عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
گفتگو پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ تعالیٰ
ان الحمدللہ...!
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآَنِ وَمَنْ أَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ oالتَّآئِبُوْنَ الْعَابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرَّاکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْآَمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحَافِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo(التوبۃ:112,1 11)
نبی اکرمﷺدعوت الی اللہ میں مصروف تھے۔ اللہ کی طرف سے مقررذمہ داریوں کو نبھارہے تھے۔ مکہ میں آس پاس کے قبائل میں ہرطرف لاالٰہ الااللہ کی دعوت پر اللہ کے مخلص بندے نبی اکرمﷺ کے پاس جمع ہورہے تھے اور اپنے نظاموں' قبائلی ڈھانچوں'پرانے عقیدوں' باپ دادا کے بنائے ہوئے دین' رسم و رواج الغرض ہرچیزکوچھوڑ کر اللہ کے دین کو تسلیم کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے ساتھ جمع ہورہے تھے۔دوسری طرف مقابلے میں بڑے بڑے دشمن قبائل'ان کے سردار' سب اس دشمنی میں اکٹھے ہورہے تھے۔ایک زبردست کشمکش برپاہوگئی تھی۔
تب مسئلہ صرف لاالٰہ الااللہ کی دعوت کا تھا اور کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اسی پرساری لڑائیاں اور دشمنیاں تھیں۔ کلمہ توحید کی دعوت پر یہ سارا سلسلہ کھڑاہوگیاتھا۔بڑی سخت مشکلات میں جولوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ اس کلمہ توحید کی دعوت سے جڑ گئے تھے'ان کا جینادوبھرکردیاگیاتھا۔ایسے حالات میں مدینہ طیبہ سے انصار کاایک قافلہ مکے پہنچتاہے اور نبی اکرمﷺایک گھاٹی میں ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
یہ تاریخ اسلام میں سیرۃ الرسولﷺ کا ایک زبردست باب ہے۔لیلۃ العقبیٰ'عقبیٰ کی رات کوانصار کے اس قافلے نے ایک گھاٹی میں رسول اللہﷺ سے ملاقات کی اور کہا:آپ اس علاقے کوچھوڑ کر ہمارے پاس آجائیں۔ ہم اپنی جانیں اللہ کے لیے قربان کریں گے۔ اس دعوت کو لے کر کھڑے ہوں گے۔ دنیا کی دشمنیاں برداشت کریں گے۔ نبی اکرمﷺ نے ان سے عہد لیے کہ اگر تم میراساتھ نبھانا چاہتے ہو توصرف ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ غیراللہ کی عبادتوں کو'غیراللہ کے نظاموں کو 'غیراللہ کے طورطریقوں کو چھوڑکرتم نے صرف اللہ کی عبادت کے لیے میرا ساتھ دیناہے۔ ہرقسم کے شرک سے بازرہناہے اور اپنی زندگیاں اللہ کے لیے خالص کردینی ہیں۔اگرتم یہ بات مانتے ہو تومیں تمہارے ساتھ چلنے کے لیے تیارہوں۔ اس کے ساتھ ایک بات اللہ کے نبیﷺ نے یہ بھی فرمائی کہ بھئی دیکھنا جب تم مجھے ساتھ لے کر چلو گے توساری دنیادشمنی پرکھڑی ہوجائے گی۔ میری دعوت ہی ایسی ہے 'میرامسئلہ ہی ایساہے۔ یہ دنیامیں ناقابل برداشت ہے ۔ کفر کی دنیااس بات کو تسلیم کرنے'برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تو تم نے اس کی حفاظت کے لیے بالکل اسی طرح کرناہے جیسے اپنی جانوں ' مالوں کی حفاظت کرتے ہو۔
انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ سب کچھ جو آپﷺنے فرمایا ہے اگرہم دل وجان سے مان کر اپنے عمل اور کردار کے ساتھ اس عہدکونبھادیں 'اپنی جانیں قربان کردیں ' ساری دنیا سے دشمنی اور ٹکرمول لے لیں توپھر ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ نبی اکرمﷺنے فرمایا :میں توسب کچھ اپنے اللہ کے لیے کررہاہوں۔اگرتم بھی اسی اللہ کے لیے مریے ساتھ کھڑے ہو گے' قربانیاں دوگے تو اس کے عوض اللہ تمہیں جنت عطافرمائے گا۔
جب نبی اکرمﷺ نے یہ الفاظ فرمائے توسترآدمیوں پر مشتمل 'انصارکے قافلے نے اللہ کے نبیﷺکی زبان سے یہ بات سن کر تکبیرکانعرہ بیک آواز بلندکیا۔ اللہ اکبرکے اس نعرے سے گھاٹی اور پہاڑ گونج اٹھے۔
تب یہ آیات نازل ہوئیں:
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآَنِ وَمَنْ أَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o(التوبہ:111)
''بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقینا ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہو جائو جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے بڑی خوشی کااظہار فرمایاکہ جس طرح کے عزائم کا اظہارانصارکے اس قافلے نے ایک گھاٹی میں نبی اکرمﷺ سے ملاقات کرکے کیا' جس طرح اپنی خدمات پیش کیں' جس طرح اپنی جانوں کواللہ کے لیے پیش کرکے قربانیوں کاعہدکرلیا تو اللہ نے اس پرخوش ہوکر اپناقرآن نازل کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم سے عہد کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ تم سے یہ وعدہ کرتاہے کہ اگرتم اپنی جانیں اوراپنامال اللہ کے لیے قربان کروگے تواللہ تمہیں ضمانت دیتا ہے کہ اس کے عوض تمہیں جنت دے گا۔ اللہ تم سے سودا کررہا ہے۔ اللہ کہتاہے کہ یہ نبی تومیرانمائندہ ہے۔سودا تواصل کرنے والا میں ہوں۔آؤمیرے ساتھ سوداکرلو۔
یہ اسلام قبول کرنا'لاالٰہ الااللہ کہہ کے دائرہ اسلام میں داخل ہونا' حقیقت میں اللہ کے ساتھ ایک سوداہے۔ حقیقت میں اللہ کے ساتھ ایک عہدہے۔ کیاعہدہے؟ یااللہ پہلے توہم نہیں جانتے تھے'تیرادین ہم نے قبول کرلیا۔یہ لاالٰہ الااللہ کاکلمہ پڑھ کے ہم مسلمان ہوگئے۔ اب اس کے بعدہمیں اس کاعقیدہ سمجھ آگیا ہے۔ہمیں ایمان سمجھ آگیاہے۔ پہلاسبق ہم نے پڑھ لیا کہ اب اس دائرہ اسلام میں داخل ہوکے لاالٰہ الااللہ کاکلمہ پڑھ کے' نہ جانیں ہماری رہی ہیں'نہ مال ہمارے رہے ہیں۔ ہم نے اپنی جانوں اورمالوں کاسودا اپنے اللہ سے کردیا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو بھی اخلاص کے ساتھ یہ سودا میرے ساتھ کرنا چاہے'میں بھی تیار ہوں۔
بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ
''میں اس کے عوض تمہیں جنت دوں گا''
میرے بھائیو! ایمان والے مسلمانوں کے سروں کے سودے ' جانوں کے سودے اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہ سودے دنیاکے ساتھ ہوہی نہیں سکتے۔ یہ دنیاوالے اس کی قیمت ادا کرہی نہیں سکتے۔ اس کی قیمت اگرکوئی ہے تووہ اللہ کے پاس ہے اوروہ اللہ کی جنت ہے۔دنیاکی کوئی چیز اس کی قیمت ہے ہی نہیں'کسی ترازو میں یہ چیز تولی ہی نہیں جاسکتی۔ کسی کرنسی میں یہ خریدا ہی نہیں جاسکتا۔ اس کاخریدار اللہ اپنے مومن بندوں سے اور مومن اپنے اللہ سے سودے کرتے ہیں۔ ملکوں اور قوموں کا بیڑاغرق تواس وقت ہوتاہے جب سودے اللہ کے دشمنوں کے ساتھ کیے جائیں۔ڈالروں پرسودے بازیاں ہوں'پاؤنڈوں پرلوگ بکیں۔ اپنے ایمانوں کوبیچیں 'اپنی غیرتوں کوبیچیں' اپنے ملکوں کو بیچیں ۔ان بیچنے والوں 'سودا بازی کرنے والوں' دشمنوں کے ساتھ یہ معاملات طے کرنے والوں نے ہمیشہ بیڑا غرق کیا۔آج بھی وہی کررہے ہیں۔مگر مومنوں کامعاملہ کچھ اورہوتاہے۔ اللہ کہتاہے۔
مومن میرے ساتھ سوداکرتے ہیں۔میں اپنے ایمان والوں کے ساتھ سوداکرتاہوں۔وہ سودا کیاہے۔وہ سوداہے۔
أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃ
میرے ساتھ معاملہ یہ طے پاتا ہے کہ اے میرے ایمان والے بندو! تم اپنی جانیں 'اپنے مال نقداپنے رب کودوگے اورمیں تمہارے ساتھ جنت کاادھار کرتاہوں۔
سبحا ن اللہ! اللہ نے اپنے قرآن میں کیا زبردست بات سمجھائی ہے۔ اللہ کہتاہے کہ میں تم سے سودا نقد لوں گا مگر میں تمہارے ساتھ ادھار کروں گا ۔جانیں نقد دینی ہیں'مال نقد دینا ہے' جنت کے ادھار پراورجواپناسودا دے کر اللہ کے ادھار پریقین کر لیتاہے'اس کانام ایمان ہے۔یہی اصل ایمان ہے۔
عام طورپر کاروباری لوگوں کے لیے اس طرح سودا کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نقد قیمت اگرلیتے ہو تو نقد مال بھی وصول کریں گے۔ سودے میں ادھار بڑی مشکل چیزہے۔ ہاں ادھار پرمعیشتوں کو استوار کرنے والے سود خورہوتے ہیں۔ سودی نظاموں کو چلانے والے قرض پر سود لینے والے 'دینے والے اوراس حرام کے کاروبار کوکرنے والے۔ جوصحیح سودے کرتے ہیں وہ نقد سودا کرنے کوہی پسندکرتے ہیں۔اپنی قیمت بھی نقد دیتے ہیں۔ مال بھی اسی وقت وصول کرتے ہیں۔ مگراللہ تو جس طرح چاہے سوداکرلے وہ تورب ہے۔اللہ کہتاہے جس نے میرے ساتھ سودا کرناہے'وہ اپنامال اور جان یہاںقربان کردے مگر میں آخرت میں اسے جنت دوں گا۔
میرے بھائیو! یہ جسم اوراس جسم کے اندرجتنی صلاحیتیں ہیں' ہاتھ کام کرتاہے'زبان بولتی ہے' آنکھ دیکھتی ہے'کان سنتے ہیں' دماغ سوچتاہے' دل دھڑکتاہے' ایک پوری مشینری چل رہی ہے۔ اس کے ساتھ صلاحیتیں وابستہ ہیں۔ یہ ساری صلاحیتیں جان کے اندر شامل ہیں اور پھریہ زندگی جووقت ہے۔یہ وقت بڑی قیمتی چیز ہے اور اس کا پتااس وقت چلتاہے جب آخری سانس ہوتاہے اور اس کے بعد کوئی لمحہ انسان کے پاس نہیں ہوتا 'یہ وقت زندگی ہے۔ یہ وقت بھی اللہ کی خاطر 'یہ جسم وجان اللہ کی خاطر اور پھراس کے اندر صلاحیتیں بھی اللہ کی خاطر'یہ سب کچھ ''أَنْفُسَ''میں شامل ہے ' دوسری چیزہے ''وَأَمْوَالَہُمْ '' ''اوران کامال۔''انسانوں کے پاس 'اپنی جان ہوتی ہے۔ یامال ہوتاہے۔یہ گھر مال میں شامل ہے۔ سواری مال میں شامل ہے۔دکان 'زمین مال میں شامل ہے'سب کچھ جان کے علاوہ انسان کاکنٹرول جس چیزپربھی ہو'وہ اس کے ہاتھ میں استعمال کے لیے ہو'وہ سب کاسب مال کہلاتاہے۔
اللہ کہتاہے'ان دونوں چیزوں کاسودا میرے ساتھ کرو۔ نقد کرو'میں تمہارے ساتھ جنت کاادھار کرتاہوں۔ہاں ہوگیا سودا...! مان لیا یااللہ تورب ہے'ہم نقددے کر تیرے ادھار پر یقین رکھتے ہیں۔ توپھراب کرناکیاہے یااللہ؟سودا توہوگیا 'معاملہ تو طے ہوگیامگر اب کرناکیاہے؟
میرے بھائیو! یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے۔یہ سب کچھ ہے توپھربھی اللہ کا ہے کوئی نہ بھی دے تو جب چاہے اللہ جان لے لے' جب چاہے اس پرموت طاری کردے۔ ہے توپھربھی اللہ کا۔ جومانتے ہیں'وہ بھی 'جونہیں مانتے وہ بھی'کنٹرول تو سارا اللہ کا ہے ناں؟ زندگی موت توسب اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن فرق یہ ہے کہ کافرسب کچھ مجبوری کے ساتھ کرتاہے اور مومن اپنے پورے اختیار سے دست بردار ہوکر اللہ کی ہربات کومان کر چلتاہے۔ ہے تو سب کچھ پھربھی اللہ کالیکن مومن کہتاہے یااللہ! میں اپنی خوشیاں بھی تیرے لیے 'اپنی راحتیں بھی تیرے لیے' یااللہ یہ تکلیفیں 'تنگیاں بھی تیرے لیے۔ اپنی دوستیاں بھی تیرے لیے' اپنی دشمنیاں بھی تیرے لیے 'اب میں اپنے لیے کچھ نہیںکروں گا۔میں سب کچھ تیرے لیے کروں گا'یہ ہے یہاں معاملہ۔ اس میں مومن کی رضا شامل ہوتی ہے اور اللہ یہی دیکھتاہے' یہی ہمارا امتحان ہے 'یہی آزمائش ہے۔
جان تواللہ جب چاہتاہے' جس کی چاہتاہے لے لیتاہے لیکن ایک آدمی خوشی سے اپنی جان اللہ کے لیے پیش کرتاہے اور پھر اس کی دلیل کیاہے؟ یادرکھو! ایمان کی دلیل ہمیشہ عمل ہے۔ کس عمل سے ثابت ہوگا؟ کہ اللہ سے سوداہوگیا ۔کس نے اپنی خوشی سے جان'مال اللہ کے لیے پیش کردیا۔ اب اللہ نے خود ہی وہ عمل بتایاہے جس عمل سے ثابت ہوگی یہ ساری بات کہ یہ بندہ سچاہے' کھرا ہے' کس بات سے پتہ چلے گا؟ اللہ فرماتے ہیں:
یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
''یہ اللہ کی راہ میں جہادکرتے ہیں'یہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں۔''سبحان اللہ
اس کی زندگی کالمحہ لمحہ اللہ کے لیے اوراس کی موت اللہ کے لیے ۔
میرے بھائیو! ویسے تونمازبھی ایک عمل ہے 'روزہ بھی ایک عمل ہے۔ کسی عمل میں وقت زیادہ استعمال ہوتاہے' کسی میں مال زیادہ استعمال ہوتاہے'کسی کے اندر بدنی صلاحیت زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔مگرمعاملہ جہادسے کچھ مختلف ہے۔جیسے نماز پڑھی'گھر چلے گئے۔ دکان کی' یہ کیاوہ کیا... بندہ اپنااپنا سلسلہ کچھ وقت یہاں'کچھ وقت مسجد میں'کچھ باہر مگر جہاد وہ عمل ہے جب اللہ کاکوئی بندہ جہاد کرنے کے لیے میدان میں اترتاہے'اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا:
فَإِنَّ نَوْمَہُ وَنُبْہَہُ أَجْرٌ کُلُّہُ۔(ابوداؤد)
اللہ اکبر! اس کاسونابھی اللہ کے لیے'اس کاجاگنا بھی اللہ کے لیے...یہ سورہاہوتاہے پھربھی اجرملتاہے۔ایسا دنیا میں اور کوئی نہیں'نمازی'حاجی'کوئی بڑے سے بڑانہیں۔ نبیﷺ نے جہاد کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا:یہ سورہاہوتاہے۔ فرشتے اس کا اجرلکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کا سونابھی اللہ تعالیٰ اپنے کھاتے میں لکھوا رہاہے۔ اس کاجاگنا'اٹھنا'کھانا'اس کاپینا' سبحان اللہ! اس کا چلنا 'وادیوں میں سفرکرنا' ایک ایک چیزاللہ کی عبادت بنتی جارہی ہے۔
نبی اکرمﷺنے فرمایا:اس کاجوگھوڑاہے'اس کی جو سواری ہے۔یہ سواری پیشاب کرے گی'گھوڑے کی لید' پیشاب' سب کچھ اس کے میزان میں تلے گا۔ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی رکھی ہے جس نے اپنی جان مال کواللہ کے نام وقف کرکے اللہ سے سودا کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ سودا کرلیا اور اس کو جہاد کی راہ دکھلادی۔ اب چل'چل میرانمائندہ بن کے' میرا یہ کام کرکے'میرے دشمنوں نے میری زمین پرقبضے جمارکھے ہیں۔میرے بندوں کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھاہے اور میری زمین کے وسائل پرقبضے جمارکھے ہیں۔
اب اے مجاہدبندے!تونے میری زمین کے قبضے چھڑانے ہیں۔ میرے بندوں کوآزادکراناہے۔ اللہ کے دشمن جب ان چیزوں پر قابض ہوتے ہیں اوران کے قبضوں کی وجہ سے دنیا میں جو ظلم ہوتے ہیں جوفساد ہوتے ہیں جوطبقات کی کشمکش ہوتی ہے جونظاموں کی تباہیاں پھیلتی ہیں'اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے کہتاہے 'اب تونے یہ کام کرنے ہیں۔سب سے بڑے کام ہیں' میری زمین کو بھی آزادکرواناہے'میرے بندوں کو بھی آزادکروانا ہے۔ میرے دیئے ہوئے وسائل ان دشمنوں کے ہاتھوں سے واپس لے کراللہ کے حکموں کے مطابق ان کواستعمال کرکے دنیا میں عدل وانصاف قائم کرناہے۔ اللہ کے دین کوقائم کرناہے۔ اللہ یہ کام سمجھارہاہے۔ اللہ ڈیوٹی بتارہاہے۔
بھائی ایک آدمی نوکر رکھ لیا'اب اس نوکرکاکام کیاہے؟ اس نے کرناکیاہے؟ اللہ تعالیٰ اسے یہ کام اپنے قرآن مجید کے اندر سمجھارہے ہیں۔
یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
یہ فقط مجاہدانسان ہوتاہے جوہروقت اللہ کی راہ میں ہوتا ہے' ہروقت اللہ کے لیے ہوتاہے۔ لوگوں نے اس مفہوم کو نہیں جانا اور نہیں سمجھااس جہاد کو۔دشمنوں نے اس کی اہمیت جان لی۔ اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے یہودیوں نے اسلام کے خلاف نفرتیں پھیلانے والے صلیبیوں 'عیسائیوں اور ہندؤوں نے' ان سب نے جوظلم ڈھائے ہیں'اسلام کو نشانہ بنایا'انہوں نے کبھی رسول اللہﷺ کے خاکے بنائے' کبھی قرآن کی توہین کی' کبھی اسلام پرطعنہ زنی کی۔لیکن تمام چیزوں میں سب سے زیادہ کافروں نے نشانہ کس بات کوبنایا؟دشمنی کس کام سے کی؟
اوبھائیو!وہ قتال فی سبیل اللہ ہے۔ ہمیشہ اس کے خلاف نفرتیں پھیلانا'آج بھی میڈیا کے ذریعے جہاد کاجورنگ پیش کیا جاتا ہے۔ مجاہدین کو جس طرح دہشت گرد بناکر ثابت کیاجاتا ہے۔ یہ خونخواربھیڑیئے'یہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد 'یہ دنیاکے سب سے بڑے قاتل'ظالم آج دھوکہ دینے کے لیے مجاہدین کے خلاف ان کے پروپیگنڈے'دیکھو توسہی۔
اوبھائیو! ان کے پروپیگنڈوں کادکھ نہیں ہے۔ دشمن نے اپنے ہتھیار استعمال کرنے ہیں۔جب دشمن اپنی تدبیریں کرتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کے اکثر لوگوں نے بھی جہاد کونہیں سمجھا۔ ہمارے ٹیلی ویژن پر بیٹھنے والے' تبصرے کرنے والے' ہمارے اخباروں میں لکھنے والے' کتابیں چھاپنے والے'قوم کی رہنمائیاں کرنے والے'یہ سکولوں کالجوں' یونیورسٹیوں میں تعلیم وتربیت کے کام کرنے والے' اونچی اونچی ُکرسیوں میں بیٹھ کر حکمرانیاں کرنے والے... اسٹیبلشمنٹ کواپنے ہاتھ میں لے کرقوم کے فیصلے کرنے والے'اللہ گواہ ہے سب سے زیادہ یہ لوگ اپنے آپ کومسلمان کہلواتے ہیںلیکن سب سے زیادہ جہاد سے ناواقف ہیں۔ دنیاکے پروپیگنڈوں سے متاثر'دباؤ کا شکار ہیں۔
میرے بھائیو! سن لو! جب بندہ اللہ کے سامنے نہیں جھکتا تو ہرکسی کے سامنے جھکتاہے۔ جہاد وہ عمل ہے جو یہ بتاتاہے' جویہ تربیت کرتاہے کہ جھکناصرف اللہ کے سامنے ہے 'حکم مانناصرف اللہ کاہے'وہی رب ہے 'وہی بڑا ہے'اسی کے دین کواونچاکرنا ہے اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے جھکنانہیں ہے'ان کے سامنے دبنا نہیں ہے۔ اللہ اکبر...
اللہ کہتاہے دیکھوجہاد کرنے والے میرے نبیﷺ میدانوں میں کھڑے ہونے والے اورمیرے نبیوں کے ساتھی دیکھو ذرا' کیا خوبیاں ان میں پیداہوتی ہیں۔ کیا تربیتیں جہادکی وجہ سے ہوتی ہیں۔
بڑی بڑی تکلیفیں 'بڑی بڑی مشکلیں پیش آتی ہیں لیکن ان کے اندر نہ بزدلی'نہ پژمردگی 'نہ مایوسی 'کوئی چیز ان کے اندر پیدا ہوتی ہی نہیں۔ حالات کچھ بھی ہوں 'یہ میدانوں میں ڈٹ کر اللہ کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔
ان میں وہن پیدانہیں ہوتا۔
نبی اکرمﷺسے پوچھاگیااے اللہ کے رسولﷺ! یہ وہن کیاہے؟ نبی ﷺنے فرمایا :میرے ساتھیو! ایک وقت آنے والا ہے جب مسلمان اس کمزور پوزیشن میں ہوں گے کہ کافر قومیں لقمے بنابناکر کھائیں گی 'جیسے دسترخواں پر پڑا ہوا کھانا ہوتاہے اور بھوکے نوچ نوچ کر کھارہے ہوتے ہیں۔فرمایا:میری امت پہ ایک وقت آنے والاہے کہ مسلمان'مسلمانوں کے اموال' مسلمانوں کے ملک'ان سب کی حالت کیاہوجائے گی؟
فرمایا:دسترخوان پرپڑے ہوئے کھانے کی مانند ہوگی اور کافر قومیں اللہ کے دشمن یہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح نوچ نوچ کر لقمے لقمے بناکے کھائیںگے۔ کیاوجہ ہوگی؟
فرمایا:وجہ یہ ہوگی 'جس طرح سمندر کے اوپر جھاگ توبہت ہے لیکن اس کوہاتھ لگاؤ توبے جان ہوتی ہے یعنی مسلمانوں کی تعداد توبہت ہوگی' ملک بھی ان کے بہت ہوں گے 'حکومتیں بھی ان کی بہت ہوں گی 'سب کچھ ہوگا'مگرحالت یہ ہوگی جب قریب جاؤ تو پتہ چلے گا کہ سارے ہی سمندرکی جھاگ کی طرح بے جان ہیں ۔ ان کی حکومتیں بے جان اوران کے عوام بے جان'ان کے معاشرے 'ان کے ملکوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:کہ یہ کیفیت وہن سے پیدا ہو گی۔ صحابہ کرامyنے پوچھا اے اللہ کے نبیﷺوہن کیا چیز ہوگی کہ جو اس امت کو اتنانقصان پہنچاجائے گی؟
یہ اللہ کے نبیﷺکی باتیں ہیں۔یہ باتیں آج ہم لوگوں کو بتارہے ہیں'سمجھارہے ہیں'اپنی بات نہیں کررہے۔ اللہ کے نبیﷺکی بات بتارہے ہیں اور یادرکھو! نبی اکرمﷺ کی بات بھی اپنی نہیں ہوتی 'وہ بات بھی اللہ کی بات ہوتی ہے اور سب سے قوت والی بات ہوتی ہی اللہ کی ہے۔ اللہ اکبر
نبی اکرمﷺنے فرمایا:میری امت میں جب دوچیزیں پیدا ہو جائیںگی توان کووہن کامرض لگ جائے گا۔ایک'' حب الدنیا'' دنیاکی محبت بہت بڑھ جائے گی اورذہنوں پر دنیاسوارہوگی' صبح وشام دنیاکے حصول کے لیے ساری محنتیں'منصوبے'سب دنیا کے پیچھے پڑجائیں گے اور دوسری بات یہ کہ وہ موت جواللہ کی راہ میں آئے گی جو جہاد کے رستے میں آتی ہے'جس کانام شہادت ہے' میری امت اس شہادت سے بھاگے گی۔جہاد کے رستے سے اور جہاد کی موت سے پیچھے ہٹ جائے گی۔دنیا کی محبت ان کے اندر بڑھ جائے گی 'اس کی وجہ سے وہ وہن پیداہوگا جس کے ساتھ حکومتیں بزدل ہوجاتی ہیں'قومیں بزدل ہوجاتی ہیںاور وسائل ' قوتیں رکھنے کے باوجود بے اثرہوجاتی ہیں اورمنڈی کامال بن جاتی ہیں۔دستراخوان پرپڑے ہوئے کھانے کی مانند ہوجاتی ہیں اور دشمن نوچ نوچ کے ان کوکھاجاتے ہیں۔
میرے محترم بھائیو! اللہ کے لیے سوچو!کیا آج بالکل یہ کیفیت مسلمانوں کی نہیں ہے۔ کیا بالکل آج یہی کیفیت ہمارے حکمرانوں کی نہیں ہے؟ ہے کوئی اثر 'کوئی دشمنوں کے اوپر ان کا رعب؟
نبی اکرمﷺفرمارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے جو امتیازات عطافرمائے ہیں'وہ امتیازات 'خصوصیات میں سے ایک چیز یہ ہے :
نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۔(بخاری)
ایک مہینے کے فاصلے پربیٹھاہوا میرادشمن تھرتھرکانپ رہا ہوتا ہے۔ جب میرانام اس کے سامنے آجائے ۔
یہ اللہ کے نبیﷺ کی پہچان ہے... لوگوں نے جب سیرت کے جلسے کیے توصرف حلیہ مبارک بیان کیا۔ نبیﷺکے ہونٹ ایسے تھے'نبیﷺکے رخسار ایسے تھے'نبیﷺکی آنکھیں ایسی تھیں...لوگ کیاکیاباتیں کرتے ہیں'کیانقشے پیش کرتے ہیں۔
محمدﷺکی سیرت سنو! ذرا سمجھو۔دنیاکی سب سے بڑی طاقت قیصروروم'پوری دنیا پہ حکمرانی 'نبیﷺخط لکھ رہے ہیں'میرا نبیﷺا س وقت جہاد میں کھڑاہے۔ قبائل عرب سے ٹکر لگی ہوئی ہے۔ یہودیوں کی دشمنی انتہاپر پہنچی ہوئی ہے۔ بنوغطفان اوردیگر قبائل نجدو حجازمیرے نبیﷺپر باربارحملے کررہے ہیں۔ مدینہ خطرات کی زدمیں آیاہواہے۔ نبی اکرمﷺ ان خطرات میں خط لکھ رہے ہیں۔کسریٰ کو خط جارہاہے' قیصرِروم کوخط جارہاہے۔ یمن کے سربراہ کو مصرکی سلطنت کو'ان سب کومیرے نبیﷺ مدینے میں بیٹھ کے خط لکھ رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں میرے بارے۔ تم بولتے ہوتوپاکستان مصیبت میں آجاتاہے۔ ہمارے لیے بڑی پریشانیاں کھڑی ہوجاتی ہیں'تم خاموش رہاکرو۔تمہاری وجہ سے بڑے مسئلے بنتے ہیں ۔
اوبھائیو! کیاحالت ہے۔سبحان اللہ 'جہاد جاری ہے۔ میرے نبیﷺ نے بیٹھ کرخطوط لکھے۔نبی اکرمﷺ کا قیصر روم کے پاس خط پہنچتاہے۔کوئی لمبی چوڑی بات نہیں ہے۔سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھاہے۔ صحیح بخاری میں سارا خط'خط کے مندرجات والفاظ محفوظ ہیں۔
نبی اکرمﷺ اس خط میںسب سے پہلے بسم اللہ لکھتے ہیں اوربعدمیں لکھتے ہیں یہ اللہ کے سچے نبی محمدﷺ کی طرف سے پیغام ہے۔خط ہے''الیٰ عظیمِ روم''دنیاکا سب سے بڑا بادشاہ سمجھاجاتاہے۔ قیصرِ روم 'اس کے لیے ۔مسلمانوں کے آخری نبیﷺکایہ پیغام پہنچ رہاہے یہ لکھنے کے بعدکیافرمایا:
السَّلَامُ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْہُدَی۔ (بخاری)
سلامتی ہے اس پرجوہدایت پرہے ۔
آگے لکھتے ہیں'ہم اسلام کی دعوت کے لیے کھڑے ہیں' ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں' اسی میں ساری سلامتی ہے۔ اس دعوت میں' سلام قبول کرنے میں بچاؤ ہے۔ اسلام قبول کرلو' بچ جاؤ گے ۔تمہاراسب کچھ بچ جائے گا۔
نبی اکرمﷺکاسادہ ساخط ہے۔ توقیصر سارے وزیروں ' مشیروںکواکٹھاکرکے کہتاہے۔ بھئی یہ خط مدینے سے آیاہے۔ سارے غصے میں آگئے۔قیصرکے وزیر بھی' مشیر بھی' اس کی فوج کے جرنیل بھی'بڑے غصے میں آگئے۔ کہنے لگے ان لوگوں کوخط لکھنے کی جرأت کیسے ہوئی؟کیاحیثیت ہے ان کی؟
بادشاہ ہمیں ایک دفعہ حکم دے دیں ہم مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ہم نہیں برداشت کرتے کہ یہ خط ہمارے قیصر کو لکھاجائے اورلکھناوالامدینے کے اندر 'بیٹھنے والاایک شخص 'جن کو کھانے کے لیے روٹی تک نہیں ملتی 'جن کو پہننے کے لیے جوتا نہیں ملتا۔ جن کے پاس دنیا کی چیزیں نہیں ہیں'وہ ہمیں اس قسم کی باتیں کہیں'قیصرکہتاہے'اپنے وزیروں 'مشیروں سے' فوج کے جرنیلوں سے کہ تم اس خط کو سن کرغصے میں آگئے ہولیکن میں اس کوپڑھ کرکچھ اور دیکھ رہاہوں' مجھے تویہ نظرآرہاہے کہ بہت جلد وہ دن آنے والا ہے 'جس تخت پرآج میں بیٹھاہوں اورتم سے ہمکلام ہوں' محمدﷺ کے ساتھی آئیں گے'ساری زمین ہم سے کھینچ کے لے جائیں گے' نہ میرا تخت رہے گا'نہ یہ تخت کے نیچے کی زمین 'ہمارے ہاتھوں میں رہے گی'نہ تمہارے پاس یہ ملک رہے گا۔ کچھ بھی نہیں رہے گا۔ وہ مدینے میں بیٹھنے والاایک شخص 'اس کے ساتھی آنے والے ہیں ' کچھ بھی تمہارے پاس نہیں رہے گا۔ آج بھی اللہ جانتاہے 'مسئلہ یہی ہے۔ ماشاء اللہ جہاد جاری ہے۔ اس جہاد نے اللہ کے فضل سے روسیوں کامنہ توڑ کر رکھ دیا۔امریکہ کو اس کے اتحادیوں سمیت مشکلات سے دوچار کردیا' ساری ٹیکنالوجی کابھرم نکل گیا۔یہ میزائل اورسیٹلائٹ کچھ نہںک کرسکے' ساری ٹیکنالوجی فیل ہوگئی اور آج اس 21ویں صدی عیسوی اور15ویں صدی ہجری میں ٹیکنالوجی کے دورمیں کمپیوٹر کے دورمیں' ایٹمی قوتوں کے دورمیں' یہ بات آج میدانوں میں ثابت ہوئی کہ ہرچیز سے بڑی قوت ایمان کی قوت ہے۔ یہ میں صدیوں پرانی بات نہیں کررہا'میں تو آج کی بات کررہاہوں۔ آج میدانوں میں جوکچھ ہورہاہے آج کامسئلہ بھی جہادہے۔ دنیاکوسمجھ نہیں آرہی ہے۔دماغ خراب ہوگئے ہیں' ان امریکیوں کے۔ان کو سمجھ نہیں آرہی کریں گے کیا؟
اور جو ان کے ایجنٹ یہاں بیٹھے ہیں'ان کو بھی سمجھ نہیں آرہی۔ یہ تبصرے کرنے والے لوگوں کو بدھوسمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پہ آج امریکیوں کی حمایت کرنے والے'آج ان کوبڑی بڑی طاقتیں بیان کرنے والے' یہ سمجھ حقیقت میں ان کوبھی نہیںآرہی کہ امریکہ کے ساتھ بن کیاگیا۔ان 11,10سال کے اندرکیابن گیا'ان کے ساتھ؟
اوسن لو! تم کافروں کے نوکر' تم کافروں کے شاگرد 'صلیبیوں ' یہودیوں سے PHD کی ڈگریاں لے کے اوریہ پڑھ کر'لکھ کر' تربیت حاصل کرکے تم آئے ہو' اوتم نے یہ علم پڑھاہی نہیں ہے۔ آؤ ان سے پوچھو جنہوں نے اللہ کاقرآن پڑھاہے ۔جنہوں نے جہاد پڑھا ہے۔ جنہوں نے اپنے نبی ﷺسے سیکھاہے۔ نبیﷺکے صحابہ کرام y سے یہ عمل سمجھے ہیں۔ان سے سن لو! سمجھ لو! میں بتاتاہوں' اللہ کے فضل سے'کیاہوگیاہے 'ان کے ساتھ؟ اور پھر ہونے والا کیاہے؟ ان شاء اللہ ان کے ساتھ۔
مجھ سے سن لو'یہ جہادہے'جہاد میں بہت تھوڑا کردار انسانوں کاہوتاہے اوربہت زیادہ کردار آسمانوں کے اللہ کے فرشتوں کاہوتاہے ۔یہ تمہاری سوچ سمجھ سے بالاہے۔
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا سَبَقُوْا إِنَّہُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ o(الانفال:59)
''اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ہر گز گمان نہ کریں کہ وہ (بچ کر) نکل گئے، بے شک وہ عاجز نہیں کریں گے۔''
یہ جہاد کی سورت ہے 'جب مسلمان کمزورحالت میں تھے' کافربڑی طاقت قوت میں تھے'اس موقع پر اترنے والی یہ آیت کیافرمارہی ہے'کیاسمجھارہی ہے؟قرآن کی اس آیت میںاللہ چیلنج کر رہے ہیں۔
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ ......!
وہ کافر جنہوں نے بڑی تیاریاں کیں'بڑی قوتیں جمع کیں۔اللہ کہتاہے میراسب کوچیلنج ہے'جب تم اس جہاد کے مقابلے میں آؤگے 'تمہیں انسانوں سے نہیں'انسانوں کے رب سے لڑناپڑے گا۔
إِنَّہُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ o(الانفال:59)
تمہاری ساری ٹیکنالوجی تمہارے سٹاروارکے پروگرام اور تمہارے سیٹلائٹ سسٹم 'تمہارے میزائل سسٹم' اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یہ سب کچھ مل کے انسانوں کے رب کوشکست نہیں دے سکتے۔یہ قرآن ہے لیکن ماننے والے آج کہاں ہیں؟ کتنے ہیں جو اللہ کاکلام سمجھ کر آج کی دنیامیں 'آج کے حالات میں' اس کو تسلیم کریں'یہ بھی اللہ کی توفیق ہے جس کو اللہ توفیق دیتاہے'وہ مانتاہے' وہ سمجھتاہے' بصیرت کا دینا'صلاحیتوں کادینا'یہ بھی اللہ کاکام ہے۔ تو یہ سارا معاملہ 'افغانوں کا' نہ مجاہدوں کا' ٹھیک ہے تھوڑا بہت حصہ ہوگا'اگلی آیت میں بات اور واضح ہوتی ہے۔
وَأَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآَخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمُ اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔(الانفال:60)
''اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کر سکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈرائو گے، جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔''
اللہ کہتاہے میرے بندو'او ایمان والو! میں نے تم پر جہادفرض کردیا'اپنے دشمنوں کے مقابلے میں کھڑا ہوکر تم نے کام کرناہے۔ تمہاراذمہ صرف اتناہے کہ جووسائل تمہارے پاس ممکن ہیں جوتم کرسکتے ہو وہ تم کروگے 'جوتم سے نہیں ہوگا'وہ تمہارا رب کرے گا۔ بس!یہ نہیں کہ برابر کی ٹیکنالوجی ہوگی توپھر ہم جہاد کریں گے۔ یہ بڑے بڑے دانشور سمجھدار لوگ'مخلص بھی 'میں غیرمخلص نہیں کہتالیکن ان کو پتہ نہیں ہے۔ان کے پاس قرآن کی بصیرت نہیں ہے۔
آج تعلیمی اداروں سے جو سبق ان کو ملے ہیں'جو ذہن ان کو ملے ہیں جو تربیتیں ان کو ملی ہیں'اس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں یہ اشکالات ہیں'سوالات ہیں۔
میرے بھائیو! اللہ نے اپنے مومن بندوں کے ذمہ صرف اتناکام لگایاہے کہ میرے بندو! جو تمہارے پاس ہوسکتاہے ' جو تیاری تم کرسکتے ہو'جوسواریاں تم جمع کرسکتے ہو' بس تم وہ کرلو' پھر اللہ تعالیٰ میدان خود سنبھال لے گا۔
تُرْہِبُوْنَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّکُمْ
اللہ کہتاہے تم اپنے وسائل میں رہ کر تیاری کرو گے ' اللہ تمہارا رعب دشمنوں کے دلوں میں ڈالے گا۔
وَآَخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ
کچھ دشمن توتمہیں سامنے نظرآئیں گے 'تم ان کے بارے میں پلاننگ بھی کرسکتے ہو'اپنے بچاؤ کی تدبیریں بھی کرسکتے ہو لیکن اللہ کہتاہے کچھ دشمن وہ ہوں گے جو تمہیں نظرنہیں آئیں گے۔ ان کی تدبیروں 'منصوبوں سے تم واقف نہیں ہوگے۔ اندر ہی اندر وہ تمہارے خلاف کیاپلان کررہے ہوں گے لیکن اللہ کہتاہے میرے بندو!پروا نہیں کرنی'پریشان نہیں ہونا'
وَآَخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ
کیاہوا اگر تمہیں معلومات نہیں ہیں۔تم ان چھپے دشمنوں سے واقف نہیں ہو۔ان کی تدبیروں سے آگاہ نہیں ہو' پر تمہارا رب توسب کچھ جانتاہے۔
اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ
اللہ توجانتاہے۔ اللہ ضمانت دیتاہے کہ نہ خفیہ تدبیریں تمہیں نقصان پہنچائیں گی'نہ یہ سامنے کے دشمن تمہارا کچھ بگاڑ سکیں گے لیکن فائدہ یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہادکرو اور پھر اللہ کی راہ میں جہادکیاہے؟
بھائی یہ نہیں ہے یہ کافر'یہ کافر' اس کومارو' اس کوقتل کرو' خودکش دھماکے' ملکوں کے اندر فلاں کو نشانہ نہ بناؤ...حکومتوں کو نشانہ بنالو' ایک یہودی مارنے کاثواب اورایک سعودی کو مارنے کا ثواب برابر ہے۔ ایک امریکی کومارنااوریہ پاکستان کے اندر جو لوگ بستے ہیں'ان کومارنا برابرہے۔
اومیرے بھائیو!
اورکوئی جہاد 'جہادفی سبیل اللہ نہیں۔جونبی اکرمﷺکے طریقے پرنہیں۔نبی اکرمﷺنے مدینے میں جہاد کیاہے۔مدینے میں اس وقت یہودی بھی رہتے تھے'مدینے میں اوس خزرج کے مشرک کافربھی رہتے تھے'جوابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ عبداللہ بن ابی جیسے منافق بھی رہتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے نبیﷺ کو' مدینہ طیبہ کو اوراسلام کو بڑا نقصان پہنچایاتھا۔ مگرنبی اکرمﷺ نے کیا طریقہ اختیار کیا'مدینے میں بیٹھ کر یہودیوں سے بھی معاہدہ کرلیا۔ اوس خزرج کے مشرکوں کافروں سے بھی مدینے کے دفاع کا عہدباندھ لیا اور عبداللہ بن ابی جیسے منافقوں کوبھی اپنی مشاورت میں شریک کرکے ان کی چال سے بچنے کے رستے اختیارکیے۔ مدینے میں نہ تلوار اٹھائی 'نہ کسی کواٹھانے کی اجازت دی اورمیرے نبی اکرمﷺنے جہاد کن کے خلاف شروع کیا؟وہ دشمن جنہوں نے گھروں سے نکالاتھا۔
قرآن خود بیان کرتاہے ۔
الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ۔(الحج:40)
جنہوں نے مسلمانوںسے گھر چھینے تھے'جنہوں نے مسلمانوں کے کاروبار چھینے تھے'جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے' جنہوں نے ان کو ہجرتوں پرمجبورکیاتھا'ان ظالموں کے خلاف میرے نبیﷺنے جہاد کیا۔
میرے بھائیو! سن لو'جہاد ہوتاہی ظلم کے خلاف ہے۔ پر کافر کے خلاف جہادنہیں اورصرف مرنا'مارنا'گولیاں چلانا اور صرف اسی کانام جہادنہیں۔ قرآن میں جہادکابھی طریقہ ہے'جہاد کے قواعد و ضوابط مقررہیں۔
اللہ کے نبیﷺ کی سیرت میں ان شاء اللہ ان سے سمجھنا ہے' اپنی مرضی سے کچھ نہیںکرنا' سن لو! آج ہماری دشمنی انتہا پہ کیوں پہنچی ہے؟
پاکستان میں لڑائیاں ہم نے نہیں لڑنی۔ پاکستان کے اندر جھگڑے کھڑے نہیں کرنے۔پاکستان کے اندر دشمنیاں نہیں پالنی۔ پاکستان کے اندر کفرکے فتوے لگاکر ہم نے یہ افراتفری کھڑی نہیں کرنی۔ پاکستان کے امن کو اس طرح محفوظ کرناہے جیسے میرے نبی ﷺ نے مدینے کے امن کومحفوظ کیاتھا۔
اوبھائیو! آج ما شاء اللہ میدانوں میں پارٹیاں' جماعتیں بہت ہیں۔ سب مخلص لوگ ہیں'میں کسی کاانکارنہیں کرتا۔ لیکن ہماری دشمنی انتہا پہ کیوں؟ یہ ہے مسئلہ... کہ ہم نے اللہ کے فضل وکرم سے کافروں کے لیے رستے نہیں چھوڑے۔اب ہم الحمدللہ اپنے اس دعوت وجہادکے ساتھ اللہ کے دشمنوں کے رستے بند کر رہے ہیں۔ان کی مداخلتوں کے رستے بند کررہے ہیں۔ان کی CIA کی پلاننگ ہم جانتے ہیں۔کیوں آیاتھاریمنڈڈیوس؟ کیا کیاانہوں نے 'کیانقصان پہنچایااس ملک کو؟
الحمدللہ ہم ان باتوں کوسمجھتے ہیں اورسب کوسمجھاتے ہیں۔ سب اکٹھے ہوجاؤ مسلمانو! تمہارے ملکوں میں جو ہندورہتے ہیں' وہ بھی آپ کے ساتھ عہد باندھ چکے ہیں 'کسی کافر کوبھی مسلمان ملک میںقتل کرنے کااس کے خلاف تلوار اٹھانے کا اللہ کی شریعت ' اجازت نہیں دیتی۔ اس ملک میں اقلیتیں رہتی ہیں' عیسائی رہتے ہیں۔ سبحان اللہ! جیسے میرے نبیﷺنے سب کو دفاع کے مسئلے پر باقاعدہ معاہدے کرکے 'میثاق کرکے مدینہ محفوظ کیا'ایساآج بھی کرناہے۔
پڑھو سیرت رسول کو' سیرت ابن ہشام کو'تاریخ طبری کو' پڑھو! آنکھیں بند نہ کرو۔آج یہ لائحہ عمل ہے ہمارا۔ہم سے انڈیا کو بڑی پریشانی ہے اور اس سے زیادہ امریکہ پریشان ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم ان شاء اللہ خالص دین پر ہیں'جتنے یہ پریشان ہیں' جتنی یہ دشمنی کی انتہا پرہیں'ہمارا رب ان شاء اللہ اتناہی ہم سے خوش ہوگا۔ان کوتکلیف واقعی پہنچی ہے۔
اوبھائی! میری ذات کامسئلہ نہیںہے۔ الحمدللہ اصل عقیدہ ' اصل منہج ہے۔ ساری قوت اسلام میں'ساری طاقت اللہ کے نبیﷺکے طریقے میں۔اپنے بنائے ہوئے طور طریقے میں کوئی طاقت وقوت نہیں ہے'کوئی اثر تاثیر نہیں ہے۔ کوئی یہ دعوت تبلیغ نہیں ہے۔ توالحمدللہ وہ طریقہ جو محمدرسول اللہﷺ نے اختیارفرمایا آج ہم بھی دعوت کاوہی طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دعوت دلیل سے ہے'دعوت اخلاق سے ہے۔ہم توکہتے ہیں اوامریکیو! بھاگ جاؤ'ظالمو! نہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھو' نہ بلوچستان میں فوجیں اتارنے کی کوشش کرو اوربلوچستان کی علیحدگی کی تحریکیں نہ چلاؤ ۔گوادرپورٹ اورپھروسط ایشیا کے لیے رستے بنانے کی کوشش نہ کرو اور بلتستان 'گلگت'ہنزہ کے مسئلے کھڑے کرکے' کوہستان کے مسئلے کھڑے کرکے'سیاچن کی بلند چوٹیوں پر اڈے بنانے کے خواب دیکھنا چھوڑدو۔ پاکستان چین کے رستے منقطع کرنے کے لیے تم جوانڈیا کے ساتھ مل کر پلاننگیں کررہے ہو' یہ منصوبے چھوڑ دو'جاؤبھاگ جاؤ... ان شاء اللہ تمہیں دعوت دیں گے' تمہاری بڑی مشنریاں ہمارے ملکوں میں آئیں۔NGO's کے ذریعے تم نے اپناسب کچھ پیش کرکے دیکھ لیا۔
اب ان شاء اللہ باری ہماری ہے۔کوئی لڑائی جھگڑے کامسئلہ نہیں کھڑاکرناچاہتے۔ہم ان شاء اللہ اپنے نبیﷺکے طریقے پردعوت دیں گے۔کافروں کو بھی ان شاء اللہ دعوت دیں گے اور دعوت دلیل سے ہے'دعوت اخلاق سے ہے۔ دعوت نرم رویوں سے ہے'دعوت گولی سے نہیں ہوتی'دعوت تلوار سے نہیں ہوتی'دعوت خون بہانے سے نہیں ہوتی' دعوت کے میدان میں صبر کرنا ہوتاہے۔ یہ باتیں ہم نے اپنے نبیﷺ سے سیکھیں ہیں' یہ دعوت ہم نے اپنے سلف سے سیکھیں ہیں۔
انبیائp کامنہج جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کرکے دعوت سمجھائی ہے'ہم نے اللہ کے قرآن سے یہ سیکھاہے تو جاؤ نئے منصوبے بند کرو۔افغانستان میں تم نے ظلم ڈھائے ۔سات لاکھ مسلمانوںکوشہید کیا۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت ورسوائی اور شکست سے دوچارکیا۔اب پاکستان پرللچائی نظریں رکھنابند کرکے واپس جاؤ۔ ان شاء اللہ دعوت کے لیے آئیں گے اور اگر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک اٹھاؤگے اوران سرداروں پر دباؤ ڈال کے بین الاقوامی سطح کے اوپر سازشیں کرکے بلوچوں کے حقوق کے مسئلے کھڑے کر کے تم نے سازش کرنے کی کوشش کی اوراپنے فوجی بلوچستان کے اندر اتارنے کی کوشش کی توپھرصاف اورکھری بات ہے۔پھر ہر ایک کو اپنے ملک کے دفاع کا حق حاصل ہے۔افغانستان میں تمہیں شکست ہوئی تھی۔ ان شاء اللہ اس خطے میں تمہارے پرزے بھی اڑیں گے اور تمہارے صوبے بکھرجائیں گے۔دنیااس مسئلے کو دیکھے گی ۔
اوبھائی! میں یہ کہتاہوں اس لیے مجھ سے بڑی پریشانی ہے' بڑی تکلیف ہے ۔کیاخیال ہے 'ان کی بدمعاشیوں سے کوئی تکلیف نہیں'ان کے ڈرون حملے ہوتے رہیں'ڈرون حملوں کے نتیجے میں خودکش حملے ہوتے رہیں کوئی تکلیف نہیں ؟ہمارا ملک تخریب کاری کی آماجگاہ بن جائے' دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے ہمیں کوئی تکلیف نہیں؟ تم بیٹھ کرجوپلاننگیں کرتے ہو' انڈیا کے ساتھ جوخفیہ معاہدے کرکے پاکستان کو انتقام کانشانہ بنانے کے لیے یہ جوکھیل کھلیتے ہو'کیاہمیں اس کی کوئی تکلیف نہیں؟ ٹھیک ہے میدان ہے'ان شاء اللہ کھلامیدان ہے' بھائیو! اللہ کے حکم پر چلیں گے'ا ن شاء اللہ میرا رب کل بھی مدد کرتاتھا'آج بھی مدد اسی کی ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ امریکہ اتناذلیل ہوا 'اتناذلیل ہوا ' رات میں وہ منظر دیکھ رہاتھا۔واشنگٹن میں امریکہ کے وزارت خارجہ کا ترجمان میرانام لے کے سب صحافیوں کے سامنے کہ جی ہم نے سر کی قیمت اس لیے مقرر کی ہے کہ ہم تواس کے خلاف ثبوت جمع کر رہے ہیں اورہم لالچ دے رہے ہیں لوگوں کوکہ کوئی لالچ میں آکر اس کے خلاف ثبوت ہمارے پاس لے آئے۔ صحافیوں نے پوچھااس کامطلب ہے تمہارے پاس ثبوت ہے ہی نہیں۔
واللہ! اس کے الفاظ سن لو۔ جیونے بھی یہ کلپ چلایا'پھر ترجمان ایسابوکھلایا ...میرے بھائی سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوتاہے۔ آگے سے کیاجواب دیتاہے۔ کہتاہے اس میں کوئی شک نہیں حافظ سعید کے خلاف ہمارے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ہم اس کو اس قدر سخت سزا دیں' اپنی عدالتوں میں اس کے خلاف مقدمہ درج کرسکیں۔ ہم توچاہتے ہیں لوگ ہمیں ثبوت لالاکر دیں تولوگوں نے کہاجب تمہارے پاس ثبوت نہیں ہے توتم نے قیمت کیوں مقرر کردی اور تم نے ان پر دہشت گردی کاالزام لگاکے ساری دنیامیں یہ شور کیوں مچادیا؟
سبحان اللہ! آگے اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ الحمدللہ! بھائی یہ میدان ہے۔ مدد اللہ کی ہے۔ ہم کوئی چھپے بیٹھے نہیں ہیں۔ ہم جہادکے ساتھ دعوت کے میدان میں ہیں۔ اگر دعوت اوپن ہوتی ہے توالحمدللہ ہمارا ایک منہج ہے۔نبیﷺوالا یہ طریقہ ہے ۔ وہی رسول اللہﷺوالا'الحمدللہ اس کے اوپر اللہ کے فضل و کرم سے کھڑے ہیں۔مدد ساری آسمانوں سے اللہ کے نبیﷺ کے طریقے پرآتی ہے اور ہم اپنے اللہ کی مدد کو اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ ذلیل ہواہے۔ ان شاء اللہ اورہوگا۔ انڈیااس سے زیادہ ذلیل ہواہے اورہوگا ۔
اللہ کے فضل وکرم سے وقت قریب ہے'مسئلہ میری ذات کا نہیں ہے۔ مسئلہ اسلام کاہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس خطے سے شکست کھاکر امریکہ اوراس کے اتحادی جب واپس پلٹیں گے تو ان شاء اللہ خلیج میںرک سکیں گے نہ مشرق وسطیٰ پر رک سکیں گے'نہ یہ تیل پر قابض رہ سکیں گے'نہ معدنیات ان کے قبضے میں رہ سکیں گی اور وسط ایشیاء کے خواب بکھر چکے ہیں۔ خلیج سے ان کو نکلناپڑے گا۔ یہ سوچ رہے ہیں 'یہ دیکھ رہے ہیں'اس وقت ان کی شکست صرف امریکہ کی شکست نہیں 'پورے کفر کی شکست ہے۔سارے مغرب کی شکست ہے۔الحمدللہ!
تومیرے محترم بھائیو! ان شاء اللہ اس کانتیجہ کیا ہوگا؟ اللہ کا دین چمکے گا'اسلام کی دعوت کے حقیقی رستے کھلیں گے۔ مسلمانوں کا اتحاد اورکام کرنے کے طریقے ہر مسلمان کو ان شاء اللہ نظر آئیں گے 'نہ ان کے نظام رہیں گے'نہ ان کے ڈھانچے رہیں گے' روس گیا تو اس کاکیمونزم چلاگیا۔ امریکہ جائے گا تواس کا سرمایہ دارانہ نظام'اس کے سیاسی معاشی نظام'طورطریقے اور برطانیہ ' فرانس اورجرمنی کے نظام' معاشی 'سیاسی نظام ان شاء اللہ سب ختم ہوں گے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا دین اسلام قائم ہوگا۔ یہی ہمارا کام ہے۔اس کے اوپر اللہ کے فضل سے جماعتوں کو جمع کر رہے ہیں' لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں اور یہ منہج رسولﷺہے۔
الحمدللہ ہمارے لیے اللہ کی مددبہت زیادہ ہے۔ تومیرے محترم بھائیو! ہمیں اپنے اللہ کاشکرادا کرناچاہیے۔ سچی بات ہے کہ اپنے دین پہ قائم ہوجاؤ۔میرے عزیز بھائیو! میں اللہ کے لیے نصیحت کرتاہوں'اپنے آپ کو بھی اور آپ سب کو' اصل چیز اسلام ہے' اصل اللہ کاقرآن 'نبیﷺکی سیرت ہے۔ ساری قوت اللہ کے دین میں ہے'انسانوں میں کچھ نہیں'ہتھیاروں میں قوت نہیں۔ساری طاقت اللہ کے سچے دین میں ہے۔ اس دین کواپنا اوڑھنا بچھونا بنالو۔ آج اتنی بڑی تعداد میں جمعہ پڑھنے کے لیے آنے والو! خبریں سن کر متاثر ہونے والو! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں'آؤ اللہ کے دین پرقائم ہوجاؤ'اپنے گھروں میں اللہ کادین قائم کرلو۔عورتوںکوپردے کرواؤ'گھر سے بے حیائی کے سلسلے نکالو۔اولادوں کی تربیت اسلام پرکرو۔ تمہارے گھر میں قرآن کی آواز گونجنی چاہئے... اورتمہارے گھروں میں یہ گانے بجانے' یہ کھیل تماشے 'یہ شیطانی آوازیں نہیں ہونی چاہئیں'قرآن رحمانی آواز کا نام ہے۔ اللہ کے کلام کانام ہے۔ اپنے گھروں کے نقشے بدلو' اپنے گھروں کے کام تبدیل کرو' اپنی دکانوں کوخالص اسلامی رنگ میں لاؤ۔اپنے کاروبار اللہ کے دین کے مطابق کرو۔ یہ میری نصیحت ہے اور اس مال سے اپنے لیے رکھو'باقی یہ مال اللہ کے لیے پیش کرو' اس کے ساتھ ان شاء اللہ تم نے سودا کرناہے اللہ کی جنت کا۔ہاں اللہ کے لیے پیش کرنا۔ان شاء اللہ
اؤبھائیو! گھروں پرکروڑوں کی رقمیں خرچ نہیں کرنی' جہاد کا دورشروع ہوچکاہے۔ کفرکے ساتھ مقابلے کادور شروع ہو چکاہے۔اب یہ زیبانہیں ہے کہ مسلمانوں کے لیے کہ دولتوں کو اپنے ذاتی مصارف میں'کروڑوں اپنے گھروں کے بنانے' کروڑوں اپنے گھروں کوچلانے اور یہ عیاشیاں کرنے میں مال خرچ نہ کرو' اس مال کو اپنے لیے ضرورت کے مطابق رکھو اورباقی اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔یہ دعوت ہے محمدرسول اللہﷺ کی یہ تربیت کی ہے' اللہ کے نبیﷺنے صحابہ کرامy کی ۔اگرچاہتے ہو میرے مسلمان بھائیو! کہ تم بھی نبیﷺکے صحابہ کرامy کے ساتھ ہوجاؤ 'تمہاراحشربھی نبیﷺکے صحابہ کرامy کے ساتھ ہو جائے۔توتم آج اس پندرہویں صدی میں نبیﷺکی جماعت کے افراد بن کر زندہ رہو اور قیامت کے دن نبیﷺکے ساتھ مل کر جنت میں جاؤ۔
اگریہ چاہتے ہوتواللہ کے لیے وہی طریقہ اختیار کرلو' انداز صحابہy والے اختیارکرلو' اپنی زندگیوں کوخالص اللہ کے دین کے لیے اختیارکرلو' یہ رسم ور واجوں سے بچ جاؤ۔لاکھوں کا خرچ کرناختم کردو' سادگی اختیار کرو'اسلامی زندگی اختیارکرو اور اپنے بچوں کوبچاؤ گندے کلچر سے ہر چیز میں اللہ کے دین کو بلند کرو' ان شاء اللہ جب ہماری راتوں'جب ہمارے گھروں میں' ہمارے خاندانوں میں'نام اونچاہوجائے گا 'ہمارے بچے اسلام کارنگ پیش کریں گے۔ہمارے گھر اسلام کی سچی تصویر پیش کریں گے' پھر اللہ توفیق دے گا'اللہ پوری دنیامیں اسلام کوغالب کروا دے گا۔ اللہ کردار کوپسندکرتاہے'اللہ عمل کوپسندکرتاہے۔ اللہ زبانی دعوؤں کوپسند نہیںکرتا۔یہ جھوٹے نعروںکواللہ پسندنہیں کرتا۔
چونکہ وہ رب ہے'وہ کسی دھوکے میں نہیں آتا' توآؤ میری یہ نصیحت جان لوبھائیو! اسلام اصل ہے'اللہ کادین ہے۔ ہم نے ان شاء اللہ اپنی جانوں' مالوں کو اللہ کے لیے پیش کرناہے۔ ہم نے زندہ رہناہے' اللہ کے لیے مرناہے تواللہ کے لیے... اورپھر ان شاء اللہ کیا قیمتیں لگاتے ہیں یہ ظالم؟
بھائیو! ہماری قیمتیں ہمارے رب کے پاس ہیں۔سب کچھ ہماراہے ہی اس کے لیے۔
اللہ نے فرمایا کہ یہ بات میں نے تورات'انجیل اور قرآن میں لوگوں کوسمجھادی۔
اورہم سے سودے کرنے والو! خوش ہوجاؤ...تم نے گھاٹے کاسودا نہیں کیا۔بڑی کامیابی اسی میں ہے...اور ماشاء اللہ ہم دیکھ رہے ہیں 'جتنی کامیابیاں ہمیں اس وقت نظرآرہی ہیں وہ حقیقی جہاد کی ہیں اور جتنے نقصانات نظر آرہے ہیں'وہ ہماری غلطیاں ہیں۔ لوگوں کی غلطیاں 'حکومتوں کی غلطیاں'وہ نقصان نظرآرہے ہیں اور جتنا صحیح کام اللہ اور اس کے رسولﷺکے طریقے کے مطابق جہاد کا دعوت کاکام کیاہے ۔الحمدللہ اس کی کامیابیاں ہمیں مل رہی ہیں۔ تواللہ تعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ اللہ زندہ رکھے اسلام پر'موت دے شہادت کی 'اپنے دین پر'اللہ ہم سب سے راضی ہوجائے 'اپنے دین کودنیامیں غالب فرمادے اورہمارا سب کچھ اپنے رستے میں قبول کرے۔ آمین
ان الحمدللہ...!
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآَنِ وَمَنْ أَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ oالتَّآئِبُوْنَ الْعَابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرَّاکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْآَمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحَافِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo(التوبۃ:112,1 11)
نبی اکرمﷺدعوت الی اللہ میں مصروف تھے۔ اللہ کی طرف سے مقررذمہ داریوں کو نبھارہے تھے۔ مکہ میں آس پاس کے قبائل میں ہرطرف لاالٰہ الااللہ کی دعوت پر اللہ کے مخلص بندے نبی اکرمﷺ کے پاس جمع ہورہے تھے اور اپنے نظاموں' قبائلی ڈھانچوں'پرانے عقیدوں' باپ دادا کے بنائے ہوئے دین' رسم و رواج الغرض ہرچیزکوچھوڑ کر اللہ کے دین کو تسلیم کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے ساتھ جمع ہورہے تھے۔دوسری طرف مقابلے میں بڑے بڑے دشمن قبائل'ان کے سردار' سب اس دشمنی میں اکٹھے ہورہے تھے۔ایک زبردست کشمکش برپاہوگئی تھی۔
تب مسئلہ صرف لاالٰہ الااللہ کی دعوت کا تھا اور کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اسی پرساری لڑائیاں اور دشمنیاں تھیں۔ کلمہ توحید کی دعوت پر یہ سارا سلسلہ کھڑاہوگیاتھا۔بڑی سخت مشکلات میں جولوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ اس کلمہ توحید کی دعوت سے جڑ گئے تھے'ان کا جینادوبھرکردیاگیاتھا۔ایسے حالات میں مدینہ طیبہ سے انصار کاایک قافلہ مکے پہنچتاہے اور نبی اکرمﷺایک گھاٹی میں ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
یہ تاریخ اسلام میں سیرۃ الرسولﷺ کا ایک زبردست باب ہے۔لیلۃ العقبیٰ'عقبیٰ کی رات کوانصار کے اس قافلے نے ایک گھاٹی میں رسول اللہﷺ سے ملاقات کی اور کہا:آپ اس علاقے کوچھوڑ کر ہمارے پاس آجائیں۔ ہم اپنی جانیں اللہ کے لیے قربان کریں گے۔ اس دعوت کو لے کر کھڑے ہوں گے۔ دنیا کی دشمنیاں برداشت کریں گے۔ نبی اکرمﷺ نے ان سے عہد لیے کہ اگر تم میراساتھ نبھانا چاہتے ہو توصرف ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ غیراللہ کی عبادتوں کو'غیراللہ کے نظاموں کو 'غیراللہ کے طورطریقوں کو چھوڑکرتم نے صرف اللہ کی عبادت کے لیے میرا ساتھ دیناہے۔ ہرقسم کے شرک سے بازرہناہے اور اپنی زندگیاں اللہ کے لیے خالص کردینی ہیں۔اگرتم یہ بات مانتے ہو تومیں تمہارے ساتھ چلنے کے لیے تیارہوں۔ اس کے ساتھ ایک بات اللہ کے نبیﷺ نے یہ بھی فرمائی کہ بھئی دیکھنا جب تم مجھے ساتھ لے کر چلو گے توساری دنیادشمنی پرکھڑی ہوجائے گی۔ میری دعوت ہی ایسی ہے 'میرامسئلہ ہی ایساہے۔ یہ دنیامیں ناقابل برداشت ہے ۔ کفر کی دنیااس بات کو تسلیم کرنے'برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تو تم نے اس کی حفاظت کے لیے بالکل اسی طرح کرناہے جیسے اپنی جانوں ' مالوں کی حفاظت کرتے ہو۔
انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ سب کچھ جو آپﷺنے فرمایا ہے اگرہم دل وجان سے مان کر اپنے عمل اور کردار کے ساتھ اس عہدکونبھادیں 'اپنی جانیں قربان کردیں ' ساری دنیا سے دشمنی اور ٹکرمول لے لیں توپھر ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ نبی اکرمﷺنے فرمایا :میں توسب کچھ اپنے اللہ کے لیے کررہاہوں۔اگرتم بھی اسی اللہ کے لیے مریے ساتھ کھڑے ہو گے' قربانیاں دوگے تو اس کے عوض اللہ تمہیں جنت عطافرمائے گا۔
جب نبی اکرمﷺ نے یہ الفاظ فرمائے توسترآدمیوں پر مشتمل 'انصارکے قافلے نے اللہ کے نبیﷺکی زبان سے یہ بات سن کر تکبیرکانعرہ بیک آواز بلندکیا۔ اللہ اکبرکے اس نعرے سے گھاٹی اور پہاڑ گونج اٹھے۔
تب یہ آیات نازل ہوئیں:
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآَنِ وَمَنْ أَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o(التوبہ:111)
''بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقینا ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہو جائو جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے بڑی خوشی کااظہار فرمایاکہ جس طرح کے عزائم کا اظہارانصارکے اس قافلے نے ایک گھاٹی میں نبی اکرمﷺ سے ملاقات کرکے کیا' جس طرح اپنی خدمات پیش کیں' جس طرح اپنی جانوں کواللہ کے لیے پیش کرکے قربانیوں کاعہدکرلیا تو اللہ نے اس پرخوش ہوکر اپناقرآن نازل کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم سے عہد کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ تم سے یہ وعدہ کرتاہے کہ اگرتم اپنی جانیں اوراپنامال اللہ کے لیے قربان کروگے تواللہ تمہیں ضمانت دیتا ہے کہ اس کے عوض تمہیں جنت دے گا۔ اللہ تم سے سودا کررہا ہے۔ اللہ کہتاہے کہ یہ نبی تومیرانمائندہ ہے۔سودا تواصل کرنے والا میں ہوں۔آؤمیرے ساتھ سوداکرلو۔
یہ اسلام قبول کرنا'لاالٰہ الااللہ کہہ کے دائرہ اسلام میں داخل ہونا' حقیقت میں اللہ کے ساتھ ایک سوداہے۔ حقیقت میں اللہ کے ساتھ ایک عہدہے۔ کیاعہدہے؟ یااللہ پہلے توہم نہیں جانتے تھے'تیرادین ہم نے قبول کرلیا۔یہ لاالٰہ الااللہ کاکلمہ پڑھ کے ہم مسلمان ہوگئے۔ اب اس کے بعدہمیں اس کاعقیدہ سمجھ آگیا ہے۔ہمیں ایمان سمجھ آگیاہے۔ پہلاسبق ہم نے پڑھ لیا کہ اب اس دائرہ اسلام میں داخل ہوکے لاالٰہ الااللہ کاکلمہ پڑھ کے' نہ جانیں ہماری رہی ہیں'نہ مال ہمارے رہے ہیں۔ ہم نے اپنی جانوں اورمالوں کاسودا اپنے اللہ سے کردیا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو بھی اخلاص کے ساتھ یہ سودا میرے ساتھ کرنا چاہے'میں بھی تیار ہوں۔
بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ
''میں اس کے عوض تمہیں جنت دوں گا''
میرے بھائیو! ایمان والے مسلمانوں کے سروں کے سودے ' جانوں کے سودے اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہ سودے دنیاکے ساتھ ہوہی نہیں سکتے۔ یہ دنیاوالے اس کی قیمت ادا کرہی نہیں سکتے۔ اس کی قیمت اگرکوئی ہے تووہ اللہ کے پاس ہے اوروہ اللہ کی جنت ہے۔دنیاکی کوئی چیز اس کی قیمت ہے ہی نہیں'کسی ترازو میں یہ چیز تولی ہی نہیں جاسکتی۔ کسی کرنسی میں یہ خریدا ہی نہیں جاسکتا۔ اس کاخریدار اللہ اپنے مومن بندوں سے اور مومن اپنے اللہ سے سودے کرتے ہیں۔ ملکوں اور قوموں کا بیڑاغرق تواس وقت ہوتاہے جب سودے اللہ کے دشمنوں کے ساتھ کیے جائیں۔ڈالروں پرسودے بازیاں ہوں'پاؤنڈوں پرلوگ بکیں۔ اپنے ایمانوں کوبیچیں 'اپنی غیرتوں کوبیچیں' اپنے ملکوں کو بیچیں ۔ان بیچنے والوں 'سودا بازی کرنے والوں' دشمنوں کے ساتھ یہ معاملات طے کرنے والوں نے ہمیشہ بیڑا غرق کیا۔آج بھی وہی کررہے ہیں۔مگر مومنوں کامعاملہ کچھ اورہوتاہے۔ اللہ کہتاہے۔
مومن میرے ساتھ سوداکرتے ہیں۔میں اپنے ایمان والوں کے ساتھ سوداکرتاہوں۔وہ سودا کیاہے۔وہ سوداہے۔
أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃ
میرے ساتھ معاملہ یہ طے پاتا ہے کہ اے میرے ایمان والے بندو! تم اپنی جانیں 'اپنے مال نقداپنے رب کودوگے اورمیں تمہارے ساتھ جنت کاادھار کرتاہوں۔
سبحا ن اللہ! اللہ نے اپنے قرآن میں کیا زبردست بات سمجھائی ہے۔ اللہ کہتاہے کہ میں تم سے سودا نقد لوں گا مگر میں تمہارے ساتھ ادھار کروں گا ۔جانیں نقد دینی ہیں'مال نقد دینا ہے' جنت کے ادھار پراورجواپناسودا دے کر اللہ کے ادھار پریقین کر لیتاہے'اس کانام ایمان ہے۔یہی اصل ایمان ہے۔
عام طورپر کاروباری لوگوں کے لیے اس طرح سودا کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نقد قیمت اگرلیتے ہو تو نقد مال بھی وصول کریں گے۔ سودے میں ادھار بڑی مشکل چیزہے۔ ہاں ادھار پرمعیشتوں کو استوار کرنے والے سود خورہوتے ہیں۔ سودی نظاموں کو چلانے والے قرض پر سود لینے والے 'دینے والے اوراس حرام کے کاروبار کوکرنے والے۔ جوصحیح سودے کرتے ہیں وہ نقد سودا کرنے کوہی پسندکرتے ہیں۔اپنی قیمت بھی نقد دیتے ہیں۔ مال بھی اسی وقت وصول کرتے ہیں۔ مگراللہ تو جس طرح چاہے سوداکرلے وہ تورب ہے۔اللہ کہتاہے جس نے میرے ساتھ سودا کرناہے'وہ اپنامال اور جان یہاںقربان کردے مگر میں آخرت میں اسے جنت دوں گا۔
میرے بھائیو! یہ جسم اوراس جسم کے اندرجتنی صلاحیتیں ہیں' ہاتھ کام کرتاہے'زبان بولتی ہے' آنکھ دیکھتی ہے'کان سنتے ہیں' دماغ سوچتاہے' دل دھڑکتاہے' ایک پوری مشینری چل رہی ہے۔ اس کے ساتھ صلاحیتیں وابستہ ہیں۔ یہ ساری صلاحیتیں جان کے اندر شامل ہیں اور پھریہ زندگی جووقت ہے۔یہ وقت بڑی قیمتی چیز ہے اور اس کا پتااس وقت چلتاہے جب آخری سانس ہوتاہے اور اس کے بعد کوئی لمحہ انسان کے پاس نہیں ہوتا 'یہ وقت زندگی ہے۔ یہ وقت بھی اللہ کی خاطر 'یہ جسم وجان اللہ کی خاطر اور پھراس کے اندر صلاحیتیں بھی اللہ کی خاطر'یہ سب کچھ ''أَنْفُسَ''میں شامل ہے ' دوسری چیزہے ''وَأَمْوَالَہُمْ '' ''اوران کامال۔''انسانوں کے پاس 'اپنی جان ہوتی ہے۔ یامال ہوتاہے۔یہ گھر مال میں شامل ہے۔ سواری مال میں شامل ہے۔دکان 'زمین مال میں شامل ہے'سب کچھ جان کے علاوہ انسان کاکنٹرول جس چیزپربھی ہو'وہ اس کے ہاتھ میں استعمال کے لیے ہو'وہ سب کاسب مال کہلاتاہے۔
اللہ کہتاہے'ان دونوں چیزوں کاسودا میرے ساتھ کرو۔ نقد کرو'میں تمہارے ساتھ جنت کاادھار کرتاہوں۔ہاں ہوگیا سودا...! مان لیا یااللہ تورب ہے'ہم نقددے کر تیرے ادھار پر یقین رکھتے ہیں۔ توپھراب کرناکیاہے یااللہ؟سودا توہوگیا 'معاملہ تو طے ہوگیامگر اب کرناکیاہے؟
میرے بھائیو! یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے۔یہ سب کچھ ہے توپھربھی اللہ کا ہے کوئی نہ بھی دے تو جب چاہے اللہ جان لے لے' جب چاہے اس پرموت طاری کردے۔ ہے توپھربھی اللہ کا۔ جومانتے ہیں'وہ بھی 'جونہیں مانتے وہ بھی'کنٹرول تو سارا اللہ کا ہے ناں؟ زندگی موت توسب اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن فرق یہ ہے کہ کافرسب کچھ مجبوری کے ساتھ کرتاہے اور مومن اپنے پورے اختیار سے دست بردار ہوکر اللہ کی ہربات کومان کر چلتاہے۔ ہے تو سب کچھ پھربھی اللہ کالیکن مومن کہتاہے یااللہ! میں اپنی خوشیاں بھی تیرے لیے 'اپنی راحتیں بھی تیرے لیے' یااللہ یہ تکلیفیں 'تنگیاں بھی تیرے لیے۔ اپنی دوستیاں بھی تیرے لیے' اپنی دشمنیاں بھی تیرے لیے 'اب میں اپنے لیے کچھ نہیںکروں گا۔میں سب کچھ تیرے لیے کروں گا'یہ ہے یہاں معاملہ۔ اس میں مومن کی رضا شامل ہوتی ہے اور اللہ یہی دیکھتاہے' یہی ہمارا امتحان ہے 'یہی آزمائش ہے۔
جان تواللہ جب چاہتاہے' جس کی چاہتاہے لے لیتاہے لیکن ایک آدمی خوشی سے اپنی جان اللہ کے لیے پیش کرتاہے اور پھر اس کی دلیل کیاہے؟ یادرکھو! ایمان کی دلیل ہمیشہ عمل ہے۔ کس عمل سے ثابت ہوگا؟ کہ اللہ سے سوداہوگیا ۔کس نے اپنی خوشی سے جان'مال اللہ کے لیے پیش کردیا۔ اب اللہ نے خود ہی وہ عمل بتایاہے جس عمل سے ثابت ہوگی یہ ساری بات کہ یہ بندہ سچاہے' کھرا ہے' کس بات سے پتہ چلے گا؟ اللہ فرماتے ہیں:
یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
''یہ اللہ کی راہ میں جہادکرتے ہیں'یہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں۔''سبحان اللہ
اس کی زندگی کالمحہ لمحہ اللہ کے لیے اوراس کی موت اللہ کے لیے ۔
میرے بھائیو! ویسے تونمازبھی ایک عمل ہے 'روزہ بھی ایک عمل ہے۔ کسی عمل میں وقت زیادہ استعمال ہوتاہے' کسی میں مال زیادہ استعمال ہوتاہے'کسی کے اندر بدنی صلاحیت زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔مگرمعاملہ جہادسے کچھ مختلف ہے۔جیسے نماز پڑھی'گھر چلے گئے۔ دکان کی' یہ کیاوہ کیا... بندہ اپنااپنا سلسلہ کچھ وقت یہاں'کچھ وقت مسجد میں'کچھ باہر مگر جہاد وہ عمل ہے جب اللہ کاکوئی بندہ جہاد کرنے کے لیے میدان میں اترتاہے'اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا:
فَإِنَّ نَوْمَہُ وَنُبْہَہُ أَجْرٌ کُلُّہُ۔(ابوداؤد)
اللہ اکبر! اس کاسونابھی اللہ کے لیے'اس کاجاگنا بھی اللہ کے لیے...یہ سورہاہوتاہے پھربھی اجرملتاہے۔ایسا دنیا میں اور کوئی نہیں'نمازی'حاجی'کوئی بڑے سے بڑانہیں۔ نبیﷺ نے جہاد کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا:یہ سورہاہوتاہے۔ فرشتے اس کا اجرلکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کا سونابھی اللہ تعالیٰ اپنے کھاتے میں لکھوا رہاہے۔ اس کاجاگنا'اٹھنا'کھانا'اس کاپینا' سبحان اللہ! اس کا چلنا 'وادیوں میں سفرکرنا' ایک ایک چیزاللہ کی عبادت بنتی جارہی ہے۔
نبی اکرمﷺنے فرمایا:اس کاجوگھوڑاہے'اس کی جو سواری ہے۔یہ سواری پیشاب کرے گی'گھوڑے کی لید' پیشاب' سب کچھ اس کے میزان میں تلے گا۔ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی رکھی ہے جس نے اپنی جان مال کواللہ کے نام وقف کرکے اللہ سے سودا کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ سودا کرلیا اور اس کو جہاد کی راہ دکھلادی۔ اب چل'چل میرانمائندہ بن کے' میرا یہ کام کرکے'میرے دشمنوں نے میری زمین پرقبضے جمارکھے ہیں۔میرے بندوں کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھاہے اور میری زمین کے وسائل پرقبضے جمارکھے ہیں۔
اب اے مجاہدبندے!تونے میری زمین کے قبضے چھڑانے ہیں۔ میرے بندوں کوآزادکراناہے۔ اللہ کے دشمن جب ان چیزوں پر قابض ہوتے ہیں اوران کے قبضوں کی وجہ سے دنیا میں جو ظلم ہوتے ہیں جوفساد ہوتے ہیں جوطبقات کی کشمکش ہوتی ہے جونظاموں کی تباہیاں پھیلتی ہیں'اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے کہتاہے 'اب تونے یہ کام کرنے ہیں۔سب سے بڑے کام ہیں' میری زمین کو بھی آزادکرواناہے'میرے بندوں کو بھی آزادکروانا ہے۔ میرے دیئے ہوئے وسائل ان دشمنوں کے ہاتھوں سے واپس لے کراللہ کے حکموں کے مطابق ان کواستعمال کرکے دنیا میں عدل وانصاف قائم کرناہے۔ اللہ کے دین کوقائم کرناہے۔ اللہ یہ کام سمجھارہاہے۔ اللہ ڈیوٹی بتارہاہے۔
بھائی ایک آدمی نوکر رکھ لیا'اب اس نوکرکاکام کیاہے؟ اس نے کرناکیاہے؟ اللہ تعالیٰ اسے یہ کام اپنے قرآن مجید کے اندر سمجھارہے ہیں۔
یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
یہ فقط مجاہدانسان ہوتاہے جوہروقت اللہ کی راہ میں ہوتا ہے' ہروقت اللہ کے لیے ہوتاہے۔ لوگوں نے اس مفہوم کو نہیں جانا اور نہیں سمجھااس جہاد کو۔دشمنوں نے اس کی اہمیت جان لی۔ اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے یہودیوں نے اسلام کے خلاف نفرتیں پھیلانے والے صلیبیوں 'عیسائیوں اور ہندؤوں نے' ان سب نے جوظلم ڈھائے ہیں'اسلام کو نشانہ بنایا'انہوں نے کبھی رسول اللہﷺ کے خاکے بنائے' کبھی قرآن کی توہین کی' کبھی اسلام پرطعنہ زنی کی۔لیکن تمام چیزوں میں سب سے زیادہ کافروں نے نشانہ کس بات کوبنایا؟دشمنی کس کام سے کی؟
اوبھائیو!وہ قتال فی سبیل اللہ ہے۔ ہمیشہ اس کے خلاف نفرتیں پھیلانا'آج بھی میڈیا کے ذریعے جہاد کاجورنگ پیش کیا جاتا ہے۔ مجاہدین کو جس طرح دہشت گرد بناکر ثابت کیاجاتا ہے۔ یہ خونخواربھیڑیئے'یہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد 'یہ دنیاکے سب سے بڑے قاتل'ظالم آج دھوکہ دینے کے لیے مجاہدین کے خلاف ان کے پروپیگنڈے'دیکھو توسہی۔
اوبھائیو! ان کے پروپیگنڈوں کادکھ نہیں ہے۔ دشمن نے اپنے ہتھیار استعمال کرنے ہیں۔جب دشمن اپنی تدبیریں کرتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کے اکثر لوگوں نے بھی جہاد کونہیں سمجھا۔ ہمارے ٹیلی ویژن پر بیٹھنے والے' تبصرے کرنے والے' ہمارے اخباروں میں لکھنے والے' کتابیں چھاپنے والے'قوم کی رہنمائیاں کرنے والے'یہ سکولوں کالجوں' یونیورسٹیوں میں تعلیم وتربیت کے کام کرنے والے' اونچی اونچی ُکرسیوں میں بیٹھ کر حکمرانیاں کرنے والے... اسٹیبلشمنٹ کواپنے ہاتھ میں لے کرقوم کے فیصلے کرنے والے'اللہ گواہ ہے سب سے زیادہ یہ لوگ اپنے آپ کومسلمان کہلواتے ہیںلیکن سب سے زیادہ جہاد سے ناواقف ہیں۔ دنیاکے پروپیگنڈوں سے متاثر'دباؤ کا شکار ہیں۔
میرے بھائیو! سن لو! جب بندہ اللہ کے سامنے نہیں جھکتا تو ہرکسی کے سامنے جھکتاہے۔ جہاد وہ عمل ہے جو یہ بتاتاہے' جویہ تربیت کرتاہے کہ جھکناصرف اللہ کے سامنے ہے 'حکم مانناصرف اللہ کاہے'وہی رب ہے 'وہی بڑا ہے'اسی کے دین کواونچاکرنا ہے اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے جھکنانہیں ہے'ان کے سامنے دبنا نہیں ہے۔ اللہ اکبر...
اللہ کہتاہے دیکھوجہاد کرنے والے میرے نبیﷺ میدانوں میں کھڑے ہونے والے اورمیرے نبیوں کے ساتھی دیکھو ذرا' کیا خوبیاں ان میں پیداہوتی ہیں۔ کیا تربیتیں جہادکی وجہ سے ہوتی ہیں۔
بڑی بڑی تکلیفیں 'بڑی بڑی مشکلیں پیش آتی ہیں لیکن ان کے اندر نہ بزدلی'نہ پژمردگی 'نہ مایوسی 'کوئی چیز ان کے اندر پیدا ہوتی ہی نہیں۔ حالات کچھ بھی ہوں 'یہ میدانوں میں ڈٹ کر اللہ کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔
ان میں وہن پیدانہیں ہوتا۔
نبی اکرمﷺسے پوچھاگیااے اللہ کے رسولﷺ! یہ وہن کیاہے؟ نبی ﷺنے فرمایا :میرے ساتھیو! ایک وقت آنے والا ہے جب مسلمان اس کمزور پوزیشن میں ہوں گے کہ کافر قومیں لقمے بنابناکر کھائیں گی 'جیسے دسترخواں پر پڑا ہوا کھانا ہوتاہے اور بھوکے نوچ نوچ کر کھارہے ہوتے ہیں۔فرمایا:میری امت پہ ایک وقت آنے والاہے کہ مسلمان'مسلمانوں کے اموال' مسلمانوں کے ملک'ان سب کی حالت کیاہوجائے گی؟
فرمایا:دسترخوان پرپڑے ہوئے کھانے کی مانند ہوگی اور کافر قومیں اللہ کے دشمن یہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح نوچ نوچ کر لقمے لقمے بناکے کھائیںگے۔ کیاوجہ ہوگی؟
فرمایا:وجہ یہ ہوگی 'جس طرح سمندر کے اوپر جھاگ توبہت ہے لیکن اس کوہاتھ لگاؤ توبے جان ہوتی ہے یعنی مسلمانوں کی تعداد توبہت ہوگی' ملک بھی ان کے بہت ہوں گے 'حکومتیں بھی ان کی بہت ہوں گی 'سب کچھ ہوگا'مگرحالت یہ ہوگی جب قریب جاؤ تو پتہ چلے گا کہ سارے ہی سمندرکی جھاگ کی طرح بے جان ہیں ۔ ان کی حکومتیں بے جان اوران کے عوام بے جان'ان کے معاشرے 'ان کے ملکوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:کہ یہ کیفیت وہن سے پیدا ہو گی۔ صحابہ کرامyنے پوچھا اے اللہ کے نبیﷺوہن کیا چیز ہوگی کہ جو اس امت کو اتنانقصان پہنچاجائے گی؟
یہ اللہ کے نبیﷺکی باتیں ہیں۔یہ باتیں آج ہم لوگوں کو بتارہے ہیں'سمجھارہے ہیں'اپنی بات نہیں کررہے۔ اللہ کے نبیﷺکی بات بتارہے ہیں اور یادرکھو! نبی اکرمﷺ کی بات بھی اپنی نہیں ہوتی 'وہ بات بھی اللہ کی بات ہوتی ہے اور سب سے قوت والی بات ہوتی ہی اللہ کی ہے۔ اللہ اکبر
نبی اکرمﷺنے فرمایا:میری امت میں جب دوچیزیں پیدا ہو جائیںگی توان کووہن کامرض لگ جائے گا۔ایک'' حب الدنیا'' دنیاکی محبت بہت بڑھ جائے گی اورذہنوں پر دنیاسوارہوگی' صبح وشام دنیاکے حصول کے لیے ساری محنتیں'منصوبے'سب دنیا کے پیچھے پڑجائیں گے اور دوسری بات یہ کہ وہ موت جواللہ کی راہ میں آئے گی جو جہاد کے رستے میں آتی ہے'جس کانام شہادت ہے' میری امت اس شہادت سے بھاگے گی۔جہاد کے رستے سے اور جہاد کی موت سے پیچھے ہٹ جائے گی۔دنیا کی محبت ان کے اندر بڑھ جائے گی 'اس کی وجہ سے وہ وہن پیداہوگا جس کے ساتھ حکومتیں بزدل ہوجاتی ہیں'قومیں بزدل ہوجاتی ہیںاور وسائل ' قوتیں رکھنے کے باوجود بے اثرہوجاتی ہیں اورمنڈی کامال بن جاتی ہیں۔دستراخوان پرپڑے ہوئے کھانے کی مانند ہوجاتی ہیں اور دشمن نوچ نوچ کے ان کوکھاجاتے ہیں۔
میرے محترم بھائیو! اللہ کے لیے سوچو!کیا آج بالکل یہ کیفیت مسلمانوں کی نہیں ہے۔ کیا بالکل آج یہی کیفیت ہمارے حکمرانوں کی نہیں ہے؟ ہے کوئی اثر 'کوئی دشمنوں کے اوپر ان کا رعب؟
نبی اکرمﷺفرمارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے جو امتیازات عطافرمائے ہیں'وہ امتیازات 'خصوصیات میں سے ایک چیز یہ ہے :
نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۔(بخاری)
ایک مہینے کے فاصلے پربیٹھاہوا میرادشمن تھرتھرکانپ رہا ہوتا ہے۔ جب میرانام اس کے سامنے آجائے ۔
یہ اللہ کے نبیﷺ کی پہچان ہے... لوگوں نے جب سیرت کے جلسے کیے توصرف حلیہ مبارک بیان کیا۔ نبیﷺکے ہونٹ ایسے تھے'نبیﷺکے رخسار ایسے تھے'نبیﷺکی آنکھیں ایسی تھیں...لوگ کیاکیاباتیں کرتے ہیں'کیانقشے پیش کرتے ہیں۔
محمدﷺکی سیرت سنو! ذرا سمجھو۔دنیاکی سب سے بڑی طاقت قیصروروم'پوری دنیا پہ حکمرانی 'نبیﷺخط لکھ رہے ہیں'میرا نبیﷺا س وقت جہاد میں کھڑاہے۔ قبائل عرب سے ٹکر لگی ہوئی ہے۔ یہودیوں کی دشمنی انتہاپر پہنچی ہوئی ہے۔ بنوغطفان اوردیگر قبائل نجدو حجازمیرے نبیﷺپر باربارحملے کررہے ہیں۔ مدینہ خطرات کی زدمیں آیاہواہے۔ نبی اکرمﷺ ان خطرات میں خط لکھ رہے ہیں۔کسریٰ کو خط جارہاہے' قیصرِروم کوخط جارہاہے۔ یمن کے سربراہ کو مصرکی سلطنت کو'ان سب کومیرے نبیﷺ مدینے میں بیٹھ کے خط لکھ رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں میرے بارے۔ تم بولتے ہوتوپاکستان مصیبت میں آجاتاہے۔ ہمارے لیے بڑی پریشانیاں کھڑی ہوجاتی ہیں'تم خاموش رہاکرو۔تمہاری وجہ سے بڑے مسئلے بنتے ہیں ۔
اوبھائیو! کیاحالت ہے۔سبحان اللہ 'جہاد جاری ہے۔ میرے نبیﷺ نے بیٹھ کرخطوط لکھے۔نبی اکرمﷺ کا قیصر روم کے پاس خط پہنچتاہے۔کوئی لمبی چوڑی بات نہیں ہے۔سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھاہے۔ صحیح بخاری میں سارا خط'خط کے مندرجات والفاظ محفوظ ہیں۔
نبی اکرمﷺ اس خط میںسب سے پہلے بسم اللہ لکھتے ہیں اوربعدمیں لکھتے ہیں یہ اللہ کے سچے نبی محمدﷺ کی طرف سے پیغام ہے۔خط ہے''الیٰ عظیمِ روم''دنیاکا سب سے بڑا بادشاہ سمجھاجاتاہے۔ قیصرِ روم 'اس کے لیے ۔مسلمانوں کے آخری نبیﷺکایہ پیغام پہنچ رہاہے یہ لکھنے کے بعدکیافرمایا:
السَّلَامُ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْہُدَی۔ (بخاری)
سلامتی ہے اس پرجوہدایت پرہے ۔
آگے لکھتے ہیں'ہم اسلام کی دعوت کے لیے کھڑے ہیں' ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں' اسی میں ساری سلامتی ہے۔ اس دعوت میں' سلام قبول کرنے میں بچاؤ ہے۔ اسلام قبول کرلو' بچ جاؤ گے ۔تمہاراسب کچھ بچ جائے گا۔
نبی اکرمﷺکاسادہ ساخط ہے۔ توقیصر سارے وزیروں ' مشیروںکواکٹھاکرکے کہتاہے۔ بھئی یہ خط مدینے سے آیاہے۔ سارے غصے میں آگئے۔قیصرکے وزیر بھی' مشیر بھی' اس کی فوج کے جرنیل بھی'بڑے غصے میں آگئے۔ کہنے لگے ان لوگوں کوخط لکھنے کی جرأت کیسے ہوئی؟کیاحیثیت ہے ان کی؟
بادشاہ ہمیں ایک دفعہ حکم دے دیں ہم مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ہم نہیں برداشت کرتے کہ یہ خط ہمارے قیصر کو لکھاجائے اورلکھناوالامدینے کے اندر 'بیٹھنے والاایک شخص 'جن کو کھانے کے لیے روٹی تک نہیں ملتی 'جن کو پہننے کے لیے جوتا نہیں ملتا۔ جن کے پاس دنیا کی چیزیں نہیں ہیں'وہ ہمیں اس قسم کی باتیں کہیں'قیصرکہتاہے'اپنے وزیروں 'مشیروں سے' فوج کے جرنیلوں سے کہ تم اس خط کو سن کرغصے میں آگئے ہولیکن میں اس کوپڑھ کرکچھ اور دیکھ رہاہوں' مجھے تویہ نظرآرہاہے کہ بہت جلد وہ دن آنے والا ہے 'جس تخت پرآج میں بیٹھاہوں اورتم سے ہمکلام ہوں' محمدﷺ کے ساتھی آئیں گے'ساری زمین ہم سے کھینچ کے لے جائیں گے' نہ میرا تخت رہے گا'نہ یہ تخت کے نیچے کی زمین 'ہمارے ہاتھوں میں رہے گی'نہ تمہارے پاس یہ ملک رہے گا۔ کچھ بھی نہیں رہے گا۔ وہ مدینے میں بیٹھنے والاایک شخص 'اس کے ساتھی آنے والے ہیں ' کچھ بھی تمہارے پاس نہیں رہے گا۔ آج بھی اللہ جانتاہے 'مسئلہ یہی ہے۔ ماشاء اللہ جہاد جاری ہے۔ اس جہاد نے اللہ کے فضل سے روسیوں کامنہ توڑ کر رکھ دیا۔امریکہ کو اس کے اتحادیوں سمیت مشکلات سے دوچار کردیا' ساری ٹیکنالوجی کابھرم نکل گیا۔یہ میزائل اورسیٹلائٹ کچھ نہںک کرسکے' ساری ٹیکنالوجی فیل ہوگئی اور آج اس 21ویں صدی عیسوی اور15ویں صدی ہجری میں ٹیکنالوجی کے دورمیں کمپیوٹر کے دورمیں' ایٹمی قوتوں کے دورمیں' یہ بات آج میدانوں میں ثابت ہوئی کہ ہرچیز سے بڑی قوت ایمان کی قوت ہے۔ یہ میں صدیوں پرانی بات نہیں کررہا'میں تو آج کی بات کررہاہوں۔ آج میدانوں میں جوکچھ ہورہاہے آج کامسئلہ بھی جہادہے۔ دنیاکوسمجھ نہیں آرہی ہے۔دماغ خراب ہوگئے ہیں' ان امریکیوں کے۔ان کو سمجھ نہیں آرہی کریں گے کیا؟
اور جو ان کے ایجنٹ یہاں بیٹھے ہیں'ان کو بھی سمجھ نہیں آرہی۔ یہ تبصرے کرنے والے لوگوں کو بدھوسمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پہ آج امریکیوں کی حمایت کرنے والے'آج ان کوبڑی بڑی طاقتیں بیان کرنے والے' یہ سمجھ حقیقت میں ان کوبھی نہیںآرہی کہ امریکہ کے ساتھ بن کیاگیا۔ان 11,10سال کے اندرکیابن گیا'ان کے ساتھ؟
اوسن لو! تم کافروں کے نوکر' تم کافروں کے شاگرد 'صلیبیوں ' یہودیوں سے PHD کی ڈگریاں لے کے اوریہ پڑھ کر'لکھ کر' تربیت حاصل کرکے تم آئے ہو' اوتم نے یہ علم پڑھاہی نہیں ہے۔ آؤ ان سے پوچھو جنہوں نے اللہ کاقرآن پڑھاہے ۔جنہوں نے جہاد پڑھا ہے۔ جنہوں نے اپنے نبی ﷺسے سیکھاہے۔ نبیﷺکے صحابہ کرام y سے یہ عمل سمجھے ہیں۔ان سے سن لو! سمجھ لو! میں بتاتاہوں' اللہ کے فضل سے'کیاہوگیاہے 'ان کے ساتھ؟ اور پھر ہونے والا کیاہے؟ ان شاء اللہ ان کے ساتھ۔
مجھ سے سن لو'یہ جہادہے'جہاد میں بہت تھوڑا کردار انسانوں کاہوتاہے اوربہت زیادہ کردار آسمانوں کے اللہ کے فرشتوں کاہوتاہے ۔یہ تمہاری سوچ سمجھ سے بالاہے۔
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا سَبَقُوْا إِنَّہُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ o(الانفال:59)
''اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ہر گز گمان نہ کریں کہ وہ (بچ کر) نکل گئے، بے شک وہ عاجز نہیں کریں گے۔''
یہ جہاد کی سورت ہے 'جب مسلمان کمزورحالت میں تھے' کافربڑی طاقت قوت میں تھے'اس موقع پر اترنے والی یہ آیت کیافرمارہی ہے'کیاسمجھارہی ہے؟قرآن کی اس آیت میںاللہ چیلنج کر رہے ہیں۔
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ ......!
وہ کافر جنہوں نے بڑی تیاریاں کیں'بڑی قوتیں جمع کیں۔اللہ کہتاہے میراسب کوچیلنج ہے'جب تم اس جہاد کے مقابلے میں آؤگے 'تمہیں انسانوں سے نہیں'انسانوں کے رب سے لڑناپڑے گا۔
إِنَّہُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ o(الانفال:59)
تمہاری ساری ٹیکنالوجی تمہارے سٹاروارکے پروگرام اور تمہارے سیٹلائٹ سسٹم 'تمہارے میزائل سسٹم' اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یہ سب کچھ مل کے انسانوں کے رب کوشکست نہیں دے سکتے۔یہ قرآن ہے لیکن ماننے والے آج کہاں ہیں؟ کتنے ہیں جو اللہ کاکلام سمجھ کر آج کی دنیامیں 'آج کے حالات میں' اس کو تسلیم کریں'یہ بھی اللہ کی توفیق ہے جس کو اللہ توفیق دیتاہے'وہ مانتاہے' وہ سمجھتاہے' بصیرت کا دینا'صلاحیتوں کادینا'یہ بھی اللہ کاکام ہے۔ تو یہ سارا معاملہ 'افغانوں کا' نہ مجاہدوں کا' ٹھیک ہے تھوڑا بہت حصہ ہوگا'اگلی آیت میں بات اور واضح ہوتی ہے۔
وَأَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآَخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمُ اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔(الانفال:60)
''اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کر سکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈرائو گے، جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔''
اللہ کہتاہے میرے بندو'او ایمان والو! میں نے تم پر جہادفرض کردیا'اپنے دشمنوں کے مقابلے میں کھڑا ہوکر تم نے کام کرناہے۔ تمہاراذمہ صرف اتناہے کہ جووسائل تمہارے پاس ممکن ہیں جوتم کرسکتے ہو وہ تم کروگے 'جوتم سے نہیں ہوگا'وہ تمہارا رب کرے گا۔ بس!یہ نہیں کہ برابر کی ٹیکنالوجی ہوگی توپھر ہم جہاد کریں گے۔ یہ بڑے بڑے دانشور سمجھدار لوگ'مخلص بھی 'میں غیرمخلص نہیں کہتالیکن ان کو پتہ نہیں ہے۔ان کے پاس قرآن کی بصیرت نہیں ہے۔
آج تعلیمی اداروں سے جو سبق ان کو ملے ہیں'جو ذہن ان کو ملے ہیں جو تربیتیں ان کو ملی ہیں'اس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں یہ اشکالات ہیں'سوالات ہیں۔
میرے بھائیو! اللہ نے اپنے مومن بندوں کے ذمہ صرف اتناکام لگایاہے کہ میرے بندو! جو تمہارے پاس ہوسکتاہے ' جو تیاری تم کرسکتے ہو'جوسواریاں تم جمع کرسکتے ہو' بس تم وہ کرلو' پھر اللہ تعالیٰ میدان خود سنبھال لے گا۔
تُرْہِبُوْنَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّکُمْ
اللہ کہتاہے تم اپنے وسائل میں رہ کر تیاری کرو گے ' اللہ تمہارا رعب دشمنوں کے دلوں میں ڈالے گا۔
وَآَخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ
کچھ دشمن توتمہیں سامنے نظرآئیں گے 'تم ان کے بارے میں پلاننگ بھی کرسکتے ہو'اپنے بچاؤ کی تدبیریں بھی کرسکتے ہو لیکن اللہ کہتاہے کچھ دشمن وہ ہوں گے جو تمہیں نظرنہیں آئیں گے۔ ان کی تدبیروں 'منصوبوں سے تم واقف نہیں ہوگے۔ اندر ہی اندر وہ تمہارے خلاف کیاپلان کررہے ہوں گے لیکن اللہ کہتاہے میرے بندو!پروا نہیں کرنی'پریشان نہیں ہونا'
وَآَخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ
کیاہوا اگر تمہیں معلومات نہیں ہیں۔تم ان چھپے دشمنوں سے واقف نہیں ہو۔ان کی تدبیروں سے آگاہ نہیں ہو' پر تمہارا رب توسب کچھ جانتاہے۔
اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ
اللہ توجانتاہے۔ اللہ ضمانت دیتاہے کہ نہ خفیہ تدبیریں تمہیں نقصان پہنچائیں گی'نہ یہ سامنے کے دشمن تمہارا کچھ بگاڑ سکیں گے لیکن فائدہ یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہادکرو اور پھر اللہ کی راہ میں جہادکیاہے؟
بھائی یہ نہیں ہے یہ کافر'یہ کافر' اس کومارو' اس کوقتل کرو' خودکش دھماکے' ملکوں کے اندر فلاں کو نشانہ نہ بناؤ...حکومتوں کو نشانہ بنالو' ایک یہودی مارنے کاثواب اورایک سعودی کو مارنے کا ثواب برابر ہے۔ ایک امریکی کومارنااوریہ پاکستان کے اندر جو لوگ بستے ہیں'ان کومارنا برابرہے۔
اومیرے بھائیو!
اللہ کے لیے یہ ذہن سازیاں بندکرو۔ بڑا نقصان پہنچ گیا جس نے جہادفی سبیل اللہ سمجھناہے'وہ آئے سیرت سے سمجھے۔ ہم نے ان شاء اللہ نمازبھی نبیﷺسے سیکھنی ہے' جہاد بھی نبیﷺسے سیکھنا ہے۔وہ جہاد کوئی جہادنہیں جو اللہ کے نبیﷺسے ثابت نہیں 'جہاد اسلام کا ایک عمل ہے جس طرح نماز اسلام کاعمل ہے'تم اپنی مرضی سے جیسے چاہو پڑھ لو'جیسے چاہو وقت تبدیل کرلونہیں'کچھ نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی جہاد اپنی مرضی سے نہیں کرسکتے۔ اپنے طریقے اختیار نہیں کرسکتے۔ جیسے میرے نبیﷺنے جہادکیا' تم ویسے جہاد کروگے یہ ہے فی سبیل اللہ۔
اورکوئی جہاد 'جہادفی سبیل اللہ نہیں۔جونبی اکرمﷺکے طریقے پرنہیں۔نبی اکرمﷺنے مدینے میں جہاد کیاہے۔مدینے میں اس وقت یہودی بھی رہتے تھے'مدینے میں اوس خزرج کے مشرک کافربھی رہتے تھے'جوابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ عبداللہ بن ابی جیسے منافق بھی رہتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے نبیﷺ کو' مدینہ طیبہ کو اوراسلام کو بڑا نقصان پہنچایاتھا۔ مگرنبی اکرمﷺ نے کیا طریقہ اختیار کیا'مدینے میں بیٹھ کر یہودیوں سے بھی معاہدہ کرلیا۔ اوس خزرج کے مشرکوں کافروں سے بھی مدینے کے دفاع کا عہدباندھ لیا اور عبداللہ بن ابی جیسے منافقوں کوبھی اپنی مشاورت میں شریک کرکے ان کی چال سے بچنے کے رستے اختیارکیے۔ مدینے میں نہ تلوار اٹھائی 'نہ کسی کواٹھانے کی اجازت دی اورمیرے نبی اکرمﷺنے جہاد کن کے خلاف شروع کیا؟وہ دشمن جنہوں نے گھروں سے نکالاتھا۔
قرآن خود بیان کرتاہے ۔
الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ۔(الحج:40)
جنہوں نے مسلمانوںسے گھر چھینے تھے'جنہوں نے مسلمانوں کے کاروبار چھینے تھے'جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے' جنہوں نے ان کو ہجرتوں پرمجبورکیاتھا'ان ظالموں کے خلاف میرے نبیﷺنے جہاد کیا۔
میرے بھائیو! سن لو'جہاد ہوتاہی ظلم کے خلاف ہے۔ پر کافر کے خلاف جہادنہیں اورصرف مرنا'مارنا'گولیاں چلانا اور صرف اسی کانام جہادنہیں۔ قرآن میں جہادکابھی طریقہ ہے'جہاد کے قواعد و ضوابط مقررہیں۔
اللہ کے نبیﷺ کی سیرت میں ان شاء اللہ ان سے سمجھنا ہے' اپنی مرضی سے کچھ نہیںکرنا' سن لو! آج ہماری دشمنی انتہا پہ کیوں پہنچی ہے؟
پاکستان میں لڑائیاں ہم نے نہیں لڑنی۔ پاکستان کے اندر جھگڑے کھڑے نہیں کرنے۔پاکستان کے اندر دشمنیاں نہیں پالنی۔ پاکستان کے اندر کفرکے فتوے لگاکر ہم نے یہ افراتفری کھڑی نہیں کرنی۔ پاکستان کے امن کو اس طرح محفوظ کرناہے جیسے میرے نبی ﷺ نے مدینے کے امن کومحفوظ کیاتھا۔
اوبھائیو! آج ما شاء اللہ میدانوں میں پارٹیاں' جماعتیں بہت ہیں۔ سب مخلص لوگ ہیں'میں کسی کاانکارنہیں کرتا۔ لیکن ہماری دشمنی انتہا پہ کیوں؟ یہ ہے مسئلہ... کہ ہم نے اللہ کے فضل وکرم سے کافروں کے لیے رستے نہیں چھوڑے۔اب ہم الحمدللہ اپنے اس دعوت وجہادکے ساتھ اللہ کے دشمنوں کے رستے بند کر رہے ہیں۔ان کی مداخلتوں کے رستے بند کررہے ہیں۔ان کی CIA کی پلاننگ ہم جانتے ہیں۔کیوں آیاتھاریمنڈڈیوس؟ کیا کیاانہوں نے 'کیانقصان پہنچایااس ملک کو؟
الحمدللہ ہم ان باتوں کوسمجھتے ہیں اورسب کوسمجھاتے ہیں۔ سب اکٹھے ہوجاؤ مسلمانو! تمہارے ملکوں میں جو ہندورہتے ہیں' وہ بھی آپ کے ساتھ عہد باندھ چکے ہیں 'کسی کافر کوبھی مسلمان ملک میںقتل کرنے کااس کے خلاف تلوار اٹھانے کا اللہ کی شریعت ' اجازت نہیں دیتی۔ اس ملک میں اقلیتیں رہتی ہیں' عیسائی رہتے ہیں۔ سبحان اللہ! جیسے میرے نبیﷺنے سب کو دفاع کے مسئلے پر باقاعدہ معاہدے کرکے 'میثاق کرکے مدینہ محفوظ کیا'ایساآج بھی کرناہے۔
پڑھو سیرت رسول کو' سیرت ابن ہشام کو'تاریخ طبری کو' پڑھو! آنکھیں بند نہ کرو۔آج یہ لائحہ عمل ہے ہمارا۔ہم سے انڈیا کو بڑی پریشانی ہے اور اس سے زیادہ امریکہ پریشان ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم ان شاء اللہ خالص دین پر ہیں'جتنے یہ پریشان ہیں' جتنی یہ دشمنی کی انتہا پرہیں'ہمارا رب ان شاء اللہ اتناہی ہم سے خوش ہوگا۔ان کوتکلیف واقعی پہنچی ہے۔
اوبھائی! میری ذات کامسئلہ نہیںہے۔ الحمدللہ اصل عقیدہ ' اصل منہج ہے۔ ساری قوت اسلام میں'ساری طاقت اللہ کے نبیﷺکے طریقے میں۔اپنے بنائے ہوئے طور طریقے میں کوئی طاقت وقوت نہیں ہے'کوئی اثر تاثیر نہیں ہے۔ کوئی یہ دعوت تبلیغ نہیں ہے۔ توالحمدللہ وہ طریقہ جو محمدرسول اللہﷺ نے اختیارفرمایا آج ہم بھی دعوت کاوہی طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دعوت دلیل سے ہے'دعوت اخلاق سے ہے۔ہم توکہتے ہیں اوامریکیو! بھاگ جاؤ'ظالمو! نہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھو' نہ بلوچستان میں فوجیں اتارنے کی کوشش کرو اوربلوچستان کی علیحدگی کی تحریکیں نہ چلاؤ ۔گوادرپورٹ اورپھروسط ایشیا کے لیے رستے بنانے کی کوشش نہ کرو اور بلتستان 'گلگت'ہنزہ کے مسئلے کھڑے کرکے' کوہستان کے مسئلے کھڑے کرکے'سیاچن کی بلند چوٹیوں پر اڈے بنانے کے خواب دیکھنا چھوڑدو۔ پاکستان چین کے رستے منقطع کرنے کے لیے تم جوانڈیا کے ساتھ مل کر پلاننگیں کررہے ہو' یہ منصوبے چھوڑ دو'جاؤبھاگ جاؤ... ان شاء اللہ تمہیں دعوت دیں گے' تمہاری بڑی مشنریاں ہمارے ملکوں میں آئیں۔NGO's کے ذریعے تم نے اپناسب کچھ پیش کرکے دیکھ لیا۔
اب ان شاء اللہ باری ہماری ہے۔کوئی لڑائی جھگڑے کامسئلہ نہیں کھڑاکرناچاہتے۔ہم ان شاء اللہ اپنے نبیﷺکے طریقے پردعوت دیں گے۔کافروں کو بھی ان شاء اللہ دعوت دیں گے اور دعوت دلیل سے ہے'دعوت اخلاق سے ہے۔ دعوت نرم رویوں سے ہے'دعوت گولی سے نہیں ہوتی'دعوت تلوار سے نہیں ہوتی'دعوت خون بہانے سے نہیں ہوتی' دعوت کے میدان میں صبر کرنا ہوتاہے۔ یہ باتیں ہم نے اپنے نبیﷺ سے سیکھیں ہیں' یہ دعوت ہم نے اپنے سلف سے سیکھیں ہیں۔
انبیائp کامنہج جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کرکے دعوت سمجھائی ہے'ہم نے اللہ کے قرآن سے یہ سیکھاہے تو جاؤ نئے منصوبے بند کرو۔افغانستان میں تم نے ظلم ڈھائے ۔سات لاکھ مسلمانوںکوشہید کیا۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت ورسوائی اور شکست سے دوچارکیا۔اب پاکستان پرللچائی نظریں رکھنابند کرکے واپس جاؤ۔ ان شاء اللہ دعوت کے لیے آئیں گے اور اگر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک اٹھاؤگے اوران سرداروں پر دباؤ ڈال کے بین الاقوامی سطح کے اوپر سازشیں کرکے بلوچوں کے حقوق کے مسئلے کھڑے کر کے تم نے سازش کرنے کی کوشش کی اوراپنے فوجی بلوچستان کے اندر اتارنے کی کوشش کی توپھرصاف اورکھری بات ہے۔پھر ہر ایک کو اپنے ملک کے دفاع کا حق حاصل ہے۔افغانستان میں تمہیں شکست ہوئی تھی۔ ان شاء اللہ اس خطے میں تمہارے پرزے بھی اڑیں گے اور تمہارے صوبے بکھرجائیں گے۔دنیااس مسئلے کو دیکھے گی ۔
اوبھائی! میں یہ کہتاہوں اس لیے مجھ سے بڑی پریشانی ہے' بڑی تکلیف ہے ۔کیاخیال ہے 'ان کی بدمعاشیوں سے کوئی تکلیف نہیں'ان کے ڈرون حملے ہوتے رہیں'ڈرون حملوں کے نتیجے میں خودکش حملے ہوتے رہیں کوئی تکلیف نہیں ؟ہمارا ملک تخریب کاری کی آماجگاہ بن جائے' دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے ہمیں کوئی تکلیف نہیں؟ تم بیٹھ کرجوپلاننگیں کرتے ہو' انڈیا کے ساتھ جوخفیہ معاہدے کرکے پاکستان کو انتقام کانشانہ بنانے کے لیے یہ جوکھیل کھلیتے ہو'کیاہمیں اس کی کوئی تکلیف نہیں؟ ٹھیک ہے میدان ہے'ان شاء اللہ کھلامیدان ہے' بھائیو! اللہ کے حکم پر چلیں گے'ا ن شاء اللہ میرا رب کل بھی مدد کرتاتھا'آج بھی مدد اسی کی ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ امریکہ اتناذلیل ہوا 'اتناذلیل ہوا ' رات میں وہ منظر دیکھ رہاتھا۔واشنگٹن میں امریکہ کے وزارت خارجہ کا ترجمان میرانام لے کے سب صحافیوں کے سامنے کہ جی ہم نے سر کی قیمت اس لیے مقرر کی ہے کہ ہم تواس کے خلاف ثبوت جمع کر رہے ہیں اورہم لالچ دے رہے ہیں لوگوں کوکہ کوئی لالچ میں آکر اس کے خلاف ثبوت ہمارے پاس لے آئے۔ صحافیوں نے پوچھااس کامطلب ہے تمہارے پاس ثبوت ہے ہی نہیں۔
واللہ! اس کے الفاظ سن لو۔ جیونے بھی یہ کلپ چلایا'پھر ترجمان ایسابوکھلایا ...میرے بھائی سب کچھ اللہ کی طرف سے ہوتاہے۔ آگے سے کیاجواب دیتاہے۔ کہتاہے اس میں کوئی شک نہیں حافظ سعید کے خلاف ہمارے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ جس کے ساتھ ہم اس کو اس قدر سخت سزا دیں' اپنی عدالتوں میں اس کے خلاف مقدمہ درج کرسکیں۔ ہم توچاہتے ہیں لوگ ہمیں ثبوت لالاکر دیں تولوگوں نے کہاجب تمہارے پاس ثبوت نہیں ہے توتم نے قیمت کیوں مقرر کردی اور تم نے ان پر دہشت گردی کاالزام لگاکے ساری دنیامیں یہ شور کیوں مچادیا؟
سبحان اللہ! آگے اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ الحمدللہ! بھائی یہ میدان ہے۔ مدد اللہ کی ہے۔ ہم کوئی چھپے بیٹھے نہیں ہیں۔ ہم جہادکے ساتھ دعوت کے میدان میں ہیں۔ اگر دعوت اوپن ہوتی ہے توالحمدللہ ہمارا ایک منہج ہے۔نبیﷺوالا یہ طریقہ ہے ۔ وہی رسول اللہﷺوالا'الحمدللہ اس کے اوپر اللہ کے فضل و کرم سے کھڑے ہیں۔مدد ساری آسمانوں سے اللہ کے نبیﷺ کے طریقے پرآتی ہے اور ہم اپنے اللہ کی مدد کو اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ ذلیل ہواہے۔ ان شاء اللہ اورہوگا۔ انڈیااس سے زیادہ ذلیل ہواہے اورہوگا ۔
اللہ کے فضل وکرم سے وقت قریب ہے'مسئلہ میری ذات کا نہیں ہے۔ مسئلہ اسلام کاہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس خطے سے شکست کھاکر امریکہ اوراس کے اتحادی جب واپس پلٹیں گے تو ان شاء اللہ خلیج میںرک سکیں گے نہ مشرق وسطیٰ پر رک سکیں گے'نہ یہ تیل پر قابض رہ سکیں گے'نہ معدنیات ان کے قبضے میں رہ سکیں گی اور وسط ایشیاء کے خواب بکھر چکے ہیں۔ خلیج سے ان کو نکلناپڑے گا۔ یہ سوچ رہے ہیں 'یہ دیکھ رہے ہیں'اس وقت ان کی شکست صرف امریکہ کی شکست نہیں 'پورے کفر کی شکست ہے۔سارے مغرب کی شکست ہے۔الحمدللہ!
تومیرے محترم بھائیو! ان شاء اللہ اس کانتیجہ کیا ہوگا؟ اللہ کا دین چمکے گا'اسلام کی دعوت کے حقیقی رستے کھلیں گے۔ مسلمانوں کا اتحاد اورکام کرنے کے طریقے ہر مسلمان کو ان شاء اللہ نظر آئیں گے 'نہ ان کے نظام رہیں گے'نہ ان کے ڈھانچے رہیں گے' روس گیا تو اس کاکیمونزم چلاگیا۔ امریکہ جائے گا تواس کا سرمایہ دارانہ نظام'اس کے سیاسی معاشی نظام'طورطریقے اور برطانیہ ' فرانس اورجرمنی کے نظام' معاشی 'سیاسی نظام ان شاء اللہ سب ختم ہوں گے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا دین اسلام قائم ہوگا۔ یہی ہمارا کام ہے۔اس کے اوپر اللہ کے فضل سے جماعتوں کو جمع کر رہے ہیں' لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں اور یہ منہج رسولﷺہے۔
الحمدللہ ہمارے لیے اللہ کی مددبہت زیادہ ہے۔ تومیرے محترم بھائیو! ہمیں اپنے اللہ کاشکرادا کرناچاہیے۔ سچی بات ہے کہ اپنے دین پہ قائم ہوجاؤ۔میرے عزیز بھائیو! میں اللہ کے لیے نصیحت کرتاہوں'اپنے آپ کو بھی اور آپ سب کو' اصل چیز اسلام ہے' اصل اللہ کاقرآن 'نبیﷺکی سیرت ہے۔ ساری قوت اللہ کے دین میں ہے'انسانوں میں کچھ نہیں'ہتھیاروں میں قوت نہیں۔ساری طاقت اللہ کے سچے دین میں ہے۔ اس دین کواپنا اوڑھنا بچھونا بنالو۔ آج اتنی بڑی تعداد میں جمعہ پڑھنے کے لیے آنے والو! خبریں سن کر متاثر ہونے والو! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں'آؤ اللہ کے دین پرقائم ہوجاؤ'اپنے گھروں میں اللہ کادین قائم کرلو۔عورتوںکوپردے کرواؤ'گھر سے بے حیائی کے سلسلے نکالو۔اولادوں کی تربیت اسلام پرکرو۔ تمہارے گھر میں قرآن کی آواز گونجنی چاہئے... اورتمہارے گھروں میں یہ گانے بجانے' یہ کھیل تماشے 'یہ شیطانی آوازیں نہیں ہونی چاہئیں'قرآن رحمانی آواز کا نام ہے۔ اللہ کے کلام کانام ہے۔ اپنے گھروں کے نقشے بدلو' اپنے گھروں کے کام تبدیل کرو' اپنی دکانوں کوخالص اسلامی رنگ میں لاؤ۔اپنے کاروبار اللہ کے دین کے مطابق کرو۔ یہ میری نصیحت ہے اور اس مال سے اپنے لیے رکھو'باقی یہ مال اللہ کے لیے پیش کرو' اس کے ساتھ ان شاء اللہ تم نے سودا کرناہے اللہ کی جنت کا۔ہاں اللہ کے لیے پیش کرنا۔ان شاء اللہ
اؤبھائیو! گھروں پرکروڑوں کی رقمیں خرچ نہیں کرنی' جہاد کا دورشروع ہوچکاہے۔ کفرکے ساتھ مقابلے کادور شروع ہو چکاہے۔اب یہ زیبانہیں ہے کہ مسلمانوں کے لیے کہ دولتوں کو اپنے ذاتی مصارف میں'کروڑوں اپنے گھروں کے بنانے' کروڑوں اپنے گھروں کوچلانے اور یہ عیاشیاں کرنے میں مال خرچ نہ کرو' اس مال کو اپنے لیے ضرورت کے مطابق رکھو اورباقی اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔یہ دعوت ہے محمدرسول اللہﷺ کی یہ تربیت کی ہے' اللہ کے نبیﷺنے صحابہ کرامy کی ۔اگرچاہتے ہو میرے مسلمان بھائیو! کہ تم بھی نبیﷺکے صحابہ کرامy کے ساتھ ہوجاؤ 'تمہاراحشربھی نبیﷺکے صحابہ کرامy کے ساتھ ہو جائے۔توتم آج اس پندرہویں صدی میں نبیﷺکی جماعت کے افراد بن کر زندہ رہو اور قیامت کے دن نبیﷺکے ساتھ مل کر جنت میں جاؤ۔
اگریہ چاہتے ہوتواللہ کے لیے وہی طریقہ اختیار کرلو' انداز صحابہy والے اختیارکرلو' اپنی زندگیوں کوخالص اللہ کے دین کے لیے اختیارکرلو' یہ رسم ور واجوں سے بچ جاؤ۔لاکھوں کا خرچ کرناختم کردو' سادگی اختیار کرو'اسلامی زندگی اختیارکرو اور اپنے بچوں کوبچاؤ گندے کلچر سے ہر چیز میں اللہ کے دین کو بلند کرو' ان شاء اللہ جب ہماری راتوں'جب ہمارے گھروں میں' ہمارے خاندانوں میں'نام اونچاہوجائے گا 'ہمارے بچے اسلام کارنگ پیش کریں گے۔ہمارے گھر اسلام کی سچی تصویر پیش کریں گے' پھر اللہ توفیق دے گا'اللہ پوری دنیامیں اسلام کوغالب کروا دے گا۔ اللہ کردار کوپسندکرتاہے'اللہ عمل کوپسندکرتاہے۔ اللہ زبانی دعوؤں کوپسند نہیںکرتا۔یہ جھوٹے نعروںکواللہ پسندنہیں کرتا۔
چونکہ وہ رب ہے'وہ کسی دھوکے میں نہیں آتا' توآؤ میری یہ نصیحت جان لوبھائیو! اسلام اصل ہے'اللہ کادین ہے۔ ہم نے ان شاء اللہ اپنی جانوں' مالوں کو اللہ کے لیے پیش کرناہے۔ ہم نے زندہ رہناہے' اللہ کے لیے مرناہے تواللہ کے لیے... اورپھر ان شاء اللہ کیا قیمتیں لگاتے ہیں یہ ظالم؟
بھائیو! ہماری قیمتیں ہمارے رب کے پاس ہیں۔سب کچھ ہماراہے ہی اس کے لیے۔
اللہ نے فرمایا کہ یہ بات میں نے تورات'انجیل اور قرآن میں لوگوں کوسمجھادی۔
اورہم سے سودے کرنے والو! خوش ہوجاؤ...تم نے گھاٹے کاسودا نہیں کیا۔بڑی کامیابی اسی میں ہے...اور ماشاء اللہ ہم دیکھ رہے ہیں 'جتنی کامیابیاں ہمیں اس وقت نظرآرہی ہیں وہ حقیقی جہاد کی ہیں اور جتنے نقصانات نظر آرہے ہیں'وہ ہماری غلطیاں ہیں۔ لوگوں کی غلطیاں 'حکومتوں کی غلطیاں'وہ نقصان نظرآرہے ہیں اور جتنا صحیح کام اللہ اور اس کے رسولﷺکے طریقے کے مطابق جہاد کا دعوت کاکام کیاہے ۔الحمدللہ اس کی کامیابیاں ہمیں مل رہی ہیں۔ تواللہ تعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ اللہ زندہ رکھے اسلام پر'موت دے شہادت کی 'اپنے دین پر'اللہ ہم سب سے راضی ہوجائے 'اپنے دین کودنیامیں غالب فرمادے اورہمارا سب کچھ اپنے رستے میں قبول کرے۔ آمین