صحیح بخاری کتاب الایمان
اس حدیث رسولﷺ پہ جس کا ایمان نہیں ہے وہ اپنے ایمان کا محآسبہ کرے۔
حدثنا حرمي بن حفص قال حدثنا عبد الواحد قال حدثنا عمارة قال حدثنا أبو زرعة بن عمرو بن جرير قال سمعت أبا هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال انتدب الله عزوجل لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا إيمان بي وتصديق برسلي أن أرجعه بما نال من أجر أو غنيمة أو أدخله الجنة ولولا أن أشق علی أمتي ما قعدت خلف سر ية ولوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيی ثم أقتل ثم أحيی ثم أقتل۔
حرمی بن حفص، عبدالواحد، عمارہ، ابوزرعہ بن عمر بن جریر، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے جو اس کی راہ میں (جہاد کرنے کو) نکلے اور اس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے پیغمبروں کی تصدیق ہی نے (جہاد پر آمادہ کر کے) گھر سے نکالا ہو، اس امر کا ذمہ دار ہوگیا ہے کہ یا تو میں اسے اس ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا، جو اس نے جہاد میں پایا ہے، یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کردوں گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو (کبھی) چھوٹے لشکر کے ہمراہ جانے سے بھی دریغ نہ کرتا، کیوں کہ میں یقینا اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔
رہتی دنیا تک جو شخص اللہ کی راہ میں کفار سے لڑتا ہوا قتل کر دیاجائے اور وہ خالصتا اللہ کی رضا کیلئے لڑے اور ہمیں علم ہو کہ اسکا عقیدہ وایمان بظاہر کامل اور مکمل ہے تو ہم اسے اس حدیث کے مطابق قطعی شہید ہی کہیں گے۔
جبکہ اس کی تصدیق اللہ کی کلام سے بھی ہے۔
ولاتقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتا بل احیاءولکن لاتشعرون۔
باقی رہا سوال کہ کن لوگوں کو قطعی شہید نہیں جاسکتا۔۔۔؟
طاعون کی بیماری سے وفات پانے والا،دیوار کے نیچے دب جانے والا،جل کے مر جانے والا،زچگی کے دوران عورت مرجانے والی،بم سے بلاسٹ ہونے والا،یاوہ لوگ جن کی شہادت کی دوسری علامات بتائی گئی ہیں ان کو قطعی شہید کا درجہ نہیں دیں گے،اگر شہید کہیں گے تو ان شاءاللہ کے ساتھ اگر مردہ کہیں گے بھی تو کوئی غلط نہ ہوگا کیوں کہ اس شخص کااندرونی معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ ہے۔
جبکہ ان سے قطع تعلق جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں اگر ایمان کامل کے ساتھ فقط اللہ کی رضا کیلئے لڑتے ہوئے قتل کر دیئے جائیں تو ان کے بارے سختی سے حکم ہے کہ انہیں شہید ہی کہا جائے گا کیونکہ اس حدیث کے مطابق اللہ خود ان کی ضمانت دے رہے ہیں انہییں ہم شہید ہی کہیں گے لیکن جو اس حالت میں مر جائیں جو میدان قتال میں نہ ہوں توانہیں ان شاءاللہ کے ساتھ شہید کہیں گے اگرچہ معاملہ ان کا بھی اللہ کے ساتھ ہے۔
شہید سیدھا جنت میں جائے گا یا نہیں جائیگا یہ ایک الگ بحث ہے۔