• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نمازی اور سترہ کے فاصلہ حد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کی ہے؟؟

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیوخ عظام
ہماری مسجد میں ایک بابا جی ہیں جنہوں نے سترہ کو آڑ بنا کر مسجد میں چھے مہینہ سے فتنہ بنایا ہوا ہے....
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں
کہ
کیا سترہ فرض ہے؟

کیا مقتدی کا دوران جماعت اپنا انفرادی سترہ رکھنا درست ہے؟

اور کیا اگر پہلی ایک دو صفیں چھوڑ کر نماز پڑھیں تو سامنے موجود دیوار سترہ نہیں بن سکتی؟
برائے مہربانی ضرور رہنمائی فرمائیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
’’کتنے فاصلے سے بندہ نمازی کے آگے سے گزر سکتا ہیں. دلائل سے اس پر روشنی ڈالیے آپ کی مہربانی ہوگی.
جزاکم اللہ خیرا
اس مسئلہ میں محدث فتوی کمیٹی کا فتویٰ ہی درست ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
نمازی کے آگےاگر سترہ نہ ہو تو کتنے فاصلے سے گزرا جاسکتاہے



السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نمازی کے آگےاگر سترہ نہ ہو تو کتنے فاصلے سے گزرا جاسکتاہے۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل حکم یہی ہے کہ سترہ رکھ کر نماز ادا کی جائے،اگر کوئی شخص سترہ نہیں رکھتا تو اس کے سامنے سے گزرنے کے حوالے سے کوئی صریح نص موجود نہیں ہے،جس کی بناء پر اہل علم کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کے ہاں نمازی کے آگے سے گزرنا درست نہیں ، خواہ کئی میلوں کا فاصلہ ہو ۔ اس کی دلیل نمازی کے آگے سترہ کے بغیر گزرنے سے منع والی تمام احادیث ہیں کیونکہ ان میں سترہ کی بات ہے فاصلہ کی تحدید کی بات نہیں۔
جبکہ بعض اہم علم اس مسافت کی تحدید کرتے ہیں کہ نمازی کا حق سجدہ والے مقام تک ہے ،جہاں وہ نماز ادا کر رہا ہے،اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو مشقت میں ڈالتا رہے ،لہذا سجدہ والی جگہ چھوڑ کر آگے سے گزرا جا سکتا ہے۔شیخ صالح العثیمین نے مقام سجدہ کی تحدید والے قول کو ترجیح دی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی


محدث فتوی


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ ابن بازؒ کا فتوی بھی یہی ہے کہ :

المسافة التي يحرم فيها المرور بين يدي المصلي

السؤال: سمعت حديثاً يحرم المرور بين يدي المصلي فكم هي المسافة التي يحرم فيها المرور بين يدي المصلي إذا لم يضع أمامه شيئاً؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

الجواب: يقول النبي ﷺ: لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه -يعني من الإثم- لكان أن يقف أربعين خيراً له من أن يمر بين يدي المصلي متفق عليه، قال الراوي أبو هريرة : «لا أدري قال أربعين يوماً أو شهراً أو سنة ».
والمقصود أن هذا يدل على تحريم ذلك وأن فيه خطراً عظيماً، إذا كان وقوفه أربعين ولو يوماً خيراً له من أن يمر بين يديه فهذا يدل على أنه أمر خطير لا يجوز.
وأرجح ما قيل في ذلك أن الحد ثلاثة أذرع إذا كان ما له سترة، إذا كان وراه ثلاثة أذرع فلا حرج أو كان وراءه سترة فلا حرج، أما إن كان بينه وبين السترة فهذا لا يجوز، أو كان قريباً منه في أقل من ثلاثة أذرع فهذا لا يجوز.
والأصل في هذا أنه ﷺ لما صلى في الكعبة جعل بينه وبين جدار الكعبة الغربي ثلاثة أذرع، قالوا: هذا يدل على أن هذا المقدار هو الذي يعتبر بين يدي المصلي، فإذا كان بعيداً من هذا المقدار من قدم المصلي فإنه لا يعتبر ماراً بين يديه هذا هو الأرجح.
المقدم: جزاكم الله خيراً ۔


فتوی لنک
اس فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ :
جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا۔ اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال۔"
مراد یہ کہ یہ حدیث نمازی کے آگے سے گزرنے کی حرمت اور عظیم خطرہ بتاتی ہے ،
اس مسئلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان میں راجح قول یہ ہے کہ اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو آگے سے گزرنے کی حد تین ذراع ( تقریباً ساڑھے چار فٹ ) ہے ، یا اگر سترہ ہے تو سترے کے آگے قبلہ کی طرف سے گزرنا بھی جائز ہے ،
اس شرعی حکم کی بنیاد پیغمبر اکرم ﷺ کا عمل ہے کہ آپ نے جب کعبہ میں نماز پڑھی تو آپ نے اپنے اور کعبہ کی مغربی دیوار تین ذراع کا فاصلہ رکھا ، اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ نمازی کے قدم سے سامنے تین ذراع کا فاصلہ رکھ کر گزرنا جائز ہوگا ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسحاق بھائی اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو ہاتھ سے روکنے کا حکم ہے ، تو ہاتھ کی حد تقریباً 3 ذراع یا 4 فٹ تک ہی ہوسکتی ہے ۔ میلوں دور سے گزرنے والے کو ہاتھ سے کیسے روک سکتے ہیں؟ مندرجہ بالا فتویٰ اس کے مطابق ہے ۔ واللہ اعلم
جی آپ نے بالکل درست فرمایا ، میرے پاس استاذ الاساتذہ شیخ عبدالمنان نورپوریؒ کا فتوی موجود ہے جس پر میں نے یہی بات لکھی ہے
ـــــــــــــــــــ
نمازی کے آگے سے گزرنا
_________________________
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر نمازی کھلے میدان میں ہو یا صحراء میں تو گزرنے والا نمازی کے نماز ختم ہونے کاانتظار کرے اور آپ نے فرمایا تھا کہ کئی میلوں سے بھی نہیں گزر سکتا۔
-------------------------
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازی کے آگے سے گزرنا درست نہیں ، خواہ کئی میلوں کا فاصلہ ہو ۔ اس کی دلیل نمازی کے آگے سترہ کے بغیر گزرنے سے منع والی تمام احادیث ہیں کیونکہ ان میں سترہ کی بات ہے فاصلہ کی تحدید کی بات نہیں۔ سترہ والی احادیث صحیح مسلم میں دیکھ لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کچھ رکھ لیوے تو نماز پڑھے اور پرواہ نہ کرے جو چیز چاہے سامنے سے گزر جائے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن باہر نکلتے تو اپنے سامنے برچھا گاڑنے کا حکم فرماتے ، پھر اس کی آڑ میں نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے ہوتے اور یہ امر سفر میں کرتے اسی وجہ سے امیروں نے اس کو مقرر کر لیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو قبلہ کی طرف کر کے اس کی طرف نماز پڑھتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو نہ نکلنے دے ، بلکہ اس کو روکے ، جہاں تک ہو سکے اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانے جو گناہ اس پر ہے البتہ اگر چالیس سال تک کھڑا رہے تو یہ بہتر ہو سامنے گزرنے سے ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے اس میں اور قبلہ کی دیوار میں اتنی جگہ رہتی کہ ایک بکری نکل جائے۔
یہ تمام احادیث صحیح مسلم،کتاب الصلاة، باب سترة المصلی، باب منع الماربین یدی المصلی،باب دنو المصلی من السترة میں ہیں۔
عطاء فرماتے ہیں کہ پالان کے پچھلے حصہ کی لکڑی ایک ہاتھ یا اس سے کچھ زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ [ابو داؤد،الصلاة، باب ما یستر المصلی ، حدیث:۶۸۶ اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل (جلد 02 ) محدث فتویٰ
__________________________٭٭٭

لیکن اس فتوی میں مذکورحدیث جس میں آگے گزرنے والے سے لڑنے کی اجازت دی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی کے سامنے قریب سے گزرنے والے لڑا جائے گا ،یعنی قریب سامنے سے گزرنا منع ہے دور سے گزرنا جائز ہے ؛ (اسحاق سلفی )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رائے مہربانی رہنمائی فرمائیں
کہ کیا سترہ فرض ہے؟
نمازی کے آگے سترہ رکھنا واجب ہے یا سنت؟

محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے اور راجح یہی ہے کہ سترہ واجب نہیں بلکہ سنت (اور مستحب) ہے۔

مسند البزار میں حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے بغیر سترے کے نماز پڑھی ہے۔ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر: 175
مَالِکٌ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبي سَعِیدٍ عَنْ أَبي سَعِیدٍ الخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ:((إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ یُصَلِّي فَلَایَدَعْ أَحَدًا یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ وَلْیَدْرَأْہُ مَا استَطَاعَ فَإِنْ أَبَی فَلْیُقَاتِلْہُ فَإِنَّما ھُوَ شَیْطَانٌ))
(سیدنا) ابو سعید الخدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھے تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، جتنی استطاعت ہو اسے ہٹائے پھر اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ کرے کیونکہ یہ شیطان ہے۔
تحقیق: سندہ صحیح
تخریج: مسلم
الموطأ (روایۃ یحییٰ 1/ 154ح 361، ک 9 ب 10 ح 33) التمہید 4/ 185، الاستذکار: 331
٭ وأخرجہ مسلم (505) من حدیث مالک بہ

تفقہ:

1- نمازی کے آگے سترہ رکھنا واجب ہے یا سنت؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے اور راجح یہی ہے کہ سترہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ دیکھئے التمہید (4/ 193)

مسند البزار میں حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے بغیر سترے کے نماز پڑھی ہے۔ (شرح صحیح بخاری لابن بطال ج2ص 175) اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور شواہد کے ساتھ یہ صحیح ہے۔

معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سترے کے ساتھ نماز پڑھنے یا سترے کے بغیر نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے وہ استحباب پر محمول ہیں۔

عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سترے کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 278 ح 871 2 وسندہ صحیح)

2- اگر کوئی شخص سترہ رکھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو سترے کے اندر سے گزرنا کبیرہ گناہ ہے۔

3- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو جب نماز میں سترہ نہ ملتا تو وہ کسی آدمی کو سترہ بنا لیتے اور فرماتے: میری طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھ جاؤ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 279 ح 2878 وسندہ صحیح)

4- اس پر اجماع ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔

5- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نہ کسی نمازی کے سامنے سے گزرتے اور نہ کسی نمازی کو گزرنے دیتے تھے۔ (الموطأ 1/ 155 ح 365 وسندہ صحیح)

6- مسجد میں سترہ رکھنا جائز ہے۔

مشہور تابعی اور ثقہ امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو مسجدِ حرام میں دیکھا، آپ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 277 ح 2853 وسندہ صحیح)

7- مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ اپنا کوڑا (زمین پر) ڈال کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 278ح 2864 وسندہ حسن)

معلوم ہوا کہ سترے کی بلندی کے لئے کوئی حد ضروری نہیں ہے تاہم مرفوع احادیث کے پیشِ نظر بہتر یہی ہے کہ سواری کے کجاوے جتنا (یعنی کم از کم ایک فٹ بلند) سترہ ہو۔ واللہ اعلم

اصل مضمون کے لئے دیکھئے محدّث العَصر حَافظ زُبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم‘‘ صفحہ نمبر 266 (حدیث نمبر 175، وتفقہ)

نیز دیکھئے ’’الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم‘‘ صفحہ نمبر 500 (حدیث نمبر 422، وتفقہ)
https://ishaatulhadith.com/unicode/namazi-kay-aagay-sutra-sunnat-hay/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز میں سترہ قائم کرنا سنت مؤکدہ ہے

ON دسمبر 17, 2018
BY ISHAATULHADITH HAZRO OFFICIAL
فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام،محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ،
الاتحاف الباسم فی تحقیق موطأ الإمام مالک روایۃ عبدالرحمٰن بن القاسم میں

1. امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے۔

2. نماز میں سترہ قائم کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ نیز دیکھئے التمہید (۴/ ۱۹۳)

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی (ذراع) جتنا سترہ رکھے تو نماز پڑھے، اس سترے کے باہر سے اگر کوئی گزرے تو اسے نقصان نہیں ہے۔ (صحیح مسلم:۴۹۹)

3. نماز میں سترہ رکھنا واجب نہیں ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺمنیٰ میں لوگوں کو بغیر دیوار کے نماز پڑھا رہے تھے۔ (صحیح بخاری:۴۹۳)

اس کی تشریح میں امام شافعی فرماتے ہیں: بغیر سترے کے۔ ( کتاب اختلاف الحدیث مع الأم ص ۱۷۴۵، فتح الباری ج ۱ ص ۵۷۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲/ ۲۷۳)

امام شعبہ نے اپنے استاد عمرو بن مرہ (راوئ حدیث) سے پوچھا: کیا آپ (ﷺ) کے سامنے نیزہ تھا؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ (مسند علی بن الجعد: ۹۰ وسندہ صحیح، مسند ابی یعلیٰ ۴/ ۳۱۲ ح ۲۴۲۳)

مسند البزار (البحر الزخار ۱۱/ ۲۰۱ح ۴۹۵۱) وغیرہ میں اس کے شواہد بھی ہیں۔

4. یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ میں نے (سیدنا) انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو مسجدِ حرام میں دیکھا آپ اپنی لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱/ ۲۷۷ ح ۲۸۵۳ وسندہ صحیح)

معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص مسجد میں سترہ رکھ کر نماز پڑھے تو یہ عمل بالکل صحیح ہے۔

5. ہشام بن عروہ نے فرمایا: میرے ابا (عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ) سترے کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ۱/ ۲۷۹ ح ۲۸۷۱ وسندہ صحیح)

حسن بصری نے صحراء میں سترے کے بغیر نماز پڑھی۔ (ابن ابی شیبہ ۱/ ۲۷۹ ح ۲۸۷۲ وسندہ صحیح)

تفصیل کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم: حدیث 48 کا تفقہ

سترے کے موضوع پر دیگر احادیث کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ 22 صفحہ 63 اور شمارہ 23 صفحہ 43۔

فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام میں ’’سترے کا بیان‘‘ کے عنوان سے سوال/جواب کا ایک صفحاتی مضمون ہے۔ صفحہ 280 پر۔

سوال: کیا نماز میں سترہ قائم کرنا واجب یا مستحب ہے؟ (حافظ شفیق باغ، آزاد کشمیر)

نماز میں سترہ کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔ وہ احادیث جن میں سترہ کی تائید و حکم یا سترہ کے بغیر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، استحباب پر محمول ہیں۔

ان احادیث کے امر کو وجوب سے استحباب پر پھیرنے والی وہ دلیل ہے جسے امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں (ج2 ص 25 ح 838۔ 839) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے: پس ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرے آپ عرفات میں فرض نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی چیز بھی بطورِ سترہ موجود نہیں تھی۔

صحیح ابن خزیمہ کے محقق نے بھی اسے ’’ اسنادہ صحیح‘‘ کہا ہے۔ اس کی تائید امام بزاز رحمہ اللہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ج1ص 171) میں ذکر کیاہے۔نیز دیکھئے شرح صحیح بخاری لابن بطال (2/ 175) البحرالزخار (11/ 201 ح4951) اور نصب الرایہ (2/ 82)

’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ (1/752)نامی کتاب میں ہے: ’’ولیست واجبۃ بإتفاق الفقہاء لأن الأمر بإتخاذھا للندب‘‘ اس پر فقہاء (اربعہ) کا اتفاق ہے کہ سترہ واجب نہیں ہے، لہٰذا ان کے نزدیک سترہ کا حکم استحباب پر محمول ہے۔

[شہادت، دسمبر 2000ء، ہفت روزہ الاعتصام لاہور،27 /جون 1997ء]
https://ishaatulhadith.wordpress.com/2018/12/17/namaz-mein-sutra-qaem-karna/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا مقتدی کا دوران جماعت اپنا انفرادی سترہ رکھنا درست ہے؟
نمازی کے سترہ کا حکم
ــــــــــــــــــــــــــ
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فَاِنِّیْ قَدْ سَئَلْتُکَ حِيْنَمَا زُرْتُکَ قَبْلَ شَهْرٍ عَنْ حُکْمِ سُتْرَةِ الْمُصَلِّیْ هَلْ هِیَ وَاجِبَةٌ اَمْ مُسْتَحَبَّةٌ وَعَنْ حُکْمِ نَصْبِهَا فِیْ دَاخِلِ الْمَسْجِدِ اَمَامَ الْمُصَلِّيْنَ فَقَدْ اَرْشَدْتَّنِیْ اِلٰی رِوَايَةِ مُسْنَدِ الْبَزَّارِ الَّتِیْ ذَکَرَهَا الْحَافِظُ فِی الْفَتْحِ مُشِيْرًا اِلٰی اَنَّهَا لَمْ تَکُنْ اَمَامَ النَّبِیِّﷺ کَمَا قَالَ الشَّافِعِیُّ وَالْبَيْهَقِیُّ فِیْ حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَعُلِمَ اَنَّهَا مُسْتَحَبَّةٌ وَلٰکِنَّ صَاحِبَ الْمِرْعَاةِ اَجَابَ عَنْ حَدِيْثِ الْبَزَّارِ بِقَوْلِهٖ :’’لَيْسَ الْمُرَادُ فِیْهَا نَفْیَ السُّتْرَةِ مُطْلَقًا بَلْ اَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَةِ الَّتِیْ تَحُوْلُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهٗ کَالْجِدَارِ الْمُرْتَفعِ الَّذِیْ يَمْنَعُ الرُّؤْيَةَ ۔ وَقَدْ صَرَّحَ بِمِثْلِ هٰذَا الْعِرَاقِی‘‘ اِنْتَهٰی ۔ فَهَلْ قَوْلُ صَاحِب الْمِرْعَاةِ وَالْعِرَاقِی صَحِيْحٌ جَدِيْرٌ بِالْقَبُوْلِ اَمْ لاَ ؟ وَقَدْ مَالَ الْکِرْمَانِیُّ وَالْعَيْنِیْ اِلٰی اَنَّ غَيْرَ ۔ صِفَةٌ لِمَوْصُوْفٍ مَحْذُوْفٍ لِيُطَابِقَ الْحَدِيْثُ تَبْوِيْبَ الْبُخَارِیْ فَهَلْ قَوْلُهُمَا صَحِيْحٌ ؟
وَاَيْضًا هَلْ ثَبَتَ فِی الْحَدِيْثِ اَنَّ الصَّحَابَةَ کَانُوْا يَرْکُزُوْنَ اَمَامَهُمُ السُتَرَ فِی دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ مُهْتَمِّيْنَ بِهٖ بَيِّنُوْا تُوْجَرُوْا عِنْدَاﷲِ

سوال :
’’میں نے ایک ماہ قبل جب آپ سے ملاقات کی تھی تو آپ سے نمازی کے سترہ کے حکم کے متعلق سوال کیا تھا کہ کیا وہ واجب ہے یا مستحب ہے ۔ اور نمازیوں کے آگے مسجد کے اندر اس کو نصب کرنے کا حکم پوچھا تھا تو آپ نے مسند بزار کی روایت کی طرف میری راہنمائی فرمائی تھی وہ روایت جس کو حافظ نے فتح میں ذکر کیا ہے اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ نبیﷺ کے سامنے نہیں تھا جس طرح شافعی اور بیہقی نے کہا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں پس معلوم ہوا کہ سترہ مستحب ہے لیکن صاحب مرعاۃ نے اپنے اس قول کے ساتھ بزار کی حدیث کا جواب دیا ہے اس میں مطلقاً سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے جو ان کے درمیان اور آپﷺ کے درمیان ہو اور وہ بلند دیوار کی طرح ہو جو کہ دیکھنے کو مانع ہو اور اسی کی مثل عراقی نے صراحت کی ہے تو کیا صاحب مرعاۃ اور عراقی کا قول صحیح ہے قابل قبول ہے یا نہیں اور کرمانی اور عینی اس طرف مائل ہوئے ہیں کہ لفظ غیر موصوف محذوف کی صفت ہے تاکہ حدیث تبویب بخاری کے مطابق ہو جائے تو کیا ان دونوں کا قول صحیح ہے اور اسی طرح کیا حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام﷢مساجد کے اندر اپنے سامنے اہتمام سے سترہ لگایا کرتے تھے‘‘؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

أَمَّا بَعْدُ فَأَنَا بِخَیْرٍ وَعَافِيَةٍ ۔ قَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ شَيْئَيْنِ :
اَلْأَوَّلُ : عَنْ قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ : لَيْسَ الْمُرَادُ فِيْهَا نَفْیَ السُّتْرَةِ مُطْلَقًا ، بَلْ أَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَةِ الخ هَلْ هُوَ صَحِيْحٌ جَدِيْرٌ بِالْقَبُوْلِ ؟ الخ
اَلثَّانِیْ : عَنِ الصَّحَابَةِ هَلْ کَانُوْا يَرْکُزُوْنَ أَمَامَهُمُ السُّتَرَ فِیْ دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ ؟
وَالْجَوَابُ کَمَا يَأْتِیْ بَعْدُ بِتَوْفِيْقِ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعَوْنِهٖ ۔
(1)لَيْسَ بِصَحِيْحٍ ، وَلاَ جَدِيْرٍ بِالقُبُوْلِ إِذْ لاَ دَلِيْلَ عَلَيْهِ ، وَتَبْوِيْبُ الْبُخَارِیِّ ، وَمِيْلاَنُ الْکِرْمَانِیْ وَالْعَيْنِیْ إِلٰی مَا مَا لاَ إِلَيْهِ لَيْسَا مِنَ الْأَدِلَّةِ فِیْ شَيْئٍ ، وَقَوْلُ بَعْضِهِمْ : فَإِنَّ التَّعَرُّضَ لِنَفْیِ الْجِدَارِ خَاصَّةً يَدُلُّ عَلٰی أَنَّهٗ کَانَ هُنَاکَ شَيْئٌ مُغَايِرٌ لِلْجِدَارِ الخ مِنْ بَابِ الْاِسْتِدْلاَلِ بِمَفْهُوْمِ اللَّقَبِ ، وَلَيْسَ بِحُجَّةٍ بِالْاِتِّفَاقٍ ، وَانْظُرْ لِذٰلِکَ إِرْشَادَ الْفُحُوْلِ ۔
هٰذَا وَقَالَ ابْنُ أَبِیْ شَيْبَةَ فِیْ مُصَنَّفِهٖ : حَدَّثَنَآ أَبُوْ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَجَّاجٍ عَن الْحَکَمِ عَنْ يَحْيٰی بْنِ الْجَزَارِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِﷺ فِيْ فَضَائٍ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَيْئٌ۔ (۱/۲۷۸) وَهُوَ أَيْضًا دَلِيْلُ عَدْمِ وُجُوْبِ السُّتْرَةِ ۔
(2)کَانَ کِبَارُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺيَبْتَدِرُوْنَ السَّوَارِیَ ، وَفِی النُّسْخَةِ الْمَطْبُوْعَةِ لِلْمُصَنَّفِ لِاِبْنِ أَبِیْ شَيْبَةَ : حَدَّثَنَا عِيْسٰی بنُ يُوْنُسَ عَنِ الْأَوْزَاعِیْ عَنْ يَحْيٰی بْنِ أَبِیْ کَثِيْرٍ قَالَ : رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّیْ إِلَيْهَا ۔ (۱/۲۷۷) وَ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍ قَالَ : ناوَکِيْعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيْلاً إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ قَالَ لِیْ : وَلِّنِیْ ظَهْرَکَ ۔ (۱/۲۷۹)
وَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِیْ عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُقْعِدُ رَجُلاً ، فَيُصَلِّیْ خَلْفَهٗ وَالنَّاسُ يَمُرُّوْنَ بَيْنَ يَدَیْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ ۔ (۱/۲۸۰)
هٰذَا وَأَحَادِيْثُ السُّتْرَةِ الْمَرْفُوْعَةُ ، وَالنَّاهِيَةُ عَنِ الْمُرُوْرِ بَيْنَ يَدَیِ الْمُصَلِّیْ لَمْ تُفَرِّقْ بَيْنَ الْمَسْجِدِ وَغَيْرِهٖ ، وَاﷲُ أَعْلَمُ


جواب کا ترجمہ :
آپ نے مجھ سے دو چیزوں کا سوال کیا ہے ۔

اولاً : بعض اہل علم کے قول کے متعلق کہ اس میں مطلق سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے الخ کیا وہ صحیح ہے قابل قبول ہے ؟

الثانی : آپ نے صحابہ کے متعلق پوچھا ہے کہ وہ مساجد کے اندر اپنے سامنے سترہ لگاتے تھے ؟ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیق اور مدد سے جواب آ رہا ہے ۔

(۱) صحیح نہیں ہے اور نہ ہی قابل قبول ہے اس لیے کہ اسکی دلیل نہیں ہے اور بخاری کا باب قائم کرنا اور کرمانی اور عینی کا میلان جس طرف وہ دونوں مائل ہوئے ہیں دلیل نہیں بنتے اور ان کے بعض کا کہنا کہ خاص طور پر دیوار کی نفی کرنا اس چیز کی دلیل ہے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کوئی چیز تھی ۔ تو اس دلیل کا تعلق مفہوم لقب سے ہے اور یہ بالاتفاق حجت نہیں ہے اس کے لیے ارشاد الفحول دیکھو ۔

اور ابن ابی شیبہ نے کہا اپنے ’’مصنف‘‘ (۱/۲۷۸) میں ہم کو ابو معاویہ نے بیان کیا وہ حجاج سے بیان کرتے ہیں وہ حکم سے وہ یحییٰ بن جزار سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا نبیﷺنے کھلی جگہ میں نماز پڑھی آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا ۔ اور یہ بھی سترہ کے واجب نہ ہونے کی دلیل ہے ۔

(۲) نبیﷺ کے بڑے بڑے صحابہ کرام﷢ ستونوں کے لیے جلدی کرتے مصنف ابن ابی شیبہ (۱/۲۷۷) کے ایک مطبوعہ نسخہ میں ہے ’’ہم کو عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا وہ اوزاعی سے وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا میں نے انس بن مالک کو مسجد حرام میں دیکھا اس نے ایک لاٹھی کو گاڑھا ہوا تھا اس کی طرف نماز پڑھ رہا تھا‘‘۔

اور (امام ابن ابی شیبہ ) فرماتے ہیں کہ ہم کو ابوبکر نے بیان کیا اس نے کہا ہم کو وکیع نے حدیث سنائی وہ ہشام بن غاز سے وہ نافع سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا ابن عمر رضی اللہ عنہما تھے جب مسجد کے کسی ستون کو نہ پاتے تو مجھے فرماتے میری طرف اپنی پیٹھ کر لے ۔

اور (امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں) ہم کو عبدالوہاب الثقفی نے بیان کیا وہ عبیداللہ سے وہ نافع سے بیان کرتے ہیں بے شک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک آدمی کو بٹھاتے پس اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور لوگ اس آدمی کے آگے سے گزرتے ۔

یہ احادیث اور تمام سترہ کی مرفوع احادیث نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت میں مسجد اور مسجد کے باہر کوئی فرق نہیں کرتیں ۔

وباللہ التوفیق
محدث فتوی
https://urdufatwa.com/view/1/1591/

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
فتویٰ دوم
مسجد میں سترہ کا اہتمام کرنا


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سترہ کے بغیر نماز پڑھنا سنت کے خلاف ہے یا نہیں؟ اور کیا مسجد میں بھی سترہ کا اہتمام کرنا سنت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں! مسجد یا غیر مسجد میں سترہ کے بغیر نماز پڑھنا سنت کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ مسجد کی دیوار اور مسجد کے ستون بھی سترہ کا کام دیتے ہیں ۔ امام بخاری بَابُ قَدْ رُکُمْ یَنْبَغِیْ اَنْ یَکُوْنَ بَیْنَ المُصَلّٰی وَالسُّتْرَة ’’ نمازی اورسترہ میں کتنا فاصلہ ہونا چاہیے‘‘ میں حدیث لائے ہیں:
عَنْ سَھْلِ بْن سَعْدٍ قَالَ : کَانَ بَیْنَ مُصَلّٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم، وَبَیْنَ الجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاة
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزر سکنے کے فاصلہ کے برابر جگہ تھی۔‘‘
دوسری حدیث لائے ہیں:
عَنْ سَلَمَة قَالَ : کَانَ جِدَارُ الْمَسْجِدِ عِنْدَ الْمِنْبَرِ مَا کَادَتِ الشَّاة تَجُوْزُھَا
’’ مسجد کی دیوار اور منبر کے درمیان بکری کے گزرسکنے کے فاصلہ کے برابر جگہ تھی۔‘‘

اور بَابُ الصَّلَاة إلَی الْاُسْطُوَانة میں حدیث لائے ہیں:
نَا یَزِیْدُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ : کُنْتُ آتِیْ مَعَ سَلَمَة بْنِ الْاَکْوَع ، فَیُصَلِّیْ عِنْدَ الْاُسْطُوَانَة الَّتِیْ عِنْدَ الْمُصْحَفِ ، فَقُلْتُ : یَا اَبَا مُسْلِمٍ اَرَاك تَتَحَرَّی الصَّلَاة عِنْدَ ھٰذِہِ الْاُسْطُوَانَة ، قَالَ : فَاِ نِِّی رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلى الله عليه وسلم یَتَحَرَّی الصَّلَاۃَ عِنْدَھَا
ترجمہ :
’’ یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہا کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے رکھ کر نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا : اے ابو مسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ ‘‘ دوسری حدیث لائے ہیں:

عَنْ اَنَس بْنِ مَالِك قَالَ : لَقَدْ أَدْرَکْتُ کِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم یَبْتَدِرُوْنَ السَّوَارِیَ عِنْدَ الْمَغْرِب، وَزَادَ شُعْبَة عَنْ عَٰمْرٍ و عَنْ أَنَسٍ حَتّٰی یَخْرُجَ النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم
’’ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت ستونوں کی طرف لپکتے۔‘‘

پھر غور فرمائیں نمازی کے سامنے اور آگے سے گزرنا جرم و گناہ ہے اور اس جرم اور گناہ سے بچنے کے لیے شریعت میں طریقہ یہی ہے کہ نمازی کے آگے سے نہ گزرے یا پھر سترہ کے آگے سے گزرے ، سترہ اور نمازی کے درمیان سے نہ گزرے شریعت نے اس جرم و گناہ سے بچنے کے اس طریقہ کو عام رکھا ہے کہیں بھی اس کو غیر مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں فرمایا۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل (جلد 02 )
محدث فتویٰ

https://urdufatwa.com/view/1/2485/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح بخاری میں ؛؛
بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ
مقتدی کے لئے امام کا سترہ ہی کافی ہے
امام بخاری رح نے باب قائم کیا ہے کہ امام کا سترہ ہی مقتدی کا سترہ ہے اور اس کے تحت یہ لائے ہیں


عن عبد الله بن عباس، أنه قال: أقبلت راكبا على حمار أتان، وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام، «ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت، وأرسلت الأتان ترتع، ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك علي أحد»


جضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا ، اس زمانے میں میں بالغ ہونے والا ہی تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دیوار نہ تھی ، میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا ،، کسی نے مجھ پر اعتراض نہ کیا
بخاری :٤٩٣، ١٨٥٧ ،مسلم :٥٠٤
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ترمذی کی سنن میں ہے :
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَهُ
ترجمہ : طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو صلاۃ پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزراہے'۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- طلحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ابو عیسی الترمذیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور کہتے ہیں کہ ’’ امام کا سترہ ،مقتدیوں کا بھی سترہ ہوتا ہے ‘‘

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام کا سترہ مقتدی کا سترہ ہے ؟


سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ آدمی جماعت کی پہلی رکعت میں آکر شامل ہوئے کچھ دوسری تیسری اور چوتھی رکعت میں۔ امام صاحب کے آگے سُترہ ہے، جب امام صاحب نے نماز مکمل کرادی۔ یعنی دونوں طرف سلام پھیر دیا، تو جن کی نماز ابھی رہتی ہے۔ کیا وہ اگلی صف میںسُترہ کے نزدیک آسکتے ہیں یعنی بحالتِ نماز؟ اور کیا ان کے لیے وہ امام صاحب والا سُترہ کافی ہے یا کیا وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہو کر سُترہ بناء سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی حالت میں مزید سُترے کی ضرورت نہیں۔ اسی جگہ اسی کیفیت میں نماز مکمل کرلینی چاہیے۔ غزوۂ تبوک کے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی جماعت سے فوت شدہ ایک رکعت ایسی حالت میں مکمل کی تھی، حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

’ فَلَمَّا سَلَّمَ عَبدُ الرَّحمٰنِ۔ قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُتِمُّ صَلَاتَهٗ۔ فَأَفزَعَ ذٰلِكَ النَّاسَ ‘فتح الباری:۷/۱۲۶
’’جب عبد الرحمن بن عوف نے نماز مکمل کر لی، تو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئے۔‘‘

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:293
محدث فتویٰ

_____________________
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
اس میں ایک سوال باقی ہے کہ
اگر امام پہلی ایک یا دو صفیں چھوڑ کر نماز پڑھا رہا ہو تو کیا سامنے موجود دیوار اس حالت میں سترہ بن سکتی ہے یا نہیں؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس میں ایک سوال باقی ہے کہ
اگر امام پہلی ایک یا دو صفیں چھوڑ کر نماز پڑھا رہا ہو تو کیا سامنے موجود دیوار اس حالت میں سترہ بن سکتی ہے یا نہیں؟؟
نمازی اور سترہ کے درمیان تین ذراع یعنی تین ہاتھ (تقریباً چار ،ساڑھے چار فٹ ) فاصلہ ہونا چاہیئے ،اس سے زائد نہیں ،
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ کا فتوی شروع میں گزر چکا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ :
وأرجح ما قيل في ذلك أن الحد ثلاثة أذرع إذا كان ما له سترة، إذا كان وراه ثلاثة أذرع فلا حرج أو كان وراءه سترة فلا حرج، أما إن كان بينه وبين السترة فهذا لا يجوز، أو كان قريباً منه في أقل من ثلاثة أذرع فهذا لا يجوز.
والأصل في هذا أنه ﷺ لما صلى في الكعبة جعل بينه وبين جدار الكعبة الغربي ثلاثة أذرع، قالوا: هذا يدل على أن هذا المقدار هو الذي يعتبر بين يدي المصلي، فإذا كان بعيداً من هذا المقدار من قدم المصلي فإنه لا يعتبر ماراً بين يديه هذا هو الأرجح.
المقدم: جزاكم الله خيراً ۔


فتوی لنک
اس فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ :

’’ اس مسئلہ میں جتنے اقوال منقول ہیں ان میں راجح قول یہ ہے کہ اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو آگے سے گزرنے کی حد تین ذراع ( تقریباً ساڑھے چار فٹ ) ہے ، یا اگر سترہ ہے تو سترے کے آگے قبلہ کی طرف سے گزرنا بھی جائز ہے ،
اس شرعی حکم کی بنیاد پیغمبر اکرم ﷺ کا عمل ہے کہ آپ نے جب کعبہ میں نماز پڑھی تو آپ نے اپنے اور کعبہ کی مغربی دیوار تین ذراع کا فاصلہ رکھا ، اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ نمازی کے قدم سے سامنے تین ذراع کا فاصلہ رکھ کر گزرنا جائز ہوگا ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
اس شرعی حکم کی بنیاد پیغمبر اکرم ﷺ کا عمل ہے کہ آپ نے جب کعبہ میں نماز پڑھی تو آپ نے اپنے اور کعبہ کی مغربی دیوار تین ذراع کا فاصلہ رکھا ، اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ نمازی کے قدم سے سامنے تین ذراع کا فاصلہ رکھ کر گزرنا جائز ہوگا ،
شاید آپ میرا سوال نہیں سمجھے
سوال یہ ہے
اگر پہلی دو صفیں چھوڑ کر اگر نماز پڑھی جائے تو کیا سامنے موجود دیوار سترہ تصور ہوگی یا نہیں؟
یعنی تین ذراع سے زیادہ فاصلہ کی صورت میں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شاید آپ میرا سوال نہیں سمجھے
سوال یہ ہے
اگر پہلی دو صفیں چھوڑ کر اگر نماز پڑھی جائے تو کیا سامنے موجود دیوار سترہ تصور ہوگی یا نہیں؟
یعنی تین ذراع سے زیادہ فاصلہ کی صورت میں
نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ

عن عبد الرحمن بن أبي سعيد الخدري، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا صلى أحدكم فليصل إلى سترة وليدن منها»
قال الشيخ الألباني رحمه الله : "إسناده حسن صحيح" انتهى من " صحيح سنن أبي داود" (3/281)

ترجمہ :
جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے لگے تو چاہیئے کہ سترہ رکھ کر پڑھے اور اس کے قریب کھڑا ہو ۔ “

علامہ البانیؒ نے اسے حسن صحیح کہا ہے ،

السنة أن يدنو المصلي من سترته ، ويكون قريباً منها ، بحيث يتمكن من رد المار بين يديه ؛ لما رواه أبو داود (695) عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ رضي الله عنه عن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا ، لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ ) حسنه ابن عبد البر في "التمهيد" (4/195) ، وصححه النووي في "المجموع" (3/244) ، وصححه الألباني في "صحيح أبي داود" .
نمازی کا اپنے سترے کے قریب ہونا سنت ہے ،تاکہ اگر کوئی نمازی اور سترہ کے درمیان سے گزرنے لگے تو نمازی اسے روک سکے ،جیسا کہ سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی کسی سترہ کی طرف نماز پڑھے تو اس کے قریب کھڑا ہو ، کہیں شیطان اس پر اس کی نماز نہ قطع کر دے،
امام عبدالبررحمہ اللہ نے ’’ التمہید ‘‘ میں اس حدیث کو حسن کہا ہے اور علامہ النوویؒ نے ’’المجموع ‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے ،اسی طرح علامہ البانیؒ نے بھئ اسے صحیح کہا ہے ،

وقد اختلف أهل العلم رحمهم الله في مقدار المسافة ، ومن أين تحسب ؟
فمنهم من رأى أن المسافة بمقدار ثلاثة أذرع من قدمي المصلي ؛
لما روى البخاري (506) عن نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُما ( كَانَ إِذَا دَخَلَ الْكَعْبَةَ مَشَى قِبَلَ وَجْهِهِ حِينَ يَدْخُلُ وَجَعَلَ الْبَابَ قِبَلَ ظَهْرِهِ ، فَمَشَى حَتَّى يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ الَّذِي قِبَلَ وَجْهِهِ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثَةِ أَذْرُعٍ ، صَلَّى يَتَوَخَّى الْمَكَانَ الَّذِي أَخْبَرَهُ بِهِ بِلَالٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ ) .

نمازی اور اس کے سترے کے درمیان فاصلہ کی مقدار میں اہل علم مختلف ہیں ، کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ نمازی کے قدموں سے لے کر سترے تک تین ذراع فاصلہ ہونا چاہیئے ،
(علما متاخرین کی اصطلاح کے مطابق ذراع اٹھارہ انچ یا ڈیڑھ فٹ کے قریب ہے )
سترے اور نمازی کے درمیان تین ذراع کی مقدار ایک حدیث صحیح سے ماخوذہے جو صحیح بخاری میں مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ میں داخل ہوتے تو سیدھے منہ کے سامنے چلے جاتے۔ دروازہ پیٹھ کی طرف ہوتا اور آپ آگے بڑھتے جب ان کے اور سامنے کی دیوار کا فاصلہ قریب تین ذراع ،ہاتھ کے رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے جس کے متعلق حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں نماز پڑھی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ بیت اللہ میں جس کونے میں ہم چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
( صحیح بخاری 506 )
https://islamqa.info/ar/answers/145200/
ان دلائل سے واضح ہے کہ نمازی کا سترہ چار ،ساڑھے چار فٹ سے زیادہ دوری پر نہ ہو ،
 
Top