• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیپٹن مسعود الدین عثمانی کے عقائد کے متعلق سوالات:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

محترم اسحاق بھائی، جواد بھائی فورم میں آپ سے سینئر اور آپ کے ہم عقیدہ ہیں، فورم میں کافی عرصہ سے کام کر رہے ہیں اور انہیں انتظامیہ سے مفید پوسٹ پر حوصلہ افرائی بھی ہوتی رہی ھے۔ ایک اندازہ سے وہ شائد عمر میں ابھی چھوٹے ہیں اور طالب علم یا اس سے اوپر بھی ہو سکتے ہیں، ہو سکتا ھے انہیں لکھنے یا آپ کو سمجھنے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان سے کہیں ایرر وہ رہا ھے تو بجائے مناظرہ ماحول کے آپ جو اس پر مفید معلومات رکھتے ہیں وہ اپنے مراسلوں میں بغیر مخاطب کئے شیئر کریں تو یہ طریقہ بہت اچھا ہو گا ورنہ مراسلے پر مراسلہ پوسٹ کرنے میں فائدہ میں کمی ہو جائے گیا۔
جزاک اللہ خیر

والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم

محترم اسحاق بھائی، جواد بھائی فورم میں آپ سے سینئر اور آپ کے ہم عقیدہ ہیں، فورم میں کافی عرصہ سے کام کر رہے ہیں اور انہیں انتظامیہ سے مفید پوسٹ پر حوصلہ افرائی بھی ہوتی رہی ھے۔ ایک اندازہ سے وہ شائد عمر میں ابھی چھوٹے ہیں اور طالب علم یا اس سے اوپر بھی ہو سکتے ہیں، ہو سکتا ھے انہیں لکھنے یا آپ کو سمجھنے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان سے کہیں ایرر وہ رہا ھے تو بجائے مناظرہ ماحول کے آپ جو اس پر مفید معلومات رکھتے ہیں وہ اپنے مراسلوں میں بغیر مخاطب کئے شیئر کریں تو یہ طریقہ بہت اچھا ہو گا ورنہ مراسلے پر مراسلہ پوسٹ کرنے میں فائدہ میں کمی ہو جائے گیا۔
جزاک اللہ خیر
والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جزاک اللہ خیراً
آپ کی بات سے قطعاً اختلاف نہیں ،۔۔۔۔۔ ان کا سینئر ہونا بھی تسلیم ،
البتہ ہم عقیدہ نہیں ،میرا عقیدہ میرے نام سے ظاہر ہے ،اور اس فورم پر میری تحریریں اس کی شاہد ؛
رہی بات مناظرانہ انداز کی تو اس کی ابتدا ہمارے محترم بھائی نے کی ہے؛ اور موضوع بہت حساس چھیڑا سو ۔۔۔۔۔۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات تو یہ ارشد کمال کا حوالہ صرف ’‘ محدث ’‘ کی وجہ سے دیا تھا ،
دوسری بات یہ کہ آپ نے واضح نہیں کیا کہ :
ارشد کمال کی نقل کردہ بیہقی والی روایت اور آپ کی پیش کی گئی بخاری کی روایت میں کیا تضاد یا تخالف ہے،
ہاں البتہ ہمیں الحمد للہ ’‘ محدثین سے محبت کے سبب اتنا علم ہے ’‘ کہ ارشد کمال صاحب کی نقل کردہ بیہقی کی موقوف رویت سنداً صحیح ہے ،،

ارشد کمال صاحب نے تو یہ روایت بیہقی ؒ سے نقل کی ہے ،
جبکہ ہمارے پاس بیہقی سے ڈیڑھ صدی قبل کے مستند محدث جناب عبد اللہ بن امام احمد ؒ کی کتاب ’‘ السنہ ’‘موجود ہے ،
(اور صرف برقی کتاب electronic book ہی نہیں ،بلکہ اصل کتاب مطبوعہ مکتبہ ابن قیم ۔الدمام ، بھی موجود ہے )
اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بسند صحیح موجود ہے ،، آپ بھی کتاب کا ذیل کا سکین دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں

9553 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


ارشد کمال صاحب اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں البیہقی کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا -

(صفحہ ١٨٩)

اس حدیث میں جس قبر کا ذکر ہے - وہ کون سی قبر ہے - جس میں کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا - ذرا وضاحت کر دیں - کیا وہ دنیا والی قبر ہے یا کوئی برزخ والی قبر ہے -

کیوں کہ صحیح بخاری کی حدیث میں بھی عذاب کا ذکر ہے -



سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔

صحیح بخاری ، کتاب الجنائز



میرا بھائی اب ذرا ان احادیث میں جو عذاب کا ذکر ہے اس کی وضاحت کر دے - اور ساتھ میں صحیح بخاری کی حدیث کی ان الفاظ کی بھی تشریح دیں -


ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔


ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔



یہاں جو عذاب ہو رہا ہے وہ روح پر ہے یا جسم پر بھی ہے - اگر جسم پر بھی ہے تو کون سے جسم پر دنیا والے جسم پر یا وہاں کوئی اور جسم دیا گیا -

ان لوگوں کی قبریں بھی اندر ہیں تندور کے- اکھٹی ہیں وہاں یا دنیا میں ایک کی کہاں دوسرے کی کہاں - وضاحت کر دیں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اور آپ ماشاء اللہ محقق ہیں ،آپ ہی نے بتایا تھا کہ امام بخاری کے راوی ضعیف بھی ہیں ( جیسے المنہال بن عمرو ) تو ایسی کتاب جس میں ضعیف رواۃ موجود ہوں ۔۔۔۔۔اس کی روایات ،قرآن کے خلاف کیسے قبول ہو سکتی ہیں ؟؟

پلیز اس بات کا جواب دے دیں کہ یہاں جو ’‘المنہال بن عمرو ’‘ پر جرح کی گئی اس میں کہا گیا کہ


بن معين يضع من شأن المنهال بن عمرو وقال الجوزجاني سيء المذهب وقد جرى حديثه - وقال الحاكم المنهال بن عمرو غمزة يحيى القطان - وقال أبو الحسن بن القطان كان أبو محمد بن حزم يضعف المنهال ورد من روايته حديث البراء -


(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 10، 556)

ترجمہ : ابن معین منھال کی شان کو گراتے تھے - الجوزجانی نے کہا کہ وہ بدمذہب ہے.ہرچند کہ اس کی روایتیں بوھت پھیل گئی ہیں - حکیم کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان اس کی شان گراتے ہیں - ابوالحسن بن القطان نے کہا کہ ابو محمد بن حزم اس کو ضعیف گردانتے تھے اور اس کی اس روایت کو جو وہ براء بن عازب (رض) تک پہنچاتا تھا رد کرتے تھے -


لنک

http://shamela.ws/browse.php/book-3310/page-4945





وقال الحاكم : غمزه يحيى بن سعيد . وقال الجوزجانى في الضعفاء : له سيئ المذهب - وكذا تكلم فيه ابن حزم ، ولم يحتج بحديثه الطويل في فتان القبر -


(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ذہبی، جزء 4، 8806)

ترجمہ : حاکم کا کہنا ہے کہ منھال کی حثیت یحییٰ بن سعید گراتے ہیں - الجوزجانی نے اپنی کتاب "الضعفاء" میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا - اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کوناقابل احتجاج ٹھرایا ہے -

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
پلیز اس بات کا جواب دے دیں کہ یہاں جو ’‘المنہال بن عمرو ’‘ پر جرح کی گئی اس میں کہا گیا کہ


بن معين يضع من شأن المنهال بن عمرو وقال الجوزجاني سيء المذهب وقد جرى حديثه - وقال الحاكم المنهال بن عمرو غمزة يحيى القطان - وقال أبو الحسن بن القطان كان أبو محمد بن حزم يضعف المنهال ورد من روايته حديث البراء -


(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 10، 556)

ترجمہ : ابن معین منھال کی شان کو گراتے تھے - الجوزجانی نے کہا کہ وہ بدمذہب ہے.ہرچند کہ اس کی روایتیں بوھت پھیل گئی ہیں - حکیم کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان اس کی شان گراتے ہیں - ابوالحسن بن القطان نے کہا کہ ابو محمد بن حزم اس کو ضعیف گردانتے تھے اور اس کی اس روایت کو جو وہ براء بن عازب (رض) تک پہنچاتا تھا رد کرتے تھے -

میرے بھائی میں تو خود یہی کہہ رہا ہو ں کہ :
ایسی کتاب جس میں ضعیف رواۃ موجود ہوں ۔۔۔۔۔اس کی روایات ،قرآن کے خلاف کیسے قبول ہو سکتی ہیں ؟؟
لہذا آپ کاپی پیسٹ کی مشق ستم کرنا بند کردیں ؛
اور اگر یہ شوق ضرور ہی پورا کرنا ہے تو اصل کتاب)یا pdf فائل سے اس راوی کے حالات کا پورا صفحہ سکین کر کے لگائیں
آپ محض لنک دے کر دل کو خوش کر لیتے ہیں ،،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ارشد کمال صاحب اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں البیہقی کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا -

(صفحہ ١٨٩)

اس حدیث میں جس قبر کا ذکر ہے - وہ کون سی قبر ہے - جس میں کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا - ذرا وضاحت کر دیں - کیا وہ دنیا والی قبر ہے یا کوئی برزخ والی قبر ہے -

کیوں کہ صحیح بخاری کی حدیث میں بھی عذاب کا ذکر ہے -



سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔

صحیح بخاری ، کتاب الجنائز



میرا بھائی اب ذرا ان احادیث میں جو عذاب کا ذکر ہے اس کی وضاحت کر دے - اور ساتھ میں صحیح بخاری کی حدیث کی ان الفاظ کی بھی تشریح دیں -


ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔


ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔



یہاں جو عذاب ہو رہا ہے وہ روح پر ہے یا جسم پر بھی ہے - اگر جسم پر بھی ہے تو کون سے جسم پر دنیا والے جسم پر یا وہاں کوئی اور جسم دیا گیا -

ان لوگوں کی قبریں بھی اندر ہیں تندور کے- اکھٹی ہیں وہاں یا دنیا میں ایک کی کہاں دوسرے کی کہاں - وضاحت کر دیں -
بھائی جب آپ کے بقول بخاری کے راوی ضعیف وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو آپ پھر بھی اس کی روایات نقل کیوں کرتے ہیں ؟
فی الحال آپ اپنے ہمنوا کی پیش کردہ آیت کا جواب دیں :
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔
اس آیت سے تو ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے زندہ لوگوں کی موجودگی میں فرشتے مرنے والے کو مارتے ہیں ،،لیکن فرشتوں کی مار کا اثر وہاں موجود زندہ لوگ دیکھ یا محسوس نہیں کرتے،،
،گویا آپ نے خود ثابت کردیا کہ خود اللہ ذوالجلال قرآن میں کہتا ہے عذاب قبر سے پہلے بھی سب کی موجودگی میں جسم وروح کو ہوتا توہے لیکن منکرین ومثبتین کو نظر نہیں آتا؛

تو اے بندہ خدا یہی تو ہم کتنے دنوں سے جناب کو سمجھا رہے ہیں ،قبر میں عذاب وثواب تو یقیناً ہوتا ہے ،یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمیں نظر نہیں آتا ۔
اور حق فرمایا ذوالجلال والاکرام نے ۔۔۔۔كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ (5) لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ (6)۔۔۔لیکن آپ نہیں سمجھ سکتے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ذیل کی آیت اور ترجمہ آپ کے ہمنوا بھائی نے پیش کیا:
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے اس آیہ میں باتیں ہیں،
(۱) موت کے وقت کئی ایک فرشتوں کا موجود ہونا {وَالْمَلائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ}
(۲)فرشتوں کا میت کو مارنا اور اس سے کلام کرنا ۔[بَاسِطُو اأَيْدِيهِمْ۔۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ]
اب غورسے سنئے :
(۱) آج تک کسی نے مرنے والے کے پاس فرشتوں کو نہیں دیکھا ۔
تو کیا فرشتے ظالم کی جان برزخ میں نکالتے ہیں ؟؟
(۲) ہمارے سامنے روزانہ لاکھوں کفار مرتے ہیں ،، اور ان کی جان بڑے سکون سے نکلتی ہے کئی تو حالت نیند میں مردار ہوجاتے ہیں
ہماری نظر میں تو انہیں کانٹا چبھنے جتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی ،،،جبکہ قرآن کا بیان ہے کہ فرشتے انہیں مارتے ہیں ،تو کیا یہ مار بھی کسی دوسری عالم کے برزخ میں دی جاتی ہے؟؟؟
جواب ضرور دیجئے گا ،لیکن صرف قرآن سے ۔۔۔۔۔کیونکہ بقول آپ کے حدیثیں تو قرآن کے خلاف بھی ہوتی ہیں ،
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم : صلات ’‘نہیں بلکہ ’‘ صلوۃ ۔صلاۃ ’‘ استعمال ہوا ہے ،
اور صلوات خمسہ ’‘ کی تعداد اور کیفیات کا تعین بھی صرف اور صرف احادیث میں ہوا ہے ،جو آپ کے نزدیک قرآن کے خلاف بھی ہوتی ہیں
یہ ۔اہل سنت ۔کون ہیں ذرا ان کا تعارف تو کروائیں ۔کہیں یہ وہی اہل سنت تو نہیں جو ۔زمینی قبر ۔ میں اعادہ روح کے قائل ہیں ؟؟؟
امام بخاری نے اپنی کتاب کے کس راوی کو بقلم خود ضعیف کہا ہے ،ذرا اس کا نام پتا تو بتائیں ؟؟

محترم -

یہ لنک بھی پڑھ لیں - اور بتائیں کہ کیا حضرت عائشہ رضی الله عنہ کیا منکرین حدیث تھیں -؟؟؟ (نعوز باللہ من ذالک)-

http://forum.mohaddis.com/threads/ام-المؤمنین-حضرت-عائشہ-رضی-اللہ-عنہا-بھی-سماع-الموتٰی-کی-منکر-ہیں۔.22805/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈاکٹر مسعود الدین حسن عثمانی کیماڑی کراچی کے متعلق کتاب " کراچی کا عثمانی مذہب" دراصل لکھنے والے کی کمتر سوچ ، کم علمی ، مسلک پرستی اور بغض
معاویہ پے مبنی خیالات ہیں جس کا اظہار مولف نے اپنی اس کتاب میں اظہار کیاہے۔اس پہ سوائے افسوس ہی کیاجا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کو نیک ہدایت
عطاء کرے، انسان مرنے کے بعد بیشک کسی قسم کی دنیاوی قبر میں چلا جاتا ہےیا جلا کے راکھ بنا دیا جاتا ہے لیکن اصل قبر تو برزخی قبر ہی ہے جہاں روح کو
ایک برزخی جسم دیا جاتا ہے پھر اس پہ اس کے ایمان کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ مردہ کسی بھی قسم کی قبر میں نہیں سنتا اور جو یہ
عقیدہ رکھتا ہے وہ شرک کرتا ہے اور شرک کی معافی نہیں ہے اگر اسی پہ موت آجائے۔
تفصیلات کے لئے :www.emanekhalis.com
مخلص: ابو عبداللہ بن محمد۔کراچی مورخہ 24 اگست 2014
ای میل:
talkright@gmail.com

1-d70a5270a6.jpg


http://kitabosunnat.com/kutub-library/krachi-ka-usmani-mazhab-au-us-ki-haqiqat.html
 
Top