- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مولانا محمد اسحاق بھٹی
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
بالآخر ایک طویل عرصے تک علمی دنیا کو اپنے قلم سے اسیر رکھنے والا اور اگلوں کو پچھلوں کی داستاں سنانے والا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ وہ جس نے کبھی عظمتِ رفتہ کے نقوش قرطاس ابیض پر ثبت کیے۔ جس نے سلف کے کارواں اور خدام قرآن و حدیث کے قافلوں کی نشاندہی کی۔ جس نے محدثین کے دبستاں کو گلستاں بنانے کی سعی کی اور اپنی پوری زندگی ارجمندوں و خِرد مندوں کی بزم سجانے میں گزار دی۔ آخر کار اپنی گذران بھی گزر گیا۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی جنہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی وغیرہم جیسے بزرگوں کی زیارتیں کیں۔ مولانا سیّد داود غزنوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، مولانا حافظ محمد لکھوی وغیرہم سے علمی استفادہ کیا۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، مفتی محمد حسن امرتسری ، مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا محمد حنیف ندوی وغیرہم کی شرف مجالست سے مفتخر ہوئے۔ 22 دسمبر 2015ء کو اپنی مختصر علالت کے بعد اس دنیائے دوں کی اسیری ترک کر کے خلد بریں کے راہی ہوئے۔ انّا للہ و انّا و الیہ راجعون
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو اللہ نے طویل عمر عطا کی۔ زندگی کی کامل 9 دہائیاں دیکھنا انہیں نصیب ہوا۔ ان کی نگاہیں بے شمار تاریخی حوادث و واقعات کی امین بنیں۔ اپنے ذوق کے مطابق متعدد اصحاب علم و فضل کی ہم نشینی کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ بڑوں کی علمی معرکوں کے رازدار بنے۔ ان کے قلم نے بہت لکھا ۔ وہ اعلیٰ معیار کے ادیب و نثر نگار تھے۔ ان کی تحریروں کو پاک و ہند کے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ بہت کم مصنفین ہیں جن کی کتابیں ہر حلقے اور رجحانِ فکر سے تعلق رکھنے والے اہل علم شوق سے پڑھتے ہوں ، مولانا اسحاق بھٹی کا شمار ایسے ہی اہل علم میں ہوتا ہے۔
وہ گو کہ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے ، اور زیادہ تر ان کے قلم نے اپنے مسلک سے تعلق رکھنے والے اکابرِ علم کے ہی حالات قلم بند کیے۔ بالخصوص آخری دور میں ان کی زیادہ تر سوانحی مضامین اہل حدیث اشخاص کے ہی گرد گھومتے تھے۔ مگر ان کی تحریروں کو ہر حلقہ علم و فن میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ وہ ایک اعلیٰ پایے کے خاکہ نگار تھے ، ان کی خاکہ نگاری ان کی تاریخیت پر غالب تھی۔
انہوں نے ترجمے و تدوین کا کام بھی انجام دیا۔ ابن ندیم کی ” الفہرست ” کا ترجمہ و حواشی علمی دنیا کے لیے ان کے قلم سے ایک گراں قدر علمی ارمغان ہے۔
مولانا اسحاق بھٹّی 15 مارچ 1925ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست فرید کوٹ کے ایک گاؤں کوٹ کپورہ میں پیدا ہوئے۔
مولانا بھٹّی کو بچپن ہی سے کسبِ دینی کا ذوق تھا اور اس ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کے دادا میاں محمد کا نمایاں کردار تھا۔ ابتدائی تعلیم بھی اپنے دادا ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد مختلف درس گاہوں میں مختلف علماء سے کسبِ علم کیا۔ ان کے مشہور اساتذہ میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا اسماعیل سلفی ، مولانا حافظ محمدگوندلوی وغیرہم شامل ہیں۔
وہ شروع سے ہی مصروف عمل و حرکت رہنے والوں میں سے تھے۔ ان کی جودتِ طبع نے آغازِ شباب ہی سے اپنے جوہر دکھانے شروع کیے۔ ان کا ابتدائی عہد سیاسی اعتبار سے انتہائی پُر آشوب عہد تھا۔ ادھر ہمارے مولانا جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھ رہے تھے اور دوسری طرف برصغیر میں انگریزی استعماریت اپنے آخری دن گزار رہی تھی۔ ایسے مواقع پر عموماً غاضب حکومتیں اپنی سختی و مظالم میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ مگر مولانا موصوف اپنے دورِ جوانی میں تازہ تازہ قدم زن ہوئے تھے ۔ انہیں بھی آزادی و انقلاب کا سودا سمایا۔ اپنی ریاست کی ” پرجا منڈل ” میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے انہیں ” پرجا منڈل ” کا جنرل سکرٹری بنا گیا۔ اس کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جو بعد میں ہندوستان کے بھی صدر بنے۔ “پرجا منڈل ” میں شرکت کرنے کی وجہ سے انہیں بعض مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 1939ء میں کچھ عرصہ فیروز پور جیل میں بھی قید رہے۔ آزادی وطن کے لیے دو مرتبہ انہیں جیل جانا پڑا۔
تقسیم ہند کے بعد 24 جولائی 1948ء کو مولانا بھٹی نے ہندوستان سے ترکِ سکونت کرکے ہمیشہ کے لیے پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا۔
یہاں آکر انہوں نے خود کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے نظم و نسق سے وابستہ کیا۔ اس جماعت کے لیے مختلف خدمات انجام دیں۔ جماعتی نظم و نسق کے دوران انہیں مولانا داود غزنوی ، مولانا اسماعیل سلفی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی وغیرہم سے بڑی کثرت سے استفادے کا موقع ملا۔ ان کی فکری و نظری تربیت میں ان بزرگوں کا بڑا دخل رہا۔
1949ء میں ہفت روزہ ” الاعتصام ” کا اجراء ہوا تو اس کے معاون مدیر بنے ۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس کے اوّلین مدیر تھے۔ 1951ء میں مولانا حنیف ندوی کے مستعفی ہونے کے بعد مولانا بھٹی ” الاعتصام ” کے مدیر بن گئے۔
اکتوبر 1965ء کو پاکستان کے مشہور اسلامی تحقیقی ادارے ” ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ” سے بطور ریسرچ اسکالر منسلک ہوئے۔ اس زمانے میں اس کے ڈائرکٹر شیخ محمد اکرام تھے۔ یہاں مختلف ذوق و مزاج کے اہل علم مجتمع تھے۔ مولانا بھٹی کو یہاں مولانا حنیف ندوی ، مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی، رئیس احمد جعفری جیسے اصحابِ علم کے ساتھ کام کرنے کے مواقع ملے۔ یہاں مولانا نے بھرپور وقت گزارا ۔ 1997ء میں 32 سال تک مسلسل اس ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ یہیں مولانا کے قلم سے ” فقہائے ہند ” (فقہائے پاک و ہند ) جیسی کتاب نکلی۔ جس سے بلاشبہ زبانِ اردو کا وقار بلند ہوا۔ اردو زبان میں اس قدر طویل تذکرہ ابھی تک نہیں لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ” برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش ” اور ” برصغیر میں علم فقہ ” بھی ادارہ ثقافت اسلامیہ کے لیے ہی تحریر کیں۔
مولانا بھٹی کے دیگر کتابوں میں ” لسان القرآن ” ، ” چہرہ نبوت قرآن کے آئینے میں ” (یہ دونوں مولانا حنیف ندوی کے قلم سے تھیں مگر وہ اس کی تکمیل نہ کر سکے تھے ، مولانا بھٹی نے اس کی تکمیل کی ہے ، اس طرح وہ اس کتاب کے شریک مصنف ہیں۔) ، ” نقوش عظمت رفتہ ” ، ” بزم ارجمنداں ” ، ” کاروان سلف ” ، ” قافلہ حدیث “، ” گلستان حدیث ” ، ” دبستان حديث ” ، ” چمنستان حدیث ” ، ” تذکرہ قاضی سلیمان منصور پوری ” ، ” تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی ” ، ” تذکرہ صوفی محمد عبداللہ ” ، ” قصوری خاندان ” ، ” ارمغان حنیف ” ، ” میاں عبد العزیز مالواڈہ ” ، ” برصغیر کےاہل حدیث خدام قرآن ” ، ” ہفت اقلیم ” ، ” اسلام کی بیٹیاں ” وغیرہا قابلِ ذکر ہیں۔
ان کے قلم سے جن کتابوں کے تراجم ہوئے ان میں ابن ندیم کی ” الفہرست ” ، امام نووی کی ” ریاض الصالحین ” ، محمد حسین ہیکل کی ” ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ” اور ڈاکٹر فضل الٰہی کی ” لشکر اسامہ کی روانگی ” شامل ہیں۔ یہ ترجمے مولانا کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کے مظہر ہیں۔ اس قدر رواں ہیں کہ کہیں سے بھی ترجمے کا گمان نہیں گزرتا۔
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے انسلاک کے دوران ہی بعض مصنفین کی کتابوں کو نظر ثانی و ترتیب دینے کا فریضہ بھی انجام دیا۔
اسی دوران مولانا نے صحافتی خدمات بھی انجام دیں۔ اخبارات میں کالم لکھے۔ بعض سوانحی سلسلے شروع کیے جو بڑے مقبول ہوئے۔ 1949ء سے لے کر 1965ء تک ہفت روزہ ” الاعتصام ” سے منسلک رہے۔ اسی دوران جنوری 1958ء میں سہ روزہ اخبار ” منہاج ” جاری کیا جو صرف تیرہ مہینے اپریل 1959ء تک جاری رہ سکا۔ پروفسیر ابوبکر غزنوی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ” توحید ” نکالا مگر جلد ہی اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ روزنامہ ” امروز ” اپنے دور کا بہت مشہور اخبار تھا اس میں ایک طویل عرصے تک کالم نویسی کی۔ روزنامہ ” پاکستان ” ( لاہور ) میں بھی ایک عرصہ تک کالم نگاری چلتی رہی۔ مشہور صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے ماہنامہ ” قومی ڈائجسٹ ” میں مختلف شخصیات پر سلسلہ تحریر جاری رہا ، جسے بڑی پذیرائی ملی۔
انہیں قرآنیات سے خصوصی دل چسپی تھی۔ ان کے پاس قرآن پاک کے تراجم کا قیمتی ذخیرہ تھا۔ پنجاب ہونی ورسٹی کے شائع شدہ ” اردو دائرہ معارف اسلامیہ ” میں قرآنیات سے متعلق مولانا بھٹی کے کئی اہم مقالات شامل اشاعت ہوئے۔
وہ ایک صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اسلوب نگارش میں مختلف تراکیب کا استعمال ، بات سے بات نکالنے کا سلیقہ اور طنز و تنقید کے عمدہ اسالیب اپنے قارئین کو مسحور رکھیں گے۔ تاہم ان کا اسلوب طنز و تعریض کبھی کبھی غیر مناسب انداز اختیار کر جاتا تھا۔ آخری دور میں ان پر صوفیت کا بڑا غلبہ ہو گیا تھا۔ وہ بعض ایسے صوفیانہ افکار و خیالات کی تائید کرتے نظر آتے تھے جن کی مسلک اہل حدیث میں کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی۔
راقم الحروف کے ساتھ ان کے علمی روابط گزشتہ 16 / 17 برسوں سے قائم تھے۔ میرے نام ان کا پہلا مکتوب گرامی 1998ء کا تحریر کردہ ہے۔ میرے پاس ان کے کئی مکاتیب ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے برقی میڈیا کی مہربانی نے جہاں بہت سے فوائد پہنچائے ہیں وہیں ہمیں بن کاغذ و قلم کی دنیا میں بھی دھکیل دیا ہے۔ اس لیے سلسلہ مکاتبت تو کمزور پڑ گیا چند بار موبائل ہی پر خیر و عافیت دریافت کرلی گئی۔
اس کے علاوہ راقم کو کئی بار ان سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ جب بھی لاہور جانا ہوا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ اپریل 2003ء میں ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کے زیر اہتمام ” برصغیر میں مطالعہ حدیث ” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار میں بھی ہم اکٹھے رہے۔
بایں ہَمہ مولانا بھٹی نے ایک بھرپور علمی زندگی گزاری۔ ان کی قلمی خدمات مسلم ہیں جنہیں نہ تو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز۔ وہ مخالف و مواقف سبھوں کے لیے حوالہ بنتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت کے حضور ہماری دعا ہے کہ وہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ آمین
مولانا محمد اسحاق بھٹی جنہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی وغیرہم جیسے بزرگوں کی زیارتیں کیں۔ مولانا سیّد داود غزنوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، مولانا حافظ محمد لکھوی وغیرہم سے علمی استفادہ کیا۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، مفتی محمد حسن امرتسری ، مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا محمد حنیف ندوی وغیرہم کی شرف مجالست سے مفتخر ہوئے۔ 22 دسمبر 2015ء کو اپنی مختصر علالت کے بعد اس دنیائے دوں کی اسیری ترک کر کے خلد بریں کے راہی ہوئے۔ انّا للہ و انّا و الیہ راجعون
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو اللہ نے طویل عمر عطا کی۔ زندگی کی کامل 9 دہائیاں دیکھنا انہیں نصیب ہوا۔ ان کی نگاہیں بے شمار تاریخی حوادث و واقعات کی امین بنیں۔ اپنے ذوق کے مطابق متعدد اصحاب علم و فضل کی ہم نشینی کا شرف انہیں حاصل ہوا۔ بڑوں کی علمی معرکوں کے رازدار بنے۔ ان کے قلم نے بہت لکھا ۔ وہ اعلیٰ معیار کے ادیب و نثر نگار تھے۔ ان کی تحریروں کو پاک و ہند کے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ بہت کم مصنفین ہیں جن کی کتابیں ہر حلقے اور رجحانِ فکر سے تعلق رکھنے والے اہل علم شوق سے پڑھتے ہوں ، مولانا اسحاق بھٹی کا شمار ایسے ہی اہل علم میں ہوتا ہے۔
وہ گو کہ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے ، اور زیادہ تر ان کے قلم نے اپنے مسلک سے تعلق رکھنے والے اکابرِ علم کے ہی حالات قلم بند کیے۔ بالخصوص آخری دور میں ان کی زیادہ تر سوانحی مضامین اہل حدیث اشخاص کے ہی گرد گھومتے تھے۔ مگر ان کی تحریروں کو ہر حلقہ علم و فن میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ وہ ایک اعلیٰ پایے کے خاکہ نگار تھے ، ان کی خاکہ نگاری ان کی تاریخیت پر غالب تھی۔
انہوں نے ترجمے و تدوین کا کام بھی انجام دیا۔ ابن ندیم کی ” الفہرست ” کا ترجمہ و حواشی علمی دنیا کے لیے ان کے قلم سے ایک گراں قدر علمی ارمغان ہے۔
مولانا اسحاق بھٹّی 15 مارچ 1925ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست فرید کوٹ کے ایک گاؤں کوٹ کپورہ میں پیدا ہوئے۔
مولانا بھٹّی کو بچپن ہی سے کسبِ دینی کا ذوق تھا اور اس ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کے دادا میاں محمد کا نمایاں کردار تھا۔ ابتدائی تعلیم بھی اپنے دادا ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد مختلف درس گاہوں میں مختلف علماء سے کسبِ علم کیا۔ ان کے مشہور اساتذہ میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا اسماعیل سلفی ، مولانا حافظ محمدگوندلوی وغیرہم شامل ہیں۔
وہ شروع سے ہی مصروف عمل و حرکت رہنے والوں میں سے تھے۔ ان کی جودتِ طبع نے آغازِ شباب ہی سے اپنے جوہر دکھانے شروع کیے۔ ان کا ابتدائی عہد سیاسی اعتبار سے انتہائی پُر آشوب عہد تھا۔ ادھر ہمارے مولانا جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھ رہے تھے اور دوسری طرف برصغیر میں انگریزی استعماریت اپنے آخری دن گزار رہی تھی۔ ایسے مواقع پر عموماً غاضب حکومتیں اپنی سختی و مظالم میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ مگر مولانا موصوف اپنے دورِ جوانی میں تازہ تازہ قدم زن ہوئے تھے ۔ انہیں بھی آزادی و انقلاب کا سودا سمایا۔ اپنی ریاست کی ” پرجا منڈل ” میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے انہیں ” پرجا منڈل ” کا جنرل سکرٹری بنا گیا۔ اس کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جو بعد میں ہندوستان کے بھی صدر بنے۔ “پرجا منڈل ” میں شرکت کرنے کی وجہ سے انہیں بعض مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 1939ء میں کچھ عرصہ فیروز پور جیل میں بھی قید رہے۔ آزادی وطن کے لیے دو مرتبہ انہیں جیل جانا پڑا۔
تقسیم ہند کے بعد 24 جولائی 1948ء کو مولانا بھٹی نے ہندوستان سے ترکِ سکونت کرکے ہمیشہ کے لیے پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا۔
یہاں آکر انہوں نے خود کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے نظم و نسق سے وابستہ کیا۔ اس جماعت کے لیے مختلف خدمات انجام دیں۔ جماعتی نظم و نسق کے دوران انہیں مولانا داود غزنوی ، مولانا اسماعیل سلفی ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی وغیرہم سے بڑی کثرت سے استفادے کا موقع ملا۔ ان کی فکری و نظری تربیت میں ان بزرگوں کا بڑا دخل رہا۔
1949ء میں ہفت روزہ ” الاعتصام ” کا اجراء ہوا تو اس کے معاون مدیر بنے ۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس کے اوّلین مدیر تھے۔ 1951ء میں مولانا حنیف ندوی کے مستعفی ہونے کے بعد مولانا بھٹی ” الاعتصام ” کے مدیر بن گئے۔
اکتوبر 1965ء کو پاکستان کے مشہور اسلامی تحقیقی ادارے ” ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ” سے بطور ریسرچ اسکالر منسلک ہوئے۔ اس زمانے میں اس کے ڈائرکٹر شیخ محمد اکرام تھے۔ یہاں مختلف ذوق و مزاج کے اہل علم مجتمع تھے۔ مولانا بھٹی کو یہاں مولانا حنیف ندوی ، مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی، رئیس احمد جعفری جیسے اصحابِ علم کے ساتھ کام کرنے کے مواقع ملے۔ یہاں مولانا نے بھرپور وقت گزارا ۔ 1997ء میں 32 سال تک مسلسل اس ادارے سے وابستہ رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ یہیں مولانا کے قلم سے ” فقہائے ہند ” (فقہائے پاک و ہند ) جیسی کتاب نکلی۔ جس سے بلاشبہ زبانِ اردو کا وقار بلند ہوا۔ اردو زبان میں اس قدر طویل تذکرہ ابھی تک نہیں لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ” برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش ” اور ” برصغیر میں علم فقہ ” بھی ادارہ ثقافت اسلامیہ کے لیے ہی تحریر کیں۔
مولانا بھٹی کے دیگر کتابوں میں ” لسان القرآن ” ، ” چہرہ نبوت قرآن کے آئینے میں ” (یہ دونوں مولانا حنیف ندوی کے قلم سے تھیں مگر وہ اس کی تکمیل نہ کر سکے تھے ، مولانا بھٹی نے اس کی تکمیل کی ہے ، اس طرح وہ اس کتاب کے شریک مصنف ہیں۔) ، ” نقوش عظمت رفتہ ” ، ” بزم ارجمنداں ” ، ” کاروان سلف ” ، ” قافلہ حدیث “، ” گلستان حدیث ” ، ” دبستان حديث ” ، ” چمنستان حدیث ” ، ” تذکرہ قاضی سلیمان منصور پوری ” ، ” تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی ” ، ” تذکرہ صوفی محمد عبداللہ ” ، ” قصوری خاندان ” ، ” ارمغان حنیف ” ، ” میاں عبد العزیز مالواڈہ ” ، ” برصغیر کےاہل حدیث خدام قرآن ” ، ” ہفت اقلیم ” ، ” اسلام کی بیٹیاں ” وغیرہا قابلِ ذکر ہیں۔
ان کے قلم سے جن کتابوں کے تراجم ہوئے ان میں ابن ندیم کی ” الفہرست ” ، امام نووی کی ” ریاض الصالحین ” ، محمد حسین ہیکل کی ” ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ” اور ڈاکٹر فضل الٰہی کی ” لشکر اسامہ کی روانگی ” شامل ہیں۔ یہ ترجمے مولانا کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کے مظہر ہیں۔ اس قدر رواں ہیں کہ کہیں سے بھی ترجمے کا گمان نہیں گزرتا۔
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے انسلاک کے دوران ہی بعض مصنفین کی کتابوں کو نظر ثانی و ترتیب دینے کا فریضہ بھی انجام دیا۔
اسی دوران مولانا نے صحافتی خدمات بھی انجام دیں۔ اخبارات میں کالم لکھے۔ بعض سوانحی سلسلے شروع کیے جو بڑے مقبول ہوئے۔ 1949ء سے لے کر 1965ء تک ہفت روزہ ” الاعتصام ” سے منسلک رہے۔ اسی دوران جنوری 1958ء میں سہ روزہ اخبار ” منہاج ” جاری کیا جو صرف تیرہ مہینے اپریل 1959ء تک جاری رہ سکا۔ پروفسیر ابوبکر غزنوی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ” توحید ” نکالا مگر جلد ہی اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ روزنامہ ” امروز ” اپنے دور کا بہت مشہور اخبار تھا اس میں ایک طویل عرصے تک کالم نویسی کی۔ روزنامہ ” پاکستان ” ( لاہور ) میں بھی ایک عرصہ تک کالم نگاری چلتی رہی۔ مشہور صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے ماہنامہ ” قومی ڈائجسٹ ” میں مختلف شخصیات پر سلسلہ تحریر جاری رہا ، جسے بڑی پذیرائی ملی۔
انہیں قرآنیات سے خصوصی دل چسپی تھی۔ ان کے پاس قرآن پاک کے تراجم کا قیمتی ذخیرہ تھا۔ پنجاب ہونی ورسٹی کے شائع شدہ ” اردو دائرہ معارف اسلامیہ ” میں قرآنیات سے متعلق مولانا بھٹی کے کئی اہم مقالات شامل اشاعت ہوئے۔
وہ ایک صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اسلوب نگارش میں مختلف تراکیب کا استعمال ، بات سے بات نکالنے کا سلیقہ اور طنز و تنقید کے عمدہ اسالیب اپنے قارئین کو مسحور رکھیں گے۔ تاہم ان کا اسلوب طنز و تعریض کبھی کبھی غیر مناسب انداز اختیار کر جاتا تھا۔ آخری دور میں ان پر صوفیت کا بڑا غلبہ ہو گیا تھا۔ وہ بعض ایسے صوفیانہ افکار و خیالات کی تائید کرتے نظر آتے تھے جن کی مسلک اہل حدیث میں کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی۔
راقم الحروف کے ساتھ ان کے علمی روابط گزشتہ 16 / 17 برسوں سے قائم تھے۔ میرے نام ان کا پہلا مکتوب گرامی 1998ء کا تحریر کردہ ہے۔ میرے پاس ان کے کئی مکاتیب ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے برقی میڈیا کی مہربانی نے جہاں بہت سے فوائد پہنچائے ہیں وہیں ہمیں بن کاغذ و قلم کی دنیا میں بھی دھکیل دیا ہے۔ اس لیے سلسلہ مکاتبت تو کمزور پڑ گیا چند بار موبائل ہی پر خیر و عافیت دریافت کرلی گئی۔
اس کے علاوہ راقم کو کئی بار ان سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ جب بھی لاہور جانا ہوا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ اپریل 2003ء میں ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کے زیر اہتمام ” برصغیر میں مطالعہ حدیث ” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار میں بھی ہم اکٹھے رہے۔
بایں ہَمہ مولانا بھٹی نے ایک بھرپور علمی زندگی گزاری۔ ان کی قلمی خدمات مسلم ہیں جنہیں نہ تو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز۔ وہ مخالف و مواقف سبھوں کے لیے حوالہ بنتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت کے حضور ہماری دعا ہے کہ وہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ آمین
٭–٭–٭–٭–٭