وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امام ابن حجر عسقلانیؒ " الاصابہ " میں لکھتے ہیں :
ذكر الإمام أبو القاسم إسماعيل التيمي في المغازي :
(( أنه في السنة السابعة كتب النبي صلى الله عليه وسلم إلى الملوك وبعث إليهم الرسل ، وبعث إلى النجاشي عمرو بن أمية .
فكتب إليه النجاشي الجواب بالإيمان وفي كتابه : إني بعثت إليك ابني ارمي بن أصحمة فإني لا أملك إلا نفسي ، وإن شئت يا رسول الله أتيتك.
قال: فخرج ابنه في ستين نفساً من الحبشة في سفينة في البحر فغرقوا كلهم"
امام ابوالقاسم اسماعیل نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ :
ہجرت کے ساتویں سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خط لکھے ،جو اپنے سفیر صحابہ کے ہاتھ بھجوائے ، حبشہ کے باشاہ اصحمہ کے عمرو بن امیہ کوخط دے کر بھیجا ،
جواب میں نجاشی بادشاہ نے اپنے قبول ایمان کا لکھا ، اور ساتھ لکھا کہ میں آپ کی خدمت میں اپنے بیٹے ارمیٰ کو بھیج رہا ہوں ، اور میں تو اپنے آپ پر اختیار رکھتا ہوں ،اگر آپ چاہیں تو میں خود آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوجاتا ہوں ،
یہ جوابی خط لے کر ان بیٹا ارمیٰ ساٹھ آدمیوں کے ساتھ سمندری سفر پر ایک جہاز میں روانہ ہوئے ،لیکن سب رستہ ہی میں سمندر میں ڈوب گئے "
ــــــــــــــــــــــــ
یہ واقعہ لکھ کر امام ابن حجرؒ لکھتے ہیں :
هكذا ذكرها أبو موسى عن شيخه بلا إسناد.
وقد ذكرها ابن إسحاق في المغازي مطوّلة. وذكرها من طريقه الطّبريّ في «تاريخه» ، والثّعلبيّ في «تفسيره» ، وذكرها البيهقيّ في «الدلائل» من طريق ابن إسحاق، لكن سماه أريحا واللَّه أعلم.
یعنی ابو موسیٰ نے اپنے شیخ ابوالقاسم سے یہ قصہ بلا اسناد نقل کیا ہے ،
اور یہ واقعہ امام ابن اسحاقؒ نے " مغازی " میں تفصیل سے نقل کیا ہے ،اور ابن اسحاق ہی کے طریق سے امام طبریؒ نے اپنی تاریخ میں ،اور امام بیہقیؒ نے " دلائل النبوۃ " میں لکھا ہے "
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (جلد اول ،صفحہ336 )
https://archive.org/stream/FP22226/01_22226#page/n335/mode/2up