• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا وصیت کرنا ضروری ہے؟ اور وصیت نویسی کیلئے شرعی تحریر کیا ہوگی؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا وصیت کرنا ضروری ہے؟ اور وصیت نویسی کیلئے شرعی تحریر کیا ہوگی؟


سوال:

کیا وصیت کرنا واجب ہے؟ اور کیا وصیت لکھتے وقت گواہ بنانا بھی ضروری ہے، کیونکہ مجھے وصیت لکھنے کیلئے کسی شرعی تحریر کےبارے میں علم نہیں ہے، برائے مہربانی میری اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔.



الحمد للہ:

وصیت درج ذیل تحریر کے مطابق لکھی جائے:

"میں مسمی فلاں دختر فلاں یا فلاں ولد فلاں وصیت کرتا ہوں یہ گواہی دیتے ہوئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، وہ یکتا و تنہا ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بندے اور رسول ہیں، اوریہ کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے، رسول، کلمۃ اللہ، اور روح اللہ ہیں، جنت و جہنم حق ہیں، اور قیامت لا محالہ آکر رہے گی، اوراللہ تعالی قبروں میں مدفون لوگوں کو ضرور اٹھائے گا۔

میں اہل خانہ، اولاد، اور دیگر تمام رشتہ داروں سمیت اپنے پسماندگان کو تقوی الہی ، آپس میں صلح صفائی، اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت گزاری، ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرنے ، اور اسی پر قائم رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔

میں ان سب افراد کو وہی وصیت کرتا ہوں جو ابراہیم و یعقوب علیہما السلام نے اپنی اولاد کو کی تھی:
(يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ)
ترجمہ: میرے بیٹو! اللہ تعالی نے یقینا تمہارے لئے دین چن لیا ہے، چنانچہ اب تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔[البقرة:132]

پھر اس کے بعد اپنے مال میں سے ایک تہائی یا اس سے کم مال کی وصیت کرنا چاہے تو اس کا ذکر کر دے، یا کسی مخصوص چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہے تو کل مال میں سے ایک تہائی تک کی وصیت کرنا جائز ہوگا، نیز اس کیلئے وصیت کا مال خرچ کرنے کی جگہ متعین کرنے کا بھی حق ہے، اور اس کیلئے کسی کو ذمہ دار بھی مقرر کر سکتا ہے"

وصیت واجب نہیں ہے ، چنانچہ اگر کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہے تو وصیت کرنا مستحب ہے، اس کی دلیل صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے جسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مسلمان پر یہ حق بنتا کہ وہ اپنی کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہے تو دو راتیں گزرنے سے پہلے اس کی بارے میں وصیت لکھ لے)

لیکن اگر اس شخص پر قرضے یا ایسے واجبات ہوں جن کے کوئی دستاویز ی ثبوت نہ ہوں ، تو جن کے واجبات دینے ہیں انکے حقوق کے تحفظ کیلئے ایسے شخص پر وصیت کرنا واجب ہے۔

اسی طرح اپنی وصیت پر دو عادل گواہ بنا ئے، اور اہل علم میں سے کسی معتمد شخص کے ذریعے تحریر بھی کروا لے، اور اس کیلئے صرف اسی کی تحریر پر ہی اکتفا نہ کیا جائے کیونکہ لوگوں کو تحریر پہچاننے میں غلطی لگ سکتی ہے، اور کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی لکھائی پہچاننے والا کوئی معتمد شخص موجود ہی نہ ہو۔ اللہ تعالی توفیق دے" انتہی

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ

"مجلة البحوث الإسلامية" (33/111)

http://islamqa.info/ur/121088
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جس شخص کی کوئی اولاد نہ ہو وہ کتنی وصیت کر سکتا ہے؟
اپنے مال میں سے ایک تہائی یا اس سے کم مال کی وصیت کرنا چاہے تو اس کا ذکر کر دے، یا کسی مخصوص چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہے تو کل مال میں سے ایک تہائی تک کی وصیت کرنا جائز ہوگا، نیز اس کیلئے وصیت کا مال خرچ کرنے کی جگہ متعین کرنے کا بھی حق ہے، اور اس کیلئے کسی کو ذمہ دار بھی مقرر کر سکتا ہے"
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
وعلیکم السلام بھائی سلام کی ابتدا میں نے کرنی تھی شکریہ بھائی اصلاح کرنے کی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام بھائی سلام کی ابتدا میں نے کرنی تھی شکریہ بھائی اصلاح کرنے کی
بھائی میں نے آپ کی غلطی پکڑنے کیلئے سلام نہیں کہا
بلکہ آپکے سوال کا جواب پوسٹ کرنا چاہ رہا ہوں ۔۔لیکن نہیں ہورہا
جب کہ سلام پوسٹ ہو گیا۔۔عجیب صورتحال ہے !
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بھائی میں نے آپ کی غلطی پکڑنے کیلئے سلام نہیں کہا
بلکہ آپکے سوال کا جواب پوسٹ کرنا چاہ رہا ہوں ۔۔لیکن نہیں ہورہا
جب کہ سلام پوسٹ ہو گیا۔۔عجیب صوتحال ہے !
@خضر حیات بھائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اپنی زندگی میں اپنی جائیداد ورثاء میں تقسیم محدث فتوی

فتاویٰ جات: وراثت فتویٰ نمبر : 2950
باپ کا تمام جائداد اولاد میں سے کسی ایک کو ہبہ کردینا
شروع از بتاریخ : 13 May 2013 01:18 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ پاک علماءکرام کاسایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے آمین۔
ایک آدمی فوت ہو گیا ہے، اپنے والدین کی موجودگی میں وہ شادی شدہ تھا اس کی 2 بیٹیاں ہیں بس بیوی نے زندگی میں طلاق لے لی تھی والد محترم نے اس کی زندگی میں جائداد کاحصہ ہر ایک بھائی کو دے دیا کہ اپنا اپنا گھر بناؤ مگر کسی کو جائداد نام کروانے کی اجازت نہیں دی ٹوٹل 6 بھائی ہیں سب سے بڑے 2 بھائیوں نے اپنے گھر بنائے اس کے بعد تیسرے بھائی کا انتقال ہوا 2سال بعد حضرت والد محترم رحمہ اللہ کا انتقال ہوا جائداد تقسیم کامسئلہ در پیش ہے از راہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔ زندگی میں اپنی جائیداد ورثا کو دے دینا تقسیمِ وراثت نہیں بلکہ ہبہ کے قائم مقام ہے، کیونکہ تقسیمِ وراثت کی شرائط میں سے ہے کہ مورّث (یعنی صاحبِ ترکہ) فوت ہوجائے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص زندگی میں اپنا مال تقسیم کردے تو یہ ہبہ متصوّر ہوگا اگر اس میں شرعی ہبہ کے منافی کوئی کام نہ ہو۔
2۔ اگر اولاد کو ہبہ کیا جائے تو ضروری ہے کہ سب میں برابری کی جائے۔ اولاد میں بعض کو دینا اور دوسروں کا نہ دینا یا بعض کو زیادہ اور بعض کو کم دینا ناجائز ہے، اگر ایسا ہو تو ہبہ واپس لوٹادیا جائے گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدنا نعمان بن بشیرؓ کو ان کے والد بشیرؓ نے کچھ ہبہ کیا اور پھر اپنی بیوی کے کہنے پر رسول کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اس پر گواہ بننے کی درخواست کی۔ رسول کریمﷺ نے پوچھا:
« أكل ولدك نحلت مثله؟ » کہ کیا تو نے اپنی باقی تمام اولاد کو بھی اسی کی مثل ہبہ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: « فارجعه » کہ اس کو واپس لے لو۔ (صحيح البخاری: 2586)
بعض علماء نے ہبہ میں قبضہ کو بطور شرط بیان کیا ہے۔
اگر یہ ہبہ کی شرائط پوری ہیں تو یہ ہبہ صحیح ہے یہ ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، ورنہ اسے لوٹا کر ترکہ میں شامل کیا جائے گا اور تمام ورثا میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔
3۔ سوال سے محسوس ہوتا ہے کہ والد صاحب کی وفات کے وقت ان کے پانچ بیٹے، بیوہ اور دو پوتیاں زندہ تھے۔ والد کی زندگی میں فوت شدہ بیٹا والد کے ترکہ کا وارث نہیں ہوگا، کیونکہ وارث کیلئے مورث کی وفات کے وقت زندہ ہونا شرط ہے۔
اگر ان کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تو بیوہ کو میت کی اولاد کی موجودگی کی وجہ سے کل ترکہ کا آٹھواں (فرضی) حصہ ملے گا، فرمانِ باری ہے:
﴿ فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم ۔۔۔ ﴾ النساء: 12
کہ اگر تمہاری (یعنی میت کی) اولاد ہو تو ان (بیویوں) کیلئے ترکہ کا آٹھواں حصہ ہے۔
باقی سارا مال بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگا، پوتیاں محروم ہیں، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَىٰ رَجُلٍ ذَكَرٍ » ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم
’’مقرر کردہ (فرضی) حصے ان کے مستحقین (اصحاب الفرائض) تک پہنچا دو، اگر کچھ باقی بچ جائے تو وہ سارا قریبی ترین مرد رشتے دار (عصبہ) کیلئے ہے۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
................................
فتاویٰ جات: وراثت فتویٰ نمبر : 2078
اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 08 September 2012 01:54 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں قرآن وسنت کی روشنی میں ۔
(1) کیا باپ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کو اپنی اولاد میں ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ﴾ کے مطابق تقسیم کر کے خود محروم ہو سکتا ہے؟
(2) اگر جائیداد تقسیم کر سکتا ہے اور باپ کی زندگی میں بیٹا فوت ہو جائے تو کیا اب جائیداد واپس باپ کو منتقل ہو گی یا میت کا بیٹا وصول کرے گا جبکہ پوتا دادے کے ہوتے ہوئے جائیداد کا وارث نہیں ہے۔
(3) کیا اولاد باپ کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی جائیداد بیچ کر رقم کو اولاد میں تقسیم کردے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ﴾ والے رکوع میں ﴿مَا تَرَکَ﴾ اور ﴿مِمَّا تَرَکَ﴾ کے الفاظ موجود ہیں نیز ترکہ کی حقیقت میں موت کے بعد چھوڑے ہوئے مال کی قید موجود ہے پھر میراث اور وراثت کے الفاظ بھی زندگی کے ختم ہونے کے بعد پر دلالت کر رہے ہیں تو ان دلائل کی بنا پر انسان اپنے مال کو اپنی اولاد یا دیگر وارثوں میں ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ الخ﴾ کے مطابق تقسیم نہیں کر سکتا۔
ہاں صحیح بخاری میں مروی نعمان بن بشیرؓ والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو بطور عطیہ یا ہبہ دے سکتا ہے(بخاری۔کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا۔باب الھبۃ للولد)یاد رہے اس عطیہ اور ہبہ میں ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنْثَیَیْنِ﴾ والا اصول پیش نظر نہیں رکھا جائے گا کیونکہ یہ موت کے بعد میراث وترکہ میں ہے بلکہ زندگی میں اولاد کو عطیہ یا ہبہ کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے گا۔
(2) زندگی میں جائیداد تقسیم کا حکم جواب نمبر۱ میں بیان ہو چکا ہے تو اب دیکھا جائے گا زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی گئی ہے اگر شریعت کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر مطابق نہیں تو اب اس کو شریعت کے مطابق بنا لیا جائے گا تو دونوں صورتوں میں جو فوت ہونے والے بیٹے کا حصہ بنے گا وہ اس بیٹے کے فوت ہونے کے بعد اس کے ترکہ میں شامل ہو گا اور ترکہ ﴿یُوْصِیْکُمُ اﷲُ﴾ کے مطابق تقسیم ہو گا اور اس سے اس بیٹے کی بیوی اور اولاد کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے والدین کو بھی حصہ ملے گا۔
رہا ’’پوتے کا دادے کے ہوتے ہوئے وارث نہ ہونا ‘‘ تو وہ شریعت کا کوئی اصول نہیں البتہ ’’میت کے پوتے کا میت کے بیٹے (خواہ پوتے کا باپ ہو خواہ چچا یا تایا) کی موجودگی میں پوتا میت کا وارث نہیں ہوتا‘‘ شریعت کا اصول ہے ایسی صورت میں دادا اپنے پوتے کے لیے وصیت کرے قرآن مجید میں ہے
﴿كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ إِن تَرَكَ خَيۡرًا ٱلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَٰلِدَيۡنِ وَٱلۡأَقۡرَبِينَ﴾--بقرة180
’’فرض کر دیا گیا ہے تم پر جب حاضر ہو کسی کو تم میں موت بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے‘‘
(3) نہیں ۔ ہاں اگر باپ مناسب سمجھے تو شریعت کے اصول کے مطابق ایسا کر سکتا ہے اولاد باپ کو تقسیم پر مجبور نہیں کر سکتی ۔
یاد رہے باپ کو بھی اولاد کے سلسلہ میں کتاب وسنت کی پابندی ضروری ہے اور اولاد کو بھی باپ کے سلسلہ میں کتاب وسنت کی پابندی ضروری ہے۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
وراثت کے مسائل ج1ص 396
محدث فتویٰ
 
Top