• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ہماری معاشرت اسلامی ہے؟

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
"چوریاں بتانا"
صحیح مسلم میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:" جو شخص کسی عراف (چوریا بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کسی چيز کے متعلق پوچھے، چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی"(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان، ص:223)
اب دیکھ لیں! کتنے مسلمان ہیں کہ ان کی چوریاں ہوتی ہیں یا کوئی چيز گم ہوتی ہے تو ساتھ ہی ایمان بھی گم ہوجاتا ہے- اللہ اور اس کے رسول پاک
ۖ کے تمام احکام انہیں بھول جاتے ہیں- پوچھتے پھرتے ہیں کہ کوئی عامل بتاؤ جو گمشدہ چيز کا پتہ بتائے- کوئی دائرہ ڈالنے والا، لوٹا گھمانے والا نہیں چھوڑتے-
استخارہ کے نام پر کہانت
کچھ مولویوں نے استخارے کے نام پر مستقبل کے حالات بتانے کا کاروبار شروع کررکھا ہے- حالانکہ استخارے کا مطلب یہ نہیں ہے- استخارہ تو وہ دعا ہے جو رسول اللہ
ۖ نے خود سکھائی کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت پڑھے اور آحر میں یہ دعا کرے- اس دعا میں اللہ تعالی کی جناب میں درخواست کی جاتی ہے- جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:" یا اللہ یہ کام اگر میرے لیے بہتر ہے تو میری قسمت میں کر اور اگر میرے لیے برا ہے تو مجھے اس کام سے ہٹادے اور جو کام میرے لیے بہتر ہے، میری قسمت میں کردے"( صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستاخارہ، ص:6382)
اس استخارہ کا آئندہ حالات بتانے سے اور غیب کی باتیں معلوم کرلینے سے کوئی تعلق ہی نہیں- آئندہ حالات اور غیب کی خبریں بتانے کا کام بو ہندوں پنڈت اور نجومی کرتے تھے وہی کام یہ عامل استخارے کے نام پر کررہے ہیں، جالانکہ یہی کہانت ہے- جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمايا:
" جو شخص کاہن کے پاس آيا اور اسے اس بات میں سچا جانا جو وہ کہتا ہے تو وہ اس چيز سے بری ہے جو محمدپر نازل کی گئی"
( ابوداؤد، کتاب الطب، باب فی الکاھن، ص:3904)
پھر ان ہاں شرکیہ نقش، ہندسوں والے تعویز، ٹونے ٹونکے، دشمن کی بربادی، محبوب کو مسخر کرنے کے کتنے ہی کام ہیں جو صاف یہودیوں کور ہندوؤں کے کام ہین- مسلمانوں کے کام نہیں- بچالو اپنے بھائیوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں اور عزیزوں کو جو ان لوگوں کے پاس جاکر اپنا ایمان برباد کرتے ہیں-
"سرادھ" اور ایصال ثواب کی رسمیں ختم، قل، برسی، سالگرہ وغیرہ
توحید و رسالت اور نماز کے بعد تیسرا فرض زکواۃ ہے، اللہ تعالی نے انسان کو جو کچھ عطا فرمایا اس میں اللہ کا حصہ ہےہے فرمایا:
{وءاتواحقۃ یوم حصادہ}(زمین میں حو فصل حاصل ہو' کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو)ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الکاھن: 3904
اگر کوئی فصل 17 من پیدا ہوجائے تو اس میں سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ ادا کرنا لازم ہے- اگر کنویں یا ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب ہوتی ہے تو بیسواں حصہ اور اگر بارانی یا دریائی پانی سے سیراب ہوتی ہے تو دسواں حصہ دینا ہوگا-
سونے چاندی میں سے اڑھائی فیصد زکواۃ ہے اور بکریوں، اونٹوں اور گائیوں کا بھی نصاب زکواۃ مقرر ہے- جب شخص فوت ہوجائے تو اللہ تعالی نے اس کی جائداد وارثوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے- لڑکے بھی وارث ہیں اور لڑکیاں بھی۔
اب مسلمان نہ عشر دیتے ہیں اور نہ زکواۃ دیتے ہیں، نہ لڑکیوں کو ان کی وراثت دیتے ہیں- مگر جب کوئی فوت ہوجائے تو اس کا ختم ضرور دلاتے ہیں حالانکہ یہ ہندوؤں کا خاص طریقہ ہے مسلمانوں کا نہیں-
ہندوؤں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام "سرادھ" ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہوجائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ "بید" پڑھواتے ہيں اور مردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کےہاں خاص دن مقرر ہیں- خصوصا جس دن فوت ہوا ہو- ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا مرنے کے تیرہواں دن، بعض کے لیے پندرہواں دن اور بعض کے لیے تیسواں یا اکتیسواں دن ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہے-
اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجا، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کرلیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر حتم پڑھوانا شروع کردیا- حالانکہ رسول اللہ سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں- اب اگر یہ کام پیارے نبی پاک
سےثابت نہ ہوں اور ہندوؤں سے ثابت ہوں ہم انہیں اسلام کے احکام سمجھیں گے یا کفر کی رسمیں سمجھیں گے-
یہ سب کفر کی رسمیں ہیں- تیجہ، ساتواں، چالیسواں، برسی، یوم پیدائش، سالگرہ، یہ سب کفار کے طریقے ہین، اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں-
رسول اللہ
کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن کسی کے ہان کوئی فوت ہو یا ان کے کسی فرد کی موت کی خبر آئے' اس دن اقارب ان کے گھر کھانا تیار کرکے روانہ کردیں-
عبداللہ بن جعفر رض بیان کرتے ہین کہ جس دن ان کے والد جعفر طیار کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ نے فرمایا جعفرکے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس ایسی چيز آئی جو انہیں مشغول کررہی ہے- (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب صنعۃالطعام لاھل المیت:3132)
میت کے دفن کے بعد میت کے گھر اجتماع کرنا اور کھانا تیار کرنا نبی پاک کا طریقہ نہیں-
" جریر بن عبداللہ البجلی رض فرماتے ہیں: ہم میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کے پاس اکٹھ کرنے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ خوانی سے شمار کرتے ہیں- (مسند احمد، نیل الاوطار: 4/97)
اب دفن کے بعد اس گھر میں اجتماع کرنا، کھانا تیار کرنا، مجلسیں برپا کرنا، اسی دن ہو یا قل کے نام پر تیسرے دن ہو یا ساتویں یا چالیسویں دن' صحابہ کرام اسے نوحہ خوانی (رونے پیٹنے) کی ایک قسم قرار دیتے تھے اور نوحہ خوانی حرام ہے-
ابوداؤد میں ابو سعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ
ۖ نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی- (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی النوح:3128)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گاڑیوں میں لٹکے ہوئے جوتے اور نقش نعلین
ہندو تہذیب کا ایک اور نمونہ دیکھنا ہو تو وہ آپ کو گاڑیوں کےآگے لٹکے ہوئے جوتے کی صورت میں ملے گا- جوتا کیوں لٹکایا جاتا ہے؟ صاف ظاہرہے کہ ان کےخیال کے مطابق یہ جوتا انہیں ایکسیڈنٹ سے بچائے گا، آفات سے بچائے گا- سبحان اللہ! اتنی پستی، مسلمان اور اتنی ذلت کہ جوتا جو پاؤں میں ہوتا ہے، وہ مشکل کشا بن گیا- جب انسان توحید سے اکھڑ جاغے تو ذلت کی گہرائیوں میں اسی طرح گرتا ہے-
کئی توحید کا دعوی کرنے والے بھی اس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں- آپ نے دیکھا ہوگا کئی گاڑیوں میں ایک کاغذ پر جوتے کا نقش لٹکا ہوتا ہے اور اوپر لکھا ہوتا ہے "نقش نعلین شریفین" کہ یہ نبی پاککے جوتوں کا نقشہ ہے- غور کیجیے! یہ نبی پاک کا جوتا بھی نہیں بلکہ آپ کے جوتے کا کاغذ پر نقشہ ہے- جس طرح بت بنائے جاتے تھے- وہ کسی بزرگ یا پیغمبر کے ہی بت ہوتے تھے- وہ بت حقیقت میں وہ شخص نہین ہوتا تھا، مگر مشرک اس کووہی سمجھتے تھے- جب اس کو وہی سمجھا تو آہستہ آہستہ اس کی پرستش شروع ہوگئي- اب اس نقش نعلین شریفین میں لکھا ہے کہ جس کو کوئی حاجت ہو، نعلین شریفین کا نقش اپنے سر پر رکھ کر کہے:" یا اللہ اس جوتے کے طفیل میری حاجت پوری فرمادے-"
استغفراللہ! کیا کسی صحابی نے نبی پاک کا اصل جوتا سر پر رکھ کر کبھی یہ دعا کی؟۔۔۔۔۔۔۔
ہرگز نہیں پہلے مشرکوں نے پتھر اور دھات کے بت بنائے تھے اور انسان کے بنائے تھے- ان لوگوں نے کاغذ کےبت بنائے اور وہ بھی جوتے کے بنائے- واقعی پستی کی کوئی حد نہیں ہوتی-
گنگا، جمنا، متھرا کے سفر اور اجمیر، داتا سہون کےسفر
اب حج کو دیکھیے! ہر مسجد اللہ کا گھر ہے، ساری زمین پر جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے ہین- مگر حج حج صرف مکہ مکرمہ میں ہی ہوگا- طواف بیت اللہ کا ہی ہوگا- بوسہ صرف حجر اسود کو ہی دیا جائے گا- قربانیاں ساتھ لے کر، فقیری کا اظہار کرتے ہوئے، احرام ک ےکپڑے پہن کر، بیوی سے پرہیز کرتے ہوئے، شکار سے بچتے ہوئے، سفر صرف بیت اللہ کی طرف کیا جائے گا- کسی دوسری جگہ حج نہین ہوگا خواہ اللہ کا کوئی گھر ہی ہو- غیر اللہ کے آستانوں کی طرف اس طرح کے بھیس بنا کر جانا جس طرح اللہ کے کھر کی طرف جاتے ہوئے بناتے ہین اور ان سے امید اور خوف رکھنا اللہ تعالی کو کس طرح گوارا ہوسکتا ہے؟ اس نے تو برملا کہ دیا ہے کہ:" اللہ یہ جرم ہرگز نہیں معاف کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا بخش دے گا" (النساء:48)
ہندوؤں کے ہان بہت سی جگہیں ہین جو ان کے مختلف معبودوں کے نام سے مشھور ہیں وہ ان کی طرف جماعتیں بناکر جھنڈے اٹھاتے ہوئے فقیری کا بھیس بنا کر جاتے ہیں، وہاں جاکر ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہین، ان کے نام کی نذریں، نیازيں اور قربانیاں دیتے ہیں-
کرکھیتر، گنگا، جمنا، کانگڑا، دوارکا، جگن ناتھ، اور بہت سی جگہیں ہیں جہاں غیر اللہ کی پرستش ہوتی ہے مگر اللہ کی عبادت کا پتہ بھی نہیں چلتا-
اب مسلمانوں کو دیکھ لیجیے! انہوں نے بھی حاجات مانگنے کے لیے جماعتیں بنا کر جھنڈے اٹھائے ہوئے فقیری لباس پہن کر کئی قبروں کی طرف سفر شروع کررکھا ہے- وہاں جاکر قبر کا طواف کرتے ہیں' نذریں نیازین دیتے ہیں، جانوروں کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور فوت شدہ بزرگوں سے اپنی مرادیں مانگتے ہیں- بلکہ صاف کہدیتے ہیں: مکہ جانے کی کیا ضرورت ہے، قلعے مالے کے گھر کا طواف ہی کافی ہے- کئی لوگ ہر سال اجمیر جاتے ہین، کئی سہون شریف حج کے لیے جاتے ہیں-
اب بھی ہم مسلمان ہیں؟ کیا یہ مسلمانی ہے؟ اللہ تعالی نے صرف ایک گھر کا طواف بتایا تھا- یہاں سینکروں گھروں کے طواف ہورہے ہیں بلکہ غیر اللہ کےآستانوں کی وہ فضیلت بیان ہورہی ہیں جو اللہ کے گھر کی بھی نہیں- دیکھیں! مکہ میں کوئی ایسا دروازہ نہیں کہ جو اس سے گذر جائے بہشتی ہوجاتا ہے مگر پاک پتن میں فرید الدین شکرگنج کی قپر پر بہشتی دروازہ بنادیا گیا ہے کہ جو اس سے گزر جائے وہ بہشتی ہوجا تا ہے او سنيے!
شیر گڑھ، کلیئر شریف، داتا گنج بخش، امام بری، مادھو لال حسین۔۔۔۔۔۔
غرض جتنے کنکر اتنے شنکر' ان سب کی طرف ہر سال سفر ہوتا ہے- عقیدہ ہندوؤں کا تھا- اختیار مسلمانوں نے کرلیا-
اپنے ان بھائیوں کو بچالو- یہ صاف جہنم کی طرف جارہے ہیں، غیر اللہ کو پکار رہے ہیں- انہیں اس پیغمبر کا حکم سناؤ جس کا انہوں نے کلمہ پڑھا ہے- ان سے کہو کہ آؤ رسول اللہسے پوچھ لیں، کہ رسول اللہ کا حکم اس کے متعلق کیا ہے؟
صحیح مسلم میں جابر رض سے روایت ہے:
" رسول اللہنے منع فرمایا کہ قبر کو چونہ گچ کیا جائے یا اس پر عمارت بنائی جائے یا اس پر بیٹھا جائے-" (صحیح مسلم، الجنائز، باب النھی عن تجصیص القبر والبناء علیہ: 970)
اور مسلم ہی میں روایت ہےکہ علی رض نے ابو الھیاج اسدی سے کہا کہ میں تمہیں اس کام پر نہ روانہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ نے روانہ کیا تھا-
" وہ یہ ہے کہ کوئی تصویر نہ چھوڑ مگر اسے مٹادے اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑ مگر اسے برابر کردے-" (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب الامر بتسویۃالقبر:969)
علی رض نے ابوالھیاج کو خاص طور پر اس کام کے لیے کیوں روانہ کیا؟ اس میں ایک خاص مناسبت تھی کہ ابو الھیاج علی رض کے داماد تھے- جس طرح علی رض رسول اللہ
کےداماد تھے- رسول اللہ نے اپنے داماد کو اس کام پر مقرر فرمایا، علی رض نے اپنے داماد کو اس کام پر مقرر فرمایا-
اور علی رض کو اس کام پر روانہ کرنے میں اللہ کی طرف سے ایک اور حکمت بھی نطر آتی ہے، جتنے قبر پرست سلسلہ ہیں' سب علی رض کے نام لیوا ہیں، اللہ تعالی نے ایسا انتظام فرمایا کہ بلند قبریں برابر کروائيں تو انہیں کے ہاتھ سے کروائيں تاکہ علی رض کے نام لینے والے کسی شخص کے پاس شرک کے مرکز بنانے یا باقی رکھنے کی کوئی دلیل نہ رہے-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شادی کی رسمیں
رسول اللہ کا شادی کا طریقہ نہایت سادہ اور آسان تھا۔ سب سے پہلے رشتہ تلاش کرنا ہے تو دیندار کرنا ہے، ذات پات کی اسلام میں کوئی قید نہیں ہے، ذات پات کی وجہ سے صرف اپنی ہی ذات میں رشتہ کرنے کا تصور ہندوؤں سے مسلمانوں میں آیا ہے۔ اسلام نے نکاح کو کس قدر آسان بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں میں آپ کو صحیح بخاری کتاب النکاح سے ایک حدیث سناتا ہوں- اس سے آپ کو نکاح کا اسلامی طریقہ کافی حد تک سمجھ آجائے گا۔ ان شاءاللہ
" عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ نے انہیں سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کا بھائی بنادیا- انہوں نے کہا: بھائی جان! اللہ تعالی نے محھے بہت مال دیا ہے، ہم آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہین، میری دو بیوياں ہیں، آپ دیکھ لیں جسے آپ پسند کریں، میں اسے طلاق دیتا ہوں- عدت ختم ہونے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں"- اللہ اکبر! آسمان نے ایثار کے ایسے ایسے نظارے بھی دیکھے ہیں- لیکن یہ محبت صرف دین سے پیدا ہوتی ہے اور کسی چيز سے یہ محبت اور ایثار پیدا نہیں ہوسکتا- اب دوسرے بھائی کا جواب سنیں- انہوں نے فرمایا" اللہ تعالی آپ کے مال اور اہل میں برکت عطا فرمائے،مجھے بازار کا راستہ بتا دیجیے"- بازار گئے، صبح سے شام تک مختلف چيزيں خریدتے اور بیچتے رہے- شام کو کھا پی کر کچھ بچا کر بھی لے آئے- چند دن گذرے تو نبی پاک
ۖ نے ان کے کپڑوں پر زعفران کا کچھہ نشان دیکھا- فرمایا' یہ کیا ہے؟" انہوں نے عرض کیا:" میں نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی ہے- آپۖ نے فرمايا: کتنا مہر دیا ہے؟: " ایک نواۃ سونا، "نواۃ" کھجور کی کھٹلی کو کہتے ہیں- آپ نے فرمایا: (( اولم ولو بشاۃ)) " ولیمہ کرو خواہ ایک بکری یا بکرے، بھیڑ یا چھترے کے ساتھ ولیمہ کرو"-صحیح بخاری کتاب النکاح، باب الولیمہ ولو بشاۃ: 5167
یہ طریقہ جو رسول اللہنے سکھایا ہے- اس میں پہلی قابل لحاظ بات یہ ہے کہ عبدالرحمان بن عوف کو جونہی رشتہ ملا فورا نکاح کرلیا- رسول اللہسے بڑھ کر انہییں کوئی عزیز نہیں تھا ، مگر آپ کی شرکت کو بھی ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی آپکو شریک کرنے کے لیے نکاح موخر کیا-
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ لڑکی جوان ہے- لڑکا بھی جوان ہے- رشتہ طے ہوچکا ہے مگر مھینوں کے مھینے اور سالوں کے سال گزر رہے ہیں مگر نکاح نہیں ہوتا- جہیز بنے گا تو نکاح ہوگا- ہمارے فلاں عزیز دبئی سے آئيں گے تو نکاح کریں گے- ہماری فلاں لڑکی کا دیور لنڈن سے آئے گا تو نکاح کریں گے- بعض بیوقوف نکاح کرکے لڑکی گھر بٹھالیتے ہیں- ایک سال بعد نکاح کریں گے- کیوں؟ کیا لڑکی نا بالغ یا بیمار ہے؟ جب بالغ ہے، تندرست ہے، تو اسے خاوند کے گھر کیوں نہیں روانہ کرتے؟ یہ سب باتیں کفار سے مسلمانوں میں آئی ہیں- ان کے ہاں بدکاری آسان سے آسان اور نکاح مشکل سے مشکل بنادیآ گیا ہے-
نکاح کے موقع پر آپ کسی مسلمان کے گھر جاکر دیکھیں ایک ایک رسم پر غور کریں- بے شک کسی نمازی کے گھر کو دیکھ لیں، سواء ایک آدھ شخص کے جس کے اوپر اللہ کا خاص فضل ہو- آپ کو ہر جگہ پورا نقشہ کسی ہندو کے گھر کا نطر آئے گا- انہی کے طریقے اور انہی کی رسمیں دیکھنے میں آئيں گی-
نکاح سے پہلے روٹی اور نیوندرا:
سب سے پہلے تو یہ کہ مسلمانوں میں دعوت ولیمہ لڑکے کی طرف سے ہوتی ہے اور خاوند اور بیوی کی آپس میں ملاقت کی بعد ہوتی ہے- یہاں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت طعام کا ذکر کہیں نہیں ملے گا کہ بہت سے لوگ جمع کرکے بارات منا کر لڑکی والوں کے گھر ضیافت اڑائی جائے- ہوارے ہاں نکاح سے پہلے کھانا پکتا ہے- لڑکے والوں کے ہاں بھی اور لڑکی والوں کے ہاں بھی اور اس میں لوگوں کو بلايا جاتا ہے- اسے روٹی کہتے ہیں- یہ روٹی رسول اللہکا طریقہ نہیں- ہندوؤں کا طریقہ ہے- جب ہندوؤں کا ایک طریقہ اختیار کیا تو اس کے ساتھ ان کے دوسرے طریقے بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں- چلئیے کھانا آپ نے کھلادیا- اب رجسٹرڈ رکھ کر بیٹھ گئے- کہتے ہیں:" پیسے لاؤ"- اس کا نویتہ (نیوندوا) رکھا ہوا ہے-
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:" ولا تمنن تستکثر"( اس لیے احسان نہ کر کہ تو زیادہ طلب کرے) سورۃ المدثر:6
بتائیے! اس سے بڑھ کر بےمروتی کیا ہوگی!!!۔۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے یہ تعاون اور ہمدردی ہے- اگر یہ تعاون اور ہمدردی ہوتا تو رسول اللہ
ۖ ضرور کرتے جبکہ یہ نہ رسول اللہۖ نے کیا، نہ صحابہ نے کیا، نہ تابعین نے کیا، اور نہ ہی کسی عرب ملک میں اب تک پايا جاتا ہے، تعاون تو تب ہوتا کہ اگر قرض نہ ہوتا، اب کوئی شخص چاہے کہ میری موت آئے تو مجھ پر کوئی قرض نہ ہو- وہ ہر شخص کا قرض ادا کردیتا ہے-اگر اس نے اپنی شادییوں میں نیوتہ وصول کیا ہے تو یہ قرض ادا نہین کرسکتا- یہ اسی وقت ادا ہوگا جب نیوتہ دینے والے شادی یا ختنہ کی کوئی رسم برپا کریں-
بلکہ آپ برا نہ مانیں تو نیوتہ میں بڑی ہی خستہ اور کمینگی پائی جاتی ہے- آپ میرے گھر آئے، میں نے آپ کو کھانا کھلایا اور ساتھ ہی اس کی قیمت کا مطالبہ کردیا-
یا چليے! میرے مطالبے کے بغیر ہی آپ نے کچھ روپے نکال کردئیے- اگر میں کھانا کھاکر قیمت وصول کروں تو بتائیے! یہ بےغرتی ہے یا نہیں- اگر کوئی کہے کہ اتنے آدمیوں کو اپنی گرھ سے کون کھالائے؟ تو بھائیو! آپ کو کس نے یہ مصیبت ڈالی ہے کہ ضرور ہی تنے لوگوں کو بلا بلا کر ان کے پیسوں سے ان کی دعوت کریں؟ اللہ کے رسولنے تو جاہلیت کے طوق اور زنجیریں کاٹ دی تھیں- آپ نے دوبارہ پہن لیں-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی بجائے جہیز دینا:
اس قسم کی ایک اور رسم جہیز ہے جس کی وجہ سے برسوں تک لڑکیاں بیٹھی رہتی ہین اور کئی اسی انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں اور کئی دنیا ہی سے رخصت ہوجاتی ہین- حالانکہ اللہ تعالی نے لڑکی کے تمام احراجات کا ذمہ دار مرد کو ٹھرایا ہے- وہ عورت کو مہر دیتا ہے، شادی کے اخراجات کرتا ہے، ولیمہ کرتا ہے، رہائش مہیا کرتا ہے، لباس، کھنا، علاج وغیرہ ہر چيز مرد کے ذمہ ہے-
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ:"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے مالوں میں سے خرج کرتے ہیں"- النساء: 34
ہندوؤں نے اس کا الٹ کردیا، ان کے ہاں گھر کے استعمال کی تمام چيزيں عورت لائے گی- چارپائیاں، بستر، کھانے پکانے کے برتن، غرض ضرورت کی ہر چيز عورت لائے گی-
حقیقت یہ ہے کہ جہیز کی یہ رسم مرد کے شرف اور مردانگی کی خلاف ہے- ڈاکٹر محمد عمر نے اپنی کتاب "ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر" کے تیسرے باب میں لکھا ہے کہ (متحدہ) ہندوستان کے زمانے میں کمبوہ برادری کے مسلمان جہیز نہیں لیتے دیتے تھے اور نہ باراتیوں سے نیوتہ لیتے تھے-
معلوم نہیں کمبوہ حضرات اب بھی اس پر قائم ہیں یا نہیں- ہندومت میں لڑکی کو جہیز اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ ماں اور باپ کی جائداد کی وارث نہیں ہوتی- اب مسلمانوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کرلیا ہے- ساری جائیداد بھائی لے جاتے ہین- مکان دکان سب بھائی لے کغے اور بہن کو ٹرخادیا جہیز پر اور لڑکی پر اس ظلم میں باپ بھی برابر کے شریک ہیں- وہ بھی بیٹوں کو ہی جائیداد کا وارث بنانا چاہتے ہیں-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بے پردگی اور بے حیائی:
شادی کے موقع پر ہندوؤں کی جو رسوم مسلمانوں میں رواج پاگئی ہیں ان میں سے ایک بے پردگی اور بے حیائی ہے- ہندو قوم بنیادی طور پر ایک بے حیا قوم ہے اور شرک اور زنا کا آپس میں خاص تعلق ہونے کی وجہ سے اس قوم میں بے پردگی اور بدکاری عام ہے- بلکہ اسے مذھبی سند جواز حاصل ہے حتی کہ ان کے ہاں شرمگاہ تک کی پوجا کی جاتی ہے- ان کےبڑے برے دیوتاؤں کے زنا کے قصے ان کی مذھبی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں- نکاح کے موقع پر مسلمانوں کے گھروں میں جائيں تو آپ کو وہاں ہندو تہذیب صاف ناچتی ہوئی نظر ائے گی- الاماشاءاللہ- جوان لڑکیاں زیب و زینت لگا کر بے پردہ عام پھررہی ہوں گی- ان کے ساتھ جوان لڑکے بھی آ اور جا رہے ہوں گے- غیر محرموں سے کوئی پرہیز، کوئی حجاب نہیں- ٹھٹھے بازی، مخول، نظارہ بازی، صاف کفار کا ماحول نظر آتا ہے- حتی کہ اس موقع پر بوڑھیاں بھی سرخی پاؤڈر لگا کر عمر رفتہ کو آواو دیتی ہوئی نظر آتی ہیں-
اسی ہندو معاشرے کا اثر ہمارے گھروں میں ہے کہ اگر ننھیال یا ددھیال میں اپنے رشتیداروں سے ملنے کے لیے جائيں تو چچا کی لڑکیاں، ماموں کی لڑکیاں، دوسری عزیزائيں گلے لگ کر ملتی ہیں- میرے بھائیو! یہ رسم کہاں سے آئی؟ جو لڑکا لڑکی محرم نہیں، بےشک رشتیدار ہیں- ان کے لیے گلے ملنا کس طرح جائز ہے؟ یا ہندو تہذیب کا اثر ہے- کئی لوگ غیر محرم لڑکیوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہیں- بھائی! وہ تمہاری محرم نہیں تو پھر سر پر ہاتھ پھیرنے کا مطلب؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بغیر اجازت گھروں میں جانا:
ہندو تہذیب کا ہمارے معاشرے میں ایک اور اثر یہ ہے کہ سب لوگ بغیر اجازت ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے ہین حتی کہ غیر محرم مرد اور غیر محرم عورتیں بغیر اجازت، بے حجاب ایک دوسرے کے گھروں میں گھس جاتے ہیں- (گاؤں میں) کئی لوگ حقہ کی چلم ہاتھ میں پکڑ کر جس گھر میں چاہتے ہیں یہ کہتے ہوئے داخل ہوجاتے ہین کہ کیا آگ ہے؟ خواہ اس گھر میں اس وقت اکیلی عورت ہی کیوں نہ ہو- گويا حقے کی چلم لوگوں کے گھروں میں گھسنے کا سرٹیفکیٹ ہے- جہاں چاہو گھس جاؤ-
حالانکہ اللہ تعالی نے فرمایا: " اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہے، اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کہو" النور: 24
اپنے گھر کے علاوہ ہر گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینی ہے خواہ کوئی اجنبی ہو یا رشتیدار، بھائی کا گھر ہو یا بہن کا، سسرال کا گھر ہو یا والدین کا گھر، اجازت لے کر داخل ہو-
الحمد اللہ! میں جب سسرال کے ہاں بھی جاتا ہوں تو دروازہ کھٹکھٹا کر، اسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہ کر، اس وقت تک باہر کھڑا رہتا ہوں جب تک اندر سے آواز نہیں آتی کہ آجاؤ- بے شک انہیں تعجب ہو، پرواہ نہین- کیونکہ یہی رسول اللہ
ۖ کی تعلیم ہے-
آپ مقابلہ کیجیے ہندو معاشرے کا جس میں عام آزادی ہے- کتنا گندا معاشرہ ہوگا اور اسلام کا معاشرہ جس میں اجازت کے بغیر اندر جا ہی نہیں سکتا، کتنا پاکیزہ معاشرہ ہوگا-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دیور کا بھابھی سے عام میل جول:
اسلام میں معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے ایک پابندی یہ لگائی گئی ہے کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں اکیلا نہ ہو- ہاں اپنی بیوی یا اپنی محرم عورتوں کے ساتھ اکیلا رہ سکتا ہے-
صحیح بخاری اور صحیح مسلم مین عقبہ بن عامر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ
ۖ نے فرمايا" عورتوں کے پاس داخل ہونے سے بچو" ایک آدمی نے پوچھا: " یا رسول اللہۖ! خاوندوں کے بھائیوں کے متعلق اپ کیا فرماتے ہیں؟ آپۖ نے فرمایآ" الحمو الموت" دیور تو موت ہے-
(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الخلوۃ با حنبیۃ والدخول علیھا:2172)
یعنی اس کے ساتھ خلوت کا عام موقع میسر ہوسکتا ہے اور اس سے بے تکلیفی بھی زیادہ ہوتی ہے- اس سے تو بہت ہی زیادہ بچنا چاہیے- ہندو مذھب کی بےغرتی دیکھیے دیور یا جیٹھ کے ساتھ خلوت میں رہنا تو معمولی بات ہے- ہندی زبان میں دیور کا معنی ہی دوسرا خاوند ہے۔
اس معاشرہ کا ہم مسلمانوں پر بھی یہاں تک اثر ہے خاوند اپنی بیوی کے ساتھ اپنے جوان بھائی کو تنہا رات ایک گھر میں رہتے ہوئے دیکھتا ہے اور برداشت کرتا ہے- بلکہ خود ہی اس کے پاس اپنے جوان بھائی کو چھوڑ جاتا ہے- سفر میں اس کا ساتھی اپنے جوان بھائی یا کسی غیر محرم رشتہ دار کو بنادیتا ہے اور اس کی غیرت آرام سے سوئی رہتی ہے- اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کئی ایک ایسی باتین ہوجاتی ہیں جو کہنے کے لائق نہیں اور معاملہ حد سے گذر جاتا ہے- مگر اس وقت بھی ہندو تہذیب سے آنے والی بے غرتی اس کی زبان پہ تالے لگا ئے رکھتی ہے یا پھر کبھی غیرت جاگ اٹھے تو بھائیوں کے ہاتھوں سگے بھائیوں کا خون ہوجاتا ہے۔ ( اخبارات ان حادثات سے بھرے پڑے ہیں) یہ سب کچھ کس چيز کا نتیجہ ہے کہ گھر میں ہندو تہذیب کو برقرار رکھ- اللہ اور اس کے رسول
ۖ کے حکم کے مطابق گھر کا ماحول نہیں بنایا-
اسی ہندو تہذیب کا ایک اور اثر مسلمانوں میں پھیلی بے پردگی ہے- جب کوئی نکاح ہوتا ہے تو یہ بے پردہ عورتیں زیادہ بے پردہ ہوجاتی ہیں- جب دولھا سسرال کے گھر آتا ہے تو اسے مذاق کرتی اور سٹھنیان دیتی ہیں- بے پردہ سامنے کھڑی ہوکر بکواس کرتی ہین اور دولھا اتنا بے غیرت ہے کہ سب کچھ برداشت کرتا ہے- ہندو قوم تو تھی ہی دیوث، مسلمان بھی ذلت کے اس حد تک پہنچ گیا کہ بے عزتی کروارہا ہے مگراف نہیں کرتا-
میرے بھائیو! یہ غیرت مسمل مجاہدوں میں ہوتی ہے کہ اسی صورت میں سب کچھ چھوڑ کر پلٹ آنے کا حوصلہ رکھتے ہین-
موسیقی اور گانا بجانا:
ہندو تہذیب کی زنا اور بدکاری پھیلانے والی چيزوں مین بے پردگی، مردوں عورتوں کے میل جول اور بغیر اجازت گھروں میں آنے جانے کے علاوہ ایک چيز موسیقی اور گانا بجانا ہے- جو بدکاری میں مبتلا کرنے کے لیے جادو کا کام کرتا ہے اور دل میں اس طرح منافقت پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کیتھی کو اگاتا ہے اور بڑھاتا ہے-
"رسول اللہ
ۖ نے فرمایا: میری امتوں میں کچھہ لوگ ایسے ہونگے جو باجوں کو حلال کرلیں گے"-
(صحیح بخاری، کتاب الاشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر و یسمیہ بغیر اسمہ: 5590)
اس سے ثابت ہوا کہ موسیقی اور باجے گاجے حرام ہیں لیکن کفارکی یہ تہذیب ٹی وی کی صورت میں ہر گھر میں پہنچ گئی ہے- ہر گھر میں باجے بج رہے ہیں-
میرے بھائیو! اس مشن کو آگے بڑھانا ہے- ہندوؤں کی تہذیب اور ان کی رسموں کو اگر ختم نہیں کریں گے، ان کی مخالفت نہیں کریں گے تو ان سے لڑیں گے کس طرح؟
ہمارے ان کے درمیان تو قیامت کے لیے عداوت اور دشمنی ہونی چاہیے- یہ عداوت تبھی قائم رہ سکتی ہے جب ہم ان کی تہذیب و ثقافت سے بھی دشمنی رکھیں گے-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چہرے کی وضع قطع، داڑھی اور مونچھیں:
رسول اللہ نے جن چيزوں میں غیر مسلم قوموں کی مخالفت کا خاص طور پر حکم دیا، ان میں سے ایک چہرے کی وضع قطع ہے۔
"رسول اللہ کا فرمان ہے کہ:
مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھیوں کا بڑھاؤ اور مونچھوں کو اچھی طرح کترو"- (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار: 5892)
بعض احادیث میں آپ نے مجوسیوں کی مخالفت کا حکم دینے کے ساتھ، داڑھیاں بڑھانے اور مونچھیں کترنے کا حکم دیا ہے-
(مسلم، کتاب الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ:260)
تمام دنیا میں یہ حلیہ صرف مسلمانوں کا ہے جس سے وہ باقی قوموں سے پہچانا جاتا ہے- باقی قوموں میں سکھ اور یہودی ہین جن کی داڑھیوں کے ساتھ مونچھیں بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہیں- بعص اے ہاں داڑھی منڈی ہوئی اور منچھیں بڑھی ہوئی ہوتی ہین اور بعض کے ہان مونچھیں داڑھی دونوں صاف ہوتی ہیں۔
اگر مسلمان رسول اللہ کے حکم پر چلتے اور کفار کی مخالفت کرتے، داڑھیاں بڑھاتے، مونچھیں کٹاتے تو دور سے پہچانے جاتے- مگر افسوس اب چہرے سے نہیں پہچانا جاتا کہ مسلم ہے یا ہندو، عیسائی ہے یا یہودی، مسلمانوں نے کفار کی طرح داڑھی منڈھوا کر کفار کے ساتھ مشابہت کے علاوہ عورتوں سے مشابہت اختیار کرلی- اللہ تعالی کی خلق (پیدائش) بدل ڈالی-
شیطان نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں انہیں حکم دوں گا، یہ اللہ کی خلق بدل دیں گے-(النساء 4/119)
دس چيزيں فطرت سے ہیں، ان میں سے ایک داڑھی بڑھانا ہے، یہ مرد کی فطرت اور مردانگی کی علامت ہے- عبداللہ بن عباس رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ
ۖ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں"( بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبھین بالنساء والمتشابھات بالرجال: 5885)
میرے بھائیو! مردوں کو داڑھی منڈا کر چہرہ صاف کروا کر عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کبھی سوچا ہے آپ نے؟ ناراض نہ ہونا- بات بے ادبی کی نا ہوجائے- سخت نہ ہوجائے مگر تھوڑا سا اشارہ ضروری ہے -
اس زمین پر ایک ایسی قوم گذری ہے جس کے لڑکے ایسے انداز میں ظاہر ہونا پسند کرتے تھے کہ مردوں کے لیے ان میں کشش ہو- وہ جہرہ صاف کروا کر عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے تھے- اور وہ قوم لوط تھی- کہیں اس فوم کے ساتھ مشابہت تو اختیار نہیں کرہے؟ اگر یہ بات نہیں تو بتاؤ اور کیا وجہ ہے؟ جب مردانگی کی علامت داڑھی کو منڈوا کر عورت کی طرح چہرہ صاف کرلیا تو بتاؤ اسکے پیچھے کون سا جذبہ کار فرما ہے؟ آپ کس پیغمبر کا کلمہ پڑھتے اور اور شکل کون سے بنارہے ہو۔۔۔۔۔۔۔؟
اللہ سب مسلمانوں کو رسول اللہکی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ذکر اور جہاد سے روکنے والے کھیل:
ہندوؤں اور غیر مسلم قوموں یے حو طور طریقے مسلمانوں میں رائج ہوچکے ہیں، ان میں سے وہ کھیل بھی ہیں جن کا مقصد دل لگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں- جو انسان کو اللہ کے ذکر اور اپنے فرائض سے روکتے ہیں- رسول اللہ
ۖ نے ایسے تمام کھیل جو جہاد سے غافل کرتے ہیں، باطل قرار دیےہیں۔ فرمایا:" ہر وہ چيز جس سے آدمی دل لگی کرتا ہے، کھیلتا ہے، باطل ہے مگر اپنے کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا، یا گھوڑے کو سدھانا، یا اپنے گھروالوں کے ساتھ کھیلنا- تو یہ حق سے ہیں"۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الرمی فی سبیل اللہ:1637)
صاف ظاہر ہے یہ سب کھیل جہاد کی طرف لے جاتے ہیںاور باقی سارے کھیل بیطل ہیں، کفار کی پسند کے ہیں جیسا کہ ہندوؤں کے کھیل دیکھ لیجیے! پتنگ بازی، دیوالی، ان کا دین سے کیا تعلق؟ پتنگ بازی سے دشمن کو کیا تکلیف ہے؟ اور دیوالی چراغان تو صاف آتش پرستوں کا طریقہ ہے مسلمانوں کا طریقہ ہی نہیں اسی طرح کرکٹ، فٹ بال، والی بال یہ سب غیر مسلم کے کھیل ہیں، ان میں ملوث ہوکے ہر بندہ اپنے دین کا نقصان کرتا ہے اور نماز سے غافل رہتا ہے، چند آدمی کھیلتے ہیں اور پوری قوم اپنا سارا وقت ضایع کرکے ٹی وی پر ہار جیت کا انتظار کرتی ہے اور تو اور اس پہ جوا بھی لگاتی ہے۔ اللہ امان
اس کے علاوہ تاش، شطرنج، وڈیو گیمز، جانور لڑانا سب باطل اور ذکر اللہ سے روکنے والے ہیں۔
میرے بھائیو! یہ اسلام کے کھیل نہین، نہ ہی اسلام ایسے افراد تیار کرنا چاہتا ہے جو ان بیکار چيزوں میں زندگی برباد کردیں۔ اسلام کی سر بلندی کے لیے تو ایسے افراد درکار ہین جو اللہ تعالی سے محبت کرنے والے ہوں- اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہور وہ کافروں کے خلاف سخت ہو- ان کی رسوم، ان کی تہذیب و ثقافت سے شدید نفرت رکھنے والے ہوں۔ اہل ایمان سے محبت اور رحم کرنے والے ہوں، اللہ کے دین میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔ اللہ تعالی اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں ایسے ہی لوگوں میں شامل فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
@محمد فیض الابرار بھائی ۔۔۔۔ ماشاء الله بہت اچھا تھریڈ ہے، جاری رکھیے گا، جزاک الله خیر.۔۔۔ بس ایک چیز کی درستگی کر لیجئے کہ بہت سی جگہ پر لفظوں میں "space" نہیں دی گئی ، جیسا کہ
اللہسے، رسول اللہکا ، اللہنے وغیرہ
 
Top