- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
فلاں حق پر ، فلاں باطل پر ، میں حق کا دفاع کرتا ہوں ، میرا مخالف باطل کے دفاع پر مصر رہتا ہے ۔
یہ ایسی باتیں اور رویے ہیں جو عموما سننے ، دیکھنے میں آتے رہتے ہیں ۔ مختلف فیہ مسائل میں حق بات تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم انصاف سے طرفین کے دلائل کو دیکھیں اور سمجھیں جو درست محسوس ہو اس پر عمل کیا جائے ۔ بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ہم ایک نظریہ پہلے قائم کرلیتے ہیں، اور پھر اپنے تئیں انصاف سے دلائل تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ لاشعوری طور پر اپنے موقف کے دلائل قوی اور مخالف کے دلائل غیر صحیح محسوس ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں در حقیقت ہم ’’ اتباع حق ‘‘ سے نکل کر ’’ اتباع ہوی ‘‘ کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
گویا غلطی کا امکان دو جگہ پر ہے :
1۔ حق چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا ۔
2۔ ’’ حق ‘‘ اور ’’ خواہش نفس ‘‘ میں فرق نہ کرسکنے کے باعث ’’ خواہش نفس ‘‘کی پیروی کو ’’ اتباع حق ‘‘ سمجھ لینا ۔
پہلی بات تو بالکل واضح ہے ۔ کہ دلی طور پر ہم جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کو جان بوجھ کر چھوڑ کر غلط راستے پرڈٹے رہیں ۔ نا انصافی ، بے اعتدالی ، تعصب وغیرہ اس رویے پر صادق آتے ہیں ۔
البتہ دوسرا نکتہ ذرا دقیق ہے جس میں بعض دفعہ مخلص اور معتدل مزاج لوگ بھی درست راہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے ذہبی العصر ، علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی ’’ صاحب التنکیل ‘‘ کا ایک اقتباس بمع ترجمہ پیش خدمت ہے ’’ القائد إلی تصحیح العقائد ص 32 ‘‘ پر فرماتے ہیں :
وبالجملة فمسالك الهوى أكثر من أن تحصى وقد جربت نفسي أنني ربما أنظر في القضية زاعماً أنه لا هوى لي فيلوح لي فيها معنى، فأقرره تقريراً يعجبني، ثم يلوح لي ما يخدش في ذاك المعنى، فأجدني أتبرم بذاك الخادش وتنازعني نفسي إلى تكلف الجواب عنه وغض النظر عن مناقشة ذاك الجواب، وإنما هذا لأني لما قررت ذاك المعنى أولاً تقريراً أعجبني صرت أهوى صحته، هذا مع أنه لا يعلم بذلك أحد من الناس، فكيف إذا كنت قد أذعته في الناس ثم
لاح لي الخدش؟ فكيف لولم يلح لي الخدش ولكن رجلاً آخر أعترض علي به؟ فكيف كان المعترض ممن أكرهه؟
هذا ولم يكلف العالم بأن لا يكون له هوى؟ فإن هذا خارج عن الوسع، وإنما الواجب على العالم أن يفتش نفسه عن هواها حتى يعرفه ثم يحترز منه ويمعن النظر في الحق من حيث هو حق، فإن بان له أنه مخالف لهواه آثر الحق على هواه.
بے شمار مقامات پر انسان ’’ خواہش نفس ‘‘ میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود میں نے تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ میں کسی مسئلہ میں غور وفکر شروع کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میں خواہش نفس سے بالکل بری ہوں ، چنانچہ میں ( دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد ) ایک موقف اختیار کرلیتا ہوں ، لیکن پھر بعد میں واضح ہوتا ہےکہ نہیں فلاں دلیل میرے اس موقف کےخلاف ہے ۔ تو میں دل ہی دل میں اس دلیل کو رد کرنے کے لیے بے جا بحث شروع کردیتا ہوں، میرا نفس مجھے مجبور کرتا ہے کہ تکلفا اس کا کوئی غلط سلط جواب گھڑ لوں ۔
یہ ساری کیفیت کیوں ہوتی ہے کیونکہ میں پہلی دفعہ دلائل کی بنیاد پر ایک بات کو حق تصور کر چکا ہوں ۔
حالانکہ ابھی تک یہ بات میرے ذہن میں تھی کسی اور کو پتہ نہیں تھا ۔
اس وقت کیا کیفیت ہوگی جب میں اس بات کو لوگوں میں پھیلا چکا ہوں گا اور پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگا ؟
اور ممکن ہے مجھے خود اپنی غلطی کا اندازہ ہو ہی نہ بلکہ کوئی اور میرے اوپر اعتراض کرے ، تو ایسی صورت میں کیا کیفیت ہوگی ؟
بلکہ ممکن ہے یہ اعتراض میرےمخالفین میں سے کوئی کردے تو پھر کیا حالت ہوگی ؟
ہاں :
اس سب کے باوجود کسی عالم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ’’ خواہش نفس ‘‘ کا مادہ ہی نہ ہو کیونکہ یہ بات تو انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے ۔ البتہ یہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کا جائزہ لے اور محاسبہ کرے اور خواہشات کی پہچان کرے اور پھر ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے ۔ حق تلاش کرنے میں مکمل غور وفکر کرے ، پھر اگر اس کے لیے واضح ہوجائے کہ حق وہ نہیں جو میں نے سمجھا تھا تو اس کو اپنی خواہشات کی قربانی دے کر حق بات کی پیروی کرنی چاہیے ۔
اقتباس کا ترجمہ ختم ہوا ۔
سوال : کیا میں واقعتا حق جاننے کے لیے دلائل تلاش کرتا ہوں ؟
(اس سوال کا جواب منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں ۔ خود اپنے آپ کو اس سوال کا جواب دیں )
یہ ایسی باتیں اور رویے ہیں جو عموما سننے ، دیکھنے میں آتے رہتے ہیں ۔ مختلف فیہ مسائل میں حق بات تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم انصاف سے طرفین کے دلائل کو دیکھیں اور سمجھیں جو درست محسوس ہو اس پر عمل کیا جائے ۔ بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ہم ایک نظریہ پہلے قائم کرلیتے ہیں، اور پھر اپنے تئیں انصاف سے دلائل تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ لاشعوری طور پر اپنے موقف کے دلائل قوی اور مخالف کے دلائل غیر صحیح محسوس ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں در حقیقت ہم ’’ اتباع حق ‘‘ سے نکل کر ’’ اتباع ہوی ‘‘ کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
گویا غلطی کا امکان دو جگہ پر ہے :
1۔ حق چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا ۔
2۔ ’’ حق ‘‘ اور ’’ خواہش نفس ‘‘ میں فرق نہ کرسکنے کے باعث ’’ خواہش نفس ‘‘کی پیروی کو ’’ اتباع حق ‘‘ سمجھ لینا ۔
پہلی بات تو بالکل واضح ہے ۔ کہ دلی طور پر ہم جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کو جان بوجھ کر چھوڑ کر غلط راستے پرڈٹے رہیں ۔ نا انصافی ، بے اعتدالی ، تعصب وغیرہ اس رویے پر صادق آتے ہیں ۔
البتہ دوسرا نکتہ ذرا دقیق ہے جس میں بعض دفعہ مخلص اور معتدل مزاج لوگ بھی درست راہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے ذہبی العصر ، علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی ’’ صاحب التنکیل ‘‘ کا ایک اقتباس بمع ترجمہ پیش خدمت ہے ’’ القائد إلی تصحیح العقائد ص 32 ‘‘ پر فرماتے ہیں :
وبالجملة فمسالك الهوى أكثر من أن تحصى وقد جربت نفسي أنني ربما أنظر في القضية زاعماً أنه لا هوى لي فيلوح لي فيها معنى، فأقرره تقريراً يعجبني، ثم يلوح لي ما يخدش في ذاك المعنى، فأجدني أتبرم بذاك الخادش وتنازعني نفسي إلى تكلف الجواب عنه وغض النظر عن مناقشة ذاك الجواب، وإنما هذا لأني لما قررت ذاك المعنى أولاً تقريراً أعجبني صرت أهوى صحته، هذا مع أنه لا يعلم بذلك أحد من الناس، فكيف إذا كنت قد أذعته في الناس ثم
لاح لي الخدش؟ فكيف لولم يلح لي الخدش ولكن رجلاً آخر أعترض علي به؟ فكيف كان المعترض ممن أكرهه؟
هذا ولم يكلف العالم بأن لا يكون له هوى؟ فإن هذا خارج عن الوسع، وإنما الواجب على العالم أن يفتش نفسه عن هواها حتى يعرفه ثم يحترز منه ويمعن النظر في الحق من حيث هو حق، فإن بان له أنه مخالف لهواه آثر الحق على هواه.
بے شمار مقامات پر انسان ’’ خواہش نفس ‘‘ میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود میں نے تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ میں کسی مسئلہ میں غور وفکر شروع کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میں خواہش نفس سے بالکل بری ہوں ، چنانچہ میں ( دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد ) ایک موقف اختیار کرلیتا ہوں ، لیکن پھر بعد میں واضح ہوتا ہےکہ نہیں فلاں دلیل میرے اس موقف کےخلاف ہے ۔ تو میں دل ہی دل میں اس دلیل کو رد کرنے کے لیے بے جا بحث شروع کردیتا ہوں، میرا نفس مجھے مجبور کرتا ہے کہ تکلفا اس کا کوئی غلط سلط جواب گھڑ لوں ۔
یہ ساری کیفیت کیوں ہوتی ہے کیونکہ میں پہلی دفعہ دلائل کی بنیاد پر ایک بات کو حق تصور کر چکا ہوں ۔
حالانکہ ابھی تک یہ بات میرے ذہن میں تھی کسی اور کو پتہ نہیں تھا ۔
اس وقت کیا کیفیت ہوگی جب میں اس بات کو لوگوں میں پھیلا چکا ہوں گا اور پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگا ؟
اور ممکن ہے مجھے خود اپنی غلطی کا اندازہ ہو ہی نہ بلکہ کوئی اور میرے اوپر اعتراض کرے ، تو ایسی صورت میں کیا کیفیت ہوگی ؟
بلکہ ممکن ہے یہ اعتراض میرےمخالفین میں سے کوئی کردے تو پھر کیا حالت ہوگی ؟
ہاں :
اس سب کے باوجود کسی عالم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ’’ خواہش نفس ‘‘ کا مادہ ہی نہ ہو کیونکہ یہ بات تو انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے ۔ البتہ یہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کا جائزہ لے اور محاسبہ کرے اور خواہشات کی پہچان کرے اور پھر ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے ۔ حق تلاش کرنے میں مکمل غور وفکر کرے ، پھر اگر اس کے لیے واضح ہوجائے کہ حق وہ نہیں جو میں نے سمجھا تھا تو اس کو اپنی خواہشات کی قربانی دے کر حق بات کی پیروی کرنی چاہیے ۔
اقتباس کا ترجمہ ختم ہوا ۔
سوال : کیا میں واقعتا حق جاننے کے لیے دلائل تلاش کرتا ہوں ؟
(اس سوال کا جواب منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں ۔ خود اپنے آپ کو اس سوال کا جواب دیں )