محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
اسلام و علیکم -
جیسا کہ آپ میں اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ سلام کی قوم انتہائی قبیح اور مذموم فعل میں مبتلا تھی- یعنی "ہم جنس پرستی" - یہ لوگ عورتوں سے جائز شہوت را نی کے بجاے مردوں سے شہوت را نی کی طرف لپکتے تھے -حضرت لوط علیہ سلام کے مسلسل سمجھانے بوجھانے پر بھی یہ قوم ٹس سے مس نہ ہوئی اور آخر الله کی ازلی سنّت کے مطابق عذاب کا شکار ہوگئی -
لیکن قرآن سے ایک چیز یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کے علاوہ دو مزید قبیح حرکتوں میں مبتلا تھی - اس میں ایک مسافروں کا راستہ روکنا اور دوسرے اپنی محفلوں میں سرعام فحش گفتگو کرنا تھا - جیسا کہ قرآن میں الله فرماتا ہے -
أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ سوره العنکبوت ٢٩
کیا تم مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو اور راستے روکتے ہو اور اپنی محفلوں میں برے کام (فحش گوئی ) کرتے ہو -تو اُن کی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ -
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ پہلا مذموم فعل یعنی ہم جنس پرستی تو ہم مسلمانوں میں اتنا عام نہیں ہے اور الله سے دعا ہے کہ آئندہ بھی نہ عام ہو - لیکن باقی دو مذموم افعال یعنی راستہ روکنا اور محفلوں میں فحش گوئی اتنی عام ہے کہ اب تو اس کو سرے سے گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا - کوئی سیاسی جلسہ ہو یا احتجاجی تحریک ہو یا کسی کا بائیکاٹ کرنا ہو- ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس سے ہمارے مسلمان بھائی کو کتنی تکیلف کا سامنا کرنا پڑے گا صرف اپنے جائز اور نا جائز مقاصد کو پورا کرنے کے لئے قوم لوط کے عمل کو اختیار کرنے سے گریزنہیں کرتے -افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ عام فہم لوگ تو ایک طرف لیکن ہمارے علما ء کرام اور دین کا فہم رکھنے والے لوگ بھی اسی صف میں کھڑے نظر آ تے ہیں - یہ سوچے بغیر کہ اس مذموم فعل کی وجہ سے کسی مسلمان بھائی کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے -
اور اسی طرح محفلوں میں فحش گوئی کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا اور اب یہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے -حتیٰ کہ اگر دین کا فہم رکھنے والا اس کو برا تصور کرتا بھی ہے تو اس کو روکنے کا کوئی قدم نہیں اٹھاتا -ہم مسلمان بھول جاتے ہیں کہ یہ عمل بھی قوم لوط کا عمل تھا.
آخر میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک پیش ہے : " جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی قیامت کے دن وہ انہی کے ساتھ ہو گا" (متفق علیہ ) - کیا ہم میں سے کوئی اس بات کا خواہش مند ہے کہ قیامت کے دن وہ قوم لوط کے ساتھ ہو ؟؟
الله سے د عا ہے کہ ہمیں ہر برے عمل سے بچنے اور گناہوں سے معافی طلب کرنے کی توفیق عطا فرماے (آ مین )
جیسا کہ آپ میں اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ سلام کی قوم انتہائی قبیح اور مذموم فعل میں مبتلا تھی- یعنی "ہم جنس پرستی" - یہ لوگ عورتوں سے جائز شہوت را نی کے بجاے مردوں سے شہوت را نی کی طرف لپکتے تھے -حضرت لوط علیہ سلام کے مسلسل سمجھانے بوجھانے پر بھی یہ قوم ٹس سے مس نہ ہوئی اور آخر الله کی ازلی سنّت کے مطابق عذاب کا شکار ہوگئی -
لیکن قرآن سے ایک چیز یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کے علاوہ دو مزید قبیح حرکتوں میں مبتلا تھی - اس میں ایک مسافروں کا راستہ روکنا اور دوسرے اپنی محفلوں میں سرعام فحش گفتگو کرنا تھا - جیسا کہ قرآن میں الله فرماتا ہے -
أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ سوره العنکبوت ٢٩
کیا تم مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو اور راستے روکتے ہو اور اپنی محفلوں میں برے کام (فحش گوئی ) کرتے ہو -تو اُن کی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے آؤ -
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ پہلا مذموم فعل یعنی ہم جنس پرستی تو ہم مسلمانوں میں اتنا عام نہیں ہے اور الله سے دعا ہے کہ آئندہ بھی نہ عام ہو - لیکن باقی دو مذموم افعال یعنی راستہ روکنا اور محفلوں میں فحش گوئی اتنی عام ہے کہ اب تو اس کو سرے سے گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا - کوئی سیاسی جلسہ ہو یا احتجاجی تحریک ہو یا کسی کا بائیکاٹ کرنا ہو- ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس سے ہمارے مسلمان بھائی کو کتنی تکیلف کا سامنا کرنا پڑے گا صرف اپنے جائز اور نا جائز مقاصد کو پورا کرنے کے لئے قوم لوط کے عمل کو اختیار کرنے سے گریزنہیں کرتے -افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ عام فہم لوگ تو ایک طرف لیکن ہمارے علما ء کرام اور دین کا فہم رکھنے والے لوگ بھی اسی صف میں کھڑے نظر آ تے ہیں - یہ سوچے بغیر کہ اس مذموم فعل کی وجہ سے کسی مسلمان بھائی کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے -
اور اسی طرح محفلوں میں فحش گوئی کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا اور اب یہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے -حتیٰ کہ اگر دین کا فہم رکھنے والا اس کو برا تصور کرتا بھی ہے تو اس کو روکنے کا کوئی قدم نہیں اٹھاتا -ہم مسلمان بھول جاتے ہیں کہ یہ عمل بھی قوم لوط کا عمل تھا.
آخر میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک پیش ہے : " جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی قیامت کے دن وہ انہی کے ساتھ ہو گا" (متفق علیہ ) - کیا ہم میں سے کوئی اس بات کا خواہش مند ہے کہ قیامت کے دن وہ قوم لوط کے ساتھ ہو ؟؟
الله سے د عا ہے کہ ہمیں ہر برے عمل سے بچنے اور گناہوں سے معافی طلب کرنے کی توفیق عطا فرماے (آ مین )