اور جو یزید کی تعریف کر یا اس کو رحمہ اللہ علیہ کہے اس کا کیا حکم ہے؟کافر تو نہیں تھا لیکن کوئی بہت بڑی قابل احترام ہستی بھی نہیں ؛امام احمد،امام ابن کثیر،امام ذہبی رحمھم اللہ اور دیگر بہت سے ائمہ ٔ سنت نے اس پر جرح کی ہے اور اسے ظالم بادشاہ قرار دیا ہے؛امام ابن تیمیہؒ نے بھی کہا ہے کہ ہمیں اس سے محبت نہیں؛اگر یہ صالح ہوتا تو کیوں محبت نہ کی جاتی؛ذرا سوچیے!
تعریف بہ معنیٰ تعظیم و ستایش تو بالکل غلط عمل ہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے اققال سے معلوم ہوتا ہے؛جہاں تک رحمہ اللہ کہنے کی بات ہے تو یہ تاویل کا مسئلہ ہے؛جو علما اس کے قائل ہیں انھوں نے اسے ایک عام مسلمان پر قیاس کیا ہے کہ جو مسلمان ہے اس کے لیے دعاے رحمت کی جا سکتی ہے؛مجھے اس تاویل سے اتفاق نہیں کیوں کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود کشی کرنے والے کا جنازہ علما کو نہیں پڑھنا چاہیے کیوں کہ وہ ایک قبیح جرم کا مرتکب ہے تو اسی طرح یزید کے جرائم اس سے بھی قبیح تر ہیں ؛پس اہل علم کو اسے رحمہ اللہ کہنے سے گریز کرنا چاہیے کہ عرف میں یہ صالح اور لایق تعظیم لوگوں پر بولا جاتا ہے جب کہ یزید سے محبت نہ کرنے کی صراحت کی ہے ائمہ سنت نے؛واللہ اعلماور جو یزید کی تعریف کر یا اس کو رحمہ اللہ علیہ کہے اس کا کیا حکم ہے؟
گیا یزید کی تعریف کرنا گناہ کبیرہ ہے؟
شرک تو خود کشی سے بھی زیادہ بڑھا گنا ہے۔تو پھر بریلوی و دیوبندی کے لے دعا مغفرت کیسے جائز ہے۔ اگرآپ کا جواب یہ کہ تاویل عزرتعریف بہ معنیٰ تعظیم و ستایش تو بالکل غلط عمل ہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے اققال سے معلوم ہوتا ہے؛جہاں تک رحمہ اللہ کہنے کی بات ہے تو یہ تاویل کا مسئلہ ہے؛جو علما اس کے قائل ہیں انھوں نے اسے ایک عام مسلمان پر قیاس کیا ہے کہ جو مسلمان ہے اس کے لیے دعاے رحمت کی جا سکتی ہے؛مجھے اس تاویل سے اتفاق نہیں کیوں کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود کشی کرنے والے کا جنازہ علما کو نہیں پڑھنا چاہیے کیوں کہ وہ ایک قبیح جرم کا مرتکب ہے تو اسی طرح یزید کے جرائم اس سے بھی قبیح تر ہیں ؛پس اہل علم کو اسے رحمہ اللہ کہنے سے گریز کرنا چاہیے کہ عرف میں یہ صالح اور لایق تعظیم لوگوں پر بولا جاتا ہے جب کہ یزید سے محبت نہ کرنے کی صراحت کی ہے ائمہ سنت نے؛واللہ اعلم
آپ مانتے ہیں حسین رضی اللہ عنہ باغی گروہ تھا(نعوذ باللہ)شرک تو خود کشی سے بھی زیادہ بڑھا گنا ہے۔تو پھر بریلوی و دیوبندی کے لے دعا مغفرت کیسے جائز ہے۔ اگرآپ کا جواب یہ کہ تاویل عزر
ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ۔ اس کی تاویل کیوں عذر نہیں ہے ۔ جبکہ مسلمان حکمران کے خلاف جائز نہیں جاہیے وہ ظالم ہو اور آپ کے باقول یزیدظالم تھا۔ اگراس نے یہ تاویل کی ہو کہ باغی گروہ ہے۔ اس لے ان کے ساتھ قتال کرلیا
حضرت حسین رضی الله عنہ باغی تو نہیں تھے لیکن بہرحال اس وقت کے لحاظ سے اجتہادی غلطی پر تھے (جس کے بعد انہوں نے اس غلطی کا اعادہ بھی کر لیا تھا کوفیوں سے یہ کہہ کر کہ مجھے واپس شام جانے دو تاکہ میں امیر یزید بن معاویہ کہ ہاتھ میں ہاتھ دے سکوں )- چند اکابرین صحابہ جن میں حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ سرفہرست ہیں انہوں نے حضرت حسین رضی الله عنہ کو خروج سے منع کیا تھا -سیدنا حسین علیہ السلام ہر گز باغی نہ تھے ؛ ۔