محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
"چوریاں بتانا"
صحیح مسلم میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:" جو شخص کسی عراف (چوریا بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کسی چيز کے متعلق پوچھے، چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی"(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان، ص:223)
اب دیکھ لیں! کتنے مسلمان ہیں کہ ان کی چوریاں ہوتی ہیں یا کوئی چيز گم ہوتی ہے تو ساتھ ہی ایمان بھی گم ہوجاتا ہے- اللہ اور اس کے رسول پاک ۖ کے تمام احکام انہیں بھول جاتے ہیں- پوچھتے پھرتے ہیں کہ کوئی عامل بتاؤ جو گمشدہ چيز کا پتہ بتائے- کوئی دائرہ ڈالنے والا، لوٹا گھمانے والا نہیں چھوڑتے-
استخارہ کے نام پر کہانت
کچھ مولویوں نے استخارے کے نام پر مستقبل کے حالات بتانے کا کاروبار شروع کررکھا ہے- حالانکہ استخارے کا مطلب یہ نہیں ہے- استخارہ تو وہ دعا ہے جو رسول اللہ ۖ نے خود سکھائی کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت پڑھے اور آحر میں یہ دعا کرے- اس دعا میں اللہ تعالی کی جناب میں درخواست کی جاتی ہے- جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:" یا اللہ یہ کام اگر میرے لیے بہتر ہے تو میری قسمت میں کر اور اگر میرے لیے برا ہے تو مجھے اس کام سے ہٹادے اور جو کام میرے لیے بہتر ہے، میری قسمت میں کردے"( صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستاخارہ، ص:6382)
اس استخارہ کا آئندہ حالات بتانے سے اور غیب کی باتیں معلوم کرلینے سے کوئی تعلق ہی نہیں- آئندہ حالات اور غیب کی خبریں بتانے کا کام بو ہندوں پنڈت اور نجومی کرتے تھے وہی کام یہ عامل استخارے کے نام پر کررہے ہیں، جالانکہ یہی کہانت ہے- جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمايا:
" جو شخص کاہن کے پاس آيا اور اسے اس بات میں سچا جانا جو وہ کہتا ہے تو وہ اس چيز سے بری ہے جو محمدپر نازل کی گئی"
( ابوداؤد، کتاب الطب، باب فی الکاھن، ص:3904)
پھر ان ہاں شرکیہ نقش، ہندسوں والے تعویز، ٹونے ٹونکے، دشمن کی بربادی، محبوب کو مسخر کرنے کے کتنے ہی کام ہیں جو صاف یہودیوں کور ہندوؤں کے کام ہین- مسلمانوں کے کام نہیں- بچالو اپنے بھائیوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں اور عزیزوں کو جو ان لوگوں کے پاس جاکر اپنا ایمان برباد کرتے ہیں-
"سرادھ" اور ایصال ثواب کی رسمیں ختم، قل، برسی، سالگرہ وغیرہ
توحید و رسالت اور نماز کے بعد تیسرا فرض زکواۃ ہے، اللہ تعالی نے انسان کو جو کچھ عطا فرمایا اس میں اللہ کا حصہ ہےہے فرمایا:
{وءاتواحقۃ یوم حصادہ}(زمین میں حو فصل حاصل ہو' کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو)ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الکاھن: 3904
اگر کوئی فصل 17 من پیدا ہوجائے تو اس میں سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ ادا کرنا لازم ہے- اگر کنویں یا ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب ہوتی ہے تو بیسواں حصہ اور اگر بارانی یا دریائی پانی سے سیراب ہوتی ہے تو دسواں حصہ دینا ہوگا-
سونے چاندی میں سے اڑھائی فیصد زکواۃ ہے اور بکریوں، اونٹوں اور گائیوں کا بھی نصاب زکواۃ مقرر ہے- جب شخص فوت ہوجائے تو اللہ تعالی نے اس کی جائداد وارثوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے- لڑکے بھی وارث ہیں اور لڑکیاں بھی۔
اب مسلمان نہ عشر دیتے ہیں اور نہ زکواۃ دیتے ہیں، نہ لڑکیوں کو ان کی وراثت دیتے ہیں- مگر جب کوئی فوت ہوجائے تو اس کا ختم ضرور دلاتے ہیں حالانکہ یہ ہندوؤں کا خاص طریقہ ہے مسلمانوں کا نہیں-
ہندوؤں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام "سرادھ" ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہوجائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ "بید" پڑھواتے ہيں اور مردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کےہاں خاص دن مقرر ہیں- خصوصا جس دن فوت ہوا ہو- ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا مرنے کے تیرہواں دن، بعض کے لیے پندرہواں دن اور بعض کے لیے تیسواں یا اکتیسواں دن ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہے-
اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجا، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کرلیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر حتم پڑھوانا شروع کردیا- حالانکہ رسول اللہ سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں- اب اگر یہ کام پیارے نبی پاک سےثابت نہ ہوں اور ہندوؤں سے ثابت ہوں ہم انہیں اسلام کے احکام سمجھیں گے یا کفر کی رسمیں سمجھیں گے-
یہ سب کفر کی رسمیں ہیں- تیجہ، ساتواں، چالیسواں، برسی، یوم پیدائش، سالگرہ، یہ سب کفار کے طریقے ہین، اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں-
رسول اللہکا طریقہ یہ ہے کہ جس دن کسی کے ہان کوئی فوت ہو یا ان کے کسی فرد کی موت کی خبر آئے' اس دن اقارب ان کے گھر کھانا تیار کرکے روانہ کردیں-
عبداللہ بن جعفر رض بیان کرتے ہین کہ جس دن ان کے والد جعفر طیار کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ نے فرمایا جعفرکے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس ایسی چيز آئی جو انہیں مشغول کررہی ہے- (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب صنعۃالطعام لاھل المیت:3132)
میت کے دفن کے بعد میت کے گھر اجتماع کرنا اور کھانا تیار کرنا نبی پاک کا طریقہ نہیں-
" جریر بن عبداللہ البجلی رض فرماتے ہیں: ہم میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کے پاس اکٹھ کرنے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ خوانی سے شمار کرتے ہیں- (مسند احمد، نیل الاوطار: 4/97)
اب دفن کے بعد اس گھر میں اجتماع کرنا، کھانا تیار کرنا، مجلسیں برپا کرنا، اسی دن ہو یا قل کے نام پر تیسرے دن ہو یا ساتویں یا چالیسویں دن' صحابہ کرام اسے نوحہ خوانی (رونے پیٹنے) کی ایک قسم قرار دیتے تھے اور نوحہ خوانی حرام ہے-
ابوداؤد میں ابو سعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی- (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی النوح:3128)
صحیح مسلم میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:" جو شخص کسی عراف (چوریا بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کسی چيز کے متعلق پوچھے، چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی"(صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان، ص:223)
اب دیکھ لیں! کتنے مسلمان ہیں کہ ان کی چوریاں ہوتی ہیں یا کوئی چيز گم ہوتی ہے تو ساتھ ہی ایمان بھی گم ہوجاتا ہے- اللہ اور اس کے رسول پاک ۖ کے تمام احکام انہیں بھول جاتے ہیں- پوچھتے پھرتے ہیں کہ کوئی عامل بتاؤ جو گمشدہ چيز کا پتہ بتائے- کوئی دائرہ ڈالنے والا، لوٹا گھمانے والا نہیں چھوڑتے-
استخارہ کے نام پر کہانت
کچھ مولویوں نے استخارے کے نام پر مستقبل کے حالات بتانے کا کاروبار شروع کررکھا ہے- حالانکہ استخارے کا مطلب یہ نہیں ہے- استخارہ تو وہ دعا ہے جو رسول اللہ ۖ نے خود سکھائی کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت پڑھے اور آحر میں یہ دعا کرے- اس دعا میں اللہ تعالی کی جناب میں درخواست کی جاتی ہے- جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:" یا اللہ یہ کام اگر میرے لیے بہتر ہے تو میری قسمت میں کر اور اگر میرے لیے برا ہے تو مجھے اس کام سے ہٹادے اور جو کام میرے لیے بہتر ہے، میری قسمت میں کردے"( صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستاخارہ، ص:6382)
اس استخارہ کا آئندہ حالات بتانے سے اور غیب کی باتیں معلوم کرلینے سے کوئی تعلق ہی نہیں- آئندہ حالات اور غیب کی خبریں بتانے کا کام بو ہندوں پنڈت اور نجومی کرتے تھے وہی کام یہ عامل استخارے کے نام پر کررہے ہیں، جالانکہ یہی کہانت ہے- جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمايا:
" جو شخص کاہن کے پاس آيا اور اسے اس بات میں سچا جانا جو وہ کہتا ہے تو وہ اس چيز سے بری ہے جو محمدپر نازل کی گئی"
( ابوداؤد، کتاب الطب، باب فی الکاھن، ص:3904)
پھر ان ہاں شرکیہ نقش، ہندسوں والے تعویز، ٹونے ٹونکے، دشمن کی بربادی، محبوب کو مسخر کرنے کے کتنے ہی کام ہیں جو صاف یہودیوں کور ہندوؤں کے کام ہین- مسلمانوں کے کام نہیں- بچالو اپنے بھائیوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں اور عزیزوں کو جو ان لوگوں کے پاس جاکر اپنا ایمان برباد کرتے ہیں-
"سرادھ" اور ایصال ثواب کی رسمیں ختم، قل، برسی، سالگرہ وغیرہ
توحید و رسالت اور نماز کے بعد تیسرا فرض زکواۃ ہے، اللہ تعالی نے انسان کو جو کچھ عطا فرمایا اس میں اللہ کا حصہ ہےہے فرمایا:
{وءاتواحقۃ یوم حصادہ}(زمین میں حو فصل حاصل ہو' کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو)ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الکاھن: 3904
اگر کوئی فصل 17 من پیدا ہوجائے تو اس میں سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ ادا کرنا لازم ہے- اگر کنویں یا ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب ہوتی ہے تو بیسواں حصہ اور اگر بارانی یا دریائی پانی سے سیراب ہوتی ہے تو دسواں حصہ دینا ہوگا-
سونے چاندی میں سے اڑھائی فیصد زکواۃ ہے اور بکریوں، اونٹوں اور گائیوں کا بھی نصاب زکواۃ مقرر ہے- جب شخص فوت ہوجائے تو اللہ تعالی نے اس کی جائداد وارثوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے- لڑکے بھی وارث ہیں اور لڑکیاں بھی۔
اب مسلمان نہ عشر دیتے ہیں اور نہ زکواۃ دیتے ہیں، نہ لڑکیوں کو ان کی وراثت دیتے ہیں- مگر جب کوئی فوت ہوجائے تو اس کا ختم ضرور دلاتے ہیں حالانکہ یہ ہندوؤں کا خاص طریقہ ہے مسلمانوں کا نہیں-
ہندوؤں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام "سرادھ" ہے اور جب سرادھ کا کھانا تیار ہوجائے تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ "بید" پڑھواتے ہيں اور مردوں کے لیے ثواب پہنچانے کے لیے ان کےہاں خاص دن مقرر ہیں- خصوصا جس دن فوت ہوا ہو- ہر سال اسی دن ختم دلانا یعنی برسی یا مرنے کے تیرہواں دن، بعض کے لیے پندرہواں دن اور بعض کے لیے تیسواں یا اکتیسواں دن ثواب پہنچانے کے لیے مقرر ہے-
اسی طرح مسلمانوں نے بھی تیجا، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کرلیے اور کھانا تیار کرواکر اس پر حتم پڑھوانا شروع کردیا- حالانکہ رسول اللہ سے ان میں سے کوئی رسم بھی ثابت نہیں- اب اگر یہ کام پیارے نبی پاک سےثابت نہ ہوں اور ہندوؤں سے ثابت ہوں ہم انہیں اسلام کے احکام سمجھیں گے یا کفر کی رسمیں سمجھیں گے-
یہ سب کفر کی رسمیں ہیں- تیجہ، ساتواں، چالیسواں، برسی، یوم پیدائش، سالگرہ، یہ سب کفار کے طریقے ہین، اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں-
رسول اللہکا طریقہ یہ ہے کہ جس دن کسی کے ہان کوئی فوت ہو یا ان کے کسی فرد کی موت کی خبر آئے' اس دن اقارب ان کے گھر کھانا تیار کرکے روانہ کردیں-
عبداللہ بن جعفر رض بیان کرتے ہین کہ جس دن ان کے والد جعفر طیار کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ نے فرمایا جعفرکے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس ایسی چيز آئی جو انہیں مشغول کررہی ہے- (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب صنعۃالطعام لاھل المیت:3132)
میت کے دفن کے بعد میت کے گھر اجتماع کرنا اور کھانا تیار کرنا نبی پاک کا طریقہ نہیں-
" جریر بن عبداللہ البجلی رض فرماتے ہیں: ہم میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کے پاس اکٹھ کرنے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ خوانی سے شمار کرتے ہیں- (مسند احمد، نیل الاوطار: 4/97)
اب دفن کے بعد اس گھر میں اجتماع کرنا، کھانا تیار کرنا، مجلسیں برپا کرنا، اسی دن ہو یا قل کے نام پر تیسرے دن ہو یا ساتویں یا چالیسویں دن' صحابہ کرام اسے نوحہ خوانی (رونے پیٹنے) کی ایک قسم قرار دیتے تھے اور نوحہ خوانی حرام ہے-
ابوداؤد میں ابو سعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی- (ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی النوح:3128)