• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گزر گئی گزران : مولانا اسحاق بھٹی ، سانحہ ارتحال ، اور اس پر تاثراتی تحریریں

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
آخر گزر گئی گزران گزر ہی گئی
یادیں ہی یادیں
اور باتیں ہی باتیں
قحط الرجال ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے
پہلے عبدالحمید ازھر رحمہ اللہ
پھر شیخ یونس اثری رحمہ اللہ کے صاحبزادے شیخ شہاب الدین اثری رحمہ اللہ
پھر جامعہ رحمانیہ کے ایک استاذ الاساتذہ
اور اب شیخ رحمہ اللہ
یا اللہ تجھ سے اور کچھ نہیں طلب کر رہے صرف اتنا
یا اللہ قحط الرجال کی آزمائش سے بچا
باسا شدیدا اور الملحمۃ العظمی آنے کو ہے اور ہم سب سے بڑی آزمائش میں گرفتار ہوئے جا رہے ہیں
آزمائش دین
انا للہ و انا الیہ راجعون
ساری زندگی رحمہ اللہ کا مسکراتا ہوا چہرا ہی دیکھا تھا وہ چہرہ ہی تصور سے نہیں ہٹ رہا اور دل و دماغ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ
وہ چہرہ جو ساری زندگی اپنے تو اپنے اغیار کے لیے بھی مسکراہٹیں بانٹتا رہا اب ساکت ہو گیا ہے
وہ زبان جو جو ہر محفل میں محور و مرکز بن جایا کرتی تھی وہ زبان اب خاموش ہو گئی ہے
اور وہ قلم ہاں وہ قلم جو ایک ہی تھا برصغیر پاک و ہند کی پوری تاریخ میں ایک ہی ایسا قلم تھا جو لکھتا تھا خوب لکھتا تھا لکھنے کا حق ادا کرتا تھا قاری اس منظر میں خود کو بھی کہیں آس پاس ہی محسوس کرتا تھا ، حوالہ جات سے مزین ، بے مثال یادداشتیں ، عدیم النظیر مطالعہ، عاجزی وانکساری، دنیا سے بے نیازی بے رغبتی، ایک دنیا کو اپنی تاریخ سے روشناس کروانے والا ۔۔۔۔۔ قلم اب رک گیا فنا ہو گیا ہے واقعی کل من علہیا فان و یبقی ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن شیخ ہم سے جدا نہیں ہوئے وہ تو زندہ ہیں جیسا کہ امام بخاریرحمہ اللہ ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ زندہ جاوید ہیں
سچ کہا رب العالمین نے کہ
بقائے دوام اسی کو زیبا ہے جو مخلوق خدا کے لیے مفید ہو
سچ ہے!!
ریت کی طرح ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے علما۔جی چاہتا ہے کہ ان گرانقدر شخصیات کو کہیں چھپا لیا جائے۔۔مگر
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولانا محمد اسحاق بھٹی اور آ پ کی علمی خدمات

پاکستان کے مشہور سکالراور تقریباً چالیس کتابوں کے مصنف مولانا محمد اسحاق بھٹی 15۔مارچ 1925ء کو کوٹ کپورہ ریاست فرید کوٹ ( ضلع فیروز پورمشرقی پنجاب ) میں پیدا ہوئے۔ ناظرہ قرآن مجید اور اردو کی ابتدائی کتابیں اپنے دادا میاں محمد مرحوم سے پڑھیں۔ 1933ء میں وہاں مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی تشریف لے گئے تو ان سے درس نظامی کے نصاب کے مطابق تعلیم کا آغاز کیا اور سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تفسیروحدیث، فقہ واصول، عربی ادبیات اور صرف ونحو کی تمام مروّجہ کتابیں ان سے پڑھیں۔ پھر مولانا ممدوح کے حکم سے گوجراں والا گئے اور وہاں حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی سے تفسیر وحدیث اور علم فقہ کی کتابیں دوبارہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ 1942ء میں تعلیم سے فراغت پائی توایک سال ہیڈسلیمان کی میں محکمہ نہر میں بہ طور کلرک سرکاری ملازمت کی۔ یہ ملازمت چھوڑ کر ایک سال کے قریب ہندوستان کے مختلف شہروں (آگرہ، دہلی، متھرا، دھول پور، گوالیار، کان پورو غیرہ)کی سیر و سیا حت کرتے رہے۔
اپریل 1943ء میں ضلع فیروزپور کی ایک درس گاہ میں جو مرکز الاسلام میں جامعہ محمدیہ کے نام سے موسوم تھی، تدریس کا فریضہ انجام دینے لگے، اس درس گاہ کے منتظم مولانا محمد علی لکھوی کے فرزندانِ گرامی مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی تھے۔ اس میں جدید وقدیم دونوں طرز کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر موضع ’’لکھوکے‘‘ تھا، جس میں کم وبیش 1720ء سے دینی مدرسہ قائم تھا جو ایک بزرگ حافظ احمد نے جاری کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حافظ بارک اللہ لکھوی اور پوتے حافظ محمد لکھوی نے نہایت خوش اسلوبی سے جاری رکھا اور بے شمار شائقین علم نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی انہی بزرگانِ عالی قدر کی اولاد میں سے تھے۔ لکھوکے کے مدرسے کا انتظام بھی انہی دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں تھا۔
محمد اسحاق بھٹی صاحب اگست 1947ء تک مرکز الاسلام کی جامعہ محمدیہ میں فریضہ تدریس سرانجام دیتے رہے۔
1945ء میں ریاست فرید کوٹ میں ایک سیاسی جماعت ’’پرجامنڈل‘‘ نے تحریک آزادی شروع کی تو بھٹی صاحب نے اس میں بھرپور طورپر حصہ لیا اوراپنے تیرہ مسلمان، ہندو اور سکھ ساتھیوں سمیت گرفتار ہوئے اور فرید کوٹ جیل میں قید کردیے گئے۔ رہائی کے بعد انھیں ریا ست فرید کوٹ کی پرجا منڈل کے سیکرٹری اور گیانی ذیل سنگھ کو پریذیڈنٹ منتخب کیا گیا۔ گیانی ذیل سنگھ ریاست فرید کورٹ کے ایک گاؤں ’’سندھواں‘‘ کے رہنے والے تھے۔ آزادی کے بعد یہ پانچ سال ہندوستان کے منصب صدارت پر فائز رہے۔
تقسیم ملک کے بعد محمد اسحاق بھٹی اپنے خاندان اور قدیم مسکن کوٹ کپورہ کے بہت سے لوگوں کے ساتھ ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑاں والا کے ایک گاؤں چک نمبر 53گ ب ڈھیسیاں آئے اور وہاں سکونت پذیر ہوگئے۔ 24۔جولائی 1948ء کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام (شیش محل روڈ) لاہور میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے زیر صدارت جماعت اہل حدیث کے علما وزعماکا اجلاس منعقد ہوا تو مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کے نام سے جماعت کی تنظیم قائم کی گئی۔ جمعیت کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو، ناظم اعلیٰ پروفیسر عبدالقیوم کو اور ناظم مالیات میاں عبدالمجید کو منتخب کیا ۔ بھٹی صاحب کو جمعیت کے ناظم دفتر بنایا گیا اور وہ اپنے گاؤں سے لاہور آگئے۔انھوں نے نہایت محنت کے ساتھ دفتری نظامت کا فریضہ سرانجام دینا شروع کیا اور دفتری نظام کو ایک باوقار جماعت کے شایانِ شان بنا دیا۔ مشرقی پا کستان کی علیحدگی کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پا کستا ن کو مرکزی جمعیت اہل حدیث پا کستا ن کہا جا نے لگا۔
اگست 1949ء میں جمعیت اہل حدیث کی ترجمانی کے لیے ہفت روزہ اخبار ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو مولانا محمد حنیف ندوی کا بہ طور مدیر اور بھٹی صاحب کا بہ طور نائب مدیر تقرر عمل میں آیا۔ مئی 1951ء میں مولانا محمد حنیف ندوی ادارہ ثقافت اسلامیہ میں چلے گئے تو ان کی جگہ اس اخبار کے مدیر بھٹی صاحب کو بنا دیا گیا۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا جس کے بھٹی صاحب حق دار قرار پائے۔انھوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے ادارت کے فرائض سرانجام دیے اور اس کے کئی خاص نمبر شائع کیے، جن میں ایک ضخیم نمبرحجیت حدیث تھا جو فروری 1956ء میں شائع ہوا، اور ایک 1857نمبر تھا جو مئی 1957ء کو معرضِ اشاعت میں آیا۔ بھٹی صاحب کے اسلوب تحریر سے قارئین بہت خوش تھے۔ وہ کم وبیش سولہ سال اس منصب پر فائز رہے۔ اس اثناء میں اپنا اخبار سہ روزہ ’’منہاج ‘‘ بھی جاری کیا، جس نے صرف چودہ مہینے عمر پائی۔ 30۔مئی 1965ء کو انھوں نے اخبار الاعتصام کی ادارت سے استعفا دے دیا۔
یکم جولائی 1965ء کو لاہور( شیش محل روڈ) سے ہفت روزہ ’’توحید‘‘ جاری کیا گیا، جس کے ایڈیٹر بھٹی صاحب اور نگران حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے فرزند گرامی پروفیسر سید ابوبکر غزنوی مرحوم تھے، لیکن حالات ایسے پیدا ہوئے کہ 18۔ستمبر 1965ء کو (جب کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہورہی تھی) بھٹی صاحب اس اخبار سے مستعفی ہوگئے۔ پھر یہ اخبار بند ہوگیا۔
اس وقت ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر ایم ایم شریف تھے۔ 20۔اکتوبر 1965ء کو ادارہ ثقافت اسلامیہ کے دو جلیل القدر سکالر (مولانا محمد حنیف ندوی اور سید رئیس احمد جعفری) بھٹی صاحب کے گھر تشریف لائے اور میاں صاحب کا پیغام دیا کہ وہ ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی اختیار کرلیں، چنانچہ 21۔اکتوبر 1965ء کو بھٹی صاحب ادارے سے بحیثیت ریسرچ فیلو وابستہ ہوگئے۔
اب ادارہ ثقافت اسلامیہ کے لیے ان کی خدمات ملاحظہ ہوں :
(1) سب سے پہلے انھوں نے محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق بغدادی (متوفی 391ھ) کی کتاب الفہرست کا اردو ترجمہ کیا اور حل طلب مقامات پرحواشی لکھے۔ اشاریہ سمیت یہ کتاب 960صفحات پر مشتمل ہے۔اس کے بعد یہ کتابیں لکھیں:
(2)برصغیر میں علم فقہ :صفحات 400۔ یہ اس موضوع کی نہایت اہم اور پہلی کتاب ہے۔
(3) برصغیر میں اسلام کے اوّلیں نقوش: اس میں بتایا گیا ہے کہ برصغیر میں پچیس صحابہ کرام ، 42تابعین اور 18تبع تابعین تشریف لائے۔ صفحات 224۔
(4) فقہائے ہند: دس جلدیں پہلی صدی ہجری سے تیرھویں صدی ہجری تک ۔ اس میں برصغیر کے تقریباً دو ہزار علما وفقہا کے حالات درج ہیں۔ صفحات 3650۔
(5) ارمغان حنیف: مولانا محمد حنیف ندوی کے حالات میں۔صفحات 372
تصنیف وتالیف کے علاوہ ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ماہنامے ’’المعارف‘‘ کی ادارت بھی ان کے ذمے تھی۔ اس میں یہ اداریہ بھی لکھتے تھے، کتابوں پر تبصرے بھی کرتے تھے۔ مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھتے تھے۔
پی ایچ ڈی کے تین مقالے انھوں نے ایڈٹ کیے جو ادارے کی طرف سے شائع ہوئے، وہ مقالے مندرجہ ذیل تھے :
O اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کا حصہ (شمالی ہند میں 1857ء تک ) یہ ڈاکٹر محمد ایوب قادری مرحوم کا مقالہ ہے۔اس مقالے پر بھٹی صاحب نے مقدمہ بھی لکھا۔
O قاضی ثناء اللہ پانی پتی: ڈاکٹر محمود الحسن عارف کا مقالہ
O شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات: یہ ڈاکٹر ثریا ڈار کا مقالہ ہے جو اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبۂ عربی کی چیئرپرسن تھیں۔ وفات پاگئی ہیں۔ اس مقالے پر بھی بھٹی صاحب نے مقدمہ تحریر کیا۔
پی ایچ ڈی کے مندرجہ بالا مقالوں کے علاوہ ایک مقالہ پروفیسر عبدالقیوم مرحوم کی صاحب زادی غزالہ حامد کا ایم اے کا مقالہ ہے ،عنوان ہے ’’شروح صحیح بخاری‘‘۔ اس پر بھی بھٹی صاحب نے مقدمہ لکھا۔
انھوں نے شاہ محمد جعفر پھلواروی کی کتاب ’’پیغمبر انسانیت‘‘ اور مولانا ابویحییٰ امام خاں نوشہروی کی کتاب’’ فقہ عمر‘‘ کی ایڈیٹنگ بھی کی۔
ادارے کی طرف سے چھپنے والی بہت سی کتابوں پر انھوں نے فلیپ لکھے۔ ادارے میں چھپنے کے لیے مختلف مصنفین کے جو مسودات آتے تھے، انھیں پڑھنا اور ان کی اشاعت سے متعلق فیصلہ کن رائے دیناانہی کے ذمے تھا۔
انھوں نے 32سال ادارہ ثقافت اسلامیہ میں تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔ 16۔مارچ 1997ء کو اس سے سبکدوش ہوئے۔
ادارہ ثقافت اسلامیہ کے علاوہ انھوں نے جو کتابیں تصنیف کیں وہ بہ ترتیب نمبر شمار مندرجہ ذیل ہیں :
(6) قصوری خاندان: شائع کردہ مکتبہ تعلیمات اسلامیہ ماموں کانجن، ضلع فیصل آباد۔ 1994ء، صفحات:208
(7) نقوش عظمت رفتہ: ناشر مکتبہ قدوسیہ اردو بازار۔ لاہور،1996ء، صفحات: 640
(8) میاں فضل حق اور ان کی خدمات: ناشر میاں فضل حق ویلفیر ٹرسٹ لاہور۔ 1997ء۔ صفحات 244۔
(9) چہرۂ نبوت قرآن کے آئینے میں: اس کتاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ قرآن کی روشنی بیان کی گئی ہے۔ ناشر: علم وعرفان پبلشرز اردو بازار۔ لاہور۔ 1999ء۔ صفحات 326۔
(10) لسان القرآن (جلد سوم) ناشر: علم وعرفان پبلشرز۔ لاہور۔ 1999ء ، صفحات344 (اس کی پہلی اور دوسری جلدیں مولانا محمد حنیف ندوی نے لکھیں)
(11) کاروان سلف: ناشر مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد 2003ء صفحات: 510۔
(12) قافلہ حدیث: ناشر مکتبہ قدوسیہ ۔ لاہور۔ صفحات:645
(13) برصغیر میں اہل حدیث کی آمد: ناشر مکتبہ قدوسیہ 2004۔ صفحات: 348
(14) بزم ارجمنداں: ناشر مکتبہ قدوسیہ۔ لاہور۔ 2006ء صفحات:632
(15) ہفت اقلیم: ناشر مکتبہ قدوسیہ۔ اردو بازار۔ لاہور2009ء صفحات 505۔
(16) تذکرہ صوفی محمد عبداللہ مرحوم ومغفور: ناشر مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ۔ لاہور۔ 2006ء۔ صفحات:442
(17) میاں عبدالعزیز مالواڈہ بیرسٹر: ناشر: کتاب سرائے اردو بازار۔ لاہور2006ء۔ صفحات 592
(18) سیرت قاضی محمد سلیمان منصورپوری: ناشر مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور 2007ء۔ صفحات 496
(19) اسلام کی بیٹیاں: ناشر مکتبہ قدوسیہ، لاہور۔ صفحات600
(20) تذکرہ مولانا غلام قلعوی : ناشر مولانا غلام رسول ویلفیئر سوسائٹی۔ قلعہ میہاں سنگھ۔ ضلع گوجراں والا۔ 2012ء۔ صفحات 528۔
(21) برصغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت: ناشر: مکتبہ سلفیہ، لاہور۔ 2012ء۔صفحات:344
(22) صدارتی واستقبالیہ خطبات: ناشر مکتبہ سلفیہ۔ لاہور۔یہ وہ خطبات ہیں جو تحریری صورت میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی کانفرنسوں میں پڑھے گئے ۔ 2012ء۔ صفحات:368۔
(23) روپڑی علماے حدیث: ناشر محدث روپڑی اکیڈیمی۔ جامعہ قدس اہل حدیث۔ چوک دالگراں۔ لاہور۔ 2011ء۔ صفحات 350۔
(24) گزرگئی گزران: (خودنوشت) ناشر کتاب سرائے اردو بازار لاہور۔ 2011ء۔ صفحات 466
(25) سوانح مولانا احمد الدین گکھڑوی: ناشر مکتبہ قدوسیہ۔ لاہور۔ 2011ء۔ صفحات:247
(26) ترجمہ ریاض الصالحین : (دوجلد) صفحات:872
(27) ارمغان حدیث: ناشر طارق اکیڈیمی، فیصل آباد۔ 2008ء ۔ صفحات272
(28) برصغیر میں اہل حدیث کی اوّلیات: ناشر دارابی الطیب گلی نمبر 5۔ حمید کالونی، گل روڈ۔ گوجراں والا۔ 2012ء۔ صفحات182
(29) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: ناشر الفیصل۔ اردو بازار، لاہور،2010ء، صفحات:620
(30)دبستانِ حدیث: ناشر مکتبہ قدوسیہ، لاہور۔ 2008ء۔ صفحات:673
(31) گلستانِ حدیث: ناشر مکتبہ قدوسیہ، لاہور۔ 2011ء۔ صفحات:585
(32) چمنستان حدیث: ناشر مکتبہ قدوسیہ، لاہور۔ صفحات:800
(33) بوستانِ حدیث: ناشر مکتبہ قدوسیہ، لاہور۔ صفحات:800
(34)برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن: ناشر مکتبہ قدوسیہ، لاہور۔ صفحات:700۔
(35)تذکار مولانا محی الدین لکھوی : صفحات:400۔
(36) محفل دانشمنداں: زیر طبع ،صفحات: 600
(37) تذکرہ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی۔ زیر طبع، صفحات:200
(38)مقالاتِ قرآن وحدیث: زیر طبع، صفحات:400
بھٹی صاحب کی ایک تحریری خدمت یہ ہے کہ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مختلف موضوعات پر پچاس سے زیادہ مقالے لکھے، جن میں پانچ مقالے قرآن مجید سے متعلق ہیں، وہ ہیں: (1) جمع وتدوین قرآن (2) فضائل قرآن (3) واقعات وقصص قرآن (4) مضامین قرآن اور (5) اعجاز قرآن۔ یہ مقالے دو سوسے زائد صفحات پر محیط ہیں۔ پھر مسجد، ملائکہ، منافقوں، مرتبین فتاوٰی عالم گیری کے عنوانات پر مقالات لکھے اور متعدد مقالات مختلف شخصیات کے بارے میں تحریر کیے، جن میں سے بعض چھپ گئے ہیں اور بعض اشاعت کے مرا حل میں ہیں۔
ریڈیو پاکستان میں بھی بھٹی صاحب نے تقریریں کیں۔ پہلی تقریر 25۔دسمبر1965ء کو ہوئی اور پھر یہ سلسلہ 1997ء تک جاری رہا۔ ان کی تقریریں صراط مستقیم، صحا بہ کرام کے حالات، بزرگانِ دین کے واقعات، آیا ت بینات، زندہ تا بندہ، سیرت طیبہ ،کتابوں پر تبصرے اور اس قسم کے دیگر موضوعا ت پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے۔ نیز پنجابی زبان میں سوھنی دھرتی اور فوجی بھائیوں کے با رے میں نشر ہونے والے پروگراموں میں بھی آپ کا سلسلہ گفتگو طویل عرصے تک جا ری رہا۔
اس زمانے میں صرف سرکاری ٹیلی وژن(PTV )ہوتا تھا۔ اس میں آپ کی پہلی تقریر 27۔جولائی 1972ء کو ’’بصیرت‘‘ پروگرام میں نشرہوئی، جس کا دورانیہ پانچ منٹ کا تھا ۔ پھر مختلف موضوعات پرہونے والے پروگراموں میں آپ کی علمی رائے سے استفادہ حا صل کیا جاتارہا۔
روزنامہ اخبار’’امروز‘‘ اپنے عہد کابہت بڑا اخبار تھا۔ بھٹی صاحب اس میں کئی سال جمعہ اور اتوار کو مضامین لکھتے رہے۔ کچھ عرصہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ (لاہور) میں ان کے مضامین چھپے۔ ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ (لاہور) میں بہت سی شخصیات پران کے تحریر کردہ خاکے چھپتے رہے۔ متعدد جرائد ورسائل میں ان کے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور جاری ہے۔
ان کی خاکہ نگاری پر ایک خاتون پروفیسر فوزیہ سحر نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ’’محمد اسحاق بھٹی کی خاکہ نگاری‘‘ کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا، جس کی ڈگری انھیں مل گئی۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں چھپ گیا ہے۔
ایک مقالہ محمد انس سرور صاحب نے لکھا۔ اس کا عنوان ہے۔ ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی کی سوانح نگاری فقہائے ہند کے تناظر میں‘‘ ۔ یہ مقالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ اس کی سند پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے مقالہ نگار کو مل گئی۔
بھٹی صاحب پر بہت سے اہل قلم نے مختلف اخبارات ورسائل میں مضامین لکھے ،ان میں سے جو مضامین مل سکے، وہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی نے مرتب کیے اور ابتدامیں طویل مضمون تحریر کیا۔ یہ مضامین ’’مورخ اہل حدیث محمد اسحاق بھٹی۔ حیات وخدمات‘‘ کے نام سے شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز کے فرزند گرامی صاحب زادہ عبدالحنان جانباز نے اپنے مکتبہ رحمانیہ ناصر روڈ سیالکوٹ کی طرف سے کتابی صورت میں شائع کیے، یہ کتاب 240صفحات پر مشتمل ہے۔
بھٹی صاحب اس عہد کے بہت بڑے مصنف اور سکالر ہیں۔ صاحبِ طرزِ ادیب اور بہترین انشاپرداز۔ ان کی بہت سی تصانیف ہندوستان بھی شائع ہوگئی ہیں۔ان کی ایک کتاب ’’برصغیر میں اسلام کے اوّلیں نقوش‘‘کا ایک ہندوستانی سکالر نے ہندی زبان میں ترجمہ کردیاہے۔
بھٹی صاحب نے اپنی کتاب ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ میں برصغیر کی 21شخصیتوں کا نہایت خوب صورت انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ ہندوستان کے ایک سکالر سید ابن احمد نقوی نے ان میں سے بعض شخصیتوں کے واقعاتِ حیات کا انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔ انہی قابل احترام سکالر نے بھٹی صاحب کی کتاب ’’اسلام کی بیٹیاں‘‘ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے واقعات و حالات کا ترجمہ انگریزی زبان میں شائع کیا ہے۔

اپنی کتاب ’’بزم ارجمنداں‘ ‘میں مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں بھٹی صاحب نے طویل مضمون لکھا۔ یہ مضمون اس کتاب کے حوالے سے ہندوستان کے کئی اخباروں میں چھپا۔ پھر کتابی صورت میں ہندوستان کی بہت بڑی لائبریری( جو خدابخش پٹنہ لائبریری کے نام سے مشہورہے) کے شعبہ نشرواشاعت کی طرف سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس کے بعد اسے صوبہ یوپی کے ایک شہر مؤناتھ بھنجن کے مکتبہ فہیم میں معرض اشاعت میں آیا۔یہ اس با ت کا ثبوت ہے کہ برصغیر کے علمی حلقوں میں بھٹی صاحب کی تحریروں کو بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھا جاتاہے۔
سات آٹھ مقامات میں بھٹی صاحب سے متعلق تقریبات کا انعقاد کیا گیا، جن میں اہل علم نے ان کی خدمات کی وضاحت کی اور انھیں شیلڈ یں پیش کی گئیں۔ ایک تقریب جولائی 2008ء میں کویت میں منعقد ہوئی، جس میں کویتی اور کویت میں رہنے والے پاکستانی وہندوستانی علماے کرام نے تقریریں کیں اور بھٹی صاحب کو ان کی تحریری خدمات کی بنا پر ’’مورخ اہل حدیث‘‘کا خطاب دیا گیا۔ شیلڈ بھی پیش کی گئی۔
اکتوبر 2011ء میں کویت سے پھر دعوت آئی، وہ ان سے متعلق دوبارہ تقریب کرنا چاہتے تھے، مگر اپنی تصنیفی مصروفیات کی وجہ سے جا نہیں سکے۔ دبئی، قطر اور ہندوستان کے متعدد مقامات سے انھیں دعوت نامے موصول ہوئے۔اپنی علمی و تصنیفی مصروفیا ت کی بنا پرآپ ان دعوت ناموں کی بھی تعمیل نہیں کرسکے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صاحب تصانیف کثیرہ مولانا محمد اسحاق بھٹی نہ رہے

عطا رحمانی​
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی!
یہ شعر آپ نے بہت سے لوگوں کی وفات کے موقعے پر سنا اور پڑھا ہوگا، جن میں سے کچھ واقعی پرانے بادہ کش بھی رہے ہوں گے. لیکن ہمارے ممدوح جناب حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی یقینا ایسے پرانے بادہ کش تھے جن پر اقبال کا یہ شعر اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ صادق آتا ہے.
جب ان کی کوئی کتاب پڑھتا تھا تو یہ سوچ کر بھی بڑی خوشی ہوتی تھی کہ محترم ابھی بہ قید حیات ہیں اور جیتے جی ابھی اس طرح کی کئی کتابیں مزید ان کے قلم سے نکلیں گی. مگر کیا کیجیے! اللہ کے فیصلے کے آگے ہم سب مجبور ہیں. ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی اس کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے اور مانے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں. اس لیے اس کے فیصلے کو بہ خوشی قبول کر لینا ہی عافیت و سلامتی کی راہ ہے. اس لیے ہم اللہ کے اس فیصلے کو بہ رضا قبول کرتے ہیں کہ آج بر صغیر کے مشہور مؤرخ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے.
انا للہ وانا الیہ راجعون.
واقعی سن کر بڑی تکلیف ہوئی. یہ واحد عالم دین تھے جن کی زیارت کی خاطر میں پاکستان کا سفر کرنے کی تمنا رکھتا تھا.
ان کی بہت سی تصنیفات ہیں اور ان تصنیفات میں ان کی قوت یاد داشت کا رنگ بہت نمایاں نظر آتا ہے. مگر جو چیز مجھے خاص طور پر مؤثر کرتی تھی وہ ان کا ماضی و حال کا تقابل تھا. مولانا نے چونکہ کافی لمبی عمر (تقریبا 90 سال ) پائی تھی اور بچپن سے ہی بر صغیر کی مشہور علمی، ادبی اور دینی شخصیات و تحریکات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اس لیے وہ اپنی تحریرات میں نئی نسل سے اس لیے نالاں نظر آتے ہیں کہ ان کے اندر اسلاف یعنی بر صغیر کے پچھلی صدی کے علماء کا اخلاص، ان کا حوصلہ، ان کا جذبہ، ان کے اخلاق و عادات و اطوار ، ان کی شب بیداری، ان کی علمی گہرائی ، ان کا تحقیقی رجحان، ان کی دینی غیرت و حمیت، ان کا مطالعہ، ان کا نظام الاوقات اور وقت کی پابندی، ان کا اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارنا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہ دینا اور معاملات میں مسلکی رواداری وغیرہ اہم صفات مفقود ہوتی چلی جا رہی ہیں. اور وہ اس بات پر بہت دل شکستہ تھے کہ حالت مزید بد سے بد تر ہوتی چلی جا رہی ہے. اب سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں طلبہ و علما کو اتنے پیارے انداز میں ان کے اندر در آئی خامیوں پر کون متنبہ کرے گا؟
خیر، یہ اس دنیا کی ریت ہے. یہاں کسی ایک پر دنیا کا نظام نہیں ٹکا ہوا ہوتا. ایک جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے. مگر ہم تو آخر بشر ٹھہرے. ہمیں تو فکر لاحق ہوگی ہی. اور پھر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ایسے عظیم لوگوں کا جانشین صدیوں میں پیدا ہوتا ہے.
اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان پر رحم فرمائے، جنت میں ان کو مقام بلند سے نوازے، ان کی دینی خدمات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے.
عطا رحمانی​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولانا بھٹی اپنی کتاب چمنستان حدیث کے بعد تراجم اہل حدیث پر اپنی ایک اور آخری کتاب ( نام یاد نہیں آ رہا )بحمد اللہ مکمل کر چکے تھے جو طباعت کے مرحلے میں ہے ۔
آج کل وہ غزنوی علما کے متعلق اپنے تحریر کردہ مختلف مضامین حک واضافے کے ساتھ کتابی شکل میں مرتب کر رہے تھے جن میں تمام غزنوی اکابر کے سوانح جمع کرنا مقصود تھا ۔
مولانا کے ساتھ تصنیفی امور میں عموماً مشاورت اور استفادہ جاری رہتا تھا۰۰۰۰ ابھی ایک ماہ قبل ان سے مولانا اسماعیل سلفی کے مجموعے مقالات وفتاوی کے کچھ حصے پر مراجعت کروائی تو انھوں نے اسے باریک بینی سے ملاحظہ فرما کر بہت سے مفید مشورہ جات سے نوازا تھا۰۰۰۰!
ابھی غزنوی علما پر کام مکمل کرنے کے بعد ان کا حتمی ارادہ تھا کہ اپنے اساتذہ کرام محدث گوندلوی اور مولانا سلفی پر الگ الگ مستقل کتاب لکھیں گے اور طے یہ ہوا تھا کہ شیخین کریمین کے متعلق جو سوانحی مواد میرے پاس جمع ہے وہ ان کے حوالے کریں گے تاکہ یہ کام باحسن وجوہ پایہ تکمیل تک پہنچ پائے۰۰۰۰لیکن :
آں قدح بشکست وآں ساقی نہ ماند
@ابو مریم حافظ شاہد محمود​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
"گزر گئ گزران "

عبدالماجد​
محدث زماں حضرت علامہ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شیخین جدی دکتور عبدالرشید اظھر شھید اور شیخ التفسیر حضرت حافظ عبدالحمید ازھر رحمھم اللہ کی رفاقت میں شریک تھا نماز جنازہ سے فراغت کے بعد ایک جگہ پہ بھت سے علماء و مشایخ مؤدب کھڑے ھوئے پایا تمام علماء بڑے احترام سے ایک شخصیت کو سلام پیش کررھے تھے اسی دوران ھم بھی ان کے قریب جا پہنچے. شیخین نے بھی ان کو ادب سے سلام کیا ..محو حیرت تھا کہ اس قدر فاضل شخصیات اس درویش سے شخص کو اس قدر احترام دے رھی ھیں..اور اس سے قبل اس شخصیت کو دیکھا بھی نھیں تھا خیر میں بھی سلام کرکے ایک طرف ھوا اورشیخین کے سامنے گزارش رکھی کہ اس شخصیت کا تعارف کروادیجیے تو مجھے بھت ڈانٹ بھی کھانا پڑی کہ آپ کو اس شخصیت کا ابھی تک تعارف نھیں یہ مولانا اسحاق بھٹی ھیں .. اللہ اکبر ..اس نام سے کون واقف نہ تھا دوبارہ حضرت کو سلام پیش کیا اور اگلے ھی دن حضرت سے فون پہ ملاقات کا وقت لے لیا ناشتہ کے وقت جا پہنچے. ...اس قدر سادہ رھائش فقیرانہ زندگی حیرت میں مبتلا کررھی تھی حضرت کے بھائ سعید بھٹی نے ناشتہ سجادیا اسی دوران اس شخصیت کا ورود ھوا پہلا سوال ملاقات میں.یہ فرماتے کس طرح آنا ھوا؟ تفصیلی مجلس سجی ان کے پاس ھی اس ھفتے کا جرار موجود تھا میں نے بتلایا اس جرار میں میرا مضمون.چھپا ھے پاس بیٹھ کر پڑھا کچھ اصلاح کی ..اس کے بعد بھی تین بار حضرت بھٹی صاحب سے انکی رھائش گاہ ساندہ میں تفصیلی ملاقات ھوئ. فون پر متعدد بار رابطہ رھا آخر تاریخ.اسلامی کو مرتب کرنے والا وہ عظیم باب بندھ ھوگیا لاھور ناصر باغ میں دکتور حماد لکھوی حفظہ اللہ کی امامت میں انکی نماز جنازہ ادا کردی گئ اناللہ وانا الیہ راجعون ...حضرت نے اپنی تصنیف گزرگئ گزران اپنے دسخط کے ساتھ ھدیہ کی جس میں.انکی مکمل حیات قلمبند ھے ..ھم دعا گو ھیں اللہ تعالی ان لی بشری خطاؤں کو معاف فرمائے انکی وفات عالم اسلام کیلئے عظیم سانحہ ھے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شیخ رحمہ اللہ بے شک و شبہ ایک جلیل القدر شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی وفات پر ایک بہت بڑا خلا ہوگیا ہے۔
اللہ کا خاص فضل وکرم ان پر یہ ہوا کہ انہوں نے طویل زندگی پائی اور پوری زندگی علمی خدمت میں گذاردی ۔
اللہ رب العالمین ان کی خدمات قبول فرمائے ۔ ان کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے آمین۔
 

رفی

رکن
شمولیت
اگست 15، 2013
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
46
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللھم اغفر لہ و ارحمہ و اعف عنہ۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللھم اغفر لہ و ارحمہ و اعف عنہ
 
Top