• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گزر گئی گزران : مولانا اسحاق بھٹی ، سانحہ ارتحال ، اور اس پر تاثراتی تحریریں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولانا محمد اسحاق بھٹی

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
بالآخر ایک طویل عرصے تک علمی دنیا کو اپنے قلم سے اسیر رکھنے والا اور اگلوں کو پچھلوں کی داستاں سنانے والا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ وہ جس نے کبھی عظمتِ رفتہ کے نقوش قرطاس ابیض پر ثبت کیے۔ جس نے سلف کے کارواں اور خدام قرآن و حدیث کے قافلوں کی نشاندہی کی۔ جس نے محدثین کے دبستاں کو گلستاں بنانے کی سعی کی اور اپنی پوری زندگی ارجمندوں و خِرد مندوں کی بزم سجانے میں گزار دی۔ آخر کار اپنی گذران بھی گزر گیا۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی جنہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی وغیرہم جیسے بزرگوں کی زیارتیں کیں۔ مولانا سیّد داود غزنوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، مولانا حافظ محمد لکھوی وغیرہم سے علمی استفادہ کیا۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، مفتی محمد حسن امرتسری ، مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا محمد حنیف ندوی وغیرہم کی شرف مجالست سے مفتخر ہوئے۔ 22 دسمبر 2015ء کو اپنی مختصر علالت کے بعد اس دنیائے دوں کی اسیری ترک کر کے خلد بریں کے راہی ہوئے۔ انّا للہ و انّا و الیہ راجعون
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو اللہ نے طویل عمر عطا کی۔ زندگی کی کامل 9 دہائیاں دیکھنا انہیں نصیب ہوا۔ ان کی نگاہیں بے شمار تاریخی حوادث و واقعات کی امین بنیں۔ اپنے ذوق کے مطابق متعدد اصحاب علم و فضل کی ہم نشینی کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ بڑوں کی علمی معرکوں کے رازدار بنے۔ ان کے قلم نے بہت لکھا ۔ وہ اعلیٰ معیار کے ادیب و نثر نگار تھے۔ ان کی تحریروں کو پاک و ہند کے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ بہت کم مصنفین ہیں جن کی کتابیں ہر حلقے اور رجحانِ فکر سے تعلق رکھنے والے اہل علم شوق سے پڑھتے ہوں ، مولانا اسحاق بھٹی کا شمار ایسے ہی اہل علم میں ہوتا ہے۔
وہ گو کہ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے ، اور زیادہ تر ان کے قلم نے اپنے مسلک سے تعلق رکھنے والے اکابرِ علم کے ہی حالات قلم بند کیے۔ بالخصوص آخری دور میں ان کی زیادہ تر سوانحی مضامین اہل حدیث اشخاص کے ہی گرد گھومتے تھے۔ مگر ان کی تحریروں کو ہر حلقہ علم و فن میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ وہ ایک اعلیٰ پایے کے خاکہ نگار تھے ، ان کی خاکہ نگاری ان کی تاریخیت پر غالب تھی۔
انہوں نے ترجمے و تدوین کا کام بھی انجام دیا۔ ابن ندیم کی ” الفہرست ” کا ترجمہ و حواشی علمی دنیا کے لیے ان کے قلم سے ایک گراں قدر علمی ارمغان ہے۔
مولانا اسحاق بھٹّی 15 مارچ 1925ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست فرید کوٹ کے ایک گاؤں کوٹ کپورہ میں پیدا ہوئے۔
مولانا بھٹّی کو بچپن ہی سے کسبِ دینی کا ذوق تھا اور اس ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کے دادا میاں محمد کا نمایاں کردار تھا۔ ابتدائی تعلیم بھی اپنے دادا ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد مختلف درس گاہوں میں مختلف علماء سے کسبِ علم کیا۔ ان کے مشہور اساتذہ میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا اسماعیل سلفی ، مولانا حافظ محمدگوندلوی وغیرہم شامل ہیں۔
وہ شروع سے ہی مصروف عمل و حرکت رہنے والوں میں سے تھے۔ ان کی جودتِ طبع نے آغازِ شباب ہی سے اپنے جوہر دکھانے شروع کیے۔ ان کا ابتدائی عہد سیاسی اعتبار سے انتہائی پُر آشوب عہد تھا۔ ادھر ہمارے مولانا جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھ رہے تھے اور دوسری طرف برصغیر میں انگریزی استعماریت اپنے آخری دن گزار رہی تھی۔ ایسے مواقع پر عموماً غاضب حکومتیں اپنی سختی و مظالم میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ مگر مولانا موصوف اپنے دورِ جوانی میں تازہ تازہ قدم زن ہوئے تھے ۔ انہیں بھی آزادی و انقلاب کا سودا سمایا۔ اپنی ریاست کی ” پرجا منڈل ” میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے انہیں ” پرجا منڈل ” کا جنرل سکرٹری بنا گیا۔ اس کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جو بعد میں ہندوستان کے بھی صدر بنے۔ “پرجا منڈل ” میں شرکت کرنے کی وجہ سے انہیں بعض مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 1939ء میں کچھ عرصہ فیروز پور جیل میں بھی قید رہے۔ آزادی وطن کے لیے دو مرتبہ انہیں جیل جانا پڑا۔
تقسیم ہند کے بعد 24 جولائی 1948ء کو مولانا بھٹی نے ہندوستان سے ترکِ سکونت کرکے ہمیشہ کے لیے پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا۔
یہاں آکر انہوں نے خود کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے نظم و نسق سے وابستہ کیا۔ اس جماعت کے لیے مختلف خدمات انجام دیں۔ جماعتی نظم و نسق کے دوران انہیں مولانا داود غزنوی ، مولانا اسماعیل سلفی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی وغیرہم سے بڑی کثرت سے استفادے کا موقع ملا۔ ان کی فکری و نظری تربیت میں ان بزرگوں کا بڑا دخل رہا۔
1949ء میں ہفت روزہ ” الاعتصام ” کا اجراء ہوا تو اس کے معاون مدیر بنے ۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس کے اوّلین مدیر تھے۔ 1951ء میں مولانا حنیف ندوی کے مستعفی ہونے کے بعد مولانا بھٹی ” الاعتصام ” کے مدیر بن گئے۔
اکتوبر 1965ء کو پاکستان کے مشہور اسلامی تحقیقی ادارے ” ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ” سے بطور ریسرچ اسکالر منسلک ہوئے۔ اس زمانے میں اس کے ڈائرکٹر شیخ محمد اکرام تھے۔ یہاں مختلف ذوق و مزاج کے اہل علم مجتمع تھے۔ مولانا بھٹی کو یہاں مولانا حنیف ندوی ، مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی، رئیس احمد جعفری جیسے اصحابِ علم کے ساتھ کام کرنے کے مواقع ملے۔ یہاں مولانا نے بھرپور وقت گزارا ۔ 1997ء میں 32 سال تک مسلسل اس ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ یہیں مولانا کے قلم سے ” فقہائے ہند ” (فقہائے پاک و ہند ) جیسی کتاب نکلی۔ جس سے بلاشبہ زبانِ اردو کا وقار بلند ہوا۔ اردو زبان میں اس قدر طویل تذکرہ ابھی تک نہیں لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ” برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش ” اور ” برصغیر میں علم فقہ ” بھی ادارہ ثقافت اسلامیہ کے لیے ہی تحریر کیں۔
مولانا بھٹی کے دیگر کتابوں میں ” لسان القرآن ” ، ” چہرہ نبوت قرآن کے آئینے میں ” (یہ دونوں مولانا حنیف ندوی کے قلم سے تھیں مگر وہ اس کی تکمیل نہ کر سکے تھے ، مولانا بھٹی نے اس کی تکمیل کی ہے ، اس طرح وہ اس کتاب کے شریک مصنف ہیں۔) ، ” نقوش عظمت رفتہ ” ، ” بزم ارجمنداں ” ، ” کاروان سلف ” ، ” قافلہ حدیث “، ” گلستان حدیث ” ، ” دبستان حديث ” ، ” چمنستان حدیث ” ، ” تذکرہ قاضی سلیمان منصور پوری ” ، ” تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی ” ، ” تذکرہ صوفی محمد عبداللہ ” ، ” قصوری خاندان ” ، ” ارمغان حنیف ” ، ” میاں عبد العزیز مالواڈہ ” ، ” برصغیر کےاہل حدیث خدام قرآن ” ، ” ہفت اقلیم ” ، ” اسلام کی بیٹیاں ” وغیرہا قابلِ ذکر ہیں۔
ان کے قلم سے جن کتابوں کے تراجم ہوئے ان میں ابن ندیم کی ” الفہرست ” ، امام نووی کی ” ریاض الصالحین ” ، محمد حسین ہیکل کی ” ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ” اور ڈاکٹر فضل الٰہی کی ” لشکر اسامہ کی روانگی ” شامل ہیں۔ یہ ترجمے مولانا کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کے مظہر ہیں۔ اس قدر رواں ہیں کہ کہیں سے بھی ترجمے کا گمان نہیں گزرتا۔
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے انسلاک کے دوران ہی بعض مصنفین کی کتابوں کو نظر ثانی و ترتیب دینے کا فریضہ بھی انجام دیا۔
اسی دوران مولانا نے صحافتی خدمات بھی انجام دیں۔ اخبارات میں کالم لکھے۔ بعض سوانحی سلسلے شروع کیے جو بڑے مقبول ہوئے۔ 1949ء سے لے کر 1965ء تک ہفت روزہ ” الاعتصام ” سے منسلک رہے۔ اسی دوران جنوری 1958ء میں سہ روزہ اخبار ” منہاج ” جاری کیا جو صرف تیرہ مہینے اپریل 1959ء تک جاری رہ سکا۔ پروفسیر ابوبکر غزنوی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ” توحید ” نکالا مگر جلد ہی اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ روزنامہ ” امروز ” اپنے دور کا بہت مشہور اخبار تھا اس میں ایک طویل عرصے تک کالم نویسی کی۔ روزنامہ ” پاکستان ” ( لاہور ) میں بھی ایک عرصہ تک کالم نگاری چلتی رہی۔ مشہور صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے ماہنامہ ” قومی ڈائجسٹ ” میں مختلف شخصیات پر سلسلہ تحریر جاری رہا ، جسے بڑی پذیرائی ملی۔
انہیں قرآنیات سے خصوصی دل چسپی تھی۔ ان کے پاس قرآن پاک کے تراجم کا قیمتی ذخیرہ تھا۔ پنجاب ہونی ورسٹی کے شائع شدہ ” اردو دائرہ معارف اسلامیہ ” میں قرآنیات سے متعلق مولانا بھٹی کے کئی اہم مقالات شامل اشاعت ہوئے۔
وہ ایک صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اسلوب نگارش میں مختلف تراکیب کا استعمال ، بات سے بات نکالنے کا سلیقہ اور طنز و تنقید کے عمدہ اسالیب اپنے قارئین کو مسحور رکھیں گے۔ تاہم ان کا اسلوب طنز و تعریض کبھی کبھی غیر مناسب انداز اختیار کر جاتا تھا۔ آخری دور میں ان پر صوفیت کا بڑا غلبہ ہو گیا تھا۔ وہ بعض ایسے صوفیانہ افکار و خیالات کی تائید کرتے نظر آتے تھے جن کی مسلک اہل حدیث میں کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی۔
راقم الحروف کے ساتھ ان کے علمی روابط گزشتہ 16 / 17 برسوں سے قائم تھے۔ میرے نام ان کا پہلا مکتوب گرامی 1998ء کا تحریر کردہ ہے۔ میرے پاس ان کے کئی مکاتیب ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے برقی میڈیا کی مہربانی نے جہاں بہت سے فوائد پہنچائے ہیں وہیں ہمیں بن کاغذ و قلم کی دنیا میں بھی دھکیل دیا ہے۔ اس لیے سلسلہ مکاتبت تو کمزور پڑ گیا چند بار موبائل ہی پر خیر و عافیت دریافت کرلی گئی۔
اس کے علاوہ راقم کو کئی بار ان سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ جب بھی لاہور جانا ہوا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ اپریل 2003ء میں ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کے زیر اہتمام ” برصغیر میں مطالعہ حدیث ” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار میں بھی ہم اکٹھے رہے۔
بایں ہَمہ مولانا بھٹی نے ایک بھرپور علمی زندگی گزاری۔ ان کی قلمی خدمات مسلم ہیں جنہیں نہ تو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز۔ وہ مخالف و مواقف سبھوں کے لیے حوالہ بنتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت کے حضور ہماری دعا ہے کہ وہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ آمین​
٭–٭–٭–٭–٭​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بھٹی صاحب کے متعلق ہفت روزہ نوید ضیاء کا خصوصی شمارہ شائع ہو چکا ہے ، ایک رسالہ تفہیم الاسلام کا خصوصی نمبر بھی تیاری کے مراحل میں ہے ، اور نشر ہوا چاہتا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
چھوڑ کے جانے والے

مجیب الرحمن شامی
14 فروری 2016ء
۔۔۔
بھٹی صاحب اِس دُنیا سے رخصت ہوئے تو مَیں کراچی میں تھا۔ جنازے کو کندھا دینے کی سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ انہوں نے ماشااللہ 92 سال اس دُنیائے رنگ و بو میںگزارے اور اس کی خوشبوئوں میں بہت سا اضافہ کر کے رخصت ہوئے۔ ان سے آخری ملاقات ''پیغام‘‘ ٹی وی کے ایک پروگرام کے موقع پر ہوئی تھی، جو تحریک پاکستان کے حوالے سے تھا۔ ثقلِ سماعت کا شکار تھے، لیکن میزبان ڈاکٹر حماد لکھوی کچھ نہ کچھ ان کے کانوںمیں انڈیل دیتے تھے۔ مذاکرہ ختم ہوا تو عزیزم عبدالباسط نے اپنے رفقا کے ساتھ ہم تینوں کو کھڑا کر کے جامد تصویر بھی بنا ڈالی۔ بھٹی صاحب کا حافظہ ابھی تک بلا کا تھا۔ برسوں پرانے واقعات کی ایک ایک تفصیل ذہن میں محفوظ تھی، زبان کھولتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ماضی ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے اور وہ اس کی عکاسی کرتے جا رہے ہیں۔
پنجاب کے قلب میں واقع ریاست فرید کوٹ میں پیدا ہوئے اور وہیں لڑکپن گزارا، جیدّ علماء کی صحبت ان کو میسر رہی اور اس سے انہوں نے خوب فیض اٹھایا۔ چند برس سکول میں بھی گزارے، لیکن فیض اپنے ان استادوں سے براہِ راست حاصل کیا، جن میں سے ہر ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا نام نامی ان میں نمایاں تر تھا۔1933ء سے 1940ء تک سات سال ان کے ساتھ رہے، قرآن مجید کے علاوہ بلوغ المرام سے صحیح بخاری تک صحاح سِتہّ کی نصابی کتابوں کی تکمیل ان سے کی۔ صرف و نحو، عربی ادبیات، منطق، اصولِ فقہ اور تفاسیر قرآن میں سے بیضاوی، تفسیر جلالین اور جامع البیان بھی ان سے پڑھیں۔ گویا مکمل مولوی بن گئے، آج کل کی زبان میں علامہ کہہ لیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ 1940ء میں مولانا عطاء اللہ حنیف نے انہیں علامہ حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمت میں گوجرانوالہ بھیج دیا، جن سے حدیث و تفسیر کی بعض کتب دوبارہ پڑھیں، اسے سونے پر سہاگہ کہا جا سکتا ہے۔ فیروزپور میں مولانا ثناء اللہ ہوشیار پوری مرحوم سے بھی بعض درسی کتابیں پڑھنے پہنچے اور پھر یہ کہ عمر بھر پڑھتے (اور لکھتے) چلے گئے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ کی لائبریری میں چودہ ہزار کتب موجود تھیں، انہیں وہ گھول کر پی گئے:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
عملی زندگی میں قدم یوں رکھا کہ ایک عزیز نے انہیں ہیڈ سلیمانکی کے اکائونٹس آفس میں سٹور کیپر مقرر کر دیا کہ کام کے ساتھ ساتھ آرام بھی کرتے جائو، یعنی مطالعے میں وقت صرف کرو۔ بعد میں لاہور پہنچے تو صحافت کی وادی میں قدم رکھا، لیکن ''لہو و لعب‘‘ میں نہیں پڑے، دینی ہفت روزے اور ماہنامے ہی ان کی دسترس میں رہے۔ ابتداً سیاست میں قدم رکھا تھا، لیکن انگریزی محاورے کے مطابق یہ ان کی چائے کا پیالہ نہیں تھا۔ اب لوگوں کو کم ہی معلوم ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کا ایک حصہ برطانیہ کی براہِ راست حکمرانی میں تھا، تو دوسرا بڑا حصہ داخلی طور پر خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ان ریاستوں پر نواب اور راجے حکومت کرتے تھے۔ دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کے علاوہ دیگر امور میں یہ حضرات و خواتین خود مختار تھے اور کسی کے سامنے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے تھے۔ برطانوی ہند کا وائسرائے ان کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا تھا اور عوام نام کی شے تو اس کا تصور ہی نہیں کر سکتی تھی۔ برطانوی ہند میں آزادی اور حقوق کی لہر اُٹھی، تو ان ریاستوں میں بھی اس کا چرچا ہوا۔ پنجاب میں آٹھ ریاستیں تھیں، پٹیالہ، نابھہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ، جنید، ملیر کوٹلہ، کلیلہ اور نادر گڑھ۔ ان میں پرجا منڈل (پیپلز پارٹی) قائم ہو گئی۔ فرید کوٹ منڈل کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جنرل سیکرٹری نوجوان اسحق بھٹی کو بنا دیا گیا۔ بھٹی اس دوران قید ہوئے اور شہرت حاصل کر لی، لیکن سیاست میں زیادہ دیر چلے نہیں، یہ اور بات کہ ان کے اپنے بقول چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں، اس لیے سیاست سے دلچسپی بہرحال برقرار رہی۔ اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر داد دینے یا اکھاڑے میں اترنے والوں کو دائو پیچ سکھانے میں انہیں تامل نہیں تھا۔ بھٹی صاحب کا شاید یہی چسکہ انہیں کوچہ ٔ صحافت میں لایا، لیکن ان کے اندر موجود جستجو اور تحقیق کے مادے نے انہیں اس کی نذر نہ ہونے دیا۔ دقیق موضوعات کے ساتھ ساتھ مختلف شخصیات پر بھی قلم اٹھایا اور ان کے روز و شب کی گویا فلم بنا ڈالی۔ اپنی سوانح حیات لکھی اور ایک پوری صدی کے رہن سہن، رسوم و رواج اور حکایات و معاملات کو محفوظ کر دیا۔
بھٹی صاحب سادہ مزاج تھے، تکبر اور نخوت تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔ اپنے عقائد میں کٹر تھے، لیکن زاہد خشک نہیں تھے۔ کسی سے نفرت کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ان کے حلقہ ٔ احباب میں غیر مسلم بھی شامل رہے، گیانی ذیل سنگھ کی دوستی پر تو ان کو ناز تھا۔ گیانی صاحب صدر بنے تو انہوں نے اپنے لڑکپن کے دوست کو بھلایا نہیں... وہ ہماری تاریخ اور سیاست کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ اپنی بات نرمی سے کہتے اور دِل میں نقب لگا لیتے۔ ان سے ایک بار ملنے والا دوسری بار ملنے کی خواہش لئے، ان سے جدا ہوتا۔ ان جیسا دوسرا، ان کی زندگی میں نہیں مل پایا، تو اب کہاں تلاش کیا جائے گا؟ اور کیونکر ملے گا؟
۔۔۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آج روزنامہ جنگ کے ادبی ایڈیشن میں بھی بھٹی صاحب پر ایک تحریر چھپی ہے ، صاحب تحریر لکھوی خاندان کے چشم و چراغ اور قاری نوید الحسن لکھوی کے برادر اصغر ہیں ، تحریر ملاحظہ فرمائیں :
روزنامہ جنگ.jpg
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
83
السلام علیکم
صوفی عبداللہ از اسحاق بھٹی صاحب پی ڈی ایف مل سکتی ہے ؟
شکریہ
 
Top