مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
کیا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ؟
مقبول احمد سلفی
لوگوں میں مشہور ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس لئے ایمان کا تقاضہ ہے کہ وطن سے محبت کی جائے اور جو وطن سے محبت نہیں کرتا وہ وطن مخالفت ہے ۔ دراصل اس بات کی بنیاد ایک حدیث پر ہے ، وہ حدیث اس طرح ہے : "حب الوطن من الإيمان "۔اس کا معنی ہے کہ وطن سے محبت کرنا ایمان میں سے ہے یعنی ایمان کا حصہ ہے ۔
یہ حدیث عوام میں کثرت سے پھیلی ہے اور عوام اس حدیث کو صحیح سمجھتی ہے جبکہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سےثابت نہیں ہے ۔اس حدیث پہ محدثین کے چند احکام درج کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ حدیث ہے یا بناوٹی بات ؟
(1) صغانی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (موضوعات الصغانی: 53)
(2) سخاوی نے کہا کہ میں اس حدیث پر مطلع نہیں ہوں ۔ (المقاصد الحسنۃ : 218)
(3) سیوطی نے بھی وہی کہا جو سخاوی نے کہا۔( الدرر المنتثرۃ : 65)
(4) ملا علی قاری نے کہا کہ کہا گیاہے اس کی کوئی اصل نہیں یا اس کی اصل موضوع ہونا ہے ۔(الاسرار المرفوعۃ : 189)
(5) محمدبن محمد الغزی نے کہا یہ حدیث ہی نہیں ہے ۔(اتقان مایحسن: 1/222)
(6) زرقانی نے کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں جانتا۔(مختصر المقاصد: 361)
(7) وداعی نے کہا کہ یہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔(الفتاوی الحدیثیۃ: 1/56)
(8) محمد جاراللہ الصعدی نے کہا کہ ایسی حدیث نہیں آئی ہے ۔(النوافح العطرۃ:120)
(9) شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ یہ مشہور ہے مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(شرح النزھۃ لابن عثیمین :55)
(10) شیخ البانی رحمہ اللہ کا بھی حکم ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ : 36)
اس حدیث پہ اتنی لمبی بحث لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ لوگ یہ بات جان لیں کہ وطن سے محبت کرنا ایمان نہیں ہے ، اگر کوئی وطن کے لئے جان دیتا ہے تو ایمان واسلام کے لئے نہیں جان دیتاہے وہ محض وطن کے لئے جان دیتا ہے ۔ اس لئے وطن کے لئے جان دینے والوں کو وطن پر قربان ہونے والا یا وطن کے لئے جان دینے والا کہیں گے مگر انہیں شہید نہیں کہیں گے ۔
ہاں وطن سے محبت فطری چیز ہے ، جو جہاں پیدا ہوتا ہے فطرتا اس سے محبت ہوجاتی ہے اور یہ محبت جائز ہے ۔ نبی ﷺ کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی اور آپ نے محبت کا اظہار بھی فرمایاہے، آپ دعا کرتے تھے :
اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ(صحيح البخاري:5654)
ترجمہ: ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
مکہ سے محبت پر آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے :
قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ لمكَّةَ ما أطيبَكِ من بلدٍ وأحبَّكِ إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرجوني منكِ ما سَكَنتُ غيرَكِ(صحيح الترمذي:3926)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے ، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔
اسی طرح آپ ﷺ مدینہ سےبھی بیحد محبت کرتے تھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب آپ سفر سے واپس ہوتے اور مدینہ نظر آنے لگتا تو مدینہ سے محبت میں سواری تیز کردیتے چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا قَدِمَ مِن سفرٍ ، فأَبْصَرَ درجاتِ المدينةِ ، أَوْضَعَ ناقتَه ، وإن كانت دابَّةً حرَّكَها .(صحيح البخاري:1802)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔
آگے ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔
حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :
وفي الحديث دلالة على فضل المدينة ، وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه . (فتح الباری)
ترجمہ : یہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح یہ وطن سے محبت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے ۔
گویا یہاں اس بات کی صراحت ہوجاتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ اور مدینہ سے بیحد محبت تھی ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مکہ سے نبی ﷺ کی محبت اس لئے تھی کہ مکہ اللہ کے نزدیک محبوب ہے ،اس لئے نہیں کہ یہ آپ کا وطن تھا۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ وطن ہونے اور اللہ کو محبوب ہونےیعنی دونوں حیثیت سے محبوب تھاکیونکہ دلائل سے دونوں قسم کی محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان کو جیسے اپنی جان سے محبت ہے ، اپنے مال سے محبت ہے اسی طرح اس جگہ سے محبت ہوتی ہے جہاں پیدا ہوتا اور سکونت اختیار کرتا ہے ۔ اس محبت میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اس محبت کا تعلق فطرت ہے ۔ ہاں یہ فطری محبت ،اللہ اور اس کے رسول یا ان کے احکام کی محبت پر غالب آجائے تو اس پہ سخت وعید ہے ۔