إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾
اس آیت میں اللہ تعالی نے بیت اللہ کو ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے جبکہ آپ اس آیت سے بیت اللہ سے صادر ہونے والی نماز کو بھی اس ہدایت میں شامل کرتے ہیں۔
میں نے اس پر یہ سوال کیا تھا کہ جب بیت اللہ سے صادر ہونے والی نماز ہدایت میں شامل ہے تو پھر بیت اللہ سے صادر ہونے والا دینی فکر، قرآن فہمی اور فتاوی وغیرہ کیوں نہیں ہدایت میں شامل ہے۔ اس کا کوئی جواب آپ کے پاس نہیں ہے۔ ہدایت سے کیا مراد ہے کیا نماز ہدایت میں شامل ہے اور دینی رہنمائی ہدایت میں شامل نہیں ہے؟؟؟ جن احادیث پر آپ چیختے چلاتے ہیں، کبھی ان کے بارے بھی ہدایت کے مرکز سے رہنمائی حاصل کر لیں تو آپ کا یہ اصول درست ہو جائے گا کہ بیت اللہ ہدایت کا مرکز ہے۔ ورنہ تو خواہش نفس کی پیروی ہے نہ کہ ہدایت کے مرکز کی۔ یعنی بیت اللہ من کل الوجوہ ہدایت کا مرکز ہے یا جس پہلو سے آپ کو سمجھ آئے صرف اسی پہلو سے ہدایت کا مرکز ہے؟؟؟
یہ طریقہ واردات پرویز سے بہت نمایاں انداز میں شروع ہوا ہے کہ ایک ہی آیت سے اپنا من چاہا مفہوم نکال لو اور اسی آیت سے جو مفہوم آپ کے اس من چاہے مفہوم کے خلاف جا رہا ہو تو اسے رد کرو۔
وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ
یہاں صرف یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ مقام ابراہیم کو مصلی بناو اور مصلی عربی لغت کے مطابق ظرف مکان ہے یعنی مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناو یعنی مقام ابراہیم پر نماز پڑھو جیسے طواف کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھنے کی سنت جاری کی ہے۔
اور اس آیت کا یہ بھی مفہوم ہے کہ فرض نمازوں میں امام مسجد حرام کو مقام ابراہیم پر کھڑا ہونا چاہیے اور یہ استحبابی حکم ہے۔ مقام ابراہیم کو مصلی بنانا ہے کا مطلب صرف یہی ہے کہ وہاں نماز پڑھنی ہے نہ کہ یہ منگھڑت مفہوم کہ جیسے مقام ابراہیم پر نماز پڑھائی جا رہی ہے ویسے ہی نماز پڑھنی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنا فلسفہ، فکر، معنی و مفہوم قرآنی الفاظ کے منہ میں ڈال دیتے ہیں اور دھڑلے سے اسے قرآنی فکر کے نام سے پیش کرتے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھنے کو قرآنی استدلال کا نام دے رکھا ہے۔ قرآن کے نام پر لوگوں پر اپنی شطحیات لادنے کا اس سے مذموم کوئی طریقہ تاریخ انسانی میں نہیں رہا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انکار حدیث کے رویے نے قرآن فہمی کے نام پر انسانی فکر کی بیڑیوں سے نوع انسانی کو پابند سلاسل کر دیا ہے۔