• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی صحابی نے کلمہ طیبہ کا انکار کیا ؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مجھے اسکی وجہ بتا دیں کہ آپ اس طرح کیوں نہیں کہیں گے جس طرح میں نے لکھا تھا کیا جو بھی کلمہ کی گواہی دے گا کے تحت محمد بن عبدالوھاب نہیں آتا کیا اس میں سلیمان رشدی نہیں آتا کیا اس میں تسلیمہ نسرین نہیں آتی
پس آپ لازمی وجہ بتائیں کہ میری بات کی طرح کیوں نہیں کہیں گے اگر آپ نے وجہ بتا دی تو وہی میرا ٹھوس جواب ہو گا مگر آپ وجہ نہیں بتائیں گے کیونکہ پھر آپ پھنس جائیں گے
اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں ان لوگوں کے نام نہیں آئے بلکہ کسی کے بھی نام نہیں آئے اور میں صرف صحیح مسلم کی حدیث ہی بیان کروں گا اور حدیث میں اپنی طرف سے کچھ بھی شامل نہیں کروں گا
امید ہے بات اب کلئیر ہوگئی ہوگی یا اب بھی کچھ باقی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں ان لوگوں کے نام نہیں آئے بلکہ کسی کے بھی نام نہیں آئے اور میں صرف صحیح مسلم کی حدیث ہی بیان کروں گا اور حدیث میں اپنی طرف سے کچھ بھی شامل نہیں کروں گا
امید ہے بات اب کلئیر ہوگئی ہوگی یا اب بھی کچھ باقی ہے
ابراھیم علیہ اسلام نے جب نمرود کو کہا کہ تم رب ہو تو زندہ مردہ کرو تو نمرود نے جس طرح فراڈ سے وہ کر کے دکھایا تو ابراھیم علیہ اسلام چاہتے تو اس کا مدلل رد کر سکتے تھے مگر انھوں نے دوسرا ایسا سوال کیا کہ نمرود مبہوت ہو گیا

آپ کی اہل تشیعہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرے گا وہ جنتی ہے
امید ہے آپ جنتی نہیں کیوں کہ آپکا نام جو نہیں ہے شاید جَو ہو کیا میں نے ٹھیک کہا
ویسے میں نے کہا تھا کہ اصل وجہ کبھی نہیں بتائے گا ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا- خیر --- کی ---- کب تک --- منائے گی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ابراھیم علیہ اسلام نے جب نمرود کو کہا کہ تم رب ہو تو زندہ مردہ کرو تو نمرود نے جس طرح فراڈ سے وہ کر کے دکھایا تو ابراھیم علیہ اسلام چاہتے تو اس کا مدلل رد کر سکتے تھے مگر انھوں نے دوسرا ایسا سوال کیا کہ نمرود مبہوت ہو گیا

آپ کی اہل تشیعہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرے گا وہ جنتی ہے
امید ہے آپ جنتی نہیں کیوں کہ آپکا نام جو نہیں ہے شاید جَو ہو کیا میں نے ٹھیک کہا
ویسے میں نے کہا تھا کہ اصل وجہ کبھی نہیں بتائے گا ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا- خیر --- کی ---- کب تک --- منائے گی
ویسے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ صحیح مسلم کی حدیث بیان کرنے پر آپ اتنے پیچ وتاب کیوں کھارہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اس حدیث کے بیان کرنے پر خلیفہ دوئم کی سنت پر عمل فرمارہے ہوں ؟؟؟

حضرت علی سے محبت پر صحیح مسلم کی ہی ایک حدیث پیش کئے دیتا ہوں اس سے یہی نتیجہ نکلے گا جو آپ نے بیان کیا پلیز صحیح مسلم کی اس حدیث کو بیان کرنے پر آپ غصہ نہ ہونا کیونکہ خلیفہ دوئم کا اس حدیث کو بیان کرنے پر غصہ ہونا ثابت نہیں ۔

باب : علیؓ سے محبت کرنے والا مومن اور بغض رکھنے والا منافق ہے۔
36: سیدنا زر بن حبیشؓ کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ نے کہا کہ قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس سے گھاس اگائی) اور جان بنائی، رسول اللہﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں رکھے گا اور مجھ سے منافق کے علاوہ اور کوئی شخص دشمنی نہیں رکھے گا۔
مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ
جو مومن ہوگا وہ یقینا جنتی ہی ہوگا یا اس میں بھی کوئی اشکال ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اراکین سے گزارش ہے کہ ’’ تعریضات ‘‘ میں ذرا احتیاط فرمائیں ۔ اور معزز ہستیوں کے بارے میں گفتگو میں بے احتیاطی پر مشتمل ’’ شراکتیں ‘‘ حذف بھی ہو سکتی ہیں ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
عقل کے اندھوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے
جس قول کو آپ میری طرف نسبت دے رہے ہیں وہ میرا قول نہیں بلکہ یہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے
اور جب اس ارشاد کا اعلان حضرت ابوھیریرہ نے فرمایا تو ان کی بھی پٹائی ہوئی تھی یہ صحیح مسلم کی ایسی حدیث میں بیان ہوا
اب اگر بالفرض محال ابوھریرہ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد کا اعلان امام بارگاہ میں آکر کریں تو اس ارشاد کو سن کر جو بھی جناب ابوھریرہ کی پٹائی کرے گا وہ فاروق اعظم کی سنت پر عمل کرے گااور وہ خلفہ کا مانے والا ہوگا کیونکہ خلفہ کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کاعقیدہ خلفہ کے مانے والوں کا ہی ہے
امید ہے اب تسلی ہوئی ہوگی

اعرابی والی حدیث کی دلیل شاید آپ کے سمجھ میں نہیں آئی اب اس پر میں یہ ہی کہہ سکتا ہوں جو آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ


چلو شکر ہے یہ تو مانا کہ حضرت ابو ھریرہ کو حدیث بیان کرنے پر مارنا حضرت عمر کی غلطی تھی !!!!!

بہتر ہے کہ پہلے پوری حدیث یہاں لکھ دی جا ے تا کہ پتا چلے کہ پوری حدیث میں کیا لکھا ہے


ایمان کا بیان​

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 150 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 3

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا شَأْنُکَ قُلْتُ کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلَائِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَائً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلِّهِمْ

زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں )اللہ نہ کرے( آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہر چند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لیے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی )تلاش کرتے کرتے کرتے( اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر )نالہ کے راستہ سے( اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں )بطور نشانی( کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ )میں نے حکم کی تعمیل کی( سب سے پہلے مجھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ )عمل کرنا چھوڑ دیں گے( اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا )اچھا تو( رہنے دو۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جو مومن ہوگا وہ یقینا جنتی ہی ہوگا یا اس میں بھی کوئی اشکال ہے
آپ نے لکھا ہے کہ جو مومن ہو گا وہ یقینا جنتی ہو گا
کیا آپ کا نام جو ہے جَو تو ہو سکتا ہے جو نام میں نے پہلی دفعہ سنا ہے
اگر آپ کا نام جَو نہیں تو پھر کیا آپ اوپر اپنے جملے میں نہیں آتے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ان الحکم للہ کا نعرہ آج کل بھی سننے کو مل رہا ہے نعرہ لگانے والے بھی وہابی ہیں کیا ایسی وجہ سے تو آج کے وہابیوں کو خارجی نہیں کہا جاتا ؟؟

جی بلکل ٹھیک سمجھے آپ انھوں نے یہ حدیث اس اعتراض کے وادر ہونے کے بعد بھی بیان کی جبکہ اس وقت تک اس حدیث کا علم صرف 3 نفوس کو ہی تھا یعنی ایک خود رسول اللہﷺ دوسرے وہ صحابی جنہوں نے حدیث بیان کی اور تشدد کا نشانہ بنے تیسرے وہ جنہوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا اور فہم رسالت ﷺ پر اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی ناکام اس لئے کہ اگر رسول اللہﷺ کی یہ منشاء ہوتی کہ اس حدیث کو آگے بیان نہ کیا جائے تو ان صحابی رسول کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ اس حدیث کو آگے بیان کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس ہے کہ حدیث بیان کرنے پر تشدد کا نشانہ بنے والے صحابی نے اس حدیث کو آگے بیان کیا اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث پر ہم بات کررہے ہیں

کیا اس احتمال کا یہ نتیجہ نہیں نکلے گا کہ جس کی جو مرضی وہ فرمان رسول ﷺ کو اپنے باطل احتمالات کی وجہ سے رد کردے ؟

کہاں آپ نے صحابہ پرستی کو ایک طرف رکھا وہی ڈھاک کے تین پات اس حدیث پر غور کرنے سے میرے علم میں یہ باتیں آئیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کے لئے جنت کی بشارت
اب جس صحابی رسول کو یہ فرمان دے کر حکم دیا کہ جو بھی تمہیں کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کو جنت کی بشارت دے دو جب کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ اللہ کا حکم ہی لوگوں تک پہنچاتے ہیں تو جب یہ صحابی رسول یہ فرمان لیکر باغ سے باہر نکلے تو ان کی ملاقات جس سے سب سے پہلے ہوئی ان کو اللہ کا حکم پہنچایا کہ کلمہ طیبہ کی جو گواہی دے گا اس کے لئے جنت کی بشارت ہے اب ہونا تو چاہئے تھا جس کے آگے یہ بیان کیا گیا وہ فورا کلمہ طیبہ کی گواہی دیتا لیکن ہوا اس کے برعکس کہ اللہ کے فرمان پر اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے اللہ کا حکم بیان کرنے والے کو ذودکوب کیا کہ وہ روپڑے اب دیکھا جائے تو اللہ اور اس کے رسول کے اس فرمان کو بیان کرنے والے پر اس حد تک غصہ کرنا دراصل اللہ اور اس کے رسول پر ہی غصہ تھا کیونکہ جو کچھ اس بیان کرنے والے صحابی نے بیان کیا وہ اس کی اپنی بات نہیں تھی بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمان تھا انہی سب باتوں کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنے والے صحابی بعد میں بھی کسی حدیث رسول ﷺ کو بیان کرتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن ان کو تشدد کا نشانہ بنانے والے کا انتقال ہوگیا تو پھر کھل کر مجع عام میں احادیث بیان کرتے اور ساتھ میں یہ بھی فرماتے کہ اب جب کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے تو میں یہ فرمان رسول اللہﷺ تم لوگوں سے بیان کررہا ہوں اگر ان کے زندہ ہوتے ہوئے بیان کرتا تو وہ میرا سر توڑ دیتے
دوسری بات آپ نے جو اس کی تائید میں فرمان رسول ﷺ بیان فرمایا ہے وہ ایک الگ بات ہے کہ جو کام رسول اللہﷺ نہ کیا اور اس خدشے کی وجہ سے اس کام کو ترک کیا لیکن یہاں تو مخبر صادق ﷺ کےفرمان کے آگے اپنے باطل احتمالات کو لایا جارہا جس طرح صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان
"کوئی حرج نہیں انشاءاللہ (یہ بخارتمہارے ) گناہوں کو دھو دے گا۔

اس فرمان رسول اللہ ﷺ کے مقابلے پر جب اعرابی نے اپنا باطل احتمال پیش کیا کہ
یہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔

اور جب یہ باطل احتمال آپ ﷺ نے سماعت فرمایا تو اس پر اپنے قول پر اصرار نہیں فرمایا بلکہ اس باطل احتمال کو اس اعرابی کے سر پر ڈال دیا یہ فرما کر کہ
اچھا تو پھر یوں ہی سہی
ٹھیک ایسی طرح کلمہ طیبہ والی حدیث میں بھی جب فرمان رسول اللہﷺ

جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کے لئے جنت کی بشارت

اس فرمان رسول اللہﷺ کے مقابلے پر جب اپنا باطل احتمال کسی نے پیش کیا کہ

اس طرح لوگ عمل چھوڑ کر اسی پر تکیہ کر لیں گے

اور جب یہ باطل احتمال آپ ﷺ نے سماعت فرمایا تو اس پر اپنے قول پر اصرار نہیں فرمایا بلکہ اس باطل احتمال کو اس کے سر ڈال دیا یہ فرما کر کہ

پھر عمل کرنے دو

اگر رسول اللہ ﷺ کی یہ منشاء ہوتی کہ اس حدیث کو بیان نہ کیا جائے اور امت کو عمل کرنے دیا جائے تو ایسی وقت اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی کو سختی سے منع کردیا جاتا کہ اب یہ حدیث بیان نہ کی جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کی یہ منشاء نہیں تھی بلکہ اس کے برعکس اس حدیث کو بیان کرنے کی اجازت دی گئی اس کی دلیل یہ ہے کہ آج 1450 سال بعد یہ فرمان رسول اللہﷺ ہم تک پہنچا اور آج ہم اس پر بات کررہے ہیں
والسلام
اس حدیث میں جس شخص نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بدتمیزی کی تھی وہ ایک ا عرابی تھا - (جیسا کی آپ کی پیش کردہ حدیث میں بھی ا عرابی کا لفظ آیا ہے) وہ صحابی رسول نہیں تھا - اور ایسے اعرابیوں کے متعلق اللہ رب العزت پہلے ہی فرما چکا تھا کہ :

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ سوره التوبہ ١٠١
اور تمہارے گرد و نواح کے بعضے گنوار منافق ہیں اور بعض مدینہ والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ہم انہیں دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے-

والسلام -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ نے لکھا ہے کہ جو مومن ہو گا وہ یقینا جنتی ہو گا
کیا آپ کا نام جو ہے جَو تو ہو سکتا ہے جو نام میں نے پہلی دفعہ سنا ہے
اگر آپ کا نام جَو نہیں تو پھر کیا آپ اوپر اپنے جملے میں نہیں آتے
کیا اب احادیث کے ساتھ اردو بھی پڑھانی پڑے گی ؟؟؟
یا جواب نہ بنے کی صورت نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہتر ہے کہ پہلے پوری حدیث یہاں لکھ دی جا ے تا کہ پتا چلے کہ پوری حدیث میں کیا لکھا ہے


ایمان کا بیان​
جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 150 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 3
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا شَأْنُکَ قُلْتُ کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلَائِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَائً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلِّهِمْ
زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں )اللہ نہ کرے( آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہر چند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لیے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی )تلاش کرتے کرتے کرتے( اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر )نالہ کے راستہ سے( اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں )بطور نشانی( کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ )میں نے حکم کی تعمیل کی( سب سے پہلے مجھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ )عمل کرنا چھوڑ دیں گے( اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا )اچھا تو( رہنے دو۔

صحیح بخاری کی حدیث
حدثنا معلى بن أسد،‏‏‏‏ حدثنا عبد العزيز بن مختار،‏‏‏‏ حدثنا خالد،‏‏‏‏ عن عكرمة،‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل على أعرابي ـ يعوده ـ قال وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل على مريض يعوده قال لا بأس طهور إن شاء الله‏.‏ فقال له ‏"‏ لا بأس طهور إن شاء الله ‏"‏‏.‏ قال قلت طهور كلا بل هي حمى تفور ـ أو تثور ـ على شيخ كبير،‏‏‏‏ تزيره القبور‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فنعم إذا ‏"‏‏.‏
حدیث نمبر : 3616
ترجمہ داؤد راز
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گیے۔ آپ جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، انشاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ "کوئی حرج نہیں انشاءاللہ گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) تثور کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب بیمار اعرابی نے رسول اللہﷺ کے فرمان پر اعتراض کیا تو رسول اللہﷺ نے اس کے قول کو ایسی کے سر ڈال دیا اس سے معلوم ہوا جب رسول اللہﷺ کے حضور ان کے کسی فرمان پر اعتراض کیا جاتا تو آپ ﷺ کا عمل اس طرح ہوتا
آپ سے گذارش ہے کہ صحابہ پرستی کو ایک جانب رکھ کر پہلے اس فرمان رسول ﷺ پر غور وفکر کیا جائےاور بعد میں صحیح مسلم کی مذکورہ روایت پر غور و خوص کیا جائے شکریہ
ان دونوں احادیث کو پڑھنے بعد ایک چیز تو ثابت ہوگئی کہ جب رسول اللہﷺ کے کسی فرمان کے مقابلے پر جب کوئی اپنے باطل احتمالات کا ذکر کرکے فرمان رسول پر اعتراض کرتا تو آپ ﷺ اپنے فرمان پر اسرار نہیں فرماتے بلکہ اس اعتراض کر نے والے کا قول ایسی کے سر ڈال دیا کرتے جس طرح اعرابی والی حدیث میں اس اعرابی کے قول کو اس کے سر ڈال دیا اور ابوھریرہ والی حدیث میں بھی جب فرمان رسول ﷺ کے مقابلے پر باطل احتمال پیش کرکے اعتراض کیا گیا تو رسول اللہﷺ نے اعتراض کرنے والے کے قول کو ایسی کے سر ڈال دیا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس حدیث میں جس شخص نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بدتمیزی کی تھی وہ ایک ا عرابی تھا - (جیسا کی آپ کی پیش کردہ حدیث میں بھی ا عرابی کا لفظ آیا ہے) وہ صحابی رسول نہیں تھا - اور ایسے اعرابیوں کے متعلق اللہ رب العزت پہلے ہی فرما چکا تھا کہ :

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ سوره التوبہ ١٠١
اور تمہارے گرد و نواح کے بعضے گنوار منافق ہیں اور بعض مدینہ والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ہم انہیں دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے-

والسلام -
یہ کیا فرمادیا آپ نے کہ حضرت ابوھریرہ سے بدتمیزی کرنے والا منافق تھا نعوذباللہ میں ایسا نہیں سمجھتا کیونکہ صحیح مسلم کی جس حدیث پر ہم بات کررہے ہیں وہ ایک بھائی نے شئیر کردی ہے آپ بھی ملاحظہ فرمالیں
بہتر ہے کہ پہلے پوری حدیث یہاں لکھ دی جا ے تا کہ پتا چلے کہ پوری حدیث میں کیا لکھا ہے
ایمان کا بیان
جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 150 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 3
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا شَأْنُکَ قُلْتُ کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلَائِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَائً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلِّهِمْ
زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں )اللہ نہ کرے( آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہر چند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لیے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی )تلاش کرتے کرتے کرتے( اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر )نالہ کے راستہ سے( اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں )بطور نشانی( کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ )میں نے حکم کی تعمیل کی( سب سے پہلے مجھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ )عمل کرنا چھوڑ دیں گے( اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا )اچھا تو( رہنے دو۔
اس حدیث میں واضح لکھا ہے کہ حضرت ابوھریرہ سے بدتمیزی کرنے والے حضرت عمر تھے
جبکہ یہ حدیث آپ کے جواب سے پہلے شیئر کی گئی ہے اس کے باوجود آپ ایسا فرمارہے ہیں تعجب ہے
اچھی سے مسکراہٹ
 
Top