مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 464
- پوائنٹ
- 209
کیا ولی لڑکی کو نکاح کی عام اجازت دے سکتا ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برائے مہربانی وضاحت سے رہنمائی کیجئے گا، جزاک اللہ خیراً
حضرت اگر ولی زبانی لڑکی سے کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سےجہاں چاہیں شادی کریں یا پھر ہمیں بتائیں تاکہ ہم آپ کا نکاح کرائیں ۔واضح رہےکہ اس اجازت کے متعلق صرف لڑکی کو اور گھر کے چند افراد کومعلوم ہے ۔ اس کے بعد لڑکی اس اجازت کی وجہ سے دوگواہ کے سامنے اپنے سےدوسال چھوٹے عمر کے لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے ، نکاح کے وقت لڑکی کی کہی ہوئی بات پر اعتبار کرکے نکاح خواہ نے اس کا نکاح پڑھا دیا ۔اس نکاح سے متعلق چند باتیں مندرجہ ذیل ہیں جن کا جواب مطلوب ہے ۔
1۔ نکاح ہونے کی گھر میں کسی کو خبر نہیں اور نہ ہی گھر کا کوئی فرد اس نکاح میں شریک تھا۔
2- ولی کو نکاح ہونے کا کوئی علم نہیں اور ولی نکاح میں غیرموجود تھا۔
3- ولی نے صرف زبانی اجازت دی ، وہ بھی لڑکی کو۔
4۔ نکاح کے وقت نکاح خواں نے ولی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔
5- لڑکی کے لئے ولی کی اجازت والی بات پر نکاح پڑھا دیا گیا۔
6- اگر لڑکی نے لڑکے سے جھوٹ بول کر نکاح کیا ہو اور ولی سے اجازت نہیں ملی ہوتوگناہ کس پر ہوگا؟
7- اگر واقعی لڑکی کو ولی نے اجازت دی تھی تو کیا نکاح صحیح ہے ؟
سائل :اسد ہاشم ، سوال بذریعہ ایمیل حاصل ہوا۔
E-mail:asadhashim_19@hotmail.com
الجواب بعون اللہ الوھاب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امیدکہ بخیرہوں گے ۔
آپ نے ایک نکاح کے متعلق پوچھا ہے اور یہ کہاہے کہ ایک لڑکی نے کہا کہ اس کواس کے ولی نے اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کی اجازت دیدی ہے اور اس لڑکی نے ایک شادی بھی کی اس شادی میں ولی حاضر نہیں تھا، نہ ہی گھر کا کوئی فرد شامل تھا اور نہ ہی نکاح خواہ نےولی کو تلاش کیا بلکہ لڑکی کی بات کا اعتبار کرکے نکاح پڑھا دیا۔ اس سے متعلق آپ کے چند اشکالات ہیں ، ان سب کا جواب نیچے دیا جارہا ہے ۔
1۔ گھر میں کسی کو خبر ہو یا نہ ہواور نکاح میں گھر کا کوئی فرد شامل ہویا نہ ہولیکن ولی کو خبر ہونا اور اس کی طرف سےصریح اجازت کا ہوناضروری ہے ، یاد رہے ولی کی اجازت ورضامندی کے بغیر نکاح باطل ہے، نبی کا فرمان ہے :لانکاح الابولی کہ بغیر ولی کے نکاح باطل ہے۔
2۔جب ولی کو نکاح کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی وہ اس نکاح میں موجود تھا اس لئے یہ نکاح باطل ہے ، ولی کو نکاح کی خبر ہونا اوراس نکاح پر راضی ہونالازم ہے نیزنکاح میں موجود ہونا بھی لازم ہے ، اگر وہ کسی وجہ سے مجلس نکاح میں موجود نہ ہوسکے تو وہ اپنی جانب سے کسی کو وکیل بنا سکتے ہیں تاہم ولی کونکاح کی خبر اور اس کی رضامندی ضروری ہے، اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ لڑکی کا نکاح کروانے والا ولی ہی ہوتا ہے۔
3۔ ولی نے زبانی لڑکی کو شادی کی عام اجازت دی ہےکہ وہ جہاں چاہے شادی کرلے اوراس کے بعد لڑکی ولی کو اطلاع کئے بغیرشادی بھی کرلے۔اس بارے میں عرض یہ ہے کہ کوئی ولی لڑکی کو اس طرح عام اجازت نہیں دے سکتا ہے کہ وہ جہاں چاہے شادی کرلے ، اس قسم کی عام اجازت کی بنیاد پر ولی کی اطلاع کے بغیر نکاح کرلینے سےنکاح ہی نہیں ہوگا ۔ ولی عام اجازت نہیں دے سکتا ، ہاں لڑکی کسی لڑکے کو پسند کرکے کہے کہ میں فلاں لڑکے سے نکاح کرنا چاہتی ہوں اور ولی اجازت دے تو یہ جائز ہے اور اس نکاح میں ولی کی حاضری بھی ضروری ہے ۔
4۔ ایسا نکاح پڑھانے والا یاتو دین سے پوری طرح ناواقف ہے یا پھر دنیاوی منفعت کے لئے نکاح پڑھا دیاہے۔نکاح خواں کے لئے ضروری ہے کہ مجلس نکاح میں ولی ، دلہا اوردوگواہ طلب کرے ۔
5۔جس نے بھی محض لڑکی کی اجازت والی بات سن کرنکاح پڑھادیا یا جس نے نکاح کرلیاان سب کو گناہ ملے گا، اسلام نے ہمیں نکاح کا پاکیزہ قانون دیا ہے ،اس قانون کے تحت لڑکا کوچاہئے کہ نکاح کا پیغام لڑکی کو نہیں بلکہ لڑکی کے ولی کودے ، پھر وہ ولی اپنی رضامندی سے لڑکی کا نکاح لڑکے کے دین واخلاق کی بنیاد پرکرائے ۔
6۔ اگر لڑکی نے لڑکےسے جھوٹ بول کرنکاح کرایا تو اس کا گناہ لڑکی کے ساتھ لڑکا، نکاح خواں اور دونوں گواہوں پربھی ہوگا بلکہ جو بھی اس گناہ کے کام میں شریک ہوگا سب پر ہوگا۔لڑکی کا گناہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ولی کو دھوکہ دیا اور ولی کی بغیر نکاح کیا، لڑکا کا گناہ یہ ہے کہ اس نے نکاح کی بات لڑکی سے کی اور بغیرولی کے نکاح کرلیاجبکہ نکاح کی بات اس کے ولی سے کرنا تھااور اس کی رضامندی سے نکاح کرنا تھا، نکاح خواں کا گناہ یہ ہے کہ اس نے ولی کومجلس میں نہ حاضر کیا اور نہ ہی اس کی رضامندی معلوم کی ، اسی طرح گواہ یا دوسرے لوگوں کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسی شادی چھپ کر کرائی جس کی اطلاع گھروالوں کو نہیں اور نہ ہی ولی کوخبرتھی۔
7۔ لڑکی کو اس کے ولی نے یہ اجازت دی ہو کہ تم جہاں چاہوں اپنی مرضی سے شادی کرلو ، ایسی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس بنیاد پر کی گئی شادی نہیں ہوگی ۔ولی کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص لڑکے کے متعلق ولی کہے کہ ہاں فلاں لڑکے سے تم شادی کرسکتی ہو ،اس قسم کی اجازت جائز ہے اور پھر نکاح میں ولی کو بحیثیت ولی حاضر بھی ہونا پڑے گا، جس میں دوگواہ بھی ہو پھر نکاح صحیح ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برائے مہربانی وضاحت سے رہنمائی کیجئے گا، جزاک اللہ خیراً
حضرت اگر ولی زبانی لڑکی سے کہتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سےجہاں چاہیں شادی کریں یا پھر ہمیں بتائیں تاکہ ہم آپ کا نکاح کرائیں ۔واضح رہےکہ اس اجازت کے متعلق صرف لڑکی کو اور گھر کے چند افراد کومعلوم ہے ۔ اس کے بعد لڑکی اس اجازت کی وجہ سے دوگواہ کے سامنے اپنے سےدوسال چھوٹے عمر کے لڑکے سے نکاح کرلیتی ہے ، نکاح کے وقت لڑکی کی کہی ہوئی بات پر اعتبار کرکے نکاح خواہ نے اس کا نکاح پڑھا دیا ۔اس نکاح سے متعلق چند باتیں مندرجہ ذیل ہیں جن کا جواب مطلوب ہے ۔
1۔ نکاح ہونے کی گھر میں کسی کو خبر نہیں اور نہ ہی گھر کا کوئی فرد اس نکاح میں شریک تھا۔
2- ولی کو نکاح ہونے کا کوئی علم نہیں اور ولی نکاح میں غیرموجود تھا۔
3- ولی نے صرف زبانی اجازت دی ، وہ بھی لڑکی کو۔
4۔ نکاح کے وقت نکاح خواں نے ولی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔
5- لڑکی کے لئے ولی کی اجازت والی بات پر نکاح پڑھا دیا گیا۔
6- اگر لڑکی نے لڑکے سے جھوٹ بول کر نکاح کیا ہو اور ولی سے اجازت نہیں ملی ہوتوگناہ کس پر ہوگا؟
7- اگر واقعی لڑکی کو ولی نے اجازت دی تھی تو کیا نکاح صحیح ہے ؟
سائل :اسد ہاشم ، سوال بذریعہ ایمیل حاصل ہوا۔
E-mail:asadhashim_19@hotmail.com
الجواب بعون اللہ الوھاب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امیدکہ بخیرہوں گے ۔
آپ نے ایک نکاح کے متعلق پوچھا ہے اور یہ کہاہے کہ ایک لڑکی نے کہا کہ اس کواس کے ولی نے اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کی اجازت دیدی ہے اور اس لڑکی نے ایک شادی بھی کی اس شادی میں ولی حاضر نہیں تھا، نہ ہی گھر کا کوئی فرد شامل تھا اور نہ ہی نکاح خواہ نےولی کو تلاش کیا بلکہ لڑکی کی بات کا اعتبار کرکے نکاح پڑھا دیا۔ اس سے متعلق آپ کے چند اشکالات ہیں ، ان سب کا جواب نیچے دیا جارہا ہے ۔
1۔ گھر میں کسی کو خبر ہو یا نہ ہواور نکاح میں گھر کا کوئی فرد شامل ہویا نہ ہولیکن ولی کو خبر ہونا اور اس کی طرف سےصریح اجازت کا ہوناضروری ہے ، یاد رہے ولی کی اجازت ورضامندی کے بغیر نکاح باطل ہے، نبی کا فرمان ہے :لانکاح الابولی کہ بغیر ولی کے نکاح باطل ہے۔
2۔جب ولی کو نکاح کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی وہ اس نکاح میں موجود تھا اس لئے یہ نکاح باطل ہے ، ولی کو نکاح کی خبر ہونا اوراس نکاح پر راضی ہونالازم ہے نیزنکاح میں موجود ہونا بھی لازم ہے ، اگر وہ کسی وجہ سے مجلس نکاح میں موجود نہ ہوسکے تو وہ اپنی جانب سے کسی کو وکیل بنا سکتے ہیں تاہم ولی کونکاح کی خبر اور اس کی رضامندی ضروری ہے، اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ لڑکی کا نکاح کروانے والا ولی ہی ہوتا ہے۔
3۔ ولی نے زبانی لڑکی کو شادی کی عام اجازت دی ہےکہ وہ جہاں چاہے شادی کرلے اوراس کے بعد لڑکی ولی کو اطلاع کئے بغیرشادی بھی کرلے۔اس بارے میں عرض یہ ہے کہ کوئی ولی لڑکی کو اس طرح عام اجازت نہیں دے سکتا ہے کہ وہ جہاں چاہے شادی کرلے ، اس قسم کی عام اجازت کی بنیاد پر ولی کی اطلاع کے بغیر نکاح کرلینے سےنکاح ہی نہیں ہوگا ۔ ولی عام اجازت نہیں دے سکتا ، ہاں لڑکی کسی لڑکے کو پسند کرکے کہے کہ میں فلاں لڑکے سے نکاح کرنا چاہتی ہوں اور ولی اجازت دے تو یہ جائز ہے اور اس نکاح میں ولی کی حاضری بھی ضروری ہے ۔
4۔ ایسا نکاح پڑھانے والا یاتو دین سے پوری طرح ناواقف ہے یا پھر دنیاوی منفعت کے لئے نکاح پڑھا دیاہے۔نکاح خواں کے لئے ضروری ہے کہ مجلس نکاح میں ولی ، دلہا اوردوگواہ طلب کرے ۔
5۔جس نے بھی محض لڑکی کی اجازت والی بات سن کرنکاح پڑھادیا یا جس نے نکاح کرلیاان سب کو گناہ ملے گا، اسلام نے ہمیں نکاح کا پاکیزہ قانون دیا ہے ،اس قانون کے تحت لڑکا کوچاہئے کہ نکاح کا پیغام لڑکی کو نہیں بلکہ لڑکی کے ولی کودے ، پھر وہ ولی اپنی رضامندی سے لڑکی کا نکاح لڑکے کے دین واخلاق کی بنیاد پرکرائے ۔
6۔ اگر لڑکی نے لڑکےسے جھوٹ بول کرنکاح کرایا تو اس کا گناہ لڑکی کے ساتھ لڑکا، نکاح خواں اور دونوں گواہوں پربھی ہوگا بلکہ جو بھی اس گناہ کے کام میں شریک ہوگا سب پر ہوگا۔لڑکی کا گناہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ولی کو دھوکہ دیا اور ولی کی بغیر نکاح کیا، لڑکا کا گناہ یہ ہے کہ اس نے نکاح کی بات لڑکی سے کی اور بغیرولی کے نکاح کرلیاجبکہ نکاح کی بات اس کے ولی سے کرنا تھااور اس کی رضامندی سے نکاح کرنا تھا، نکاح خواں کا گناہ یہ ہے کہ اس نے ولی کومجلس میں نہ حاضر کیا اور نہ ہی اس کی رضامندی معلوم کی ، اسی طرح گواہ یا دوسرے لوگوں کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسی شادی چھپ کر کرائی جس کی اطلاع گھروالوں کو نہیں اور نہ ہی ولی کوخبرتھی۔
7۔ لڑکی کو اس کے ولی نے یہ اجازت دی ہو کہ تم جہاں چاہوں اپنی مرضی سے شادی کرلو ، ایسی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس بنیاد پر کی گئی شادی نہیں ہوگی ۔ولی کی اجازت کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص لڑکے کے متعلق ولی کہے کہ ہاں فلاں لڑکے سے تم شادی کرسکتی ہو ،اس قسم کی اجازت جائز ہے اور پھر نکاح میں ولی کو بحیثیت ولی حاضر بھی ہونا پڑے گا، جس میں دوگواہ بھی ہو پھر نکاح صحیح ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف