• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
کیا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ؟

مقبول احمد سلفی


لوگوں میں مشہور ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس لئے ایمان کا تقاضہ ہے کہ وطن سے محبت کی جائے اور جو وطن سے محبت نہیں کرتا وہ وطن مخالفت ہے ۔ دراصل اس بات کی بنیاد ایک حدیث پر ہے ، وہ حدیث اس طرح ہے : "حب الوطن من الإيمان "۔اس کا معنی ہے کہ وطن سے محبت کرنا ایمان میں سے ہے یعنی ایمان کا حصہ ہے ۔
یہ حدیث عوام میں کثرت سے پھیلی ہے اور عوام اس حدیث کو صحیح سمجھتی ہے جبکہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سےثابت نہیں ہے ۔اس حدیث پہ محدثین کے چند احکام درج کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ حدیث ہے یا بناوٹی بات ؟
(1) صغانی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (موضوعات الصغانی: 53)
(2) سخاوی نے کہا کہ میں اس حدیث پر مطلع نہیں ہوں ۔ (المقاصد الحسنۃ : 218)
(3) سیوطی نے بھی وہی کہا جو سخاوی نے کہا۔( الدرر المنتثرۃ : 65)
(4) ملا علی قاری نے کہا کہ کہا گیاہے اس کی کوئی اصل نہیں یا اس کی اصل موضوع ہونا ہے ۔(الاسرار المرفوعۃ : 189)
(5) محمدبن محمد الغزی نے کہا یہ حدیث ہی نہیں ہے ۔(اتقان مایحسن: 1/222)
(6) زرقانی نے کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں جانتا۔(مختصر المقاصد: 361)
(7) وداعی نے کہا کہ یہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔(الفتاوی الحدیثیۃ: 1/56)
(8) محمد جاراللہ الصعدی نے کہا کہ ایسی حدیث نہیں آئی ہے ۔(النوافح العطرۃ:120)
(9) شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ یہ مشہور ہے مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(شرح النزھۃ لابن عثیمین :55)
(10) شیخ البانی رحمہ اللہ کا بھی حکم ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ : 36)
اس حدیث پہ اتنی لمبی بحث لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ لوگ یہ بات جان لیں کہ وطن سے محبت کرنا ایمان نہیں ہے ، اگر کوئی وطن کے لئے جان دیتا ہے تو ایمان واسلام کے لئے نہیں جان دیتاہے وہ محض وطن کے لئے جان دیتا ہے ۔ اس لئے وطن کے لئے جان دینے والوں کو وطن پر قربان ہونے والا یا وطن کے لئے جان دینے والا کہیں گے مگر انہیں شہید نہیں کہیں گے ۔
ہاں وطن سے محبت فطری چیز ہے ، جو جہاں پیدا ہوتا ہے فطرتا اس سے محبت ہوجاتی ہے اور یہ محبت جائز ہے ۔ نبی ﷺ کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی اور آپ نے محبت کا اظہار بھی فرمایاہے، آپ دعا کرتے تھے :

اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ(صحيح البخاري:5654)
ترجمہ: ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
مکہ سے محبت پر آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے :
قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ لمكَّةَ ما أطيبَكِ من بلدٍ وأحبَّكِ إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرجوني منكِ ما سَكَنتُ غيرَكِ(صحيح الترمذي:3926)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے ، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔
اسی طرح آپ ﷺ مدینہ سےبھی بیحد محبت کرتے تھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب آپ سفر سے واپس ہوتے اور مدینہ نظر آنے لگتا تو مدینہ سے محبت میں سواری تیز کردیتے چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا قَدِمَ مِن سفرٍ ، فأَبْصَرَ درجاتِ المدينةِ ، أَوْضَعَ ناقتَه ، وإن كانت دابَّةً حرَّكَها .(صحيح البخاري:1802)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔
آگے ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔
حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :

وفي الحديث دلالة على فضل المدينة ، وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه . (فتح الباری)
ترجمہ : یہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح یہ وطن سے محبت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے ۔
گویا یہاں اس بات کی صراحت ہوجاتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ اور مدینہ سے بیحد محبت تھی ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مکہ سے نبی ﷺ کی محبت اس لئے تھی کہ مکہ اللہ کے نزدیک محبوب ہے ،اس لئے نہیں کہ یہ آپ کا وطن تھا۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ وطن ہونے اور اللہ کو محبوب ہونےیعنی دونوں حیثیت سے محبوب تھاکیونکہ دلائل سے دونوں قسم کی محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان کو جیسے اپنی جان سے محبت ہے ، اپنے مال سے محبت ہے اسی طرح اس جگہ سے محبت ہوتی ہے جہاں پیدا ہوتا اور سکونت اختیار کرتا ہے ۔ اس محبت میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اس محبت کا تعلق فطرت ہے ۔ ہاں یہ فطری محبت ،اللہ اور اس کے رسول یا ان کے احکام کی محبت پر غالب آجائے تو اس پہ سخت وعید ہے ۔

 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جزاک الله -

بدقسمتی سے ہمارے ہاں وطن سے محبّت کے جو دعوے یا اظھار کیے جاتے ہیں- اس سے بدعت اور منافقت کی بو آتی ہے- ویسے بھی شہروں میں جو فضیلت مکہ اور مدینہ کو دنیا کے باقی شہروں پر ہے وہ کسی دوسرے شہر کو حاصل نہیں - اسلئے کہا جا سکتا ہے کہ تمام مسلمانوں کی "مکہ و مدینہ" سے محبّت ان کے ایمان کا حصّہ ہے- لیکن کسی کا ان دو شہروں کے علاوہ اپنے آبائی شہر یا ملک سے محبّت کو ایمان کا حصّہ قرار دینا "بدعت و گمراہی" ہے- البتہ فطری محبّت ہونا ایک الگ چیز ہے- (واللہ اعلم)-
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
یمن، ملک شام اور شہر مسجد اقصیٰ سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے؟
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

وطن سے محبت فطری چیز ہے
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿
عصرحاضرکی خاص اصطلاح ”وطنیت“ اور اس سے منسلک غیر ضروری تقاضوں سے ہٹ کربات کی جائے تو وطن سے محبت کوئی معیوب چیز نہیں ہے نہ اسلام میں اورنہ ہی کسی اور مذہب میں ، بلکہ اپنے وطن اور علاقے سے محبت ایک فطری چیز ہے ، اورہر انسان کا حق ہے ۔
اللہ کے نبی ﷺ پر جب پہلی وحی آئی اورآپ ﷺ نے اس کا تذکرۃ ورقہ بن نوفل سے کیا تو مختلف روایات کے مطابق ورقہ بن نوفل نے کئی پیشین گوئیاں کیں، لیکن جیسے ہی ورقہ نے یہ کہاکہ :
”ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك“ ، ”کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی“
تو آپ ﷺ نے کہا:
”أو مخرجي هم؟“ ، ”کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟“ [صحيح البخاري ، رقم 3]
اس کی تشریح میں امام سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”يؤخذ منه شدة مفارقة الوطن على النفس فإنه ﷺ سمع قول ورقة أنهم يؤذونه ويكذبونه فلم يظهر منه انزعاج لذلك فلما ذكر له الإخراج تحركت نفسه لذلك لحب الوطن وإلفه فقال: أو مخرجي هم“
”اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وطن کی مفارقت دل پربہت گراں گذرتی ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے یہ سب کہتے ہوئے سنا کہ یہ لوگ آپ کو تکلیف دیں گے ، اور جھٹلا دیں گے لیکن ان باتوں پر آپ کو کو ئی گھبراہٹ نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی ورقہ نے یہ ذکر کیا کہ یہ لوگ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے ، اس پر آپ ﷺ کا دل لرز اٹھا وطن کی محبت اور اس سے الفت کے باعث اور آپ ﷺ نے بے ساختہ کہا : کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 12/ 359]
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جو سب سے بڑی قربانی شمار کی گئی ہے وہ ہجرت یعنی ترک وطن کی قربانی ہے ، عہد فاروقی میں جب صحابہ نے اپنے اسلامی سن کی بنیاد ڈالی تو مشورہ ہوا کہ اسے کس نام سے موسوم کیا جائے ، یہ بہت اہم مسئلہ تھا کیونکہ کسی چیز کو سن کے ساتھ جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر سال ، ہر ماہ ، ہر دن اور ہر لمحہ کے لئے یاد گار بنایا جارہا ہے ، اب غور طلب بات یہ تھی نبی ﷺ اور صحابہ کی پوری زندگی میں ایسی کون سی سب سے اہم بات تھی جسے ہمیشہ کے لئے یادگار بنادیا جائے ، بہت ساری باتیں کہیں گئیں لیکن جس چیز پر اتفاق ہوا وہ یہ کہ واقعہ ہجرت سے اسلامی سن کو موسوم کیا جائے۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز، عن أبيه، عن سهل بن سعد، قال: ما عدوا من مبعث النبي ﷺ ولا من وفاته، ما عدوا إلا من مقدمه المدينة“
”سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اسلامی تاریخ کا شمار نہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کے سال سے ہوا اور نہ آپ کی وفات کے سال سے بلکہ اس کا شمار مدینہ کی ہجرت کے سال سے ہوا“ [صحيح البخاري، رقم 3934]
یہ ہجرت کا مقدس اورعظیم الشان عمل جسے اسلامی تاریخ کے ساتھ جڑنے کا شرف ملا ، یہ ترک وطن کی قربانی سے عبارت تھا ، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وطن کی محبت کیا چیز ہوتی ہے اور ایمان وعمل کی چوٹیوں پر پہنچنے کے باوجود بھی وطن سے جدائی کتنی بڑی قربانی ہوتی ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رکھئیے کہ اسی وطن میں اہل وطن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا ، کتنوں کی جائداد پرقبضہ کرلیا ، کتنوں کو دردناک سزائیں دیں اور کتنوں کے اقرباء و اہل وعیال کو جان سے مارڈالا لیکن اہل وطن کی ان مظالم کے باوجود بھی وہ اپنے وطن کی محبت سے دست بردار نہ ہوسکے ۔
ایک آزاد شخص کو تو جانیں دیں مکہ میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے بلال رضی اللہ عنہ کا حال دیکھیں جنہیں اسلام لانے کے سبب اہل مکہ نے ہولناک سزائیں بھی دیں ، صحیح بخاری کی روایت ہے ، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، بلال رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرکے مدینہ آگئے تو وہ بخار میں مبتلا ہوگئے اور بلال رضی اللہ عنہ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے :
”ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة ... بواد وحولي إذخر وجليل
وهل أردن يوما مياه مجنة ... وهل يبدون لي شامة وطفيل“
”کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ کبھی میں ایک رات بھی وادی مکہ میں گزار سکوں گا جب کہ میرے اردگرد (خوشبودار گھاس) اذخر اور جلیل ہوں گی ،
اور کیا ایک دن بھی مجھے ایسا مل سکے گا جب میں مقام مجنہ کے پانی پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا“
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نے دعا کی:
”اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة، أو أشد وصححها وبارك لنا في صاعها ومدها، وانقل حماها فاجعلها بالجحفة“
”اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں اتنی پیدا کر دے جتنی مکہ کی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ، یہاں کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا! ہمارے لیے یہاں کے صاع اور مد (اناج ناپنے کے پیمانے) میں برکت عنایت فرما اور یہاں کے بخار کو مقام جحفہ میں بھیج دے“ [صحيح البخاري، رقم3926]
ملاحظہ فرمائیے کہ اہل وطن کی ظلم وزیادتی بھی اس کی محبت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، اور ہر شخص کا دل اپنے وطن کی محبت سے شرسار ہوتاہے ، یہ ایک فطری بات ہے ۔
امام ابن بطال (المتوفى: 449 ) فرماتے ہیں:
”وقد جبل الله النفوس على حب الأوطان والحنين إليها، وفعل ذلك عليه السلام، وفيه أكرم الأسوة“
”اللہ تعالی نے لوگوں کو وطن کی محبت اور اس کے ساتھ اشتیاق پر پیدا کیا ہے اور آپ ﷺ نے بھی وطن سے محبت کی اس میں بہترین اسوہ ہے“ [شرح صحيح البخارى لابن بطال 4/ 453]
(کفایت اللہ سنابلی)


.
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
وطن سے محبت فطری چیز ہے
(کفایت اللہ سنابلی)
جب تک ایسے جاہلوں کو لوگ گردنوں سے پکڑ کر منبروں سے نہیں اتارتے تب تک نظام خلافت قائم نہیں ہو پائے گی۔ آج دنیا میں سب سے خطرناک چیز نیشنل ایجم (Nationalism) ہے۔
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
وطن سے محبت فطری چیز ہے
(کفایت اللہ سنابل
مزے کی بات ہے کی آج ہی ایک یزیدی @ابو داؤد کی پوسٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے بعض فتویٰ بازوں یعنی علماء! عرب سے یہ نقل کیا کی یوم آزادی کفار کی عید سے مشابہت ہے اور جائز نہیں دوسری طرف @کفایت اللہ یزیدی کا پوسٹ جو حب وطن کو دین ثابت کر رہا ہے۔ ماشآء اللّٰه، جاہل تحقیق کے نام پر کیا کیا کررہے ہیں۔

ابھی تیز دماغ والے آکر یہ نہ کہہ دے کی یوم آزادی منانا حب الوطنی میں داخل نہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته!
ابھی تیز دماغ والے آکر یہ نہ کہہ دے کی یوم آزادی منانا حب الوطنی میں داخل نہیں۔
اپنے كلام کے ناقص ہونے کا ادراك خود بھی ہے، مگر پھر بھی تجاہل عارفانہ سے کام لینے کو غالباً ثواب سمجھا ہوا ہے!

شیخ كفایت الله سنابلی نے حب وطن کے فطری ہونے پر دین کے لیئے ترک وطن کی قربانی سے دلیل لی ہے!
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
اپنے كلام کے ناقص ہونے کا ادراك خود بھی ہے،
نہیں میاں آپ جیسے ذہن کے لوگوں کے آنے کا ادراک پہلے سے تھا اور آپ کے عقل کی حد کا ادراک پہلے سے تھا کی آپ بس یہی بول سکتے ہے۔

شیخ كفایت الله سنابلی نے حب وطن کے فطری ہونے پر دین کے لیئے ترک وطن کی قربانی سے دلیل لی ہے!
ایک چیز اگر فطرت میں ہیں اور قرآن وحدیث کے دلائل سے دین کے اندر بھی ثابت ہو گئی تو وہ بدعت ہوگی یا دین؟

یہ ہے آپ کے تنازعات
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته!
ایک چیز اگر فطرت میں ہیں اور قرآن وحدیث کے دلائل سے دین کے اندر بھی ثابت ہو گئی تو وہ بدعت ہوگی یا دین؟

یہ ہے آپ کے تنازعات
یہ ہمارے تنازعات نہیں، آپ کی شریعت میں امور دنیا اور امور دینیہ کے معاملات میں جہالت کا ثبوت ہے!
 
Top