• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مغربی جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
3. وہ اس نظام کو بھی آمریت اور استبداد ہی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ملوکیت میں ایک آدمی خود سر اور خود رائے ہوتا ہے۔ جمہوریت میں اکثریتی پارٹی خدا بن بیٹھتی ہے۔ باقی پارلیمنٹ اور رعایا سب اس کی محکوم و مجبور و مقہور ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں ؎
دیو استبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری
اِس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
فرنگ آئین جمہوری نظام نہاد است رسن از گردنِ دیوے کشاد است
دائے بر دستورِ جمہور فرنگ مُردہ تر شد مردہ از صور فرنگ​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس قومی ہیرو کی ہر سال بڑے جوش و خروش سے برسی منائی جاتی ہے۔ مقرر حضرات علامہ اقبال کے شعروں سے اپنی تقریر کو مزین کرتے ہیں اور مصنفین اس کے شعروں کے بغیر اپنی تحریر کو مستند و مکمل نہیں سمجھتے لیکن یہ عقیدت محض رسمی اور نمائشی ہی معلوم ہوتی ہے۔
علامہ اقبال کے بعد قائد اعظم پاکستان کے بانی اور قومی ہیرو ہیں۔ آپ کے ارشادات کا بھی بار بار تکرار کیا جاتا ہے۔ آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۱؁ء کو جو تقریری فرمائی۔ اس کے درج ذیل اقتباس پر غور فرمائیے:-
''میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ جمہوری پارلیمانی نظامِ حکومت، جیسا کہ انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ممالک میں ہے برصغیر کے لئے قطعاً غیر موزوں ہے۔'' (نوائے وقت ۷۹/۶/۱۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
4. مورخ اسلام اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے اپنی تصنیف ''تاریخ اسلام'' جلد اول کے مقدمہ کے آخر میں (صفحہ ۳۷ تا ۴۶) ملوکیت، جمہوریت اور خلافت کے فرق کو واضح کر کے موجود جمہوریت کو باطل قرار دیا ہے۔
5. اس وقت سیاسیات کے کورس کی تین کتابیں ہمارے سامنے پڑی ہیں۔ یہ کتابیں کالجوں میں طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہیں۔ ان سب میں جمہوریت کے مقابلے نظام خلافت کا واضح تصور پیش کیا گیا ہے اور جمہوریت کو لا دینی نظام قرار دیا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1. تعارف مدنیت: پروفیسر محمد امین جاوید ایم اے سیاسیات، تاریخ پہلا ایڈیشن ۱۹۶۵ء، تیسواں ایڈیشن ۱۹۷۸ء صفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۶
2. کتاب شہریت: پروفیسر محمد سرور، پروفیسر محی الدین صدر شعبہ سیاسیات پانچواں ایڈیشن ۲۴۴ تا ۲۴۸
3. اصول سیاسیات: پروفیسر صفدر رضا صدر شعبہ سیاسیات پہلا ایڈیشن ۱۹۶۵ء، پانچواں ایڈیشن ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۴۸
6. مندرجہ ذیل علماء نے اپنی تصانیف میں سیاسی جماعتوں کے وجود (Party System) کو ناجائز قرار دیا ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1. پولیٹیکل تھیوری سید ابو الاعلیٰ مودودی صفحہ ۳۷
2. اسلام کا اقتصادی نظام مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی صفحہ ۸۹
3. پولیٹیکل تھیوری ڈاکٹر عزیز احمد صفحہ ۱۷
4. قرآنی قوانین غلام احمد پرویز صفحہ ۹ نیا ایڈیشن ص ۳۱ پرانا ایڈیشن
5. اسلام کا نطام حکومت مولانا حامد اللہ انصاری صفحہ ۴۷۱
6. اسلام کا سیاسی نظام مولانا محمد اسحاق سندھیلوی صفحہ ۱۰۶
7. دستورِ اسلام مولانا محمد ادریس کاندھلوی صفحہ ۱۸
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
7. مندرجہ ذیل مستقبل تصانیف ہیں جو مغربی طرز انتخاب کو باطل قرار دیتی ہیں۔
1. اسلام میں خلیفہ کا انتخاب ڈاکٹر محمد یوسف پی۔ ایچ۔ ڈی
2. اسلام میں مشورہ کی اہمیت مفتی محمد شفیع صاحب کراچی
3. امیر کہاں تک شوری کا پابند ہے؟ قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیو بند
4. اکثریت معیار حق نہیں مولانا ابو الکلام آزاد
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
8. جزوی مضامین:
1. درخواست دہندگی اور عہدہ کی طلب تفہیم القرآن زیر آیت اجعلنا للمتقین امام مولانا ابو الاعلیٰ مودودی
2. حق بالغ رائے دہی کا ابطال تفہیم القرآن زیر آیت استخلاف مولانا ابو الاعلیٰ مودودی
ہمیں ایسی مطبوعات یا مضامین کو مزید تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس ''اجماع سکوتی'' کے ابطال کے لئے یہ کچھ بھی بہت کافی ہے۔
آج کل قومی بحث کے عنوان سے نوائے وقت میں جو انٹرویو یا سیاسی لیڈروں کے بیانات شائع ہو رہے ہیں ان میں کئی سیاسی رہنماؤں نے مغربی جمہوریت کے قطعاً غیر اسلامی ہونے کا بیان دیا ہے۔ حالانکہ وہ خود انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1. مولانا معین الدین صاحب لکھوی
2. رفیق احمد باجوہ
3. رانا خداداد خاں
4. حافظ عبد القادر روپڑی
اور ایسے حضرات تو بہت زیادہ ہیں جو کسی سیاسی شہرت کے مالک نہیں لیکن وہ جمہوریت کے خلاف مضامین قلمبند کر رہے ہیں۔ اور ایسے مضامین نوائے وقت سمیت دوسرے اخبارات میں بھی چپ رہے ہیں۔
گویا آج سے پچاس ساٹھ سال پیشتر سے لے کر آج تک یہ آواز مسلسل سنائی دے رہی ہے کہ مغربی طرز انتخاب ازروئے اسلام ناجائز ہے تو پھر اِس پر اجماع سکوتی کا فتویٰ کیونکر درست ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب رہا یہ سوال کہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۴۹ء کی قرار داد مقاصد پر اطمینان کا اظہار کیا تھا تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کے لئے ایک نسخہ تجویز ہوا تھا۔ یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اس نسخہ کا استعمال بھی کیا جائے گا مگر جب یہ امید بر نہ آئی تو پھر ہر طرف سے آوازیں اُٹھنے لگیں۔ یہ تو واضح ہے کہ نسخہ خواہ کتنا ہی قیمتی اور شفا بخش کیوں نہ ہو اگر استعمال ہی نہ کیا جائے اور اس کاغذ کے پرزے کو سنبھال کر رکھا جائے تو اس سے شفا کی توقع خیال باطل ہے۔
۱۹۷۳ء کے آئین میں جن علماء کی موجودگی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ سب ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کے اطمینان کو وجہ جواز بنانا فضول ہے۔ سیاسی قائد کا اپنا مفاد اسی میں ہے کہ انتخاب کا سلسلہ چلتا رہے الا ما شاء اللہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو سیاسی اور دینی رہنما جمہوری طرزِ انتخاب کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں وہ خود کیوں انتخابات میں حصہ لیتے رہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ برضا و رغبت الیکشن میں حصہ نہیں لیتے بلکہ بہ امر مجبوری انہیں یہ تلخ فریضہ سر انجام دینا پڑتا ہے تاکہ دین بیزار اور خراب عناصر کے راستہ کو بالکل آزاد نہ چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ اس بے دینی اور بد عنوانی کے سیلِ رواں کے سامنے جہاں تک ہو سکے رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہئیں۔ گویا ان لوگوں کا انتخاب میں حصہ لینا ایک دفاعی طریقۂ کار تھا۔ اور اَھْوَن الْبَلِیَّتَیْنِ کے نظریہ کے پیش نظر انتخابات میں حصہ لینا اس لئے گوارا کر لیا گیا کہ اگر انتخاب میں حصہ نہ لیا جائے تو اس کا نقصان اس سے بھی زیادہ ہو گا۔
 
Top