السلام علیکم :
شیخ
@اسحاق سلفی بھائی آپ کیا کہتے ہے اس بارے میں
تکہ شاپ والوں نے لکھا ہے :
’’ جس کے پاس پیسے نہیں ،وہ اللہ ،اور اللہ کے رسول ﷺ کے کھاتے سے کھانا کھا سکتا ہے ‘‘
اگر میں صحیح سمجھا ہوں ، تو :
اس اعلان میں دو مقصد پیش نظر ہیں: ایک تو یہ کہ غریب و نادار شخص مفت کھانا کھا سکتا ہے
دوسرا مقصد یہ کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے نام کا حصہ وہ اپنے مال سے نکالنا چاہتے ہیں ؛
اگر ان کا یہی مطلب ہے ،تو واضح رہے کہ ایسا کرنا شرک ہے ،کیونکہ دیگر عبادات کی طرح مالی عبادت بھی صرف اللہ کا حق ۔
کوئی اور اس حق میں اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا؛۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ذوالجلال ،مشرکین کے شرک کی حالت بتاتے ہوئے فرماتا ہے :
(( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَاۗىِٕنَا ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَاۗىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ ۚ وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰي شُرَكَاۗىِٕهِمْ ۭسَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ (سورۃ الانعام ١٣٦)
ترجمہ :
اور جو کھیتی اور مویشی اللہ نے پیدا کئے تھے ان لوگوں نے ان چیزوں میں (اللہ کے سوا دوسروں کا بھی) حصہ مقرر کردیا۔ اور اپنے گمان باطل سے یوں کہتے ہیں کہ : یہ حصہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے۔ اب جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا وہ تو اللہ کے حصہ میں شامل نہ ہوسکتا تھا اور جو حصہ اللہ کا ہوتا وہ ان کے شریکوں کے حصہ میں شامل ہوسکتا تھا۔ کتنا برا فیصلہ کرتے تھے یہ لوگ ‘‘
علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
صدقہ وخیرات میں مشرکوں کی ناانصافیاں :۔ مشرکین نے صدقہ و خیرات کرتے وقت اللہ کا حصہ الگ مقرر کر رکھا تھا اور اپنے بتوں یا دیوی دیوتاؤں کا الگ۔ ان کا پہلا ظلم تو یہ تھا کہ اس بات کے اعتراف کے باوجود کہ ان کی کھیتی اور مویشیوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کا بھی حصہ مقرر کر دیا۔
اور دوسرا ظلم یہ تھا کہ وہ اپنے وہم و گمان کی بنا پر اپنے شارع خود ہی بن بیٹھے تھے اور ان کا زعم باطل یہ تھا کہ ہم اللہ کا حصہ تو اس لیے نکالتے ہیں کہ ہماری کھیتی اور مویشیوں کو پید اکرنے والا وہی ہے اور دوسرے معبودوں یعنی دیوی دیوتاؤں، فرشتوں، ستاروں کی ارواح اور پہلے بزرگوں کی روحوں کا حصہ اس لیے نکالتے ہیں کہ جو کچھ انہیں مل رہا ہے انہی کی نظر کرم کی وجہ سے مل رہا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ انہیں اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر ان کا حصہ نکالتے تھے اور یہی چیز اصل شرک ہے۔ اس شکل میں اگر اللہ کے نام پر کچھ دیا بھی جائے تو قطعاً اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ "(صحیح مسلم ،(2985)
سیدنا ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے''
(لوگوں نے جن کو )میرا شریک بنایا ہوا ہےمیں ان شریکوں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بےنیاز ہوں ۔ جس شخص نے ایسا عمل کیا جس نے میرے ساتھ غیر کو حصہ دار بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو ہی چھوڑ دیتا ہوں ۔'' (مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب تحریم الربا۔ بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب قول اللہ تعالیٰ لا یسئلون الناس الحافا)