• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاؤں قبلہ رخ کرنا نا جائز ہے ؟

شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
(اول )1۔۔۔ سنن دارقطنی جلد 2 سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع روایت ذکر کی گئی ہے مولانا نے اس حدیث کا ترجمہ کردیا اور اور سند کے متعلق ایک حرف بھی تحریر نہیں فرمایا حالانکہ سند کی تحقیق اور اس کی صحت و حسن کے یقین کے بغیر کسی حدیث کو معرض استدلال میں پیش کرنا علماء کی شان سے بعید ہے ۔​
میں نے تلاش کرنے کی کوشش کی تو مجھے سنن دارقطنی اور سنن کبریٰ بیھقی میں جو روایت ملی وہ یہ ہے :
حدثنا إبراهيم بن محمد بن علي بن بطحا ثنا الحسين بن زيد بن الحكم الجبري ثنا حسن بن حسين العرني حدثنا حسين بن زيد عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي بن حسين عن الحسين بن علي عن علي بن أبي طالب عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : يصلي المريض قائما إن استطاع فإن لم يستطع صلى قاعدا فإن لم يستطع أن يسجد أومأ وجعل سجوده أخفض من ركوعه فإن لم يستطع أن يصلي قاعدا صلى على جنبه الأيمن مستقبل القبلة فإن لم يستطع أن يصلي على جنبه الأيمن صلى مستلقيا ورجلاه مما يلي القبلة (سنن دارقطنی کتاب الوتر، باب صلاة المريض ومن رعف في صلاته كيف يستخلف )
مگر اس روایت میں وجہ استدلال موصوف کی کیا تھی، یہ واضح نہیں ، اور قبلہ رخ ہونے کی نھی اس سے قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔ جبکہ سند کا مرحلہ اگلا ہے ۔ جس پر شاہ صاحب بات کرچکے ہیں۔ واللہ اعلم ۔ علماء اپنا حصہ ڈالیں۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
ابھی مسئلہ کے اطراف کے دلائل کی طرف مراجعت نہیں کی۔
ابھی منقولات سے ہٹ کر کچھ باتیں عرض کر رہا ہوں۔
آپ دیکھیں کہ اس میں علت اگر بے ادبی ہے ۔ تو اس کی کراہت ہونی چاہیے۔
یعنی کچھ باتیں اگر مثبت ہیں تو وہ ادب سے تعلق رکھتی ہیں ۔
اور کچھ باتیں بے ادبی سے ۔
مثلاََ آپ کسی سے بات کر رہے ہیں ۔۔۔تو آپ کا رخ اس کی جانب ہی ہونا چاہیے ۔۔۔تبھی وہ سمجھے گاکہ آپ اس کی بات توجہ سے سن رہے ہیں ۔۔اگر کوئی یہ کہے کہ میری توجہ ہے آپ کی طرف لیکن آپ اس کی طرف رخ نہیں کیا ہوا ۔یا دیکھ نہیں رہے ۔۔۔۔تو یہ معاملہ نہیں ہوگا۔
اب قبلہ کی طرف بعض چیزوں کی ممانعت جیسے تھوکنا ، بول براز۔۔۔۔
ظاہر ہے اس میں ہمیں سنت پر عمل کی تو تلقین ہے ہی۔۔۔اس کی وجہ معصومﷺ کے الفاظ ہیں ۔۔۔لیکن ان کے الفاظ میں ۔۔۔ایک ہدایت بھی ہے ۔۔۔ایک علت کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔
اسی طرح دوسری جانب کی احادیث ۔۔۔جس میں نمازکے لئے استقبال قبلہ کے علاوہ ۔۔۔قبلہ رخ قرآن پڑھنا ، دعا کرنا ،۔۔۔یہ امور بھی آئے ہیں ۔
دو باتوں کو اس باب میں فی الحال میرے خیال میں الگ رکھیں۔۔۔
ایک جواز۔۔۔جو کہ کراہت (تنزیہی) والی چیز سے بھی ثابت ہوجاتا ہے ۔۔
دوسرا۔۔۔استثائی صورت کہ اگر ایسا ہوجائے ۔۔۔تھک جائے ۔۔وغیرہ

اب یہ بات رہ جاتی ہے پاؤں کرنا بے ادبی ہے کہ نہیں ۔۔۔
اگر آپ کسی کے چہرے کے پاس ہاتھ یا بازو کریں ۔۔۔تواس کا کیا رد عمل ہوگا۔۔۔۔اور اگر پاؤں کر دیں توپھر کیا ہوگا۔۔
کھانے کی پلیٹ ہے ۔۔۔۔اس کی طرف۔۔۔۔
کوئی ٹیکسٹ لٹریچر ہے ۔۔۔۔اس کی طرف۔۔۔۔
اس بارے میں قرب و بعد کا کوئی مسئلہ نہیں ورنہ پھر قبلہ بھی تو دور ہے ۔۔
اس لئے میرے خیال میں کسی جگہہ ادب اور کسی جگہہ بے ادبی ۔۔۔یہ جگہہ کی قید مجھے سمجھ نہیں آتی ۔۔۔بلکہ دلیل یہی محسوس ہوتی ہے کہ پاؤں قبلہ رکھ کرنا مکروہ ہی ہے ۔ واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و ررحمت الله -

میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ قبلہ کی طرف پاؤں کرنا بے ادبی میں شمار نہیں ہوتا - اگر ایسا ہوتا تو آثار صحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہوتی کہ وہ قبلہ کی طرفہ پاؤں کرنے سے احتیاط کرتے تھے - اور جیسا کہ بیان ہوا کہ اس فعل کی ممانعت میں کوئی صریح صحیح حدیث بھی موجود نہیں-

دوسرے یہ کہ اکثر اوقات امام فرض نماز ختم کرنے کے بعد قبلہ کی طرفہ پیٹھ بھی کرلیتا ہے - بلکہ اگر میں غلط نہیں تو یہ سنّت نبوی ہے کہ فرض نماز کے بعد آنحضرت صل الله علیہ و آ لہ وسلم قبلہ کی طرفہ پیٹھ (مقتدیوں کی جانب چہرہ) کرکے بیٹھ جاتے تھے- ظاہر ہے جب پیٹھ کرکے بیٹھنے سے قبلہ کی بے ادبی کا احتمال نہیں تو پاؤں کرکے بیٹھنے یا لیٹنے سے قبلہ کی بے ادبی کا احتمال کیسے ہو سکتا ہے؟؟-

البتہ اس فعل کو معمول بنا لینا صحیح نہیں- اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص کے دل میں (کعبہ) قبلہ کی توقیر نہیں-

اس کی مثال ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ایک علاقے کی مسجد میں ایک امام مقرر کیا گیا- یہ شخص ہر نماز میں سوره عبس کی تلاوت کرتا تھا- مقتدیوں نے اس بات کی شکایت حضرت عمر رضی الله عنہ سے کر دی کہ ہمارا امام تقریباً ہر نماز میں سوره عبس کی تلاوت کرتا ہے - (اس سوره کے شروع کی آیات میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر الله کی جانب سے ہلکا سا عتاب ہے - جس میں آپ صل الله علیہ و آلہ وسلم نے ایک ناببنا صحابی ام مکتوم رضی الله عنہ سے وقتی طور پر چشم پوشی کی تھی جب وہ دین کے معاملات کے بارے میں آپ سے کچھ پوچھنے کے لئے اے تھے)- حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس شخص کی اس حرکت کو بے ادبی پر محمول کرکے اس امام کو کوڑے لگواہے اور اس سے توبہ کروائی- کیوں کہ اس فعل سے نبی کریم کی شان میں گستاخی تصور ہوتی تھی - ظاہر ہے نماز میں سوره عبس پڑھنا تو گناہ نہیں لیکن اس کو معمول بنا لینا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے دل میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی قدر و منزلت و عظمت نہیں ہے -اس بنا پر کعبہ کی طرف پاؤں کرنا کے فعل کو بھی معمول بنا لینا صحیح نہیں (واللہ اعلم)-

الله ہم سب کو سیدھے راستے کی طرف گامزن کرے (آمین)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا یہ کوئی نوزائدہ مسئلہ ہے؟ آج سے قبل یعنی دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پاؤں نہیں تھے یا قبلہ نہیں تھا؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی قبلہ تھا، اور ان مقدس ہستوں کے پاؤں بھی تھے!
جب انہوں نے اسے بے ادبی شمار نہیں کیا، تو آج اس عمل کو بے ادبی باور کرانے کے لیے قیاس آرئیاں کیوں!
 
Top