کیا مقتدی کا دوران جماعت اپنا انفرادی سترہ رکھنا درست ہے؟
نمازی کے سترہ کا حکم
ــــــــــــــــــــــــــ
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فَاِنِّیْ قَدْ سَئَلْتُکَ حِيْنَمَا زُرْتُکَ قَبْلَ شَهْرٍ عَنْ حُکْمِ سُتْرَةِ الْمُصَلِّیْ هَلْ هِیَ وَاجِبَةٌ اَمْ مُسْتَحَبَّةٌ وَعَنْ حُکْمِ نَصْبِهَا فِیْ دَاخِلِ الْمَسْجِدِ اَمَامَ الْمُصَلِّيْنَ فَقَدْ اَرْشَدْتَّنِیْ اِلٰی رِوَايَةِ مُسْنَدِ الْبَزَّارِ الَّتِیْ ذَکَرَهَا الْحَافِظُ فِی الْفَتْحِ مُشِيْرًا اِلٰی اَنَّهَا لَمْ تَکُنْ اَمَامَ النَّبِیِّﷺ کَمَا قَالَ الشَّافِعِیُّ وَالْبَيْهَقِیُّ فِیْ حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَعُلِمَ اَنَّهَا مُسْتَحَبَّةٌ وَلٰکِنَّ صَاحِبَ الْمِرْعَاةِ اَجَابَ عَنْ حَدِيْثِ الْبَزَّارِ بِقَوْلِهٖ :’’لَيْسَ الْمُرَادُ فِیْهَا نَفْیَ السُّتْرَةِ مُطْلَقًا بَلْ اَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَةِ الَّتِیْ تَحُوْلُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهٗ کَالْجِدَارِ الْمُرْتَفعِ الَّذِیْ يَمْنَعُ الرُّؤْيَةَ ۔ وَقَدْ صَرَّحَ بِمِثْلِ هٰذَا الْعِرَاقِی‘‘ اِنْتَهٰی ۔ فَهَلْ قَوْلُ صَاحِب الْمِرْعَاةِ وَالْعِرَاقِی صَحِيْحٌ جَدِيْرٌ بِالْقَبُوْلِ اَمْ لاَ ؟ وَقَدْ مَالَ الْکِرْمَانِیُّ وَالْعَيْنِیْ اِلٰی اَنَّ غَيْرَ ۔ صِفَةٌ لِمَوْصُوْفٍ مَحْذُوْفٍ لِيُطَابِقَ الْحَدِيْثُ تَبْوِيْبَ الْبُخَارِیْ فَهَلْ قَوْلُهُمَا صَحِيْحٌ ؟
وَاَيْضًا هَلْ ثَبَتَ فِی الْحَدِيْثِ اَنَّ الصَّحَابَةَ کَانُوْا يَرْکُزُوْنَ اَمَامَهُمُ السُتَرَ فِی دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ مُهْتَمِّيْنَ بِهٖ بَيِّنُوْا تُوْجَرُوْا عِنْدَاﷲِ
سوال :
’’میں نے ایک ماہ قبل جب آپ سے ملاقات کی تھی تو آپ سے نمازی کے سترہ کے حکم کے متعلق سوال کیا تھا کہ کیا وہ واجب ہے یا مستحب ہے ۔ اور نمازیوں کے آگے مسجد کے اندر اس کو نصب کرنے کا حکم پوچھا تھا تو آپ نے مسند بزار کی روایت کی طرف میری راہنمائی فرمائی تھی وہ روایت جس کو حافظ نے فتح میں ذکر کیا ہے اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ نبیﷺ کے سامنے نہیں تھا جس طرح شافعی اور بیہقی نے کہا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں پس معلوم ہوا کہ سترہ مستحب ہے لیکن صاحب مرعاۃ نے اپنے اس قول کے ساتھ بزار کی حدیث کا جواب دیا ہے اس میں مطلقاً سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے جو ان کے درمیان اور آپﷺ کے درمیان ہو اور وہ بلند دیوار کی طرح ہو جو کہ دیکھنے کو مانع ہو اور اسی کی مثل عراقی نے صراحت کی ہے تو کیا صاحب مرعاۃ اور عراقی کا قول صحیح ہے قابل قبول ہے یا نہیں اور کرمانی اور عینی اس طرف مائل ہوئے ہیں کہ لفظ غیر موصوف محذوف کی صفت ہے تاکہ حدیث تبویب بخاری کے مطابق ہو جائے تو کیا ان دونوں کا قول صحیح ہے اور اسی طرح کیا حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کراممساجد کے اندر اپنے سامنے اہتمام سے سترہ لگایا کرتے تھے‘‘؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
أَمَّا بَعْدُ فَأَنَا بِخَیْرٍ وَعَافِيَةٍ ۔ قَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ شَيْئَيْنِ :
اَلْأَوَّلُ : عَنْ قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ : لَيْسَ الْمُرَادُ فِيْهَا نَفْیَ السُّتْرَةِ مُطْلَقًا ، بَلْ أَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَةِ الخ هَلْ هُوَ صَحِيْحٌ جَدِيْرٌ بِالْقَبُوْلِ ؟ الخ
اَلثَّانِیْ : عَنِ الصَّحَابَةِ هَلْ کَانُوْا يَرْکُزُوْنَ أَمَامَهُمُ السُّتَرَ فِیْ دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ ؟
وَالْجَوَابُ کَمَا يَأْتِیْ بَعْدُ بِتَوْفِيْقِ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعَوْنِهٖ ۔
(1)لَيْسَ بِصَحِيْحٍ ، وَلاَ جَدِيْرٍ بِالقُبُوْلِ إِذْ لاَ دَلِيْلَ عَلَيْهِ ، وَتَبْوِيْبُ الْبُخَارِیِّ ، وَمِيْلاَنُ الْکِرْمَانِیْ وَالْعَيْنِیْ إِلٰی مَا مَا لاَ إِلَيْهِ لَيْسَا مِنَ الْأَدِلَّةِ فِیْ شَيْئٍ ، وَقَوْلُ بَعْضِهِمْ : فَإِنَّ التَّعَرُّضَ لِنَفْیِ الْجِدَارِ خَاصَّةً يَدُلُّ عَلٰی أَنَّهٗ کَانَ هُنَاکَ شَيْئٌ مُغَايِرٌ لِلْجِدَارِ الخ مِنْ بَابِ الْاِسْتِدْلاَلِ بِمَفْهُوْمِ اللَّقَبِ ، وَلَيْسَ بِحُجَّةٍ بِالْاِتِّفَاقٍ ، وَانْظُرْ لِذٰلِکَ إِرْشَادَ الْفُحُوْلِ ۔
هٰذَا وَقَالَ ابْنُ أَبِیْ شَيْبَةَ فِیْ مُصَنَّفِهٖ : حَدَّثَنَآ أَبُوْ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَجَّاجٍ عَن الْحَکَمِ عَنْ يَحْيٰی بْنِ الْجَزَارِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِﷺ فِيْ فَضَائٍ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَيْئٌ۔ (۱/۲۷۸) وَهُوَ أَيْضًا دَلِيْلُ عَدْمِ وُجُوْبِ السُّتْرَةِ ۔
(2)کَانَ کِبَارُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺيَبْتَدِرُوْنَ السَّوَارِیَ ، وَفِی النُّسْخَةِ الْمَطْبُوْعَةِ لِلْمُصَنَّفِ لِاِبْنِ أَبِیْ شَيْبَةَ : حَدَّثَنَا عِيْسٰی بنُ يُوْنُسَ عَنِ الْأَوْزَاعِیْ عَنْ يَحْيٰی بْنِ أَبِیْ کَثِيْرٍ قَالَ : رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّیْ إِلَيْهَا ۔ (۱/۲۷۷) وَ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍ قَالَ : ناوَکِيْعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيْلاً إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ قَالَ لِیْ : وَلِّنِیْ ظَهْرَکَ ۔ (۱/۲۷۹)
وَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِیْ عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُقْعِدُ رَجُلاً ، فَيُصَلِّیْ خَلْفَهٗ وَالنَّاسُ يَمُرُّوْنَ بَيْنَ يَدَیْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ ۔ (۱/۲۸۰)
هٰذَا وَأَحَادِيْثُ السُّتْرَةِ الْمَرْفُوْعَةُ ، وَالنَّاهِيَةُ عَنِ الْمُرُوْرِ بَيْنَ يَدَیِ الْمُصَلِّیْ لَمْ تُفَرِّقْ بَيْنَ الْمَسْجِدِ وَغَيْرِهٖ ، وَاﷲُ أَعْلَمُ
جواب کا ترجمہ :
آپ نے مجھ سے دو چیزوں کا سوال کیا ہے ۔
اولاً : بعض اہل علم کے قول کے متعلق کہ اس میں مطلق سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے الخ کیا وہ صحیح ہے قابل قبول ہے ؟
الثانی : آپ نے صحابہ کے متعلق پوچھا ہے کہ وہ مساجد کے اندر اپنے سامنے سترہ لگاتے تھے ؟ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیق اور مدد سے جواب آ رہا ہے ۔
(۱) صحیح نہیں ہے اور نہ ہی قابل قبول ہے اس لیے کہ اسکی دلیل نہیں ہے اور بخاری کا باب قائم کرنا اور کرمانی اور عینی کا میلان جس طرف وہ دونوں مائل ہوئے ہیں دلیل نہیں بنتے اور ان کے بعض کا کہنا کہ خاص طور پر دیوار کی نفی کرنا اس چیز کی دلیل ہے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کوئی چیز تھی ۔ تو اس دلیل کا تعلق مفہوم لقب سے ہے اور یہ بالاتفاق حجت نہیں ہے اس کے لیے ارشاد الفحول دیکھو ۔
اور ابن ابی شیبہ نے کہا اپنے ’’مصنف‘‘ (۱/۲۷۸) میں ہم کو ابو معاویہ نے بیان کیا وہ حجاج سے بیان کرتے ہیں وہ حکم سے وہ یحییٰ بن جزار سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا نبیﷺنے کھلی جگہ میں نماز پڑھی آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا ۔ اور یہ بھی سترہ کے واجب نہ ہونے کی دلیل ہے ۔
(۲) نبیﷺ کے بڑے بڑے صحابہ کرام ستونوں کے لیے جلدی کرتے مصنف ابن ابی شیبہ (۱/۲۷۷) کے ایک مطبوعہ نسخہ میں ہے ’’ہم کو عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا وہ اوزاعی سے وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا میں نے انس بن مالک کو مسجد حرام میں دیکھا اس نے ایک لاٹھی کو گاڑھا ہوا تھا اس کی طرف نماز پڑھ رہا تھا‘‘۔
اور (امام ابن ابی شیبہ ) فرماتے ہیں کہ ہم کو ابوبکر نے بیان کیا اس نے کہا ہم کو وکیع نے حدیث سنائی وہ ہشام بن غاز سے وہ نافع سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا ابن عمر رضی اللہ عنہما تھے جب مسجد کے کسی ستون کو نہ پاتے تو مجھے فرماتے میری طرف اپنی پیٹھ کر لے ۔
اور (امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں) ہم کو عبدالوہاب الثقفی نے بیان کیا وہ عبیداللہ سے وہ نافع سے بیان کرتے ہیں بے شک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک آدمی کو بٹھاتے پس اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور لوگ اس آدمی کے آگے سے گزرتے ۔
یہ احادیث اور تمام سترہ کی مرفوع احادیث نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت میں مسجد اور مسجد کے باہر کوئی فرق نہیں کرتیں ۔
وباللہ التوفیق
محدث فتوی
https://urdufatwa.com/view/1/1591/
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
فتویٰ دوم
مسجد میں سترہ کا اہتمام کرنا
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سترہ کے بغیر نماز پڑھنا سنت کے خلاف ہے یا نہیں؟ اور کیا مسجد میں بھی سترہ کا اہتمام کرنا سنت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں! مسجد یا غیر مسجد میں سترہ کے بغیر نماز پڑھنا سنت کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ مسجد کی دیوار اور مسجد کے ستون بھی سترہ کا کام دیتے ہیں ۔ امام بخاری
بَابُ قَدْ رُکُمْ یَنْبَغِیْ اَنْ یَکُوْنَ بَیْنَ المُصَلّٰی وَالسُّتْرَة ’’ نمازی اورسترہ میں کتنا فاصلہ ہونا چاہیے‘‘ میں حدیث لائے ہیں:
عَ
نْ سَھْلِ بْن سَعْدٍ قَالَ : کَانَ بَیْنَ مُصَلّٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم، وَبَیْنَ الجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاة
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزر سکنے کے فاصلہ کے برابر جگہ تھی۔‘‘
دوسری حدیث لائے ہیں:
عَنْ سَلَمَة قَالَ : کَانَ جِدَارُ الْمَسْجِدِ عِنْدَ الْمِنْبَرِ مَا کَادَتِ الشَّاة تَجُوْزُھَا
’’ مسجد کی دیوار اور منبر کے درمیان بکری کے گزرسکنے کے فاصلہ کے برابر جگہ تھی۔‘‘
اور
بَابُ الصَّلَاة إلَی الْاُسْطُوَانة میں حدیث لائے ہیں:
نَا یَزِیْدُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالَ : کُنْتُ آتِیْ مَعَ سَلَمَة بْنِ الْاَکْوَع ، فَیُصَلِّیْ عِنْدَ الْاُسْطُوَانَة الَّتِیْ عِنْدَ الْمُصْحَفِ ، فَقُلْتُ : یَا اَبَا مُسْلِمٍ اَرَاك تَتَحَرَّی الصَّلَاة عِنْدَ ھٰذِہِ الْاُسْطُوَانَة ، قَالَ : فَاِ نِِّی رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلى الله عليه وسلم یَتَحَرَّی الصَّلَاۃَ عِنْدَھَا
ترجمہ :
’’ یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہا کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے رکھ کر نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا : اے ابو مسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ ‘‘ دوسری حدیث لائے ہیں:
عَنْ اَنَس بْنِ مَالِك قَالَ : لَقَدْ أَدْرَکْتُ کِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم یَبْتَدِرُوْنَ السَّوَارِیَ عِنْدَ الْمَغْرِب، وَزَادَ شُعْبَة عَنْ عَٰمْرٍ و عَنْ أَنَسٍ حَتّٰی یَخْرُجَ النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم
’’ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت ستونوں کی طرف لپکتے۔‘‘
پھر غور فرمائیں نمازی کے سامنے اور آگے سے گزرنا جرم و گناہ ہے اور اس جرم اور گناہ سے بچنے کے لیے شریعت میں طریقہ یہی ہے کہ نمازی کے آگے سے نہ گزرے یا پھر سترہ کے آگے سے گزرے ، سترہ اور نمازی کے درمیان سے نہ گزرے شریعت نے اس جرم و گناہ سے بچنے کے اس طریقہ کو عام رکھا ہے کہیں بھی اس کو غیر مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں فرمایا۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل (جلد 02 )
محدث فتویٰ
https://urdufatwa.com/view/1/2485/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحیح بخاری میں ؛؛
بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ
مقتدی کے لئے امام کا سترہ ہی کافی ہے
امام بخاری رح نے باب قائم کیا ہے کہ امام کا سترہ ہی مقتدی کا سترہ ہے اور اس کے تحت یہ لائے ہیں
عن عبد الله بن عباس، أنه قال: أقبلت راكبا على حمار أتان، وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام، «ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت، وأرسلت الأتان ترتع، ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك علي أحد»
جضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا ، اس زمانے میں میں بالغ ہونے والا ہی تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دیوار نہ تھی ، میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا ،، کسی نے مجھ پر اعتراض نہ کیا
بخاری :٤٩٣، ١٨٥٧ ،مسلم :٥٠٤
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ترمذی کی سنن میں ہے :
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَهُ
ترجمہ : طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو صلاۃ پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزراہے'۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- طلحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ابو عیسی الترمذیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور کہتے ہیں کہ ’’ امام کا سترہ ،مقتدیوں کا بھی سترہ ہوتا ہے ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام کا سترہ مقتدی کا سترہ ہے ؟
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ آدمی جماعت کی پہلی رکعت میں آکر شامل ہوئے کچھ دوسری تیسری اور چوتھی رکعت میں۔ امام صاحب کے آگے سُترہ ہے، جب امام صاحب نے نماز مکمل کرادی۔ یعنی دونوں طرف سلام پھیر دیا، تو جن کی نماز ابھی رہتی ہے۔ کیا وہ اگلی صف میںسُترہ کے نزدیک آسکتے ہیں یعنی بحالتِ نماز؟ اور کیا ان کے لیے وہ امام صاحب والا سُترہ کافی ہے یا کیا وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہو کر سُترہ بناء سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی حالت میں مزید سُترے کی ضرورت نہیں۔ اسی جگہ اسی کیفیت میں نماز مکمل کرلینی چاہیے۔ غزوۂ تبوک کے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی جماعت سے فوت شدہ ایک رکعت ایسی حالت میں مکمل کی تھی، حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
’ فَلَمَّا سَلَّمَ عَبدُ الرَّحمٰنِ۔ قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُتِمُّ صَلَاتَهٗ۔ فَأَفزَعَ ذٰلِكَ النَّاسَ ‘فتح الباری:۷/۱۲۶
’’جب عبد الرحمن بن عوف نے نماز مکمل کر لی، تو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئے۔‘‘
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:293
محدث فتویٰ
_____________________