• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا واقعتا میں حق کی تلاش میں ہوں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تلاشِ حق !




حافظ محمد شارق

اسلام زندگی گزارنے کے اس طریقے اور طرزِ فکر کا نام ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام لائے۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور اس کی تشریح و توضیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ میں کردی ہے۔ اب یہ دین ہر صورت میں مکمل ہے اور قرآن مجید کی رو سے ہماری فلاح و نجات کا ضامن بھی صرف یہی دین ہے۔الحمدللہ ہم میں سے کوئی اس بات کا انکار نہیں کرتا اور نہ ہی کسی صورت انکار کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے لیے صرف اسلام ہی راہِ نجات ہے۔ ہم دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی ہمارے لیے کامیابی ہے۔ ہم دین سے منحرف ہر شخص کے متعلق اپنے دل میں اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ وہ دین کوصحیح طرح سمجھے ،علم حاصل کرے اور اسی راستے کو اپنائے جس کی دعوت پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ لیکن کبھی ہم نے خود اپنے ضمیر سے بھی یہ سوال پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ ہم واقعی دین کی اُس صحیح صورت پر عمل پیرا ہیں جس کی دعوت قرآن دیتا ہے؟ دین کی جو فکر ہمیں اپنے والدین سے توارث (Heredity) سے ملی ہے ، اور بلا تحقیق ہم جس راستے پر برسہا برس سے چل رہے ہیں، کیا قرآن کا راستہ وہی ہے؟ یا ہم “نتبع ما ألفينا عليه آباءنا” (ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ) کا مصداق خود کو حق سمجھ رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اسی گروہ سےتعلق رکھتی ہے جس پر قرآن نے درج بالا تبصرہ کیا ہے ۔ہم میں سے اکثر افراد ایسے ہی ہوں گے جواپنے خاندان میں رائج دین کی صورت پر محض اس لیے عمل پیرا ہیں کہ انھوں نے اپنے ماحول سے یہی کچھ حاصل کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں سےکوئی واقعی اللہ سے اتنا مخلص بھی ہے کہ وہ اُس راستے پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ہمت رکھتا ہو جو ہمیں آباء و اجداد سے ملا ہے؟ یہ معاملہ دراصل تلاشِ حق کا ہے۔اُن عقائد کی تلاش کا جس پر دین اسلام کی عظیم الشان عمارت قائم ہے، یہ تلاش اس امر کی ہے کہ اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بندے کے درمیان کس قسم کا خوبصورت رشتہ ہے۔ یہ تلاش دراصل اس بات کو دریافت کرلینےکا نام ہے کہ قرآن کوبندے کی کیسی شخصیت مطلوب ہے۔لیکن اس تلاش میں ابلیس نے ایسی دیواریں اور رکاوٹیں بھی کھڑی کردیں ہیں جنھیں عبور کرنا ضروری ہے۔ اللہ سے مخلصانہ محبت کرنے والے کے لیے تلاشِ حق میں بنیادی طور پر صرف دو ہی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ فکری جمود اور جہالت۔

فکری جمود کیا ہے؟قرآن مجید میں (سورۃالتوبہ آیت 31) میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کےمتعلق یہ فرمایا ہے کہ انھوں نے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا، یعنی ان کے علماء انھیں جو کچھ کہتے ، وہ اسے مان لیتے تھے چاہے وہ اللہ کے نازل کردہ واضح احکامات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ان کا اصرار صرف اس بات پر تھا کہ وہ اپنے علماء کی اندھی تقلید نہیں چھوڑیں گے وہ ہمیں جس بات پر لگائیں ہم لگ جائیں گے اور جس بات سے روکیں ہم رک جائیں گے۔لیکن حقیقت میں یہی وہ رویہ یعنی جمود تھا جو قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ذرا غور کیجیے کہ اگر قرآن اس جمود کی مخالفت نہ کرتا تو کیا ہمارے آباء و اجداد ، یا ہم خود باطل مذہبی رہنماؤں کی پیروی میں رہتے ہوئے دینِ حق تک پہنچ سکتے تھے؟قرآن مجید نے انسانی فکر سےاسی جاہلانہ جمود کو ختم کرنے کے لیے غور و فکر کی دعوت دی اور لوگوں کے ذہنوں کو وسیع کیا۔ اس آیت کو دیکھیے کہ قرآن مجید کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا صرف بڑوں اور مذہبی پیشواؤں کے لیے نہیں بلکہ ہر مومن پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

وَلَقَدْ یسرنا القرآن للذکر فھل من مُدَّکِرْ (القمر 17،22،32،40)

”اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا۔ پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟”


اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کریں کہ اس نے علماء اور آباء و اجداد کی اندھی پیروی کے بجائے خود قرآن کی دعوت کو سمجھنے کی تلقین کی ہے تاکہ ہم اس وسعت نظری تک پہنچ جائیں جو ہمیں حق کا راستہ دکھائےگی۔ آپ قرآن مجید کی ساری دعوت دیکھ لیجیے، ہرایک آیت بندے کے قلب و ذہن کو اس بات پر جھنجھوڑتی ہے کہ وہ اعمال و عقائد کے متعلق فکر کرے اور غفلت کی زندگی نہ گزارے۔واضح رہے کہ یہاں یہ بیان کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے کہ ہم علماء کرام پر بھروسہ نہ کریں بلکہ بات صرف یہ ہے ہم وہ لوگ جو “علماء” کے لبادے میں ہمیں توہمات سکھاتے ہیں، ہمیں دین کی حقیقی صورت سے دور رکھتے ہیں ہم ان سے اپنے آپ کو آزاد کرکے علمائے حق کو تسلیم کریں۔ اُس توحیدِ خالص کی طرف آئیں جو ہر قسم کے شرک اور توہمات سے پاک ہے۔

قبول حق میں دوسری بڑی رکاوٹ جہالت ہوتی ہے۔ قرآن جس دور میں نازل کیا گیا اس سے صدیوں پہلے سے اب تک دنیا کی بہت سی قوموں میں دین کا علم ایک مخصوص طبقے تک محدود رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے حق و باطل کی پہچان کرنا ناممکن تھا۔آج بھی علم دین صرف علماء کی میراث سمجھی جاتی ہے، اگر وہ علماء جو ہمیں ہمارے ماحول میں میسر ہوئے ہیں، خدانخواستہ “علماء سو” میں سےہوئے توکیا ہم بھی ان کی گمراہی کےگڑھے میں ان کے ساتھ صرف اس بناءپر چلے جائیں گے کہ ہم نے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی انھیں علم دین کا عَلم بردار دیکھا ہے؟ اسی حقیقت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے علم کے دروازے بھی ہر ایک کے لیے کھول دیے، اسلام نے جس طرح ہر ایک کوقرآن سمجھنے کی دعوت دی ، اسی طرح علم سیکھنابھی ہرایک کے لیے فرض قرار دیاتاکہ صحیح علم کی بنیاد پر بندہ دین کے معاملے میں صحیح فیصلہ کرسکے ۔

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ (ابن ماجہ و بیہقی)

”علم حاصل کرنے کی کوشش اور طلب ہر مسلمان پر فرض ہے”۔


اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ دین کا صحیح فہم حاصل ہونے کے لیے علم ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہ علم صرف نماز ، زکوٰۃ، حج ، روزہ اورظاہری عبادات کے متعلق نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔اسلام کے بنیادی عقائد، اوامر و نواہی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ باتوں کا علم ہونا ہر ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اس علم کا منبع قرآن ہے ۔

قرآن جوعلم پیش کرتا ہے وہ کیا ہے؟ دراصل جہالت کے زوال اور ہمارے ذہن میں موجود جمود کو توڑنے کا نام ہے۔یہ وہ مقدس مشعل ہے جس کی روشنی میں انسان بد اعتقادی، تعصب اور تشکیک کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے نکل کر عقائد کی درستگی ، نفس کی پاکیزگی، روشن خیالی اور فہم و ادراک کے استحکام کی طرف جاتا ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کا حکم کم بیش بیس مرتبہ آیا ہے ۔ بات بالکل سادہ سی (لیکن اہم) ہے کہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے قرآن مجید انتہائی آسان اور بہترین کتاب (Guide)ہے۔یاد رکھیے کہ اس زندگی کے بعد ابدی زندگی میں نجات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ میں حق و صداقت کی تلاش کی آرزو کتنی تھی ؟ آپ کو جو کچھ علم تھا، آپ کی شخصیت و کردار پر اس کا کتنا عکس رہا؟ الغرض یہ کہ آپ اپنے پروردگار سے کتنے مخلص ہیں۔

http://www.misbahmagazine.com/archives/5029
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
  1. رد کرتے ہوئے مخالف کا موقف اس کے الفاظ میں بیان کرنا بہت ’’ ہمت ‘‘ کا کام ہے .
  2. پھر ان الفاظ سے وہی معنی کشید کرنا جو اس کی مراد ہے ، اس کے لیے دیانتداری ضروری ہے ۔
  3. پھر اس کی بنیاد پر انصاف کے ساتھ صحیح یا غلط ہونے کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے جرات مندی کی ضرورت ہے ۔
رد و قدح کرنے والے کئی لوگ پہلے مرحلے پر مخالف کے الفاظ بیان کرنے کی ہی ہمت نہیں پاتے ، اگر الفاظ بیان کردیں تو ان کا درست معنی و مفہوم بیان کرنے کے لیے مطلوب دیانتداری مفقود ہوتی ہے ، اگر یہ بھی ہو جائے تو اس بنیاد پر حاصل ہونے والے نتیجے کو بیان کرنے کے لیے اخلاقی جرأت نا پید جاتی ہوتی ہے .
اگر توفیق خداوندی سے یہ تینوں خصوصیات پیدا ہو جائیں تو پھر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ تنقید و تحقیق خواہش نفسانی یا مذہبی عصبیت سے بالا تر ہو کر تلاش حق کی غرض سے کی جارہی ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
علامہ معلمی رحمہ اللہ کا ایک اور شاندار اقتباس :
وكم من عالم أخطأ في مسألة ؛ فلم يهتمَّ إخوانُه من العلماء بأن يَزوروه ، ويُذاكروه فيها ! أو يكاتبوه في شأنها.
بل غايةُ ما يَصنعُ أحدُهم : أن ينشر إعتراضَه في مجلّة ، أو رسالة .. يُشَنِّعُ على ذلك العالم ! ويُجهِّلُه ! أو يُبدِّعُه ويُكفِّرُه .
فتكونَ النتيجةُ عكسَ المطلوب .
وعلماءُ الدين أحوجُ الناسِ إلى التواصُل والتعاون ؛ خصوصا في العصر الذي تفشَّى فيه وباءُ الإلحاد ، وقلّة الرغبةِ في العلوم الدينية ؛ بل كادت تعم النفرة عنها ، واستغنى كل أحد برأيه .
فأما الدواءُ المعروف ُ-الآن- وهو : التكفير والتضليل- ؛ فإنه لا يزيد ُ الدّاءَ إلا إعضالا .
ومَثَلُه مَثَلُ رجل ظهر ببعض أصابعه بَرَصٌ ؛ فقطَعَها .
فظهر البَرَصُ بأخرى فقطَعَها .فقيل له : حنانيك قبل أن تقطَع جميعَ أعضائك .

[ آثار المُعلمي (15/422) ]
کتنے ہی عالم ہیں جن سے کسی مسئلہ میں غلطی ہوگئی ، لیکن اس کے جاننے والے علماء نے اس کے پاس جاکر یا خط و کتابت کے ذریعے افہام و تفہیم کی طرف توجہ نہ کی ۔
زیادہ سے زیادہ کیا ہوا ، کسی عالم دین نے کسی مجلے یا رسالے میں اس پر رد کرتے ہوئے طعن و تشنیع کی اور جاہل یا بدعتی اور کافر قرار دے دیا ۔
اس طرح نتیجہ بالکل برعکس بر آمد ہوا
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ علماء دین کا آپس میں باہمی رابطہ اور تعاون میں رہنا عام لوگوں کی نسبت زیادہ ضروری ہے ، خاص طور پر اس دور میں جب الحاد کی بیماری عام ہے ، دینی علوم میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ، بلکہ لوگ ان علوم سے بیزار ہو کر اپنی اپنی آراء کو نعم البدل سمجھ چکے ہیں ۔
ایسی صورت حال میں ’’ تکفیر و تضلیل ‘‘ والا علاج نہ صرف فائدہ مند نہیں بلکہ بیماری کے مزید بڑھنے کا باعث بن رہا ہے ۔
اس کی مثال ایسے شخص کی ہے ، جس کی انگلی پھل بہری کا شکار ہوئی تو اس نے اسے کاٹ دیا ، پھر دوسری انگلی کو مسئلہ بنا تو اس نے وہ بھی کاٹ دی ، لوگوں نے کہا ! جان پر ترس کھاؤ ، قبل اس کے کہ سارا جسم کاٹ کر رکھ دو !
آثار المُعلمي (15/422)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جامع العلوم و الحکم سے حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے دو شاندار پہرے ملاحظہ کیجیے :
ولما كثر اختلاف الناس في مسائل الدين ، وكثر تفرقهم ، كثر بسبب ذلك تباغضهم وتلاعنهم ، وكل منهم يظهر أنه يبغض لله ، وقد يكون في نفس الأمر معذورا ، وقد لا يكون معذورا ، بل يكون متبعا لهواه ، مقصرا في البحث عن معرفة ما يبغض عليه ، فإن كثيرا من البغض كذلك إنما يقع لمخالفة متبوع يظن أنه لا يقول إلا الحق ، وهذا الظن خطأ قطعا ، وإن أريد أنه لا يقول إلا الحق فيما خولف فيه ، فهذا الظن قد يخطئ ويصيب ، وقد يكون الحامل على الميل مجرد الهوى ، والإلف ، أو العادة ، وكل هذا يقدح في أن يكون هذا البغض لله ، فالواجب على المؤمن أن ينصح نفسه ، ويتحرز في هذا غاية التحرز ، وما أشكل منه ، فلا يدخل نفسه فيه خشية أن يقع فيما نهي عنه من البغض المحرم .
دینی مسائل میں اختلاف و افتراق کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپس میں بغض و ملامت میں بھی اضافہ ہوا ہے ، ہر ایک یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ کے لیے بغض رکھتا ہے ، بعض دفعہ ایسا انسان معذور ہوتا ہے ، جبکہ بعض دفعہ بلا کسی عذر ہوائے نفس کی پیروی اور تلاش حق میں تقصیر وجہ ہوتی ہے ، بسا اوقات انسان ایسے لوگوں سے بھی بغض رکھتا ، جو اس کے امام کے خلاف موقف رکھتے ہوں ، اس بنیاد پر کہ گویا امام کی مخالفت حق کی مخالفت ہے ، یہ سوچ ہی درست نہیں ، ہاں البتہ بعض دفعہ انسان کسی کے موقف کو درست سمجھ رہا ہوتا ہے ، لیکن بہرنوع ایسی صورت میں بھی ضروری نہیں کہ حق کی حمایت ہی ہو ، بعض دفعہ انسان خواہش نفس اور رسم و رواج کی رو میں بھی بہہ جاتا ہے ، ظاہر یہ سب معاملات کسی بھی چیز کو ’ البغض فی اللہ ‘ کے دائرے سے نکال دیتے ہیں ، لہذا ایک مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا احتساب کرے ، حد درجہ احتیاط سے کام لے ، جہاں ’ البغض فی اللہ ‘ کے علاوہ کسی اور چیز کا شائبہ یا اشکال ہو ، ان معاملات سے پرہیز کرے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان ’ البغض فی اللہ ‘ سمجھتے ہوئے ، ایسے بغض و عداوت میں مبتلا ہوجائے ، جو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
وهاهنا أمر خفي ينبغي التفطن له ، وهو أن كثيرا من أئمة الدين قد يقول قولا مرجوحا ، ويكون مجتهدا فيه ، مأجورا على اجتهاده فيه ، موضوعا عنه خطؤه فيه ، ولا يكون المنتصر لمقالته تلك بمنزلته في هذه الدرجة ، لأنه قد لا ينتصر لهذا القول إلا لكون متبوعه قد قاله ، بحيث إنه لو قاله غيره من أئمة الدين ، لما قبله ، ولا انتصر له ، ولا والى من وافقه ، ولا عادى من خالفه ، وهو مع هذا يظن أنه إنما انتصر للحق بمنزلة متبوعه ، وليس كذلك ، فإن متبوعه إنما كان قصده الانتصار للحق ، وإن أخطأ في اجتهاده ، وأما هذا التابع فقد شاب انتصاره لما يظنه الحق إرادة علو متبوعه ، وظهور كلمته ، وأنه لا ينسب إلى الخطأ ، وهذه دسيسة تقدح في قصد الانتصار للحق ، فافهم هذا ، فإنه فهم عظيم ، والله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم .
یہاں ایک اور لطیف نکتےپر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، کہ بسا اوقات بعض ائمہ دین مرجوح رائے کے قائل ہوتے ہیں ، وہ خود تو بطور مجتہد معذور بلکہ ماجور سمجھے جاتے ہیں ، لیکن ان کی اس رائے کا دفاع کرنے والے کا معاملہ مختلف ہوتا ہے ، کیونکہ ممکن ہے وہ اس بات کا دفاع کر ہی اس لیے رہا ہو کہ یہ اس کے بزرگ نے کہی ہے ، گویا اگر کوئی اور امام یہ بات کرتے تو یہ شخص اسے قبول کرتا نہ اس کی حمایت کرتا ، اور نہ اس سے اختلاف و اتفاق کی صورت میں ولاء و براء رکھتا ، یہ اس کی سوچ ہے کہ جس طرح اس کے بزرگ نے حق بات کہی ، وہ بھی اسی حق کا دفاع کر رہا ہے ، حالانکہ ایسا ہے نہیں ، کیونکہ بزرگ نے تو اپنی سوچ و سمجھ کے مطابق حق بات کہنے کی کوشش کی ، یہ الگ بات کہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ، جبکہ اس امام کا دفاع کرنے والے کی سوچ اپنے بزرگ کا دفاع ہوتا ہے ، گو یہ اسے حق سمجھتا ہے ، لیکن حقیقت میں یہ حق کی بجائے اس بزرگ کی حمایت اور دفاع ہوتا ہے ، تاکہ کوئی ہمارے امام کو غلط نہ کہے ، اور ان کی علو شان اور ذات والا مقام پر کوئی حرف نہ آئے ۔ شخصیت پرستی اور دفاع حق میں خوب فرق سمجھنا اور رکھنا چاہیے ، یہ ایک اہم بات ہے ، باقی راہ ہدایت پر گامزن رکھنے والی صرف اللہ ہی کی ذات ہے ۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
تنقید برداشت کرنا بڑے دل گردے کی بات ہوتی ہے مگر اصلاح کے لئے یہ ضروری ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
  1. رد کرتے ہوئے مخالف کا موقف اس کے الفاظ میں بیان کرنا بہت ’’ ہمت ‘‘ کا کام ہے .
  2. پھر ان الفاظ سے وہی معنی کشید کرنا جو اس کی مراد ہے ، اس کے لیے دیانتداری ضروری ہے ۔
  3. پھر اس کی بنیاد پر انصاف کے ساتھ صحیح یا غلط ہونے کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے جرات مندی کی ضرورت ہے ۔
رد و قدح کرنے والے کئی لوگ پہلے مرحلے پر مخالف کے الفاظ بیان کرنے کی ہی ہمت نہیں پاتے ، اگر الفاظ بیان کردیں تو ان کا درست معنی و مفہوم بیان کرنے کے لیے مطلوب دیانتداری مفقود ہوتی ہے ، اگر یہ بھی ہو جائے تو اس بنیاد پر حاصل ہونے والے نتیجے کو بیان کرنے کے لیے اخلاقی جرأت نا پید جاتی ہوتی ہے .
اگر توفیق خداوندی سے یہ تینوں خصوصیات پیدا ہو جائیں تو پھر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ تنقید و تحقیق خواہش نفسانی یا مذہبی عصبیت سے بالا تر ہو کر تلاش حق کی غرض سے کی جارہی ہے ۔
ان تینوں مراحل میں کامیابی آسان نہیں، مطالعہ وجستجو میں فنا ہونا پڑتا ہے۔ چند کلمات اور سطریں لکھنے کے لیے کتابوں کی کتابیں کھنگالنے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے شب ورز کی عرق ریزی کے بعد ضمیر مخالف کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن نفس کسی بھی طور ہار تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔
گاہے ایسے ہوتا ہے کہ علم وتحقیق سے آزاد چلتی تلوار دیکھ کر واہ واہ کرنے کو جی چاہتا ہے، جبکہ تحقیقی تقاضوں میں جکڑے قلم کی کارکردگی پڑھنے کے لیے بھی دل مطمئن نہیں ہوتا۔
عالمانہ رد ہمیشہ باقی رہنے کے لیے ہوتے ہیں، غیر عالمانہ روش وقتی طور پر مخالف کا مند بند کرنے یا اپنوں کو خوش کرنے کے کام آسکتی ہے۔
عالمانہ رویوں سے اختلاف کم ہوتا ہے، جاہلانہ روش سے دن بہ دن دوری بڑھتی ہے۔(عموما)​
 
Last edited:
Top