رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ موجودہ دور کے فرقوں شیعہ (خمینی کے نظریات کے حامل) بریلوی (احمد رضا خان بریلوی کے نظریات کے حامل) دیوبندی (محمد قاسم نانوتوی ، اشرف علی تھانوی ، زکریا کاندھلوی، تبلیغی نصاب کے مصنف کے نظریات کے حامل) اہل حدیث (میاں نذیر احمد دہلوی، عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ کے نظریات کے حامل) مرزائی (مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریات کے حامل) کو آپ کا فرو مشرک مانتے ہیں یا مسلم؟
2۔ ایک ہندو کو مسلمان کرتے وقت عہد لیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی پوجا کے لائق نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب اگر وہ ہندو زبانی عبادت اس طرح شروع کردے کہ یاکرشن مدد کر ، یا علی مدد فرماؤ۔ تو وہ ان ہستیوں کو الٰہ مان کر ان کی عبادت کرتا ہے ۔ اس طرح پھر وہ اپنے مذہب کی طرف عہد توڑ کر لوٹ جاتا ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج ہوکر کافر و مشرک بن جاتا ہے ۔ کیا موجودہ فرقے شیعہ ،بریلوی اور دوسرے ان کو مسلمان ماننے والے کافر ومشرک نہیں ہوتے؟ 3۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ان فرقوں میں صحیح العقیدہ لوگ بھی ہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں۔ تو بتائیں کہ شیعہ میں کون سا گروہ یا عالم ایسا گزرا ہے جو صحیح العقیدہ تھا یا موجودہ دور میں موجود ہے۔ اسی طرح بریلوی دیو بندی اور اہل حدیث کے صرف ایک ایک گروہ یا عالم کا نام لکھ دیں؟
4۔ بقول آپ کے درود نبی ﷺ کے حضور پیش ہوتا ہے ، درود ایک عبادت ہے ۔ دعائیہ عمل ہے، سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ درود پڑھتے وقت بھی ہم دعا اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! محمدﷺ پر رحمتیں نازل فرما۔ تو فرشتے ہماری اس دعا کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے رسول ﷺکے حضور کیوں پیش کرتے ہیں؟ کیا وہ (فرشتے) عربی سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال نبیﷺ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ نبی ﷺ کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ 5۔ فتاویٰ نذیریہ صفحہ نمبر: ۶۰۷ ، حصہ اول ، مطبوعہ اہل حدیث اکادمی ، لاہور۔ میں میاں نذیر دہلوی لکھتے ہیں کہ نبیa نے فرمایا کہ : ’’ قبر پر پڑھا جانے والا دُرود میں خود سنتا ہوں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ، پ:۲۲ ، سورۂ أحزاب) [ ’’ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں۔ محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے۔ ‘‘] اس حدیث کو وہ صحیح مان کر کہتے ہیں کہ نبیﷺ قبر پر پڑھا جانے والا درود سنتے ہیں اس طرح سماع موتی کا عقیدہ رکھنے والے کے متعلق آپ کا کیا خیا ل ہے اسے رحمۃ اللہ علیہ کہیں گے یا نہیں؟ اسی طرح وحید الزمان صاحب (اہل حدیث کے پیشوا حافظ ابن قیم نے صراحتاً سماع موتی کو ثابت کیا ہے اور بے شمار حدیثوں سے، جن کو امام سیوطی نے شرح الصدور میں ذکر کیا ہے ، مردوں کا سماع ثابت ہوتا ہے اور سلف کا اس پر اجماع ہے۔ صرف عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا انکار منقول ہے اور ان کا قول شاذ ہے۔ جیسے معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول کہ معراج ایک خواب تھا۔) ایسے سماع موتیٰ کے اقراری علماء کے بارے میں بتائیں کہ کیا آپ ان کے نظریات سے متفق ہیں یا انہیں قرآن و حدیث کا انکار کرنے والے مانتے ہیں؟ القرآن:…
’’ آپﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ ‘‘ [النحل:۸۰]
’’اللہ جسے چاہتا ہے ، سنواتا ہے، مگر (اے نبی!) آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔ ‘‘ [فاطر: ۲۲]
’’ یعنی اس شخص سے زیادہ گمراہ اور کون ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو آواز دے۔ حالانکہ وہ قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔‘‘ [الاحقاف:۶ ، ۵]سماع موتیٰ کا عقیدہ رکھنے سے درج بالا قرآنی آیات کا انکار ہوجائے گا۔ 6۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ: تم دونوں مجھے رات بھر گھماتے پھراتے رہے… میں جبریل ہوں اور یہ میرے ساتھی میکائیل ہیں۔ ذرا اپنا سر اوپر تو اٹھائیے۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر بادل سا دیکھا۔ ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ کا مقام ہے۔ میں نے (نبیﷺ) نے کہا مجھے چھوڑ دو۔ میں اپنے گھر میں داخل ہوجاؤں۔ ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے، جس کو آپ نے پورا نہیں کیا ہے۔ اگر آپﷺ اس کو پورا کرلیں تو اپنے اس گھر میں آجائیں۔ صحیح بخاری جلد اول ، صفحہ نمبر: ۱۸۵ مطبوعۃ دہلی بقول آپ کے نبیa مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں، لیکن بخاری صفحہ نمبر: ۶۴۰ ، ۵۱۷ میں درج ہے کہ نبی کی وفات کے موقع پر عمر bکھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! نبی کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میرے ذہن میں یہی بات آئی اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور زندہ کرے گا… پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے… اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اللہ آپ کو دو موتوں کا مزہ نہ چکھائے گا۔، پھر وہ باہر نکل گئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے قسم کھانے والے! اتنی تیزی نہ کر… حمد و ثناء کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سن رکھو تم میں سے جو محمدﷺ کی بندگی کرتا تھا، اسے معلوم ہو کہ محمدﷺ وفات پاگئے ہیں… اس کے بعد سورۂ آل عمران آیت:۱۴۴ تلاوت فرمائی… عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! جس دم میں نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا تو گھٹنوں کے بل گر پڑا اور ایسا بے دم ہوا کہ میرے پاؤں مجھے سہارا نہ دے سکے ، یہاں تک کہ میں زمین کی طرف جھک گیا۔ جس وقت مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اللہ کے نبیa وفات پاگئے ہیں۔ ترجمہ عبارت صفحہ:۵۱۷ ، جلد اول، صفحہ ۶۴۰ ، جلد دوم، صحیح بخاری مطبوعہ دہلی۔ درج بالا دونوں حدیثوں کے مطابق آپ کا قول نہیں ہے ، وضاحت کریں؟ القرآن:… ’’ آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ ‘‘ [الزمر:۳۰] جب سارے صحابہ کا اجماع ہوگیا کہ نبیﷺ کو موت آچکی ہے اور قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ بھی نہیں کیے جائیں گے۔تو آپ نبیﷺ کو مدینہ والی قبر میں زندہ کہہ کر قرآن و حدیث کا کفر کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ صحابہرضی اللہ عنہم پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے رسول کو زندہ درگور کیا؟ 7۔ قرآن میں دو زندگیوں اور دو موتوں کا ذکر ہے ، پورے قرآن میں مرنے والے کو مردہ اور جان کی رمق نہ رکھنے والا قرار دیا گیا ہے آپ کے پاس تیسری زندگی کا کیا ثبوت ہے؟ [النحل:۲۱] 8۔ صحیح مسلم ، جلد دوم ، صفحہ نمبر: ۳۶ ۔۱۳۵ ، مطبوعہ دہلی کی حدیث کے مطابق شہداء کی روحوں کو قبض ہونے کے بعد شہداء کی فرمائش کے باوجود دنیا میں نہیں لوٹایا گیا۔ اسی طرح قرآن میں بھی موت کے بعد روح لوٹائے جانے کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن ہر انسان کو مردہ ہونے کے بعد بے شعور ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ آپ کے پاس روح لوٹائے جانے کی کوئی دلیل ہے ۔ اسے بحوالہ پیش کریں؟ 9۔ کسی تعویذ پہننے والے سے پوچھیں کہ اسے آپ نے کیوں پہنا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اس سے مجھے اولاد ملے گی، تکلیف دور ہوگی، اس کا پورا ایمان اس طرف ہوتا ہے کہ اب یہ تعویذ غائبانہ طور پر میری مدد کرے گا۔ اس طرح وہ اپنا الٰہ اپنے گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی رہنمائی کرتا ہے کہ: ’’ جس نے تعویذ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔‘‘ (مسند احمد ، ص:۱۵۶ ، جلد چہارم)اس میں نبیﷺ نے قرآنی تعویذ یا غیر قرآنی تعویذ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی پوری زندگی آپﷺ نے کوئی تعویذ بتایا۔ آپ اس کو شرک کہتے ہیں یا بدعت؟ 10۔ ’’ اے نبی! اعلان فرمادیجیے کہ اگر میں نے تم لوگوں سے اسی دین پر معاوضہ مانگا تو وہ تمہارا ہی رہا میرا صلہ اور مزدوری تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ ‘‘ [سورۂ سبا آیت نمبر: ۴۷] آپ کی جماعت بھی دینی اُمور پر اجرت لیتی ہے۔ آپ اس قرآنی آیت کو کس طرح بیان اور عمل کب کریں گے؟