• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی اچھے شیخ کی بیعت ضروری ہے ۔۔۔۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا کسی اچھے شیخ کی بیعت ضروری ہے ۔۔۔۔
بیعت کی مختلف قسمیں ہیں۔
شیخ سے بیعت اصلاح کی جاتی ہے یعنی اعمال و افعال کی بیعت۔ یہ حدیث میں موجود ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔
اس سے صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان ایک صالح شخص کے ہاتھ پر توبہ اور وعدہ کرلیتا ہے اور بعد ازاں اپنی روحانی بیماریوں کا ان سے علاج معلوم کرتا ہے۔
البتہ بعض اہل علم حضرات کا یہ دعوی ہے کہ انہوں نے اس سے علم میں رسوخ و تفقہ میں مدد پائی ہے۔
واللہ اعلم
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
رہنمائی کی درخواست ہے اہل علم سے اس ضمن میں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، جبکہ جس کے ہاتھ پر بیعت کی جارہی ہو وہ خلیفہ نہ ہو۔ جو لوگ بیعت کرتے ہیں وہ حضرت عمر کا قول پیش کرتے ہیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اہل حل وعقد علماء،فضلاء اور ذمہ داران حکومت اس کی بیعت کریں گے۔ جس سے اس کی ولایت ثابت ہو جائیگی۔ عامۃ الناس کے لئے اس کی بیعت کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان پر صرف اتنا لازم ہے کہ وہ اطاعت الہی میں اس کی فرمانبرداری کریں۔

امام مارزی فرماتے ہیں:

’’يَكْفِي فِي بَيْعَةِ الإِمَامِ أَنْ يَقَع مِنْ أَهْل الْحَلِّ وَالْعَقْدِ وَلا يَجِب الاسْتِيعَاب , وَلا يَلْزَم كُلّ أَحَدٍ أَنْ يَحْضُرَ عِنْدَهُ وَيَضَع يَدَهُ فِي يَدِهِ , بَلْ يَكْفِي اِلْتِزَامُ طَاعَتِهِ وَالانْقِيَادُ لَهُ بِأَنْ لا يُخَالِفَهُ وَلا يَشُقَّ الْعَصَا عَلَيْهِ انتهى‘‘ (نقلاً من فتح الباري )
امام کی بیعت میں اہل حل وعقد کی بیعت ہی کافی ہے۔ بیعت بالاستیعاب واجب نہیں ہے۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔

امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں:

’’أَمَّا الْبَيْعَة : فَقَدْ اِتَّفَقَ الْعُلَمَاء عَلَى أَنَّهُ لا يُشْتَرَط لِصِحَّتِهَا مُبَايَعَة كُلّ النَّاس , وَلا كُلّ أَهْل الْحَلّ وَالْعِقْد , وَإِنَّمَا يُشْتَرَط مُبَايَعَة مَنْ تَيَسَّرَ إِجْمَاعهمْ مِنْ الْعُلَمَاء وَالرُّؤَسَاء وَوُجُوه النَّاس , . . . وَلا يَجِب عَلَى كُلّ وَاحِد أَنْ يَأْتِيَ إِلَى الأَمَام فَيَضَع يَده فِي يَده وَيُبَايِعهُ , وَإِنَّمَا يَلْزَمهُ الانْقِيَادُ لَهُ , وَأَلا يُظْهِر خِلافًا , وَلا يَشُقّ الْعَصَا انتهى.‘‘
اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بیعت کی صحت کے لئےتمام لوگوں یا تمام اہل حل وعقدکا بیعت کرنا شرط نہیں ہے۔اس میں صرف اتنی شرط ہے کہ جو علماء سردار اور ذمہ داران آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہوں وہ بیعت پر اجماع کرلیں تو بیعت واقع ہو جائے گی۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔

اور بیعت کے حوالے وارد تمام احادیث سے امام کی بیعت مراد ہے۔ دیگر افراد یا جماعتوں کی بیعت مراد نہیں ہے۔شیخ صالح الفوزان ایسی بیعتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

" البيعة لا تكون إلا لولي أمر المسلمين ، وهذه البيعات المتعددة مبتدعة ، وهي من إفرازات الاختلاف ، والواجب على المسلمين الذين هم في بلد واحد وفي مملكة واحدة أن تكون بيعتهم واحدة لإمام واحد ، ولا يجوز المبايعات المتعددة[ المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان 1/367]
صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اور یہ متعدد بیعتیں بدعت ہیں،اور اختلافات کا ذریعہ ہیں۔مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک ملک میں صرف ایک ہی امام کی بیعت کریں(اگر واقعی کوئی امام موجود ہو)اور متعدد بیعتیں کرنا جائز نہیں ہے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
محدث فتوی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، جبکہ جس کے ہاتھ پر بیعت کی جارہی ہو وہ خلیفہ نہ ہو۔ جو لوگ بیعت کرتے ہیں وہ حضرت عمر کا قول پیش کرتے ہیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اہل حل وعقد علماء،فضلاء اور ذمہ داران حکومت اس کی بیعت کریں گے۔ جس سے اس کی ولایت ثابت ہو جائیگی۔ عامۃ الناس کے لئے اس کی بیعت کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان پر صرف اتنا لازم ہے کہ وہ اطاعت الہی میں اس کی فرمانبرداری کریں۔

امام مارزی فرماتے ہیں:

’’يَكْفِي فِي بَيْعَةِ الإِمَامِ أَنْ يَقَع مِنْ أَهْل الْحَلِّ وَالْعَقْدِ وَلا يَجِب الاسْتِيعَاب , وَلا يَلْزَم كُلّ أَحَدٍ أَنْ يَحْضُرَ عِنْدَهُ وَيَضَع يَدَهُ فِي يَدِهِ , بَلْ يَكْفِي اِلْتِزَامُ طَاعَتِهِ وَالانْقِيَادُ لَهُ بِأَنْ لا يُخَالِفَهُ وَلا يَشُقَّ الْعَصَا عَلَيْهِ انتهى‘‘ (نقلاً من فتح الباري )
امام کی بیعت میں اہل حل وعقد کی بیعت ہی کافی ہے۔ بیعت بالاستیعاب واجب نہیں ہے۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔

امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں:

’’أَمَّا الْبَيْعَة : فَقَدْ اِتَّفَقَ الْعُلَمَاء عَلَى أَنَّهُ لا يُشْتَرَط لِصِحَّتِهَا مُبَايَعَة كُلّ النَّاس , وَلا كُلّ أَهْل الْحَلّ وَالْعِقْد , وَإِنَّمَا يُشْتَرَط مُبَايَعَة مَنْ تَيَسَّرَ إِجْمَاعهمْ مِنْ الْعُلَمَاء وَالرُّؤَسَاء وَوُجُوه النَّاس , . . . وَلا يَجِب عَلَى كُلّ وَاحِد أَنْ يَأْتِيَ إِلَى الأَمَام فَيَضَع يَده فِي يَده وَيُبَايِعهُ , وَإِنَّمَا يَلْزَمهُ الانْقِيَادُ لَهُ , وَأَلا يُظْهِر خِلافًا , وَلا يَشُقّ الْعَصَا انتهى.‘‘
اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بیعت کی صحت کے لئےتمام لوگوں یا تمام اہل حل وعقدکا بیعت کرنا شرط نہیں ہے۔اس میں صرف اتنی شرط ہے کہ جو علماء سردار اور ذمہ داران آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہوں وہ بیعت پر اجماع کرلیں تو بیعت واقع ہو جائے گی۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔

اور بیعت کے حوالے وارد تمام احادیث سے امام کی بیعت مراد ہے۔ دیگر افراد یا جماعتوں کی بیعت مراد نہیں ہے۔شیخ صالح الفوزان ایسی بیعتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

" البيعة لا تكون إلا لولي أمر المسلمين ، وهذه البيعات المتعددة مبتدعة ، وهي من إفرازات الاختلاف ، والواجب على المسلمين الذين هم في بلد واحد وفي مملكة واحدة أن تكون بيعتهم واحدة لإمام واحد ، ولا يجوز المبايعات المتعددة[ المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان 1/367]
صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اور یہ متعدد بیعتیں بدعت ہیں،اور اختلافات کا ذریعہ ہیں۔مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک ملک میں صرف ایک ہی امام کی بیعت کریں(اگر واقعی کوئی امام موجود ہو)اور متعدد بیعتیں کرنا جائز نہیں ہے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
محدث فتوی
خلیفہ یا امام کی بیعت بیعت ولایت ہوتی ہے اور شیخ سے بیعت بیعت اصلاح ہوتی ہے۔ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
خلیفہ یا امام کی بیعت بیعت ولایت ہوتی ہے اور شیخ سے بیعت بیعت اصلاح ہوتی ہے۔ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔
تو پھر ثانی المذکور سے متعلق کچھ رہنمائی فرمائیے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خلیفہ یا امام کی بیعت بیعت ولایت ہوتی ہے اور شیخ سے بیعت بیعت اصلاح ہوتی ہے۔ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔
صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی بیعت کیا کرتےتھے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تو پھر ثانی المذکور سے متعلق کچھ رہنمائی فرمائیے
ضروری نہیں ہے۔ فقط برکت کے لیے کی جاتی ہے۔ ضروری اپنی اصلاح کرنا ہے اور اس کا آسان ترین اور نافع ترین طریقہ اصلاح شدہ افراد کی صحبت میں رہنا اور ان کی رہنمائی حاصل کرنا ہے۔

صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی بیعت کیا کرتےتھے؟
صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دونوں قسم کی بیعت کرتے تھے۔ بیعت عقبہ بیعت اطاعت تھی۔ اور احادیث میں دیگر اعمال پر بیعت کا بھی ذکر ہے جیسے کسی سے کبھی کچھ نہ مانگنے پر بیعت کرنا۔ یہ دوسری قسم کی بیعت تھی کیوں کہ یہ سب صحابہ سے نہیں لی گئی بلکہ بعض صحابہ سے لی گئی۔ اور اس کے بعد خلفاء راشدین کے دور میں بھی بیعت اطاعت یا ولایت کا تو بہت واضح ثبوت ملتا ہے جیسے سقیفہ بنی سعد میں لیکن اس کا اتنا عام ثبوت نہیں ملتا۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top