پلیز اس بات کا جواب دے دیں کہ یہاں جو
’‘المنہال بن عمرو ’‘ پر جرح کی گئی اس میں کہا گیا کہ
بن معين يضع من شأن المنهال بن عمرو وقال الجوزجاني سيء المذهب وقد جرى حديثه - وقال الحاكم المنهال بن عمرو غمزة يحيى القطان - وقال أبو الحسن بن القطان كان أبو محمد بن حزم يضعف المنهال ورد من روايته حديث البراء -
(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 10، 556)
ترجمہ : ا
بن معین منھال کی شان کو گراتے تھے - الجوزجانی نے کہا کہ وہ بدمذہب ہے.ہرچند کہ اس کی روایتیں بوھت پھیل گئی ہیں - حکیم کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان اس کی شان گراتے ہیں - ابوالحسن بن القطان نے کہا کہ ابو محمد بن حزم اس کو ضعیف گردانتے تھے اور اس کی اس روایت کو جو وہ براء بن عازب (رض) تک پہنچاتا تھا رد کرتے تھے -
لنک
http://shamela.ws/browse.php/book-3310/page-4945
وقال الحاكم : غمزه يحيى بن سعيد . وقال الجوزجانى في الضعفاء : له سيئ المذهب - وكذا تكلم فيه ابن حزم ، ولم يحتج بحديثه الطويل في فتان القبر -
(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ذہبی، جزء 4، 8806)
ترجمہ :
حاکم کا کہنا ہے کہ منھال کی حثیت یحییٰ بن سعید گراتے ہیں - الجوزجانی نے اپنی کتاب "الضعفاء" میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا - اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کوناقابل احتجاج ٹھرایا ہے -
محترم ان کا کافی شافی جواب ویسے تو ہم نے دیا ہوا ہے کہ ان میں امام یحییٰ بن سعید قطان اور امام یحییٰ کی جروح ثابت ہی نہین ہیں البتہ امام یحییٰ بن معین کی منہال کے بارے میں توثیق ضرور ثابت ہے۔ دیکھئے: (کتاب الجرح والتعدیل۔جلد۔4۔قسم۔1۔صفحہ۔357)
اس کے علاوہ جوزجانی کے حالات اگر پڑہیں تو آپ کو پتہ چلے گا وہ بھی کافی متعصب تھے کہ وہ کئی سچے اور ایماندار اہل کوفہ راویوں کو بھی بدمذہب کہہ دیتے تھے۔ صحیح بخاری کے کئی راویوں کے بارے میں ان کی ایسی رائے ملتی ہے۔ تو ان کی جرح بھی قابل حجت نہیں۔
باقی ابن حزم کی جرح کے بارے میںحافظ، ابو فدا ئ، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر دمشقی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ترجمہ:”حافظ ابن حزم رحمة اللہ علیہ نے منہال بن عمرو پر جرح کی ہے اور قبر میں سوال و جواب کے بارے میں اسکی بواسطہ زاذان،سیدنا براءؓ سے بیان کردہ حدیث کو رد کیا ہے۔ یہ ابن حزم کی غلطی ہے“۔
(التکمیل فی الجرح والتعدیل و معرفة الثقات والضعفاءوالمجاھیل۔جلد۔۱۔صفحہ۔۱۱۲)
اس کے برعکس درجنوں محدثین سے منہال بن عمرو کی توثیق ثابت ہے۔ حوالاجات درکار ہوں تو بندہ حاضر ہے۔
لیکن ان سب سے قطع نظر آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کیا آپ اس اصول کو مانتے بھی ہیں کہ جس کی سند صحیح ہو وہ حدیث صحیح ہوگی؟ یا یہ بس عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اصول حدیث اور رجال کا سہارہ پکڑا ہوا ہے آپ نے؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت ضرور کر دیجئے گا۔