکھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! نبی کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میرے ذہن میں یہی بات آئی اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور زندہ کرے گا… پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے… اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اللہ آپ کو دو موتوں کا مزہ نہ چکھائے گا۔، پھر وہ باہر نکل گئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے قسم کھانے والے! اتنی تیزی نہ کر… حمد و ثناء کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سن رکھو تم میں سے جو محمدﷺ کی بندگی کرتا تھا، اسے معلوم ہو کہ محمدﷺ وفات پاگئے ہیں… اس کے بعد سورۂ آل عمران آیت:۱۴۴ تلاوت فرمائی… عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! جس دم میں نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا تو گھٹنوں کے بل گر پڑا اور ایسا بے دم ہوا کہ میرے پاؤں مجھے سہارا نہ دے سکے ، یہاں تک کہ میں زمین کی طرف جھک گیا۔ جس وقت مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اللہ کے نبیa وفات پاگئے ہیں۔ ترجمہ عبارت صفحہ:۵۱۷ ، جلد اول، صفحہ ۶۴۰ ، جلد دوم، صحیح بخاری مطبوعہ دہلی۔ درج بالا دونوں حدیثوں کے مطابق آپ کا قول نہیں ہے ، وضاحت کریں؟ القرآن:… ’’ آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ ‘‘ [الزمر:۳۰] جب سارے صحابہ کا اجماع ہوگیا کہ نبیﷺ کو موت آچکی ہے اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ بھی نہیں کیے جائیں گے۔تو آپ نبیﷺ کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر قرآن و حدیث کا کفر کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ صحابہرضی اللہ عنہم پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے رسول کو زندہ درگور کیا؟ 7۔ قرآن میں دو زندگیوں اور دو موتوں کا ذکر ہے ، پورے قرآن میں مرنے والے کو مردہ اور جان کی رمق نہ رکھنے والا قرار دیا گیا ہے آپ کے پاس تیسری زندگی کا کیا ثبوت ہے؟ [النحل:۲۱] 8۔ صحیح مسلم ، جلد دوم ، صفحہ نمبر: ۳۶ ۔۱۳۵ ، مطبوعہ دہلی کی حدیث کے مطابق شہداء کی روحوں کو قبض ہونے کے بعد شہداء کی فرمائش کے باوجود دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔ اسی طرح قرآن میں بھی موت کے بعد روح لوٹائے جانے کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن ہر انسان کو مردہ ہونے کے بعد بے شعور ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ آپ کے پاس روح لوٹائے جانے کی کوئی دلیل ہے ۔ اسے بحوالہ پیش کریں؟ 9۔ کسی تعویذ پہننے والے سے پوچھیں کہ اسے آپ نے کیوں پہنا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف دور ہوگی، اس کا پورا ایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ تعویذ غائبانہ طور پر میری مدد کرے گا۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی رہنمائی کرتا ہے کہ: ’’ جس نے تعویذ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔‘‘ (مسند احمد ، ص:۱۵۶ ، جلد چہارم)اس میں نبیﷺ نے قرآنی تعویذ یا غیر قرآنی تعویذ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی پوری زندگی آپﷺ نے کوئی تعویذ بتایا۔ آپ اس کو شرک کہتے ہیں یا بدعت؟ 10۔ ’’ اے نبی! اعلان فرمادیجیے کہ اگر میں نے تم لوگوں سے اسی دین پر معاوضہ مانگا تو وہ تمہارا ہی رہا میرا صلہ اور مزدوری تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ ‘‘ [سورۂ سبا آیت نمبر: ۴۷] آپ کی جماعت بھی دینی اُمور پر اجرت لیتی ہے۔ آپ اس قرآنی آیت کو کس طرح بیان اور عمل کب کریں گے؟
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
السلام علیکم
۔عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلی علی عند قبری سمعۃ ومن صلی علی نائیاً ابلغتہ ۔رواہ البیہقی فی شعب الایمان کذافی المشکوۃ وبسط السخاوی فی تخریجہ۔ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جوشخص مجھ پر میری قبر کے قریب درود بھیجتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر بھیجتا ہے وہ مجھ کو پہنچا دیا جاتا ہے ۔ فائدہ: علامہ سخاویؒ نے قول بدیع میں متعدد روایات سے یہ مضمون نقل کیا ہے کہ جو شخص دور سے درود بھیجے فرشتہ اس پر متعین ہے کہ حضورﷺ تک پہنچائے اور جو شخص قریب سے پڑھتا ہے حضوراقدس ﷺ اس کو خود سنتے ہیں……اس حدیث پاک میں دوسرا مضمون کہ قبر اطہر کے قریب درود پڑھے اس کو حضورﷺ بنفس نفیس خود سنتے ہیں بہت ہی قابل فخر قابل عزت قابل لذت چیز ہے ۔ فضائل درود شریف ص۳۰

اس روایت کی مکمل تحقیق درکار ہے،،،،درود کے متعلق،،،،،،،،،،،،کہ آپ ﷺ قبر اطہر میں خود سنتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم
۔عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلی علی عند قبری سمعۃ ومن صلی علی نائیاً ابلغتہ ۔رواہ البیہقی فی شعب الایمان کذافی المشکوۃ وبسط السخاوی فی تخریجہ۔ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جوشخص مجھ پر میری قبر کے قریب درود بھیجتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر بھیجتا ہے وہ مجھ کو پہنچا دیا جاتا ہے ۔ فائدہ: علامہ سخاویؒ نے قول بدیع میں متعدد روایات سے یہ مضمون نقل کیا ہے کہ جو شخص دور سے درود بھیجے فرشتہ اس پر متعین ہے کہ حضورﷺ تک پہنچائے اور جو شخص قریب سے پڑھتا ہے حضوراقدس ﷺ اس کو خود سنتے ہیں……اس حدیث پاک میں دوسرا مضمون کہ قبر اطہر کے قریب درود پڑھے اس کو حضورﷺ بنفس نفیس خود سنتے ہیں بہت ہی قابل فخر قابل عزت قابل لذت چیز ہے ۔ فضائل درود شریف ص۳۰

اس روایت کی مکمل تحقیق درکار ہے،،،،درود کے متعلق،،،،،،،،،،،،کہ آپ ﷺ قبر اطہر میں خود سنتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ روایت ضعیف ہے -

مزید معلومات کے لئے یہ لنک ملاحظه کریں -

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/5129/0/

ویسے روایت کے الفاظ کے ترجمے سے ہی اس کا مردود ہونا ثابت ہو رہا ہے- کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اپنی قبر مبارک سے آواز دے کر لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ "جو شخص مجھ پر میری قبر کے قریب درود بھیجتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر بھیجتا ہے وہ مجھ کو پہنچا دیا جاتا ہے" -؟؟؟

بالفرض اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو الفاظ یہ ہونے چاہیے تھے - "جوشخص میری وفات کے بعد مجھ پر میری قبر کے قریب درود بھیجے گا میں اس کو خود سنوں گا اور جو دور سے مجھ پر بھیجے گا وہ مجھ کو پہنچا دیا جائے گا"
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
مزید یہ کہ قبر میں مدفون مردہ انسان از خود نہیں سن سکتا اگر الله سنوا دے تو سن سکتا ہے - جیسا کہ الله کا ارشاد پاک ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں-

یہ اللہ کی قدرت ہے کہ وہ قبروں میں مدفون انبیاء یا عام انسانوں کو سنواے - جب کہ مذکورہ حدیث کے الفاظ ہیں -

" جوشخص مجھ پر میری قبر کے قریب درود بھیجتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں"-

یہ روایت قرآن کے حکم سے بھی متعارض ہے اس لئے قابل قبول نہیں (واللہ اعلم)-
 

شاہین

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
38
مزید یہ کہ قبر میں مدفون مردہ انسان از خود نہیں سن سکتا اگر الله سنوا دے تو سن سکتا ہے - جیسا کہ الله کا ارشاد پاک ہے

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں-

یہ اللہ کی قدرت ہے کہ وہ قبروں میں مدفون انبیاء یا عام انسانوں کو سنواے - جب کہ مذکورہ حدیث کے الفاظ ہیں -

" جوشخص مجھ پر میری قبر کے قریب درود بھیجتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں"-

یہ روایت قرآن کے حکم سے بھی متعارض ہے اس لئے قابل قبول نہیں (واللہ اعلم)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں جس روایت کی حقیقت پوچھی گئی ہے ،وہ درج ذیل ہے :
یہ روایت یہاں مشکاۃ المصابیح کے (باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم وفضلها ) سے نقل کی گئی ہے ،

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته»
رواه البيهقي في شعب الإيمان

’’ سیدنا ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ :
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو میری قبر پر درود پڑھے اس کو میں سنتا ہوں ،اور جو قبر سے دور پڑھے وہ مجھ پر پہنچایا جاتا ہے

استاذ العلماء جناب حافظ عبد المنان نور پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے متعلق سوال کے جواب میں لکھا کہ :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں ذکر کردہ روایت کا صاحب مشکاۃ حوالہ دیتے ہیں: رواہ البیہقی فی ( شعب الایمان) اس کی سند میں محمد بن مروان سدی راوی کذاب ہے ۔ اس لیے یہ روایت ثابت نہیں انتہائی کمزور ہے۔1 واللہ اعلم
رہا اہل حدیث کا عقیدہ تو اس سلسلہ میں ہمارے شیخ و استاذ شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مایہ ناز کتاب
’’ الأدلۃ القویۃ علی أن حیاۃ الانبیاء فی قبورھم لیست بدنیویۃ‘‘ المعروف ’’حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کا مطالعہ فرما لیں۔ ۲۴؍۵؍۱۴۲۳ھ


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
انتہی ما قال الشیخ رحمہ اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس روایت کے متعلق مزید تحقیق
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’ شعب الایمان ‘‘ میں اس روایت کو درج ذیل سند سے نقل فرمایا ہے :


أخبرنا أبو الحسين بن بشران، أخبرنا أبو جعفر محمد بن عمرو بن البختري، حدثنا عيسى بن عبد الله الطيالسي، حدثنا العلاء بن عمرو الحنفي، حدثنا أبو عبد الرحمن، عن الأعمش، ح وأخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان، أخبرنا أبو الحسين أحمد بن عثمان الآدمي، حدثنا محمد بن يونس بن موسى، حدثنا الأصمعي، حدثنا محمد بن مروان السدي، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة،
قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى علي عند قبري وكل بها ملك يبلغني، وكفي بها أمر دنياه وآخرته، وكنت له شهيدا أو شفعيا " هذا لفظ حديث الأصمعي، وفي رواية الحنفي قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من صلى علي عند قبري سمعته، ومن صلى علي نائيا أبلغته "


تحقیق :
اس میں راوی العلاء بن عمر کے متعلق علامہ میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
’’ العلاء بن عمر الحنفي الكوفي متروك ، قال ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به بحال ‘‘
یعنی العلاء بن عمر متروک راوی ہے ،اور امام ابن حبان (المجروحین میں ) فرماتے ہیں کہ اس کی روایت کسی حال میں قابل قبول نہیں ‘‘
اور اس روایت کے دوسرے راوی ’’ محمد بن يونس الكديمى ‘‘ کے متعلق میزان الاعتدال میں ہے :

محمد بن يونس بن موسى القرشي السامى الكديمى البصري الحافظ أحد المتروكين
قال ابن عدي: قد اتهم الكديمى بالوضع، وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث ‘‘

علامہ ذہبی فرماتے ہیں ،یہ بھی ایک متروک راوی ہے اور امام ابن عدی کہتے ہیں :اس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے ،
اور امام ابن حبان فرماتے ہیں :اس نے تقریباً ایک ہزار سے زائد احادیث وضع کیں (یعنی خود بنائیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسرے راوی محمد بن مروان السدى الكوفي، وهو السدى الصغير‘‘ کے متعلق جیسا کہ اوپر فتوی میں درج ہے کہ وہ کذاب ہے ،
علامہ ذہبی فرماتے ہیںتركوه واتهمه بعضهم بالكذب.
 
Last edited:
Top