• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیپٹن عثمانی کے باطل عقائد کا رد !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خاکستر شدہ انسان کا معاملہ

جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا۔

اِذَا اَنَا مِتُّ فَاحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اَطْحَنُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّوْنِیْ فِی الرِّیْحِ فَوَاﷲِ لَئِنْ قَدَرَ اﷲُ عَلَیَّ لَیُعَذِّبُنِیْ عَذَابًا مَّا عَذَّبَہٗ اَحَدًا۔

یعنی جب میں مر جائوں تو تم مجھے جلا کر میری راکھ کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ واللہ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر تنگی کی تو مجھے وہ ایسی سزا دے گا جو اور کسی کو اس نے نہیں دی۔ جب اس کی وفات ہوئی تو اس کے ساتھ یہی کاروائی کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کے تمام ذرات کو جمع کر دے سو اس نے ایسا ہی کیا۔جب وہ جمع کر دیا گیا تو وہ آدمی تھا جو کھڑا کر دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے یہ سب کاروائی کیوں کی؟ اس نے جواب دیا اے میرے رب تیرے ڈر کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

(رواہ البخاری جلد ۱ ص۴۹۵ واللفظہ لہ ‘ مسلم ج۲ ص۳۵۶)

ایک روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہا کہ میری راکھ کا آدھا حصہ خشکی میں اور آدھا دریا میں بکھیر دینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

(بخاری جلد ۲ ص۱۱۱۷‘مسلم جلد ۲ ص۳۵۶)

اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ راکھ شدہ انسان کو دوبارہ بدن عنصری عطا فرماتا ہے اور پھر اس پر انعام یا عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی معاملہ اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جسے مچھلی یا جانوروں نے کھا کر فضلہ بنا دیا ہو اس شخص کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد عذاب (قبر) اس کی میت (جسد عنصری) کو دیا جائے گا لہذا اگر اس کا جسم راکھ میں تبدیل ہو گیا اور ہوا اور پانی نے اس کے ذرات کو منتشر کر دیا تو شاید وہ عذاب سے بچ جائے گا مگر اس کا یہ خیال (کہ جسم کے راکھ میں تبدیل ہو کر منتشر ہو جانے پر وہ عذابِ قبر سے بچ جائے گا) غلط نکلا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ کو اکٹھا کر کے اسے دوبارہ انسان بنا دیا۔

اس سے ثابت ہوا کہ جسم کے ساتھ دنیا میں کچھ ہو جائے مگرمرنے کے بعد اس کے جسم کو دوبارہ تخلیق کر کے اسے ثواب و عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے البتہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے ہماری عقلیں اسے سمجھنے سے قاصر ہیں ہم تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

اب یہ کہنا کہ عالم برزخ میں روح کو برزخی جسم یعنی ایک نئے جسم میں داخل کر کے ثواب و عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے تو یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے(( واضح رھے کہ کسی بھی حدیث میں برزخی جسم کا لفظ یا بررزخی قبر کا لفظ موجود نہیں یہ خالص کیپٹن عثمانی کی اختراع ہے)) کیونکہ دنیا میں روح کے ساتھ جسد عنصری ہی گناہ میں شریک رہتا ہے اور مرنے کے بعد عذاب برزخی جسم کو دیا جائے اور اگر کوئی یہ دلیل پیش کرے کہ شہداء کو بھی تو آخر برزخی جسم دئیے جاتے ہیں تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ برزخی جسم نہیں ہوتے بلکہ شہداء کی روحیں پرندوں کے پیٹ میں بیٹھ کر جنت کی سیر کرتی رہتی ہیں۔الفاظ یہ ہیں۔ اَرْوَاحُھُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍا ’’ ان کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف (پیٹ) میں ہوتی ہیں جس طرح دنیا میں لوگ عموماً ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر سیر کرتے ہیں اسی طرح شہداء کی روحیں بھی جنت میں پرندوں کے جوف میں بیٹھ کر سیر کرتی رہتی ہیں۔

یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں کہ اسے صرف اس شخص کے ساتھ خاص مانا جائے کیونکہ اس واقعہ کے خاص ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی ہم اسے اس شخص کی کرامت تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ نیک انسان بھی نہیں تھا۔

اب عقلی طور پر اس حدیث پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کا لاشہ ‘راکھ یا اجزاء بدن جس مقام پر ڈال دئیے جائیں تو وہ کہیں غائب نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیں اس سے پورا انسان بنتا دکھائی دیتا ہے تو اس کاآسان سا جواب یہ ہے کہ یہ سب غیب کا معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو ہم سے پوشیدہ رکھ کر ہمیں آزماتا ہے کہ ہم اس کی اور اس کے رسول کی باتوں کو من وعن تسلیم کرتے ہیں یا اپنی طرف سے مین میکھ نکال کر اسے جھٹلاتے ہیں۔

لِیَعْلَمَ اﷲُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ ’’

یعنی تا کہ اللہ تعالیٰ معلوم کرے کہ کون شخص بن دیکھے ڈرتا ہے‘‘۔
(المائدہ۔۹۴)

اللہ ھمیں فتنہ عثمانی سے محفوٖظ رکھے آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز

باب : میت کا چارپائی پر بات کرنا
حدیث نمبر : 1380


حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خد

امام بخاریؒ نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے۔ ’’باب کلام المیت علی الجنازۃ‘‘۔یعنی جنازہ پر میت کے کلام کرنے کا بیان۔اور دوسرے مقام پر یوں باب باندھا ہے۔ باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی یعنی میت کا یہ کہنا جب کہ وہ ابھی جنازہ پر ہوتا ہے مجھے جلدی لے چلو۔معلوم ہوا کہ امام بخاریؒ کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کی میت کلام کرتی ہے اور یہ کلام بھی ایسا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے پردہ غیب میں نہ رکھاہوتا تو انسان اسے سن کر بیہوش ہو جاتا یا ہلاک ہو جاتا۔ بخاری کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں قَالَتْ لِاَھْلِھَا یعنی میت اپنے گھر والوں سے کہتی ہے یہ اور اوپر کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہی لاشہ (مردہ) کلام کرتا ہے کیونکہ وہ عالم برزخ میں جا کر اپنے گھر والوں سے تو کلام کرنے سے رہا۔

بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی بھی دل ہی دل میں کہتے ہوں گے کہ امام بخاری ؒ بھی کتنے بڑے بدعقیدہ نکلے جو میت کے کلام کے بھی قائل ہیں ( العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ) اگرچہ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مردہ کیسے کلام کر سکتا ہے مگر چونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہے اس لئے اٰمَنَّاوَصَدَّقْنَا اب کسی مومن کے لئے چوں چراں کی کوئی گنجائش نہیں۔

وَمَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَعْصِ اﷲِ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا (احزاب ۳۶)

’’ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘۔


نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ ان کی اپنی بات نہیں ہوتی بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جو ان پر کی جاتی ہے۔ لیکن صحیح بخاری کی اس حدیث پربانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی نے کیا تبصرہ کیا ہے انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔

////////////////////////////////////////////////////////

’’بخاری کی اس حدیث کے بعد انہی کی دوسری حدیث کو لا کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو مردہ کاندھے پر جب اٹھایا جاتا ہے تو بولنے لگتا ہے نیک ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو اور برا ہے تو چیختا ہے کہ ہائے ہائے کہاں لئے جا رہے ہو۔ بھائی اس حدیث میں تو صاف آ گیا کہ یہ مردہ ہے زندہ نہیں پھر اس سے زندگی کا اثبات کیسا رہا اس کا بولنا تو قرآن کی متشابہات کی طرح اس حدیث کی اصلی تاویل کسی کے پاس نہیں کوئی کہتا ہے کہ روح بولتی ہے کسی کا کہنا ہے کہ یہ زبان حال کا قول ہے۔ بہر حال یہ مردہ ‘مردہ ہے زندہ نہیں۔ ورنہ اگر کاندھے کے پاس بولے تو اٹھانے والا کیوں نہ سنے گا۔ بخاری نے بھی باب باندھ کر بتلا دیا کہ وہ اس کو مردہ مانتے ہیں بولنے والا زندہ نہیں۔(عذاب قبر ص۱۶‘۱۷)

//////////////////////////////////////////////////////

اس عبارت کو پڑھئیے اور بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی کی بدحواسی کا اندازہ لگائیے۔اگر یہ حدیث بخاری کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہوتی تو جھٹ موضوع قرار دے دی جاتی لیکن چونکہ یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے اور امام بخاریؒ کی عظمت کے موصوف بھی کچھ قائل ہیں۔ لہذا دو راز کارقسم کی باتیں کر کے جان خلاصی کی کوشش کی ہے۔بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی اگرچہ ابھی پورے منکر حدیث نہیں بنے ہیں کیونکہ ابھی وہ ارتقائی دور سے گزر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی تمام احادیث بلکہ سلف کے اقوال بھی مانتے ہیں اور جو احادیث ان کے نظریات کے خلاف ہوں انہیں کسی طرح ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فرماتے ہیں اس حدیث میں تو صاف آ گیا کہ یہ مردہ ہے زندہ نہیں۔بھائی کس نے آپ سے کہہ دیا کہ وہ مردہ نہیں ہے۔ افسوس صد افسوس آپ کی عقل پر تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے یہاں بات تو ساری میت (مردہ) ہی کے بارے میں ہو رہی ہے۔ راحت قبر یا عذاب قبر زندہ کو تو نہیں ہوتا۔مرنے کے بعد سے قیامت تک کے تمام مراحل سے مردہ ہی گزرتا ہے اب اس کی اس حیات کو جس میں وہ راحت و آرام سے گزرے یا عذاب سے اسے قبر کی زندگی کہہ لیں یا برزخی زندگی کہہ لیں بات تو ایک ہی بنتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حیاۃ فی القبر کے نام سے مغالطہ ہوا ہے تو عرض ہے کہ یہ وہی حیات ہے جسے آپ حیاۃ فی البرزخ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔اب رہا یہ مسئلہ کہ مردہ شعور رکھتا ہے یا نہیں تو یہ اور اس طرح کی بہت سی احادیث بتا رہی ہیں کہ مردہ نہ صرف شعور رکھتا ہے بلکہ وہ راحت و آرام کو محسوس کرتا ہے اور عذاب کو بھی۔ وہ کلام بھی کرتا ہے جسے ہم اور آپ نہیں سن سکتے اس زندگی کو اگر آپ دنیا میں کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہیں تو وہ حالت نوم ہے جس میں سونے والا راحت و آرام اور دردو الم تمام کیفیات سے گزرتا ہے اور ان تمام کیفیات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے چہرے سے بھی کبھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی مسکراہٹ بتا دیتی ہے کہ وہ راحت و آرام میں ہے اور کوئی حسین خواب دیکھ رہاہے یا اس کا خوف زدہ چہرہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔ نائم اور مردہ میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ نائم کی خوشی اورخوف کو انسان بھانپ لیتا ہے لیکن مردہ کا معاملہ چونکہ پردہ غیب یعنی برزخ سے ہے اس لئے اس کا اظہار نہیں ہوتا اور ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ ا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
برزخیوں کے وہم زدہ سوال کا قرآن سے جواب

برزخیوں کو ایک اور وھم بھی ھوتا ھے کہ جس آدمی کو مار کے کاٹ ڈالا گیا ھو۔ بوٹی بوٹی کردیا گیا ھو۔ اس کو عذاب کیسے ھوگا۔ ان کے اعتراض ایسے ھوتے ھیں گویا برزخیوں نے عذاب دینا ھو اور ان کو سمجھ نہ آرھی ھو کہ عذاب کیسے دیں استغفراللہ۔

یہ سب اللہ کی قدرت ھے جس کا برزخی محض اپنے جاہل امام کیپٹن عثمانی کی تقلیدمیں انکار کرجاتے ھیں اور غیب کے معاملات پہ ایمان لانے کی بجائے شک کرنے لگتے ھیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ أَرِ‌نِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْ‌بَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ‌ فَصُرْ‌هُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦٠﴾

اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے پروردگار مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا (١) جناب باری تعالٰی نے فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی فرمایا چار پرندوں کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑ پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی غالب ہے حکمتوں والا ہے۔

اس سے واضح ھوتا ھے اللہ کی قدرت و دسترس میں سب کچھ ھوتا ھے۔ جہاں ھمارا دماغ نہ مانے تو دماغ کا فتور ھے شریعت دماغ کے تابع نہیں بلکہ دماغ کو شریعت کے تابع رکھنا چاہئے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ارضی قبر میں عذاب کا ثبوت ھم دیتے ھیں۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں پر سے گذرے ۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں ایسی چیز میں عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے بچنا ان کے لئے کوئی بڑی بات تھی بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا (اور مسلم: ۲۹۲کی ایک روایت میں لا یستنرہ من البول کے الفاظ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھتا تھا۔

اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی لی اور اسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہو جائیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے گا‘‘۔

(بخاری و مسلم۔ مشکاۃ المصابیح باب آداب الخلاء)۔ (بخاری رقم:۲۱۶، ۲۱۸، ۱۳۶۱، ۱۳۷۸، ۶۰۵۲، ۶۰۵۵۔ مسلم:۲۹۲)۔

صحیح مسلم میں جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں کمی نبی ﷺ کی دعا اور شفاعت کے ذریعے ہوئی تھی۔

(صحیح مسلم۔ ۲/۴۱۸عربی حدیث:۳۰۱۲)

بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بڑے گناہ ہیں۔ بعض منکرین عذاب قبر نے اس روایت کی بڑی عجیب توجیہہ بیان کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان قبر والوں کو یہاں نہیں بلکہ برزخی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا لیکن یہ حدیث ان کی اس باطل تأویل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ صحیح بخاری کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:

اما ھذا فکان لا یستتر من بولہ و اما ھذا فکان یمشی بالنمیمۃ

رہا یہ شخص تو پس یہ پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھااور رہا یہ شخص پس یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الغیبۃ)۔

اس روایت کے اگلے الفاظ یہ ہیں:

ثم دعا بعسیب برطب فشقہ باثنین فغرس علی ھذا واحدا و علی ھذا واحدا … (بخاری ۶۰۵۲)

پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا پھر ایک ٹہنی کو اس (قبر) پر اور دوسری ٹہنی کو اس (دوسری قبر) پر گاڑھ دیا۔

ایک روایت میں آخری الفاظ اس طرح ہیں:

فجعل کسرۃ فی قبر ھذا و کسرۃ فی قبر ھذا (بخاری:۶۰۵۵، کتاب الادب)

پس آپ ﷺ نے ایک ٹکڑے کو اس قبر پر اور دوسرے کو اس (دوسری) قبر پر گاڑھ دیا۔

اس حدیث میں اسم اشارہ قریب ’’ھذا‘‘ کا استعمال کر کے آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان دونوں قبر والوں کو انہی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور اس کی وضاحت سے ڈاکٹر عثمانی کی باطل تاویلات بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔

اس حدیث میں دونوں اشخاص کے لئے ھذا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ھذا اسم اشارہ قریب کے لئے آتا ہے یعنی اس شخص کو اور اس شخص کو! اس اس بنا پر عذاب ہو رہا ہے۔ اور دوسری حدیث کے مطابق ٹہنی کا ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا اس قبر پر۔ لہٰذا ان احادیث کی بناء پر منکرین کے تمام شبہات غلط ثابت ہوجاتے ہیں اور پھر برزخی قبر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے لہٰذا حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو کون تسلیم کرے گا؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ :

جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث ارضی قبر میں سوال وجواب کے لئے بہت ہی واضح ہے۔

چنانچہ جناب ابن شماسہ المہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا وہ بہت دیر تک روتے رہے اور دیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔بیٹے نے کہا ابا جان کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں بشارت نہیں دی؟ پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں ؟ تب انہوں نے اپنا منہ ہمارے طرف کیا اور فرمایا ہمارے لئے بہترین توشہ تو اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں (پھر فرمایا) میں تین ادوار سے گزرا ہوں۔ایک دور تو وہ تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے بغض نہ تھا اور کوئی چیز میری نظر میں اتنی محبوب نہ تھی جتنی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدرت حاصل ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالوں (معاذ اللہ)پھر دوسرا دور وہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خیال میرے دل میں پیدا کیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپناہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میں شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ شرط یہ ہے کہ میرے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں۔ فرمایا عمروؓ کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام تمام سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے (چنانچہ میں نے بیعت کر لی) اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری آنکھوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی صاحب جلال تھا۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و جلال کے باعث آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکتا تھا اور چونکہ پورے طور پر چہرہ مبارک نہ دیکھ سکتا تھا اس لئے مجھ سے ان کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر میں اسی حالت میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔اس کے بعد ہم بہت سی باتوں کے ذمہ دار بنائے گئے۔ معلوم نہیں میرا ان میں کیا حال رہے گا۔جب میں مر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے اور نہ آگ ساتھ لے جائی جائے اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔

( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)
ہم نے جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے متعلق پوری روایت نقل کی ہے تا کہ قارئین کرام کو معلوم ہو سکے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت کس قدر فکر انگیز تھی اور بعد میں آنے والوں کے لئے کیا کیا درس عبرت اس میں پنہاں ہیں۔اس حدیث کا آخری حصہ ارضی قبر میں سوال و جواب پر نص قطعی ہے ۔ بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی کو اس آخری حصہ پر اعتراض ہے اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی مرض الموت کے وقت کی اس بصیرت افروز وصیت کو وہ بحرانی کیفیت اور بدحواسی قرار دے کر رد کرتاہے

چنانچہ بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی لکھتا ہے۔

مسلم کی اس حدیث سے جس میں یہ ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر جب سکرات موت کا عالم طاری تھا۔
’’وَھُوَ فِیْ سِیَاقِ الْمُوْتِ‘‘ تو انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ مجھ پر مٹی دالنے اور دفنانے کے بعد کچھ دیر میری قبر کے پاس ٹھہرے رہنا تا کہ میں تمہاری موجودگی کی وجہ سے مانوس رہوں اور مجھے معلوم رہے کہ اپنے رب کے رسول (فرشتوں ) کو کیا جواب دوں۔

الفاظ یہ ہیں۔

’’ثُمَّ اَقِیْمُوْ احَوْلَ قَبْرِیْ قَدْرَ مَا یُنْحَرُ جُزُوْرٌ وَّیُقْسَمُ لَحْمُھَا حَتّٰی اَسْتَاْنِسَ بِکُمْ اَعْلَمُ مَاذَا اُرَاجِعُ بِہٖ رُسُلَ رَبِّیْ‘‘۔

یہ سکرات الموت کے وقت کی بات ہے جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ ہیں۔

’’وھوفی سیاق الموت‘‘ ایسے وقت کی بات جب آدمی اپنے آپے میں نہ ہو قرآن و حدیث کے نصوص کو کیسے جھٹلا سکتی ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ قرطاس کو نگاہ میں رکھنا مناسب ہے۔ بخاری روایت کرتے ہیں کہ وفات سے چار دن پہلے یعنی جمعرات کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کتاب لائو میں تمہارے لئے وہ لکھ دوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو تو بعض صحابہ ؓ جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کی شدت کی وجہ سے بحرانی کیفیت طاری ہے۔ اسی کے زیر اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں اس لئے لکھوانے کی ضرورت نہیں ہے۔

الفاظ یہ ہیں۔

’’ اَھْجَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘۔

(نسخہ البخاری ص۶۳۸‘ جلد دوم عربی اور حاشیہ ۴ وفی بعضہا ۱ہجرمن باب الافعال یعنی اَہْجَرَ )

بعض صحابہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ’’ نہیں لکھوا لینا چاہئے‘‘ اس طرح آوازیں بلند ہوئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اٹھ جانے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار دن اور حیات رہے لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس طرح عمر رضی اللہ عنہ کا خیال صحیح ثابت ہوا۔

وفات سے چار دن پہلے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی وجہ سے بحرانی کیفیت طاری ہو سکتی ہے تو کیا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر اس وقت جب کہ وہ عین سکرات کی حالت میں ہوں طاری نہیں ہو سکتی اور وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتے کہ اگر پورے ہوش و حواس میں ہوتے تو کبھی نہ کہتے۔ہاں اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات نے ان کی وصیت پر عمل بھی کیا تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ قبر میں دفن کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پھر زندہ ہو جائیں گے لیکن ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔

(عذاب قبر ص۱۹‘۲۰)

اوپر بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی کی عبارت سے ثابت ہوا کہ موصوف کے نزدیک جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر سکرات موت کے وقت بحرانی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور وہ اپنے آپے میں نہیں تھے اور یہی بحرانی کیفیت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ان کی موت سے چار دن پہلے طاری ہو گئی تھی۔بحران اس بکواس کو کہتے ہیں جو بیماری کی شدت میں واقع ہوتی ہے اور مریض بیماری کی شدت میں اول فول بکتاہے۔

غور فرمائیں کہ اگر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ آخر وقت میں اس عقیدہ پر فوت ہوئے جسے بعد میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اختیار کیاتھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا خاتمہ موصوف کے نزدیک شرک یا کفر پر ہوا تھا (نعوذ باللہ من ذلک) اگرچہ موصوف نے صاف الفاظ میںاس کا اقرار نہیں کیا مگر وہ کہنا یہی کچھ چاہتے ہیں اورممکن ہے کہ وہ اس کا اعلان عذاب قبر کے بعد شائع ہونے والے کسی رسالہ ’’ عذاب برزخ‘‘ وغیرہ میں کر بھی دیں۔کیونکہ ان کی عادت ہے کہ وہ کسی ایک بات پر ہمیشہ قائم نہیں رہتے بلکہ پینترے بدلتے رہتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

‘‘اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘

یعنی اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔

(صحیح بخاری جلد ۲ ص۹۷۸)

جس عقیدہ پر خاتمہ ہو گا اسی کے مطابق جزاو سزا کا معاملہ بھی ہو گا۔

شیعہ (روافض) توویسے ہی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے خار کھائے بیٹھے ہیں اوروہ ان سے سخت بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف نے بھی روپ بدل کر اور تقیہ کالباس اوڑھ کر یہ سلسلہ شروع کر دیا ہو اور عمرو رضی اللہ عنہ دشمنی کو توحید کا نام دے دیا ہو(اسی خدشہ کا اظہار دمدمتہ الجنودمیں بھی کیا گیا ہے) اور یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر شیعیت کا غلط اور بے بنیاد الزام لگانے کی سزا ہے کہ موصوف جناب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے دشمن ہو کر مرے ہیں۔

موصوف کو چاہئے تھا کہ وہ اس پوری حدیث کو صحیح مسلم کتاب الایمان سے بغور پڑھتے اور پھر کوئی فتویٰ صادر کرتے۔ حدیث کا ایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت پورے ہوش و حواس میں تھے اور انہوں نے ماضی کے واقعات کو کس خوبی او ر اختصار کے ساتھ دھرایا تھا اور پھر جو وصیت فرمائی وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں تھی۔

بانی برزخی فرقہ کیپٹن عثمانی کی اس کفریہ جرح پر وضاحت ان شاءاللہ اگلی پوسٹ میں بھی دی جائے گی۔

https://www.facebook.com/Islaah.Emaan/posts/1549876458585420:0
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سب کو اسی زمینی قبر میں جانا ھے ثبوت قرآن سے !!!



10246610_1555230961383303_5230014536807719824_n.jpg


منکرین قران و حدیث عثمانی مقلدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر انسان کی قبر اسی زمین میں بنتی ہے چاہے اسے جلا کر راکھ کر دیا جائے اور چاہے اسے جانور کھا کر فضلہ بنا دیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔

مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى(55طہ)

’’ ہم نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو (بعد موت) لے جائیں گے اور قیامت کے روز پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکالیں گے‘‘۔

https://www.facebook.com/Islaah.Emaan/photos/a.1414831235423277.1073741827.1413412475565153/1555230961383303/?type=1&theater
 
Top